اسلام دشمن سیاسی طاقتوں کے پھیلائے ہوۓ کشکولی اسلام کی خصوصیات
رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی
اردو ترجمہ
ان (اسلام دشمن سیاسی طاقتوں) کی نظر میں زندگی کے اہم ترین شعبے، اور اجتماعی مناسبتوں میں اسلام کی دخالت کو ممنوع قرار دیا جاۓ، یہ نگاہ ظاہرا فکری ہے لیکن باطنا سیاسی ہے۔ ان کی نظر میں معاشرے کی مدیریت (Management)، تمدن سازی، اور اسلام کی ثقافت و تمدن کی تولید میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام میں یہ ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ کوئی معاشرے کے بارے میں ذمہ داری رکھتا ہو، اور اسلام کے پاس کوئی امکان ہے ہی نہیں اور نا ہی اسلام کو کوئی اس بارے میں کردار (Role Play) کرنا چاہیے۔
اسلام کے پاس معاشرے کی قدرت یا ثروت تقسیم کرنے کا منصوبہ نہیں ہے، معاشرے کا اقتصاد کیسا ہو، دیگر معاشرتی و اجتماعی مسائل کیسے ہوں اور کیسے نہ ہوں ان سب سے اسلام کا کوئی ربط نہیں۔ جنگ کا مسئلہ ہو یا صلح کا، سیاست خارجی ہو یا سیاست داخلی، بین الاقوامی مسائل (International Issues) ہوں، بعض اوقات کہتے ہیں کہ ڈپلومیسی کو نظریاتی مت بناؤ، یعنی کیا مطلب نظریاتی مت کرو؟ یعنی اسلام سے ڈپلومیسی (Diplomacy) کو مربوط مت کرو۔ اسلام کو ڈپلومیسی سے مربوط مت کرو یعنی اسلام کا خارجی سیاست یا خارجہ پالیسی (Foreign Policy) اور بین الاقوامی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ خیر کی اشاعت کے مسئلے، عدالت کے قیام کے مسئلے، شرور سے مقابلے کے مسئلے، ظلم سے مقابلے کے مسئلے، سپر طاقتوں کے شر کے مقابلے کے مسئلے، اور ان سب امور میں اسلام کا کوئی واسطہ نہیں۔ (جبکہ اسلام سب کا سب یہی ہے)۔ انسانی زندگی کے ان اہم ترین شعبوں میں اسلام کو کوئی دخالت حاصل ہے اور نا اسلام کی ان بارے میں راۓ لی جانی چاہیے اور نا ہی عملی طور پر کوئی اسلام سے کوئی رہنمائی لی جانی چاہیے۔ یہ اصرار ہے ان اسلام دشمن طاقتوں کا کہ اسلام کو ان معاملات سے دور کر کے محدود کیا جاۓ۔ اب اس اصرار کی علت کیا ہے؟ اس کا منشأ اور مبدأ کیا ہے؟ اور کہاں سے شروع ہوا یہ کام؟ یہ سب سوال آج کی بحث سے مربوط نہیں ہیں۔ جو آج عرض کرنا چاہتا ہوں اولا یہ کہ یہ سب تحرکات اسلام کی تعلیمات کے متضاد ہیں، زیادہ تر یہ نظریات سیاسی بڑی طاقتوں نے پھیلاۓ ہیں، یہ وہ طاقتیں ہیں جو اس میدان میں فعال ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مطالب مفکر لوگوں کی زبان سے جاری ہوں۔
اسلام کی تعلیمات ان نظریات کو صریح طور پر رد کرتی ہیں اور ہم مسلمانوں کو اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دینا ہوگی۔ یہ جو عرض کیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو اسلام کی جامعیت کا حق ادا کرنا ہوگا اور یہ مسئلہ اسلام کے درجہ اول کے مسائل میں سے ہے اس کے پیچھےیہ سب مسائل ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ اسلام اپنے بارے میں اور جن زندگی کے شعبوں کے بارے میں انسانی زندگی کا اہتمام کیے ہوۓ ہے، یا عملی نظام رکھے ہوۓ ہے اس کو تبیین کریں اور تشریح کریں۔ ان تشریحوں اور نظاموں کو معاشروں میں ترویج دیں، بیان کریں ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے۔
اصلی متن
از نظر این گرایشِ باطناً سیاسی و ظاهراً فکری، عرصههای مهمّ زندگی و مناسبات اجتماعی از دخالت اسلام باید خارج بشود؛ در مدیریّت جامعه و تمدّنسازی، اسلام در مورد تولید تمدّن و ساخت تمدّن بشری نقشی ندارد، وظیفهای ندارد، امکانی ندارد؛ در مدیریّت جامعه نقش ندارد، در تقسیم قدرت و ثروت در جامعه، اسلام نقشی ندارد؛ اقتصاد جامعه، مسائل گوناگون جامعه مربوط به اسلام نیست؛ یا مسئلهی جنگ، مسئلهی صلح، سیاست داخلی، سیاست خارجی، مسائل بینالمللی. گاهی میشنوید گفته میشود که «دیپلماسی را ایدئولوژیک نکنید»، با ایدئولوژی مربوط [نکنید] یعنی اسلام در مسئلهی سیاست خارجی و مسائل بینالمللی بایستی اظهار نظری نکند؛ در مسئلهی اشاعهی خیر، اقامهی عدل، مقابلهی با شُرور، مقابلهی با ظلم، جلوگیری از اَشرار عالم، در این زمینهها، اسلام کارهای نیست. در این عرصههای مهمّ زندگی بشری، اسلام نه مرجع فکری باشد، نه راهنمای عملی باشد؛ این اصراری است که دارند. حالا علّت این اصرار چیست، منشأ آن چیست، از کجا شروع شده، اینها دیگر بحثهای مربوط به صحبت امروز من نیست. آنچه من میخواهم عرض بکنم این است که اوّلاً این حرکتِ در واقع ضدّ اسلامی، عمدتاً از سوی قدرتهای سیاسی بزرگ دنیا است و آنها هستند که در این زمینه فعّالند و تلاش میکنند و سعی هم میشود که از زبان صاحبان فکر بیان بشود.
خب متون اسلامی صریحاً این را رد میکند و ما مسلمانها به این مسئله باید اهمّیّت بدهیم. اینکه عرض میکنم «اداء حق»، در درجهی اوّل این است: تلاش کنیم نظر اسلام را دربارهی خودش که به کدام عرصه از عرصههای زندگی اهتمام میورزد، در آنها نظر دارد، اقدام دارد، تبیین کنیم، ترویج کنیم، بیان کنیم؛ اوّلقدم این است.(۱)