بصیرت اخبار

عصر عاشور امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا کو شہید کردیا گیا ہے اور اب شام ہونے کو ہے، یزید کی فوج خیام حسینی کی طرف بڑھتی ہے اور لوٹ مار مچانا شروع کرتی ہے اس دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسینی قافلے کی سالاری سنبھالتی ہیں. ١١محرم کی رات کو شام غریباں کہا جاتا ہے، تاریخ عالم نے ایسی شام نہیں دیکھی ہوگی جب وجہ تخلیق کائنات کے فرزند کو اسی کی امت نے ذبح کر دیا اور اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ حرم کی خواتین پر حملہ کیا اور انہیں لوٹنے آگئے، خیام حسینی کو آگ لگائی، یتیم بچوں کے گوشوارے اتارے خواتین کے سر سے چادریں تک چھین لیں.

 قیام حسینی کی ابتدا سے ہی امام حسین علیہ السلام کی ہمشیرہ گرامی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھیا کے ساتھ رہیں اور واقعہ کربلا کے دردناک مراحل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس تحریک کے دوران سب سے مشکل وقت شام غریباں کا تھا اور اسکے بعد کے حالات جب آپ نے عملی طور پر اس کاروان اسرا کی رہبری سنبھالی، شام غریباں کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا خیام حسینی میں موجود تمام اصحاب کی خواتین اور انکے بچوں کو سنبھالتی ہیں اور انکی سرپرستی کرتی ہیں.

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے بھیا اور انکے اصحاب کی شہادت کے بعد جس صبر و استقامت و تدبیر، فصاحت و بلاغت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اسکی مثال نہیں ملتی، ایک ایسی خاتون جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے عزیز ترین افراد شہید کردیئے گئے مکمل استقامت کے ساتھ اپنے بھیا کے ہدف و مقصد کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتی ہے، اس بی بی نے غم سے نڈھال ہو کر ایک کونے میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بھیا کی مظلومیت کو دنیا پر واضح کیا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے انہیں ظریف اقدامات میں سے ایک قدم یزید سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری و ماتم کی اجازت لینا تھا. (١) یزید نے بھی اجازت دے دی اس نے سمجھا کہ اس سے کیا ہوگا بھلا؟ چند خواتین ہیں جو اپنے مرے ہوؤں پر رونا پیٹنا چاہتی ہیں کیا حرج ہے؟ لیکن یہی وہ کام تھا جو قیام و انقلاب زینبی کا باعث بنا، بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے قاتلان امام حسین علیہ السلام کو رسوا کرنا شروع کیا اور اھداف امام عالی مقام بیان کرنا شروع کئے، یہاں تک کہ لوگ قاتلان امام پر نفرین و لعن کرنے لگے، یزید نے ڈر کے مارے جب اپنی حکومت کی بنیادوں کو لرزتا ہوا دیکھا تو کہنے لگا کہ لعنت ہو ابن مرجانہ کے بیٹے پر کہ جس نے امام کو قتل کیا. (٢)

شام غریباں کے سب سے بڑے مصائب آل رسول کے خیموں میں یزیدی فوج کا آگ لگانا اور آل رسول کو لوٹنا تھا ایسے حال میں کہ جب بی بیوں کے سامنے انکے عزیزوں کے لاشے بکھرے پڑے تھے اور انکی لاشوں کو بغیر کفن و دفن کے صحرا کی ریت کے حوالے کردیا گیا تھا، لوٹنے والے بڑھ بڑھ کر آگ لگا رہے تھے، عورتوں اور بچوں کو ڈرا رہے تھے، ایک ملعون نے فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی کے گوشوارے چھینے(٣) حتی خواتین کی چادریں چھین لیں. (٤). ایک کہہ رہا تھا "أحرقوا بیوت الظالمین" ظالموں کے سر چھپانے کی جگہ کو جلادو. (٥). ایسے میں جب خیام میں آگ لگی تھی بچے جان بچانے کی غرض سے صحرا کی جانب بھاگ رہے تھے حضرت زینب سلام اللہ علیہا یزیدی افواج کی نامردی اور وحشی حرکت کو دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ کیا خیام کی آگ میں جل جائیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "علیکن بالفرار" (٦)

علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا سے منقول ہے: میں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار میری طرف بڑھ رہا ہے فورا وہاں سے بھاگی لیکن وہ سوار تھا میرا پیچھا کرکے پہنچ گیا اس کے بعد اس نے ایک ضرب لگائی اور میں زمین پر گر گئی (٧). امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ میری نظر میری پھوپھی اور بہنوں پر پڑے اور میرے آنسو نہ ٹپکے ہوں اور مجھے یاد آتی ہے ان لحظوں کی کہ جب بی بیاں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف جاتیں اور دوسری طرف سے سپاہ کوفہ کہتی کہ خیموں کو آگ لگا دو" (٨). حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایسے حالات میں یتیم بچوں، بیواؤں اور امام زین العابدین علیہ السلام کو سنبھالتی ہیں، اور دوسری جانب  گمشدہ بچوں کو تلاش کرتی ہیں، دشمن کے حملوں اور تازیانوں سے بچوں کو بچاتی ہیں لیکن خود زخمی ہوجاتی ہیں، اپنے بھیا حسین علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرماتی ہیں: "یابن امی لقد کللت عن المدافعة لھؤلاء النساء والأطفال و ھذا متنی قد اسود من الضرب" اے پیارے ماں جائے بچوں اور خواتین کا خیال رکھنے اور دشمن سے انکا دفاع کرنے سے ہلکان ہوگئی، میرے بازو و  چہرے دشمن کی ضربتوں سے کالے رنگ میں بدل گئے(٩).

