بصیرت اخبار

۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «کربلا» ثبت شده است

گابریل انکری فرانسیسی محقق اپنی کتاب "علی و حسین قہرمان اسلام" میں لکھتے ہیں کہ کربلا کے واقعے میں امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی و شجاعت کے بعد انکے طرفداروں میں ڈر ختم ہوگیا، اس واقعے کے بعد بجائے ڈر و خوف پیدا ہونے کے انکے طرفدار پہلے سے زیادہ شجاع تر ہوگئے۔ (١)

ایروینگ امریکی مورخ کہتا ہے: عراق کی سرزمین کربلا میں تپتے سورج کے نیچے اس خشک و ویران صحرا میں حسین کی روح فنا ناپذیر ہے، اے میرے ہیرو، اے شجاعت کے نمونے میرے حسین۔ (٢)

کارل بروکلمان جرمنی کے مشہور و معروف محقق، تجزیہ نگار اور پروفیسر لکھتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس چیز کا باعث بنی کہ  شیعہ مذہب محکم ہوگیا اور بہت زیادہ پھیلنے لگا۔ (٣)

ایڈورڈ برون انگریز مورخ لکھتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد کہ جس میں رسول کے بیٹے کو قتل کیا گیا، انکو بھوکا پیاسا رکھا گیا اور انکی لاشوں کو پائمال کیا گیا، اس واقعے نے سست ترین عقائد کے لوگوں کو بھی غمگین کردیا، اور انکے طرفداروں میں ایسا غم بھر دیا کہ وہ موت کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ (٤)

ایلیا پاولوچ پطرشفسکی روسی مورخ لکھتے ہیں: حسین علیہ کو ایک نابرابر جنگ میں شہید کیا گیا، ان کے جسم پر 33 نیزوں کے زخم، اور 34 تلوار کے وار لگے، اور انکے ساتھیوں کو بھی اس جنگ میں قتل کردیا گیا۔ (٥)

بورشو تامداس تونڈول: امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے بچپن سے ہی مجھے بے قرار کیا ہوا تھا، مجھے اس تاریخی واقعے کی عظمت کا بخوبی علم ہے، امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے عالمی سطح پر بشریت کو ارتقا بخشا ہے، اس واقعہ کی یاد کو ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے۔ (٦)

آرنلڈ ٹوین بی انگریز فیلسوف و مورخ لکھتا ہے معاویہ قریش کے خاندان میں سے مقتدر ترین شخص تھا، یہاں تک کہ اسکی چالاکیوں اور ریاکاریوں کے آگے امام علی بھی مقابلہ نہ کرسکے، لذا وہ خود اور انکے بیٹے مظلومانہ طور پر شہید ہو گئے۔ (٧)

جیمز فریڈرک: امام حسین اور انکے ساتھیوں کی شہادت نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ کچھ اصول تغییر ناپذیر ہیں مثلا عدالت، رحمدلی، اور محبت۔ جو کوئی بھی ان انسانی ابدی صفات کے خلاف جنگ کرے گا اسکے خلاف قیام کرنا ہوگا، یہ اصول ہمیشہ دنیا میں باقی و پائیدار رہیں گے۔ (٨)

رینو جوزف فرانسیسی مستشرق اور کتاب اسلام و مسلمین کے مصنف لکھتے ہیں کہ شیعہ نے اپنا مکتب تلوار سے نہیں پھیلایا، مکتب تشیع نے تبلیغ دعوت اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کے مراسم سے پوری دنیا می اپنا پیغام پہنچایا اور اب نا صرف ایک تہائی مسلمان بلکہ بقیہ مذاہب مثلا ہندو و مجوسی بھی عزاء حسین میں شریک ہوتے ہیں۔ (٩)

چارلز ڈیکنس: اگر واقعی امام حسین دنیائی مقام و منصب کے حصول کے لیے نکلے تھے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ اپنے بچوں اور عورتوں کو ساتھ کیوں لے گئے، عقل مانتی ہے کہ انہوں نے فقط اسلام کی خاطر یہ فداکاری انجام دی۔ (١٠

مورس ڈوکبری فرانسیسی دانشمند کہتا ہے شیعوں نے یہ سب امام حسین سے سیکھا ہے کہ کبھی بھی کسی استعماری و استثماری پست حکومت کو قبول نہیں کرنا، انکے پیشوا و امام کا یہ شعار تھا کہ ظلم کے آگے تن دے دینا ہے سر نہیں جھکانا۔ (١١)

