بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: مکتوبات» ثبت شده است

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ کے نام

فَاتَّقِ اللهَ فِیْمَا لَدَیْکَ، وَ انْظُرْ فِیْ حَقِّهٖ عَلَیْکَ، وَ ارْجِـعْ اِلٰی مَعْرِفَةِ مَا لَا تُعْذَرُ بِجَهَالَتِهٖ، فَاِنَّ لِلطَّاعَةِ اَعْلَامًا وَّاضِحَةً، وَ سُبُلًا نَّیِّرَةً، وَ مَحَجَّةً نَهْجَةً، وَ غَایَةً مَّطْلُوْبَةً، یَرِدُهَا الْاَکْیَاسُ، وَ یُخَالِفُهَا الْاَنْکَاسُ، مَنْ نَّکَبَ عَنْهَا جَارَ عَنِ الْحَقِّ، وَ خَبَطَ فِی التِّیْهِ، وَ غَیَّرَ اللهُ نِعْمَتَهٗ، وَ اَحَلَّ بِهٖ نِقْمَتَهٗ.

جو دنیا کا ساز و سامان تمہارے پاس ہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور اس کے حق کو پیش نظر رکھو، ان حقوق کو پہچانو جن سے لا علمی میں تمہارا کوئی عذر سنا نہ جائے گا۔ کیونکہ اطاعت کیلئے واضح نشان، روشن راہیں، سیدھی شاہراہیں اور ایک منزل مقصود موجود ہے۔ عقلمند و دانا ان کی طرف بڑھتے ہیں اور سفلے اور کمینے ان سے کترا جاتے ہیں۔ جو ان سے منہ پھیر لیتا ہے وہ حق سے بے راہ ہو جاتا ہے اور گمراہیوں میں بھٹکنے لگتا ہے، اللہ اس سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور اس پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے۔

فَنَفْسَکَ نَفْسَکَ! فَقَدْ بَیَّنَ اللهُ لَکَ سَبِیْلَکَ، وَ حَیْثُ تَنَاهَتْ بِکَ اُمُوْرُکَ، فَقَدْ اَجْرَیْتَ اِلٰی غَایَةِ خُسْرٍ، وَ مَحَلَّةِ کُفْرٍ، وَ اِنَّ نَفْسَکَ قَدْ اَوْلَجَتْکَ شَرًّا، وَ اَقْحَمَتْکَ غَیًّا، وَ اَوْرَدَتْکَ الْمَهَالِکَ، وَ اَوْعَرَتْ عَلَیْکَ الْمَسَالِکَ.

لہٰذا اپنا بچاؤ کرو! اللہ نے تمہیں راستہ دکھا دیا ہے اور وہ منزل بتا دی ہے کہ جہاں تمہارے معاملات کو پہنچنا ہے۔ تم زیاں کاری کی منزل اور کفر کے مقام کی طرف بگٹٹ دوڑے جا رہے ہو۔ تمہارے نفس نے تمہیں برائیوں میں دھکیل دیا ہے اور گمراہیوں میں جھونک دیا ہے اور مہلکوں میں لا اتارا ہے اور راستوں کو تمہارے لئے دشوار گزار بنا دیا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 19:25
عون نقوی

اِلٰۤى اَهْلِ الْبَصْرَةِ

اہل بصرہ کی طرف

وَقَدْ کَانَ مِنِ انْتِشَارِ حَبْلِکُمْ وَ شِقَاقِکُمْ مَا لَمْ تَغْبَوْا عَنْهُ، فَعَفَوْتُ عَنْ مُّجْرِمِکُمْ، وَ رَفَعْتُ السَّیْفَ عَنْ مُّدْبِرِکُمْ، وَ قَبِلْتُ مِنْ مُّقْبِلِکُمْ. فَاِنْ خَطَتْ بِکُمُ الْاُمُوْرُ الْمُرْدِیَةُ، وَ سَفَهُ الْاٰرَآءِ الْجَآئِرَةِ، اِلٰی مُنَابَذَتِیْ وَ خِلَافِیْ، فَهَا اَنَا ذَا قَدْ قَرَّبْتُ جِیَادِیْ، وَ رَحَلْتُ رِکَابِیْ.

