بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

لَمَّا بَلَغَهُ اتِّهَامُ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَهٗ بِالْمُشَارَکَةِ فِیْ دَمِ عُثْمَانَ:

جب آپؑ کو معلوم ہوا کہ بنی امیہ قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر رکھتے ہیں تو ارشاد فرمایا

اَوَ لَمْ یَنْهَ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ عِلْمُهَا بِیْ عَنْ قَرْفِیْ؟ اَوَ مَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِیْ عَنْ تُهَمَتِیْ؟! وَ لَمَا وَعَظَهُمُ اللهُ بِهٖۤ اَبْلَغُ مِنْ لِّسَانِیْ.

میرے متعلق سب کچھ جاننے بوجھنے نے بنی امیہ کو مجھ پر افترا پردازیوں سے باز نہیں رکھا اور نہ میری سبقت ایمانی اور دیرینہ اسلامی خدمات نے ان جاہلوں کو اتہام لگانے سے روکا اور جو اللہ نے (کذب و افترا کے متعلق) انہیں پند و نصیحت کی ہے وہ میرے بیان سے کہیں بلیغ ہے۔

اَنَا حَجِیْجُ الْمَارِقِیْنَ، وَ خَصِیْمُ الْمُرْتَابِیْنَ، وَ عَلٰی کِتَابِ اللهِ تُعْرَضُ الْاَمْثَالُ، وَ بِمَا فِی الصُّدُوْرِ تُجَازَی الْعِبَادُ!.

میں (ان) بے دینوں پر حجت لانے والا اور (دین میں) شک و شبہ کرنے والوں کا فریق مخالف ہوں اور قرآن پر پیش ہونا چاہیے تمام مشتبہ باتوں کو اور بندوں کو جیسی ان کی نیت ہو گی ویسا ہی پھل ملے گا۔


balagha.org

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 19:07
عون نقوی

لَمَّا عَزَمُوْا عَلٰى بَیْعَةِ عُثْمَانَ

جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا

لَقَدْ عَلِمْتُمْ اَنِّیْۤ اَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَیْرِیْ، وَ وَاللهِ! لَاُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ اُمُوْرُ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ لَمْ یَکُنْ فِیْهَا جَوْرٌ اِلَّا عَلَیَّ خَاصَّةً، الْتِمَاسًا لِاَجْرِ ذٰلِکَ وَ فَضْلِهٖ، وَ زُهْدًا فِیْمَا تَنافَسْتُمُوْهُ مِنْ زُخْرُفِهٖ وَ زِبْرِجِهٖ.

تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے۔ خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی، میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا۔ تاکہ (اس صبر پر) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت اور آرائش کو ٹھکرا دوں جس پر تم مٹے ہوئے ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 18:48
عون نقوی

قَالَهٗ لِمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ بِالْبَصْرَةِ قَالُوْا: اُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَکَمِ اَسِیْرًا یَّوْمَ الْجَمَلِ، فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ عَلَیْھِمَا السَّلَامُ اِلٰۤى اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ فَکَلَّمَاهُ فِیْهِ فَخَلّٰى سَبِیْلَهٗ: فَقَالَا لَهٗ یُبَایِعُکَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، فَقَالَ ؑ:

جمل کے موقعہ پر جب مروان بن حکم گرفتار کیا گیا تو اس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے خواہش کی کہ وہ امیر المومنین علیہ السلام سے اس کی سفارش کریں۔ چنانچہ ان دونوں حضراتؑ نے امیر المومنینؑ سے اس سلسلہ میں بات چیت کی اور حضرتؑ نے اُسے رہا کر دیا۔ پھر دونوں شہزادوں نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! یہ آپؑ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، تو حضرت علی علیہ السلام نے اس کے متعلق فرمایا:

اَ وَ لَمْ یُبَایِعْنِیْ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ؟ لَا حَاجَةَ لِیْ فِیْ بَیْعَتِهٖ! اِنَّهَا کَفٌّ یَّهُوْدِیَّةٌ، لَوْ بَایَعَنِیْ بِکَفِّهٖ لَغَدَرَ بِسَبَّتِهٖ. اَمَا اِنَّ لَهٗ اِمْرَةً کَلَعْقَةِ الْکَلْبِ اَنْفَهٗ، وَ هُوَ اَبُو الْاَکْبُشِ الْاَرْبَعَةِ، وَ سَتَلْقَی الْاُمَّةُ مِنْهُ وَ مِنْ وَّلَدِهٖ یَوْمًا اَحْمَرَ!.