جورج زیدان لبنان کے مسیحی مصنف لکھتے ہیں رحلت رسول اسلام کے بعد لوگوں میں حب جاہ و مال پیدا ہوگیا، اخلاقی اقدار و افکار اور آل علی کے نظریات لوگوں میں بے اثر ہو کر رہ گئے۔ اسی وجہ سے کوفہ کے لوگوں نے امام حسین کی بیعت کرکے بھی اسے توڑ دیا اور مال و زر کی خاطر انکو شہید کردیا۔ (١٢)

مان ٹومس جرمنی کے معروف دانشور کہتے ہیں کہ اگر عیسی مسیح اور امام حسین کی فداکاری کا مقائسہ کیا جائے تو یقیناً حسین کی فداکاری پر مغز تر اور زیادہ اہمیت کی حامل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ جس دن مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا کم از کم وہ اس فکر میں نہیں تھے کہ انکے بعد انکے بال بچوں اور ناموس کا کیا ہوگا لیکن امام حسین کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے جن میں سے کچھ واقعی بہت کم عمر تھے جنکو باپ کی ضرورت تھی۔ (١٣)

کورٹ فریشکر جرمن مورخ کہتے ہیں کہ امام حسین نے نا صرف اپنی جان قربان کی بلکہ اپنے بچے بھی فدا کردیئے۔ اس فداکاری کو نہ تو آپ ضد بازی و ہٹ دھرمی کہہ سکتے ہیں اور نہ اقتدار کا ہوس۔ امام عقل کے پیروکار تھے اور انہوں نے اپنے ارادے سے یہ فداکاری انجام دی تاکہ یزید بن معاویہ کی خواہش اور اسکے عقیدے کے مطابق زندگی نہ گزارنی پڑے۔ حسین خود کو فدا کرنے کے آمادہ تھے اس لیے آخر تک گھوڑے کو دوڑاتے رہے۔ (١٤)

تھامس کارلایل انگریز دانشور کہتے ہیں امام حسین اور انکے ساتھیوں کی شہادت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ انکا خدا پر مکمل ایمان تھا۔ انہوں نے واضح کرکے رکھ دیا کہ جب بات حق و باطل کی اجاۓ تو افرادکا کم ہونا اہم نہیں، حسین کی اس اقلیت کے ساتھ اس اکثریت پر جیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ (١٥)

مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ میں نے امام حسین اس شہید بزرگوار کی زندگی کا بخوبی مطالعہ کیا اور کربلا کے واقعے کو بھی پڑھا ہے، اس سے مجھ پر واضح ہوا کہ اگر کسی ملک کو فتح حاصل کرنی ہو تو وہ امام حسین کو اپنا سرمشق قرار دیں۔ (١٦)

میسو گبن: کربلا کے اندر جو فاجعہ پیش آیا اور امام حسین پر جو مصیبت نازل ہوئی صدیوں بعد بھی اگر کوئی سخت ترین شخص اس واقعے کو پڑھے تو اسکا دل منقلب ہوجاتا ہے۔ (١٧)

مادام، دائرة المعارف قرن 19 کے لکھاری لکھتے ہیں کہ امام حسین کی مظلومیت کی سب سے بڑی دلیل انکا اپنے شیر خوار بچے کی قربانی دینا ہے کہ اس کی مثل پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایک بچے کو پانی پلانے کے لیے لایا لیکن ادھر سے دشمن نے بچے کو قتل کردیا، اس عمل نے امام حسین کی مظلومیت کو ثابت اور بنو امیہ کے خاندان کو پورے عالم میں رسوا کردیا۔ اور اسکے نتیجے میں دین محمدی کو حیات جاوداں عطا ہوئی۔ (١٨)

تھوماس مساریک یورپین دانشور و مشہور کشیش لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پر بھی بہت سے مصائب ڈھاۓ گئے لیکن اس کے مقابلے میں جو امام حسین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے بہت کم ہیں۔ (١٩)

 

 


حوالہ جات:

١۔ علی و حسین دو قہرمان اسلام: گابریل انکری، فارسی ترجمہ فروغ شہاب، ص٢٨٢۔

٢۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، سید عبدالکریم ہاشمی نژاد، ص٤٥١۔

٣۔ تاریخ ملل و دول اسلامی: کارل بروکلمان، فارسی ترجمہ ہادی جزایری، ص١٠٨۔

٤۔ عظمت حسین بن علی (ع)، تالیف ابوعبداللہ زنجانی، ص٤٤۔

٥۔ اسلام در ایران، ایلیا پاولویچ پطروشفسکی، فارسی ترجمہ کریم کشاورز، ص٥٤۔

٦۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

٧۔ تاریخ تمدن: ارنولد توین بی، ترجمہ یعقوب آژند، ص٤٥۔

٨۔ درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، ص٤٤٩۔

٩۔ پرتویی از عظمت حسین (ع)، لطف اللہ صافی، ص٤٤٠۔

١٠۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١١۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١٢۔ تاریخ تمدن اسلام، جرجی زیدان، فارسی ترجمہ علی جواہر کلام، ص٦٥۔