تمہاری تفرقہ پردازی و شورش انگیزی کی جو حالت تھی اس کو تم خود سمجھ سکتے ہو، لیکن میں نے تمہارے مجرموں سے درگزر کیا، پیٹھ پھرانے والوں سے تلوار روک لی اور بڑھ کر آنے والوں کیلئے میں نے ہاتھ پھیلا دیئے۔ اب اگر پھر تباہ کن اقدامات اور کج فہمیوں سے پیدا ہونے والے سفیہانہ خیالات نے تمہیں عہد شکنی اور میری مخالفت کی راہ پر ڈالا، تو سن لو! کہ میں نے اپنے گھوڑوں کو قریب کر لیا ہے اور اونٹوں پر پالان کس لئے ہیں۔

وَ لَئِنْ اَلْجَاْتُمُوْنِیْۤ اِلَی الْمَسِیْرِ اِلَیْکُمْ، لَاُوْقِعَنَّ بِکُمْ وَقْعَةً لَّا یَکُوْنُ یَوْمُ الْجَمَلِ اِلَیْهَاۤ اِلَّا کَلَعْقَةِ لَاعِقٍ، مَعَ اَنِّیْۤ عَارِفٌ لِّذِی الطَّاعَةِ مِنْکُمْ فَضْلَهٗ، وَ لِذِی النَّصِیْحَةِ حَقَّهٗ، غَیْرَ مُتَجَاوِزٍ مُّتَّهَمًا اِلٰی بَرِیٍّ، وَ لَا نَاکِثًا اِلٰی وَفِیٍّ.

اور تم نے مجھے حرکت کرنے پر مجبور کیا تو تم میں اس طرح معرکہ آرائی کروں گا کہ اس کے سامنے جنگ جمل کی حقیقت بس یہ رہ جائے گی جیسے کوئی زبان سے کوئی چیز چاٹ لے۔ پھر بھی جو تم میں فرماں بردار ہیں ان کے فضل و شرف اور خیر خواہی کر نے والے کے حق کو میں پہچانتا ہوں اور میرے یہاں یہ نہیں ہو سکتا کہ مجرموں کے ساتھ بے گناہ اور عہد شکنوں کے ساتھ وفادار بھی لپیٹ میں آ جائیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 19:23
عون نقوی

اِلٰى مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُ حِیْنَ قَلَّدَهٗ مِصْرَ:

محمد ابن ابی بکر ؒ کے نام جب انہیں مصر کی حکومت سپرد کی:

فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَکَ، وَاَلِنْ لَهُمْ جَانِبَکَ، وَابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَکَ، وَ اٰسِ بَیْنَهُمْ فِی اللَّحْظَةِ وَ النَّظْرَةِ، حَتَّی لَا یَطْمَعَ الْعُظَمَآءُ فِیْ حَیْفِکَ لَهُمْ، وَ لَا یَیْاَسَ الضُّعَفَآءُ مِنْ عَدْلِکَ عَلَیْهِمْ. فَاِنَّ اللهَ تَعَالٰی یُسَآئِلُکُمْ مَعْشَرَ عِبَادِهٖ عَنِ الصَّغِیْرَةِ مِنْ اَعْمَالِکُمْ وَ الْکَبِیْرَةِ، وَ الظَّاهِرَةِ وَ الْمَسْتُوْرَةِ، فَاِنْ یُّعَذِّبْ فَاَنْتُمْ اَظْلَمُ، وَ اِنْ یَّعْفُ فَهُوَ اَکْرَمُ.

لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا، تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے بڑے، کھلے ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔

وَ اعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ الْمُتَّقِیْنَ ذَهَبُوْا بِعَاجِلِ الدُّنْیَا وَ اٰجِلِ الْاٰخِرَةِ، فَشَارَکُوْۤا اَهْلَ الدُّنْیَا فِیْ دُنْیَاهُمْ، وَ لَمْ یُشَارِکْهُمْ اَهْلُ الدُّنْیَا فِیْۤ اٰخِرَتِهِمْ، سَکَنُوا الدُّنْیَا بِاَفْضَلِ مَا سُکِنَتْ، وَ اَکَلُوْهَا بِاَفْضَلِ مَاۤ اُکِلَتْ، فَحَظُوْا مِنَ الدُّنْیَا بِمَا حَظِیَ بِهِ الْمُتْرَفُوْنَ، وَاَخَذُوْا مِنْهَا مَاۤ اَخَذَهُ الْجَبَابِرَةُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ، ثُمَّ انْقَلَبُوْا عَنْهَا بِالزَّادِ الْمُبَلِّغِ، وَالْمَتْجَرِ الرَّابِحِ، اَصَابُوْا لَذَّةَ زُهْدِ الدُّنْیَا فِیْ دُنْیَاهُمْ، وَ تَیَقَّنُوْۤا اَنَّهُمْ جِیْرَانُ اللهِ غَدًا فِیْۤ اٰخِرَتِهِمْ، لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ، وَ لَا یَنْقُصُ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّنْ لَّذَّةٍ.

خدا کے بندو! تمہیں جاننا چاہیے کہ پرہیز گاروں نے جانے والی دنیا اور آنے والی آخرت دونوں کے فائدے اٹھائے۔ وہ دنیا والوں کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے، مگر دنیا دار ان کی آخرت میں حصہ نہ لے سکے۔ وہ دنیا میں بہترین طریقہ پر رہے اور اچھے سے اچھا کھایا اور اس طرح وہ ان تمام چیزوں سے بہرہ یاب ہوئے جو عیش پسند لوگوں کو حاصل تھیں اور وہ سب کچھ حاصل کیا کہ جو سرکش و متکبر لوگوں کو حاصل تھا۔ پھر وہ منزل مقصود پر پہنچانے والے زاد کا سر و سامان اور نفع کا سودا کر کے دنیا سے روانہ ہوئے۔ انہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے ترک دنیا کی لذت چکھی اور یہ یقین رکھا کہ وہ کل اللہ کے پڑوس میں ہوں گے، جہاں نہ ان کی کوئی آواز ٹھکرائی جائے گی، نہ ان کے حظ و نصیب میں کمی ہو گی۔

فَاحْذَرُوْا عِبَادَ اللهِ الْمَوْتَ وَ قُرْبَهٗ، وَ اَعِدُّوْا لَهٗ عُدَّتَهٗ، فَاِنَّهٗ یَاْتِیْ بِاَمْرٍ عَظِیْمٍ، وَ خَطْبٍ جَلِیْلٍ، بِخَیْرٍ لَّا یَکُوْنُ مَعَهٗ شَرٌّ اَبَدًا، اَوْ شَرٍّ لَّا یَکُوْنُ مَعَهٗ خَیْرٌ اَبَدًا، فَمَنْ اَقْرَبُ اِلَی الْجَنَّةِ مِنْ عَامِلِهَا! وَ مَنْ اَقْرَبُ اِلَی النَّارِ مِنْ عَامِلِهَا!

تو اللہ کے بندو! موت اور اس کی آمد سے ڈرو اور اس کیلئے سر و سامان فراہم کرو۔ وہ آئے گی اور ایک بڑے حادثے اور عظیم سانحے کے ساتھ آئے گی۔ جس میں یا تو بھلائی ہی بھلائی ہو گی کہ برائی کا اس میں کبھی گزر نہ ہو گا، یا ایسی برائی ہو گی کہ جس میں کبھی بھلائی کا شائبہ نہ آئے گا۔ کون ہے جو جنت کے کام کرنے والے سے زیادہ جنت کے قریب ہو؟ اور کون ہے جو دوزخ کے کام کرنے والے سے زیادہ دوزخ کے نزدیک ہو؟

