بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

لَمْ تَکُنْۢ بَیْعَتُکُمْ اِیَّایَ فَلْتَةً، وَ لَیْسَ اَمْرِیْ وَ اَمْرُکُمْ وَاحِدًا. اِنِّیْۤ اُرِیْدُکُمْ لِلّٰهِ وَ اَنْتُمْ تُرِیْدُوْنَنِیْ لِاَنْفُسِکُمْ.

تم نے میری بیعت اچانک اور بے سوچے سمجھے نہیں کی تھی اور نہ میرا اور تمہارا معاملہ یکساں ہے۔ میں تمہیں اللہ کیلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے شخصی فوائد کیلئے چاہتے ہو۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اَعِیْنُوْنِیْ عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَایْمُ اللهِ! لَاُنْصِفَنَّ الْمَظْلُوْمَ مِنْ ظَالِمِهٖ، وَ لَاَقُوْدَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهٖ حَتّٰۤی اُوْرِدَهٗ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَ اِنْ کَانَ کَارِهًا.

اے لوگو! اپنی نفسانی خواہشوں کے مقابلہ میں میری اعانت کرو۔ خدا کی قسم! میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے سر چشمہ حق تک کھینچ کر لے جاؤں گا۔ اگرچہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:05
عون نقوی

وَقَدْ وَقَعتْ مُشَاجَرَةُ بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ عُثْمَانَ، فَقَالَ الْمُغِیْرَةُ بْنُ الْاَخْنَسِ لِعُثْمَانَ: اَنَا اَکْفِیْکَهٗ، فَقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ لِلْمُغِیْرَةِ:

آپؑ میں اور عثمان ابن عفان میں کچھ بحث ہوئی تو مغیرہ ابن اخنس نے عثمان سے کہا: میں تمہاری طرف سے نپٹے لیتا ہوں، جس پر آپؑ نے مغیرہ سے کہا:

یَابْنَ اللَّعِیْنِ الْاَبْتَرِ، وَ الشَّجَرَةِ الَّتِیْ لَاۤ اَصْلَ لَهَا وَ لَا فَرْعَ، اَنْتَ تَکْفِیْنِیْ؟ فَوَاللهِ مَاۤ اَعَزَّ اللهُ مَنْ اَنْتَ نَاصِرُهٗ، وَ لَا قَامَ مَنْ اَنْتَ مُنْهِضُهٗ، اخْرُجْ عَنَّاۤ اَبْعَدَ اللهُ نَوَاکَ، ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَکَ، فَلَاۤ اَبْقَی اللهُ عَلَیْکَ اِنْ اَبْقَیْتَ!.

اے بے اولاد لعین کے بیٹے اور ایسے درخت کے پھل جس کی نہ کوئی جڑ ہے نہ شاخ، تو بھلا مجھ سے کیا نپٹے گا۔ خدا کی قسم! جس کا تجھ ایسا مدد گار ہو، اللہ اسے غلبہ و سرفرازی نہیں دیتا اور جس کا تجھ ایسا ابھارنے والا ہو وہ (اپنے پیروں پر) کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ہم سے دور ہو! خدا تیری منزل کو دور ہی رکھے اور اس کے بعد جو بن پڑے کرنا اور اگر کچھ بھی مجھ پر ترس کھائے تو خدا تجھ پر رحم نہ کرے۔


’’مغیرہ ابن اخنس‘‘ حضرت عثمان کے ہوا خواہوں میں سے تھا۔ اس کا بھائی ابو الحکم ابن اخنس اُحد میں امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ سے مارا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ حضرتؑ کی طرف سے دل میں کینہ و عناد رکھتا تھا۔ اس کا باپ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے موقع پر بظاہر ایمان لے آئے، مگر دلوں میں کفر و نفاق لئے ہوئے تھے، اس لئے اسے ’’لعین‘‘ فرمایا ہے۔ اور ’’ابتر‘‘ اس لئے کہا ہے کہ جس کی مغیرہ ایسی اولاد ہو وہ بے اولاد ہی سمجھے جانے کے لائق ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:34
عون نقوی

