بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

اَمْرُهٗ قَضَآءٌ وَّ حِکْمَةٌ، وَ رِضَاهُ اَمَانٌ وَ رَحْمَةٌ، یَقْضِیْ بِعِلْمٍ، وَ یَعْفُوْ بِحِلْمٍ.

اس کا حکم فیصلہ کن اور حکمت آمیز اور اس کی خوشنودی امان اور رحمت ہے۔ وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم سے عفو کرتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی مَا تَاْخُذُ وَ تُعْطِیْ، وَ عَلٰی مَا تُعَافِیْ وَ تَبْتَلِیْ،حَمْدًا یَّکُوْنُ اَرْضَی الْحَمْدِ لَکَ، وَ اَحَبَّ الْحَمْدِ اِلَیْکَ، وَ اَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَکَ، حَمْدًا یَّمْلَاُ مَا خَلَقْتَ، وَ یَبْلُغُ مَاۤ اَرَدْتَّ، حَمْدًا لَّا یُحْجَبُ عَنْکَ، وَ لَا یُقْصَرُ دُوْنَکَ، حَمْدًا لَّا یَنْقَطِعُ عَدَدُهٗ، وَ لَا یَفْنٰی مَدَدُهٗ.

بارالٰہا! تو جو کچھ (دے کر) لے لیتا ہے اور جو کچھ عطا کرتا ہے اور جن (مرضوں سے) شفا دیتا ہے اور جن آزمائشوں میں ڈالتا ہے (سب پر) تیرے لئے حمد و ثنا ہے، ایسی حمد جو انتہائی درجے تک تجھے پسند آئے اور انتہائی درجے تک تجھے محبوب ہو اور تیرے نزدیک ہر ستائش سے بڑھ چڑھ کر ہو، ایسی حمد جو کائنات کو بھر دے اور جو تو نے چاہا ہے اس کی حد تک پہنچ جائے، ایسی حمد کہ جس کے آگے تیری بارگاہ تک پہنچنے سے کوئی حجاب ہے اور نہ اس کیلئے کوئی بندش، ایسی حمد کہ جس کی گنتی نہ کہیں پر ٹوٹے اور نہ اس کا سلسلہ ختم ہو۔

فَلَسْنَا نَعْلَمُ کُنْهَ عَظَمَتِکَ اِلَّاۤ اَنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ حَیٌّ قَیُّوْمٌ، لَا تَاْخُذُکَ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ، لَمْ یَنْتَهِ اِلَیْکَ نَظَرٌ، وَ لَمْ یُدْرِکْکَ بَصَرٌ، اَدْرَکْتَ الْاَبْصَارَ، وَ اَحْصَیْتَ الْاَعْمَارَ، وَ اَخَذْتَ بِالنَّواصِیْ وَ الْاَقْدَامِ، وَ مَا الَّذِیْ نَرٰی مِنْ خَلْقِکَ، وَ نَعْجَبُ لَهٗ مِنْ قُدْرَتِکَ، وَ نَصِفُهٗ مِنْ عَظِیْمِ سُلْطَانِکَ، وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ، وَ قَصُرَتْ اَبْصَارُنَا عَنْهُ، وَ انْتَهَتْ عُقُوْلُنَا دُوْنَهٗ، وَ حَالَتْ سَوَاتِرُ الْغُیُوْبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗۤ اَعْظَمُ.

ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے، مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں، تو نے نظروں کو پا لیا ہے اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ تیری مخلوق کیا ہے جو ہم دیکھتے ہیں اور اس میں تیری قدرت (کی کارسازیوں) پر تعجب کرتے ہیں اور تیری عظیم فرمانروائی (کی کارفرمائیوں) پر اس کی توصیف کرتے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز اور عقلیں درماندہ ہیں اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے۔

فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَهٗ، وَ اَعْمَلَ فِکْرَهٗ، لِیَعْلَمَ کَیْفَ اَقَمْتَ عَرْشَکَ، وَ کَیْفَ ذَرَاْتَ خَلْقَکَ، وَ کَیْفَ عَلَّقْتَ فِی الْهَوَآءِ سَمٰوٰتِکَ، وَ کَیْفَ مَدَدْتَ عَلٰی مَوْرِ الْمَآءِ اَرْضَکَ، رَجَعَ طَرْفُهٗ حَسِیْرًا، وَ عَقْلُهٗ مَبْهُوْرًا، وَ سَمْعُهٗ وَالِهًا، وَ فِکْرُهٗ حَآئِرًا.

جو شخص (وسوسوں سے) اپنے دل کو خالی کرکے اور غور و فکر (کی قوتوں) سے کام لے کر یہ جاننا چاہے کہ تو نے کیونکر عرش کو قائم کیا ہے اور کس طرح مخلوقات کو پیدا کیا ہے اور کیونکر آسمانوں کو فضا میں لٹکایا ہے اور کس طرح پانی کے تھپیڑوں پر زمین کو بچھایا ہے تو اس کی آنکھیں تھک کر اور عقل مغلوب ہو کر اور کان حیران و سراسیمہ اور فکر گم گشتہ راہ ہو کر پلٹ آئے گی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

یَدَّعِیْ بِزَعْمِهٖۤ اَنَّهٗ یَرْجُو اللهَ، کَذَبَ وَ الْعَظِیْمِ! مَا بَالُهٗ لَا یَتَبَیَّنُ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلَهٖ؟ فَکُلُّ مَنْ رَّجَا عُرِفَ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلِهٖ، وَ کُلُّ رَجَآءٍ ـ اِلَّا رَجَآءَ اللهِ تَعَالٰی ـ فَاِنَّهٗ مَدْخُوْلٌ، وَ کُلُّ خَوْفٍ مُّحَقَّقٌ، اِلَّا خَوْفَ اللهِ فَاِنَّهٗ مَعْلُوْلٌ، یَرْجُو اللهَ فِی الْکَبِیْرِ، وَ یَرْجُو الْعِبَادَ فِی الصَّغِیْرِ، فَیُعْطِی الْعَبْدَ مَا لَا یُعْطِی الرَّبَّ! فَمَا بَالُ اللهِ جَلَّ ثَنَآؤُهٗ یُقَصَّرُ بِهٖ عَمَّا یُصْنَعُ بِهٖ لِعِبَادِهٖ؟

وہ اپنے خیال میں اس کا دعویدار بنتا ہے کہ اس کا دامنِ امید اللہ سے وابستہ ہے۔ خدائے برتر کی قسم! وہ جھوٹا ہے۔ (اگر ایسا ہی ہے) تو پھرکیوں اس کے اعمال میں اس امید کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی، جبکہ ہر امیدوار کے کاموں میں امید کی پہچان ہو جایا کرتی ہے، سوائے اس امید کے کہ جو اللہ سے لگائی جائے کہ اس میں کھوٹ پایا جاتا ہے اور ہر خوف و ہراس جو (دوسروں سے ہو) ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے مگر اللہ کا خوف غیر یقینی سا ہے۔ وہ اللہ سے بڑی چیزوں کا اور بندوں سے چھوٹی چیزوں کا امیدوار ہوتا ہے۔ پھر بھی جو عاجزی کا رویہ بندوں سے رکھتا ہے وہ رویہ اللہ سے نہیں برتتا تو آخر کیا بات ہے کہ اللہ کے حق میں اتنا بھی نہیں کیا جاتا جتنا بندوں کیلئے کیا جاتا ہے۔

