بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

بَعْدَ فِرَاغِہٖ مِنْ حَرْبِ الْجَمَلِ فِیْ ذَمِّ النِّسَآءِ:

جنگِ جمل سے فارغ ہونے کے بعد عورتوں کی مذمت میں فرمایا : [۱]

مَعَاشِرَ النَّاسِ! اِنَّ النِّسَآءَ نَوَاقِصُ الْاِیْمَانِ، نَوَاقِصُ الْحُظُوْظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُوْلِ:

اے لوگو! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں:

فَاَمَّا نُقْصَانُ اِیْمَانِهِنَّ فَقُعُوْدُهُنَّ عَنِ الصَّلٰوةِ وَ الصِّیَامِ فِیْۤ اَیَّامِ حَیْضِهِنَّ، وَ اَمَّا نُقْصَانُ عُقُوْلِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَاَتَیْنِ کَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ، وَ اَمَّا نُقْصَانُ حُظُوْظِهِنَّ فَمَوَارِیْثُهُنَّ عَلَی الْاَنْصَافِ مِنْ مَّوارِیْثِ الرِّجَالِ.

نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایام کے دور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے آدھا ہوتا ہے۔

فَاتَّقُوْا شِرَارَ النِّسَآءِ، وَ کُوْنُوْا مِنْ خِیَارِهِنَّ عَلٰی حَذَرٍ، وَ لَا تُطِیْعُوْهُنَّ فِی الْمَعْرُوْفِ حَتّٰی لَا یَطْمَعْنَ فِی الْمُنْکَرِ.

بُری عورتوں سے ڈرو اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ آگے بڑھ کر وہ بری باتوں کے منوانے پر نہ اتر آئیں۔


یہ خطبہ جنگ جمل کی تباہ کاریوں کے بعد ارشاد فرمایا اور چونکہ اس جنگ کی ہلاکت آفرینیاں ایک عورت کے حکم پر آنکھ بند کر کے چل پڑنے کا نتیجہ تھیں، اس لئے اس میں ان کے فطری نقائص اور ان کے وجوہ و اسباب کا ذکر فرمایا ہے۔
چنانچہ ان کی پہلی کمزوری یہ ہے کہ انہیں ہر مہینہ میں چند دنوں کیلئے نماز و روزہ سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور یہ اعمال سے علیحدگی ان کے ایمان کے نقص کی دلیل ہے۔ اگرچہ ایمان کے حقیقی معنی تصدیق قلبی و اعتقاد باطنی کے ہیں، مگر بطورِ مجاز عمل و کردار پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ چونکہ اعمال ایمان کا آئینہ ہوتے ہیں لہٰذا اعمال کو بھی ایمان کا جزو قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام علی ابنِ موسیٰ الرضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
اِنَّ الْاِیْمَانَ هُوَ التَّصْدِیْقُ بِالْقَلْبِ وَ الْاِقْرَارُ بِاللِّسَانِ وَ الْعَمَلُ بِالْاَرْکَانِ.
ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضا سے عمل کرنے کا نام ہے۔(۱)
دوسری کمزوری یہ ہے کہ ان کی فطری استعداد عقلی تصرفات کو پورے طور سے قبول کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کے میدان عمل کی وسعت ہی کے لحاظ سے فطرت نے ان کو قوائے عقلیہ دیئے ہیں جو حمل، ولادت، رضاعت، تربیتِ اولاد اور امورِ خانہ داری میں ان کی رہنمائی کر سکیں اور اسی ذہنی و عقلی کمزوری کی بنا پر ان کی گواہی کو مرد کی گواہی کا درجہ نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ‌ۚ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٮهُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰٮهُمَا الْاُخْرٰى﴾
اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کیلئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے گی۔(۲)
تیسری کمزوری یہ ہے کہ ان کی میراث کا حصہ مرد کے حصہ میراث سے نصف ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِىْۤ اَوْلَادِکُمْ‌ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‌ ۚ﴾
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو گا۔(۳)
اس سے عورت کی کمزوری کا پتہ یوں چلتا ہے کہ میراث میں اس کا حصہ نصف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کفالت کا بار مرد پر ہوتا ہے تو جب مرد کی حیثیت ایک کفیل و نگران کی قرار پائی تو نگرانی و سرپرستی کی محتاج صنف اپنی کمزوری کی خود آئینہ دار ہو گی۔
ان کی فطری کمزوریوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند پیروی اور غلط اطاعت کے مفاسد کا ذکر کرتے ہیں کہ بری بات تو خیر بری ہوتی ہی ہے، اگر وہ کسی اچھی بات کیلئے بھی کہیں تو اسے اس طرح انجام نہیں دینا چاہیے کہ انہیں یہ خیال ہونے لگے کہ یہ ان کی خاطر اور رضاجوئی کیلئے بجا لائی گئی ہے، بلکہ اس طرح کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ اس اچھے کام کو اس کے اچھا ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے اس میں ان کی خواہش و رضامندی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور اگر ان کو یہ وہم بھی ہو گیا کہ اس میں ان کی خوشنودی کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو وہ ہاتھ پکڑتے ہوئے پہنچہ پکڑنے پر اتر آئیں گی اور یہ چاہنے لگیں گی کہ ان کی ہر بری سے بری بات کے آگے سر جھکایا جائے، جس کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی ہو گا۔
امیر المومنین علیہ السلام کے اس ارشاد کے متعلق علامہ محمد عبدہ تحریر کرتے ہیں کہ:
وَ لَقَدْ قَالَ الْاِمَامُ قَوْلًا صَدَّقَتْهُ التَّجَارِبُ فِی الْاَحْقَابِ الْمُتَطَاوِلَةِ.
امیر المو منین علیہ السلام نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ طویل صدیوں کے تجربے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔(۴)

[۱]۔ درۂ نجفیہ، ص ۱۳۶۔
[۲]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۸۲۔
[۳]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۱۔
[۴]۔ نہج البلاغہ، شیخ محمد عبدہ، ص ۱۲۹۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 19:27
عون نقوی

قَالَهٗ لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ لَمَّا عَزَمَ عَلَى الْمَسِیْرِ اِلَى الْخَوَارِجِ فَقَالَ لَهٗ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنْ سِرْتَ فِیْ هٰذَا الْوَقْتِ خَشِیْتُ اَنْ لَّا تَظْفَرَ بِمُرَادِکَ مِنْ طَرِیْقِ عِلْمِ النُّجُوْمِ، فَقَالَ ؑ:

جب آپؑ نے جنگ خوارج کیلئے نکلنے کا ارادہ کیا تو ایک شخص نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! اگر آپ اس وقت نکلے تو علم نجوم کی رُو سے مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکیں گے، جس پر آپؑ نے فرمایا کہ:

اَ تَزْعَمُ اَنَّکَ تَهْدِیْۤ اِلَی السَّاعَةِ الَّتِیْ مَنْ سَارَ فِیْهَا صُرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءُ؟ وَ تُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِیْ مَنْ سَارَ فِیْهَا حَاقَ بِهِ الضُّرُّ؟ فَمَنْ صَدَّقَ بِهٰذَا فَقَدْ کَذَّبَ الْقُرْاٰنَ، وَ اسْتَغْنٰی عَنِ الْاِسْتِعَانَةِ بِاللهِ فِیْ نَیْلِ الْمَحْبُوْبِ وَ دَفْعِ الْمَکْرُوْهِ، وَ تَبْتَغِیْ فِیْ قَوْلِکَ لِلْعَامِلِ بِاَمْرِکَ اَنْ یُّوْلِیَکَ الْحَمْدَ دُوْنَ رَبِّهٖ، لِاَنَّکَ ـ بِزَعْمِکَ ـ اَنْتَ هَدَیْتَهٗۤ اِلَی السَّاعَةِ الَّتِیْ نَالَ فِیْهَا النَّفْعَ، وَ اَمِنَ الضُّرَّ.

