بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اَیَّتُهَا النُّفُوْسُ الْمُخْتَلِفَةُ، وَ الْقُلُوْبُ الْمُتَشَتِّتَةُ، الشَّاهِدَةُ اَبْدَانُهُمْ، وَ الْغَآئِبَةُ عَنْهُمْ عُقُوْلُهُمْ، اَظْاَرُکُمْ عَلَی الْحَقِّ وَ اَنْتُمْ تَنْفِرُوْنَ عَنْهُ نُفُوْرَ الْمِعْزٰی مِنْ وَّعْوَعَةِ الْاَسَدِ! هَیْهَاتَ اَنْ اَطْلَعَ بِکُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ، اَوْ اُقِیْمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ.

اے الگ الگ طبیعتوں اور پراگندہ دل و دماغ والو کہ جن کے جسم موجود اور عقلیں گم ہیں، میں تمہیں نرمی و شفقت سے حق کی طرف لانا چاہتا ہوں اور تم اس سے اس طرح بھڑک اٹھتے ہو جس طرح شیر کے ڈکارنے سے بھیڑ بکریاں۔ کتنا دشوار ہے کہ میں تمہارے سہارے پر چھپے ہوئے عدل کو ظاہر کروں یا حق میں پیدا کی ہوئی کجیوں کو سیدھا کروں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّهٗ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْ کَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِیْ سُلْطَانٍ، وَ لَا الْتِمَاسَ شِیْءٍ مِّنْ فُضُوْلِ الْحُطَامِ، وَ لٰکِنْ لِّنَرُدَّ الْمَعَالِمَ مِنْ دِیْنِکَ، وَ نُظْهِرَ الْاِصْلَاحَ فِیْ بِلَادِکَ، فَیَاْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبَادِکَ، وَ تُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُوْدِکَ.

بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا اِس لئے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی، بلکہ یہ اس لئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ اِنّیْۤ اَوَّلُ مَنْ اَنابَ، وَ سَمِعَ وَ اَجَابَ، لَمْ یَسْبِقْنِیْۤ اِلَّا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالصَّلٰوةِ.

اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کی اور تیرے حکم کو سن کر لبیک کہی اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی نے بھی نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نہیں کی۔

وَ قَدْ عَلِمْتُمْ اَنَّهٗ لَا یَنْۢبَغِیْۤ اَنْ یَّکُوْنَ الْوَالِیَ عَلَی الْفُرُوْجِ وَ الدِّمَآءِ وَ الْمَغَانِمِ وَ الْاَحْکَامِ وَ اِمَامَةِ الْمُسْلِمِیْنَ الْبَخِیْلُ، فَتَکُوْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُهٗ، وَ لَا الْجَاهِلُ فَیُضِلَّهُمْ بِجَهْلِهٖ، وَ لَا الْجَافِیْ فَیَقْطَعَهُمْ بِجَفَآئِهٖ، وَ لَا الْحَآئِفُ لِلدُّوَلِ فَیَتَّخِذَ قَوْمًا دُوْنَ قَوْمٍ، وَ لَا الْمُرْتَشِیْ فِی الْحُکْمِ فَیَذْهَبَ بِالْحُقُوْقِ وَیَقِفَ بِهَا دُوْنَ الْمَقَاطِعِ، وَ لَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَیُهْلِکَ الْاُمَّةَ.

(اے لوگو!) تمہیں یہ معلوم ہے کہ ناموس، خون، مالِ غنیمت، (نفاذ) احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کیلئے کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی بخیل حاکم ہو، کیونکہ اس کا دانت مسلمانوں کے مال پر لگا رہے گا اور نہ کوئی جاہل کہ وہ انہیں اپنی جہالت کی وجہ سے گمراہ کرے گا اور نہ کوئی کج خلق کہ وہ اپنی تند مزاجی سے چرکے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مال و دولت میں بے راہ روی کرنے والا کہ وہ کچھ لوگوں کو دے گا اور کچھ کو محروم کر دے گا اور نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا کہ وہ (دوسروں کے) حقوق کو رائیگاں کر دے گا اور انہیں انجام تک نہ پہنچائے گا اور نہ کوئی سنت کو بیکار کر دینے والا کہ وہ اُمت کو تباہ و برباد کر دے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:20
عون نقوی

لِاَبِیْ ذَرٍّ رَحِمَهُ اللهُ، لَـمَّاۤ اُخْرِجَ اِلَی الرَّبَذَةِ:

جب حضرت ابو ذرؓ کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان سے خطاب کر کے فرمایا:

یَاۤ اَبَا ذَرٍّ! اِنَّکَ غَضِبْتَ لِلّٰهِ، فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهٗ، اِنَّ الْقَوْمَ خَافُوْکَ عَلٰی دُنْیَاهُمْ، وَ خِفْتَهُمْ عَلٰی دِیْنِکَ، فَاتْرُکْ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ مَا خَافُوْکَ عَلَیْهِ، وَ اهْرُبْ مِنهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَیْهِ، فَمَاۤ اَحْوَجَهُمْ اِلٰی مَا مَنَعْتَهُمْ، وَ مَاۤ اَغْنَاکَ عَمَّا مَنَعُوْکَ! وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَدًا، وَ الْاَکْثَرُ حُسَّدًا.

