مَرَّ عیسَى بنُ مریمَ علیه السلام على قَریَةٍ قد ماتَ أهلُها . . .فَقالَ : یا أهلَ هَذهِ القَریَةِ !فَأجابَهُ مِنهُم مُجیبٌ : لَبَّیکَ یا رُوحَ اللّه ِ و کَلِمَتَهُ ، فَقالَ : وَیحَکُم! ما کانَت أعمالُکُم ؟ قالَ : عِبادَةُ الطاغوتِ و حُبَُّ الدنیا ··· قالَ : کیفَ کانَت عِبادَتُکُم لِلطاغوتِ ؟ قالَ : الطاعةُ لأِهلِ المَعاصِی.
ترجمہ:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
عیسی بن مریم علیہ السلام ایک آبادی سے گزرے کہ جہاں سب لوگ مرے ہوۓ تھے ، آپ نے فرمایا! اے اس آبادی والو !! یہ سن کر ان میں سے ایک نے جواب دیا:
لبیک اے روح خدا !! اے کلمہ خدا !!
آپ ع نے فرمایا: تم لوگوں پر واۓ ہو تم لوگوں کے کیا اعمال تھے تو اس نے عرض کی: ہم لوگ طاغوت کی بندگی اور دنیا کی دوستی اختیار کرتے تھے۔
آپ ع نے پھر پوچھا کہ طاغوت کی بندگی کیسے کرتے تھے ؟؟
اس نے جواب دیا: ہم لوگ گنھکار لوگوں کی فرمانبرداری کرتے تھے۔
حوالہ:
الکافی، جلد ٢، ص٣١٩، باب حب الدنیا و الحرص، حدیث: ١١۔
امام حسینؑ اور ان کے اہل حرم و اصحاب پر صرف کربلا میں ہی ظلم نہیں ہوۓ بلکہ ستم کا ایک سلسلہ ان کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ شہداء کربلا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور بدن بنا دفناۓ کھلے آسمان تلے چھوڑ دیے گئے۔ خواتین اور بچوں کو اسیر کر لیا گیا اور انہیں مختلف شہروں سے لے جاتے ہوۓ پہلے کوفہ اور پھر شام لے جایا گیا۔ ۱۲ محرم تک فرزند رسولؐ اور ان کے پاک اصحاب کے اجساد دفن نہیں ہوۓ تھے اور ابھی تک کھلے آسمان تلے موجود تھے۔ یہاں تک کہ تیسرے روز بنی اسد کے قبیلے نے ابن سعد کی افواج کے جانے کے بعد شہداء کربلا کو دفن کیا۔ قبیلہ بنی اسد کے افراد جب مقتلگاہ پہنچے اور اس تلخ منظر کو دیکھا تو زار و قطار رونے لگے۔ جب انہوں نے اجساد کو دفن کرنے کا سوچا تو سب سے بڑی مشکل اجساد کی شناسائی کرنا تھی۔ کوئی بھی جسد اس حالت میں نہیں تھا کہ اس کو شناسائی کے بعد دفن کیا جا سکے۔ کسی جسد کا سر موجود تھا اور نہ کسی جسم پر لباس۔ ناگہان صحرا سے ایک شخص کو اپنی طرف آتے ہوۓ دیکھا جب نزدیک ہوا تو معلوم ہوا کہ حسین بن علیؑ ہیں۔
امام سجادؑ نے تمام اجساد کی شناسائی کی اور سب سے پہلے جسد اطہر امام حسینؑ کو دفن کیا۔ امامؑ اکیلے قبر میں داخل ہوۓ اور جسد اطہر کو آغوش میں لیا۔ آپ نے اپنی صورت مبارک کو امام کے کٹے گلے پر رکھا، اشک جاری ہوۓ اور فرمایا:
طُوبى لِأَرْضٍ تَضَمَّنَتْ جَسَدَکَ الطّاهِرَ، فَإنّ الدُّنْیا بَعْدَک مُظْلِمَةٌ وَالْآخِرَةُ بِنُورِکَ مُشْرِقَةٌ، أَمَّا اللَّیْلُ فَمُسَهَّدٌ وَالْحُزْنُ فَسَرْمَدٌ، أَوْ یَخْتارَ اللَّهُ لِأَهْلِ بَیْتِکَ دارَکَ الَّتی أَنْتَ بِها مُقیمٌ وَعَلَیْکَ مِنّی السَّلامُ یَابْنَ رَسُولِ اللَّه وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ.