وَ اَنْتُمْ طُرَدَآءُ الْمَوْتِ، اِنْ اَقَمْتُمْ لَهٗ اَخَذَکُمْ، وَ اِنْ فَرَرْتُمْ مِنْهُ اَدْرَکَکُمْ، وَ هُوَ اَلْزَمُ لَکُمْ مِنْ ظِلِّکُمْ، الْمَوْتُ مَعْقُوْدٌۢ بِنَوَاصِیْکُمْ، وَ الدُّنْیَا تُطْوٰی مِنْ خَلْفِکُمْ. فَاحْذَرُوْا نَارًا قَعْرُهَا بَعِیْدٌ، وَ حَرُّهَا شَدِیْدٌ، وَ عَذَابُهَا جَدِیْدٌ، دَارٌ لَّیْسَ فِیْهَا رَحْمَةٌ، وَ لَا تُسْمَعُ فِیْهَا دَعْوَةٌ، وَ لَا تُفَرَّجُ فِیْهَا کُرْبَۃٌ.

تم وہ شکار ہو جس کا موت پیچھا کئے ہوئے ہے۔ اگر تم ٹھہرے رہو گے جب بھی تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر اس سے بھاگو گے جب بھی وہ تمہیں پالے گی۔ وہ تو تمہارے سایہ سے بھی زیادہ تمہارے ساتھ ساتھ ہے۔ موت تمہاری پیشانی کے بالوں سے جکڑ کر باندھ دی گئی ہے اور دنیا تمہارے عقب سے تہہ کی جا رہی ہے۔ لہٰذا جہنم کی اس آگ سے ڈرو جس کا گہراؤ دور تک چلاگیا ہے، جس کی تپش بے پناہ ہے اور جس کا عذاب ہمیشہ نیا اور تازہ رہتا ہے۔ وہ ایسا گھر ہے جس میں رحم و کرم کا سوال ہی نہیں۔ نہ اس میں کوئی فریاد سنی جاتی ہے اور نہ کرب و اذیت سے چھٹکارا ملتا ہے۔

وَ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ یَشْتَدَّ خَوْفُکُمْ مِنَ اللهِ، وَ اَنْ یَّحْسُنَ ظَنُّکُمْ بِهٖ، فَاجْمَعُوْا بَیْنَهُمَا، فَاِنَّ الْعَبْدَ اِنَّمَا یَکُوْنُ حُسْنُ ظَنِّهٖ بِرَبِّهٖ عَلٰی قَدْرِ خَوْفِهٖ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ اِنَّ اَحْسَنَ النَّاسِ ظَنًّۢا بِاللهِ اَشَدُّهُمْ خَوْفًا لِّـلّٰهِ.

اگر یہ کر سکو کہ تم اللہ کا زیادہ سے زیادہ خوف بھی رکھو اور اس سے اچھی امید بھی وابستہ رکھو، تو ان دونوں باتوں کو اپنے اندر جمع کر لو، کیونکہ بندے کو اپنے پروردگار سے اتنی ہی امید بھی ہوتی ہے جتنا کہ اس کا ڈر ہوتا ہے۔ اور جو سب سے زیادہ اللہ سے امید رکھتا ہے وہی سب سے زیادہ اس سے خائف ہوتا ہے۔

وَ اعْلَمْ ـ یَا مُحَمَّدُ بْنَ اَبِیْ بَکْرٍ! ـ اَنِّیْ قَدْ وَلَّیْتُکَ اَعْظَمَ اَجْنَادِیْ فِیْ نَفْسِیْۤ اَهْلَ مِصْرَ، فَاَنْتَ مَحْقُوْقٌ اَنْ تُخَالِفَ عَلٰی نَفْسِکَ، وَ اَنْ تُنَافِحَ عَنْ دِیْنِکَ، وَ لَوْ لَمْ یَکُنْ لَّکَ اِلَّا سَاعَةٌ مِّنَ الدَّهْرِ، وَ لَا تُسْخِطِ اللهَ بِرِضٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِهِ، فَاِنَّ فِی اللهِ خَلَفًا مِّنْ غَیْرِهٖ، وَ لَیْسَ مِنَ اللهِ خَلَفٌ فِیْ غَیْرِهٖ.