اَ تَخَافُ اَنْ تَکُوْنَ فِیْ رَجَآئِکَ لَهٗ کَاذِبًا؟ اَوْ تَکُوْنَ لَا تَرَاهُ لِلرَّجَآءِ مَوْضِعًا؟ وَکَذٰلِکَ اِنْ هُوَ خَافَ عَبْدًا مِّنْ عَبِیْدِهٖ، اَعْطَاهُ مِنْ خَوْفِهٖ مَا لَا یُعْطِیْ رَبَّهٗ، فَجَعَلَ خَوْفَهٗ مِنَ الْعِبَادِ نَقْدًا، وَ خَوْفَهٗ مِنْ خَالِقِهٖ ضِمَارًا وَّ وَعْدًا، وَ کَذٰلِکَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِهٖ، وَ کَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِهٖ، اٰثَرَهَا عَلَی اللهِ تَعَالٰی، فَانْقَطَعَ اِلَیْهَا، وَ صَارَ عَبْدًا لَّهَا.

کیا تمہیں کبھی اس کا بھی اندیشہ ہوا ہے کہ کہیں تم ان امیدوں (کے دعووں) میں جھوٹے تو نہیں؟ یا یہ کہ تم اسے محل امید ہی نہیں سمجھتے۔ یوں ہی انسان اگر اس کے بندوں میں سے کسی بندے سے ڈرتا ہے تو جو خوف کی صورت اس کیلئے اختیار کرتا ہے اللہ کیلئے ویسی صورت اختیار نہیں کرتا۔ انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے اور اللہ کا ڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدے۔ یوں ہی جس کی نظروں میں دنیا عظمت پا لیتی ہے اور اس کے دل میں اس کی عظمت و وقعت بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے اللہ پر ترجیح دیتا ہے اور اس کی طرف مڑتا ہے اور اسی کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ کَافٍ لَّکَ فِی الْاُسْوَةِ، وَ دَلِیْلٌ لَّکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا، وَ کَثْرَةِ مَخَازِیْهَا وَ مَسَاوِیْهَا، اِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ اَطْرَافُهَا، وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِهٖ اَکْنَافُهَا، وَ فُطِمَ عَنْ رَّضَاعِهَا، وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل پیروی کیلئے کافی ہے اور ان کی ذات دنیا کے عیب و نقص اور اس کی رسوائیوں اور برائیوں کی کثرت دکھانے کیلئے رہنما ہے۔ اس لئے کہ اس دنیا کے دامنوں کو ان سے سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کیلئے اس کی وسعتیں مہیا کر دی گئیں اور اس (زالِ دنیا کی چھاتیوں سے) آپؐ کا دودھ چھڑا دیا گیا اور اس کی آرائشوں سے آپؐ کا رخ موڑ دیا گیا۔

وَ اِنْ شِئْتَ ثَنَّیْتُ بِمُوْسٰی کَلِیْمِ اللهِ ؑ اِذْ یَقُوْلُ: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۝﴾، وَاللهِ١ مَا سَئَلَهٗۤ اِلَّا خُبْزًا یَّاْکُلُهٗ، لِاَنَّهٗ کَانَ یَاْکُلُ بَقْلَةَ الْاَرْضِ، وَلَقَدْ کَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرٰی مِنْ شَفِیْفِ صِفَاقِ بَطْنِهٖ، لِهُزَالِهٖ وَ تَشَذُّبِ لَحْمِهٖ.

اگر دوسرا نمونہ چاہو تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے اپنے اللہ سے کہا کہ: ’’پروردگار! تو جو کچھ بھی اس وقت تھوڑی بہت نعمت بھیج دے گا میں اسی کا محتاج ہوں‘‘۔ خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کیلئے روٹی کا سوال کیا تھا۔ چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی۔

وَ اِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوٗدَ ؑ صَاحِبِ الْمَزَامِیْرِ، وَ قَارِئِ اَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلَقَدْ کَانَ یَعْمَلُ سَفَآئِفَ الْخُوْصِ بِیَدِهٖ، وَ یَقُوْلُ لِجُلَسَآئِهٖ: اَیُّکُمْ یَکْفِیْنِیْ بَیْعَهَا! وَ یَاْکُلُ قُرْصَ الشَّعِیْرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

اگر چاہو تو تیسری مثال داؤد علیہ السلام کی سامنے رکھ لو جو صاحب زبور اور اہل جنت کے قاری ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کی پتیوں کی ٹوکریاں بُنا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ: تم میں سے کون ہے جو انہیں بیچ کر میری دستگیری کرے۔ (پھر) جو اس کی قیمت ملتی اس سے جو کی روٹی کھا لیتے تھے۔

وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ؑ، فَلَقَدْ کَانَ یَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ، وَ یَلْبَسُ الْخَشِنَ، وَ کَانَ اِدَامُهُ الْجُوْعَ، وَ سِرَاجُهٗ بِاللَّیْلِ الْقَمَرَ، وَ ظِلَالُهٗ فِی الشِّتَآءِ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا، وَ فَاکِهَتُهٗ وَ رَیْحَانُهٗ مَا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ لِلْبَهَآئِمِ، وَ لَمْ تَکُنْ لَّهٗ زَوْجَةٌ تَفْتِنُهٗ، وَ لَا وَلَدٌ یَّحْزُنُهٗ، وَ لَا مَالٌ یَّلْفِتُهٗ، وَ لَا طَمَعٌ یُّذِلُّهٗ، دَآبَّتُهٗ رِجْلَاهُ، وَ خَادِمُهٗ یَدَاهُ!.

اگر چاہو تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا حال کہوں کہ جو (سر کے نیچے) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے سخت اور کھردرا لباس پہنتے تھے اور (کھانے) میں سالن کے بجائے بھوک اور رات کے چراغ کی جگہ چاند اور سردیوں میں سایہ کے بجائے (ان کے سر پر) زمین کے مشرق و مغرب کا سائبان ہوتا تھا اور زمین جو گھاس پھوس چوپاؤں کیلئے اُگاتی تھی، وہ ان کیلئے پھل پھول کی جگہ تھی، نہ ان کی بیوی تھیں جو انہیں دنیا (کے جھنجٹوں) میں مبتلا کرتیں اور نہ بال بچے تھے کہ ان کیلئے فکر و اندوہ کا سبب بنتے اور نہ مال و متاع تھا کہ ان کی توجہ کو موڑتا اور نہ کوئی طمع تھی کہ انہیں رسوا کرتی۔ ان کی سواری ان کے دونوں پاؤں اور خادم ان کے دونوں ہاتھ تھے۔

فَتَاَسَّ بِنَبِیِّکَ الْاَطْیَبِ الْاَطْهَرِ- ﷺ، فَاِنَّ فِیْهِ اُسْوَةً لِّمَنْ تَاَسّٰی، وَ عَزَآءً لِّمَنْ تَعَزّٰی ــ وَ اَحَبُّ الْعِبَادِ اِلَی اللهِ الْمُتَاَسِّیْ بِنَبِیِّهٖ، وَ الْمُقْتَصُّ لِاَثَرِهٖ ـ قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْمًا، وَ لَمْ یُعِرْهَا طَرْفًا، اَهْضَمُ اَهْلِ الدُّنْیَا کَشْحًا، وَ اَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْنًا، عُرِضَتْ عَلَیْهِ الدُّنْیَا فَاَبٰی اَنْ یَّقْبَلَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗۤ اَبْغَضَ شَیْئًا فَاَبْغَضَهٗ، وَ حَقَّرَ شَیْئًا فَحَقَّرَهٗ، وَ صَغَّرَ شَیْئًا فَصَغَّرَهٗ. وَلَوْ لَمْ یَکُنْ فِینَاۤ اِلَّا حُبُّنَا مَاۤ اَبْغَضَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ تَعْظِیْمُنَا مَا صَغَّرَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، لَکَفٰی بِهٖ شِقَاقًا لِلّٰهِ، وَ مُحَادَّةً عَنْ اَمْرِ اللهِ.

تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو، چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کیلئے نمونہ اور صبر کرنے والے کیلئے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بسر کرنے والے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپؐ نے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپؐ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپؐ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسولؐ برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ- ﷺ یَاْکُلُ عَلَی الْاَرْضِ، وَ یَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ، وَ یَخْصِفُ بِیَدِهٖ نَعْلَهٗ، وَ یَرْقَعُ بِیَدِهٖ ثَوْبَهٗ، وَ یَرْکَبُ الْحِمَارَ الْعَارِیَ، وَ یُرْدِفُ خَلْفَهٗ، وَ یَکُوْنُ السِّتْرُ عَلٰی بَابِ بَیْتِهٖ فَتَکُوْنُ فِیْهِ التَّصَاوِیْرُ فَیَقُوْلُ: «یَا فُلَانَةُ! ـ لِاِحْدٰۤی اَزْوَاجِهٖ ـ غَیِّبِیْهِ عَنِّیْ، فَاِنِّیْۤ اِذَا نَظَرْتُ اِلَیْهِ ذَکَرْتُ الدُّنْیَا وَ زَخَارِفَهَا».

رسول اللہ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے، اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔ گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپؐ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آ جاتی ہیں۔

فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِکَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، وَ لَا یَعْتَقِدَهَا قَرَارًا، وَ لَا یَرْجُوْ فِیْهَا مُقَامًا، فَاَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ، وَ اَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ، وَ غَیَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ. وَ کَذٰلِکَ مَنْ اَبْغَضَ شَیْئًا اَبْغَضَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَیْهِ، وَ اَنْ یُّذْکَرَ عِنْدَهٗ.

آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا۔ یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مَا یَدُلُّکَ عَلٰی مَسَاوِی الدُّنْیَا وَ عُیُوْبِهَا: اِذْ جَاعَ فِیْهَا مَعَ خَاصَّتِهٖ، وَ زُوِیَتْ عَنْهُ زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِیْمِ زُلْفَتِهٖ.

رسول اللہ ﷺ (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی، جبکہ آپؐ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے اور باوجود انتہائی قربِ منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں۔

فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌۢ بِعَقْلِهٖ: اَکْرَمَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِذٰلِکَ اَمْ اَهَانَهٗ؟! فَاِنْ قَالَ: اَهَانَهٗ، فَقَدْ کَذَبَ وَ اَتٰى بِالْاِفْکِ الْعَظِیْمِ، وَ اِنْ قَالَ: اَکْرَمَهٗ، فَلْیَعْلَمْ اَنَّ اللهَ قَدْ اَهَانَ غَیْرَهٗ حَیْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهٗ، وَ زَوَاهَا عَنْ اَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ.

چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور بہت بڑا بہتان باندھا اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا۔

فَتَاَسّٰی مُتَاَسٍّۭ بِنَبِیِّهٖ، وَ اقْتَصَّ اَثَرَهٗ، وَ وَلَجَ مَوْلِجَهٗ، وَ اِلَّا فَلَا یَاْمَنِ الْهَلَکَةَ، فَاِنَّ اللهَ جَعَلَ مُحَمَّدًا -ﷺ عَلَمًا لِلسَّاعَةِ، وَ مُبَشِّرًۢا بِالْجَنَّةِ، وَ مُنْذِرًۢا بِالْعُقُوْبَةِ. خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیْصًا، وَ وَرَدَ الْاٰخِرَةَ سَلِیْمًا، لَمْ یَضَعْ حَجَرًا عَلٰی حَجَرٍ، حَتّٰی مَضٰی لِسَبِیْلِهٖ، وَ اَجَابَ دَاعِیَ رَبِّهٖ.

پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے اور ان کے نشان قدم پر چلے اور انہی کی منزل میں آئے ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا، کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے۔ دنیا سے آپؐ بھوکے نکل کھڑے ہوئے اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ آپؐ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا، یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی۔

فَمَاۤ اَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا حِیْنَ اَنْعَمَ عَلَیْنَا بِهٖ سَلَفًا نَتَّبِعُهٗ، وَ قَآئِدًا نَّطَاُ عَقِبَهٗ! وَاللهِ! لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِیْ هٰذِهٖ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَّاقِعِهَا، وَ لَقَدْ قَالَ لِیْ قَآئِلٌ: اَلَا تَنْبِذُهَا عَنْکَ؟ فَقُلْتُ: اغْرُبْ عَنِّیْ، فَعِنْدَ الصَّبَاحِ یَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرٰی!.

یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ (انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم! میں نے اپنی اس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپؑ اسے اتاریں گے نہیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ: میری (نظروں سے) دور ہو کہ صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس کی مدح کرتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:20
عون نقوی

وَ لَقَدْ اَحْسَنْتُ جِوَارَکُمْ، وَ اَحَطْتُ بِجُهْدِی مِنْ وَّرَآئِکُمْ، وَ اَعْتَقْتُکُمْ مِنْ رِّبَقِ الذُّلِّ، وَ حَلَقِ الضَّیْمِ، شُکْرًا مِّنِّیْ لِلْبِرِّ الْقَلِیْلِ، وَ اِطْرَاقًا عَمَّاۤ اَدْرَکَهُ الْبَصَرُ، وَ شَهِدَهُ الْبَدَنُ، مِنَ الْمُنْکَرِ الْکَثِیْرِ.

میں تمہارا اچھا ہمسایہ بن کر رہا اور اپنی طاقت بھر تمہاری نگہداشت و حفاظت کرتا رہا اور تمہیں ذلت کے پھندوں اور ظلم کے بندھنوں سے آزاد کیا۔ (یہ صرف) تمہاری تھوڑی سی بھلائی کا شکریہ ادا کرنے اور تمہاری بہت سی ایسی برائیوں سے چشم پوشی برتنے کیلئے کہ جو میری آنکھوں کے سامنے اور میری موجودگی میں ہوتی تھیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:15
عون نقوی

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ طُوْلِ هَجْعَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ، وَ انْتِقَاضٍ مِّنَ الْمُبْرَمِ، فَجَآءَهُمْ بِتَصْدِیْقِ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهٖ، وَ النُّوْرِ الْمُقْتَدٰی بِهٖ. ذٰلِکَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَنْطِقُوْهُ، وَ لَنْ یَّنْطِقَ، وَ لٰکِنْ اُخْبِرُکُمْ عَنْهُ: اَلَا اِنَّ فِیْهِ عِلْمَ مَا یَاْتِیْ، وَ الْحَدِیْثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَآءَ دَآئِکُمْ، وَ نَظْمَ مَا بَیْنَکُمْ.