وَ قَدْ شَاوَرَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الْخُرُوْجِ اِلٰى غَزْوِ الرُّوْمِ بِنَفْسِهٖ:

جب حضرت عمر ابن خطاب نے غزوہ روم میں شرکت کیلئے حضرتؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا:

وَ قَدْ تَوَکَّلَ اللهُ لِاَهْلِ هٰذَا الدِّیْنِ بِاِعْزَازِ الْحَوْزَةِ، وَ سَتْرِ الْعَوْرَةِ، وَ الَّذِیْ نَصَرَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَنْتَصِرُوْنَ، وَ مَنَعَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَمْتَنِعُوْنَ، حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ.

اللہ نے دین والوں کی حدوں کو تقویت پہنچانے اور ان کی غیر محفوظ جگہوں کو (دشمن کی) نظر سے بچائے رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ وہی خدا (اب بھی) زندہ و غیر فانی ہے کہ جس نے اس وقت ان کی تائید و نصرت کی تھی جبکہ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ دشمن سے انتقام نہیں لے سکتے تھے اور ان کی حفاظت کی جب وہ اتنے کم تھے کہ اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

اِنَّکَ مَتٰی تَسِرْ اِلٰی هٰذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِکَ، فَتَلْقَهُمْ بِشَخْصِکَ فَتُنْکَبْ، لَا تَکُنْ لِّلْمُسْلِمِیْنَ کَانِفَةٌ دُوْنَ اَقْصٰی بِلَادِهِمْ، وَ لَیْسَ بَعْدَکَ مَرْجِـعٌ یَّرْجِعُوْنَ اِلَیْهِ، فَابْعَثْ اِلَیْهِمْ رَجُلًا مِّحْرَبًا، وَ احْفِزْ مَعَهٗ اَهْلَ الْبَلَآءِ وَ النَّصِیْحَةِ، فَاِنْ اَظْهَرَ اللهُ فَذَاکَ مَا تُحِبُّ، وَ اِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی، کُنْتَ رِدْاً لِّلنَّاسِ وَ مَثَابَةً لِّلْمُسْلِمِیْنَ.

تم اگر خود ان دشمنوں کی طرف بڑھے اور ان سے ٹکرائے اور کسی افتاد میں پڑ گئے تو اس صورت میں مسلمانوں کیلئے دور کے شہروں کے پہلے کوئی ٹھکانا نہ رہے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی ایسی پلٹنے کی جگہ ہو گی کہ اس کی طرف پلٹ کر آ سکیں۔ تم ان کی طرف (اپنے بجائے) کوئی تجربہ کار آدمی بھیجو اور اس کے ساتھ اچھی کارکردگی والے اور خیر خواہی کرنے والے لوگوں کو بھیج دو۔ اگر اللہ نے غلبہ دے دیا تو تم یہی چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت (شکست) ہو گئی تو تم لوگوں کیلئے ایک مددگار اور مسلمانوں کیلئے پلٹنے کا مقام ہو گے۔


امیر المومنین علیہ السلام کے متعلق یہ عجیب روش اختیار کی جاتی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ آپؑ امورِ سیاست سے بے خبر اور طریق جہانبانی سے نا آشنا تھے کہ جس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بنی امیہ کے ہوس اقتدار سے پیدا کی ہوئی شورشوں کو آپ کی کمزوریٔ سیاست کا نتیجہ قرار دیا جائے اور دوسری طرف خلفائے وقت نے مملکت کے اہم معاملات اور کفار سے محاربات کے سلسلہ میں جو مختلف مواقع پر آپؑ سے مشورے لئے انہیں بڑی اہمیت دے کر اچھالا جاتا ہے۔ جس سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ آپؑ کی صحتِ فکر و نظر، اصابتِ رائے اور تہ رس بصیرت کو پیش کیا جائے، بلکہ صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ آپؑ اور خلفاء میں اتحاد، یگانگت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، تا کہ ادھر توجہ ہی مبذول نہ ہونے پائے کہ آپؑ کسی مرحلہ پر ان سے متصادم بھی رہے ہیں اور باہم اختلاف و مناقشات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔چنانچہ تاریخی حقائق اس کے شاہد ہیں کہ آپؑ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے تھے اور ان کے ہر اقدام کو درست و صحیح نہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں ہر دور کے متعلق واشگاف لفظوں میں تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اختلافِ رائے اور غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ لیکن اس اختلاف کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی و اجتماعی مفاد کے سلسلہ میں صحیح رہنمائی نہ کی جائے۔ پھر امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت تو اتنی بلند تھی کہ کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ آپؑ کسی ایسے مشورے سے پہلو تہی کریں گے کہ جس سے مفادِ عامہ وابستہ ہو یا کوئی ایسا مشورہ دیں گے جس سے مصالح عامہ کو نقصان پہنچے۔ اسی لئے نظریات کے اختلاف کے باوجود آپؑ سے مشورے لئے جاتے تھے جس سے آپؑ کے کردار کی عظمت اور صحتِ فکر و نظر پر روشنی پڑتی ہے۔اور جس طرح پیغمبر اکرم ﷺ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر ہے کہ کفار قریش آپؐ کو دعوتِ نبوت میں جھٹلانے کے باوجود بہترین امانتدار سمجھتے تھے اور کبھی آپؐ کی امانت پر شبہہ نہ کر سکے، بلکہ مخالفت کے ہنگاموں میں بھی اپنی امانتیں بے کھٹکے آپؐ کے سپرد کر دیتے تھے اور کبھی یہ وہم بھی نہ کرتے تھے کہ اُن کی امانتیں خُرد بُرد ہو جائیں گی۔ یوں ہی امیر المومنین علیہ السلام بھی وثوق و اعتماد کی اس سطح بلند پر سمجھے جاتے تھے کہ دوست و دشمن ان کی اصابتِ رائے پر اعتماد کرتے تھے تو جس طرح پیغمبر ﷺ کے طرزِ عمل سے ان کے کمال امانتداری کا پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ ان میں اور کفار میں یگانگت تھی، کیونکہ امانت اپنے مقام پر ہے اور کفر و اسلام کا ٹکراؤ اپنے مقام پر، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام خلفاء سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کی نظروں میں ملکی و قومی مفاد کے محافظ اور اسلام کی فلاح و بہبود کے نگران سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ جہاں نوعی مفاد کا سوال پیدا ہوتا تھا آپؑ سے مشورہ لیا جاتا تھا اور آپؑ شخصی اغراض کی سطح سے بلند ہو کر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار فرما دیتے تھے اور حدیث نبوی ﷺ «اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ» (۱): ’’مشیر امین ہوتا ہے‘‘ کے پیش نظر کبھی غل و غش گوارا نہ کرتے تھے۔چنانچہ جنگ فلسطین کے موقعہ پر جب حضرت عمر نے اپنی شرکت کے بارے میں ان سے مشورہ لیا تو قطع نظر اس سے کہ آپؑ کی رائے ان کے جذبات کے موافق ہو یا مخالف، آپؑ اسلام کی عزت و بقا کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور محاذِ جنگ میں ایسے شخص کو بھیجنے کی رائے دیتے ہیں کہ جو آزمودہ کار اور فنون حرب و ضرب میں ماہر ہو، کیونکہ ناتجربہ کار آدمی کے چلے جانے سے اسلام کی بندھی ہوئی ہوا اُکھڑ جاتی اور پیغمبر ﷺ کے زمانہ سے جو مسلمانوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی ختم ہو جاتی اور ان کے چلے جانے سے فتح و کامرانی کے بجائے شکست و ہزیمت کے آثار آپؑ کو نظر آ رہے تھے۔ اس لئے انہیں روک دینے ہی میں اسلامی مفاد نظر آیا۔ چنانچہ اس کا اظہار ان لفظوں میں فرمایا ہے کہ: اگر تمہیں میدان چھوڑ کر پلٹنا پڑے تو یہ صرف تمہاری شکست نہ ہو گی بلکہ اس سے مسلمان بد دل ہو کر حوصلہ چھوڑ بیٹھیں گے اور میدان جنگ سے روگردان ہو کر تتر بتر ہو جائیں گے، کیونکہ رئیس لشکر کے میدان چھوڑ دینے سے لشکر کے قدم جم نہ سکیں گے اور ادھر مرکز کے خالی ہو جانے کی وجہ سے یہ توقع بھی نہ کی جا سکے گی کہ عقب سے مزید فوجی کمک آ جائے گی کہ جس سے لڑنے بھڑنے والوں کی ڈھارس بندھی رہے۔یہ ہے وہ مشورہ جسے باہمی روابط پر دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مشورہ صرف اسلام کی سربلندی اور اس کی عزت و بقا کے پیشِ نظر تھا جو آپؑ کو ہر مفاد سے زیادہ عزیز تھی اور کسی خاص شخص کی جان عزیز نہ تھی کہ جس کی بنا پر اسے جنگ میں شرکت سے روکا ہو۔

