بصیرت اخبار

۳۶۰ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ خطبات» ثبت شده است

معاویہ کے نام

وَ هُوَ مِنْ مَّحَاسِنِ الْکُتُبِ

یہ مکتوب امیرالمومنین علیہ السلام کے بہترین مکتوبات میں سے ہے:

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ اَتَانِیْ کِتَابُکَ تَذْکُرُ فِیْهِ اصْطِفَآءَ اللهِ مُحَمَّدًا ﷺ لِدِیْنِهٖ، وَ تَاْیِیْدَهٗ اِیَّاهُ بِمَنْ اَیَّدَهٗ مِنْ اَصْحَابِهٖ، فَلَقَدْ خَبَّاَ لَنَا الدَّهْرُ مِنْکَ عَجَبًا، اِذْ طَفِقْتَ تُخْبِرُنَا بِبَلَآءِ اللهِ عِنْدَنَا وَ نِعْمَتِهٖ عَلَیْنَا فِیْ نَبِیِّنَا، فَکُنْتَ فِیْ ذٰلِکَ کَنَاقِلِ التَّمْرِ اِلٰی هَجَرَ، اَوْ دَاعِیْ مُسَدِّدِهٖ اِلَی النِّضَالِ.

تمہارا خط پہنچا تم نے اس میں یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ نے محمد ﷺ کو اپنے دین کیلئے منتخب فرمایا اور تائید و نصرت کرنے والے ساتھیوں کے ذریعہ ان کو قوت و توانائی بخشی۔ زمانہ نے تمہارے عجائبات پر اب تک پردہ ہی ڈالے رکھا تھا جو یوں ظاہر ہو رہے ہیں کہ تم ہمیں ہی خبر دے رہے ہو، ان احسانات کی جو خود ہمیں پر ہوئے ہیں اور اس نعمت کی جو ہمارے رسول ﷺ کے ذریعہ سے ہمیں پر ہوئی ہے۔ اس طرح تم ویسے ٹھہرے جیسے ہجر کی طرف کھجوریں لاد کر لے جانے والا، یا اپنے استاد کو تیر اندازی کے مقابلے کی دعوت دینے والا۔

وَ زَعَمْتَ اَنَّ اَفْضَلَ النَّاسِ فِی الْاِسْلَامِ فُلَانٌ وَّ فُلَانٌ، فَذَکَرْتَ اَمْرًا اِنْ تَمَّ اعْتَزَلَکَ کُلُّهٗ، وَ اِنْ نَّقَصَ لَمْ یَلْحَقْکَ ثَلْمُهٗ، وَ مَاۤ اَنْتَ وَ الْفَاضِلَ وَ الْمَفْضُوْلَ، وَ السَّآئِسَ وَ الْمَسُوْسَ! وَ مَا لِلطُّلَقَآءِ وَ اَبْنَآءِ الطُّلَقَآءِ وَ التَّمْیِیْزَ بَیْنَ الْمُهَاجِرِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ، وَ تَرْتِیْبَ دَرَجَاتِهِمْ وَ تَعْرِیْفَ طَبَقَاتِهِمْ!. هَیْهَاتَ لَقَدْ حَنَّ قِدْحٌ لَّیْسَ مِنْهَا، وَ طَفِقَ یَحْکُمُ فِیْهَا مَنْ عَلَیْهِ الْحُکْمُ لَهَا!

تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلاں اور فلاں (ابو بکر و عمر) ہیں۔ یہ تم نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور غلط ہو تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اور بھلا کہاں تم اور کہاں یہ بحث کہ کون افضل ہے اور کون غیر افضل؟ اور کون حاکم ہے اور کون رعایا؟! بھلا آزاد کردہ لوگوں اور ان کے بیٹوں کو یہ حق کہاں سے ہو سکتا ہے کہ وہ مہاجرین اولین کے درمیان امتیاز کرنے، ان کے درجے ٹھہرانے اور ان کے طبقے پہچنوانے بیٹھیں۔ کتنا نامناسب ہے کہ جوئے کے تیروں میں نقلی تیر آواز دینے لگے اور کسی معاملہ میں وہ فیصلہ کرنے بیٹھے جس کے خود خلاف بہرحال اس میں فیصلہ ہونا ہے۔

اَ لَا تَرْبَعُ اَیُّهَا الْاِنْسَانُ عَلٰی ظَلْعِکَ وَ تَعْرِفُ قُصُوْرَ ذَرْعِکَ؟ وَ تَتَاَخَّرُ حَیْثُ اَخَّرَکَ الْقَدَرُ! فَمَا عَلَیْکَ غَلَبَةُ الْمَغْلُوْبِ، وَ لَا لَکَ ظَفَرُ الظَّافِرِ! وَ اِنَّکَ لَذَهَّابٌ فِی التِّیْهِ، رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ.

اے شخص! تو اپنے پیروں کے لنگ کو دیکھتے ہوئے اپنی حد پر ٹھہرتا کیوں نہیں؟ اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں؟ اور کیوں نہیں پیچھے ہٹ کر رکتا؟ وہیں جہاں قضا و قدر کا فیصلہ تجھے پیچھے ہٹا چکا ہے۔ آخر تجھے کسی مغلوب کی شکست سے اور کسی فاتح کی کامرانی سے سر و کار ہی کیا ہے؟ تمہیں محسوس ہو نا چاہیے کہ تم حیرت و سرگشتگی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہو اور راہ راست سے منحرف ہو۔

اَلَا تَرٰی ـ غَیْرَ مُخْبِرٍ لَّکَ وَ لٰکِنْۢ بِنِعْمَةِ اللهِ اُحَدِّثُ ـ اَنَّ قَوْمًا اسْتُشْهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ لِکُلٍّ فَضْلٌ، حَتّٰۤی اِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِیْدُنَا قِیْلَ: “سَیِّدُ الشُّهَدَآءِ”، وَ خَصَّهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِسَبْعِیْنَ تَکْبِیْرَةً عِنْدَ صَلٰوتِهٖ عَلَیْهِ!

آخر تم نہیں دیکھتے؟ اور یہ میں جو کہتا ہوں تمہیں کوئی اطلاع دینا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرنا ہے کہ: مہاجرین و انصار کا ایک گروہ خدا کی راہ میں شہید ہوا اور سب کیلئے فضیلت کا ایک درجہ ہے، مگر جب ہم میں سے شہید نے جامِ شہادت پیا تو اسے ’’سیّد الشہداء‘‘ کہا گیا اور پیغمبر ﷺ نے صرف اسے یہ خصوصیت بخشی کہ اس کی نماز جنازہ میں ستر (۷۰) تکبیریں کہیں۔

اَوَ لَا تَرٰۤی اَنَّ قَوْمًا قُطِعَتْ اَیْدِیْهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ـ وَ لِکُلٍّ فَضْلٌ ـ حَتّٰۤی اِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ، قِیْلَ: “الطَّیَّارُ فِی الْجَنَّةِ” وَ “ذُو الْجَنَاحَیْنِ”!

اور کیا نہیں دیکھتے؟ کہ بہت لوگوں کے ہاتھ خدا کی راہ میں کاٹے گئے اور ہر ایک کیلئے ایک حد تک فضیلت ہے، مگر جب ہمارے آدمی کیلئے یہی ہوا جو اَوروں کے ساتھ ہو چکا تھا تو اسے ’’الطیار فی الجنہ (جنت میں پرواز کرنے والا) اور ’’ذو الجناحین‘‘ (دو پروں والا) کہا گیا۔

وَ لَوْ لَا مَا نَهَی اللهُ عَنْهُ مِنْ تَزْکِیَةِ الْمَرْءِ نَفْسَهٗ، لَذَکَرَ ذَاکِرٌ فَضَآئِلَ جَمَّةً، تَعْرِفُهَا قُلُوْبُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ لَا تَمُجُّهَا اٰذَانُ السَّامِعِیْنَ. فَدَعْ عَنْکَ مَنْ مَّالَتْ بِهِ الرَّمِیَّةُ، فَاِنَّا صَنَآئِعُ رَبِّنَا، وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَآئِعُ لَـنَا.

اور اگر خدا وند عالم نے خود ستائی سے روکا نہ ہوتا تو بیان کرنے والا اپنے بھی وہ فضائل بیان کرتا کہ مومنوں کے دل جن کا اعتراف کرتے ہیں اور سننے والوں کے کان انہیں اپنے سے الگ نہیں کر نا چاہتے۔ ایسوں کا ذکر کیوں کرو؟ جن کا تیر نشانوں سے خطا کر نے والا ہے۔ ہم وہ ہیں جو براہ راست اللہ سے نعمتیں لے کر پروان چڑھے ہیں اور دوسرے ہمارے احسان پروردہ ہیں۔

لَمْ یَمْنَعْنَا قَدِیْمُ عِزِّنَا وَ لَا عَادِیُّ طَوْلِنَا عَلٰی قَوْمِکَ اَنْ خَلَطْنَاکُمْ بِاَنْفُسِنَا، فَنَکَحْنَا وَ اَنْکَحْنَا فِعْلَ الْاَکْفَاۗءِ، وَ لَسْتُمْ هُنَاکَ! وَ اَنّٰی یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ وَ مِنَّا النَّبِیُّ وَ مِنْکُمُ الْمُکَذِّبُ، وَ مِنَّاۤ اَسَدُ اللهِ وَ مِنْکُمْ اَسَدُ الْاَحْلَافِ، وَ مِنَّا سَیِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مِنْکُمْ صِبْیَةُ النَّارِ، وَ مِنَّا خَیْرُ نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنِ وَ مِنْکُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ، فِیْ کَثِیْرٍ مِّمَّا لَنَا وَ عَلَیْکُمْ!

ہم نے اپنی نسلاً بعد نسل چلی آنے والی عزت اور تمہارے خاندان پر قدیمی برتری کے باوجود کوئی خیال نہ کیا اور تم سے میل جول رکھا اور برابر والوں کی طرح رشتے دیئے لئے، حالانکہ تم اس منزلت پر نہ تھے اور ہو کیسے سکتے ہو؟ جب کہ ہم میں نبی اور تم میں جھٹلانے والا، ہم میں اسداللہ اور تم میں اسد الاحلاف، ہم میں دو سردارانِ جوانانِ اہل جنت اور تم میں جہنمی لڑکے، ہم میں سردارِ زنانِ عالمیان اور تم میں حمالۃ الحطب، اور ایسی ہی بہت باتیں جو ہماری بلندی اور تمہاری پستی کی آئینہ دار ہیں۔

فَاِسْلَامُنَا قَدْ سُمِـعَ، وَجَاهِلِیَّتُنَا لَا تُدْفَعُ، وَ کِتَابُ اللهِ یَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا، وَ هُوَ قَوْلُهٗ: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰهِ ؕ ﴾، وَ قَوْلُهٗ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ۝﴾،

چنانچہ ہمارا ظہور اسلام کے بعد کا دور بھی وہ ہے جس کی شہرت ہے اور جاہلیت کے دور کا بھی ہمارا امتیاز ناقابل انکار ہے اور اس کے بعد جو رہ جائے وہ اللہ کی کتاب جامع الفاظ میں ہمارے لئے بتا دیتی ہے، ارشاد الٰہی ہے: ’’قرابتدار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔ دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا ہے: ’’ابراہیمؑ کے زیادہ حق دار وہ لوگ تھے جو ان کے پیروکار تھے اور یہ نبیؐ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ ایمان والوں کا سرپرست ہے‘‘۔

فَنَحْنُ مَرَّةً اَوْلٰی بِالْقَرَابَةِ، وَ تَارَةً اَوْلٰی بِالطَّاعَةِ. وَ لَمَّا احْتَجَّ الْمُهَاجِرُوْنَ عَلَی الْاَنْصَارِ یَوْمَ السَّقِیْفَةِ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَلَجُوْا عَلَیْهِمْ، فَاِنْ یَّکُنِ الْفَلَجُ بِهٖ فَالْحَقُّ لَنَا دُوْنَکُمْ، وَ اِنْ یَّکُنْۢ بِغَیْرِهٖ فَالْاَنْصَارُ عَلٰی دَعْوَاهُمْ.

تو ہمیں قرابت کی وجہ سے بھی دوسروں پر فوقیت حاصل ہے اور اطاعت کی وجہ سے بھی ہمارا حق فائق ہے۔ اور سقیفہ کے دن جب مہاجرین نے رسول ﷺ کی قرابت کو استدلال میں پیش کیا تو انصار کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔ تو ان کی کامیابی اگر قرابت کی وجہ سے تھی تو پھر یہ خلافت ہمارا حق ہے نہ کہ ان کا، اور اگر استحقاق کا کچھ اور معیار ہے تو انصار کا دعویٰ اپنے مقام پر برقرار رہتا ہے۔

وَ زَعَمْتَ اَنِّیْ لِکُلِّ الْخُلَفَآءِ حَسَدْتُّ، وَ عَلٰی کُلِّهِمْ بَغَیْتُ، فَاِنْ یَّکُنْ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَلَیْسَ الْجِنَایَةُ عَلَیْکَ، فَیَکُوْنَ الْعُذْرُ اِلَیْکَ.

اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے سب خلفاء پر حسد کیا اور ان کے خلاف شورشیں کھڑی کیں۔ اگرایسا ہی ہے تو اس سے میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم سے معذرت کروں، (بقول شاعر:)

وَ تِلْکَ شَکَاةٌ ظَاهِرٌ عَنْکَ عَارُهَا

’’یہ ایسی خطا ہے جس سے تم پر کوئی حرف نہیں آتا‘‘

وَ قُلْتَ: اِنِّیْ کُنْتُ اُقَادُ کَمَا یُقَادُ الْجَمَلُ الْمَخْشُوْشُ حَتّٰۤی اُبَایِـعَ، وَ لَعَمْرُ اللهِ! لَقَدْ اَرَدْتَّ اَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ، وَ اَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ! وَ مَا عَلَی الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِیْۤ اَنْ یَّکُوْنَ مَظْلُوْمًا مَّا لَمْ یَکُنْ شَاکًّا فِیْ دِیْنِهٖ، وَ لَا مُرْتَابًۢا بِیَقِیْنِهٖ! وَ هٰذِهٖ حُجَّتِیْۤ اِلٰی غَیْرِکَ قَصْدُهَا، وَ لٰکِنِّیْۤ اَطْلَقْتُ لَکَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِکْرِهَا.

اور تم نے لکھا ہے کہ مجھے بیعت کیلئے یوں کھینچ کر لایا جاتا تھا جس طرح نکیل پڑے اونٹ کو کھینچا جاتا ہے، تو خالق کی ہستی کی قسم! تم اترے تو برائی کرنے پر تھے کہ تعریف کرنے لگے، چاہا تو یہ تھا کہ مجھے رسوا کرو کہ خود ہی رسوا ہو گئے۔ بھلا مسلمان آدمی کیلئے اس میں کون سی عیب کی بات ہے کہ وہ مظلوم ہو، جبکہ وہ نہ اپنے دین میں شک کرتا ہو، نہ اس کا یقین ڈانواں ڈول ہو۔ اور میری اس دلیل کا تعلق اگرچہ دوسروں سے ہے مگر جتنا بیان یہاں مناسب تھا تم سے کر دیا۔

ثُمَّ ذَکَرْتَ مَا کَانَ مِنْ اَمْرِیْ وَ اَمْرِ عُثْمَانَ، فَلَکَ اَنْ تُجَابَ عَنْ هٰذِهٖ لِرَحِمِکَ مِنْهُ، فَاَیُّنَا کَانَ اَعْدٰی لَهٗ وَ اَهْدٰی اِلٰی مَقَاتِلِهٖ؟! اَ مَنْۢ بَذَلَ لَهٗ نُصْرَتَهٗ فَاسْتَقْعَدَهٗ وَ اسْتَکَفَّهٗ؟ اَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَهٗ فَتَرَاخٰی عَنْهُ، وَ بَثَّ الْمَنُوْنَ اِلَیْهِ حَتّٰۤی اَتٰی قَدَرُهٗ عَلَیْهِ؟ کَلَّا! وَاللهِ! لَقَدْ عَلِمَ ﴿اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ وَ الْقَآىِٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝۱۸﴾

پھر تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے، تو ہاں اس میں تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے، کیونکہ تمہاری ان سے قرابت ہوتی ہے۔ اچھا تو پھر (سچ سچ) بتاؤ کہ ہم دونوں میں ان کے ساتھ زیادہ دشمنی کرنے والا اور ان کے قتل کا سر و سامان کرنے والا کون تھا؟ وہ کہ جس نے اپنی امداد کی پیشکش کی اور انہوں نے اسے بٹھا دیا اور روک دیا؟، یا وہ کہ جس سے انہوں نے مدد چاہی اور وہ ٹال گیا اور ان کیلئے موت کے اسباب مہیا کئے، یہاں تک کہ ان کے مقدر کی موت نے انہیں آ گھیرا؟ ہرگز نہیں!۔ خدا کی قسم!(وہ پہلا زیادہ دشمن ہرگز قرار نہیں پا سکتا)۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو جنگ سے دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہنے والے ہیں کہ آؤ ہماری طرف آؤ اور خود بھی جنگ کے موقع پر برائے نام ٹھہرتے ہیں۔

وَمَا کُنْتُ لِاَعْتَذِرَ مِنْ اَنِّیْ کُنْتُ اَنْقِمُ عَلَیْهِ اَحْدَاثًا، فَاِنْ کَانَ الذَّنْۢبُ اِلَیْهِ اِرْشَادِیْ وَ هِدَایَتِیْ لَهٗ، فَرُبَّ مَلُوْمٍ لَّا ذَنْۢبَ لَهٗ.

بیشک میں اس چیز کیلئے معذرت کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ میں ان کی بعض بدعتوں کو ناپسند کرتا تھا۔ اگر میری خطا یہی ہے کہ میں انہیں صحیح راہ دکھاتا تھا اور ہدایت کرتا تھا تو اکثر ناکردہ گناہ ملامتوں کا نشانہ بن جایا کرتے ہیں۔

وَ قَدْ یَسْتَفِیْدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ

’’اور کبھی نصیحت کرنے والے کو بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے‘‘۔

وَ مَاۤ اَرَدْتُّ ﴿اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ؕ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ ؕ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ۝﴾.

میں نے تو جہاں تک بن پڑا یہی چاہا کہ اصلاح حال ہو جائے اور مجھے توفیق حاصل ہونا ہے تو صرف اللہ سے، اسی پر میرا بھروسا ہے اور اسی سے لو لگاتا ہوں۔

وَ ذَکَرْتَ اَنَّهٗ لَیْسَ لِیْ وَ لِاَصْحَابِیْ عِنْدَکَ اِلَّا السَّیْفُ، فَلَقَدْ اَضْحَکْتَ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ ! مَتٰۤی اَلْفَیْتَ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الْاَعْدَآءِ نَاکِلِیْنَ، و بِالسُّیُوْفِ مُخَوَّفِیْنَ؟

تم نے مجھے لکھا ہے کہ میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے تمہارے پاس بس تلوار ہے۔ یہ کہہ کر تو تم روتوں کو بھی ہنسانے لگے۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ تم نے اولادِ عبد المطلب کو کب دشمن سے پیٹھ پھراتے ہوئے پایا اور کب تلواروں سے خوفزدہ ہوتے دیکھا؟ (اگر یہی ارادہ ہے تو پھر بقول شاعر):

لَبِّثْ قَلِیْلًا یَلْحَقِ الْهَیْجَا حَمَلْ

’’تھوڑی دیر دم لو کہ حمل میدان جنگ میں پہنچ لے‘‘۔

فَسَیَطْلُبُکَ مَنْ تَطْلُبُ، وَ یَقْرُبُ مِنْکَ مَا تَسْتَبْعِدُ، وَ اَنَا مُرْقِلٌ نَّحْوَکَ فِیْ جَحْفَلٍ مِّنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ التَّابِعِیْنَ لَهُمْ بِاِحْسَانٍ، شَدِیْدٍ زِحَامُهُمْ، سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ، مُتَسَرْبِلِیْنَ سَرَابِیْلَ الْمَوْتِ، اَحَبُّ اللِّقَآءِ اِلَیْهِمْ لِقَآءُ رَبِّهِمْ، قَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّیَّةٌۢ بَدْرِیَّةٌ، وَ سُیُوْفٌ هَاشِمِیَّةٌ، قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا فِیْۤ اَخِیْکَ وَ خَالِکَ وَ جَدِّکَ وَ اَهْلِکَ، ﴿وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠۝﴾.

عنقریب جسے تم طلب کر رہے ہو، وہ خود تمہاری تلاش میں نکل کھڑا ہو گا اور جسے دور سمجھ رہے ہو وہ قریب پہنچے گا۔ میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار اور اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین کا لشکر جرار لے کر عنقریب اڑتا ہوا آ رہا ہوں۔ ایسا لشکر کہ جس میں بے پناہ ہجوم اور پھیلا ہوا گرد و غبار ہو گا۔ وہ موت کے کفن پہنے ہوئے ہوں گے۔ ہر ملاقات سے زیادہ انہیں لقائے پروردگار محبوب ہو گی۔ ان کے ساتھ شہدائے بدر کی اولاد اور ہاشمی تلواریں ہوں گی کہ جن کی تیز دھار کی کاٹ تم اپنے ماموں، بھائی، نانا اور کنبہ والوں میں دیکھ چکے ہو، ’’وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہیں‘‘۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:29
عون نقوی

بِمَا یُعْمَلُ فِیْۤ اَمْوَالِهٖ کَتَبَهَا بَعْدَ مُنْصَرَفِهٖ مِنْ صِفِّیْنَ:

حضرتؑ کی وصیت اس امر کے متعلق کہ آپؑ کے اموال میں کیا عمل درآمد ہو گا۔ اسے صفین سے پلٹنے کے بعد تحریر فرمایا:

هٰذَا مَاۤ اَمَرَ بِهٖ عَبْدُ اللهِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ مَالِهٖ، ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللهِ، لِیُوْلِجَهٗ بِهِ الْجَنَّةَ، وَ یُعْطِیَهٗ بِهِ الْاَمَنَةَ.

