بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اَیُّهَا النَّاسُ! مَنْ عَرَفَ مِنْ اَخِیْهِوَثِیْقَةَ دِیْنٍ وَّ سَدَادَ طَرِیْقٍ، فَلَا یَسْمَعَنَّ فِیْهِ اَقَاوِیْلَ الرِّجَالِ، اَمَاۤ اِنَّهٗ قَدْ یَرْمِی الرَّامِیْ، وَ تُخْطِئُ السِّهَامُ، وَ یَحِیْلُ الْکَلَامُ، وَ بَاطِلُ ذٰلِکَ یَبُوْرُ، وَاللهُ سَمِیْعٌ وَّ شَهِیْدٌ.

اے لوگو! اگر تمہیں اپنے کسی بھائی کی دینداری کی پختگی اور طور طریقوں کی درستگی کا علم ہو تو پھر اس کے بارے میں افواہی باتوں پر کان نہ دھرو۔ دیکھو! کبھی تیر چلانے والا تیر چلاتا ہے اور اتفاق سے تیر خطا کر جاتا ہے اور بات ذرا میں اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہے اور جو غلط بات ہو گی وہ خود ہی نیست و نابود ہو جائے گی۔ اللہ ہر چیز کا سننے والا اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔

اَمَاۤ اِنَّهٗ لَیْسَ بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَرْبَعُ اَصَابِـعَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ سچ اور جھوٹ میں صرف چار انگلیوں کا فاصلہ ہے۔

فَسُئِلَ ؑ عَنْ مَّعْنٰی قَوْلِهٖ هٰذَا، فَجَمَعَ اَصَابِعَهٗ وَ وَضَعَهَا بَیْنَ اُذُنِهٖ وَ عَیْنِهٖ، ثُمَّ قَالَ:

جب آپؑ سے اس کا مطلب پوچھا گیا تو آپؑ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کر کے اپنے کان اور آنکھ کے درمیان رکھا اور فرمایا:

اَلْبَاطِلُ اَنْ تَقُوْلَ سَمِعْتُ، وَ الْحَقُّ اَنْ تَقُوْلَ رَاَیْتُ!.

جھوٹ وہ ہے جسے تم کہو کہ: میں نے سنا اور سچ وہ ہے جسے تم کہو کہ: میں نے دیکھا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:25
عون نقوی

فِی النَّهْیِ عَنْ عَیْبِ النَّاسِ

اس میں لوگوں کو دوسروں کے عیب بیان کرنے سے روکا ہے

وَ اِنَّمَا یَنْۢبَغِیْ لِاَهْلِ الْعِصْمَةِ وَ الْمَصْنُوْعِ اِلَیْهِمْ فِی السَّلَامَةِ اَنْ یَّرْحَمُوْۤا اَهْلَ الذُّنُوْبِ وَ الْمَعْصِیَةِ، وَ یَکُوْنَ الشُّکْرُ هُوَ الْغَالِبَ عَلَیْهِمْ وَ الْحَاجِزَ لَهُمْ عَنْهُمْ، فَکَیْفَ بِالْعَآئِبِ الَّذِیْ عَابَ اَخَاهُ وَ عَیَّرَهٗ بِبَلْوَاهُ!.

جن لوگوں کا دامن خطاؤں سے پاک صاف ہے اور بفضل الٰہی گناہوں سے محفوظ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ گنہگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں اور اس چیز کا شکر ہی (کہ اللہ نے انہیں گناہوں سے بچائے رکھا ہے) ان پر غالب اور دوسروں (کے عیب اچھالنے) سے مانع رہے، چہ جائیکہ وہ عیب لگانے والا اپنے کسی بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرے اور اس کے عیب بیان کر کے طعن و تشنیع کرے۔