’’مبارک ہے وہ زمین جو آپ کے جسد کو جگہ دے دنیا آپ کے بعد تاریک ہو گئی۔ اور آخرت آپ کے نور سے روشن ہو گئی۔ راتوں کو ہم کو آپ کی جدائی میں نیند نہیں آتی گویا یہ غم ختم ہونے والا نہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی آپ کے اہلبیتؑ کو آپ سے ملحق کر دے اور آپ کے ساتھ جگہ دے۔ دورد و سلام ہو آپ پر اے فرزند رسول اللہ اور اللہ تعالی کی برکات آپ پر نازل ہوں‘‘۔
اس کے بعد قبر مبارک سے خارج ہوۓ اور قبر مبارک پر اپنی انگشت مبارک سے یہ عبارت لکھی:
هذا قَبْرُ الحُسَیْنِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبیطالِب الَّذِی قَتَلُوهُ عَطْشاناً غَریباً.
’’یہ قبر حسین ابن علیؑ ہے کہ جسے پیاسا و غربت میں قتل کیا گیا۔ اس کے بعد جسد مبارک علی اکبرؑ امامؑ کے ساتھ دفن کیا گیا اور بقیہ اصحاب و بنی ہاشم کے شہداء کو ایک دستہ جمعی قبر میں دفن کیا گیا‘‘۔ (۱)
اس کے بعد امامؑ نہر علقمہ کی طرف تشریف لے گئے جہاں پر جسد اطہر حضرت عباس قمر بنی ہاشمؑ موجود تھا۔ امامؑ ان کے پیکر اطہر کو وہیں پر دفن کیا۔ دفن کرتے ہوۓ امامؑ گریہ کر رہے تھے اور یہ کلمات ادا کر رہے تھے:
عَلَى الدُّنْیا بَعْدَکَ الْعَفا یا قَمَرَ بَنی هاشِمٍ وَعَلَیْکَ مِنّی السَّلامُ مِنْ شَهیدٍ مُحْتَسَبٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکاتُهُ.
’’اے قمر بنی ہاشم! آپ کے بعد اس دنیا پر خاک ہو، آپ پر درود بھیجتا ہوں اور رحمت و برکات خدا آپ کے لیے طلب کرتا ہوں‘‘۔ (۲)
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام سجادؑ تو لشکر ابن سعد کی اسارت میں تھے تو وہ امامؑ اور ان کے اصحاب کے اجساد کو دفن کرنے کے لیے کیسے آ سکتے ہیں؟ اس بارے میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں۔ شیعہ اعتقادی مبانی کے مطابق جب ایک امام شہید ہوتا ہے تو اس کے کفن اور دفن کا متولی اگلا امام ہوتا ہے۔ امام رضاؑ سے ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ جس میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ امامؑ نے علی بن حمزہ کے سوال کے جواب میں فرمایا: إن هذا أمکن علی بن الحسین أن یأتی کربلا فیلی أمر أبیه فهو یمکن صاحب الامر أن یأتی بغداد فیلی أمر أبیه ثم ینصرف. وہی ذات جس نے علی بن حسینؑ کو قدرت دی کہ وہ اسارت کی حالت میں کربلا آئیں اور اپنے بابا کے جسد مطہر کو دفن کریں اس صاحب امر(اپنی طرف اشارہ کرتے ہوۓ) کو بھی قدرت دی تاکہ بغداد آ کر اپنے بابا کے امر کو ذمہ لیں اور پھر لوٹ جائیں۔ (۳)
سید بن طاووسؒ فرماتے ہیں کہ عمر بن سعد نے امام حسینؑ کا سر مبارک روز عاشور ہی خولی بن یزید اور حمید بن مسلم کے ہاتھوں کوفہ ابن زیاد کی طرف روانہ کر دیا۔ بقیہ سر شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث اور عمر بن حجاج کی سربراہی میں روانہ کیے۔ خود عمر سعد دوسرے دن یعنی ۱۱ محرم تک کربلا میں ہی رہا۔ پھر دوسرے دن اسیران حرم حسینی کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسیروں کا یہ قافلہ جب کوفہ کے قریب پہنچا تو تماشا دیکھنے والے افراد جمع ہو گئے۔ ان تماشائیوں میں ایک خاتون نے فریاد بلند کی اور کہا: من ای الاساری انتن؟ جواب دیا گیا: نحن اساری آل محمد. وہ خاتون یہ جواب سن کر چند لباس اور چادریں لے آئی۔ کوفی یہ منظر دیکھ کر زار زار رونے لگے۔ امام زین العابدینؑ نے ان کوفیوں کو روتے ہوۓ دیکھا تو فرمایا:
أتنوحون و تبکون من اجلنا، فمن الذی قتلنا؟.