١٣۔ تحریف شناسی عاشورا در پرتو امام شناسی، داود الہامی، مکتب اسلام، ص١٣٠۔

١٤۔ امام حسین (ع) و ایران، کورت فریشلر فارسی ترجمہ ذبیح اللہ منصوری، ص٤٤٤۔

١٥۔ درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١٦۔ درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١٧۔ تاریخ اسلام و عرب، امیر علی، ص٩٣۔

١٨۔ چہرہ درخشان حسین بن علی (ع) ، علی ربانی خلخالی، ص١٣٤۔

١٩۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٥١۔

 

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 August 21 ، 12:57
عون نقوی

امام حسینؑ اور ان کے اہل حرم و اصحاب پر صرف کربلا میں ہی ظلم نہیں ہوۓ بلکہ ستم کا ایک سلسلہ ان کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ شہداء کربلا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور بدن بنا دفناۓ کھلے آسمان تلے چھوڑ دیے گئے۔ خواتین اور بچوں کو اسیر کر لیا گیا اور انہیں مختلف شہروں سے لے جاتے ہوۓ پہلے کوفہ اور پھر شام لے جایا گیا۔ ۱۲ محرم تک فرزند رسولؐ اور ان کے پاک اصحاب کے اجساد دفن نہیں ہوۓ تھے اور ابھی تک کھلے آسمان تلے موجود تھے۔ یہاں تک کہ تیسرے روز بنی اسد کے قبیلے نے ابن سعد کی افواج کے جانے کے بعد شہداء کربلا کو دفن کیا۔ قبیلہ بنی اسد کے افراد جب مقتلگاہ پہنچے اور اس تلخ منظر کو دیکھا تو زار و قطار رونے لگے۔ جب انہوں نے اجساد کو دفن کرنے کا سوچا تو سب سے بڑی مشکل اجساد کی شناسائی کرنا تھی۔ کوئی بھی جسد اس حالت میں نہیں تھا کہ اس کو شناسائی کے بعد دفن کیا جا سکے۔ کسی جسد کا سر موجود تھا اور نہ کسی جسم پر لباس۔ ناگہان صحرا سے ایک شخص کو اپنی طرف آتے ہوۓ دیکھا جب نزدیک ہوا تو معلوم ہوا کہ حسین بن علیؑ ہیں۔

امام سجادؑ نے تمام اجساد کی شناسائی کی اور سب سے پہلے جسد اطہر امام حسینؑ کو دفن کیا۔ امامؑ اکیلے قبر میں داخل ہوۓ اور جسد اطہر کو آغوش میں لیا۔ آپ نے اپنی صورت مبارک کو امام کے کٹے گلے پر رکھا، اشک جاری ہوۓ اور فرمایا:

طُوبى‌ لِأَرْضٍ تَضَمَّنَتْ جَسَدَکَ الطّاهِرَ، فَإنّ الدُّنْیا بَعْدَک مُظْلِمَةٌ وَالْآخِرَةُ بِنُورِکَ مُشْرِقَةٌ، أَمَّا اللَّیْلُ فَمُسَهَّدٌ وَالْحُزْنُ فَسَرْمَدٌ، أَوْ یَخْتارَ اللَّهُ لِأَهْلِ بَیْتِکَ دارَکَ الَّتی أَنْتَ بِها مُقیمٌ وَعَلَیْکَ مِنّی السَّلامُ یَابْنَ رَسُولِ اللَّه وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ‌.

’’مبارک ہے وہ زمین جو آپ کے جسد کو جگہ دے دنیا آپ کے بعد تاریک ہو گئی۔ اور آخرت آپ کے نور سے روشن ہو گئی۔ راتوں کو ہم کو آپ کی جدائی میں نیند نہیں آتی گویا یہ غم ختم ہونے والا نہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی آپ کے اہلبیتؑ کو آپ سے ملحق کر دے اور آپ کے ساتھ جگہ دے۔ دورد و سلام ہو آپ پر اے فرزند رسول اللہ اور اللہ تعالی کی برکات آپ پر نازل ہوں‘‘۔

اس کے بعد قبر مبارک سے خارج ہوۓ اور قبر مبارک پر اپنی انگشت مبارک سے یہ عبارت لکھی: 

هذا قَبْرُ الحُسَیْنِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبی‌طالِب الَّذِی قَتَلُوهُ عَطْشاناً غَریباً. 