اے ابو ذر! تم اللہ کیلئے غضب ناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو۔ ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے، لہٰذا جس چیز کیلئے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑو اور جس شے کیلئے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلو۔ جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو (کاش کہ وہ سمجھتے کہ) وہ اس کے کتنے حاجتمند ہیں اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لو گے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔

وَ لَوْ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرَضِیْنَ کَانَتَا عَلٰی عَبْدٍ رَتْقًا، ثُمَّ اتَّقَی اللهَ، لَجَعَلَ اللهُ لَهٗ مِنْهُمَا مَخْرَجًا! لَا یُؤْنِسَنَّکَ اِلَّا الْحَقُّ، وَ لَا یُوْحِشَنَّکَ اِلَّا الْبَاطِلُ، فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْیَاهُمْ لَاَحَبُّوْکَ، وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَاَمَّنُوْکَ.

اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کیلئے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا۔ تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہیے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہیے۔ اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے۔


 
’’ابو ذر غفاری‘‘ کا نام جندب ابن جنادہ تھا۔ ربذہ کے رہنے والے تھے جو مدینہ کی مشرقی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔جب بعثتِ رسولؐ کا تذکرہ سنا تو مکہ آئے اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد پیغمبر ﷺ کی خدمت میں بازیاب ہو کر اسلام قبول کیا جس پر کفار قریش نے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں اذیتوں پر اذیتیں پہنچائیں۔ مگر آپ کے ثبات قدم میں لغزش نہ آئی۔ اسلام لانے والوں میں آپ تیسرے یا چوتھے یا پانچویں ہیں اور اس سبقت اسلامی کے ساتھ آپ کے زہد و اتقاء کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
 
اَبُوْ ذَرٍّ فِیْ اُمَّتِیْ شَبِیْهُ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ فِیْ زُهْدِه وَ وَرَعِه.
 
میری اُمت میں ابوذر زہد و ورع میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی مثال ہیں۔(۱)
 
آپ حضرت عمر کے دورِ حکومت میں شام چلے گئے اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں بھی وہیں مقیم تھے۔ زندگی کے شب و روز ہدایت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دینے، اہل بیت رسول علیہم السلام کی عظمت سے روشناس کرنے اور جادۂ حق کی طرف رہنمائی فرمانے میں گزرتے تھے۔ چنانچہ شام اور جبل عامل میں شیعیت کے جو اثرات پائے جاتے ہیں وہ آپ ہی کی تبلیغ و مساعی کا نتیجہ اور آپ ہی کے بوئے ہوئے بیج کے برگ و بار ہیں۔ امیر شام معاویہ کو ان کی یہ روش پسند نہ تھی۔ چنانچہ وہ ان کے کھلم کھلا لے دے کرنے اور حضرت عثمان کی زر اندوزی و بے راہ روی کے تذکرے کرنے سے انتہائی بیزار تھے، مگر کچھ بنائے نہ بنتی تھی۔ آخر اس نے حضرت عثمان کو لکھا کہ اگر یہ کچھ عرصہ اور یہاں مقیم رہے تو ان اطراف کے لوگوں کو تم سے برگشتہ کر دیں گے، لہٰذا اس کا انسداد ہونا چاہیے جس پر انہوں نے لکھا کہ ابو ذرّ کو شتر بے پالان پر سوار کر کے مدینہ روانہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا گیا۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو یہاں بھی حق و صداقت کی تبلیغ شروع کر دی۔ مسلمانوں کو پیغمبر ﷺ کا عہد یاد دلاتے، کسروی و قیصری شان کے مظاہروں سے روکتے، جس پر حضرت عثمان جز بز ہوتے، ان کی زبان بندی کی تدبیریں کرتے۔ چنانچہ ایک دن انہیں بلا کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے پھرتے ہو کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
 
اِذَا کَمُلَتْ بَنُوْۤ اُمَیّةَ ثَلَاثِیْنَ رَجُلًا، اتّخَذُوْا بِلَادَ اللّٰهِ دُوَلًا، و عِبادَ اللّٰهِ خَوَلًا، وَ دِیْنَ اللّٰهِ دَغَلًا.
 