[۱]۔ تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۵۰۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:32
عون نقوی

وَ انْقَادَتْ لَهُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةُ بِاَزِمَّتِهَا، وَ قَذَفَتْ اِلَیْهِ السَّمٰوَاتُ وَ الْاَرَضُوْنَ مَقَالِیْدَهَا، وَ سَجَدَتْ لَهٗ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ الْاَشْجَارُ النَّاضِرَةُ، وَ قَدَحَتْ لَهٗ مِنْ قُضْبَانِهَا النِّیْرَانَ الْمُضِیْٓئَةَ، وَ اٰتَتْ اُکُلَهَا بِکَلِمَاتِهِ الثِّمَارُ الْیَانِعَةُ.

دنیا و آخرت اپنی باگ ڈور اللہ کو سونپے ہوئے اس کے زیر ِفرمان ہے اور آسمان و زمین نے اپنی کنجیاں اس کے آگے ڈال دی ہیں اور تر و تازہ و شاداب درخت صبح و شام اس کے آگے سر بسجود ہیں اور اپنی شاخوں سے چمکتی ہوئی آگ (کے شعلے) بھڑکاتے ہیں اور اس کے حکم سے (پھل پھول کر) پکے ہوئے میووں (کی ڈالیاں) پیش کرتے ہیں۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ کِتَابُ اللهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ، نَاطِقٌ لَّا یَعْیَا لِسَانُهٗ، وَ بَیْتٌ لَّا تُهْدَمُ اَرْکَانُهٗ، وَ عِزٌّ لَّا تُهْزَمُ اَعْوَانُهٗ.

اللہ کی کتاب تمہارے سامنے اس طرح (کھل کر) بولنے والی ہے کہ اس کی زبان کہیں لڑکھڑاتی نہیں اور ایسا گھر ہے جس کے کھمبے سرنگوں نہیں ہوتے اور ایسی عزت ہے کہ اس کے معاون شکست نہیں کھاتے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا]

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ تَنَازُعٍ مِّنَ الْاَلْسُنِ، فَقَفّٰی بِهِ الرُّسُلَ، وَ خَتَمَ بِهِ الْوَحْیَ، فَجَاهَدَ فِی اللهِ الْمُدْبِرِیْنَ عَنْهُ، وَ الْعَادِلِیْنَ بِهٖ.