اَمَا ذَکَرَ مَوْضِعَ سَتْرِ اللهِ عَلَیْهِ مِنْ ذُنُوْبِهٖ مِمَّا هُوَ اَعْظَمُ مِنَ الذَّنْۢبِ الَّذِیْ عَابَهٗ بِهٖ! وَ کَیْفَ یَذُمُّهٗ بِذَنْۢبٍ قَدْ رَکِبَ مِثْلَهٗ! فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ رَّکِبَ ذٰلِکَ الذَّنْۢبَ بِعَیْنِهٖ فَقَدْ عَصَی اللهَ فِیْمَا سِوَاهُ مِمَّا هُوَ اَعْظَمُ مِنْهُ. وَایْمُ اللهِ لَئِنْ لَّمْ یَکُنْ عَصَاهُ فِی الْکَبِیْرِ وَ عَصَاهُ فِی الصَّغِیْرِ، لَجُرْاَتُهٗ عَلٰی عَیْبِ النَّاسِ اَکْبَرُ!.

یہ آخر خدا کی اس پر دہ پوشی کو کیوں نہیں یاد کرتا جو اس نے خود اس کے ایسے گناہوں پر کی ہے جو اس گناہ سے بھی جس کی وہ غیبت کر رہا ہے بڑے تھے اور کیونکر کسی ایسے گناہ کی بنا پر اس کی بُرائی کرتا ہے جبکہ خود بھی ویسے ہی گناہ کا مرتکب ہو چکا ہے اور اگر بعینہ ویسا گناہ نہیں بھی کیا تو ایسے گناہ کئے ہیں کہ جو اس سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے۔ خدا کی قسم! اگر اس نے گناہ کبیرہ نہیں بھی کیا تھا اور صرف صغیرہ کا مرتکب ہوا تھا تب بھی اس کا لوگوں کے عیوب بیان کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

یَا عَبْدَ اللهِ! لَا تَعْجَلْ فِیْ عَیْبِ اَحَدٍۭ بِذَنْۢبِهٖ فَلَعَلَّهُ مَغْفُوْرٌ لَّهٗ، وَ لَا تَاْمَنْ عَلٰی نَفْسِکَ صَغِیْرَ مَعْصِیَةٍ فَلَعَلَّکَ مُعَذَّبٌ عَلَیْهِ، فَلْیَکْفُفْ مَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ عَیْبَ غَیْرِهٖ لِمَا یَعْلَمُ مِنْ عَیْبِ نَفْسِهٖ، وَلْیَکُنِ الشُّکْرُ شَاغِلًا لَّهٗ عَلٰی مُعَافَاتِهٖ مِمَّا ابْتُلِیَ بِهٖ غَیْرُهٗ.

اے خدا کے بندے! جھٹ سے کسی پر گناہ کا عیب نہ لگا، شاید اللہ نے وہ بخش دیا ہو اور اپنے کسی چھوٹے (سے چھوٹے) گناہ کیلئے بھی اطمینان نہ کر، شاید کہ اس پر تجھے عذاب ہو۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی کسی دوسرے کے عیوب جانتا ہو اسے ان کے اظہار سے باز رہنا چاہیے اس علم کی وجہ سے جو خود اسے اپنے گناہوں کے متعلق ہے اور اس امر کا شکر کہ اللہ نے اسے ان چیزوں سے محفوظ رکھا ہے کہ جن میں دوسرے مبتلا ہیں کسی اور طرف اسے متوجہ نہ ہونے دے۔


