بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ،

عبداللہ ابن عباس کے نام

وَ قَدْ تَقَدَّمَ ذِکْرُهٗ بِخِلَافِ هٰذِهِ الرِّوَایَةِ

یہ خط اس سے پہلے دوسری عبارت میں درج کیا جا چکا ہے۔

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْمَرْءَ لَیَفْرَحُ بِالشَّیْ‏ءِ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لِّیَفُوْتَهٗ، وَ یَحْزَنُ عَلَى الشَّیْ‏ءِ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لِّیُصِیْبَهٗ، فَلَا یَکُنْ اَفْضَلُ مَا نِلْتَ فِیْ نَفْسِکَ، مِنْ دُنْیَاکَ بُلُوْغَ لَذَّةٍ، اَوْ شِفَآءَ غَیْظٍ، وَ لٰکِنْ اِطْفَآءَ بَاطِلٍ، اَوْ اِحْیَآءَ حَقٍّ، وَ لْیَکُنْ سُرُوْرُکَ بِمَا قَدَّمْتَ، وَ اَسَفُکَ عَلٰى مَا خَلَّفْتَ، وَ هَمُّکَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

بندہ کبھی اس شے کو پا کر خوش ہونے لگتا ہے جو اس کے ہاتھ سے جانے والی تھی ہی نہیں اور ایسی چیز کی وجہ سے رنجیدہ ہوتا ہے جو اسے ملنے والی ہی نہ تھی۔ لہٰذا لذت کا حصول اور جذبۂ انتقام کو فرو کرنا ہی تمہاری نظروں میں دنیا کی بہترین نعمت نہ ہو، بلکہ باطل کو مٹانا اور حق کو زندہ کرنا ہو۔ اور تمہاری خوشی اس ذخیرہ پر ہونا چاہیے جو تم نے آخرت کیلئے فراہم کیا ہے اور تمہارا رنج اس سرمایہ پر ہو نا چاہیے جسے صحیح مصرف میں صرف کئے بغیر چھوڑ رہے ہو اور تمہیں فکر صرف موت کے بعد کی ہونی چاہیے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:20
عون نقوی

اِلٰى قُثَمِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰى مَکَّةَ

والی مکہ قثم ابن عباس کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاَقِمْ لِلنَّاسِ الْحَجَّ، ﴿وَ ذَکِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ ؕ ﴾، ‏وَ اجْلِسْ لَهُمُ الْعَصْرَیْنِ، فَاَفْتِ الْمُسْتَفْتِیَ، وَ عَلِّمِ الْجَاهِلَ، وَ ذَاکِرِ الْعَالِمَ، وَ لَا یَکُنْ لَّکَ اِلَى النَّاسِ سَفِیْرٌ اِلَّا لِسَانَکَ، وَ لَا حَاجِبٌ اِلَّا وَجْهَکَ، وَ لَا تَحْجُبَنَّ‏ ذَا حَاجَةٍ عَنْ لِقَآئِکَ بِهَا، فَاِنَّهَا اِنْ ذِیْدَتْ عَنْ اَبْوَابِکَ فِیْۤ اَوَّلِ وِرْدِهَا، لَمْ تُحْمَدْ فِیْمَا بَعْدُ عَلٰى قَضَآئِهَا.

لوگوں کیلئے حج کے قیام کا سر و سامان کرو، اور اللہ کے یاد گار دنوں کی یاد دلاؤ، اورلوگوں کیلئے صبح و شام اپنی نشست قرار دو۔ مسئلہ پوچھنے والے کو مسئلہ بتاؤ، جاہل کو تعلیم دو اور عالم سے تبادلہ خیالات کرو۔ اور دیکھو لوگوں تک پیغام پہنچانے کیلئے تمہاری زبان کے سوا کوئی سفیر نہ ہونا چاہیے، اور تمہارے چہرے کے سوا کوئی تمہارا دربان نہ ہونا چاہیے، اور کسی ضرورت مند کو اپنی ملاقات سے محروم نہ کرنا۔ اس لئے کہ پہلی دفعہ اگر حاجت تمہارے دروازوں سے ناکام واپس کر دی گئی تو بعد میں اسے پورا کر دینے سے بھی تمہاری تعریف نہ ہو گی۔