جب بنی امیہ کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو وہ اللہ کے شہروں کو اپنی جاگیر اور اس کے بندوں کو اپنا غلام اور اس کے دین کو فریب کاری کا ذریعہ قرار دے لیں گے۔)
 
آپ نے کہا کہ بیشک میں نے پیغمبر اسلام ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا۔ عثمان نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اور پاس بیٹھنے والوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو سنا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا۔ جس پر حضرت ابوذر نے فرمایا کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دریافت کیا جائے۔ چنانچہ آپؑ کو بلا کر دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ہاں یہ درست ہے اور ابو ذر سچ کہتے ہیں۔ عثمان نے کہا کہ آپؑ کس بنا پر اس حدیث کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ:
 
مَاۤ اَظَلَّتِ الْخَضْرَآءُ وَ لَاۤ اَقَلَّتِ الْغَبْرَآءُ عَلٰى ذِیْ لَهْجَةٍ اَصْدَقَ مِنْ اَبِیْ ذَرٍّ.
 
کسی بولنے والے پر آسمان نے سایہ نہیں ڈالا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا جو ابو ذر سے زیادہ راست گو ہو۔(۳)
 
اب حضرت عثمان کیا کہہ سکتے تھے اگر جھٹلاتے تو پیغمبر ﷺ کی تکذیب لازم آتی تھی۔ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور کوئی تردید نہ کر سکے۔ ادھر حضرت ابو ذر نے سرمایہ پرستی کے خلاف کُھلم کھلا کہنا شروع کر دیا اور حضرت عثمان کو دیکھتے تو اس آیت کی تلاوت فرماتے:
 
﴿وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنْفِقُوْنَهَا فِىْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ‏ ﴿۳۴﴾ یَّومَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِىْ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُکْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ‌ؕ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ﴾
 
وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو جس دن کہ ان کا جمع کیا ہوا سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جسے تم نے اپنے لئے ذخیرہ بنا کر رکھا تھا تو اب اس ذخیرہ اندوزی کا مزا چکھو۔(۴)
 
حضرت عثمان نے مال و دولت کا لالچ دیا مگر اس طائر آزاد کو سنہرى جال میں نہ جکڑ سکے۔ تشدد و سختی سے بھی کام لیا مگر ان کی زبان حق ترجمان کو بند نہ کر سکے۔ آخر انہیں مدینہ چھوڑ دینے اور ربذہ کی جانب چلے جانے کا حکم دیا اور طرید رسولؐ کے فرزند مروان کو اس پر مامور کیا کہ وہ انہیں مدینہ سے باہر نکال دے اور اس کے ساتھ یہ قہرمانی فرمان بھی صادر فرمایا کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ انہیں الوداع کہے۔ مگر امیرالمومنین علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، عقیل، عبد اللہ ابن جعفر اور عمار یاسر نے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور انہیں رخصت کرنے کیلئے ساتھ ہو لئے اور اسی رخصت کے موقعہ پر حضرتؑ نے ان سے یہ کلمات فرمائے۔
 
ربذہ میں حضرت ابو ذر کی زندگی بڑی ابتلاؤں میں کٹی۔ یہیں پر آپ کے فرزند ’’ذر‘‘ اور اہلیہ نے انتقال کیا اور جو بھیڑ بکریاں گزارے کیلئے پال رکھی تھیں وہ بھی ہلاک ہو گئیں۔ اولاد میں صرف ایک دختر رہ گئی جو فاقوں اور دکھوں میں برابر کی شریک تھی۔ جب سر و سامان زندگی ناپید ہو گئے اور فاقوں پر فاقے ہونے لگے تو اس نے حضرت ابو ذر سے عرض کیا کہ: بابا یہ زندگی کے دن کس طرح کٹیں گے؟ کہیں آنا جانا چاہئے اور رزق کی تلاش کرنا چاہئے۔ جس پر حضرت ابو ذرّ اسے ہمراہ لے کر صحرا کی طرف نکل کھڑے ہوئے مگر گھاس پات بھی میسر نہ آ سکا۔ آخر تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئے اور ریت جمع کر کے اس کا ڈھیر بنایا اور اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے اسی عالم میں سانسیں اکھڑ گئیں، پتلیاں اوپر چڑھ گئیں، نزع کی حالت طاری ہو گئی۔ جب دختر ابو ذرّ نے یہ حالت دیکھی تو سراسیمہ و مضطرب ہو کر کہنے لگی کہ: بابا! اگر آپ نے اس لق و دق صحرا میں انتقال فرمایا تو میں اکیلی کیسے دفن و کفن کا سامان کروں گی؟ آپ نے فرمایا کہ: بیٹی گھبراؤ نہیں، پیغمبر اکرم ﷺ مجھ سے فرما گئے تھے کہ: ’’اے ابو ذرّ! تم عالم غربت میں مرو گے اور کچھ عراقی تمہاری تجہیز و تکفین کریں گے‘‘۔ تم میرے مرنے کے بعد ایک چادر میرے اوپر ڈال دینا اور سرِ راہ جا بیٹھنا اور جب ادھر سے کوئی قافلہ گزرے تو اس سے کہنا کہ پیغمبر ﷺ کے صحابی ابو ذرّ نے انتقال کیا ہے۔ چنانچہ ان کی رحلت کے بعد وہ سرِ راہ جا کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر کے بعد ادھر سے ایک قافلہ گزرا جس میں ہلال ابن مالک مزنی، احنف ابن قیس تمیمی، صعصعہ ابن صوحان عبدی، اسود ابنِ قیس تمیمی اور مالک ابن حارث اشتر تھے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ذر کے انتقال کی خبر سنی تو اس بے کسی کی موت پر تڑپ اٹھے۔ سواریاں روک لیں اور ان کی تجہیز و تکفین کیلئے سفر ملتوی کر دیا۔ مالک اشتر نے ایک حلہ کفن کیلئے دیا جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی اور تجہیز و تکفین کے فرائض سر انجام دے کر رخصت ہوئے۔ یہ واقعہ ۸ ذی الحجہ ۳۲ھ کا ہے۔