’’کیا تم لوگ ہمارے لیے نوحہ و گریہ کر رہے ہو؟ پھر کس نے ہمیں قتل کیا‘‘؟ (۴)
۱۔ المقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۳۲۰۔
۲۔ طبسی، محمد جعفر، مع الرکب الحسینی، ج۱، ص۱۴۸۔
۳۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۸، ص۲۷۰۔
۴۔ سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۴۵۔
تحریر: عون نقوی
سیدہ زینب کبرىٰؑ کو قیدى بنے 22 روز گزر چکے تھے۔ اتنا عرصہ مسلسل دکھ تکلیف برداشت کرنے کے بعد انہیں دربار یزید میں لایا گیا۔ یزید کا ’’کاخ خضرا‘‘ جو اس کے باپ نے شام مىں بنوایا تھا اتنا شاندار تھا کہ جو کوئى اس کى بناوٹ سجاوٹ اور شان و شوکت کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ لوگوں کو پہلے سات دالانوں میں سے گزرنا پڑتا تھا پھر وہ اس آخرى دالان میں پہنچتے تھے جس مىں یزید ایک مزین اور مرصع تخت پر بیٹھتا تھا ۔تمام امراء و روساء اور سفراء بھى سونے چاندى کى بنى ہوئى کرسیوں پر وہاں بیٹھتے تھے۔اس صورتحال میں قیدیوں کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر دکھ کى مارى شہزادى زینبؑ کى روح میں ایسا ولولہ پیدا ہوا جس نے حاضرین کے دلوں میں بھى ولولہ پیدا کردیا۔ یزید جو اپنى فصاحت و بلاغت کے لئے مشہور تھا گُنگ ہو کر رہ گیا۔ یزید اشعار گنگنا رہا تھا اور جو ظاہرى کامیابى اسے نصیب ہوئى تھى اس پر فخر کررہا تھا ۔ جناب زینبؑ نے اسے مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا: ’’اے یزید! تو سمجھتا ہے کہ آج تو نے ہمیں قیدى بنالیا ہے اور زمین ہم پر تنگ کردى۔ اور ہم تیرے نوکروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ تو یہ پروردگار کى طرف سے تیرے لئے ایک نعمت و تحفہ ہے؟ خدا کى قسم! تو اس وقت میرى نظروں میں بے حد پست، حقیر اور گھٹیا ہے۔ اور میرى نظروں میں تیرى کوئى حیثیت نہیں‘‘ سیدہ زینبؑ نے دربار یزید میں ایسى تقریر کى کہ یزید کے ہوش و حواس اڑ گئے اور اس ظالم اور ملعون کا پورا وجود غصے کى آگ میں جلنے لگا۔
حوالہ:
اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص: ۱۷۵۔
تاریخ میں ظالموں کے خلاف بہت سے لوگوں نے قیام کیا لیکن امام حسین علیہ السلام کا قیام اپنی خصوصیات کے ساتھ بے مثل و بے نظیر ہے، وقت کا ذلیل ترین حاکم اپنی تمام قساوت و وقاحت میں روز بروز اضافہ کررہا ہے اور اس کو روکنے ٹوکنے یا سمجھانے کی کسی میں جرات نہیں، معاشرے میں اس قدر وحشت ہے کہ وہ لوگ جو امربالمعروف و نہی از منکر کرتے تھے وہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی کا سامنا کریں. عبداللہ بن زبیر جیسے جسور ترین لوگ بھی جو حکمرانوں کے خلاف کافی گستاخ تھے اس وقت کھل کر یزید کا سامنا کرنے سے گریز کررہے ہیں، اسی طرح عبداللہ بن جعفر ہیں آپ امیرالمومنین علی علیہ السلام کے داماد و جناب زینب سلام اللہ علیہا کے شوہر بھی اس کوشش میں ہیں کہ سرکاری معاملات میں مداخلت یا مخالفت کرنے سے گریز کریں، اس قدر لوگ اور معاشرہ تحت فشار ہے.
عبداللہ بن عباس جیسے افراد معاشرے سے کنارہ گیری کررہے ہیں اور گوشہ نشین ہوگئے، یہ لوگ معمولی افراد نہیں تھے یہ بنی ہاشم کے برجستہ ترین لوگ ہیں اور اہل زبان تھے جن کا ماضی افتخارات سے بھرا ہے لیکن اس ماحول میں کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ آئیں اور حکومت یزید کے خلاف لوگوں کو تیار کریں. نہ صرف شام بلکہ مدینہ جو اصحاب سے بھرا ہوا تھا یزید کے خلاف سکوت اختیار کئے ہوئے تھا.ایسے وقت میں امام حسین علیہ السلام وقت کی سلطنت کو توڑنے کے لئے حرکت میں آتے ہیں لیکن یہ تحریک قدرت کے حصول کے لیے نہیں تھی جیسا کہ خود امام نے بھی فرمایا کہ "ما خرجت اشرا و لا بطرا و لا ظالما ولا مفسدا" اس قیام کا مقصد معروف کا زندہ کرنا اور منکرات کو ختم کرنا تھا۔
حوالہ: