بصیرت اخبار

آیت اللہ مصباح یزدى دام ظلہ العالی:

                                                                         dfgbd
اگر دین وہ ہے جس کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے ، تو دین میں معاشرتى اور سیاسى مسائل شامل ہیں ، اس میں عبادات اور شخصى اخلاقیات کے ساتھ شہرى قوانین ، جرم و سزا کے قوانین اور بین الاقوامى سبھى موجود ہیں ، اور گھریلو زندگى ، شادى بیاہ، اور اولاد کى تربیت ، کاروبارى معلومات اور تجارت وغیرہ تک کے اصول بیان کردئے گئے ہیں۔ پس کون سى چیز باقى بچتى ہے جو دین کے دائرے سے خارج ہے ؟ قرآن کریم کى آیات معاملات ، قرض دینے اور رہن رکھنے اور رہن رکھوانے کے بارے میں ہیں۔ اگر اسلام وہى دین ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے تو کس طرح کوئى کہہ سکتا ہے کہ اسلام کا لوگوں کى معاشرتى زندگى سے کوئى تعلق نہیں ؟  اگر نکاح و طلاق کے معاملے دین کہ جز نہ ہوں ، اگر تجارت ، رہن خرید و فروخت اور سود کے مسائل دین سے تعلق نہیں رکھتے ، اگر ولایت کا مسئلہ اور ولى امر کى اطاعت دین کا حصہ نہیں ہے تو پھر دین میں کیا بچتا ہے ؟ اور آپ کس دین کى باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے تو مسلسل ان چیزوں کے بارےمیں گفتگو کى ہے۔

حوالہ:

اسلام اور سیاست ، مجموعہ از تقاریر آیت اللہ مصباح یزدی دام ظلہ العالی ، صفحہ: ٢٨

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:38
عون نقوی

 

امام سجاد علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی کو دیکھتے ہو کہ وہ گناہ نہیں کرتا تو فورا اس پر اعتماد نہ کر لو شاید وہ اس گناہ کرنے کی سکت اور طاقت ہی نہ رکھتا ہو.

▪ پھر فرماتے ہیں کہ اگر تم دیکھتے ہو کہ اس کے پاس اس گناہ کو انجام دینے کی طاقت بھی تھی پھر بھی اس نے گناہ نہیں کیا تو پھر بھی فورا اس پر اعتماد مت کر لو شاید اسے یہ گناہ کرنا پسند ہی نہ ہو کوئی اور گناہ کرنا پسند کرتا ہو.

▪ پھر فرماتے ہیں کہ اگر دیکھو کوئی بھی گناہ نہیں کرتا تو پھر بھی اعتماد مت کرلینا شاید اس کا دماغ ٹھیک نہیں اور اپنے بھلے یا نقصان کا درک ہی نہیں رکھتا.

▪ آپ علیہ السلام نے اسی طرح سے اپنے کلام کو جاری رکھا اور فرمایا کہ اگر گناہ کی طاقت بھی رکھتا ہو، اسکے پسند کا بھی گناہ ہو، عقل بھی کام کرتا ہے پھر بھی اس پر اعتماد مت کر لو یہاں پر دیکھو کہ سیاستدان تو نہیں؟؟

▪ البتہ امام علیہ السلام نے اس اصطلاح (سیاستدان) کا تو استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے فرمایا کہ دیکھو مقام و منصب کا دلدادہ تو نہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ مقام و منصب کے امور زیادہ تر سیاست کے زمرے میں آتے ہیں.

▪ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے بھی گزر جاتا ہے تو اس پر اعتماد کر لو لیکن اگر اپنے سیاسی مقاصد کو پس پشت نہیں ڈالتا اور ان سب خوبیوں کو رکھتا ہے تو خدا اس پر لعنت بھیجتا ہے.

▪ ہم اس کلام امام پر دقت سے اس بات کو بخوبی جان سکتے ہیں کہ ہمیں کس شخص پر اعتماد کرنا چاہیے، ہوسکتا ہے کوئی کہے کہ میں جس سیاستدان کا پیرو ہوں وہ نمازی ہے، داڑھی رکھتا ہے، غریبوں کا ہمدرد ہے، خمس و زکات کا پابند اور ماتمی ہے لیکن آیا ہم ان سب امور کو دیکھ کر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں؟

▪  فقط یہ سب دیکھ کر ہم اس پر اعتماد نہیں کر سکتے، بلکہ ہم اسکے دین اور ان سب اعمال کو سیاست کے میزان میں تولیں گے، کیا یہ سب اعمال اپنے جاہ و منصب و مقام کے اضافے کے لئے تو نہیں کر رہا؟؟ آیا ان سب حرام امور کو اس لئے تو نہیں ترک کر رہا کہ ایک سب سے بڑا حرام أمر انجام دے.

▪ ہم اپنے اعمال اور کردار کو بھی اس معیار پر تول سکتے ہیں  اور خود کو سیاست کے میدان میں لاکر جان سکتے ہیں کہ ہمارا یہ اچھا کردار مقام و منصب کے لالچ میں تو نہیں؟؟

حوالہ:
١- احتجاج/٣٢٠/٢

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:25
عون نقوی

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے عمل و کردار سے خود کو اپنوں اور غیروں میں منوایا، نا صرف انکے اپنے فضائل و مناقب بیان کرنے سے قاصر ہیں بلکہ غیر مسلم بھی انکی شخصیت کا مطالعہ کرکے سرگردانی کا شکار ہوتے ہیں. امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ ایک لامحدود کردار کو ایک محدود سوچ رکھنے والا سوچے بھی تو اسے بھی محدود کردیتا ہے، اس تحریر میں امام علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک مختصر سے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے اور روایات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ امام علی علیہ السلام بطور شوہر کیسے تھے اور انہوں نے شوہرداری کیسے کی؟ 

▪️ بہترین شوہر:
بہت سے مرد بطور شوہر اپنی تعریف کرتے ہیں لیکن بہترین شوہر وہ ہے جسکی شوہرداری کی تعریف اسکی بیوی کرے. 
رسول اللہ ص اپنی دختر گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی دختر سے سوال کیا:
کَیفَ رَأیتَ زَوجک؟
آپ نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ 
حضرت زهرا سلام اللہ علیہا نے جواب دیا:
یا اَبَهِ خَیرُ زَوجٍ
بہترین شوہر ہیں. (١)

▪️ بطور شوہر گھر کی تمام ضروریات کو پورا کرتے:
اسلام نے مرد پر بطور شوہر بیوی کا نفقہ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خاتون کی بنیادی ضروریات مثلا اسکا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور اسکی رہائش کا مناسب بندوبست کرنا شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یعنی جس معاشرے میں وہ خاتون رہتی ہے اس معاشرے میں ایک معزز خاتون کی جو بنیادی ترین ضروریات بنتی ہیں انکو پورا کرنے شوہر پر فرض ہے. اگر مرد بطور شوہر اپنی بیوی کا نان و نفقہ پورا نہیں کرتا تو شرعی طور پر وہ مجرم شمار ہوتا ہے اور خاتون اسکی حاکم شرع سے شکایت کرنے کا حق رکھتی ہے. 
امام علی علیہ السلام بطور شوہر اپنی گھر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے سخت کوشش و مشقت کرتے تھے اور ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اس معاشرے کے لوگ نعوذ باللہ انکو حقیرانہ نظروں سے دیکھتے. اگرچہ یہ اور موضوع ہے کہ وہ محنت اور مشقت کرکے دولت اکٹھی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو غرباء و فقراء کے لیے وقف کردیا کرتے تھے اور خود وہ اور انوکھا گھرانہ زاہدانہ زندگی بسر کرتے. پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکا خود کا اختیار کیا ہوا راستہ تھا نا کہ خود نعوذبااللہ اپنی غفلت کی وجہ سے غریب تھے. آج ہمارے معاشروں میں مرد محنت خود نہیں کرتا خود بھی ذلیلانہ زندگی گزارتا ہے اور اپنے گھر والوں کی بھی ضروریات پورا نہیں کرپاتا. اسلام نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ غفلت میں پڑے رہیں اور حلال روزی کی تلاش میں محنت اور مشقت نہ کریں بلکہ حکم دیا ہے کہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرو. 
امام علی علیہ السلام ایک محنت کش اور حلال کے رزق کی تلاش کرنے میں شدید کوشش کرنے والے انسان تھے روایات میں ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت و مشقت کے بلبوتے پر ایک ہزار غلام آزاد کروایا. (٢)
اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین کا فقر اختیاری تھا انہوں نے خود فقر کو اختیار فرمایا تاکہ اس دور کے فقراء کے ساتھ عملی طور پر ھمدردی کرسکیں. تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علیہ السلام کی اس سیرت کو دیکھ کر منافقین انکو غربت کا طعنہ دیا کرتے اور کہتے کہ علی کے پاس کچھ نہیں ہے. 
جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا شیخ کلینی رح نے کتاب الکافی میں نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ امام علی علیہ السلام تک یہ خبر پہنچی کہ طلحہ و زبیر کہتے ہیں کہ علی کے پاس مال و ثروت نہیں وہ فقیر ہے. اس پر امام علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس سال کے میرے ہاتھوں سے تیار شدہ باغات کی ثروت کو اکٹھا کرو، ایک لاکھ درھم جب ایک ساتھ لائے گئے تو امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ طلحہ و زبیر کو لایا جائے. جب یہ دو حضرات آۓ تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سب میرے آباد شدہ باغات کی آمد کا سالانہ جمع شدہ مال ہے اور اس سب مال میں میرا کوئی شراکتدار نہیں ہے سب میرا ہے اور بعد میں امام علی علیہ السلام نے وہ سب فقراء میں تقسیم کردیا. (٣)

▪️ بطور شوہر اپنی زوجہ سے محبت کرنے والے:
رسول اللہ ص ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:

قَوْلُ الرَّجُلِ لِلْمَرْئَهِ انّی احِبُّک لا یذْهَبْ مِنْ قَلْبِها ابَداً. (٤)
مرد کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" عورت کے دل سے یہ بات کبھی فراموش نہیں ہوتی. 
امیرالمومنین علی علیہ السلام نا صرف عملی طور پر اپنی زوجہ کا احترام بجالاتے بلکہ لسانی طور پر بھی عاطفی و محبت آمیز کلمات سے مخاطب کیا کرتے، مثلا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو حَبِیبَتی زَهرَا پکارتے اور آگے سے بی بی جواب میں روحی لروحک الفداہ فرماتیں. 
شہید مطہری رحمة الله اپنی کتاب فلسفه أخلاق میں دیوان امام علی علیہ السلام سے ایک شعر نقل کرتے ہیں جس میں امام علی علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کنا کزوج حمامة فی ایکة
 متمتعیـن بصحة و شباب

ہم دونوں کبوتروں کی جوڑی کی طرح سے تھے جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو پاتے تھے. لیکن زمانے نے انکو جدا کردیا، شہید فرماتے ہیں بعض دفعہ امام علی علیہ السلام رات کی تنہائی میں قبر فاطمه زہرا سلام اللہ علیہا پر جا کر ان سے گلے و شکوے کرتے اور پھر خود فرماتے:

ما لی وقفت علی القبور مسلما
قـــبر الحبیب و لم یرد جوابی
 ا حبیب ما لک لا ترد جوابنا (٥)
میں کیوں اپنے محبوب کی قبر پر کھڑا اسے سلام کررہا ہوں؟ اور وہ مجھے جواب نہیں دیتیں؟ 
اے میری محبوب زوجہ کیوں آپ جواب نہیں دیتیں؟
 
▪️ بطور شوہر گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے:
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فقط زبانی کلامی اپنی زوجہ سے محبت کا اظہار کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ عملی طور پر گھر کے کاموں میں بھی بی بی کا ہاتھ بٹاتے، اگرچہ یہ وہ امر ہے جسے ہمارے معاشرے میں درست نہیں سمجھا جاتا، مرد حضرات گھر میں چاہے نکمے بھی ہوں تب بھی گھریلو کام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں لیکن سیرت امیرالمومنین علیہ السلام میں اسے بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے امام نا صرف باہر کے کام کاج کو نبٹاتے تھے بلکہ گھریلو کاموں میں بھی زوجہ کی مدد کرتے. ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن امام علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کام کاج کی تقسیم کررہے تھے، اسی دوران رسول اللہ ص تشریف لائے اور کاموں کی تقسیم میں رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھر سے باہر کے کام علی ع کے ذمہ ہونگے اور گھر کے کام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے، تقسیم کے بعد رسول اللہ ص نے اپنی دختر گرامی قدر سے پوچھا کہ کیا وہ اس تقسیم پر خوش ہیں؟ بی بی نے جواب دیا:
علیها) با خوشحالی فرمود: فَلا یَعلَمُ ما داخَلَنِی مِنَ السُّرُورِ اِلاَّ الله. (٦)
اس تقسیم سے جتنی خوش ہوں سواۓ اللہ کے اور کوئی نہیں جان سکتا.
اگرچہ گھر کے کام خود رسول اللہ ص کی تقسیم کے مطابق بی بی کے ذمہ تھے لیکن اس کے باوجود امام علی علیہ السلام کے گھریلو کام کاج میں بی بی کا ہاتھ بٹاتے.
ایک دن رسول اللہ ص اپنی دختر گرامی کے گھر تشریف لائے تو دیکھا علی ع اپنی زوجہ کے ساتھ کام کروا رہے ہیں تو رسول اللہ ص نے فرمایا:
ما مِن رَجُلٍ یُعیِنُ اِمرَئَتَهُ فی بَیتِها إلّا کانَ لَهُ بِکُلِّ شَعرَهٍ عَلَی بَدَنِهِ عِبادَهُ سَنَهٍ، صِیامُ نِهارِها وَ قِیامُ لَیلِها. (٧)
کوئی بھی مرد جب گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسکے سر کے بالوں کی تعداد کے برابر ایک سال کی عبادت کا ثواب عطا کرتا ہے اور وہ بھی ایسا سال کہ جس کے دنوں میں وہ روزہ دار تھا اور راتوں کو نماز کے لئے کھڑا رہا.
ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

کان أمیر المؤمنین (صلوات الله علیه) یحتطب ویستقی ویکنس وکانت فاطمة (سلام الله علیها) تطحن وتعجن وتخبز. (٨)
امیرالمومنین علی علیہ السلام کھانا پکانے کے لیے لکڑیوں کا بندوبست کیا کرتے، پانی لایا کرتے اور گھر کی صفائی کرتے جبکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گندم پیس کر اسکا آٹا بناتیں، آٹا گوندتیں اور روٹی تیار کرتی تھیں.
▪️ بطور شوہر غیرت کا پیکر:
اسلام میں عورت کے گھر سے باہر جانے پر کلی طور پر ممانعت وارد نہیں ہوئی بلکہ تعلیم کے حصول کے لیے یا کسی بھی اور شرعی یا عقلی ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن بغیر کسی مجبوری کے یا گھر کے مردوں کی موجودگی میں باہر جانا اور بازاروں کی زینت بننا یا نامحرم کے لیے خود کو آمادہ کرنا اسلام نے حرام قرار دیا ہے، اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام رسول اللہ ص کی تقسیم کار پر ہمیشہ عمل کرتے، جس طرح سے رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ فاطمہ س گھر کے کام کیا کریں گی اور علی ع باہر کے کام، اس لیے بی بی سلام اللہ علیہا نے اپنے شوہر نامدار کی موجودگی میں کبھی بھی کسی غیر ضروری امر کے لیے گھر سے باہر قدم نہ رکھا، البتہ جب اسی بی بی نے اپنے شوہر کو تنہا پایا تو نافقط گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی انکا دفاع کیا.
ایک دفعہ امام علی علیہ السلام کی خدمت میں شکایت لائی گئی جس میں کہا گیا کہ کوفہ کی عورتیں خود بازاروں میں آمد و رفت پہ شروع ہو گئی ہیں اور بازار آنے جانے سے ہرگز نہیں کتراتیں!
یہ جان کر امام علی علیہ السلام نے کوفہ والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

أما تَستَحیُونَ وَ لا تُغارُونَ وَ نِسائُکُم یِخرُجنَ إلی الأسواقِ. (٩)
کیا تم لوگ حیا نہیں کرتے؟ اور تم لوگوں کو غیرت نہیں آتی جب تمہاری عورتیں بازاروں میں جاتی ہیں؟

▪️ بطور شوہر سب بیویوں میں عدالت کو برقرار رکھتے:
جب تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زندہ تھیں امام علی علیہ السلام نے دوسری شادی نہ کی، بی بی کے بعد آپ نے جتنی بھی ازواج کے ساتھ زندگی بسر کی کبھی بھی کسی سے ناانصافی سے کام نہ لیا اور ہمیشہ کوشش کرتے کہ سب کے درمیان ازدواجی امور میں عدالت کو برقرار کریں.
عدالت کی برقراری کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں نقل ہوا ہے کہ امام علیہ السلام اپنی ازواج کے حقوق کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جس دن کسی ایک زوجہ کے ہاں رات بسر کرنے کی باری ہوتی تو وضو بھی اسی زوجہ کے گھر جا کر کرتے اور اس دن کسی دوسری زوجہ کے گھر سے وضو نہیں کرتے تھے. (١٠)
▪️ نتیجہ:
اگرچہ کوئی بھی شوہر اس طرح سے نہیں ہو سکتا جس طرح سے امام علی علیہ السلام تھے، لیکن ضروری ہے کہ ہر شوہر اپنی زوجہ سے تعامل کرتے ہوئے ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش ضرور کرے.

حوالہ جات:
١. دانشنامه امام علی علیه السلام، ج١، ص١٠٠٦.
٢. علامه مجلسی، بحار الأنوار، ج٤١، ص١٣٩.
٣. الشیخ کلینی، الکافی، ج٦  ص٤٤٠. 
٤. شیخ حر آملی، وسائل الشیعه، ج۱۴، ص١٢٠. 
٥. شہید مطہری، فلسفه اخلاق،    ج١ ص٢٤٩. 
٦. محمد تویسرکانی، لئالی الاخبار، ج١، ص٨٣. 
٧. مھدی النراقی، جامع السعادات، ج٢، ص١٤٠. 
٨. شیخ کلینی، الکافی، ج٥، ص٨٦. 
٩. الفیض الکاشانی، محجّه البیضاء، ج٣، ص١٠٤. 
١٠. شیخ حر آملی، وسائل الشیعه ج١٥، ص٨٥.

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 11:53
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی:


غدیر کا مسئلہ حکومت بنانے کا مسئلہ ہے کیونکہ ولایتِ حکومتی (سیاسی) میں منصب پر فائز کیا جا سکتا ہے. جبکہ معنوی مقامات قابل منصب نہیں ہیں. ولایتِ معنوی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس پر منصوب کرنے سے ایک مقام حاصل ہو جائے. البتہ امام علی ع بلند ترین معنوی مقامات پر فائز تھے اور جامع شخصیت کے مالک تھے جس کی وجہ سے نبی اکرم ص نے امام علی ع کو (اسلامی ریاست اور امت اسلامیہ پر حاکم اور) حکومت پر منصوب کیا....  حدیث غدیر میں جس ولایت کا تذکرہ موجود ہے وہ بمعنی حکومت ہے نہ کہ بمعنی مقام معنوی، مسئلہِ غدیر مسئلہ حکومت ہے، مسئلہِ غدیر مسئلہ سیاست ہے۔

حوالہ:
کتاب: نگاہی بہ نظریہ ہای انتظار، رہبر معظم، ص۱۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 11:43
عون نقوی

تعقیب نمازصبح منقول از مصباح متہجد

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَاھْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ بِإذْنِکَ

اے معبود ! محمدؐ وآل محمدؐ پر رحمت نازل فرما اور حق میں اختلاف کے مقام پر اپنے حکم سے مجھے ہدایت دے

إنَّکَ تَھْدِی مَنْ تَشَاءُ إلی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ

بے شک تو جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت فرماتا ہے

اسکے بعد کہیں:

اَللّٰھُمَّ أَحْیِنِی عَلی مَا أَحْیَیْتَ عَلَیْہِ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ

اے معبود ! مجھے اس راہ پر زندہ رکھ جس پر تو نے علیؑ ابن ابی طالبؑ کوزندہ رکھا

وَأَمِتْنِی عَلَی مَا ماتَ عَلَیْہِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طالِبٍ عَلَیْہِ اَلسَّلاَمُ

اور مجھے اسی راہ پر موت دے جس پر تونے امیر المومنین علیؑ بن ابی طالبؑ کو شہادت عطا فرمائی

پھر سو مرتبہ کہیں:

أَسْتَغْفِرُاللهَ وَأَتُوبُ إلَیْہِ

میں اللہ سے بخشش چاہتاہوں اور اسکے حضور توبہ کرتا ہوں

پھر سو مرتبہ کہیں:

أَسْأَلُ اللهَ الْعَافِیَۃَ

خدا سے صحت وعافیت مانگتا ہوں

پھر سو مرتبہ کہیں:

أَسْتَجِیرُ بِاللہِ مِنَ النَّارِ

میں آتش جہنم سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں

پھر سو مرتبہ کہیں:

وَأَسْأَلُہُ الْجَنَّۃَ

اس سے جنت کا طالب ہوں

پھر سو مرتبہ کہیں:

أَسْأَلُ اللهَ الْحُورَ الْعِینَ

میں اللہ سے حورعین کا طالب ہوں

پھر سو مرتبہ کہیں:

لاَ إلہَ إلاَّ اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِینُ

اللہ کے سوائ کوئی معبود نہیں جو بادشاہ اور روشن حق ہے

سومرتبہ سورہ اخلاص پڑھیں اور پھر سو مرتبہ کہیں:

صَلَّی اللہُ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

محمدؐ وآلؑ محمدؐ پر خدا کی رحمت ہو

سو مرتبہ کہیں:

سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُللہِ وَلاَ إلہَ إلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ

اللہ پاک ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ برتر ہے نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو اللہ بزرگ وبرتر سے ملتی ہے

سو مرتبہ کہیں:

مَا شَاءَاللہُ کَانَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ

جو خدا چاہے وہی ہوتا ہے اور اللہ بزرگ و بر ترسے بڑھ کر کوئی طاقت وقوت نہیں ہے

تہذیب میں روایت ہے کہ جوشخص نمازِ صبح کے بعد درج ذیل دعا دس مرتبہ پڑھے توحق تعالیٰ اس کو اندھے پن، دیوانگی، کوڑھ، تہی دستی، چھت تلے دبنے، اور بڑھاپے میں حواس کھو بیٹھنے سے محفوظ فرماتا ہے:

سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ باللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ

پاک ہے خدائے برتر اور تعریف سب اسی کی ہے اور نہیں کوئی حرکت وقوت مگر وہ جو خدائے بلند وبرتر سے ملتی ہے

نیز شیخ کلینیؒ نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ جو نماز صبح اور نماز مغرب کے بعد سات مرتبہ درج ذیل دعا پڑھے تو حق تعالیٰ اس سے ستر قسم کی بلائیں دور کر دیتا ہے ﴿ان میں سب سے معمولی زہرباد ، پھلبھری اور دیوانگی ہے﴾ اور اگر وہ شقی ہے تو اسے اس زمرے سے نکال کر سعیدونیک بخت لوگوں میں داخل کر دیا جائے گا

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ

اللہ کے نام سے ﴿شروع کرتا ہوں﴾ جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے نہیں کوئی حرکت وقوت مگرخدائے بزرگ وبرتر سے ملتی ہے

مؤلف کہتے ہیں میرے استاد ثقۃ الاسلام نوری (رح)﴿خدا انکی قبر کو روشن کرے﴾ کتاب دارالسلام میں اپنے استاد عالم ربانی حاج ملا فتح علی سلطان آبادی سے نقل کرتے ہیں کہ فاضل مقدس اخوند ملا محمد صادق عراقی بہت پریشانی ،سختی اور بد حالی میں مبتلا تھے انہیں اس تنگی سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک وادی میں بہت بڑا خیمہ نصب ہے ، جب پوچھا تو معلوم ہو ا کہ یہ فریادیوں کے فریاد رس اور پریشان حال لوگوں کے سہارے، امام زمانہؑ ﴿عج﴾ کا خیمہ ہے۔ یہ سن کر جلدی سے حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنی بدحالی کا قصہ سنایا اور ان سے غم کے خاتمے اور کشائش کیلئے دعا کے خواستگار ہوئے۔ آنحضرتؑ نے انکو اپنی اولاد میں سے ایک بزرگ کی طرف بھیجا اور انکے خیمہ کی طرف اشارہ کیا اخوند حضرت کے خیمہ سے نکل کر اس بزرگ کے خیمہ میں پہنچے۔ مگر کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں سید سند حبرمعتمد عالم امجد، مؤید بارگاہ آقای سید محمد سلطان آبادی مصلائے عبادت پر بیٹھے دعا وقرأت میں مشغول ہیں۔ اخوند نے انہیں سلام کیا اور اپنی حالت زار بیان کی تو سید نے انکو رفعِ مصائب اور وسعت رزق کی ایک دعا تعلیم فرمائی ،وہ خواب سے بیدار ہوئے تو مذکورہ دعا انہیں ازبرہوچکی تھی۔ اسی وقت سید کے گھر کا قصد کیا ۔ حالانکہ ذہنی طور پر سید سے بے تعلق تھے اور انکے ہاں آمدورفت نہ رکھتے تھے۔ اخوند جب سید کی خدمت میں پہنچے تو انکو اسی حالت میں پایا جیسا کہ خواب میں دیکھا تھا ۔وہ مصلے پر بیٹھے ،اذکارواستغفار میں مشغول تھے۔ جب انہیں سلام کیا تو ہلکے سے تبسم کے ساتھ سلام کا جواب دیا، گویا وہ صورت حال سے واقف ہیں اخوند نے ان سے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے وہی دعا بتائی جو خواب میں تعلیم کر چکے تھے اخوند نے وہ دعا پڑھنا شروع کر دی اور پھر چند ہی دنوں میں ہر طرف سے دنیا کی فراونی ہونے لگی۔ سختی اور بدحالی ختم ہوئی اور خوشحالی حاصل ہو گئی۔ حاج ملا فتح علی سلطان آبادی علیہ الرحمہ سید موصوف کی تعریف کیا کرتے تھے کیونکہ آپ نے ان سے ملاقات کی بلکہ کچھ عرصہ انکی شاگرد بھی رہے۔ سید نے خواب وبیداری میں حاج ملافتح علی کو جو دعا تعلیم کی تھی اس میں یہ تین اعمال شامل ہیں:

﴿۱﴾فجر کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر ستر مرتبہ

یَافَتَّاحُ ۔ کہیں

﴿۲﴾ پابندی سے کافی میں مذکورہ دعا پڑھتے رہیں جس کی رسول اللہ ؐ نے اپنے ایک پریشان حال صحابی کو تعلیم فرمائی تھی اوراس دعا کی برکت سے چنددنوں میں اس کی پریشانی دور ہوگئی

)۳(نماز فجر کے بعد شیخ ابن فہد سے نقل شدہ دعا پڑھا کریں اس کو غنیمت سمجھیں اور اس میں غفلت نہ کریں۔ اور وہ دعا یہ ہے:

لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الَّذِی لاَ یَمُوتُ

نہیں کوئی طاقت وقوت مگر وہ جو خدا سے ملتی ہے میں نے اس زندہ خدا پر توکل کیا جس کیلئے موت نہیں

وَالْحَمْدُلِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً، ولَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ

اور حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں اس کا شریک ہے

وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیراً

نہ اس کے عجز کی وجہ سے کوئی اس کا مددگار ہے اور تم اس کی بڑائی بیان کیا کرو

 

source :www.mafatih.net

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 11:36
عون نقوی