کیا اس نے عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں۔ یہ یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔ اگر ہاتھ سے بیعت کرے گا تو ذلیل طریقے سے توڑ بھی دے گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بھی اتنی دیر کہ کتا اپنی ناک چاٹنے سے فارغ ہو، حکومت کرے گا اور اس کے چار بیٹے بھی حکمران ہوں گے اور اُمت اس کے اور اس کے بیٹوں کے ہاتھوں سے سختیوں کے دن دیکھے گی۔


’’مروان ابن حکم‘‘ حضرت عثمان کا بھتیجا اور داماد تھا اور اکہرا جسم اور لمبا قد ہونے کی وجہ سے ’’خیط باطل‘‘ (باطل کا ڈورا) کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا چنانچہ عبد الملک ابن مروان نے جب عمرو ابن سعید اشدق کو قتل کر دیا تو اس کے بھائی یحییٰ ابن سعید نے کہا:
غَدَرْتُمْ بِعَمْرٍو یَا بَنِیْ خَیْطِ بَاطِلٍ
وَ مِثْلُکُمْ یَبْنِی الْبُیوْتَ عَلى الْغَدَرِ
’’اے خیطِ باطل کی اولاد! تم نے عمرو سے غداری کی اور تمہارے ایسے لوگ غداری ہی کی بنیادوں پر اپنے اقتدار کی عمارتیں کھڑی کیا کرتے ہیں‘‘۔(۱)
اس کا باپ ’’حکم‘‘ گو فتح مکہ کے موقعہ پر اسلام لے آیا تھا مگر اس کے طور طریقے ایسے تھے کہ جو پیغمبر ﷺ کیلئے انتہائی اذیت کا باعث ہوتے تھے۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ نے اس پر اور اس کی اولاد پر لعنت کی اور فرمایا کہ:
وَیْلٌ لِاُمَّتِیْ مِنْ صُلْبِ هذَا.
یعنی اس کی اولاد کے ہاتھوں میری اُمت تباہی کے دن دیکھے گی۔ (اسد الغابہ)
آخر پیغمبر ﷺ نے اس کی بڑھتی ہوئی سازشوں کے پیش نظر اسے مدینہ سے وادی وج (طائف میں ایک جگہ ہے) کی طرف نکلوا دیا اور مروان بھی اس کے ساتھ چلتا بنا اور پھر پیغمبر ﷺ نے زندگی بھر ان دونوں کو مدینہ نہ آنے دیا۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن حضرت عثمان نے اپنے عہد میں ان دونوں کو واپس بلوا لیا اور مروان کو تو اس عروج پر پہنچایا کہ گویا خلافت کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے اور پھر اس کے حالات اس طرح سازگار ہوئے کہ معاویہ ابن یزید کے مرنے کے بعد خلیفۃ المسلمین بن گیا، لیکن ابھی نو مہینے اٹھارہ دن ہی حکومت کرتے ہوئے گزرے تھے کہ ۳ رمضان سن ۶۵ ہجری میں ۶۳ برس کی عمر میں قضا نے اس طرح آ گھیرا کہ اس کی بیوی اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر بیٹھ گئی اور اُس وقت تک الگ نہ ہوئی جب تک اُس نے دم نہ توڑ دیا۔
اس کے جن چار بیٹوں کی طرف امیر المومنین علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے وہ عبد الملک ابنِ مروان کے چار بیٹے: ولید، سلیمان، یزید اور ہشام ہیں کہ جو عبد الملک کے بعد یکے بعد دیگرے تخت خلافت پر بیٹھے اور اپنی خونچکاں داستانوں سے صفحاتِ تاریخ رنگین کر گئے۔
اور بعض شارحین نے خود اس کے صلبی بیٹے مراد لئے ہیں جن کے نام یہ ہیں: عبد الملک، عبد العزیز، بشر اور محمد۔ ان میں سے عبدالملک تو خلیفہ ہو گیا اور عبد العزیز مصر کا، بشر عراق کا اور محمد جزیرہ کا والی قرار پایا۔
[۱]۔ الاوائل، ابو ہلال العسکری، ج ۱، ص ۲۴۹، مطبوعہ دار البشیر، طنطہ، ۱۴۰۸ ھ۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 18:46
عون نقوی