وَ انْظُرْ اِلٰى مَا اجْتَمَعَ عِنْدَکَ مِنْ مَالِ اللّٰهِ فَاصْرِفْهُ اِلٰى مَنْ قِبَلَکَ، مِنْ ذَوِی الْعِیَالِ وَ الْمَجَاعَةِ، مُصِیْبًۢا بِهٖ مَوَاضِعَ الْفَاقَةِ وَ الْخَلَّاتِ، وَ مَا فَضَلَ عَنْ ذٰلِکَ فَاحْمِلْهُ اِلَیْنَا، لِنَقْسِمَهٗ فِیْمَنْ قِبَلَنَا.

اور دیکھو تمہارے پاس جو اللہ کا مال جمع ہو اُسے اپنی طرف کے عیال داروں اور بھوکے ننگوں تک پہنچاؤ۔ اس لحاظ کے ساتھ کہ وہ استحقاق اور احتیاج کے صحیح مرکزوں تک پہنچے اور جو اس سے بچ رہے اسے ہماری طرف بھیج دو، تاکہ ہم اسے ان لوگوں میں بانٹیں جو ہمارے گرد جمع ہیں۔

وَ مُرْ اَهْلَ مَکَّةَ اَنْ لَّا یَاْخُذُوْا مِنْ سَاکِنٍ اَجْرًا، فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ یَقُوْلُ: ﴿سَوَآءَ ِ۟الْعَاکِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ ؕ ﴾، فَالْعَاکِفُ الْمُقِیْمُ بِهٖ، وَ الْبَادِی الَّذِیْ یَحُجُّ اِلَیْهِ مِنْ غَیْرِ اَهْلِهٖ، وَفَّقَنَا اللّٰهُ وَ اِیَّاکُمْ لِمَحَابِّهٖ، وَ السَّلَامُ.

اور مکہ والوں کو حکم دو کہ وہ باہر سے آ کر ٹھہرنے والوں سے کرایہ نہ لیں، کیونکہ اللہ سبحانہ فرماتا ہے کہ: ’’اس میں عاکف اور بادی یکساں ہیں‘‘ ۔ ’’عاکف ‘‘ وہ ہے جو اس میں مقیم ہو اور ’’بادی ‘‘ وہ ہے جو باہر سے حج کیلئے آیا ہو۔ خداوند عالم ہمیں اور تمہیں پسندیدہ کاموں کی توفیق دے۔والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:18
عون نقوی

اِلٰى سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ رَحِمَهُ اللّٰهُ قَبْلَ اَیَّامِ خِلَافَتِهٖ:

اپنے زمانۂ خلافت سے قبل سلمان فارسی رحمہ اللہ کے نام سے تحریر فرمایا تھا:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْیَا مَثَلُ الْحَیَّةِ، لَیِّنٌ مَّسُّهَا، قَاتِلٌ سَمُّهَا، فَاَعْرِضْ عَمَّا یُعْجِبُکَ فِیْهَا، لِقِلَّةِ مَا یَصْحَبُکَ مِنْهَا، وَ ضَعْ عَنْکَ هُمُوْمَهَا، لِمَا اَیْقَنْتَ مِنْ فِرَاقِهَا وَ تَصَرُّفِ حَالَاتِهَا. وَ کُنْ اٰنَسَ مَا تَکُوْنُ بِهَاۤ اَحْذَرَ مَا تَکُوْنُ مِنْهَا، فَاِنَّ صَاحِبَهَا کُلَّمَا اطْمَاَنَّ فِیْهَا اِلٰى سُرُوْرٍ، اَشْخَصَتْهُ عَنْهُ اِلٰى مَحْذُوْرٍ، اَوْ اِلٰۤى اِیْنَاسٍ اَزَالَتْهُ عَنْهُ اِلٰۤى اِیْحَاشٍ، وَ السَّلَامُ.

دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کا زہر مہلک ہوتا ہے۔ لہٰذا دنیا میں جو چیزیں تمہیں اچھی معلوم ہوں ان سے منہ موڑے رہنا، کیونکہ ان میں سے تمہارے ساتھ جانے والی چیزیں بہت کم ہیں۔ اس کی فکروں کو اپنے سے دور رکھو، کیو نکہ تمہیں اس کے جدا ہو جانے اور اس کے حالات کے پلٹا کھانے کا یقین ہے۔ اور جس وقت اس سے بہت زیادہ وابستگی محسوس کرو اسی وقت اس سے زیادہ پریشان ہو، کیونکہ جب بھی دنیا دار اس کی مسرت پر مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ اسے سختیوں میں جھونک دیتی ہے، یا اس کے انس پر بھروسا کر لیتا ہے تو وہ اس کے انس کو وحشت و ہراس سے بدل دیتی ہے۔

https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:17
عون نقوی

اِلَی الْحَارِثِ الْهَمْدَانِیِّ

حارث ہمدانی کے نام

وَ تَمَسَّکْ بِحَبْلِ الْقُرْاٰنِ وَ انْتَصِحْهُ، وَ اَحِلَّ حَلَالَهٗ وَ حَرِّمْ حَرَامَهٗ، وَ صَدِّقْ بِمَا سَلَفَ مِنَ الْحَقِّ، وَ اعْتَبِرْ بِمَا مَضٰى مِنَ الدُّنْیَا مَا بَقِیَ مِنْهَا، فَاِنَّ بَعْضَهَا یُشْبِهُ بَعْضًا، وَ اٰخِرَهَا لَاحِقٌۢ بِاَوَّلِهَا، وَ کُلُّهَا حَآئِلٌ مُفَارِقٌ.

قرآن کی رسی مضبوطی سے تھام لو، اس سے پند و نصیحت حاصل کرو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو، اور گزشتہ حق کی باتوں کی تصدیق کرو، اور گزری ہوئی دنیا سے باقی دنیا کے بارے میں عبرت حاصل کر و، کیو نکہ اس کا ہر دور دوسرے دور سے ملتا جلتا ہے اور اس کا آخر بھی اپنے اوّل سے جا ملنے والا ہے، اور یہ دنیا سب کی سب فنا ہونے والی اور بچھڑ جانے والی ہے۔

وَ عَظِّمِ اسْمَ اللّٰهِ اَنْ تَذْکُرَهٗۤ اِلَّا عَلٰى حَقٍّ، وَ اَکْثِرْ ذِکْرَ الْمَوْتِ وَ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَ لَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ اِلَّا بِشَرْطٍ وَّثِیْقٍ، وَ احْذَرْ کُلَّ عَمَلٍ یَّرْضَاهُ صَاحِبُهٗ لِنَفْسِهٖ وَ یَکْرَهُ لِعَامَّةِ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ احْذَرْ کُلَّ عَمَلٍ یُّعْمَلُ بِهٖ فِی السِّرِّ وَ یُسْتَحٰى مِنْهُ فِی الْعَلَانِیَةِ، وَ احْذَرْ کُلَّ عَمَلٍ اِذَا سُئِلَ عَنْهُ صَاحِبُهٗ، اَنْکَرَهٗ اَوِ اعْتَذَرَ مِنْهُ.

دیکھو! اللہ کی عظمت کے پیش نظر حق بات کے علاوہ اس کے نام کی قسم نہ کھاؤ۔ موت اور موت کے بعد کی منزل کو بہت زیادہ یاد کرو۔ موت کے طلب گار نہ بنو مگر قابل اطمینان شرائط کے ساتھ، اور ہر اس کام سے بچو جو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہو اور عام مسلمانوں کیلئے اسے ناپسند کرتا ہو۔ ہر اس کام سے دور رہو جو چوری چھپے کیا جاسکتا ہو مگر علانیہ کرنے میں شرم دامن گیر ہوتی ہو، اور ہر اس فعل سے کنارہ کش رہو کہ جب اس کے مرتکب ہونے والے سے جواب طلب کیا جائے تو وہ خود بھی اسے بُرا قرار دے یا معذرت کرنے کی ضرورت پڑے۔

وَ لَا تَجْعَلْ عِرْضَکَ غَرَضًا لِّنِبَالِ الْقَوْلِ، وَ لَا تُحَدِّثِ النَّاسَ بِکُلِّ مَا سَمِعْتَ بِهٖ، فَکَفٰى بِذٰلِکَ کَذِبًا، وَ لَا تَرُدَّ عَلَى النَّاسِ کُلَّ مَا حَدَّثُوْکَ بِهٖ، فَکَفٰى بِذٰلِکَ جَهْلًا.