یہ وہ ہے جو خدا کے بندے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے اموال (اوقاف) کے بارے میں حکم دیا ہے، محض اللہ کی رضا جوئی کیلئے تاکہ وہ اس کی وجہ سے مجھے جنت میں داخل کرے اور امن و آسائش عطا فرمائے۔

[مِنْهَا]

[اس وصیت کا ایک حصہ یہ ہے]

وَاِنَّهٗ یَقُوْمُ بِذٰلِکَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، یَاْکُلُ مِنْهُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَ یُنْفِقُ مِنْهُ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وَّ حُسَیْنٌ حَیٌّ، قَامَ بِالْاَمْرِ بَعْدَهٗ وَ اَصْدَرَهٗ مَصْدَرَهٗ.

حسن ابن علی علیہما السلام اس کے متولی ہوں گے جو اس مال سے مناسب طریقہ پر روزی لیں گے اور امور خیر میں صرف کریں گے۔ اگر حسن علیہ السلام کو کچھ ہو جائے اور حسین علیہ السلام زندہ ہوں تو وہ ان کے بعد اس کو سنبھال لیں گے اور انہی کی راہ پر چلائیں گے۔

وَ اِنَّ لِابْنَیْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِیٍّ مِّثْلَ الَّذِیْ لِبَنِیْ عَلِیٍّ، وَ اِنِّیْۤ اِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِیَامَ بِذٰلِکَ اِلَی ابْنَیْ فَاطِمَةَ ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللهِ، وَ قُرْبَةً اِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ تَکْرِیْمًا لِّحُرْمَتِهٖ، وَ تَشْرِیْفًا لِّوُصْلَتِهٖ.

علی علیہ السلام کے اوقاف میں جتنا حصہ فرزندانِ علیؑ کا ہے اتنا ہی اولادِ فاطمہؑ کا ہے۔ بیشک میں نے صرف اللہ کی رضا مندی، رسول ﷺ کے تقرب، ان کی عزت و حرمت کے اعزاز اور ان کی قرابت کے احترام کے پیش نظر اس کی تولیت فاطمہ کے دونوں فرزندوں سے مخصوص کی ہے۔

وَ یَشْتَرِطُ عَلَی الَّذِیْ یَجْعَلُهٗۤ اِلَیْهِ اَنْ یَّتْرُکَ الْمَالَ عَلٰۤی اُصُوْلِهٖ، وَ یُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِهٖ حَیْثُ اُمِرَ بِهٖ وَ هُدِیَ لَهٗ،

اور جو اس جائیداد کا متولی ہواس پر یہ پابندی عائد ہو گی کہ وہ مال کو اس کی اصلی حالت پر رہنے دے اور اس کے پھلوں کو ان مصارف میں جن کے متعلق ہدایت کی گئی ہے تصرف میں لائے۔

وَ اَنْ لَّا یَبِیْعَ مِنْ اَوْلَادِ نَخْلِ هٰذِهِ الْقُرٰی وَدِیَّةً حَتّٰی تُشْکِلَ اَرْضُهَا غِرَاسًا.

اور یہ کہ وہ ان دیہاتوں کے نخلستانوں کی نئی پود کو فروخت نہ کرے، یہاں تک کہ ان دیہاتوں کی زمین کا ان نئے درختوں کے جم جانے سے عالم ہی دوسرا ہو جائے۔

وَ مَنْ کَانَ مِنْ اِمَآئِیْ ـ اللَّاتِیْۤ اَطُوْفُ عَلَیْهِنَّ ـ لَهَا وَلَدٌ، اَوْ هِیَ حَامِلٌ، فَتُمْسَکُ عَلٰی وَلَدِهَا وَ هِیَ مِنْ حَظِّهٖ، فَاِنْ مَّاتَ وَلَدُهَا وَ هِیَ حَیَّةٌ فَهِیَ عَتِیْقَةٌ، قَدْ اُفْرِجَ عَنْهَا الرِّقُّ، وَ حَرَّرَهَا الْعِتْقُ.