خیام کی غارت کے بعد بی بی نے سب بچوں اور خواتین کو ایک خیمے میں جمع کیا اور تسلی و نوازش کرنے لگیں ایسے میں متوجہ ہوتی ہیں کہ دو بچے خیام میں موجود نہیں پریشان حالت میں بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلتی ہیں اور ان دونوں کو ایک گودال میں لیٹا ہوا دیکھتی ہیں، جب نزدیک ہو کر دیکھتی ہیں تو متوجہ ہوتی ہیں کہ دونوں بچے خیام میں آگ لگنے، اور اشکیا کے ڈر کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ہیں. (١٠) صاحب معالی السبطین نقل کرتے ہیں کہ شام غریباں کو دو بچے دھشت و تشنگی سے مجبور ہو کر خیام سے فرار کرتے ہیں اور بی بی انکو ایسی حالت میں پاتی ہیں کہ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہوا ہے اور اس دوران انکی روح پرواز کرجاتی ہے. (١١) رات ڈھل جاتی ہے دن اور رات کی تھکی ہاری زینب س نماز شب کے لیے تیاری کرتی ہیں، اندرونی و بیرونی زخموں سے چور بی بی کھڑے ہو کر نماز شب نہیں پڑھ پاتیں اور بیٹھ کر اپنے خدا سے راز و نیاز کرتی ہیں. (١٢).

١١ محرم بعد از ظہر ملعون ابن سعد اپنے یزیدی ساتھیوں کو دفنانے، اور امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کے اجساد کو صحرا میں بنا دفن کئے اہلبیت علیہم السلام کو اسیر کر کے کوفہ کی طرف بڑھتا ہے . (١٣) عمر سعد کے حکم سے اسیران کو جان بوجھ کر مقتل گاہ شہداء کربلا سے گزارا گیا، جب بی بی زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھیا کے مقتل کے قریب سے گزرتی ہیں تو بین کرتی ہیں: یا محمداہ! یا محمداہ! ھذا الحسین بالعراء مرمل بالدماء مقطع الاعضاء. یا محمداہ! و بناتک سبایا و ذریتک مقتله تسقی علیہا الصبا، یا محمداہ! یا محمداہ!
یہ وہی حسین ہے جو آسمان کے نیچے پڑا ہے خاک و خون میں غلطان ہے جس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنایا گیا، تیرے بیٹوں کو مار دیا گیا، یہ سن کر عمر سعد کا لشکر بھی رونے لگا، اور بی بیاں ماتم کرنے لگیں. (١٤)

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب مقتل گاہ سے قافلہ گزرا اور میں نے اپنے بھائیوں، اور بابا کا لاشہ جو بے سر و پا ٹکڑوؤں میں بٹا، گھوڑوں تلے مسلا ہوا بے گور و کفن دیکھا تو میری حالت غیر ہوگئی اور نزدیک تھا کہ میری جان چلی جاۓ، اس دوران پھپھی زینب سلام اللہ علیہا متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
«ما لی اراکَ تَجودُ بِنَفْسِکَ یا بَقیَّةَ جَدّی وَ اَبی وَ اِخْوَتی؟ فَقُلتُ: وکَیْفَ لااجْذَعُ و اَهْلَعُ وَ قَدْ اری سَیِّدی وَ اخْوَتی وعُمومَتی و وَلَد عَمّی وَ اَهْلی مُضَرَّجینَ بِدِمائِهِمْ مُرمَّلینَ بالعَراءِ مُسَلَّبینَ لایُکْفَنُونَ وَلا یُوارُونَ، وَلایَعْرجُ عَلَیْهِمْ اَحَدٌ. فرمایا کہ اے میرے جد و بابا اور بھیا کی نشانی! کیوں اپنی جان لینا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی جان دینا چاہتے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ کیسے نہ اپنی جان دوں جبکہ اپنے مولا، اپنے بھائی، چچا اور چچازاد اور سارے گھر والوں کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں. اس بیابان میں خاک و خون میں لت پت ہیں انکے بدنوں پر کفن بھی موجود نہیں اور کوئی انکو کفن پہنانے والا بھی نہیں اور دفن کرنے والا بھی نہیں. (١٥)


حوالہ جات:
١. بحرانی، عبداللہ، العوالم الامام الحسین، ص٤٢٢.
٢. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ج٢، ص٦٣.
٣. شمس الدین ذھبی، محمد بن احمد، سیر اعلام البلاء، ج٤، ص٣٦١.
٤. شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص٢٢٩.
٥. انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء، ج١٠، ص٢٩٣.
٦. قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری من المھد الی اللحد، ص٢٤٨.
٧. علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج٤٥، ص٦٠.
٨. المجمع العالمی لأهل البیت إعلام الھدایة الإمام الحسین سید الشهداء، ص٢٠٤.
٩. بیضون، لبیب، موسوعة کربلاء، ج٢، ص٢٤٩.
١٠. قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری من المھد الی اللحد، ص٢٥٢. 
١١. مازندرانی حائری، محمد مھدی، معالی السبطین فی احوال الحسن و الحسین، ص١٥٢.
١٢. محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعه، ج٣، ص٦١.
١٣. سید ابن طاووس، علی بن موسی، اللھوف، ص٨٤.
١٤. ابو مخنف کوفی، لوط بن یحیی، وقعة الطف، ص٢٥٩.
١٥. قمی، شیخ عباس، نفس المھموم، ص٣٥٢.

تحریر: عون نقوی

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/08/20
عون نقوی

کربلا

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی