بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

یَذْکُرُ فِیْهَا بَدِیْعَ خِلْقَةِ الْخُفَّاشِ

اس میں چمگادڑ [۱] کی عجیب و غریب خلقت کا ذکر فرمایاہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی انْحَسَرَتِ الْاَوْصَافُ عَنْ کُنْهِ مَعْرِفَتِهٖ، وَ رَدَعَتْ عَظَمَتُهُ الْعُقُوْلَ، فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغًا اِلٰی بُلُوْغِ غَایَةِ مَلَکُوْتِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی معرفت کی حقیقت ظاہر کرنے سے اوصاف عاجز ہیں اور اس کی عظمت و بلندی نے عقلوں کو روک دیا ہے، جس سے وہ اس کی سرحد فرمانروائی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتیں۔

هُوَ اللهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ، اَحَقُّ وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُوْنُ، لَمْ تَبْلُغْهُ الْعُقُوْلُ بِتَحْدِیْدٍ فَیَکُوْنَ مُشَبَّهًا، وَ لَمْ تَقَعْ عَلَیْهِ الْاَوْهَامُ بِتَقْدِیْرٍ فَیَکُوْنَ مُمَثَّلًا.

وہ اللہ اقتدار کا مالک ہے اور (سراپا) حق اور (حق کا) ظاہر کرنے والا ہے۔ وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکارا ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔ عقلیں اس کی حد بندی کر کے اس تک نہیں پہنچ سکتیں کہ وہ دوسروں سے مشابہ ہو جائے اور نہ وہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی چیز کے مانند ہو جائے۔

خَلَقَ الْخَلْقَ عَلٰی غَیْرِ تَمْثِیْلٍ، وَ لَا مَشُوْرَةِ مُشِیْرٍ، وَ لَا مَعُوْنَةِ مُعِیْنٍ، فَتَمَّ خَلْقُهٗ بِاَمْرِهٖ، وَ اَذْعَنَ لِطَاعَتِهٖ، فَاَجَابَ وَ لَمْ یُدَافِعْ، وَ انْقَادَ وَ لَمْ یُنَازِعْ.

اس نے بغیر کسی نمونہ و مثال کے اور بغیر کسی مشیر کار کے مشورہ کے اور بغیر کسی معاون کی امداد کے مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس کے حکم سے مخلوق اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اس کی اطاعت کیلئے جھک گئی اور بلا توقف لبیک کہی اور بغیر کسی نزاع و مزاحمت کے اس کی مطیع ہو گئی۔

وَ مِنْ لَّطَآئِفِ صَنْعَتِهٖ، وَ عَجَآئِبِ خِلْقَتِهٖ، مَاۤ اَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِکْمَةِ فِیْ هٰذِهِ الْخَفَافِیْشِ الَّتِیْ یَقْبِضُهَا الضِّیَآءُ الْبَاسِطُ لِکُلِّ شَیْءٍ، وَ یَبْسُطُهَا الظَّلَامُ الْقَابِضُ لِکُلِّ حَیٍّ، وَ کَیْفَ عَشِیَتْ اَعْیُنُهَا عَنْ اَنْ تَسْتَمِدَّ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِیْٓئَةِ نُوْرًا تَهْتَدِیْ بِهٖ فِیْ مَذَاهِبِهَا، وَ تَتَّصِلُ بِعَلَانِیَةِ بُرْهَانِ الشَّمْسِ اِلٰی مَعَارِفِهَا.

اس کی صنعت کی لطافتوں اور خلقت کی عجیب و غریب کار فرمائیوں میں کیا کیا گہری حکمتیں ہیں کہ جو اس نے ہمیں چمگادڑوں کے اندر دکھائی ہیں کہ جن کی آنکھوں کو (دن کا) اجالا سکیڑ دیتا ہے، حالانکہ وہ تمام آنکھوں میں روشنی پھیلانے والا ہے اور اندھیرا اُن کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے،حالانکہ وہ ہر زندہ شے کی آنکھوں پر نقاب ڈالنے والا ہے اور کیونکر چمکتے ہوئے سورج میں ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کہ وہ اس کی نور پاش شعاعوں سے مدد لے کر اپنے راستوں پر آ جا سکیں اور نورِ آفتاب کے پھیلاؤ میں اپنی جانی پہچانی ہوئی چیزوں تک پہنچ سکیں۔

وَ رَدَعَهَا بِتَلَاْلُؤِ ضِیَآئِهَا عَنِ الْمُضِیِّ فِیْ سُبُحَاتِ اِشْرَاقِهَا، وَ اَکَنَّهَا فِیْ مَکَامِنِهَا عَنِ الذَّهَابِ فِیْ بَلَجِ ائْتِلَاقِهَا، فَهِیَ مُسْدَلَةُ الْجُفُوْنِ بِالنَّهَارِ عَلٰی حِدَاقِهَا، وَ جَاعِلَةُ اللَّیْلِ سِرَاجًا تَسْتَدِلُّ بِهٖ فِی الْتِمَاسِ اَرْزَاقِهَا، فَلَا یَرُدُّ اَبْصَارَهَاۤ اِسْدَافُ ظُلْمَتِهٖ، وَ لَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْمُضِیِّ فِیْهِ لِغَسَقِ دُجُنَّتِهٖ. فَاِذَاۤ اَلْقَتِ الشَّمْسُ قِنَاعَهَا، وَ بَدَتْ اَوْضَاحُ نَهَارِهَا، وَ دَخَلَ مِنْ اِشْرَاقِ نُوْرِهَا عَلَی الضِّبَابِ فِیْ وِجَارِهَا، اَطْبَقَتِ الْاَجْفَانَ عَلٰی مَاٰقِیْهَا، وَ تَبَلَّغَتْ بِمَا اکْتَسَبَتْہُ مِنَ الْمَعَاشِ فِیْ ظُلَمِ لَیَالِیْهَا.

اس نے تو اپنی ضوپاشیوں کی تابش سے انہیں نور کی تجلّیوں میں بڑھنے سے روک دیا ہے اور ان کے پوشیدہ ٹھکانوں میں انہیں چھپا دیا ہے کہ وہ اس کی روشنی کے اجالوں میں آ سکیں۔ دن کے وقت تو وہ اس طرح ہوتی ہیں کہ ان کی پلکیں جھلک کر آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور تاریکی شب کو اپنا چراغ بنا کر رزق کے ڈھونڈنے میں اس سے مدد لیتی ہیں۔ رات کی تاریکیاں ان کی آنکھوں کو دیکھنے سے نہیں روکتیں اور نہ اس کی گھٹا ٹوپ اندھیاریاں راہ پیمائیوں سے باز رکھتی ہیں۔ مگر جب آفتاب اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے اور دن کے اجالے ابھر آتے ہیں اور سورج کی کرنیں سوسمار کے سوراخ کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں تو وہ اپنی پلکوں کو آنکھوں پر جھکا لیتی ہیں اور رات کی تیرگیوں میں جو معاش حاصل کی ہے اسی پر اپنا وقت پورا کر لیتی ہیں۔

فَسُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ اللَّیْلَ لَهَا نَهَارًا وَّ مَعَاشًا، وَ النَّهَارَ سَکَنًا وَّ قَرَارًا، وَ جَعَلَ لَهَاۤ اَجْنِحَةً مِّنْ لَّحْمِهَا تَعْرُجُ بِهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ اِلَی الطَّیَرَانِ، کَاَنَّهَا شَظَایَا الْاٰذَانِ، غَیْرَ ذَوَاتِ رِیْشٍ وَّ لَا قَصَبٍ، اِلَّاۤ اَنَّکَ تَرٰی مَوَاضِعَ الْعُرُوْقِ بَیِّنَةً اَعْلَامًا، لَهَا جَنَاحَانِ لَمَّا یَرِقَّا فَیَنْشَقَّا، وَ لَمْ یَغْلُظَا فَیَثْقُلَا. تَطِیْرُ وَ وَلَدُهَا لَاصِقٌۢ بِهَا لَاجِئٌ اِلَیْهَا، یَقَعُ اِذَا وَقَعَتْ، وَ یَرْتَفِعُ اِذَا ارْتَفَعَتْ، لَا یُفَارِقُهَا حَتّٰی تَشْتَدَّ اَرْکَانُهٗ، وَ یَحْمِلَهٗ لِلنُّهُوْضِ جَنَاحُهٗ، وَ یَعْرِفَ مَذَاهِبَ عَیْشِهٖ، وَ مَصَالِحَ نَفْسِهٖ. فَسُبْحَانَ الْبَارِئِ لِکُلِّ شَیْءٍ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَیْرِهٖ!.

سبحان اللہ! کہ جس نے رات ان کے کسب ِمعاش کیلئے اور دن آرام و سکون کیلئے بنایا ہے اور ان کے گوشت ہی سے ان کے پر بنائے ہیں اور جب اُڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تو انہی پروں سے اونچی ہوتی ہیں۔ گویا کہ وہ کانوں کی لویں ہیں کہ نہ ان میں پر و بال ہیں اور نہ کریاں، مگر تم ان کی رگوں کی جگہ کو دیکھو گے کہ اس کے نشان ظاہر ہیں اور اس میں دو پر سے لگے ہوئے ہیں کہ جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے موٹے ہیں کہ بوجھل ہو جائیں (کہ اڑا نہ جا سکے)۔ وہ اڑتی ہیں تو بچے ان سے چمٹے رہتے ہیں اور ان کی پناہ میں ہوتے ہیں۔ جب وہ نیچے کی طرف جھکتی ہیں تو بچے بھی جھک پڑتے ہیں اور جب وہ اونچی ہوتی ہیں تو بچے بھی اونچے ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک الگ نہیں ہوتے جب تک ان کے اعضاء میں مضبوطی نہ آ جائے اور بلند ہونے کیلئے ان کے پَر (ان کا بوجھ) اٹھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ وہ اپنی زندگی کی راہوں اور اپنی مصلحتوں کو پہچانتے ہیں۔ پاک ہے وہ خدا کہ جس نے بغیر کسی نمونہ کے کہ جو اس سے پہلے کسی نے بنایا ہو، ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔


’’چمگادڑ‘‘ ایک عجیب و غریب پرندہ ہے جو انڈے دینے کے بجائے بچے دیتا ہے، دانہ بھرانے کے بجائے دودھ پلاتا اور بغیر پروں کے پرواز کرتا ہے۔ اس کی انگلیاں جھلی دار ہوتی ہیں جن سے پروں کا کام لیتا ہے۔ ان پروں کا پھیلاؤ ڈیڑھ انچ سے پانچ فٹ تک ہوتا ہے۔ یہ اپنے پیروں کے بل چل پھر نہیں سکتا، اس لئے اڑ کر روزی حاصل کرتا اور درختوں اور چھتوں میں الٹا لٹکا رہتا ہے۔ دن کی روشنی میں اسے کچھ نظر نہیں آتا اس لئے غروب آفتاب کے بعد ہی پرواز کرتا ہے اور کیڑے مکوڑے اور رات کو اڑنے والے پروانے کھاتا ہے۔ چمگادڑوں کی ایک قسم پھل کھاتی ہے اور بعض گوشت خوار ہوتی ہیں جو مچھلی کا شکار کرتی ہیں۔ شمالی امریکہ کے تاریک غاروں میں خونخوار چمگادڑیں بھی بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ بڑی خطرناک اور مہلک ہوتی ہیں۔ ان کی خوراک انسانی و حیوانی خون ہے۔ جب یہ کسی انسان کا خون چوستی ہیں تو انسانی خون میں زہر سرایت کر جاتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ہلکا سا بخار اور درد سر ہوتا ہے پھر سانس کی نالی متورم ہو جاتی ہے، کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے، جسم کا نیچے والا حصہ بے حس و حرکت ہو جاتا ہے۔ آخر سانس کی آمد و شد رک جاتی ہے اور وہ دم توڑ دیتا ہے۔ یہ خوں آشام چمگادڑیں اس وقت حملہ کرتی ہیں جب آدمی بے ہوش ہو یا سو رہا ہو۔ جاگتے میں حملہ کم ہوتا ہے اور خون چوستے وقت درد کا احساس تک نہیں ہوتا۔

چمگادڑ کی آنکھ خاص قسم کی ہوتی ہے جو صرف تاریکی ہی میں کام کر سکتی ہے اور دن کے اجالے میں کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آنکھ کی پتلی کا پھیلاؤ آنکھ کی وسعت کے مقابلہ میں بڑا ہوتا ہے اور تیز روشنی میں سمٹ جاتا ہے اور کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑی طاقت کے کیمرہ سے کھلی روشنی میں تصویر اتاری جائے تو روشنی کی چھوٹ سے تصویر دھندلی اترتی ہے۔ اسی لئے کیمرہ کے شیشہ کا سائز جو بمنزلہ آنکھ کی پتلی کے ہوتا ہے چھوٹا کر دیا جاتا ہے تا کہ روشنی کی چکا چوند کم ہو جائے اور تصویر صاف اترے۔ اگر چمگادڑ کی پتلی کا پھیلاؤ آنکھ کے مقابلہ میں کم ہوتا تو وہ بھی دوسرے جانوروں کی طرح دن کی روشنی میں دیکھ سکتی تھی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:34
عون نقوی

لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ وَ قَدْ سَئَلَهٗ: کَیْفَ دَفَعَکُمْ قَوْمُکُمْ عَنْ هٰذَا الْمَقَامِ وَ اَنْتُمْ اَحَقُّ بِهٖ؟ فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے آپؑ کو اس منصب سے الگ رکھا، حالانکہ آپؑ اس کے زیادہ حقدار تھے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:

یاۤ اَخَا بَنِیْۤ اَسَدٍ! اِنَّکَ لَقَلِقُ الْوَضِیْنِ، تُرْسِلُ فِیْ غَیْرِ سَدَدٍ، وَ لَکَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وَ حَقُّ الْمَسْئَلَةِ، وَ قَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ: اَمَّا الْاِسْتِبْدَادُ عَلَیْنَا بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ نَحْنُ الْاَعْلَوْنَ نَسَبًا، وَ الْاَشَدُّوْنَ بِالرَّسُوْلِ ﷺ نَوْطًا، فَاِنَّهَا کَانَتْ اَثَرَةً شَحَّتْ عَلَیْهَا نُفُوْسُ قَوْمٍ، وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفوْسُ اٰخَرِیْنَ، وَ الْحَکَمُ اللهُ، وَ الْمَعُوْدُ اِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ.

اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اور بے راہ ہو کر چل نکلے ہو۔ (اس کے باوجود) چونکہ ہمیں تمہاری قرابت کا پاس و لحاظ ہے اور تمہیں سوال کرنے کا حق بھی ہے تو اب دریافت کیا ہے تو پھر جان لو کہ (ان لوگوں کا) اس منصب پر خود اختیاری سے جم جانا، باوجودیکہ ہم نسب کے اعتبار سے بلند تھے اور پیغمبر ﷺ سے رشتہ قرابت بھی قوی تھا ان کی یہ خود غرضی تھی جس میں کچھ لوگوں کے نفس اس پر مر مٹے تھے اور کچھ لوگوں کے نفسوں نے اس کی پروا تک نہ کی اور فیصلہ کرنے والا اللہ ہے اور اس کی طرف بازگشت قیامت کے روز ہے۔ (اس کے بعد حضرتؑ نے بطور تمثیل یہ مصرع پڑھا:)

“وَ دَعْ عَنْکَ نَهْبًا صِیْحَ فِیْ حَجَرَاتِهٖ”

’’چھوڑو اس لوٹ مار کے ذکر کو کہ جس کا چاروں طرف شور مچا ہوا تھا‘‘ [۱]

وَ هَلُمَّ الْخَطْبَ فِی ابْنِ اَبِیْ سُفْیَانَ، فَلَقَدْ اَضْحَکَنِی الدَّهْرُ بَعْدَ اِبْکَآئِهٖ، وَ لَا غَرْوَ وَاللهِ، فَیَا لَهٗ خَطْبًا یَّسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ، وَ یُکْثِرُ الْاَوَدَ! حَاوَلَ الْقَوْمُ اِطْفَآءَ نُوْرِ اللهِ مِنْ مِّصْبَاحِهٖ، وَ سَدَّ فَوَّارِهٖ مِنْ یَّنْۢبُوْعِهٖ، وَ جَدَحُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ شِرْبًا وَّ بِیْٓـئًا، فَاِنْ تَرْتَفِـعْ عَنَّا وَ عَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوٰی، اَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلٰی مَحْضِهٖ، وَ اِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی، ﴿فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُکَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۝﴾.

اب تو اس مصیبت کو دیکھو کہ جو ابو سفیان کے بیٹے کی وجہ سے آئی ہے۔ مجھے تو (اس پر) زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسایا ہے اور زمانہ کی (موجودہ روش سے) خدا کی قسم! کوئی تعجب نہیں ہے۔ اس مصیبت پر تعجب ہوتا ہے کہ جس سے تعجب کی حد ہو گئی ہے اور جس نے بے راہ رویوں کو بڑھا دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اللہ کے روشن چراغ کا نور بجھانا چاہا اور اس کے سرچشمہ (ہدایت کے) فوارے کو بند کرنے کے درپے ہوئے اور میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کی۔ اگر اس ابتلا کی دشواریاں ہمارے اور ان کے درمیان سے اٹھ جائیں تو میں انہیں خالص حق کے راستے پر لے چلوں گا اور اگر کوئی اور صورت ہو گئی تو پھر ان پر حسرت و افسوس کرتے ہوئے تمہارا دم نہ نکلے۔ اس لئے کہ یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔


یہ عرب کے مشہور شاعر ’’امرأ القیس‘‘ کے ایک شعر کا مصرع ہے جس کا دوسرا مصرع یہ ہے:
وَ هاتِ حَدِیْثًا مَّا حَدِیْثُ الرَّوَاحِل
اس شعر کا واقعہ یہ ہے کہ جب امرأ القیس کا باپ حجر کندی مارا گیا تو وہ قبائل عرب میں چکر لگاتا تھا تا کہ ان کی مدد سے اپنے باپ کا قصاص لے سکے۔ چنانچہ بنی جدیلہ کے ایک شخص طریف کے یہاں چند دن ٹھہرا اور پھر وہاں سے اپنے کو غیر محفوظ سمجھ کر چل دیا اور خالد ابن سدوس کے ہاں جا اترا۔ اس دوران میں بنی جدیلہ کا ایک شخص باعث ابن خویص اس کا اونٹ ہنکا لایا۔ امرأ القیس نے اپنے میزبان سے اس کا شکوہ کیا تو اس نے کہا کہ تم اپنی اونٹنیاں میرے ساتھ کر دو میں تمہارے اونٹ ان سے واپس لائے دیتا ہوں۔ چنانچہ خالد ان کے ہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم نے میرے مہمان کے اونٹوں کو لوٹ لیاہے تمہیں ان اونٹوں کو واپس کر دینا چاہیے۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ نہ تمہارا مہمان ہے اور نہ تمہاری زیر حمایت ہے۔ خالد نے قسم کھا کر کہا کہ واقعی میرا مہمان ہے اور یہ اس کی اونٹنیاں میرے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ پھر ہم وہ اونٹ واپس دئیے دیتے ہیں۔ کہا تو یہ، لیکن ان اونٹوں کو واپس کرنے کے بجائے ان اونٹنیوں کو بھی ہنکا کر لے گئے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ ان لوگوں نے وہ اونٹ خالد کے روانہ کر دئیے تھے اور اس نے امرأ القیس کو دینے کے بجائے خود ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب امرأ القیس کو اس کا پتہ چلا تو اس نے چند اشعار کہے جن کا ایک شعر یہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان اونٹوں کا ذکر چھوڑو جنہیں لوٹا جا چکا ہے۔ اب ان اونٹنیوں کی بات کرو جو ہاتھ سے جاتی رہی ہیں۔
حضرتؐ کے اس شعر کو بطور تمثیل پیش کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اب جبکہ معاویہ بر سرپیکار ہے اس کی بات کرو اور ان لوگوں کی غارت گریوں کا ذکر رہنے دو کہ جنہوں نے پیغمبر ﷺ کے بعد میرے حق پر چھاپہ مارا۔ وہ دور گزر چکا ہے۔ اب اس دور کے فتنوں سے نپٹنے کا وقت ہے۔ لہٰذا وقت کی بات کرو اور بے وقت کی راگنی نہ چھیڑو۔ یہ اس لئے فرمایا کہ سائل نے یہ سوال جنگ صفین کے موقع پر کیا تھا، جبکہ جنگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور کشت و خون کی گرم بازاری تھی۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 19:12
عون نقوی

قَالَهٗ لِلْبُرْجِ بْنِ مُسْهِرٍ الطَّآئِىِّ وَ قَدْ قَالَ لَهٗ بِحَیْثُ یَسْمَعُهٗ: «لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰهِ»، وَ کَانَ مِنَ الْخَوَارِجِ:

برج ابن مسہر طائی نے کہ جو خوارج میں سے تھا (مشہور نعرہ) «لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰه» (حکم کا اختیار صرف اللہ کو ہے) اس طرح بلند کیا کہ حضرتؑ سن لیں۔ چنانچہ آپؑ نے سن کر ارشاد فرمایا:

اُسْکُتْ قَبَّحَکَ اللهُ یَاۤ اَثْرَمُ! فَوَاللهِ! لَقَدْ ظَهَرَ الْحَقُّ فَکُنْتَ فِیْهِ ضَئِیْلًا شَخْصُکَ، خَفِیًّا صَوْتُکَ، حَتّٰۤی اِذَا نَعَرَ الْبَاطِلُ نَجَمْتَ نُجُوْمَ قَرْنِ الْمَاعِزِ.

خاموش! خدا تیرا برا کرے اے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے! خدا کی قسم! جب حق ظاہر ہوا تو اس وقت تیری شخصیت ذلیل اور تیری آواز دبی ہوئی تھی اور جب باطل زور سے چیخا ہے تو بھی بکری کے سینگ کی طرح ابھر آیا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 19:07
عون نقوی

فِیْ بَعْضِ اَیَّامِ صِفِّیْنَ

جنگ ِصفین کے دوران فرمایا

وَ قَدْ رَاَیْتُ جَوْلَـتَکُمْ، وَ انْحِیَازَکُمْ عَنْ صُفُوْفِکُمْ، تَحُوْزُکُمُ الْجُفَاةُ الطَّغَامُ، وَ اَعْرَابُ اَهْلِ الشَّامِ، وَ اَنْتُمْ لَهَامِیْمُ الْعَرَبِ، وَ یَاٰفِیْخُ الشَّرَفِ، وَ الْاَنْفُ الْمُقَدَّمُ، وَ السَّنَامُ الْاَعْظَمُ، وَ لَقَدْ شَفٰی وَ حَاوِحَ صَدْرِیْۤ اَنْ رَّاَیْتُکُمْ بِاَخَرَةٍ، تَحُوْزُوْنَهُمْ کَمَا حَازُوْکُمْ، وَ تُزِیْلُوْنَهُمْ عَنْ مَّوَاقِفِهِمْ کَمَاۤ اَزَالُوْکُمْ حَسًّۢا بِالنِّصَالِ، وَ شَجْرًۢا بِالرِّمَاحِ، تَرْکَبُ اُوْلَاهُمْ اُخْرَاهُمْ کَالْاِبِلِ الْهِیْمِ الْمَطْرُوْدَةِ، تُرْمٰی عَنْ حِیَاضِهَا، وَ تُذَادُ عَنْ مَّوَارِدِهَا.

میں نے تمہیں بھاگتے اور صفوں سے منتشر ہوتے ہوئے دیکھا، (جبکہ) تمہیں چند کھرے قسم کے اوباشوں اور شام کے بدؤں نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ حالانکہ تم عرب کے جواں مرد، شرف کے راس و رئیس، (قوم میں) اونچی ناک والے اور چوٹی کی بلندی والے ہو۔ میرے سینے سے نکلنے والی کراہنے کی آوازیں اسی وقت دب سکتی ہیں کہ جب میں دیکھ لوں کہ آخر کار جس طرح انہوں نے تمہیں گھیر رکھا ہے تم نے بھی انہیں اپنے نرغہ میں لے لیا ہو اور جس طرح انہوں نے تمہارے قدم اکھیڑ دیئے ہیں اسی طرح تم نے بھی ان کے قدم ان کی جگہوں سے اکھیڑ ڈالے ہوں، تیروں کی بوچھاڑ سے انہیں قتل کرتے ہوئے اور نیزوں کے ایسے ہاتھ چلاتے ہوئے کہ جس سے ان کی پہلی صفیں دوسری صفوں پر چڑھی جاتی ہوں، جیسے ہنکائے ہوئے پیاسے اونٹ کہ جنہیں ان کے تالابوں سے دور پھینک دیا گیا ہو اور ان کے گھاٹوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 18:56
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ شَرَعَ الْاِسْلَامَ فَسَهَّلَ شَرَآئِعَهٗ لِمَنْ وَرَدَهٗ، وَ اَعَزَّ اَرْکَانَهٗ عَلٰی مَنْ غَالَبَهٗ، فَجَعَلَهٗۤ اَمْنًا لِّمَنْ عَلِقَهٗ، وَ سِلْمًا لِّمَنْ دَخَلَهٗ، وَ بُرْهَانًا لِّمَنْ تَکَلَّمَ بِهٖ، وَ شَاهِدًا لِّمَنْ خَاصَمَ بِهٖ، وَ نُوْرًا لِّمَنِ اسْتَضَآءَ بِهٖ، وَ فَهْمًا لِّمَنْ عَقَلَ، وَ لُبًّا لِّمَنْ تَدَبَّرَ، وَ اٰیَةً لِّمَنْ تَوَسَّمَ، وَ تَبْصِرَةً لِّمَنْ عَزَمَ، وَ عِبْرَةً لِّمَنِ اتَّعَظَ، وَ نَجَاةً لِّمَنْ صَدَّقَ، وَ ثِقَةً لِّمَنْ تَوَکَّلَ، وَ رَاحَةً لِّمَنْ فَوَّضَ، وَ جُنَّةً لِّمَنْ صَبَرَ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جس نے شریعت اسلام کو جاری کیا اور اس کے (سر چشمہ) ہدایت پر اترنے والوں کیلئے اس کے قوانین کو آسان کیا اور اس کے ارکان کو حریف کے مقابلے میں غلبہ و سرفرازی دی۔ چنانچہ جو اس سے وابستہ ہو اس کیلئے امن، جو اس میں داخل ہو اس کیلئے صلح و آشتی، جو اس کی بات کرے اس کیلئے دلیل، جو اس کی مدد لے کر مقابلہ کرے اس کیلئے اسے گواہ قرار دیا ہے اور اس سے کسب ضیا کرنے والے کیلئے نور، سمجھنے بوجھنے اور سوچ بچار کرنے والے کیلئے فہم و دانش، غور کرنے والے کیلئے (روشن) نشانی، ارادہ کرنے والے کیلئے بصیرت، نصیحت قبول کرنے والے کیلئے عبرت، تصدیق کرنے والے کیلئے نجات، بھروسا کرنے والے کیلئے اطمینان، ہر چیز اسے سونپ دینے والے کیلئے راحت اور صبر کرنے والے کیلئے سپر بنایا ہے۔