 
[۱]۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ۴۔
 
[۲]۔ تاریخ الیعقوبی، ج ۱، ص ۱۷۵۔
 
[۳]۔ معانی الاخبار، ص ۱۷۸۔ طبقات ابن سعد، ج ۴، ص ۲۲۸۔
 
[۴]۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۴-۳۵۔

balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:12
عون نقوی

فِیْ ذِکْرِ الْمَکَایِیْلِ وَ الْمَوَازِیْنِ

جس میں آپؑ نے پیمانوں اور ترازوؤں کا ذکر فرمایا ہے

عِبَادَ اللهِ! اِنَّکُمْ ــ وَ مَا تَاْمُلُوْنَ مِنْ هٰذِهِ الدُّنْیَاــ اَثْوِیَآءُ مُؤَجَّلُوْنَ، وَ مَدِیْنُوْنَ مُقْتَضَوْنَ: اَجَلٌ مَّنْقُوْصٌ، وَ عَمَلٌ مَّحْفُوْظٌ، فَرُبَّ دَآئِبٍ مُّضَیِّـعٌ، وَ رُبَّ کَادِحٍ خَاسِرٌ. وَ قَدْ اَصْبَحْتُمْ فِیْ زَمَنٍ لَّا یَزْدَادُ الْخَیْرُ فِیْهِ اِلَّاۤ اِدْبَارًا، وَ لَا الشَّرُّ اِلَّا اِقْبَالًا، وَ لَا الشَّیْطٰنُ فِیْ هَلَاکِ النَّاسِ اِلَّا طَمَعًا.

اللہ کے بندو! تم اور تمہاری اس دنیا سے بندھی ہوئی امیدیں مقررہ مدت کی مہمان ہیں اور ایسے قرضدار جن سے ادائیگی کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ عمر ہے جو گھٹتی جا رہی ہے اور اعمال ہیں جو محفوظ ہو رہے ہیں۔ بہت سے دوڑ دھوپ کرنے والے اپنی محنت اَکارت کرنے والے ہیں اور بہت سے سعی و کوشش میں لگے رہنے والے گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ تم ایسے زمانے میں ہو کہ جس میں بھلائی کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور برائی آگے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو تباہ کرنے میں شیطان کی حرص تیز ہوتی جا رہی ہے۔

فَهٰذَا اَوَانٌ قَوِیَتْ عُدَّتُهٗ، وَ عَمَّتْ مَکِیْدَتُهٗ، وَ اَمْکَنَتْ فَرِیْسَتُهٗ. اِضْرِبْ بِطَرْفِکَ حَیْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ، فَهَلْ تُبْصِرُ اِلَّا فَقِیْرًا یُکَابِدُ فَقْرًا، اَوْ غَنِیًّا بَدَّلَ نِعْمَةَ اللهِ کُفْرًا، اَوْ بَخِیْلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللهِ وَفْرًا، اَوْ مُتَمَرِّدًا کَاَنَّ بِاُذُنِهٖ عَنْ سَمْعِ الْموَاعِظِ وَقْرًا!.

چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ اس (کے ہتھکنڈوں) کا سرو سامان مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی سازشیں پھیل رہی ہیں اور اس کے شکار آسانی سے پھنس رہے ہیں۔ جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ، تم یہی دیکھو گے کہ ایک طرف کوئی فقیر فقر و فاقہ جھیل رہا ہے اور دوسری طرف دولت مند نعمتوں کو کفرانِ نعمت سے بدل رہا ہے اور کوئی بخیل اللہ کے حق کو دبا کر مال بڑھا رہا ہے اور کوئی سرکش پند و نصیحت سے کان بند کئے پڑا ہے۔

اَیْنَ خِیَارُکُمْ وَ صُلَحَآؤُکُمْ! وَ اَیْنَ اَحْرَارُکُمْ وَ سُمَحَآؤُکُمْ! وَ اَیْنَ الْمُتَوَرِّعُوْنَ فِیْ مَکَاسِبِهِمْ، وَ الْمُتَنَزِّهُوْنَ فِیْ مَذَاهِبِهِمْ! اَ لَیْسَ قَدْ ظَعَنُوْا جَمِیْعًا عَنْ هٰذِهِ الدُّنْیَا الدَّنِیَّةِ، وَ الْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ، وَ هَلْ خُلِّفْتُمْ اِلَّا فِیْ حُثَالَةٍ لَّا تَلْتَقِیْۤ بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ، اسْتِصْغَارًا لِّقَدْرِهِمْ، وَ ذَهَابًا عَنْ ذِکْرِهِمْ؟! فَـ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۝﴾، ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ﴾ فَلَا مُنْکِرٌ مُّغَیِّرٌ، وَ لَا زَاجِرٌ مُّزْدَجِرٌ.

کہاں ہیں تمہارے نیک اور صالح افراد؟ اور کہاں ہیں تمہارے عالی حوصلہ اور کریم النفس لوگ؟ کہاں ہیں کاروبار میں (دَغا و فریب) سے بچنے والے اور اپنے طور طریقوں میں پاک و پاکیزہ رہنے والے؟ کیا وہ سب کے سب اس ذلیل اور زندگی کا مزا کرکرا کرنے والی تیز رو دنیا سے گزر نہیں گئے اور کیا تم ان کے بعد ایسے رذیل اور ادنیٰ لوگوں میں نہیں رہ گئے کہ جن کے مرتبہ کو پست و حقیر سمجھتے ہوئے اور ان کے ذکر سے پہلو بچاتے ہوئے ہونٹ ان کی مذمت میں بھی کھلنا گوارا نہیں کرتے۔﴿ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾، فساد اُبھر آیا ہے، برائی کا وہ دور ایسا ہے کہ انقلاب کے کوئی آثار نہیں اور نہ کوئی روک تھام کرنے والا ہے جو خود بھی باز رہے۔

اَفَبِهٰذَا تُرِیْدُوْنَ اَنْ تُجَاوِرُوا اللهَ فِیْ دَارِ قُدْسِهٖ، وَ تَکُوْنُوْۤا اَعَزَّ اَوْلِیَآئِهٖ عِنْدَهٗ؟ هَیْهَاتَ! لَا یُخْدَعُ اللهُ عَنْ جَنَّتِهٖ، وَ لَا تُنَالُ مَرْضَاتُهٗ اِلَّا بِطَاعَتِهٖ. لَعَنَ اللهُ الْاٰمِرِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ التَّارِکِیْنَ لَهٗ، وَ النَّاهِیْنَ عَنِ الْمُنکَرِ الْعَامِلِیْنَ بِهٖ!.

کیا انہی کرتوتوں سے جنت میں اللہ کے پڑوس میں بسنے اور اس کا گہرا دوست بننے کا ارادہ ہے؟ ارے توبہ! اللہ کو دھوکا دے کر اس سے جنت نہیں لی جا سکتی اور بغیر اس کی اطاعت کے اس کی رضامندیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے کہ جو اوروں کو بھلائی کا حکم دیں اور خود اسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود ان پر عمل کرتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:06
عون نقوی

فِیْمَا یُخْبِرُ بِهٖ عَنِ الْمَلَاحِمِ بِالْبَصْرَةِ

اس میں بصرہ کے اندر برپا ہونے والے ہنگاموں کا تذکرہ ہے

یاۤ اَحْنَفُ! کَاَنِّیْ بِهٖ وَ قَدْ سَارَ بِالْجَیْشِ الَّذِیْ لَا یَکُوْنُ لَهٗ غُبَارٌ وَّ لَا لَجَبٌ، وَ لَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ، وَ لَا حَمْحَمَةُ خَیْلٍ، یُثِیْرُوْنَ الْاَرْضَ بِاَقْدَامِهِمْ کَاَنَّهاۤ اَقْدَامُ النَّعَامِ.

اے احنف! میں اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسے لشکر کو لے کر بڑھ رہا ہے کہ جس میں نہ گرد و غبار ہے، نہ شور و غوغا، نہ لگاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز۔ وہ لوگ زمین کو اپنے پَیروں سے جو شتر مرغ کے پیروں کے مانند ہیں روند رہے ہوں گے۔

یُوْمِئُ بِذٰلِکَ اِلٰی صَاحِبِ الزِّنْجِ. ثُمَّ قَالَ ؑ:

سیّد رضی کہتے ہیں کہ: حضرتؑ نے اس سے حبشیوں کے سردار کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا:

وَیْلٌ لِّسِکَـکِکُمُ الْعَامِرَةِ، وَ الدُّوْرِ الْمُزَخْرَفَةِ الَّتِیْ لَهَاۤ اَجْنِحَةٌ کَاَجْنَحَةِ النُّسُوْرِ، وَ خَرَاطِیْمُ کَخَرَاطِیْمِ الْفِیَلَةِ، مِنْ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَا یُنْدَبُ قَتِیْلُهُمْ، وَ لَا یُفْقَدُ غَآئِبُهُمْ. اَنَا کَآبُّ الدُّنْیَا لِوَجْهِهَا، وَ قَادِرُهَا بِقَدْرِهَا، وَ نَاظِرُهَا بِعَیْنِهَا.

ان لوگوں کے ہاتھوں سے کہ جن کے قتل ہو جانے والوں پر بین نہیں کیا جاتا اور گم ہونے والوں کو ڈھونڈھا نہیں جاتا، تمہاری ان آباد گلیوں اور سجے سجائے مکانوں کیلئے تباہی ہے کہ جن کے چھجے گِدوں کے پروں اور ہاتھیوں کی سونڈوں کے مانند ہیں۔ میں دنیا کو اوندھے منہ گرانے والا اور اس کی بساط کا صحیح اندازہ رکھنے والا اور اس کے لائق حال نگاہوں سے دیکھنے والا ہوں۔

[مِنْهُ: یُوْمِئُ بِہٖۤ اِلٰی وَصْفِ الْاَتْرَاکِ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں ترکوں کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے]

کَاَنِّیْۤ اَرَاهُمْ قَوْمًا کَاَنَّ وُجُوْهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ، یَلْبَسُوْنَ السَّرَقَ وَ الدِّیْبَاجَ، وَ یَعْتَقِبُوْنَ الْخَیْلَ الْعِتَاقَ، وَ یَکُوْنُ هُنَاکَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ، حَتّٰی یَمْشِیَ الْمَجْرُوْحُ عَلَی الْمَقْتُوْلِ، وَ یَکُوْنَ الْمُفْلِتُ اَقَلَّ مِنَ الْمَاْسُوْرِ!.

میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جن کے چہرے ان ڈھالوں کی طرح ہیں کہ جن پر چمڑے کی تہیں منڈھی ہوئی ہوں۔ وہ ابریشم و دیبا کے کپڑے پہنتے ہیں اور اصیل گھوڑوں کو عزیز رکھتے ہیں اور وہاں کشت و خون کی گرم بازاری ہو گی، یہاں تک کہ زخمی کشتوں کے اوپر سے ہو کر گزریں گے اور بچ کر بھاگ نکلنے والے اسیر ہونے والوں سے کم ہوں گے۔

فَقَالَ لَهٗ بَعْضُ اَصْحَابِهٖ: لَقَدْ اُعْطِیْتَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِلْمَ الْغَیْبِ! فَضَحِکَ ؑ وَ قَالَ لِلرَّجُلِ ـ وَ کَانَ کَلْبِیًّاـ:

(اس موقع پر) آپؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے جو قبیلہ بنی کلب سے تھا عرض کیا کہ: یا امیرالمومنینؑ! آپؑ کو تو علم غیب حاصل ہے۔ جس پر آپؑ ہنسے اور فرمایا:

یاۤ اَخَا کَلْبٍ! لَیْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَیْبٍ، وَ اِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِّنْ ذِیْ عِلْمٍ، وَ اِنَّمَا عِلْمُ الْغَیْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ، وَ مَا عَدَّدَهُ اللهُ سُبْحَانَهٗ بِقَوْلِهٖ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ ...﴾ الْاٰیَةَ، فَیَعْلَمُ سُبْحَانَهٗ مَا فِی الْاَرْحَامِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی، وَ قَبِیْحٍ اَوْ جَمِیْلٍ، وَ سَخِیٍّ اَوْ بَخِیْلٍ، وَ شَقیٍّ اَوْ سَعِیْدٍ، وَ مَنْ یَّکُوْنُ فِی النَّارِ حَطَبًا، اَوْ فِی الْجِنَانِ لِلنَّبِیِّیْنَ مُرَافِقًا، فَهٰذَا عِلْمُ الْغَیْبِ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُهٗۤ اَحَدٌ اِلَّا اللهُ، وَ مَا سِوٰی ذٰلِکَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللهُ نَبِیَّهٗ بِہٖ فَعَلَّمَنِیْهِ، وَ دَعَا لِیْ بِاَنْ یَّعِیَهٗ صَدْرِیْ، وَ تَضْطَمَّ عَلَیْهِ جَوَانِحِیْ.

اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں، بلکہ ایک صاحب علم (رسولؐ) سے معلوم کی ہوئی باتیں ہیں۔علم غیب تو قیامت کی گھڑی اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے کہ جنہیں اللہ سبحانہ نے﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ ...﴾والی آیت میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اللہ ہی جانتا ہے کہ شکموں میں کیا ہے، نر ہے یا مادہ، بد صورت ہے یا خوبصورت، سخی ہے یا بخیل، بدبخت ہے یا خوش نصیب اور کون جہنم کا ایندھن ہو گا اور کون جنت میں نبیوں کا رفیق ہو گا۔ یہ وہ علم غیب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ رہا دوسری چیزوں کا علم تو وہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو دیا اور نبیؐ نے مجھے بتایا اور میرے لئے دُعا فرمائی کہ میرا سینہ انہیں محفوظ رکھے اور میری پسلیاں انہیں سمیٹے رہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:01
عون نقوی

لِلْخَوَارِجِ اَیْضًا

خوارج کے متعلق فرمایا

فَاِنْ اَبَیْتُمْ اِلَّا اَنْ تَزْعُمُوْا اَنِّیْۤ اَخْطَاْتُ وَ ضَلَلْتُ، فَلِمَ تُضَلِّلُوْنُ عَامَّةَ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ بِضَلَالِیْ، وَ تَاْخُذُوْنَهُمْ بِخَطَئِیْ، وَ تُکَفِّرُوْنَهُمْ بِذُنُوْبِیْ! سُیُوْفُکُمْ عَلٰی عَوَاتِقِکُمْ تَضَعُوْنَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ وَ السُّقْمِ، وَتَخْلِطُوْنَ مَنْ اَذْنَبَ بِمَنْ لَّمْ یُذْنِبْ.

اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے اُمت ِمحمدؐ کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو؟ اور میری غلطی کی پاداش انہیں کیوں دیتے ہو؟ اور میرے گناہوں کے سبب سے انہیں کیوں کافر کہتے ہو؟ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کئے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطا کاروں کے ساتھ ملائے دیتے ہو۔

وَ قَدْ عَلِمْتُمْ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَجَمَ الزَّانِیَ الْمُحْصَنَ، ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْهِ ثُمَّ وَرَّثَهٗ اَهْلَهٗ، وَ قَتَلَ الْقَاتِلَ وَ وَرَّثَ مِیْرَاثَهٗ اَهْلَهٗ، وَ قَطَعَ السَّارِقَ وَ جَلَدَ الزَّانِیَ غَیْرَ الْمُحْصَنِ ثُمَّ قَسَمَ عَلَیْهِمَا مِنَ الْفَیْءِ وَ نَکَحَا الْمُسْلِمَاتِ فَاَخَذَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِذُنُوْبِهِمْ، وَ اَقَامَ حَقَّ اللهِ فِیْهِمْ، وَ لَمْ یَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الْاِسْلَامِ، وَ لَمْ یُخْرِجْ اَسْمَآئَهُمْ مِنْۢ بَیْنِ اَهْلِهٖ. ثُمَّ اَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ، وَ مَنْ رَّمٰی بِهِ الشَّیْطٰنُ مَرَامِیَهٗ، وَ ضَرَبَ بِهٖ تِیْهَهٗ!.

حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول ﷺ نے جب زانی کو سنگسار کیا تو نماز جنازہ بھی اس کی پڑھی اور اس کے وارثوں کو اس کا ورثہ بھی دلوایا اور قاتل سے قصاص لیا تو اس کی میراث اس کے گھر والوں کو دلائی، چور کے ہاتھ کاٹے اور زنائے غیر محصنہ کے مرتکب کو تازیانے لگوائے تو اس کے ساتھ انہیں مال غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور انہوں نے (مسلمان ہونے کی حیثیت سے) مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کئے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کے گناہوں کی سزا ان کو دی اور جو ان کے بارے میں اللہ کا حق (حد شرعی) تھا اسے جاری کیا، مگر انہیں اسلام کے حق سے محروم نہیں کیا اور نہ اہل اسلام سے ان کے نام خارج کئے۔ اس کے بعد (ان شر انگیزیوں کے معنی یہ ہیں کہ) تم ہو ہی شر پسند اور وہ کہ جنہیں شیطان نے اپنی مقصد برآری کی راہ پر لگا رکھا ہے اور گمراہی کے سنسان بیابان میں لا پھینکا ہے۔

وَ سَیَهْلِکُ فِیَّ صِنْفَانِ: مُحِبٌّ مُّفْرِطٌ یَّذْهَبُ بِهِ الْحُبُّ اِلٰی غَیْرِ الْحَقِّ، وَ مُبْغِضٌ مُّفْرِطٌ یَّذْهَبُ بِهِ الْبُغْضُ اِلٰی غَیْرِ الْحَقِّ، وَ خَیْرُ النَّاسِ فِیَّ حَالًا النَّمَطُ الْاَوْسَطُ فَالْزَمُوْهُ، وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْاَعْظَمَ، فَاِنَّ یَدَ اللهِ عَلَی الْجَمَاعَةِ، وَ اِیَّاکُمْ وَ الْفُرْقَةَ! فَاِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطٰنِ، کَماۤ اَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ.