اپنی عزت و آبر و کو چہ میگوئیوں کے تیروں کا نشانہ نہ بناؤ، جو سنو اسے لوگوں سے واقعہ کی حیثیت سے بیان نہ کرتے پھرو کہ جھوٹا قرار پانے کیلئے اتنا ہی کافی ہو گا، اور لوگوں کو ان کی ہر بات میں جھٹلانے بھی نہ لگو کہ یہ پوری پوری جہالت ہے۔

وَ اکْظِمِ الْغَیْظَ، وَ تَجَاوَزْ عِنْدَ الْمَقْدِرَةِ، وَ احْلُمْ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَ اصْفَحْ مَعَ الدَّوْلَةِ تَکُنْ لَّکَ الْعَاقِبَةُ.

غصہ کو ضبط کر و، اور اختیار و اقتدار کے ہوتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لو، اور غصہ کے وقت بردباری اختیار کرو اور دولت و اقتدار کے ہوتے ہوئے معاف کرو تو انجام کی کامیابی تمہارے ہاتھ رہے گی۔

وَ اسْتَصْلِحْ کُلَّ نِعْمَةٍ اَنْعَمَهَا اللّٰهُ عَلَیْکَ، وَ لَا تُضِیْعَنَّ نِعْمَةً مِّنْ نِّعَمِ اللّٰهِ عِنْدَکَ، وَ لْیُرَ عَلَیْکَ اَثَرُ مَاۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ بِهٖ عَلَیْکَ.

اور اللہ نے جو نعمتیں تمہیں بخشی ہیں (ان پر شکر بجا لاتے ہوئے) ان کی بہبودی چاہو اور اس کی دی ہوئی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو ضائع نہ کرو، اور اس نے جو انعامات تمہیں بخشے ہیں ان کا اثر تم پر ظاہر ہونا چاہیے۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ اَفْضَلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَفْضَلُهُمْ تَقْدِمَةً مِّنْ نَّفْسِهٖ وَ اَهْلِهٖ وَ مَالِهٖ، فَاِنَّکَ مَا تُقَدِّمْ مِنْ خَیْرٍ یَّبْقَ لَکَ ذُخْرُهٗ ،وَ مَا تُؤَخِّرْ یَکُنْ لِّغَیْرِکَ خَیْرُهٗ، وَ احْذَرْ صَحَابَةَ مَنْ یَّفِیْلُ رَاْیُهٗ، وَ یُنْکَرُ عَمَلُهٗ، فَاِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبَرٌۢ بِصَاحِبِهٖ.

اور یاد رکھو کہ ایمان والوں میں سب سے افضل وہ ہے جو اپنی طرف سے اور اپنے اہل و عیال اور مال کی طرف سے خیرات کرے، کیونکہ تم آخرت کیلئے جو کچھ بھی بھیج دو گے وہ ذخیرہ بن کر تمہارے لئے محفوظ رہے گا، اور جو پیچھے چھوڑ جاؤ گے اس سے دوسرے فائدہ اٹھائیں گے۔ اور اس آدمی کی صحبت سے بچو جس کی رائے کمزور اور افعال برے ہوں، کیونکہ آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے۔

وَ اسْکُنِ الْاَمْصَارَ الْعِظَامَ، فَاِنَّهَا جِمَاعُ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ احْذَرْ مَنَازِلَ الْغَفْلَةِ وَ الْجَفَآءِ، وَ قِلَّةِ الْاَعْوَانِ عَلَى طَاعَةِ اللّٰهِ، وَ اقْصُرْ رَاْیَکَ عَلٰى مَا یَعْنِیْکَ، وَ اِیَّاکَ وَ مَقَاعِدَ الْاَسْوَاقِ، فَاِنَّهَا مَحَاضِرُ الشَّیْطٰنِ، وَ مَعَارِیْضُ الْفِتَنِ، وَ اَکْثِرْ اَنْ تَنْظُرَ اِلٰى مَنْ فُضِّلْتَ عَلَیْهِ، فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ اَبْوَابِ الشُّکْرِ.