(اللہ نے) آپؐ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جب کہ رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور اُمتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور (دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپؐ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق (کرنے والی کتاب) اور ایک ایسا نور لے کر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ اس کتاب سے پوچھو لیکن یہ بولے گی نہیں، البتہ میں تمہیں اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات، گزشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَعِنْدَ ذٰلِکَ لَا یَبْقٰی بَیْتُ مَدَرٍ وَّ لَا وَبَرٍ اِلَّا وَ اَدْخَلَهُ الظَّلَمَةُ تَرْحَةً، وَ اَوْلَجُوْا فِیْهِ نِقْمَةً، فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَبْقٰی لَکُمْ فِی السَّمَآءِ عَاذِرٌ، وَ لَا فِی الْاَرْضِ نَاصِرٌ.

اس وقت کوئی پختہ گھر اور کوئی اونی خیمہ ایسا نہ بچے گا کہ جس میں ظالم غم و حزن کو داخل نہ کریں اور سختیوں کو اس کے اندر نہ پہنچائیں۔ وہ دن ایسا ہو گا کہ آسمان میں تمہارا کوئی عذر خواہ اور زمین میں کوئی تمہارا مدد گار نہ رہے گا۔

اَصْفَیْتُمْ بِالْاَمْرِ غَیْرَ اَهْلِهِ، وَ اَوْرَدْتُّمُوْهُ غَیْرَ مَوْرِدِهٖ، وَ سَیَنْتَقِمُ اللهُ مِمَّنْ ظَلَمَ، مَاْکَلًۢا بِمَاْکَلٍ، وَ مَشْرَبًۢا بِمَشْرَبٍ، مِنْ مَّطَاعِمِ الْعَلْقَمِ، وَ مَشَارِبِ الصَّبِرِ وَ الْمَقِرِ، وَ لِبَاسِ شِعَارِ الْخَوْفِ، وَ دِثَارِ السَّیْفِ. وَ اِنَّمَا هُمْ مَطَایَا الْخَطِیْٓئَاتِ وَ زَوَامِلُ الْاٰثَامِ.

تم نے امر (خلافت) کیلئے نااہلوں کو چن لیا اور ایسی جگہ پر سے لا اتارا کہ جو اس کے اترنے کی جگہ نہ تھی۔ عنقریب اللہ ظلم ڈھانے والوں سے بدلہ لے گا۔ کھانے کے بدلے میں کھانے کا اور پینے کے بدلے میں پینے کا۔ یوں کہ انہیں کھانے کیلئے حنظل اور پینے کیلئے ایلوا اور زہر ہلا ہل دیا جائے گا اور ان کا اندرونی لباس خوف اور بیرونی پہناوا تلوار ہو گا۔ وہ گناہوں کی سواریاں اور خطاؤں کے بار بردار اونٹ ہیں۔

فَاُقْسِمُ، ثُمَّ اُقْسِمُ، لَتَنْخَمَنَّهَا اُمَیَّةُ مِنْۢ بَعْدِیْ کَمَا تُلْفَظُ النُّخَامَةُ، ثُمَّ لَا تَذُوْقُهَا وَ لَا تَتَطَعَّمُ بِطَعْمِهَاۤ اَبَدًا مَّا کَرَّ الْجَدِیْدَانِ!.

میں قسم پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے بعد بنی امیہ کو یہ خلافت اس طرح تھوک دینا پڑے گی جس طرح بلغم تھوکا جاتا ہے۔ پھر جب تک دن رات کا چکر چلتا رہے گا وہ اس کا ذائقہ نہ چکھیں گے اور نہ اس کا مزا اٹھا سکیں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:14
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَ الْحَمْدَ مِفْتَاحًا لِّذِکْرِهٖ، وَ سَبَبًا لِّلْمَزِیْدِ مِنْ فَضْلِهٖ، وَ دَلِیْلًا عَلٰۤی اٰلَآئِهٖ وَ عَظَمَتِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس نے حمد کو اپنے ذکر کا افتتاحیہ، اپنے فضل و احسان کے بڑھانے کا ذریعہ اور اپنی نعمتوں اور عظمتوں کا دلیل راہ قرار دیا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ الدَّهْرَ یَجْرِیْ بِالْبَاقِیْنَ کَجَرْیِهٖ بِالْمَاضِیْنَ، لَا یَعُوْدُ مَا قَدْ وَلّٰی مِنْهُ، وَ لَا یَبْقٰی سَرْمَدًا مَّا فِیْهِ. اٰخِرُ فِعَالِهٖ کَاَوَّلِهٖ، مُتَسَابِقَةٌ اُمُوْرُهٗ، مُتَظَاهِرَةٌ اَعْلَامُهٗ. فَکَاَنَّکُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوْکُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِهٖ، فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَهٗ بِغَیْرِ نَفْسِهٖ تَحَیَّرَ فِی الظُّلُمٰتِ، وَ ارْتَبَکَ فِی الْهَلَکَاتِ، وَ مَدَّتْ بِهٖ شَیَاطِیْنُهٗ فِیْ طُغْیَانِهٖ، وَ زَیَّنَتْ لَهٗ سَیِّئَ اَعْمَالِهٖ، فَالْجَنَّةُ غَایَةُ السَّابِقِیْنَ، وَ النَّارُ غَایَةُ الْمُفَرِّطِیْنَ.

اے اللہ کے بندو! باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ بھی زمانہ کی وہی روش رہے گی جو گزر جانے والوں کے ساتھ تھی۔ جتنا زمانہ گزر چکا ہے وہ پلٹ کر نہیں آئے گا اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ آخر میں بھی اس کی کارگزاریاں وہی ہوں گی جو پہلے رہ چکی ہیں۔ اس کی مصیبتیں ایک دوسرے سے بڑھ جانا چاہتی ہیں اور اس کے جھنڈے ایک دوسرے کے عقب میں ہیں۔ گویا تم قیامت کے دامن سے وابستہ ہو کہ وہ تمہیں دھکیل کر اس طرح لئے جا رہی ہے جس طرح للکارنے والا اپنی اونٹنیوں کو۔ جو شخص اپنے نفس کو سنوارنے کے بجائے اور چیزوں میں پڑ جاتا ہے وہ تیرگیوں میں سرگرداں اور ہلاکتوں میں پھنسا رہتا ہے اور شیاطین اسے سرکشیوں میں کھینچ کر لے جاتے ہیں اور اس کی بداعمالیوں کو اس کے سامنے سجا دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے والوں کی آخری منزل جنت ہے اور عمداً کوتاہیاں کرنے والوں کی حد جہنم ہے۔

اِعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ التَّقْوٰی دَارُ حِصْنٍ عَزِیْزٍ، وَ الْفُجُوْرَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِیْلٍ، لَا یَمْنَعُ اَهْلَهٗ، وَ لَا یُحْرِزُ مَنْ لَّجَاَ اِلَیْهِ. اَلَا وَ بِالتَّقْوٰی تُقْطَعُ حُمَةُ الْخَطَایَا، وَ بِالْیَقِیْنِ تُدْرَکُ الْغَایَةُ الْقُصْوٰی.