 ’’یہ قبر حسین ابن علیؑ ہے کہ جسے پیاسا و غربت میں قتل کیا گیا۔ اس کے بعد جسد مبارک علی اکبرؑ امامؑ کے ساتھ دفن کیا گیا اور بقیہ اصحاب و بنی ہاشم کے شہداء کو ایک دستہ جمعی قبر میں دفن کیا گیا‘‘۔ (۱)

 اس کے بعد امامؑ نہر علقمہ کی طرف تشریف لے گئے جہاں پر جسد اطہر حضرت عباس قمر بنی ہاشمؑ موجود تھا۔ امامؑ ان کے پیکر اطہر کو وہیں پر دفن کیا۔ دفن کرتے ہوۓ امامؑ گریہ کر رہے تھے اور یہ کلمات ادا کر رہے تھے: 

عَلَى الدُّنْیا بَعْدَکَ الْعَفا یا قَمَرَ بَنی هاشِمٍ وَعَلَیْکَ مِنّی السَّلامُ مِنْ شَهیدٍ مُحْتَسَبٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکاتُهُ‌.

’’اے قمر بنی ہاشم! آپ کے بعد اس دنیا پر خاک ہو، آپ پر درود بھیجتا ہوں اور رحمت و برکات خدا آپ کے لیے طلب کرتا ہوں‘‘۔ (۲)

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام سجادؑ تو لشکر ابن سعد کی اسارت میں تھے تو وہ امامؑ اور ان کے اصحاب کے اجساد کو دفن کرنے کے لیے کیسے آ سکتے ہیں؟ اس بارے میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں۔ شیعہ اعتقادی مبانی کے مطابق جب ایک امام شہید ہوتا ہے تو اس کے کفن اور دفن کا متولی اگلا امام ہوتا ہے۔ امام رضاؑ سے ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ جس میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ امامؑ نے علی بن حمزہ کے سوال کے جواب میں فرمایا:  إن هذا أمکن علی بن الحسین أن یأتی کربلا فیلی أمر أبیه فهو یمکن صاحب الامر أن یأتی بغداد فیلی أمر أبیه ثم ینصرف. وہی ذات جس نے علی بن حسینؑ کو قدرت دی کہ وہ اسارت کی حالت میں کربلا آئیں اور اپنے بابا کے جسد مطہر کو دفن کریں اس صاحب امر(اپنی طرف اشارہ کرتے ہوۓ) کو بھی قدرت دی تاکہ بغداد آ کر اپنے بابا کے امر کو ذمہ لیں اور پھر لوٹ جائیں۔ (۳)

سید بن طاووسؒ فرماتے ہیں کہ عمر بن سعد نے امام حسینؑ کا سر مبارک روز عاشور ہی خولی بن یزید اور حمید بن مسلم کے ہاتھوں کوفہ ابن زیاد کی طرف روانہ کر دیا۔ بقیہ سر شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث اور عمر بن حجاج کی سربراہی میں روانہ کیے۔ خود عمر سعد دوسرے دن یعنی ۱۱ محرم تک کربلا میں ہی رہا۔ پھر دوسرے دن اسیران حرم حسینی کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسیروں کا یہ قافلہ جب کوفہ کے قریب پہنچا تو تماشا دیکھنے والے افراد جمع ہو گئے۔ ان تماشائیوں میں ایک خاتون نے فریاد بلند کی اور کہا: من ای الاساری انتن؟ جواب دیا گیا: نحن اساری آل محمد. وہ خاتون یہ جواب سن کر چند لباس اور چادریں لے آئی۔ کوفی یہ منظر دیکھ کر زار زار رونے لگے۔ امام زین العابدینؑ نے ان کوفیوں کو روتے ہوۓ دیکھا تو فرمایا:

أتنوحون و تبکون من اجلنا، فمن الذی قتلنا؟.

’’کیا تم لوگ ہمارے لیے نوحہ و گریہ کر رہے ہو؟ پھر کس نے ہمیں قتل کیا‘‘؟ (۴)

 


حوالہ جات:

۱۔ المقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۳۲۰۔

۲۔ طبسی، محمد جعفر، مع الرکب الحسینی، ج۱، ص۱۴۸۔ 

۳۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۸، ص۲۷۰۔

۴۔ سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۴۵۔

 

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 23:43
عون نقوی

عصر عاشور امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا کو شہید کردیا گیا ہے اور اب شام ہونے کو ہے، یزید کی فوج خیام حسینی کی طرف بڑھتی ہے اور لوٹ مار مچانا شروع کرتی ہے اس دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسینی قافلے کی سالاری سنبھالتی ہیں. ١١محرم کی رات کو شام غریباں کہا جاتا ہے، تاریخ عالم نے ایسی شام نہیں دیکھی ہوگی جب وجہ تخلیق کائنات کے فرزند کو اسی کی امت نے ذبح کر دیا اور اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ حرم کی خواتین پر حملہ کیا اور انہیں لوٹنے آگئے، خیام حسینی کو آگ لگائی، یتیم بچوں کے گوشوارے اتارے خواتین کے سر سے چادریں تک چھین لیں.