عیب جوئی و خوردہ گیری کا مشغلہ اتنا عام اور ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ اس کی برائی کا احساس تک جاتا رہا ہے اور اب تو نہ خواص کی زبانیں بند ہیں نہ عوام کی، نہ منبر کی رفعت اس سے مانع ہے نہ محراب کی تقدیس، بلکہ جہاں چند ہم خیال جمع ہوں گے موضوع سخن اور دلچسپ مشغلہ یہی ہو گا کہ اپنے فریق مخالف کے عیوب رنگ آمیزیوں سے بیان کئے جائیں اور کان دھر کر ذوق سماعت کا مظاہرہ کیا جائے۔ حالانکہ غیبت کرنے والے کا دامن ان آلودگیوں سے خود آلودہ ہوتا ہے جن کا اظہار وہ دوسروں کیلئے کرتا ہے، مگر وہ اپنے لئے یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے عیوب آشکارا ہوں تو پھر اسے دوسروں کے جذبات کا بھی پاس و لحاظ کرتے ہوئے ان کی عیب گیری و دل آزاری سے احتراز کرنا چاہئے اور« آنچہ برای خود نمی پسندی برای دیگران ھم مپسند» پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
’’غیبت‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ اپنے کسی برادر مومن کے عیب کو بغرض تنقیص اس طرح بے نقاب کرنا کہ اس کیلئے دل آزاری کا باعث ہو، چاہے یہ اظہار زبان سے ہو، یا محاکات سے، اشارہ سے ہو یا کنایہ و تعریض سے۔ بعض لوگ غیبت بس اسی کو سمجھتے ہیں جو غلط اور خلاف واقع ہو اور جو دیکھا اور سنا ہو اسے جوں کا توں بیان کر دینا ان کے نزدیک غیبت نہیں ہوتی اور وہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غیبت نہیں کرتے، بلکہ جو دیکھا یا سنا ہے اسے صحیح صحیح بیان کر دیا ہے۔ حالانکہ غیبت اسی سچ کہنے کا نام ہے اور اگر جھوٹ ہو تو وہ افترا و بہتان ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ:
هَلْ تَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَةُ؟ قَالُوْا: اللّٰهُ وَ رَسُوْلُه اَعْلَمُ، قَالَ: ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَهُ، قِیْلَ: اَ رَاَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْۤ اَخِیْ مَاۤ اَقُوْلُ؟ قَالَ: اِنْ کَانَ فِیْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَه وَ اِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْهِ فَقَدْ بَهَتَّه‏.تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جو اس کیلئے ناگواری کا باعث ہو۔ کہنے والے نے کہا کہ: اگر میں وہی بات کہوں جو واقعاً اس میں پائی جاتی ہو؟ آپؐ نے فرمایا کہ: اگر ہو جب ہی تو وہ غیبت ہے اور اگر نہ ہو تو تم نے اس پر افترا باندھا ہے۔(۱)
غیبت میں مبتلا ہونے کے بہت سے وجوه و اسباب ہیں جن کی وجہ سے انسان کہیں دانستہ اور کہیں نا دانستہ اس کا مرتکب ہوتا ہے۔ امام غزالی نے احیائے العلوم میں ان وجوہ و اسباب کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ ان میں چند نمایاں اسباب یہ ہیں:
۱۔ کسی کی ہنسی اڑانے اور اسے پست و سبک دکھانے کیلئے۔
۲۔لوگوں کو ہنسانے اور اپنی زندہ دلی و خوش طبعی کا مظاہرہ کرنے کیلئے۔