اللہ نے آپؐ کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ رکا پڑا تھا اور لوگوں میں جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں۔ چنانچہ آپؐ کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا اور آپؐ کے ذریعہ سے وحی کا سلسلہ ختم کیا۔ آپؐ نے اللہ کى راہ میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو اس سے پیٹھ پھرائے ہوئے تھے اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرا رہے تھے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ اِنَّمَا الدُّنْیَا مَنْتَهٰی بَصَرِ الْاَعْمٰی، لَا یُبْصِرُ مِمَّا وَرَآءَهَا شَیْئًا، وَ الْبَصِیْرُ یَنْفُذُهَا بَصَرُهٗ، وَ یَعْلَمُ اَنَّ الدَّارَ وَرَآءَهَا. فَالْبَصِیْرُ مِنْهَا شَاخِصٌ، وَ الْاَعْمٰۤی اِلَیْهَا شَاخِصٌ، وَ الْبَصِیْرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ، وَ الْاَعْمٰی لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

(دل کے) اندھے کا منتہائے نظر یہی دنیا ہوتی ہے کہ اسے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور نظر رکھنے والے کی نگاہیں اس سے پار چلی جاتی ہیں اور وہ اس امر کا یقین رکھتا ہے کہ اس کے بعد بھی ایک گھر ہے۔ نگاہ رکھنے والا اس سے نکلنا چاہتا ہے اور اندھا اسی پر نظریں جمائے رہتا ہے۔ بابصیرت اس سے (آخرت کیلئے) زاد حاصل کرتا ہے اور بے بصیرت اسی کے سرو سامان میں لگا رہتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا وَ یَکَادُ صَاحِبُهٗ یَشْبَعُ مِنْهُ وَ یَمَلُّهٗ، اِلَّا الْحَیَاةَ فَاِنَّهٗ لَا یَجِدُ لَهٗ فِی الْمَوْتِ رَاحَةً. وَ اِنَّمَا ذٰلِکَ بِمَنْزِلَةِ الْحِکْمَةِ الَّتِیْ هِیَ حَیَاةٌ لِّلْقَلْبِ الْمَیِّتِ، وَ بَصَرٌ لِّلْعَیْنِ الْعَمْیَآءِ، وَ سَمْعٌ لِّلْاُذُنِ الصَّمَّآءِ، وَ رِیٌّ لِّلظَّمْاٰنِ، وَ فِیْهَا الْغِنٰی کُلُّهٗ وَ السَّلَامَةُ.

تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر شے سے آدمی کبھی کبھی سیر ہو جاتا ہے اور اُکتا جاتا ہے سوا زند گی کے کہ وہ کبھی مرنے میں راحت نہیں محسوس کرتا اور یہ اس حکمت کی طرح ہے کہ جو قلب مردہ کیلئے حیات، اندھی آنکھوں کیلئے بینائی، بہرے کانوں کیلئے شنوائی اور تشنہ کام کیلئے سیرابی ہے اور اسی میں پورا پورا سامان کفایت و سرو سامان حفاظت ہے۔

کِتَابُ اللهِ تُبْصِرُوْنَ بِهٖ، وَ تَنْطِقُوْنَ بِهٖ، وَ تَسْمَعُوْنَ بِهٖ، وَ یَنْطِقُ بَعْضُهٗ بِبَعْضٍ، وَ یَشْهَدُ بَعْضُهٗ عَلٰی بَعْضٍ، لَا یَخْتَلِفُ فِی اللهِ، وَ لَا یُخَالِفُ بِصَاحِبِهٖ عَنِ اللهِ. قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَی الْغِلِّ فِیْمَا بَیْنَکُمْ، وَ نَبْتِ الْمَرْعٰی عَلٰی دِمَنِکُمْ، وَ تَصَافَیْتُمْ عَلٰی حُبِّ الْاٰمَالِ، وَ تَعَادَیْتُمْ فِیْ کَسْبِ الْاَمْوَالِ.