 قیام حسینی کی ابتدا سے ہی امام حسین علیہ السلام کی ہمشیرہ گرامی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھیا کے ساتھ رہیں اور واقعہ کربلا کے دردناک مراحل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس تحریک کے دوران سب سے مشکل وقت شام غریباں کا تھا اور اسکے بعد کے حالات جب آپ نے عملی طور پر اس کاروان اسرا کی رہبری سنبھالی، شام غریباں کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا خیام حسینی میں موجود تمام اصحاب کی خواتین اور انکے بچوں کو سنبھالتی ہیں اور انکی سرپرستی کرتی ہیں.

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے بھیا اور انکے اصحاب کی شہادت کے بعد جس صبر و استقامت و تدبیر، فصاحت و بلاغت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اسکی مثال نہیں ملتی، ایک ایسی خاتون جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے عزیز ترین افراد شہید کردیئے گئے مکمل استقامت کے ساتھ اپنے بھیا کے ہدف و مقصد کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتی ہے، اس بی بی نے غم سے نڈھال ہو کر ایک کونے میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بھیا کی مظلومیت کو دنیا پر واضح کیا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے انہیں ظریف اقدامات میں سے ایک قدم یزید سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری و ماتم کی اجازت لینا تھا. (١) یزید نے بھی اجازت دے دی اس نے سمجھا کہ اس سے کیا ہوگا بھلا؟ چند خواتین ہیں جو اپنے مرے ہوؤں پر رونا پیٹنا چاہتی ہیں کیا حرج ہے؟ لیکن یہی وہ کام تھا جو قیام و انقلاب زینبی کا باعث بنا، بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے قاتلان امام حسین علیہ السلام کو رسوا کرنا شروع کیا اور اھداف امام عالی مقام بیان کرنا شروع کئے، یہاں تک کہ لوگ قاتلان امام پر نفرین و لعن کرنے لگے، یزید نے ڈر کے مارے جب اپنی حکومت کی بنیادوں کو لرزتا ہوا دیکھا تو کہنے لگا کہ لعنت ہو ابن مرجانہ کے بیٹے پر کہ جس نے امام کو قتل کیا. (٢)

شام غریباں کے سب سے بڑے مصائب آل رسول کے خیموں میں یزیدی فوج کا آگ لگانا اور آل رسول کو لوٹنا تھا ایسے حال میں کہ جب بی بیوں کے سامنے انکے عزیزوں کے لاشے بکھرے پڑے تھے اور انکی لاشوں کو بغیر کفن و دفن کے صحرا کی ریت کے حوالے کردیا گیا تھا، لوٹنے والے بڑھ بڑھ کر آگ لگا رہے تھے، عورتوں اور بچوں کو ڈرا رہے تھے، ایک ملعون نے فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی کے گوشوارے چھینے(٣) حتی خواتین کی چادریں چھین لیں. (٤). ایک کہہ رہا تھا "أحرقوا بیوت الظالمین" ظالموں کے سر چھپانے کی جگہ کو جلادو. (٥). ایسے میں جب خیام میں آگ لگی تھی بچے جان بچانے کی غرض سے صحرا کی جانب بھاگ رہے تھے حضرت زینب سلام اللہ علیہا یزیدی افواج کی نامردی اور وحشی حرکت کو دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ کیا خیام کی آگ میں جل جائیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "علیکن بالفرار" (٦)

علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا سے منقول ہے: میں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار میری طرف بڑھ رہا ہے فورا وہاں سے بھاگی لیکن وہ سوار تھا میرا پیچھا کرکے پہنچ گیا اس کے بعد اس نے ایک ضرب لگائی اور میں زمین پر گر گئی (٧). امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ میری نظر میری پھوپھی اور بہنوں پر پڑے اور میرے آنسو نہ ٹپکے ہوں اور مجھے یاد آتی ہے ان لحظوں کی کہ جب بی بیاں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف جاتیں اور دوسری طرف سے سپاہ کوفہ کہتی کہ خیموں کو آگ لگا دو" (٨). حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایسے حالات میں یتیم بچوں، بیواؤں اور امام زین العابدین علیہ السلام کو سنبھالتی ہیں، اور دوسری جانب  گمشدہ بچوں کو تلاش کرتی ہیں، دشمن کے حملوں اور تازیانوں سے بچوں کو بچاتی ہیں لیکن خود زخمی ہوجاتی ہیں، اپنے بھیا حسین علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرماتی ہیں: "یابن امی لقد کللت عن المدافعة لھؤلاء النساء والأطفال و ھذا متنی قد اسود من الضرب" اے پیارے ماں جائے بچوں اور خواتین کا خیال رکھنے اور دشمن سے انکا دفاع کرنے سے ہلکان ہوگئی، میرے بازو و  چہرے دشمن کی ضربتوں سے کالے رنگ میں بدل گئے(٩).