۳۔ غیظ و غضب کے تقاضوں سے متاثر ہو کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے۔
۴۔ کسی کی تنقیص سے اپنا تفوق جتلانے کیلئے۔
۵۔ اپنی بے تعلقی اور برائت ظاہر کرنے کیلئے کہ یہ بات مجھ سے سرزد نہیں ہوئی بلکہ فلاں سے سرزد ہوئی ہے۔
۶۔ کسی بزم میں بیٹھ کر ہم رنگ جماعت ہونے کیلئے تا کہ اس سے اجنبیت نہ برتی جائے۔
۷۔ کسی ایسے شخص کی بات کو بے وقعت بنانے کیلئے کہ جس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ اس کے کسی عیب کو بے نقاب کر دے گا
۸۔ اپنے کسی ہم پیشہ رقیب کی سرد بازاری کیلئے۔
۹۔ کسی رئیس کی بار گاہ میں تقرب حاصل کرنے کیلئے۔
۱۰۔ اظہار رنج و تاسف کیلئے یہ کہنا کہ مجھے افسوس ہے کہ فلاں شریف زادہ فلاں بُری بات میں مبتلا ہو گیا ہے۔
۱۱۔ اظہار تعجب کیلئے مثلاً اس طرح کہنا کہ مجھے حیرت ہے کہ فلاں شخص اور یہ کام کرے۔
۱۲۔ کسی امر قبیح پر غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے اس کے مرتکب کا نام لے دینا۔
البتہ چند صورتوں میں عیب گیری و نکتہ چینی غیبت میں شمار نہیں ہوتی:
۱۔ مظلوم اگر داد رسی کیلئے ظالم کا گلہ کرے تو غیبت نہیں ہے۔ جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ‌ؕ﴾
اللہ برائی کے اچھالنے کو پسند نہیں کرتا مگر وہ کہ جس پر ظلم کیا گیا ہو۔(۲)
۲۔ مشورہ دینے کے موقعہ پر کسی کا کوئی عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے، کیونکہ مشورہ میں غل و غش جائز نہیں ہے۔
۳۔ اگر استفتاء کے سلسلہ میں کسی خاص شخص کو متعین کئے بغیر مسئلہ حل نہ ہوتا ہو تو علی قدر الضرورة اس کا عیب بیان کر دینا غیبت نہ ہو گا۔
۴۔ کسی مسلمان کو ضرر سے بچانے کیلئے کسی خائن و بد دیانت کی بد دیانتی سے آگاہ کر دینا غیبت نہ ہوگا۔
۵۔ کسی ایسے شخص کے سامنے کسی کی برائی بیان کرنا کہ جو اسے برائی سے روک سکتا ہو غیبت نہیں ہے۔
۶۔ روایت کے سلسلہ میں رواة پر نقد و تبصرہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔
۷۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی عیب ہی سے متعارف ہو تو اسے پہچنوانے کیلئے اس عیب کا ذکر کرنا غیبت نہ ہو گا جیسے بہرا، گونگا، گنجا، لنگڑا وغیرہ۔
۸۔ بغرض علاج طبیب کے سامنے مریض کے کسی عیب کو بیان کرنا غیبت نہیں ہے۔
۹۔ اگر کوئی غلط نسب کا مدعی ہو تو اس کے نسب کی تردید کرنا غیبت نہ ہو گا۔
۱۰۔ اگر کسی کی جان، مال یا عزت کا بچاؤ اسی صورت میں ہو سکتا ہو کہ اسے کسی عیب سے روشناس کیا جائے تو یہ بھی غیبت نہیں ہے۔
۱۱۔ اگر دو شخص آپس میں کسی کی ایسی برائی کا ذکر کریں کہ جو انہیں پہلے سے معلوم ہو تو یہ اگرچہ غیبت نہیں ہے تاہم زبان کو بچانا ہی بہترہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک بھول چکا ہو۔
۱۲۔ جو علانیہ فسق و فجور کرتا ہو، اس کی برائی کرنا غیبت نہیں جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے:
مَنْ اَلْقٰى جِلْبَابَ الْحَیَآءِ فَلَا غِیْبَةَ لَه.
جو حیا کی چادر اتار ڈالے اس کی غیبت، غیبت نہیں۔(۳)