بڑے شہروں میں رہائش رکھو، کیونکہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی مرکز ہوتے ہیں۔ غفلت اور بے وفائی کی جگہوں اور ان مقامات سے کہ جہاں اللہ کی اطاعت میں مددگاروں کی کمی ہو،پرہیز کرو، اور صرف مطلب کی باتوں میں اپنی فکر پیمائی کو محدود رکھو، اور بازاری اڈوں میں اٹھنے بیٹھنے سے الگ رہو۔ کیونکہ یہ شیطان کی بیٹھکیں اور فتنوں کی آماجگاہیں ہوتی ہیں اور جو لوگ تم سے پست حیثیت کے ہیں انہی کو زیادہ دیکھا کرو، کیونکہ یہ تمہارے لئے شکر کا ایک راستہ ہے۔

وَ لَا تُسَافِرْ فِیْ یَوْمِ جُمُعَةٍ حَتّٰى تَشْهَدَ الصَّلٰوةَ، اِلَّا فَاصِلًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ، اَوْ فِیْۤ اَمْرٍ تُعْذَرُ بِهٖ.

جمعہ کے دن نماز میں حاضر ہوئے بغیر سفر نہ کرنا، مگر یہ کہ خدا کی راہ میں جہاد کیلئے جانا ہو یا کوئی معذوری درپیش ہو۔

وَ اَطِعِ اللّٰهَ فِیْ جَمِیْعِ اُمُوْرِکَ، فَاِنَّ طَاعَةَ اللّٰهِ فَاضِلَةٌ عَلٰى مَا سِوَاهَا، وَ خَادِعْ نَفْسَکَ فِی الْعِبَادَةِ، وَ ارْفُقْ بِهَا، وَ لَا تَقْهَرْهَا، وَ خُذْ عَفْوَهَا وَ نَشَاطَهَا، اِلَّا مَا کَانَ مَکْتُوْبًا عَلَیْکَ مِنَ الْفَرِیْضَةِ، فَاِنَّهٗ لَا بُدَّ مِنْ قَضَآئِهَا وَ تَعَاهُدِهَا عِنْدَ مَحَلِّهَا.

اور اپنے تمام کاموں میں اللہ کی اطاعت کرو۔ کیونکہ اللہ کی اطاعت دوسری چیزوں پر مقدم ہے۔ اپنے نفس کو بہانے کر کر کے عبادت کی راہ پر لاؤ اور اس کے ساتھ نرم رویہ رکھو، دباؤ سے کام نہ لو۔ جب وہ دوسری فکروں سے فارغ البال اور چونچال ہو اس وقت اس سے عبادت کا کام لو۔ مگر جو واجب عبادتیں ہیں ان کی بات دوسری ہے۔ انہیں تو بہرحال ادا کرنا ہے اور وقت پر بجا لانا ہے۔

وَ اِیَّاکَ اَنْ یَّنْزِلَ بِکَ الْمَوْتُ وَ اَنْتَ اٰبِقٌ مِّنْ رَبِّکَ فِیْ طَلَبِ الدُّنْیَا، وَ اِیَّاکَ وَ مُصَاحَبَةَ الْفُسَّاقِ، فَاِنَّ الشَّرَّ بِالشَّرِّ مُلْحَقٌ، وَ وَقِّرِ اللّٰهَ، وَ اَحْبِبْ اَحِبَّآءَهُ، وَ احْذَرِ الْغَضَبَ، فَاِنَّهٗ جُنْدٌ عَظِیْمٌ مِنْ جُنُوْدِ اِبْلِیْسَ، وَ السَّلَامُ.

اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ موت تم پر آ پڑے اس حال میں کہ تم اپنے پروردگار سے بھاگے ہوئے دنیا طلبی میں لگے ہو، اور فاسقوں کی صحبت سے بچے رہنا، کیونکہ برائی برائی کی طرف بڑھا کرتی ہے اور اللہ کی عظمت و توقیر کا خیال رکھو، اور اس کے دوستوں سے دوستی کرو اور غصے سے ڈرو، کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 December 22 ، 18:52
عون نقوی

اِلٰى سَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ الْاَنْصَارِیِّ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلَى الْمَدِیْنَةِ فِیْ مَعْنٰى قَوْمٍ مِّنْ اَهْلِهَا لَحِقُوْا بِمُعَاوِیَةَ:

والی مدینہ سہل ابن حنیف انصاری کے نام مدینے کے کچھ باشندوں کے بارے میں جو معاویہ سے جا کر مل گئے تھے۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَلَغَنِیْۤ اَنَّ رِجَالًا مِّمَّنْ قِبَلَکَ یَتَسَلَّلُوْنَ اِلٰى مُعَاوِیَةَ، فَلَا تَاْسَفْ عَلٰى مَا یَفُوْتُکَ مِنْ عَدَدِهِمْ، وَ یَذْهَبُ عَنْکَ مِنْ مَّدَدِهِمْ، فَکَفٰى لَهُمْ غَیًّا، وَ لَکَ مِنْهُمْ شَافِیًا، فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدٰى وَ الْحَقِّ، وَ اِیْضَاعُهُمْ اِلَى الْعَمٰى وَ الْجَهْلِ.

مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے یہاں کے کچھ لوگ چپکے چپکے معاویہ کی طرف کھسک رہے ہیں۔ تم اس تعداد پر کہ جو نکل گئی ہے اور اس کمک پر کہ جو جاتی رہی ہے ذرا افسوس نہ کر و۔ ان کے گمراہ ہو جا نے اور تمہارے اس قلق و اندوہ سے چھٹکارا پانے کیلئے یہی بہت ہے کہ وہ حق و ہدایت کی طرف سے بھاگ رہے ہیں اور جہالت و گمراہی کی طرف دوڑ رہے ہیں۔

وَ اِنَّمَا هُمْ اَهْلُ دُنْیَا، مُقْبِلُوْنَ عَلَیْهَا وَ مُهْطِعُوْنَ اِلَیْهَا، قَدْ عَرَفُوا الْعَدْلَ، وَ رَاَوْهُ وَ سَمِعُوْهُ وَ وَعَوْهُ، وَ عَلِمُوْۤا اَنَّ النَّاسَ عِنْدَهٗ فِی الْحَقِّ اُسْوَةٌ، فَهَرَبُوْۤا اِلَى الْاَثَرَةِ، فَبُعْدًا لَّهُمْ وَ سُحْقًا.

یہ دنیا دار ہیں جو دنیا کی طرف جھک رہے ہیں اور اسی کی طرف تیزی سے لپک رہے ہیں۔ انہوں نے عدل کو پہچانا، دیکھا،سنا اور محفوظ کیا اور اسے خوب سمجھ لیا کہ یہاں حق کے اعتبار سے سب برابر سمجھے جاتے ہیں، لہٰذا وہ ادھر بھاگ کھڑے ہوئے جہاں جنبہ داری و تخصیص برتی جاتی ہے۔

اِنَّهُمْ وَ اللّٰهِ! لَمْ یَنْفِرُوْا مِنْ جَوْرٍ وَّ لَمْ یَلْحَقُوْا بِعَدْلٍ، وَ اِنَّا لَـنَطْمَعُ فِیْ هٰذَا الْاَمْرِ اَنْ یُذَلِّلَ اللّٰهُ لَـنَا صَعْبَهٗ، وَ یُسَهِّلَ لَنَا حَزْنَهٗ، اِنْ شَآءَ اللّٰهُ، وَ السَّلَامُ.

خدا کی قسم! وہ ظلم سے نہیں بھاگے اور عدل سے جاکر نہیں چمٹے، اور ہم امیدوار ہیں کہ اللہ اس معاملہ کی ہر سختی کو آسان اور اس سنگلاخ زمین کو ہمارے لئے ہموار کرے گا، ان شاء اللہ۔ والسلام

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 December 22 ، 18:49
عون نقوی