خیام کی غارت کے بعد بی بی نے سب بچوں اور خواتین کو ایک خیمے میں جمع کیا اور تسلی و نوازش کرنے لگیں ایسے میں متوجہ ہوتی ہیں کہ دو بچے خیام میں موجود نہیں پریشان حالت میں بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلتی ہیں اور ان دونوں کو ایک گودال میں لیٹا ہوا دیکھتی ہیں، جب نزدیک ہو کر دیکھتی ہیں تو متوجہ ہوتی ہیں کہ دونوں بچے خیام میں آگ لگنے، اور اشکیا کے ڈر کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ہیں. (١٠) صاحب معالی السبطین نقل کرتے ہیں کہ شام غریباں کو دو بچے دھشت و تشنگی سے مجبور ہو کر خیام سے فرار کرتے ہیں اور بی بی انکو ایسی حالت میں پاتی ہیں کہ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہوا ہے اور اس دوران انکی روح پرواز کرجاتی ہے. (١١) رات ڈھل جاتی ہے دن اور رات کی تھکی ہاری زینب س نماز شب کے لیے تیاری کرتی ہیں، اندرونی و بیرونی زخموں سے چور بی بی کھڑے ہو کر نماز شب نہیں پڑھ پاتیں اور بیٹھ کر اپنے خدا سے راز و نیاز کرتی ہیں. (١٢).

١١ محرم بعد از ظہر ملعون ابن سعد اپنے یزیدی ساتھیوں کو دفنانے، اور امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کے اجساد کو صحرا میں بنا دفن کئے اہلبیت علیہم السلام کو اسیر کر کے کوفہ کی طرف بڑھتا ہے . (١٣) عمر سعد کے حکم سے اسیران کو جان بوجھ کر مقتل گاہ شہداء کربلا سے گزارا گیا، جب بی بی زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھیا کے مقتل کے قریب سے گزرتی ہیں تو بین کرتی ہیں: یا محمداہ! یا محمداہ! ھذا الحسین بالعراء مرمل بالدماء مقطع الاعضاء. یا محمداہ! و بناتک سبایا و ذریتک مقتله تسقی علیہا الصبا، یا محمداہ! یا محمداہ!
یہ وہی حسین ہے جو آسمان کے نیچے پڑا ہے خاک و خون میں غلطان ہے جس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنایا گیا، تیرے بیٹوں کو مار دیا گیا، یہ سن کر عمر سعد کا لشکر بھی رونے لگا، اور بی بیاں ماتم کرنے لگیں. (١٤)

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب مقتل گاہ سے قافلہ گزرا اور میں نے اپنے بھائیوں، اور بابا کا لاشہ جو بے سر و پا ٹکڑوؤں میں بٹا، گھوڑوں تلے مسلا ہوا بے گور و کفن دیکھا تو میری حالت غیر ہوگئی اور نزدیک تھا کہ میری جان چلی جاۓ، اس دوران پھپھی زینب سلام اللہ علیہا متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
«ما لی اراکَ تَجودُ بِنَفْسِکَ یا بَقیَّةَ جَدّی وَ اَبی وَ اِخْوَتی؟ فَقُلتُ: وکَیْفَ لااجْذَعُ و اَهْلَعُ وَ قَدْ اری سَیِّدی وَ اخْوَتی وعُمومَتی و وَلَد عَمّی وَ اَهْلی مُضَرَّجینَ بِدِمائِهِمْ مُرمَّلینَ بالعَراءِ مُسَلَّبینَ لایُکْفَنُونَ وَلا یُوارُونَ، وَلایَعْرجُ عَلَیْهِمْ اَحَدٌ. فرمایا کہ اے میرے جد و بابا اور بھیا کی نشانی! کیوں اپنی جان لینا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی جان دینا چاہتے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ کیسے نہ اپنی جان دوں جبکہ اپنے مولا، اپنے بھائی، چچا اور چچازاد اور سارے گھر والوں کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں. اس بیابان میں خاک و خون میں لت پت ہیں انکے بدنوں پر کفن بھی موجود نہیں اور کوئی انکو کفن پہنانے والا بھی نہیں اور دفن کرنے والا بھی نہیں. (١٥)