اے محمد ابن ابی بکر!اس بات کو جان لو کہ میں نے تمہیں مصر والوں پر کہ جو میری سب سے بڑی سپاہ ہیں، حکمران بنایا ہے۔ اب تم سے میرا یہ مطالبہ ہے کہ تم اپنے نفس کی خلاف ورزی کرنا اور اپنے دین کیلئے سینہ سپر رہنا، اگرچہ تمہیں زمانہ میں ایک ہی گھڑی کا موقع حاصل ہو۔ اور مخلوقات میں سے کسی کو خوش کرنے کیلئے اللہ کو ناراض نہ کرنا، کیونکہ اوروں کا عوض تو اللہ میں مل سکتا ہے مگر اللہ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔

صَلِّ الصَّلٰوةَ لِوَقْتِهَا الْمُوَقَّتِ لَهَا، وَ لَا تُعَجِّلْ وَقْتَهَا لِفَرَاغٍ، وَ لَا تُؤْخِّرْهَا عَنْ وَّقْتِهَا لِاشْتِغَالٍ، وَ اعْلَمْ اَنَّ کُلَّ شَیْءٍ مِّنْ عَمَلِکَ تَبَعٌ لِّصَلٰوتِکَ.

نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنا اور فرصت ہونے کی وجہ سے قبل از وقت نہ پڑھ لینا اور نہ مشغولیت کی وجہ سے اسے پیچھے ڈال دینا۔ یاد رکھو کہ تمہارا ہر عمل نماز کے تابع ہے۔

[وَ مِنْهُ]

[اس عہد نامہ کا ایک حصہ یہ ہے]

فَاِنَّهٗ لَا سَوَآءٌ اِمَامُ الْهُدٰی وَ اِمَامُ الرَّدٰی، وَ وَلِیُّ النَّبِیِّ وَ عَدُوُّ النَّبِیِّ، وَ لَقَدْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: «اِنِّیْ لَاۤ اَخَافُ عَلٰۤی اُمَّتِیْ مُؤْمِنًا وَّ لَا مُشْرِکًا، اَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَمْنَعُهُ اللهُ بِاِیْمَانِهٖ، وَ اَمَّا الْمُشْرِکُ فَیَقْمَعُهُ اللهُ بِشِرْکِهٖ. وَ لٰکِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ کُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ، عَالِمِ اللِّسَانِ، یَقُوْلُ مَا تَعْرِفُوْنَ، وَ یَفْعَلُ مَا تُنْکِرُوْنَ».

ہدایت کا امام اور ہلاکت کا پیشوا، پیغمبر ﷺ کا دوست اور پیغمبر ﷺ کا دشمن برابر نہیں ہوسکتے۔ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: «مجھے اپنی اُمت کے بارے میں نہ مومن سے کھٹکا ہے اور نہ مشرک سے، کیونکہ مومن کی اللہ اس کے ایمان کی وجہ سے (گمراہ کرنے سے) حفاظت کرے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی وجہ سے ذلیل و خوار کرے گا (کہ کوئی اس کی بات پر کان نہ دھرے گا)، بلکہ مجھے تمہارے لئے ہر اس شخص سے اندیشہ ہے کہ جو دل سے منافق اور زبان سے عالم ہے، کہتا وہ ہے جسے تم اچھا سمجھتے ہو اور کرتا وہ ہے جسے تم برا جانتے ہو»۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 19:18
عون نقوی

اِلٰى بَعْضِ عُمَّالِهٖ، وَ قَدْ بَعَثَهٗ عَلَى الصَّدَقَةِ:

ایک کارندے کے نام کہ جسے زکوٰۃ اکٹھا کرنے کیلئے بھیجا تھا یہ عہدنامہ تحریر فرمایا:

اٰمُرُهٗ بِتَقْوَی اللهِ فِیْ سَرَآئِرِ اَمْرِهٖ وَ خَفِیَّاتِ عَمَلِهٖ، حَیْثُ لَا شَهِیْدَ غَیْرُهٗ، وَ لَا وَکِیْلَ دُوْنَهٗ.

میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ اپنے پوشیدہ ارادوں اور مخفی کاموں میں اللہ سے ڈرتے رہیں، جہاں نہ اللہ کے علاوہ کوئی گواہ ہو گا اور نہ اس کے ما سوا کوئی نگران ہے۔

وَ اٰمُرُهٗ اَنْ لَّا یَعْمَلَ بِشَیْءٍ مِّنْ طَاعَةِ اللهِ فِیْمَا ظَهَرَ فَیُخَالِفَ اِلٰی غَیْرِهٖ فِیْمَاۤ اَسَرَّ، وَمَنْ لَمْ یَخْتَلِفْ سِرُّهٗ وَ عَلَانِیَتُهٗ، وَفِعْلُهٗ وَ مَقَالَتُهٗ، فَقَدْ اَدَّی الْاَمَانَةَ، وَاَخْلَصَ الْعِبَادَةَ.

اور انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ ظاہر میں اللہ کا کوئی ایسا فرمان بجا نہ لائیں کہ ان کے چھپے ہوئے اعمال اس سے مختلف ہوں اور جس شخص کا باطن و ظاہر اور کردار و گفتار مختلف نہ ہو، اس نے امانتداری کا فرض انجام دیا اور اللہ کی عبادت میں خلوص سے کام لیا۔

وَ اٰمُرُهٗ اَنْ لَّا یَجْبَهَهُمْ، وَ لَا یَعْضَهَهُمْ، وَ لَا یَرْغَبَ عَنْهُمْ تَفَضُّلًۢا بِالْاِمَارَةِ عَلَیْهِمْ، فَاِنَّهُمُ الْاِخْوَانُ فِی الدِّیْنِ، وَ الْاَعْوَانُ عَلَی اسْتِخْرَاجِ الْحُقُوْقِ.

اور میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ لوگوں کو آزردہ نہ کریں، اور نہ انہیں پریشان کریں، اور نہ ان سے اپنے عہدے کی برتری کی وجہ سے بے رخی برتیں، کیونکہ وہ دینی بھائی اور زکوٰۃ و صدقات کے برآمد کرنے میں معین و مددگار ہیں۔

وَ اِنَّ لَکَ فِیْ هٰذِهِ الصَّدَقَةِ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا، وَ حَقًّا مَّعْلُوْمًا، وَ شُرَکَآءَ اَهْلَ مَسْکَنَةٍ، وَ ضُعَفَآءَ ذَوِیْ فَاقَةٍ، وَ اِنَّا مُوَفُّوْکَ حَقَّکَ، فَوَفِّهِمْ حُقُوْقَهُمْ، وَ اِلَّا تَفْعَلْ فَاِنَّکَ مِنْ اَکْثَرِ النَّاسِ خُصُوْمًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ، وَبُؤْسًا لِّمَنْ -خَصْمُهٗ عِنْدَ اللهِ - الْفُقَرَآءُ وَ الْمَسَاکِیْنُ وَ السَّآئِلُوْنَ وَ الْمَدْفُوْعُوْنَ وَ الْغَارِمُ وَ ابْنُ السَّبِیْلِ!

یہ معلوم ہے کہ اس زکوٰۃ میں تمہارا بھی معین حصہ اور جانا پہچانا ہوا حق ہے اور اس میں بیچارے مسکین اور فاقہ کش لوگ بھی تمہارے شریک ہیں اور ہم تمہارا حق پورا پورا ادا کرتے ہیں، تو تم بھی ان کا حق پورا پورا ادا کرو۔ نہیں تو یاد رکھو کہ روزقیامت تمہارے ہی دشمن سب سے زیادہ ہوں گے اور وائے بدبختی! اس شخص کی جس کے خلاف اللہ کے حضور فریق بن کر کھڑے ہونے والے فقیر، نادار، سائل، دھتکارے ہوئے لوگ، قرض دار اور (بے خرچ)مسافر ہوں۔

وَ مَنِ اسْتَهَانَ بِالْاَمَانَةِ، وَ رَتَعَ فِی الْخِیَانَةِ، وَلَمْ یُنَزِّهْ نَفْسَهٗ وَ دِیْنَهٗ عَنْهَا، فَقَدْ اَحَلَّ بِنَفْسِهِ الْذُّلَّ وَ الْخِزْیَ فِی الدُّنْیَا، وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَذَلُّ وَ اَخْزٰی.