عَلَّمَ فِیْهَا النَّاسَ الصَّلَاةَ عَلَى النَّبِیِّ ﷺ

اس میں آپؑ نے لوگوں کو پیغمبر ﷺ پر صلوات بھیجنے کا طریقہ بتایا ہے

اَللّٰهُمَّ دَاحِیَ الْمَدْحُوَّاتِ، وَ دَاعِمَ الْمَسْمُوْکَاتِ، وَ جَابِلَ الْقُلُوْبِ عَلٰی فِطْرَتِهَا: شَقِیِّهَا وَ سَعِیْدِهَا، اجْعَلْ شَرَآئِفَ صَلَوَاتِکَ، وَ نَوَامِیَ بَرَکَاتِکَ، عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ، الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ، وَ الْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ، وَ الْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ، وَ الدَّافِعِ جَیْشَاتِ الْاَبَاطِیْلِ، وَ الدَّامِغِ صَوْلَاتِ الْاَضَالِیْلِ۔

اے اللہ! اے فرش زمین کے بچھانے والے اور بلند آسمانوں کو (بغیر سہارے کے) روکنے والے! دلوں کو اچھی اور بُری فطرت پر پیدا کرنے والے! اپنی پاکیزہ رحمتیں اور بڑھنے والی برکتیں قرار دے اپنے عبد اور رسول محمد ﷺ کیلئے جو پہلی (نبوتوں کے) ختم کرنے والے اور بند (دل) کھولنے والے اور حق کے زور سے اعلانِ حق کرنے والے، باطل کی طغیانیوں کو دبانے والے اور ضلالت کے حملوں کو کچلنے والے تھے۔

کَمَا حُمِّلَ فَاضْطَلَعَ قَآئِمًۢا بِاَمْرِکَ، مُسْتَوْفِزًا فِیْ مَرْضَاتِکَ، غَیْرَ نَاکِلٍ عَنْ قُدُمٍ، وَ لَا وَاهٍ فِیْ عَزْمٍ، وَاعِیًا لِّوَحْیِکَ، حَافِظًا لِّعَهْدِکَ، مَاضِیًا عَلٰی نَفَاذِ اَمْرِکَ حَتّٰۤی اَوْرٰی قَبَسَ الْقَابِسِ، وَ اَضَآءَ الطَّرِیْقَ لِلْخَابِطِ، وَ هُدِیَتْ بِهِ الْقُلُوْبُ بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ وَ الْاٰثَامِ، وَ اَقَامَ مُوْضِحَاتِ الْاَعْلَامِ وَ نَیِّرَاتِ الْاَحْکَامِ، فَهُوَ اَمِیْنُکَ الْمَاْمُوْنُ، وَ خَازِنُ عِلْمِکَ الْمَخْزُوْنِ، وَ شَهِیْدُکَ یَوْمَ الدِّیْنِ، وَ بَعِیْثُکَ بِالْحَقِّ، وَ رَسُوْلُکَ اِلَی الْخَلْقِ.