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم اس گھڑی کا پتہ دیتے ہو کہ اگر کوئی اس میں نکلے تو اس کیلئے کوئی بُرائی نہ ہو گی اور اس لمحے سے خبردار کرتے ہو کہ اگر کوئی اس میں نکلے تو اسے نقصان درپیش ہو گا، تو جس نے اسے صحیح سمجھا، اس نے قرآن کو جھٹلایا اور مقصد کے پانے اور مصیبت کے دور کرنے میں اللہ کی مدد سے بے نیاز ہو گیا۔ تم اپنی ان باتوں سے یہ چاہتے ہو کہ جو تمہارے کہے پر عمل کرے وہ اللہ کو چھوڑ کر تمہارے گُن گائے۔ اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اس ساعت کا پتہ دیا کہ جو اس کیلئے فائدہ کا سبب اور نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ بنی۔

ثُمَّ اَقْبَلَ ؑ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ:

پھر آپؑ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! اِیَّاکُمْ وَ تَعَلُّمَ النُّجُوْمِ، اِلَّاَ مَا یُهْتَدٰی بِهٖ فِیْ بَرٍّ اَوْ بَحْرٍ، فَاِنَّهَا تَدْعُوْ اِلَی الْکَهَانَةِ، وَ المُنَجِّمُ کَالْکَاهِنِ، وَ الْکَاهِنُ کَالسَّاحِرِ، وَ السَّاحِرُ کَالْکَافِرِ! وَ الْکَافِرُ فِی النَّارِ! سِیْرُوْا عَلَی اسْمِ اللهِ.

اے لوگو! نجوم کے سیکھنے سے پرہیز کرو، مگر اتنا کہ جس سے خشکی اور تری میں راستے معلوم کر سکو۔ اس لئے کہ نجوم کا سیکھنا کہانت اور غیب گوئی کی طرف لے جاتا ہے اور منجم حکم میں مثل کاہن کے ہے اور کاہن مثل ساحر کے ہے اور ساحر مثل کافر کے ہے اور کافر کا ٹھکانا جہنم ہے۔ بس اللہ کا نام لے کر چل کھڑے ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 19:23
عون نقوی

یَدْعُوْ بِهَا

امیر المومنین علیہ السلام کے دُعائیہ کلمات

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَاۤ اَنْتَ اَعْلَمُ بِهٖ مِنِّیْ، فَاِنْ عُدْتُّ فَعُدْ عَلَیَّ بِالْمَغْفِرَةِ.

اے اللہ! تو ان چیزوں کو بخش دے جنہیں تُو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اگر میں گناہ کی طرف پلٹوں تو تُو اپنی مغفرت کے ساتھ پلٹ۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا وَاَیْتُ مِنْ نَّفْسِیْ، وَ لَمْ تَجِدْ لَهٗ وَفَآءً عِنْدِیْ.

بارِ الٰہا! جس عمل خیر کے بجالانے کا مَیں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا، مگر تو نے اسے پورا ہوتے ہوئے نہ پایا، اسے بھی بخش دے۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا تَقَرَّبْتُ بِهٖ اِلَیْکَ بِلِسَانِیْ، ثُمَّ خَالَفَهٗ قَلْبِیْ.

میرے اللہ! زبان سے نکلے ہوئے وہ کلمے، جن سے تیرا تقرب چاہا تھا، مگر دل ان سے ہمنوا نہ ہو سکا، ان سے بھی در گزر کر۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِیْ رَمَزَاتِ الْاَلْحَاظِ، وَ سَقَطَاتِ الْاَلْفَاظِ، وَ شَهَوَاتِ الْجَنَانِ، وَ هَفَوَاتِ اللِّسَانِ.

پروردگار! تو آنکھوں کے (طنزیہ) اشاروں اور ناشائستہ کلموں اور دل کی (بُری) خواہشوں اور زبان کی ہرزہ سرائیوں کو معاف کر دے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 19:21
عون نقوی

اِنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَیُفَوِّقُوْنَنِیْ تُرَاثَ مُحَمَّدٍ ﷺ تَفْوِیْقًا، وَاللهِ! لَئِنْۢ بَقِیْتُ لَهُمْ لَاَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!.

بنی امیہ مجھے محمد ﷺ کا ورثہ تھوڑا تھوڑا کر کے دیتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو انہیں اس طرح جھاڑ پھینکوں گا جس طرح قصائی خاک آلودہ گوشت کے ٹکڑے سے مٹی جھاڑ دیتا ہے۔

وَ یُرْوٰی: «التُّرَابُ الْوَذَمَةُ»، وَ هُوَ عَلَی الْقَلْبِ.

علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: ایک روایت میں «اَلْوِذَامَ التَّرِبَۃُ» (خاک آلودہ گوشت کے ٹکڑے کے بجائے) «التُّرَابُ الْوَذَمَةُ» (مٹی جو گوشت کے ٹکڑے میں بھر گئی ہو) آیا ہے، یعنی صفت کی جگہ موصوف اور موصوف کی جگہ صفت رکھ دی گئی ہے۔

قَوْلُهٗ ؑ: «لَیُفَوِّقُوْنَنِیْ» اَیْ: یُعْطُوْنَنِیْ مِنَ الْمَالِ قَلِیْلًا قَلِیْلًا کَفُوَاقِ النَّاقَةِ، وَ هُوَ الْحَلْبَةُ الْوَاحِدَةُ مِنْ لَّبَنِهَا.

اور «لَیُفَوِّقُوْنَنِیْ» سے حضرتؑ کی مراد یہ ہے کہ وہ مجھے تھوڑا تھوڑا کر کے دیتے ہیں جس طرح اونٹنی کو ذرا سا دوہ لیا جائے اور پھر تھنوں کو اس کے بچے کے منہ سے لگا دیا جائے تاکہ وہ دوہے جانے کیلئے تیار ہو جائے۔

و «الْوِذَامُ» : جَمْعُ وَذَمَةٍ، وَ هِیَ: الْحُزَّةُ مِنَ الْکَرِشِ اَوِ الْکَبِدِ تَقَعُ فِی التُّرَابِ فَتُنْفَضُ.

اور ’’وذام‘‘ وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی اوجھڑی یا جگر کے ٹکڑے کے ہیں جو مٹی میں گر پڑے اور پھر مٹی اس سے جھاڑ دی جائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 19:12
عون نقوی

رَحِمَ اللهُ امْرَاً سَمِـعَ حُکْمًا فَوَعٰی، وَ دُعِیَ اِلٰی رَشَادٍ فَدَنَا، وَ اَخَذَ بِحُجْزَةِ هَادٍ فَنَجَا، رَاقَبَ رَبَّهٗ، وَ خَافَ ذَنْۢبَهٗ، قَدَّمَ خَالِصًا، وَ عَمِلَ صَالِحًا، اکْتَسَبَ مَذْخُوْرًا، وَ اجْتَنَبَ مَحْذُوْرًا، رَمٰی غَرَضًا، وَ اَحْرَزَ عِوَضًا، کَابَرَ هَوَاهُ، وَ کَذَّبَ مُنَاهُ، جَعَلَ الصَّبْرَ مَطِیَّةَ نَجَاتِهٖ، وَ التَّقْوٰی عُدَّةَ وَفَاتِهٖ، رَکِبَ الطَّرِیْقَةَ الْغَرَّآءَ، وَ لَزِمَ الْمَحَجَّةَ الْبَیْضَآءَ، اغْتَنَمَ الْمَهَلَ، وَ بَادَرَ الْاَجَلَ، وَ تَزَوَّدَ مِنَ الْعَمَلِ.

خدا اس شخص پر رحم کرے جس نے حکمت کا کوئی کلمہ سنا تو اسے گرہ میں باندھ لیا، ہدایت کی طرف اسے بلایا گیا تو دوڑ کر قریب ہوا،صحیح راہبر کا دامن تھام کر نجات پائی، اللہ کو ہر وقت نظروں میں رکھا اور گناہوں سے خوف کھایا، عمل بے ریا پیش کیا، نیک کام کئے، ثواب کا ذخیرہ جمع کیا، بُری باتوں سے اجتناب برتا، صحیح مقصد کو پا لیا۔ اپنا اجر سمیٹ لیا۔ خواہشوں کا مقابلہ کیا۔ امیدوں کو جھٹلایا۔ صبر کو نجات کی سواری بنا لیا۔ موت کیلئے تقویٰ کا ساز و سامان کیا۔ روشن راہ پر سوار ہوا۔ حق کی شاہراہ پر قدم جمائے۔ زندگی کی مہلت کو غنیمت جانا۔ موت کی طرف قدم بڑھائے اور عمل کا زاد ساتھ لیا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 19:08
عون نقوی