فَهُوَ اَبْلَجُ الْمَنَاهِجِ، وَاضِحُ الْوَلَاۗئِجِ، مُشْرَفُ الْمَنَارِ، مُشْرِقُ الْجَوَادِّ، مُضِیْٓءُ الْمَصَابِیْحِ، کَرِیْمُ الْمِضْمَارِ، رَفِیْعُ الْغَایَةِ، جَامِعُ الْحَلْبَةِ، مُتَنَافِسُ السُّبْقَةِ، شَرِیْفُ الْفُرْسَانِ. التَّصْدِیْقُ مِنْهَاجُهٗ، وَ الصَّالِحَاتُ مَنَارُهٗ، وَ الْمَوْتُ غَایَتُهٗ، وَ الدُّنْیَا مِضْمَارُهٗ، وَ الْقِیٰمَةُ حَلْبَتُهٗ، وَ الْجَنَّةُ سُبْقَتُهٗ.

وہ تمام سیدھی راہوں میں زیادہ روشن اور تمام عقیدوں میں زیادہ واضح ہے۔ اس کے مینار بلند، راہیں درخشاں اور چراغ روشن ہیں۔ اس کا میدان (عمل) باوقار اور مقصد و غایت بلند ہے۔ اس کے میدان میں تیز رفتار گھوڑوں کا اجتماع ہے۔ اس کی طرف بڑھنا مطلوب و پسندیدہ ہے۔ اس کے شاہسوار عزت والے اور اس کا راستہ (اللہ و رسولؐ کی) تصدیق ہے اور اچھے اعمال (راستے کے) نشانات ہیں۔ دنیا گھوڑ دوڑ کا میدان اور موت پہنچنے کی حد اور قیامت گھوڑوں کے جمع ہونے کی جگہ اور جنت بڑھنے کا انعام ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ ﷺ]

[اسی خطبہ کا یہ جز نبی ﷺ کے متعلق ہے]

حَتّٰۤی اَوْرٰی قَـبَسًا لِّقَابِسٍ، وَ اَنَارَ عَلَمًا لِّحَابِسٍ، فَهُوَ اَمِیْنُکَ الْمَاْمُوْنُ، وَ شَهِیْدُکَ یَوْمَ الدِّیْنِ، وَ بَعِیْثُکَ نِعْمَةً، وَ رَسُوْلُکَ بِالْحَقِّ رَحْمَةً.

یہاں تک کہ آپؐ نے روشنی ڈھونڈھنے والے کیلئے شعلے بھڑکائے اور (راستہ کھوکر) سواری کے روکنے والے کیلئے نشانات روشن کئے۔ (اے اللہ!) وہ تیرے بھروسے کا امین اور قیامت کے دن تیرا (ٹھہرایا ہوا) گواہ ہے، وہ تیرا نبی مرسل و رسول برحق ہے جو (دنیا کیلئے) نعمت و رحمت ہے۔

اَللّٰهُمَّ اقْسِمْ لَهٗ مَقْسَمًا مِّنْ عَدْلِکَ، وَ اجْزِهٖ مُضَاعَفَاتِ الْخَیْرِ مِنْ فَضْلِکَ.

(خدایا!) تو انہیں اپنے عدل و انصاف سے ان کا حصہ عطا کر اور اپنے فضل سے انہیں دہرے حسنات اجر میں دے۔

اَللّٰهُمَّ اَعْلِ عَلٰی بِنَآءِ الْبَانِیْنَ بِنَآئَهٗ، وَاَکْرِمْ لَدَیْکَ نُزُلَهٗ، وَ شَرِّفْ لَدَیْکَ مَنْزِلَهٗ، وَ اٰتِهِ الْوَسِیْلَةَ، وَ اَعْطِهِ السَّنَآءَ وَ الْفَضِیْلَةَ، وَ احْشُرْنَا فِیْ زُمْرَتِهٖ غَیْرَ خَزَایَا، وَ لَا نَادِمِیْنَ، وَ لَا نَاکِبِیْنَ، وَ لَا نَاکِثِیْنَ، وَ لَا ضَالِّیْنَ، وَ لَا مُضِلِّیْنَ وَ لَا مَفْتُوْنِیْنَ.