اور وہ کنیزیں جو میرے تصرف میں ہیں ان میں سے جس کی گود میں بچہ یا پیٹ میں ہے تو وہ بچے کے حق میں روک لی جائے گی اور اس کے حصہ میں شمار ہو گی۔ پھر اگر بچہ مر بھی جائے اور وہ زندہ ہو تو بھی وہ آزاد ہو گی۔ اس سے غلامی چھٹ گئی ہے اور آزادی اسے حاصل ہو چکی ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:19
عون نقوی

معاویہ ابن ابی سفیان کے نام

فَسُبْحَانَ اللّٰه!ِ مَاۤ اَشَدَّ لُزُوْمَکَ لِلْاَهْوَآءِ الْمُبْتَدَعَةِ، وَ الْحَیْرَةِ الْمُتْعِبَةِ، مَعَ تَضْیِیْعِ الْحَقَآئِقِ، وَ اطِّرَاحِ الْوَثَآئِقِ، الَّتِیْ هِیَ لِلّٰهِ طِلْبَةٌ، وَ عَلٰى عِبَادِهٖ حُجَّۃٌ، فَاَمَّا اِکْثَارُکَ الْحِجَاجَ فِیْ عُثْمَانَ وَ قَتَلَتِهٖ، فَاِنَّکَ اِنَّمَا نَصَرْتَ عُثْمَانَ حَیْثُ کَانَ النَّصْرُ لَکَ، وَ خَذَلْتَهٗ حَیْثُ کَانَ النَّصْرُ لَهٗ، وَ السَّلَامُ.

اللہ اکبر! تم نفسانی خواہشوں اور زحمت و تعب میں ڈالنے والی حیرت و سرگشتگی سے کس بری طرح چمٹے ہوئے ہو، اور ساتھ ہی حقائق کو برباد کر دیا ہے، اور ان دلائل کو ٹھکرا دیا ہے جو اللہ کو مطلوب اور بندوں پر حجت ہیں۔ تمہارا عثمان اور ان کے قاتلوں کے بارے میں جھگڑا بڑھانا کیا معنی رکھتا ہے جبکہ تم نے عثمان کی اس وقت مدد کی جب وہ مدد خود تمہاری ذات کیلئے تھی اور اس وقت انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا کہ جب تمہاری مدد ان کے حق میں مفید ہو سکتی تھی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:11
عون نقوی

اہل مصر کے نام جبکہ مالک اشتر کو وہاں کا حاکم بنایا

مِنْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلِیٍّ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ، اِلَى الْقَوْمِ الَّذِیْنَ غَضِبُوْا لِلّٰهِ حِیْنَ عُصِیَ فِیْۤ اَرْضِهٖ، وَ ذُهِبَ بِحَقِّهٖ، فَضَرَبَ الْجَوْرُ سُرَادِقَهٗ عَلَى الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ، وَ الْمُقِیْمِ وَ الظَّاعِنِ، فَلَا مَعْرُوْفٌ یُّسْتَرَاحُ اِلَیْهِ، وَ لَا مُنْکَرٌ یُّتَنَاهٰى عَنْهُ.

خدا کے بندے علی امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے ان لوگوں کے نام جو اللہ کیلئے غضبناک ہوئے، اس وقت جب زمین میں اللہ کی نافرمانی اور اس کے حق کی بربادی ہو رہی تھی اور ظلم نے اپنے شامیانے ہر اچھے برے، مقامی اور پردیسی پر تان رکھے تھے، نہ نیکی کا چلن تھا اور نہ برائی سے بچا جاتا تھا۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَعَثْتُ اِلَیْکُمْ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللّٰهِ، لَا یَنَامُ اَیَّامَ الْخَوْفِ، وَ لَا یَنْکُلُ عَنِ الْاَعْدَآءِ سَاعَاتِ الرَّوْعِ، اَشَدَّ عَلَى الْفُجَّارِ مِنْ حَرِیْقِ النَّارِ ،وَ هُوَ مَالِکُ بْنُ الْحَارِثِ اَخُوْ مَذْحِجٍ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تمہاری طرف بھیجا ہے جو خطرے کے دنوں میں سوتا نہیں، اور خوف کی گھڑیوں میں دشمن سے ہراساں نہیں ہوتا اور فاجروں کیلئے جلانے والی آگ سے بھی زیادہ سخت ہے۔ وہ مالک بن حارث مذحجی ہیں۔

فَاسْمَعُوْا لَهٗ وَ اَطِیْعُوْۤا اَمْرَهٗ فِیْمَا طَابَقَ الْحَقَّ، فَاِنَّهُ سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰهِ، لَا کَلِیْلُ الظُّبَةِ وَ لَا نَابِی الضَّرِیْبَةِ، فَاِنْ اَمَرَکُمْ اَنْ تَنْفِرُوْا فَانْفِرُوْا، وَ اِنْ اَمَرَکُمْ اَنْ تُقِیْمُوْا فَاَقِیْمُوْا، فَاِنَّهٗ لَا یُقْدِمُ وَ لَا یُحْجِمُ، وَ لَا یُؤَخِّرُ وَ لَا یُقَدِّمُ اِلَّا عَنْ اَمْرِیْ، وَ قَدْ اٰثَرْتُکُمْ بِهٖ عَلٰى نَفْسِیْ لِنَصِیْحَتِهٖ لَکُمْ، وَ شِدَّةِ شَکِیْمَتِهٖ عَلٰى عَدُوِّکُمْ.