[۱]۔ عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۲۷۵۔ تفسیر الطبری، ج ۲۲، ص ۳۰۵۔
[۲]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۴۸۔
[۳]۔ تفسیر در‎ منشور، ج ۷، ص ۵۷۷۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:23
عون نقوی

فِیْ وَقْتِ الشُّوْرٰى

شوریٰ کے موقع پر فرمایا

لَنْ یُّسْرِعَ اَحَدٌ قَبْلِیْ اِلٰی دَعْوَةِ حَقٍّ، وَ صِلَةِ رَحِمٍ، وَ عَآئِدَةِ کَرَمٍ، فَاسْمَعُوْا قَوْلِیْ، وَعُوْا مَنْطِقِیْ، عَسٰۤی اَنْ تَرَوْا هٰذَا الْاَمْرَ مِنْۢ بَعْدِ هٰذَا الْیَوْمِ تُنْتَضٰی فِیْهِ السُّیُوْفُ، وَ تُخَانُ فِیْهِ الْعُهُوْدُ، حَتّٰی یَکُوْنَ بَعْضُکُمْ اَئِمَّةً لِّاَهْلِ الضَّلَالَةِ، وَ شِیْعَةً لِّاَهْلِ الْجَهَالَةِ.

مجھ سے پہلے تبلیغِ حق، صلہ رحم اور جود و کرم کی طرف کسی نے بھی تیزی سے قدم نہیں بڑھایا، لہٰذا تم میرے قول کو سنو اور میری باتوں کو یاد رکھو کہ تم جلدی ہی دیکھ لو گے کہ اس دن کے بعد سے خلافت کیلئے تلواریں سونت لی جائیں گی اور عہد و پیمان توڑ کر رکھ دیے جائیں گے، یہاں تک کہ کچھ لوگ گمراہ لوگوں کے پیشوا بن کے کھڑے ہوں گے اور کچھ جاہلوں کے پیروکار ہو جائیں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:14
عون نقوی

یُوْمِئُ فِیْهَا اِلٰى ذِکْرِ الْمَلَاحِمِ

اس میں آنے والے فتنوں اور ہنگاموں کی طرف اشارہ کیا ہے

یَعْطِفُ الْهَوٰی عَلَی الْهُدٰی اِذَا عَطَفُوا الْهُدٰی عَلٰی الْهَوٰی، وَ یَعْطِفُ الرَّاْیَ عَلَی الْقُرْاٰنِ اِذَا عَطَفُوا الْقُرْاٰنَ عَلَی الرَّاْیِ.

وہ خواہشوں کو ہدایت کی طرف موڑے گا جبکہ لوگوں نے ہدایت کو خواہشوں کی طرف موڑ دیا ہو گا اور ان کی رایوں کو قرآن کی طرف پھیرے گا جب کہ انہوں نے قرآن کو (توڑ مروڑ کر) قیاس و رائے کے دھڑے پر لگا لیا ہو گا۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے

حَتّٰی تَقُوْمَ الْحَرْبُ بِکُمْ عَلٰی سَاقٍ، بَادِیًا نَّوَاجِذُهَا، مَمْلُوْٓءَةً اَخْلَافُهَا، حُلْوًا رَضَاعُهَا، عَلْقَمًا عَاقِبَتُهَا.اَلَا وَ فِیْ غَدٍ ـ وَ سَیَاْتِیْ غَدٌۢ بِمَا لَا تَعْرِفُوْنَ ـ یَاْخُذُ الْوَالِیْ مِنْ غَیْرِهَا عُمَّالَهَا عَلٰی مَسَاوِیْۤ اَعْمَالِهَا، وَتُخْرِجُ لَهُ الْاَرْضُ اَفَالِیْذَ کَبِدِهَا، وَ تُلْقِیْ اِلَیْهِ سِلْمًا مَّقَالِیْدَهَا، فَیُرِیْکُمْ کَیْفَ عَدْلُ السِّیْرَةِ وَ یُحْیِیْ مَیِّتَ الْکِتَابِ وَ السُّنَّةِ.

(اس داعی حق سے پہلے) یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھن بھرے ہوئے، جن کا دودھ شیریں و خوش گوار معلوم ہو گا، لیکن اس کا انجام تلخ و ناگوار ہو گا۔ ہاں! کل اور یہ کل بہت نزدیک ہے کہ ایسی چیزوں کو لے کر آ جائے جنہیں ابھی تم نہیں پہچانتے۔ حاکم و والی جو اس جماعت میں سے نہیں ہو گا تمام حکمرانوں سے ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے مواخذہ کرے گا اور زمین اس کے سامنے اپنے خزانے انڈیل دے گی اور اپنی کنجیاں بسہولت اس کے آگے ڈال دے گی، چنانچہ وہ تمہیں دکھائے گا کہ حق و عدالت کی روش کیا ہوتی ہے اور وہ دم توڑ چکنے والی کتاب و سنت کو پھر سے زندہ کر دے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

کَاَنِّیْ بِهٖ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ، وَ فَحَصَ بِرَایَاتِهٖ فِیْ ضَوَاحِیْ کُوْفَانَ، فَعَطَفَ عَلَیْهَا عَطْفَ الضَّرُوْسِ، وَ فَرَشَ الْاَرْضَ بِالرُّؤُوْسِ. قَدْ فَغَرَتْ فَاغِرَتُهٗ، وَ ثَقُلَتْ فِی الْاَرْضِ وَطْاَتُهٗ، بَعِیْدَ الْجَوْلَةِ، عَظِیْمَ الصَّوْلَةِ.