(اے اللہ!) ان کی عمارت کو تمام معماروں کی عمارتوں پر فوقیت عطا کر اور اپنے پاس ان کی عزت و آبرو سے مہمانی کر اور ان کے مرتبہ کو بلندی و شرف بخش اور انہیں بلند درجہ دے اور رفعت و فضیلت عطا کر اور ہمیں ان کی جماعت میں اس طرح محشور کر کہ نہ ہم ذلیل و رسوا ہوں، نہ نادم و پریشان، نہ حق سے روگردان، نہ عہد شکن، نہ گمراہ، نہ گمراہ کن اور نہ فریب خوردہ۔

وَ قَدْ مَضٰی هٰذَا الْکَلامُ فِیْمَا تَقَدمَّ اِلَّاۤ اَنَّنَا کَرَّرْنَاهُ هٰهُنَا لِمَا فِی الرِّوَایَتَیْنِ مِنَ الْاِخْتِلَافِ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں: یہ کلام اگرچہ پہلے گزر چکا ہے، مگر ہم نے پھر اعادہ کیا ہے چونکہ دونوں روایتوں کی لفظوں میں کچھ اختلاف ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ خِطَابِ اَصْحَابِهٖ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے جس میں اپنے اصحاب سے خطاب فرمایا ہے]

وَ قَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرَامَةِ اللهِ لَکُمْ مَّنْزِلَةً تُکْرَمُ بِهَا اِمَآؤُکُمْ، وَ تُوْصَلُ بِهَا جِیْرَانُکُمْ، وَ یُعَظِّمُکُمْ مَّنْ لَّا فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْهِ، وَ لَا یَدَ لَکُمْ عِنْدَهٗ، وَ یَهَابُکُمْ مَنْ لَّا یَخَافُ لَکُمْ سَطْوَةً، وَ لَا لَکُمْ عَلَیْهِ اِمْرَةٌ.

تم اپنے اللہ کے لطف و کرم کی بدولت ایسے مرتبہ پر پہنچ گئے کہ تمہاری کنیزیں بھی محترم سمجھی جانے لگیں اور تمہارے ہمسایوں سے بھی اچھا برتاؤ کیا جانے لگا اور وہ لوگ بھی تمہاری تعظیم کرنے لگے جن پر تمہیں نہ کوئی فضیلت تھی، نہ تمہارا کوئی ان پر احسان تھا اور وہ لوگ بھی تم سے دہشت کھانے لگے جنہیں تمہارے حملہ کا کوئی اندیشہ نہ تھا اور نہ تمہارا ان پر تسلط تھا۔

وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُوْدَ اللهِ مَنْقُوْضَةً فَلَا تَغْضَبُوْنَ! وَ اَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ اٰبَآئِکُمْ تَاْنَفُوْنَ! وَ کَانَتْ اَمُوْرُ اللهِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ، وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ، وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِـعُ، فَمَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَّنْزِلَتِکُمْ، وَ اَلْقَیْتُمْ اِلَیْهِمْ اَزِمَّتَکُمْ، وَ اَسْلَمْتُمْ اُمُوْرَ اللهِ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ، یَعْمَلُوْنَ بِالشُّبُهَاتِ، وَ یَسِیْرُوْنَ فِی الشَّهَوَاتِ، وَ اَیْمُ اللهِ! لَوْ فَرَّقُوْکُمْ تَحْتَ کُلِّ کَوْکَبٍ لَّجَمَعَکُمُ اللهُ لِشَرِّ یَوْمٍ لَّهُمْ.

مگر اس وقت تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ کے عہد توڑے جا رہے ہیں اور تم غیظ میں نہیں آتے، حالانکہ اپنے آباؤ اجداد کے قائم کردہ رسم و آئین کے توڑے جانے سے تمہارى رگِ حمیت جنبش میں آ جاتی ہے۔ حالانکہ اب تک اللہ کے معاملات تمہارے ہی سامنے پیش ہوتے رہے اور تمہارے ہی (ذریعہ سے) ان کا حل ہوتا رہا ہے اور تمہاری ہی طرف ہر پھر کر آتے ہیں۔ لیکن تم نے اپنی جگہ ظالموں کے حوالے کر دی ہے اور اپنی باگ ڈور انہیں تھما دی ہے اور اللہ کے معاملات انہیں سونپ دیئے ہیں کہ وہ شبہوں پر عمل پیرا اور نفسانی خواہشوں پر گامزن ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے بکھیر دیں تو بھی اللہ تمہیں اس دن (ضرور) جمع کرے گا جو ان کیلئے بہت بُرا دن ہو گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 18:49
عون نقوی