اللہ کے بندو! یاد رکھو کہ تقویٰ ایک مضبوط قلعہ ہے اور فسق و فجور ایک (کمزور) چار دیواری ہے کہ جو نہ اپنے رہنے والوں سے تباہیوں کو روک سکتی ہے اور نہ ان کی حفاظت کرسکتی ہے۔ دیکھو! تقویٰ ہی وہ چیز ہے کہ جس سے گناہوں کا ڈنک کاٹا جاتا ہے اور یقین ہی سے منتہائے مقصد کی کامرانیاں حاصل ہوتی ہیں۔

عِبَادَ اللهِ! اَللهَ اَللهَ فِیْۤ اَعَزِّ الْاَنْفُسِ عَلَیْکُمْ، وَ اَحَبِّهَاۤ اِلَیْکُمْ، فَاِنَّ اللهَ قَدْ اَوْضَحَ لَکُمْ سَبِیْلَ الْحَقِّ وَ اَنَارَ طُرُقَهٗ، فَشِقْوَةٌ لَازِمَةٌ، اَوْ سَعَادَةٌ دَآئِمَةٌ! فَتَزَوَّدُوْا فِیْۤ اَیَّامِ الْفَنَآءِ لِاَیَّامِ الْبَقَآءِ. قَدْ دُلِلْتُمْ عَلَی الزَّادِ، وَ اُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ، وَ حُثِثْتُمْ عَلَی الْمَسِیْرِ، فَاِنَّمَاۤ اَنْتُمْ کَرَکْبٍ وُّقُوفٍ، لَا تَدْرُوْنَ مَتٰی تُؤْمَرُوْنَ بِالسَّیْرِ، اَلَا فَمَا یَصْنَعُ بِالدُّنْیَا مَنْ خُلِقَ لِلْاٰخِرَةِ! وَ مَا یَصْنَعُ بِالْمَالِ مَنْ عَمَّا قَلِیْلٍ یُّسْلَبُهٗ، وَ تَبْقٰی عَلَیْهِ تَبِعَتُهٗ وَ حِسَابُهٗ!.

اے اللہ کے بندو! اپنے نفس کے بارے میں کہ جو تمہیں تمام نفسوں سے زیادہ عزیز و محبوب ہے اللہ سے ڈرو۔ اس نے تو تمہارے لئے حق کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کی راہیں اجاگر کر دی ہیں۔ اب یا تو انمٹ بدبختی ہو گی یا دائمی خوش بختی و سعادت۔ دار فانی سے عالم باقی کیلئے توشہ مہیا کر لو۔ تمہیں زادِ راہ کا پتہ دیا جا چکا ہے اور کوچ کا حکم مل چکا ہے اور چل چلاؤ کیلئے جلدی مچائی جا رہی ہے۔ تم ٹھہرے ہوئے سواروں کے مانند ہو کہ تمہیں یہ پتہ نہیں کہ کب روانگی کا حکم دیا جائے گا۔ بھلا وہ دنیا کو لے کر کیا کرے گا جو آخرت کیلئے پیدا کیا گیا ہو اور اس مال کا کیا کرے گا جو عنقریب اس سے چھن جانے والا ہے اور اس کا مظلمہ و حساب اس کے ذمہ رہنے والا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّهٗ لَیْسَ لِمَا وَعَدَ اللهُ مِنَ الْخَیْرِ مَتْرَکٌ، وَ لَا فِیْمَا نَهٰی عَنْهُ مِنَ الشَّرِّ مَرْغَبٌ.

اللہ کے بندو! خدا نے جس بھلائی کا وعدہ کیا ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا اور جس برائی سے روکا ہے اس کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔

عِبَادَ اللهِ! احْذَرُوْا یَوْمًا تُفْحَصُ فِیْهِ الْاَعْمَالُ، وَ یَکْثُرُ فِیْهِ الزِّلْزَالُ، وَ تَشِیْبُ فِیْهِ الْاَطْفَالُ.

اللہ کے بندو! اس دن سے ڈرو کہ جس میں عملوں کی جانچ پڑتال اور زلزلوں کی بہتات ہو گی اور بچے تک اس میں بوڑھے ہو جائیں گے۔

اِعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ عَلَیْکُمْ رَصَدًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ، وَ عُیُوْنًا مِّنْ جَوَارِحِکُمْ، وَ حُفَّاظَ صِدْقٍ یَّحْفَظُوْنَ اَعْمَالَکُمْ، وَ عَدَدَ اَنْفَاسِکُمْ، لَا تَسْتُرُکُمْ مِنْهُمْ ظُلْمَةُ لَیْلٍ دَاجٍ، وَ لَا یُکِنُّکُمْ مِنْهُمْ بَابٌ ذُوْ رِتَاجٍ. وَ اِنَّ غَدًا مِّنَ الْیَوْمِ قَرِیْبٌ، یَذْهَبُ الْیَوْمُ بِمَا فِیْهِ، وَ یَجِیْٓءُ الْغَدُ لَاحِقًۢا بِهٖ.

اے اللہ کے بندو! یقین رکھو کہ خود تمہارا ضمیر تمہارا نگہبان اور خود تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے نگران ہیں اور تمہارے عملوں اور سانسوں کی گنتی کو صحیح صحیح یاد رکھنے والے (کراماً کاتبین) ہیں۔ ان سے نہ اندھیری رات کی اندھیاریاں تمہیں چھپا سکتی ہیں اور نہ بند دروازے تمہیں اوجھل رکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ آنے والا ’’کل‘‘ آج کے دن سے قریب ہے۔ ’’آج کا دن‘‘ اپنا سب کچھ لے کر چلا جائے گا اور ’’کل‘‘ اس کے عقب میں آیا ہی چاہتا ہے۔

فَکَاَنَّ کُلَّ امْرِئٍ مِّنْکُمْ قَدْ بَلَغَ مِنَ الْاَرْضِ مَنْزِلَ وَحْدَتِهٖ، وَ مَخَطَّ حُفْرَتِهٖ، فَیَالَهٗ مِنْۢ بَیْتِ وَحْدَةٍ، وَ مَنْزِلِ وَحْشَةٍ، وَ مُفْرَدِ غُرْبَةٍ! وَ کَاَنَّ الصَّیْحَةَ قَدْ اَتَتْکُمْ، وَ السَّاعَةَ قَدْ غَشِیَتْکُمْ، وَ بَرَزْتُمْ لِفَصْلِ الْقَضَآءِ، قَدْ زَاحَتْ عَنْکُمُ الْاَبَاطِیْلُ، وَ اضْمَحَلَّتْ عَنْکُمُ الْعِلَلُ، وَ اسْتَحَقَّتْ بِکُمُ الْحَقَآئِقُ، وَ صَدَرَتْ بِکُمُ الْاُمُوْرُ مَصَادِرَهَا، فَاتَّعِظُوْا بِالْعِبَرِ، وَ اعْتَبِرُوْا بِالْغِیَرِ، وَ انْتَفِعُوْا بِالنُّذُرِ.