(یاد رکھو کہ) میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوں گے: ایک حد سے زیادہ چاہنے والے جنہیں محبت (کی افراط) غلط راستے پر لگا دے گی اور ایک میرے مرتبہ میں کمی کر کے دشمنی رکھنے والے کہ جنہیں یہ عناد حق سے بے راہ کر دے گا۔ میرے متعلق درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہی سب سے بہتر حالت میں ہوں گے۔ تم اسی راہ پر جمے رہو اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے، جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔

اَلَا مَنْ دَعَاۤ اِلٰی هٰذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوْهُ، وَ لَوْ کَانَ تَحْتَ عِمَامَتِیْ هٰذِهِ، وَ اِنَمَّا حُکِّمَ الْحَکَمَانِ لِیُحْیِیَا مَاۤ اَحْیَا الْقُرْاٰنُ، وَ یُمِیْتَا مَاۤ اَمَاتَ الْقُرْاٰنُ، وَ اِحْیَآؤُهُ الْاِجْتِمَاعُ عَلَیْهِ، وَ اِمَاتَتُهُ الْاِفْتَرَاقُ عَنْهُ، فَاِنْ جَرَّنَا الْقُرْاٰنُ اِلَیْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ، وَ اِنْ جَرَّهُمْ اِلَیْنَا اتَّبَعُوْنَا.

خبردار! جو بھی ایسے نعرے لگا کر اپنی طرف بلائے اسے قتل کر دو، اگرچہ وہ اسی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ( یعنی میں خود کیوں نہ ہوں) اور وہ دونوں حَکم (ابو موسیٰ و عمر و ابن عاص) تو صرف اس لئے ثالث مقرر کئے گئے تھے کہ وہ انہی چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور انہی چیزوں کو نیست و نابود کریں جنہیں قرآن نے نیست و نابود کیا ہے۔ کسی چیز کے زندہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس پر یکجہتی کے ساتھ متحد ہوا جائے اور اس کے نیست و نابود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اب اگر قرآن ہمیں ان لوگوں (کی اطاعت) کی طرف لے جاتا تو ہم ان کے پیرو بن جاتے اور اگر انہیں ہماری طرف لائے تو پھر انہیں ہمارا اتباع کرنا چاہیے۔

فَلَمْ اٰتِ ـ لَا اَبَا لَکُمْ ـ بُجْرًا، وَ لَا خَتَلْتُکُمْ عَنْ اَمْرِکُمْ، وَ لَا لَبَّسْتُهٗ عَلَیْکُمْ، اِنَّمَا اجْتَمَعَ رَاْیُ مَلَئِکُمْ عَلَی اخْتِیَارِ رَجُلَیْنِ، اَخَذْنَا عَلَیْهِمَاۤ اَنْ لَّا یَتَعَدَّیَا الْقُرْاٰنَ، فَتَاهَا عَنْهُ، وَ تَرَکَا الْحَقَّ وَ هُمَا یُبْصِرَانِهٖ، وَ کَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَیَا عَلیْهِ، وَ قَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَآؤُنَا عَلَیْهِمَا ـ فِی الْحُکُومَةِ بِالْعَدْلِ، وَ الصَّمْدِ لِلْحَقِّ ـ سُوْٓءَ رَاْیِهِمَا وَ جَوْرَ حُکْمِهِمَا.

تمہارا بُرا ہو! میں نے کوئی مصیبت تو کھڑی نہیں کی اور نہ کسی بات میں تمہیں دھوکا دیا ہے اور نہ اس میں فریب کاری کی ہے۔ تمہاری جماعت ہی کی یہ رائے قرار پائی تھی کہ دو آدمی چن لئے جائیں جن سے ہم نے یہ اقرار لے لیا تھا کہ وہ قرآن سے تجاوز نہ کریں گے۔ لیکن وہ اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے باوجود قرآن سے بہک گئے اور حق کو چھوڑ بیٹھے اور ان کے جذبات بے راہ روی کے مقتضی ہوئے۔ چنانچہ وہ اس روش پر چل پڑے (حالانکہ) ہم نے پہلے ہی ان سے شرط کر لی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق کا مقصد پیش نظر رکھنے میں بد نیتی و بے راہ روی کو دخل نہ دیں گے۔ (اگر ایسا ہوا تو وہ فیصلہ ہمارے لئے قابل تسلیم نہ ہو گا)۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 18:46
عون نقوی