گویا یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ(داعی باطل) شام میں کھڑا ہوا للکار رہا ہے اور کوفہ کے اطراف میں اپنے جھنڈے لہرا رہا ہے اور کاٹ کھانے والی اونٹنی کی طرح اس پر ( حملہ کرنے کیلئے) جھکا ہوا ہے اور اس نے زمین پر سروں کا فرش بچھا دیا ہے۔ اس کا منہ (پھاڑ کھانے کیلئے) کھل چکا ہے اور زمین میں اس کی پامالیاں بہت سخت ہو چکی ہیں وہ دور دور تک بڑھ جانے والا اور بڑے شد و مد سے حملہ کرنے والا ہے۔

وَاللهِ! لَیُشَرِّدَنَّکُمْ فِیْۤ اَطْرَافِ الْاَرْضِ حَتّٰی لَا یَبْقٰی مِنْکُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ، کَالْکُحْلِ فِی الْعَیْنِ، فَلَا تَزَالُوْنَ کَذٰلِکَ، حَتّٰی تَؤُوْبَ اِلَی الْعَرَبِ عَوَازِبُ اَحْلَامِهَا! فَالْزَمُوا السُّنَنَ الْقَآئِمَةَ، وَالْاٰثَارَ الْبَیِّنَةَ، وَ الْعَهْدَ الْقَرِیْبَ الَّذِیْ عَلَیْهِ بَاقِی النُّبُوَّةِ. وَاعْلَمُوْا اَنَّ الشَّیْطٰنَ اِنَّمَا یُسَنِّیْ لَکُمْ طُرُقَهٗ لِتَتَّبِعُوْا عَقِبَهٗ.

بخدا! وہ تمہیں اطراف زمین میں بکھیر دے گا، یہاں تک کہ تم میں سے کچھ تھوڑے ہی بچیں گے جیسے آنکھ میں سرمہ۔ تم اسی سراسیمگی کے عالم میں رہو گے، یہاں تک کہ عربوں کی عقلیں پھر اپنے ٹھکانے پر آ جائیں۔ تم مضبوط طریقوں، روشن نشانیوں اور اسی قریب کے عہد پر جمے رہو کہ جس میں نبوت کے پائیدار آثار ہیں اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان اپنے قدم بقدم چلانے کیلئے راہیں آسان کرتا رہتا ہے۔


امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حضرت حجت علیہ السلام کے ظہور کے سلسلہ میں ہے۔

یہ عبد الملک ابن مروان کی طرف اشارہ ہے کہ جو مروان کے بعد شام میں بر سر اقتدار آیا اور پھر مصعب کے مقابلہ میں مختار ابن ابی عبید کے مارے جانے پر یہ اپنے پرچم لہراتا ہوا عراق کی طرف بڑھا اور اطراف کوفہ میں دیر جاثلیق کے نزدیک مقام مسکن پر مصعب کی فوجوں سے نبرد آزما ہوا اور اسے شکست دینے کے بعد فتح مندانہ کوفہ میں داخل ہوا اور وہاں کے باشندوں سے بیعت لی اور پھر حجاج ابن یوسف ثقفی کو عبد اللہ ابن زبیر سے لڑنے کیلئے مکہ روانہ کیا، چنانچہ اس نے مکہ کا محاصرہ کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی اور ہزاروں بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا، ابن زبیر کو قتل کر کے اس کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور خلق خدا پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ جن سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:11
عون نقوی