گویا تم میں سے ہر شخص زمین کے اس حصہ پر کہ جہاں تنہائی کی منزل اور گڑھے کا نشان (قبر) ہے پہنچ چکا ہے۔ اس تنہائی کے گھر، وحشت کی منزل اور مسافرت کے عالم تنہائی (کی ہولناکیوں) کا کیا حال بیان کیا جائے۔ گویا کہ صُور کی آواز تم تک پہنچ چکی ہے اور قیامت تم پر چھا گئی ہے اور آخری فیصلہ سننے کیلئے تم (قبروں سے) نکل آئے ہو، باطل کے پردے تمہارى آنکھوں سے ہٹا دئیے گئے ہیں اور تمہارے حیلے بہانے دب چکے ہیں اور حقیقتیں تمہارے لئے ثابت ہو گئی ہیں اور تمام چیزیں اپنے اپنے مقام کی طرف پلٹ پڑی ہیں۔ عبرتوں سے پند و نصیحت اور زمانہ کے الٹ پھیر سے عبرت حاصل کرو اور ڈرانے والی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:45
عون نقوی

خَاطَبَ بِهٖۤ اَهْلَ الْبَصْرَةِ عَلٰی جِهَةِ اقْتِصَاصِ الْمَلَاحِمِ:

اس میں اہل بصرہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں فتنوں سے آگاہ کیا ہے:

فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذٰلِکَ اَنْ یَّعْتَقِلَ نَفْسَهٗ عَلَی اللهِ تَعَالٰی. فَلْیَفْعَلْ، فَاِنْ اَطَعْتُمُوْنِیْ فَاِنِّیْ حَامِلُکُمْ اِنْ شَآءَ اللهُ عَلٰی سَبِیْلِ الْجَنَّةِ، وَ اِنْ کَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِیْدَةٍ وَّ مَذَاقَةٍ مَّرِیْرَةٍ. وَ اَمَّا فُلَانَةُ فَاَدْرَکَهَا رَاْیُ الْنِّسَآءِ، وَ ضِغْنٌ غَلَا فِیْ صَدْرِهَا کَمِرْجَلِ الْقَیْنِ، وَ لَوْ دُعِیَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَیْرِیْ مَاۤ اَتَتْ اِلَیَّ، لَمْ تَفْعَلْ، وَ لَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الْاُوْلٰی، وَ الْحِسَابُ عَلَی اللهِ.

جو شخص ان( فتنہ انگیزیوں) کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر ٹھہرائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں ان شاء اللہ تمہیں جنت کی راہ پر لگا دوں گا۔ اگرچہ وہ راستہ کٹھن دشواریوں اور تلخ مزوں کو لئے ہوئے ہے۔ رہیں فلاں [۱] تو ان میں عورتوں والی کم عقلی آ گئی ہے اور لوہار کے کڑھاؤ کی طرح کینہ و عناد ان کے سینہ میں جوش مار رہا ہے اور جو سلوک مجھ سے کر رہی ہیں اگر میرے سوا کسی دوسرے سے ویسے سلوک کو ان سے کہا جاتا تو وہ نہ کرتیں۔ ان سب چیزوں کے بعد بھی ہمیں ان کی سابقہ حرمت کا لحاظ ہے۔ ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔

[مِنْهُ]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

سَبِیْلٌ اَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ، اَنْوَرُ السِّرَاجِ، فَبِالْاِیْمَانِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الصّٰلِحٰتِ، وَ بِالصّٰلِحٰتِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الْاِیْمَانِ، وَ بِالْاِیْمَانِ یُعْمَرُ الْعِلْمُ، وَ بِالْعِلْمِ یُرْهَبُ الْمَوْتُ، وَ بِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْیَا، وَ بِالدُّنْیَا تُحْرَزُ الْاٰخِرَةُ، وَ اِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِیٰمَةِ، مُرْقِلِیْنَ فِیْ مِضْمَارِهَاۤ اِلَی الْغَایَةِ الْقُصْوٰی.

(ایمان کی) راہ سب راہوں سے واضح اور سب چراغوں سے زیادہ نورانی ہے، ایمان سے نیکیوں پر استدلال کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے ایمان پر دلیل لائی جاتی ہے، ایمان سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اور علم کی بدولت موت سے ڈرا جاتا ہے اور موت سے دنیا کے سارے جھنجھٹ ختم ہو جاتے ہیں اور دنیا سے آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ مخلوقات کیلئے قیامت سے ادھر کوئی منزل نہیں۔ وہ اسی کے میدان میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دوڑ لگانے والی ہے۔

[مِنْهُ]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

قَدْ شَخَصُوْا مِنْ مُّسْتَقَرِّ الْاَجْدَاثِ، وَ صَارُوْۤا اِلٰی مَصَآئِرِ الْغَایَاتِ، لِکُلِّ دَارٍ اَهْلُهَا، لَا یَسْتَبْدِلُوْنَ بِهَا وَ لَا یُنْقَلُوْنَ عَنْهَا. وَ اِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللهِ سُبْحَانَهٗ، وَاِنَّهُمَا لَا یُقَرِّبَانِ مِنْ اَجَلٍ وَّ لَا یَنْقُصَانِ مِنْ رِّزْقٍ.

وہ اپنی قبروں کے ٹھکانوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخرت کے ٹھکانوں کی طرف پلٹ پڑے۔ ہر گھر کیلئے اس کے اہل ہیں کہ نہ وہ اسے تبدیل کر سکیں گے اور نہ اس سے منتقل ہو سکیں گے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔ نہ ان کی وجہ سے موت قبل از وقت آ سکتی ہے اور نہ جو رزق مقرر ہے اس میں کوئی کمی ہوسکتی ہے۔

وَ عَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللهِ، فَاِنَّهُ الْحَبْلُ الْمَتِیْنُ، وَ النُّوْرُ الْمُبِیْنُ، وَ الشِّفَآءُ النَّافِعُ، وَ الرِّیُّ النَّاقِعُ، وَ الْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّکِ، وَ النَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ، لَا یَعْوَجُّ فَیُقَامَ، وَ لَا یَزِیْغُ فَیُسْتَعْتَبَ، وَ لَا تُخْلِقُهٗ کَثْرَةُ الرَّدِّ، وَ وُلُوْجُ السَّمْعِ، مَنْ قَالَ بِهٖ صَدَقَ، وَ مَنْ عَمِلَ بِهٖ سَبَقَ.