حوالہ جات:
١. بحرانی، عبداللہ، العوالم الامام الحسین، ص٤٢٢.
٢. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ج٢، ص٦٣.
٣. شمس الدین ذھبی، محمد بن احمد، سیر اعلام البلاء، ج٤، ص٣٦١.
٤. شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص٢٢٩.
٥. انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء، ج١٠، ص٢٩٣.
٦. قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری من المھد الی اللحد، ص٢٤٨.
٧. علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج٤٥، ص٦٠.
٨. المجمع العالمی لأهل البیت إعلام الھدایة الإمام الحسین سید الشهداء، ص٢٠٤.
٩. بیضون، لبیب، موسوعة کربلاء، ج٢، ص٢٤٩.
١٠. قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری من المھد الی اللحد، ص٢٥٢. 
١١. مازندرانی حائری، محمد مھدی، معالی السبطین فی احوال الحسن و الحسین، ص١٥٢.
١٢. محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعه، ج٣، ص٦١.
١٣. سید ابن طاووس، علی بن موسی، اللھوف، ص٨٤.
١٤. ابو مخنف کوفی، لوط بن یحیی، وقعة الطف، ص٢٥٩.
١٥. قمی، شیخ عباس، نفس المھموم، ص٣٥٢.

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:24
عون نقوی

حضرت جونؓ حضرت ابوذر غفارىؓ کے غلام تھے ۔یہ حبشى تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد وہ ہمیشہ اہل بیتؑ سے وابستہ رہے۔ عاشور کے روز امامؑ کى خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کى :مولا! مجھے بھى لڑنے کى اجازت مرحمت فرمائیں۔ امام نے فرمایا :نہیں! اس وقت تمہارے لئے مناسب ہے کہ تم واپس چلے جاؤ اور اس واقعے کے بعد اس دنیا کى نعمتوں سے لطف اندوز ہو، اب تک ہمارے خاندان کى جو خدمت کى وہ کافى ہے۔ ہم تم سے راضى ہیں۔ جون نے اپنى درخواست کو پھر دہرایا۔ امام حسین ؑ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ جونؑ نے امام عالى مقام کے پاؤں پکڑ لئے اور انہیں چومنے لگے اور بولے: مولاؑ ! مجھے محروم نہ فرمائیں۔ پھر انہوں نے ایک ایسا جملہ کہاجسے سن کر امامؑ نے انہیں روکنا مناسب نہ سمجھا۔ 

جون ؑ نے عرض کى:

مولاؑ! میں سمجھ گیا کہ آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دے رہے!! کہاں میں اور کہاں یہ خوش بختى! اس سیاہ رنگ ، گندے خون اور بدبودار جسم کے ساتھ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں امام علیہ السلام نے فرمایا : نہیں! ایسى کوئى بات نہیں، تم میدان جاسکتے ہو۔

 جونؑ رِجز پڑھتے ہوۓ میدان میں وارد ہوۓ اور لڑتے ہوۓ شہید ہوگئے ۔

امام حسین ؑ ان کے سرہانے پہنچے اور دعا فرمائى! : 
اے پروردگار ! اس کا (اگلے) جہاں میں چہرہ سفید اور اس کى بو پسندیدہ بنادے ۔اسے ابرار کے ساتھ محشور فرما، اس دنیا میں اس کے اور آل محمد ؐ کے درمیان کامل آشنائى پیدا کردے
حوالہ:

اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص:٢٤٤. 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:15
عون نقوی

گیارہ محرم ۶۱ہجری تقریبا ظہر تک یزیدی لشکر پلید کوفیوں کے اجساد دفن کرنے میں مصروف رہا۔ ایسے میں فرزند رسولﷺ و جگر گوشہ فاطمہؑ اور ان کے پاک اصحاب کے لاشے زیر آسمان موجود تھے اور ان کو کسی نے دفن نہ کیا۔ ابن سعد نے حکم دیا کہ شہداء کربلا کے سر ان کے بدنوں سے جدا کیے جائیں تاکہ کوفہ میں ابن زیاد سے انعام اور تقرب مل سکے۔ یہ پاک و پاکیزہ سر مختلف قبیلوں میں اس ترتیب کے ساتھ تقسیم ہوۓ:

۱۔ قیس بن اشعث کی سربراہی میں کندہ قبیلہ ۱۳ سر۔

۲۔ شمر بن ذی الجوشن کی سربراہی میں قبیلہ ہوازن ۱۲سر۔

۳۔ قبیلہ تمیم ۱۷سر۔

۴۔ قبیلہ بنی اسد ۹سر۔

۵۔ قبیلہ مذحج ۷سر۔
۶۔ بقیہ قبائل ۱۳سر۔ (۱)