فِىْ مَعْنٰى طَلْحَةَ وَ الزُبَیْرِ

طلحہ و زبیر کے متعلق ارشاد فرمایا

وَ اللهِ! ماۤ اَنْکَرُوْا عَلَیَّ مُنْکَرًا، وَ لَا جَعَلُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ نِصْفًا، وَ اِنَّهُمْ لَیَطْلُبُوْنَ حَقًّا هُمْ تَرَکُوْهُ، وَ دَمًا هُمْ سَفَکُوْهُ، فَاِنْ کُنْتُ شَرِیْکَهُمْ فِیْهِ فَاِنَّ لَهُمْ نَصِیْبَهُمْ مِنْهُ، وَ اِنْ کَانُوْا وَلُوْهُ دُوْنِیْ فَمَا الطَّلِبَةُ اِلَّا قِبَلَهُمْ، وَ اِنَّ اَوَّلَ عَدْلِهِمْ لَلْحُکْمُ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ اِنَّ مَعِیْ لَبَصِیْرَتِیْ، مَا لَبَّسْتُ وَ لَا لُبِّسَ عَلَیَّ، وَ اِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، فِیْهَا الْحَمَاُ وَ الْحُمَةُ وَ الشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ،وَ اِنَّ الْاَمْرَ لَوَاضِحٌ، وَ قَدْ زَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ نِّصَابِهٖ، وَ انْقَطَعَ لِسَانُهٗ عَنْ شَغَبِهٖ.

خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔ اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، میں نہیں تو پھر اس کا مطالبہ صرف انہی سے ہونا چاہیے اور ان کے عدل و انصاف کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خلاف حکم لگائیں اور میرے ساتھ میری بصیرت کی جلوہ گری ہے، نہ میں نے خود (جان بوجھ کر) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا اور بلا شبہ یہی وہ باغی گروہ ہے جس میں ایک ہمارا سگا (زبیر) اور ایک بچھو کا ڈنک (حمیرا) ہے اور حق پر سیاہ پردے ڈالنے والے شبہے ہیں۔ (اب تو) حقیقت حال کھل کر سامنے آ چکی ہے اور باطل اپنی بنیادوں سے ہل چکا ہے اور شررانگیزی سے اس کی زبان بندی ہو چکی ہے۔

وَایْمُ اللهِ! لَاُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضًا اَنَا مَاتِحُهٗ، لَا یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ بِرِیٍّ، وَ لَا یَعُبُّوْنَ بَعْدَهٗ فِیْ حَسْیٍ.

خدا کی قسم! میں ان کیلئے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں کہ جس سے سیراب ہو کر پلٹنا ان کے امکان میں نہ ہو گا اور نہ اس کے بعد کوئی گڑھا کھود کر پانی پی سکیں گے۔

[مِنْهُ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَاَقْبَلْتُمْ اِلَیَّ اِقْبَالَ الْعُوْذِ الْمَطَافِیْلِ عَلٰۤی اَوْلَادِهَا، تَقُوْلُوْنَ: الْبَیْعَةَ الْبَیْعَةَ! قَبَضْتُ کَفِّیْ فَبَسَطْتُّمُوْهَا، وَ نَازَعْتُکُمْ یَدِیْ فَجَاذَبْتُمُوْهَا.

تم اس طرح (شوق و رغبت سے) بیعت بیعت پکارتے ہوئے میری طرف بڑھے جس طرح نئی بیاہی ہوئی بچوں والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹا تو تم نے انہیں اپنی جانب پھیلایا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو تم سے چھیننا چاہا مگر تم نے انہیں کھینچا۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّهُمَا قَطَعَانِیْ وَ ظَلَمَانِیْ، وَ نَکَثَا بَیْعَتِیْ، وَ اَلَّبَا النَّاسَ عَلَیَّ، فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا، وَ لَا تُحْکِمْ لَهُمَا مَاۤ اَبْرَمَا، وَ اَرِهِمَا الْمَسَآءَةَ فِیْمَاۤ اَمَّلَا وَ عَمِلَا، وَ لَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ، وَ اسْتَاْنَیْتُ بِهِمَاۤ اَمَامَ الْوِقَاعِ، فَغَمَطَا النِّعْمَةَ، وَ رَدَّا الْعَافِیَةَ.

خدایا! ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور مجھ پر ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے، لہٰذا تو جو انہوں نے گرہیں لگائی ہیں انہیں کھول دے اور جو انہوں نے بٹا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا بُرا نتیجہ دکھا۔ میں نے جنگ کے چھڑنے سے پہلے انہیں باز رکھنا چاہا اور لڑائی سے قبل انہیں ڈھیل دیتا رہا، لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:08
عون نقوی