تمہیں کتاب خدا پر عمل کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہ ایک مضبوط رسی، روشن و واضح نور، نفع بخش شفا، پیاس بجھانے والی سیرابی، تمسک کرنے والے کیلئے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کیلئے نجات ہے۔ اس میں کجی نہیں آتی کہ اسے سیدھا کیا جائے، نہ حق سے الگ ہوتی ہے کہ اس کا رخ موڑا جائے۔ کثرت سے دہرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا اسے پرانا نہیں کرتا۔ جو اس کے مطابق کہے وہ سچا ہے اور جو اس پر عمل کرے وہ سبقت لیجانے والا ہے۔

وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: اَخْبِرْنَا عَنِ الْفِتْنَةِ، و هَلْ سَئَلْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ عَنْهَا؟ فَقَالَ ؑ:

(اسی اثنا میں) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ: ہمیں فتنہ کے بارے میں کچھ بتائیے اور کیا آپؑ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا؟ آپؑ نے فرمایا کہ:

لَمَّاۤ اَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهٗ قَوْلَهٗ: ﴿الٓمّٓۚ۝ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝﴾ عَلِمْتُ اَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا وَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَیْنَ اَظْهُرِنَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا هٰذِهِ الْفِتْنَةُ الَّتِیْۤ اَخْبَرَکَ اللهُ تَعَالٰی بِهَا؟ فَقَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ اُمَّتِیْ سَیُفْتَنُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ». فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! اَوَ لَیْسَ قَدْ قُلْتَ لِیْ یَوْمَ اُحُدٍ حَیْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ حِیْزَتْ عَنِّی الشَّهَادَةُ، فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَیَّ، فَقُلْتَ لِیْ: «اَبْشِرْ، فَاِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَّرَآئِکَ»؟ فَقَالَ لِیْ: «اِنَّ ذٰلِکَ لَکَذٰلِکَ، فَکَیْفَ صَبْرُکَ اِذَنْ»؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! لَیسَ هٰذَا مِنْ مَّوَاطِنِ الصَّبْرِ، وَ لٰکِنْ مِّنْ مَّوَاطِنِ الْبُشْرٰی وَ الشُّکُرِ، وَ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ الْقَوْمَ سَیُفْتَنُوْنَ بِاَمْوَالِهمْ، وَ یَمُنُّوْنَ بِدِیْنِهِمْ عَلٰی رَبِّهِمْ، وَ یَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَهٗ، وَ یَاْمَنُوْنَ سَطْوَتَهٗ، وَ یَسْتَحِلُّوْنَ حَرَامَهٗ بِالشُّبُهَاتِ الْکَاذِبَةِ، وَ الْاَهْوَآءِ السَّاهِیَةِ، فَیَسْتَحِلُّوْنَ الْخَمْرَ بِالنَّبِیْذِ، وَ السُّحْتَ بِالْهَدِیَّةِ، وَ الرِّبَا بِالْبَیْعِ». قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! فَبِاَیِّ الْمَنَازِلِ اُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذٰلِکَ؟ اَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ، اَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ؟ فَقَالَ: «بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ».

ہاں! جب اللہ نے یہ آیت اتاری کہ: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے دوچار نہیں ہوں گے‘‘، تو میں سمجھ گیا کہ فتنہ ہم پر تو نہیں آئے گا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں، چنانچہ میں نے کہا: یا رسول اللہؐ! یہ فتنہ کیا ہے کہ جس کی اللہ نے آپؐ کو خبر دی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «اے علیؑ! میرے بعد میری اُمت جلد ہی فتنوں میں پڑ جائے گی» تو میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! اُحد کے دن جب شہید ہونے والے مسلمان شہید ہوچکے تھے اور شہادت مجھ سے روک لی گئی اور یہ مجھ پر گراں گزرا تھا تو آپؐ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ: «تمہیں بشارت ہو! کہ شہادت تمہیں پیش آنے والی ہے» اور یہ بھی فرمایا تھا کہ: «یہ یونہی ہو کر رہے گا۔ (یہ کہو) کہ اس وقت تمہارے صبر کی کیا حالت ہو گی» تو میں نے کہا تھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ صبر کا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ تو (میرے لئے) مژدہ اور شکر کا مقام ہو گا،۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «یا علیؑ! حقیقت یہ ہے کہ لوگ میرے بعد مال و دولت کی وجہ سے فتنوں میں پڑ جائیں گے اور دین اختیار کر لینے سے اللہ پر احسان جتائیں گے۔ اس کی رحمت کی آرزوئیں تو کریں گے لیکن اس کے قہر و غلبہ (کی گرفت) سے بے خوف ہو جائیں گے کہ جھوٹ موٹ کے شبہوں اور غافل کر دینے والی خواہشوں کی وجہ سے حلال کو حرام کر لیں گے، شراب کو انگور و خرما کا پانی کہہ کر اور رشوت کا نام ہدیہ رکھ کر اور سود کو خرید و فروخت قرار دے کر جائز سمجھ لیں گے»۔ (پھر) میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! میں انہیں اس موقع پر کس مرتبہ پر سمجھوں؟ اس مرتبہ پر کہ وہ مرتد ہو گئے ہیں؟ یا اس مرتبہ پر کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «فتنہ کے مرتبہ پر»۔


اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عائشہ کا رویہ امیر المومنین علیہ السلام سے ہمیشہ معاندانہ رہا اور اکثر ان کے دل کی کدورت ان کے چہرے پر کھل جاتی اور طرز عمل سے نفرت و بیزاری جھلک اٹھتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر کسی واقعہ کے سلسلہ میں حضرتؑ کا نام آ جاتا تو ان کی پیشانی پر بل پڑ جاتا تھا اور اس کا زبان پر لانا بھی گوارا نہ کرتی تھیں۔ چنانچہ عبید اللہ ابن عبد اللہ نے حضرت عائشہ کی اس روایت کا کہ: ’’پیغمبر ﷺ حالت مرض میں فضل ابن عباس اور ایک دوسرے شخص کا سہارا لے کر ان کے ہاں چلے آئے‘‘، حضرت عبد اللہ ابن عباس سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا:
هَلْ تَدْرِیْ مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ وَ لٰکِنَّھَا کَانَتْ لَا تَقْدِرُ عَلٰی اَنْ تَذْکُرَہٗ بِخَیْرٍ.کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ دوسرا شخص کون تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ کہا کہ: وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے مگر حضرت عائشہ کے بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ علی علیہ السلام کا کسی اچھائی کے ساتھ ذکر کرتیں۔(تاریخ طبری، ج۲، ص۴۳۳)اس نفرت و عناد کا ایک سبب حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا وجود تھا کہ جن کی ہمہ گیر عظمت و توقیر ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور سوتاپے کی جلن یہ گوارا نہ کر سکتی تھی کہ پیغمبر ﷺ سوت کی دختر کو اس طرح چاہیں کہ اسے دیکھتے ہی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جائیں اور اپنی مسند پر جگہ دیں اور ’’سیدة نساء العالمین‘‘ کہہ کر دنیا جہاں کی عورتوں پر اس کی فوقیت ظاہر کریں اور اس کی اولاد کو اس حد تک دوست رکھیں کہ انہیں اپنا فرزند کہہ کر پکاریں۔ یہ تمام چیزیں ان پر شاق گزرنے والی تھیں اور فطری طور پر ان کے جذبات اس موقع پر یہی ہوں گے کہ اگر خود ان کے بطن سے اولاد ہوتی تو وہ پیغمبر ﷺ کے بیٹے کہلاتے اور بجائے حسنؑ و حسینؑ کے وہ ان کی محبت کا مرکز بنتے، مگر ان کی گود اولاد سے ہمیشہ خالی ہی رہی اور ماں بننے کی آرزو کو اپنے بھانجے کے نام پر اپنی کنیت اُمّ عبد اللہ رکھ کر پورا کر لیا۔غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جنہوں نے ان کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا کر دیا جس کے تقاضے سے مجبور ہو کر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے خلاف شکوہ و شکایت کرتی رہتی تھیں، مگر پیغمبر ﷺ کی توجہات ان سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس رنجش و کشیدگی کا تذکرہ حضرت ابوبکر کے کانوں میں بھی برابر پہنچتا رہتا تھا جس سے وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے مگر ان کے کئے بھی کچھ نہ ہو سکتا تھا سوا اس کے کہ ان کی زبانی ہمدردیاں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب موقع تھا کہ وہ جس طرح چاہتے انتقام لیتے اور جو تشدد چاہتے روا رکھتے۔ چنانچہ پہلا قدم یہ اٹھایا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو محروم الارث قرار دینے کیلئے پیغمبروں کے ورثہ کی نفی کر دی کہ: نہ وہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے بلکہ ان کا ترکہ حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ جس سے سیدہ سلام اللہ علیہا اس حد تک متاثر ہوئیں کہ ان سے ترک کلام کر دیا اور انہی تاثرات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حضرت عائشہ نے اس موقع پر بھی اپنی روش نہ بدلی اور یہ تک گوارا نہ کیا کہ ان کے انتقال پر ملال پر افسوس کا اظہار کرتیں۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:ثُمَّ مَاتَتْ فَاطِمَةُ فَجَآءَ نِسَآءُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ کُلُّهُنَّ اِلٰى بَنِیْ هَاشِمٍ فِی الْعَزَآءِ اِلَّا عَآئِشَةَ، فَاِنَّهَا لَمْ تَاْتِ وَ اَظْهَرَتْ مَرَضًا وَ نُقِلَ اِلٰى عَلِیٍّ ؑ عَنْهَا کَلَامٌ یَّدُلُّ عَلَى السُّرُوْرِ.جب حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے رحلت فرمائی تو تمام ازواج پیغمبرؐ بنی ہاشم کے ہاں تعزیت کیلئے پہنچ گئیں سوا عائشہ کے کہ وہ نہ آئیں اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مریض ہیں اور حضرت علی علیہ السلام تک ان کی طرف سے ایسے الفاظ پہنچے جن سے ان کی مسرت و شادمانی کا پتہ چلتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۵۹)جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے اس حد تک عناد تھا تو جن سے ان کا دامن وابستہ ہو گا وہ کس طرح ان کی دشمنی و عناد سے بچ سکتا تھا، جب کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہوں کہ جو اس مخالفت کو ہوا دیتے اور ان کے جذبہ نفرت کو ابھارتے ہوں۔ جیسے واقعۂ افک کے سلسلہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا پیغمبر ﷺ سے یہ کہنا کہ: «اِنْ هِیَ اِلَّا شِسْعُ نَعْلِکَ» (۱): ’’یہ تو آپؐ کی جوتی کا تسمہ ہے‘‘، اسے چھوڑئیے اور طلاق دے کر الگ کیجئے۔ جب حضرت عائشہ نے یہ سنا ہوگا تو یقیناً بے قرارى کے بستر پر کروٹیں بدلی ہوں گی اور حضرتؑ کے خلاف جذبہ نفرت انتہائی شدت سے ابھرا ہوگا۔پھر ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے کہ ان کے والد حضرت ابوبکر کے مقابلہ میں حضرتؑ کو امتیاز دیا گیا اور ان کے مدارج کو بلند اور نمایاں کر کے دکھایا گیا۔ جیسے: تبلیغ سورۂ برائت کے سلسلہ میں پیغمبر ﷺ کا انہیں معزول کر کے واپس پلٹا لینا اور یہ خدمت حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کرنا اور یہ فرمانا کہ: «اَنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اُبَلِّغَهٗۤ اَنَا اَوْ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ بَیْتِیْ» (۲): ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود اسے پہنچاؤں یا وہ شخص جو میرے اہلبیتؑ میں سے ہو‘‘۔ اسی طرح مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے کہ جن میں حضرت ابوبکر کے گھر کا بھی دروازہ تھا چنوا دئیے اور صرف امیرالمومنین علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا۔حضرت عائشہ اپنے باپ کے مقابلہ میں حضرتؑ کا تفوق گوارا نہ کر سکتی تھیں اور جب کوئی امتیازی صورت پیدا ہوتی تھی تو اسے مٹانے کی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ چنانچہ جب پیغمبر ﷺ نے آخر وقت میں حضرت اسامہ کے ہمراہ لشکر روانہ کیا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو بھی ان کی زیر امارت جانے کا حکم دیا تو ازواج پیغمبرؐ کے ذریعہ انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی حالت نازک ہے، لشکر کو آگے بڑھنے کے بجائے پلٹ آنا چاہیے۔ چونکہ ان کی دور رس نظروں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ مدینہ کو مہاجرین و انصار سے خالی کرنے کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ رحلت نبیؐ کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے کوئی مزاحم نہ ہو اور کسی شورش انگیزی کے بغیر آپؑ منصب خلافت پر فائز ہو جائیں۔ چنانچہ لشکر اسامہ اس پیغام پر پلٹ آیا۔ جب پیغمبر ﷺ نے یہ دیکھا تو اسامہ کو پھر لشکر لے جانے کی تاکید فرمائی اور یہ تک فرمایا کہ: « لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسَامَةَ» (۳): ’’جو شخص لشکر اسامہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ جس پر وہ پھر روانہ ہوئے مگر پھر انہیں واپس بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر ﷺ کے مرض نے شدت اختیار کر لی اور لشکر کو روانہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ اس کاروائی کے بعد بلال کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو یہ کہلوایا جاتا ہے کہ وہ امامت نماز کے فرائض سر انجام دیں تا کہ ان کی خلافت کیلئے راستہ ہموار ہو جائے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انہیں ’’خَلِیْفَةُ ’’شقشقہ‘‘ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلَی الصَّلٰوةِ‘‘ کہہ کر خلیفہ علی الاطلاق مان لیا گیا اور پھر ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی طرح خلافت امیر المومنین علیہ السلام تک نہ پہنچ سکے، لیکن دور ثالث کے بعد حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ لوگ آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے مجبور ہو گئے۔ حضرت عائشہ اس موقع پر مکہ میں تشریف فرما تھیں انہیں جب حضرتؑ کی بیعت کا علم ہوا تو ان کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے، غیظ و غضب نے مزاج میں برہمی پیدا کر دی اور نفرت نے ایسی شدت اختیار کر لی کہ جس خون کے بہانے کا فتویٰ دے چکی تھیں اسی کے قصاص کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجہ میں ایسا کشت و خون ہوا کہ بصرہ کی سرزمین کشتوں کے خون سے رنگین ہو گئی اور افتراق انگیزی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھل گیا۔
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۲، ص ۴۵۹۔
[۲]۔ شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۳۱۱۔
[۳]۔ بحار الانوار، ج ۳۰، ص ۴۳۲۔

 

balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:42
عون نقوی