عمر سعد اپنے سپاہیوں کے اجساد کو دفن کرنے کے بعد اسراء کو ساتھ ملا کر ۱۱ محرم کو کربلا سے کوفہ کی طرف نکل جاتا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ اسیروں میں ۱۲ بچے و جوان تھے۔ (۲)

 جبکہ اسیر خواتین میں ان بی بیوں کے نام شامل ہیں:
زینب کبری سلام اللہ علیہا، ام کلثوم سلام اللہ علیہا، سکینہ بنت حسینؑ۔ (۳)  

بی بی رباب ہمسر امام حسینؑ (۴)

 بی بی رملہ حضرت قاسمؑ کی مادر گرامی و امام حسن مجتبیؑ کی زوجہ۔ (۵) اس کے علاوہ بعض دیگر شہداۓ کربلا کی اسیر خواتین بھی موجود تھیں۔

 یہ وہ عترت رسول اللہ ﷺ کے بچے ہوۓ افراد تھے جنہیں ابن سعد اور اس کے سپاہی تمام جسارت اور بے حرمتی سے کوفہ کی طرف لے گئے۔ ۱۱ محرم کے سخت و دشوار ترین لحظات میں سے بلکہ تاریخ کربلا کا سنگین ترین وقت وہ ہے جب اسیروں کا یہ قافلہ اپنے عزیزوں کے ٹکڑوں میں بٹے ہوۓ اجساد سے وداع کرتا ہے۔ دشمن کی فوج نے عمدا اس قافلے کو اس جگہ سے گزارا جہاں پر ان کے عزیز ترین افراد بے گور و کفن آسمان کے نیچے اپنی حقانیت و در عین حال مظلومیت و عزت کا علم بنے ہوۓ تھے۔ البتہ بعض تواریخ میں آیا ہے کہ خود اسیران اہلیبتؑ کی جانب سے یہ تقاضا کیا گیا کہ ان کو قتلگاہ میں جانے کی اجازت دی جاۓ تاکہ اپںے عزیزوں سے آخری وداع کر سکیں۔ (۶)  

اس منظر کا مشاہدہ کرنا اپنے عزیزوں کے لاشے جو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیے گئے تھے کہ جن کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی یقینا بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن علیؑ کی بہادر بیٹی نے صبر و استقامت و صلابت حیدری سے اس سنگین لمحات کو تحمل کیا۔ یہ مقدس بی بیاں جب مقتلگاہ کے قریب ہوئیں تو نالہ و شیون کی صدائیں بلند ہوئیں۔ بی بی زینبؑ نے اس وقت اپنے بھیا کے لاشے پر آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا: اللہم تقبل ہذا القربان۔  خدایا اس قربانی کو قبول فرما۔ (۷)  

راوی کہتا ہے کہ میں سب کچھ بھول سکتا ہوں لیکن بی بی کے وہ کلمات کبھی نہیں بھول پاؤنگا خدا کی قسم اس وقت بی بی کی بے قراری و فریاد سے ہر دشمن اور دوست رو پڑا۔ بی بی نے شکستہ دل سے فریاد بلند کی: وا محمداہ، صلی علیک ملیک السماء، ہذا حسین بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الاعضاء، وا ثکلاہ، و بناتک سبایا، و ذریتک مقتلۃ، تسفی علیہا ریح الصبا، ہذا حسین بالعراء، محزور الراس من القفاء مسلوب العمامۃ والرداء۔ یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ! آسمان کے فرشتوں کا آپ پر درود ہو! یہ تیرا حسینؑ ہے جو خون میں غلتان ہے اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنا لیا گیا اور تیرے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا اور ان کے اجساد باد صبا چل رہی ہے۔ یہ تیرا حسینؑ ہے جو خاک پر پڑا ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور جن کے عمامے اور ردا کو لوٹ لیا گیا۔ (۸)
 

 


 


حوالہ جات:

۱۔ سید ابن طاؤوس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۹۰۔

۲۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج۱، ص۷۹۔

۳۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج۱، ص۷۹۔

۴۔ ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۸۸۔

۵۔ سماوی، شیخ محمد، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۲۲۴۔

۶۔ مکارم شیرازی، ناصر، عاشورا ریشہ ہا، انگیزہ ہا، رویدادہا، پیامدہا، ج۱، ص۵۴۶۔

۷۔ مقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۳۰۷۔

۸۔ سید ابن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۸۱۔ 

 

تحریر: عون نقوی

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 01:45
عون نقوی