یہ اللہ کی کتاب ہے کہ جس کے ذریعہ تمہیں سجھائی دیتا ہے اور تمہاری زبان میں گویائی آتی ہے اور (حق کی آواز) سنتے ہو۔ اس کے کچھ حصے کچھ حصوں کی وضاحت کرتے ہیں اور بعض بعض کی (صداقت کی) گواہی دیتے ہیں۔ یہ ذاتِ الٰہی کے متعلق الگ الگ نظریئے نہیں پیش کرتا اور نہ اپنے ساتھی کو اس کی راہ سے ہٹا کر کسی اور راہ پر لگا دیتا ہے۔ (مگر) تم نے دلی کدورتوں اور گھورے پر اُگے ہوئے سبزہ کی خواہش پر ایکا کر لیا ہے۔ امیدوں کی چاہت پر تو تم میں صلح صفائی ہے اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔

لَقَدِ اسْتَهَامَ بِکُمُ الْخَبِیْثُ، وَ تَاهَ بِکُمُ الْغُرُوْرُ، وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی نَفْسِیْ وَ اَنْفُسِکُمْ.

تمہیں (شیطان ) خبیث نے بھٹکا دیا ہے اور فریبوں نے تمہیں بہکا رکھا ہے۔ میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابل میں اللہ ہی مدد گار ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:27
عون نقوی

نَحْمَدُهٗ عَلٰی مَاۤ اَخَذَ وَ اَعْطٰی، وَ عَلٰی مَاۤ اَبْلٰی وَ ابْتَلٰی، الْبَاطِنُ لِکُلِّ خَفِیَّةٍ، الْحَاضِرُ لِکُلِّ سَرِیْرَةٍ، الْعَالِمُ بِمَا تُکِنُّ الصُّدُوْرُ، وَ مَا تَخُوْنُ الْعُیُوْنُ. وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ نَّجِیْبُهٗ وَ بَعِیْثُهٗ، شَهَادَةً یُّوَافِقُ فِیْهَا السِّرُّ الْاِعْلَانَ، وَ الْقَلْبُ اللِّسَانَ.

وہ جو کچھ لے اور جو کچھ دے اور جو نعمتیں بخشے اور جن آزمائشوں میں ڈالے (سب پر) ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ وہ ہر چھپی ہوئی چیز کی گہرائیوں سے آگاہ اور ہر پوشیدہ شے پر حاضر و ناظر ہے۔ وہ سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں اور آنکھوں کے چوری چھپے اشاروں کا جاننے والا ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے برگزیدہ (بندے) اور فرستادہ (رسول) ہیں۔ ایسی گواہی کہ جس میں ظاہر و باطن یکساں اور دل و زبان ہمنوا ہیں۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَاِنَّهٗ وَاللهِ! الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ، وَ الْحَقُّ لَا الْکَذِبُ، وَ مَا هُوَ اِلَّا الْمَوْتُ اَسْمَعَ دَاعِیْهِ، وَ اَعْجَلَ حَادِیْهِ، فَلَا یَغُرَّنَّکَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَّفْسِکَ، فَقَدْ رَاَیْتَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وَ حَذِرَ الْاِقْلَالَ، وَ اَمِنَ الْعَوَاقِبَ ـ طُوْلَ اَمَلٍ وَّ اسْتِبْعَادَ اَجَلٍ ـ کَیْفَ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ فَاَزْعَجَهٗ عَنْ وَّطَنِهٖ، وَ اَخَذَهٗ مِنْ مَّاْمَنِهٖ، مَحْمُوْلًا عَلٰۤی اَعْوَادِ الْمَنَایَا یَتَعَاطٰی بِهِ الرِّجَالُ الرِّجَالَ، حَمْلًا عَلَی الْمَنَاکِبِ وَ اِمْسَاکًۢا بِالْاَنَامِلِ.