یاد رکھو کہ جو شخص امانت کو بے وقعت سمجھتے ہوئے اسے ٹھکرا دے اور خیانت کی چراگاہوں میں چرتا پھرے اور اپنے کو اور اپنے دین کو اس کی آلودگی سے نہ بچائے تو اس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلتوں اور خواریوں میں ڈالا اور آخرت میں بھی رسوا و ذلیل ہو گا۔

وَ اِنَّ اَعْظَمَ الْخِیَانَةِ خِیَانَةُ الْاُمَّةِ، وَ اَفْظَعَ الْغِشِّ غِشُّ الْاَئِمَّةِ، وَ السَّلَامُ.

سب سے بڑی خیانت اُمت کی خیانت ہے اور سب سے بڑی فریب کاری پیشوائے دین کو دغا دینا ہے۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 19:05
عون نقوی

قَالَهٗ قُبَیْلَ مَوْتِهٖ عَلٰى سَبِیْلِ الْوَصِیَّةِ لَمَّا ضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَهُ اللّٰهُ:

جب ابن ملجم نے آپؑ کے سر اقدس پر ضربت لگائی تو انتقال سے کچھ پہلے آپؑ نے بطور وصیت ارشاد فرمایا:

وَصِیَّتِیْ لَکُمْ: اَنْ لَّا تُشْرِکُوْا بِاللهِ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ -صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ- فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ وَ خَلَاکُمْ ذَمٌّ.

تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور محمد ﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم کئے رہنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔ بس پھر برائیوں نے تمہارا پیچھا چھوڑ دیا۔

اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُکُمْ، وَ الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّکُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُکُمْ، اِنْ اَبْقَ فَاَنَا وَلِیُّ دَمِیْ، وَ اِنْ اَفْنَ فَالْفَنَآءُ مِیْعَادِیْ، وَاِنْ اَعْفُ فَالْعَفْوُ لِیْ قُرْبَةٌ، وَ هُوَ لَکُمْ حَسَنَةٌ، فَاعْفُوْا، ﴿اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ ؕ ﴾ .

میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے (سراپا) عبرت ہوں اور کل کو تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو مجھے اپنے خون کا اختیار ہو گا اور اگر مر جاؤں تو موت میری وعدہ گاہ ہے۔ اگر معاف کر دوں تو یہ میرے لئے رضائے الٰہی کا باعث ہے اور وہ تمہارے لئے بھی نیکی ہو گی۔’’کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے‘‘۔

وَ اللهِ مَا فَجَئَنِیْ مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ کَرِهْتُهٗ، وَ لَا طَالِعٌ اَنْکَرْتُهٗ، وَ مَا کُنْتُ اِلَّا کَقَارِبٍ وَّرَدَ، وَ طَالِبٍ وَّجَدَ، ﴿وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝﴾.

خدا کی قسم! یہ موت کا ناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے نا پسند جانتا ہوں اور نہ یہ ایسا سانحہ ہے کہ میں اسے برا جانتا ہوں۔ میری مثال بس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوتے ہی چشمہ پر پہنچ جائے اور اس ڈھونڈنے والے کی مانند ہوں جو مقصد کو پالے، ’’اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی نیکو کاروں کیلئے بہتر ہے‘‘۔

اَقُوْلُ: وَ قَدْ مَضٰی بَعْضُ هٰذَا الْکَلَامِ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْخُطَبِ، اِلَّاۤ اَنَّ فِیْهِ هٰهُنَا زِیَادَةً اَوْجَبَتْ تَکْرِیْرَهٗ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ اس کلام کا کچھ حصہ خطبات میں گزر چکا ہے، مگر یہاں کچھ اضافہ تھا جس کی وجہ سے دوبارہ درج کرنا ضروری ہوا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 15:19
عون نقوی