جیسا ان پر (ذمہ داری کا) بوجھ عائد کیا گیا تھا اس کو انہوں نے اٹھایا، (تیرے امر کے ساتھ قیام کیا) اور تیری خوشنودیوں کی طرف بڑھنے کیلئے مضبوطی سے جم کر کھڑے ہو گئے۔ نہ آگے بڑھنے سے منہ موڑا، نہ ارادے میں کمزوری کو راہ دی۔ وہ تیری وحی کے حافظ اور تیرے پیمان کے محافظ تھے اور تیرے حکموں کے پھیلانے کی دھن میں لگے رہنے والے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے روشنی ڈھونڈنے والے کیلئے شعلے بھڑکا دیئے اور اندھیرے میں بھٹکنے والے کیلئے راستہ روشن کر دیا۔ فتنوں فسادوں میں سر گرمیوں کے بعد دلوں نے آپؐ کی وجہ سے ہدایت پائی۔ انہوں نے راہ دکھانے والے نشانات قائم کئے، روشن و تابندہ احکام جاری کئے۔ وہ تیرے امین، معتمد اور تیرے علم مخفی کے خزینہ دار تھے اور قیامت کے دن تیرے گواہ اور تیرے پیغمبر برحق اور خلق کی طرف فرستادہ رسول تھے۔

اَللّٰهُمَّ افْسَحْ لَهٗ مَفْسَحًا فِیْ ظِلِّکَ، وَ اجْزِهٖ مُضَاعَفَاتِ الْخَیْرِ مِنْ فَضْلِکَ.

خدایا! ان کی منزل کو اپنے زیر سایہ وسیع و کشادہ بنا اور اپنے فضل سے انہیں دہرے حسنات عطا کر۔

اَللّٰہُمَّ اَعْلِ عَلٰی بِنَآءِ الْبَانِیْنَ بِنَآئَهٗ، وَ اَکْرِمْ لَدَیْکَ مَنْزِلَـتَهٗ، وَ اَتْمِمْ لَهٗ نُوْرَهٗ، وَ اجْزِهٖ مِنِ ابْتِعَاثِکَ لَهٗ مَقبُوْلَ الشَّهَادَةِ، مَرْضِیَّ الْمَقَالَةِ، ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ، وَ خُطَّةٍ فَصْلٍ.

خداوندا! تمام بنیاد قائم کرنے والوں کی عمارت پر ان کی بنا کردہ عمارت کو فوقیت عطا کر اور انہیں با عزت مرتبے سے سرفراز کر اور ان کے نور کو پورا پورا فروغ دے اور انہیں رسالت کے صلہ میں شہادت کی قبولیت و پذیرائی اور قول و سخن کی پسندیدگی عطا کر۔ جب کہ آپؐ کی باتیں سراپا عدل اور فیصلے حق و باطل کو چھانٹنے والے ہیں۔

اَللّٰهُمَّ اجْمَعْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗ فِیْ بَرْدِ الْعَیْشِ، وَ قَرَارِ النِّعْمَةِ، وَ مُنَی الشَّهَوَاتِ، وَ اَهْوَآءِ اللَّذَّاتِ. وَ رَخَآءِ الدَّعَةِ وَ مُنْتَهَی الطُّمَاْنِیْنَةِ، وَ تُحَفِ الْکَرَامَةِ.

اے اللہ! ہمیں بھی ان کے ساتھ خوشگوار و پاکیزہ زندگی اور منزلِ نعمات میں یکجا کر اور مرغوب و دل پسند خواہشوں اور لذتوں اور آسائش و فارغ البالی اور شرف و کرامت کے تحفوں میں شریک بنا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 18:42
عون نقوی

فِیْ ذَمِّ اَهْلِ الْعِرَاقِ

اہل عراق کی مذمت میں فرمایا

اَمَّا بَعْدُ، یَاۤ اَهْلَ الْعِرَاقِ! فَاِنَّمَا اَنْتُمْ کَالْمَرْاَةِ الْحَامِلِ، حَمَلَتْ فَلَمَّا اَتَمَّتْ اَمْلَصَتْ، وَ مَاتَ قَیِّمُهَا، وَ طَالَ تَاَیُّمُهَا، وَ وَرِثَهَا اَبْعَدُهَا.