خدا کی قسم! وہ چیز جو سرا سر حقیقت ہے ہنسی کھیل نہیں اور سرتاپا حق ہے جھوٹ نہیں، وہ صرف موت ہے۔ اس کے پکارنے والے نے اپنی آواز پہنچا دی ہے اور اس کے ہنکانے والے نے جلدی مچا رکھی ہے۔ یہ (زندہ ) لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکا نہ دے (کہ اپنی موت کو بھول جاؤ)۔ تم ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے، جنہوں نے مال و دولت کو سمیٹا تھا، جو افلاس سے ڈرتے تھے اور امیدوں کی درازی اور موت کی دوری کا (فریب کھا کر) نتائج سے بے خوف بن چکے تھے، دیکھ چکے ہو کہ کس طرح موت ان پر ٹوٹ پڑی کہ انہیں وطن سے نکال باہر کیا اور ان کی جائے امن سے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، اس عالم میں کہ وہ تابوت پر لدے ہوئے تھے اور لوگ یکے بعد دیگرے کندھا دے رہے تھے اور اپنی انگلیوں (کے سہارے) سے روکے ہوئے تھے۔

اَ مَا رَاَیْتُمُ الَّذِیْنَ یَاْمُلُوْنَ بَعِیْدًا، وَ یَبْنُوْنَ مَشِیْدًا، وَ یَجْمَعُوْنَ کَثِیْرًا! کَیْفَ اَصْبَحَتْ بُیُوْتُهُمْ قُبُوْرًا، وَ مَا جَمَعُوْا بُوْرًا، وَ صَارَتْ اَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِیْنَ، وَ اَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ، لَا فِیْ حَسَنَةٍ یَزِیْدُوْنَ، وَ لَا مِنْ سَیِّئَةٍ یَّسْتَعْتِبُوْنَ!.

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو دور کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، جنہوں نے مضبوط محل بنائے تھے اور ڈھیروں مال جمع کیا تھا، کس طرح ان کے گھر قبروں میں بدل گئے اور جمع پونجی تباہ ہو گئی اور ان کا مال وارثوں کا ہو گیا اور ان کی بیویاں دوسروں کے پاس پہنچ گئیں۔ (اب) نہ وہ نیکیوں میں کچھ اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کا کوئی موقعہ ہے کہ وہ کسی گناہ کے بعد (توبہ کر کے) اللہ کی رضا مندیاں حاصل کر لیں۔

فَمَنْ اَشْعَرَ التَّقْوٰی قَلْبَهٗ بَرَّزَ مَهَلُهٗ، وَ فَازَ عَمَلُهٗ. فَاهْتَبِلُوْا هَبَلَهَا، وَ اعْمَلُوْا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا، فَاِنَّ الدُّنْیَا لَمْ تُخْلَقْ لَکُمْ دَارَ مُقَامٍ، بَلْ خُلِقَتْ لَکُمْ مَجَازًا لِّتَزَوَّدُوْا مِنْهَا الْاَعْمَالَ اِلٰی دَارِ الْقَرَارِ، فَکُوْنُوْا مِنْهَا عَلٰۤی اَوْفَازٍ، وَ قَرِّبُوا الظُّهُوْرَ لِلزِّیَالِ.

جس شخص نے اپنے دل کو تقویٰ شعار بنا لیا وہ بھلائیوں میں سبقت لے گیا اور اس کا کیا کرایا سوارت ہوا۔ تقویٰ حاصل کرنے کا موقعہ غنیمت سمجھو اور جنت کیلئے جو عمل ہونا چاہیے اسے انجام دو، کیونکہ دنیا تمہاری قیام گاہ نہیں بنائی گئی، بلکہ یہ تو تمہارے لئے گزر گاہ ہے، تاکہ تم اس سے اپنی مستقل قیام گاہ کیلئے زاد اکٹھا کر سکو۔ اس دنیا سے چل نکلنے کیلئے آمادہ رہو اور کوچ کیلئے سواریاں اپنے سے قریب کر لو (کہ وقت آنے پر با آسانی سوار ہو سکو)۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:24
عون نقوی