ان کی بات کو سنو اور ان کے ہر اس حکم کو جو حق کے مطابق ہو مانو، کیونکہ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں کہ جس کی نہ دھار کند ہوتی ہے اور نہ اس کا وار خالی جاتا ہے۔ اگر وہ تمہیں دشمنوں کی طرف بڑھنے کیلئے کہیں تو بڑھو اور ٹھہرنے کیلئے کہیں تو ٹھہرے رہو، کیونکہ وہ میرے حکم کے بغیر نہ آگے بڑھیں گے، نہ پیچھے ہٹیں گے، نہ کسی کو پیچھے ہٹاتے ہیں اور نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ میں نے ان کے بارے میں تمہیں خود اپنے اوپر ترجیح دی ہے۔ اس خیال سے کہ تمہارے خیرخواہ اور دشمنوں کیلئے سخت گیر ثابت ہوں گے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:08
عون نقوی

عمر و ابن عاص کے نام

فَاِنَّکَ قَدْ جَعَلْتَ دِیْنَکَ تَبَعًا لِّدُنْیَا امْرِئٍ ظَاهِرٍ غَیُّهٗ، مَهْتُوْکٍ سِتْرُهٗ، یَشِیْنُ الْکَرِیْمَ بِمَجْلِسِهٖ، وَ یُسَفِّهُ الْحَلِیْمَ بِخِلْطَتِهٖ، فَاتَّبَعْتَ اَثَرَهٗ، وَ طَلَبْتَ فَضْلَهٗ، اتِّبَاعَ الْکَلْبِ لِلضِّرْغَامِ، یَلُوْذُ اِلٰى مَخَالِبِهٖ، وَ یَنْتَظِرُ مَا یُلْقٰۤى اِلَیْهِ مِنْ فَضْلِ فَرِیْسَتِهٖ، فَاَذْهَبْتَ دُنْیَاکَ وَ اٰخِرَتَکَ، وَ لَوْ بِالْحَقِّ اَخَذْتَ اَدْرَکْتَ مَا طَلَبْتَ. فَاِنْ یُّمَکِّنِّی اللّٰهُ مِنْکَ وَ مِنِ ابْنِ اَبِیْ سُفْیَانَ اَجْزِکُمَا بِمَا قَدَّمْتُمَا، وَ اِنْ تُعْجِزَا وَ تَبْقَیَا فَمَاۤ اَمَامَکُمَا شَرٌّ لَّکُمَا، وَ السَّلَامُ.

تم نے اپنے دین کو ایک ایسے شخص کی دنیا کے پیچھے لگا دیا ہے جس کی گمراہی ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے، جس کا پردہ چاک ہے، جو اپنے پاس بٹھا کر شریف انسان کو بھی داغدار اور سنجیدہ اور بردبار شخص کو بے وقوف بناتا ہے۔ تم اس کے پیچھے لگ گئے اور اس کے بچے کھچے ٹکڑوں کے خواہشمند ہو گئے۔ جس طرح کتا شیر کے پیچھے ہو لیتا ہے۔ اس کے پنجوں کو امید بھری نظروں سے دیکھتا ہوا اور اس انتظار میں کہ اس کے شکار کے بچے کھچے حصہ میں سے کچھ آگے پڑ جائے۔ اس طرح تم نے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو گنوایا۔ حالانکہ اگر حق کے پابند رہتے تو بھی تم اپنی مراد کو پا لیتے۔ اب اگر اللہ نے مجھے تم پر اور فرزند ِابو سفیان پر غلبہ دیا تو میں تم دونوں کو تمہارے کرتوتوں کا مزہ چکھا دوں گا، اور اگر تم میری گرفت میں نہ آئے اور میرے بعد زندہ رہے تو جو تمہیں اس کے بعد درپیش ہو گا وہ تمہارے لئے بہت برا ہو گا۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:06
عون نقوی