اے اہل عراق! تم اس حاملہ عورت کے مانند ہو جو حاملہ ہونے کے بعد جب حمل کے دن پورے کرے تو مرا ہوا بچہ گرا دے اور اس کا شوہر بھی مر چکا ہو اور رنڈاپے کی مدت بھی دراز ہو چکی ہو اور (قریبی نہ ہونے کی وجہ سے) دور کے عزیز ہی اس کے وارث ہوں۔

اَمَا وَاللهِ! مَاۤ اَتَیْتُکُمُ اخْتِیَارًا، وَ لٰکِنْ جِئْتُ اِلَیْکُمْ سَوْقًا، وَ لَقَدْ بَلَغَنِیْۤ اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ: عَلِیٌّ یَّکْذِبُ، قَاتَلَکُمُ اللهُ! فَعَلٰی مَنْ اَکْذِبُ؟ اَ عَلَی اللهِ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ! اَمْ عَلٰی نَبِیِّهٖ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهٗ! کَلَّا وَ اللهِ! وَ لٰکِنَّهَا لَهْجَةٌ غِبْتُمْ عَنْهَا، وَ لَمْ تَکُوْنُوْا مِنْ اَهْلِهَا، وَیْلُمِّهٖ، کَیْلًۢا بِغَیْرِ ثَمَنٍ! لَوْ کَانَ لَهٗ وِعَآءٌ، ﴿وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِیْنٍ﴾.

بخدا! میں تمہاری طرف بخوشی نہیں آیا، بلکہ حالات سے مجبور ہو کر آ گیا۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم کہتے ہو کہ: علیؑ کذب بیانی کرتے ہیں۔ خدا تمہیں ہلاک کرے! (بتاؤ) میں کس پر جھوٹ باندھ سکتا ہوں؟ کیا اللہ پر؟ تو میں سب سے پہلے اس پر ایمان لانے والا ہوں، یا اس کے نبیؐ پر؟ تو میں سب سے پہلے ان کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ خدا کی قسم! ایسا ہرگز نہیں! بلکہ وہ ایک ایسا اندازِ کلام تھا جو تمہارے سمجھنے کا نہ تھا اور نہ تم میں اس کے سمجھنے کی اہلیت تھی۔ خدا تمہیں سمجھے! میں تو بغیر کسی عوض کے (علمی جواہر ریزے) ناپ ناپ کر دے رہا ہوں۔ کاش کہ ان کیلئے کسی کے ظرف میں سمائی ہوتی۔ ’’(ٹھہرو) کچھ دیر بعد تم بھی اس کی حقیقت کو جان لو گے‘‘۔


تحکیم کے بعد جب عراقیوں نے معاویہ کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب دینے میں سستی و بد دلی کا مظاہرہ کیا تو ان کی مذمت و توبیخ کے سلسلے میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں صفین کے موقعہ پر ان کی فریب خوردگی اور جنگ سے دستبرداری کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کی حالت کو اس عورت سے تشبیہ دی ہے جس میں یہ پانچ وصف ہوں:

۱۔ وہ حاملہ ہو:

اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ لڑنے بھڑنے کی پوری پوری صلاحیت و استعداد رکھتے تھے۔ اس بانجھ عورت کے مانند نہ تھے کہ جس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

۲۔ مدت حمل پوری کر چکی ہو:

یعنی تمام کٹھن اور دشوار گزار منزلوں کو طے کر کے فتح و کامرانی کے قریب پہنچ چکے تھے۔

۳۔ از خود حمل کو ساقط کر دیا ہو:

یعنی فتح کے قریب پہنچ کر صلح پر اتر آئے اور دامن مراد بھرنے کے بجائے نامرادیوں کو سمیٹ لیا۔

۴۔ اس کے رنڈاپے کی مدت دراز ہو:

یعنی ان کی حالت ایسی ہو گئی جیسے ان کا کوئی سرپرست و نگران نہ ہو اور وہ بے والی و وارث بھٹک رہے ہوں۔

۵۔ بیگانے اس کے وارث ہوں:

یعنی اہلِ شام ان کے املاک پر قبضہ و تسلط جما رہے ہیں کہ جو ان سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 18:40
عون نقوی