بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «مقالات عمومی» ثبت شده است

{علم حدیث}

حدیثِ مرسل

تحریر: عون نقوی 

 

حدیث مرسل خبر واحد کی اقسام میں سے ہے۔ ایسی حدیث جس کے سلسلہ سند میں ایک یا  ایک سے زائد راوی مذکور نہ ہوں اسے مرسل کہتے ہیں۔ علی القاعدہ حدیث مرسل ضعیف حدیث شمار ہوتی ہے۔

حدیث مرسل کی تعریف

معروف عالم رجالی علامہ مامقانی نے حدیث مرسل کی دو صورتیں بیان کی ہیں:
مرسل بمعنی اعم: ایسی حدیث جس کے سلسلہ سند میں تمام یا چند ایک راوی حذف کر دئیے گئے ہوں، اگر چہ محذوف رواۃ کا مبہم کلمات مثلا بعض، بعض اصحابنا کے ساتھ ذکر ہو تب بھی حدیث مرسل کہلاۓ گی۔[1]
مرسل بمعنی اخص: ایسی حدیث ہے جس میں تابعی بغیر(صحابی کے) واسطے کے رسول اللہﷺ سے روایت نقل کرے۔[2]

حدیث مرسل کی بعض اقسام

۱۔ مرفوع حدیث: ایسی حدیث جس کے وسط یا آخر سلسلہ سند میں کسی ایک راوی کا ذکر نہ کیا گیا ہو اور صراحت کے ساتھ کلمہ ’’رفع ‘‘وارد ہوا ہو۔
۲۔ موقوف حدیث: ایسی حدیث جس کا سلسلہ سند صحابی پیغمبرﷺ یا امام کے ساتھی پر جا کر رک جاۓ۔ اکثر اہلسنت کے نزدیک صحابہ کے مقام و اعتبار کی بنا پر موقوف حدیث کو حجت قرار دیا جاتا ہے لیکن اہل تشیع اس وقت تک موقوف حدیث کو حجت نہیں مانتے جب تک ثابت نہ ہو جاۓ کہ یہ کلام امام سے صادر ہوا ہے۔
۳۔ مدلس حدیث: ایسی حدیث جس میں راوی نے جس سے روایت سنی ہے اس کا نام چھپا دیتا ہے۔ یا کسی ایسے شخص کا نام بیان کر دیتا ہے جس سے اس نے درحقیقت روایت نہیں لی۔

حدیث مرسل کی حجیت کا حکم

فقہاء کرام کی اصطلاح میں جب حدیث مرسل کا کلمہ بولا جاتا ہے تو اس سے مرسل بمعنی عام مراد ہوتا ہے۔ اس کی حجیت پر دو اقوال ہیں۔
۱۔ مطلق طور پر حدیث مرسَل قبول ہے۔ چاہے صحابی کو سلسلہ سند سے گرایا گیا ہے یا تابعی کو، گرنے والا راوی جلیل القدر ہو یا عام راوی، ایک راوی کو سند سے گرایا گیا ہے یا چند ایک کو گرایا گیاہو۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرسِل ثقہ ہو۔ مکتب تشیع میں احمد بن خالد برقیؒ، اور ان کے والد اس قول کے قبول کرتے تھے۔ اہلسنت علماء میں آمدی، مالک، ابوہاشم، اور بعض معتزلہ اس کے قائل ہیں۔[3]
۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حدیث مرسل حجیت نہیں رکھتی۔ اکثریت علماء اس کے قائل ہیں۔ جن میں شیخ طوسیؒ، محقق حلیؒ، علامہ حلیؒ، شہید اولؒ، شہید ثانیؒ، اور اکثر متاخر علماء تشیع و تسنن شامل ہیں۔

مراسیل مقبولہ

حدیث مرسل ہم پر حجت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے بعض علماء رجال نے کچھ اصحاب کی مرسل حدیثوں کو معتبر قرار دیا ہے۔ جن میں تین بڑے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ محمد بن ابی عمیر
۲۔ صفوان بن یحیحی
۳۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی[4]
یہاں پر بحث فقط محمد بن ابی عمیر کی مراسیل پر ہے۔ کیونکہ باقی دو اصحاب کی اتنی کثیر مراسیل وارد ہی نہیں ہوئیں۔ محمد بن ابی عمیر ایسی شخصیت ہیں جن سے مراسیل کا ایک مجموعہ ہم تک پہنچا ہے اگر ان کو حجت قرار دے دیا جاۓ تو روایات کا ایک ذخیرہ ہمارے لیے قابل استفادہ قرار پا سکتا ہے۔ ورنہ وہ سب روایات ضعیف ہو جائیں گی۔
اس کے علاوہ سات نام اور بھی ہیں جن کی مراسیل کو بعض علماء نے حجت قرار دیا ہے۔
۱۔ ابو عباس نجاشی
۲۔ احمد بن غالب ضراری
۳۔ احمد بن محمد عیسی اشعری
۴۔ جعفر بن بشیر
۵۔ علی بن حسن عطائی
۶۔ محمد بن ابی بکر حمام اسکافی
۷۔ محمد بن اسمعیل زعفرانی۔[5]

محمد بن ابی عمیر کی مراسیل

محمد بن ابی عمیر امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ امام کاظمؑ کا دور شیعہ کے لیے سخت ترین دور تھا۔  امامؑ چند سال ہارون رشید کے زندان میں قید رہے۔ ان کے اصحاب کو بھی زدو کوب کیا جاتا اور زندانوں میں ڈالا جاتا۔ محمد بن ابی عمیر کو بھی حکومتی اہلکار گرفتار کرنے آۓ تو ان کو پہلے سے اطلاع مل گئی۔ جلدی میں سب کتابوں کو انہوں نے گھر میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ حکومتی اہلکاروں نے گھر کی خوب تفتیش کی لیکن ان کو کچھ نہ ملا، محمد بن ابی عمیر کو گرفتار کر کے لیے گئے، ایک عرصے کے بعد جب ان کو رہائی ملی اور انہوں نے گھر آ کر کتابوں کی خبر لی تو آدھے سے زیادہ کتابیں تلف ہو چکی تھیں۔ ان کے ذہن میں متن حدیث تو موجود تھا لیکن کونسی روایت کس سے لی، سند حدیث یاد نہ رکھ سکے۔ اس لیے روایت تو نقل کرتے لیکن اس کی سند بیان نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر بعض علماء رجال نے ان کی مراسیل کو حجت قرار دیا ہے۔[6][7]
آیت اللہ خوئی ؒنے اس قول کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ دوسروں کی مراسیل اور محمد بن ابی عمیر کی مراسیل میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ محمد بن ابی عمیر بھی ضعیف راویوں سے نقل کرتے ہیں۔ اور ہمیں علم نہیں ہے کہ جو مرسلہ روایات محمد بن ابی عمیر نے بیان کی ہیں وہ ثقہ راویوں سے لی گئی ہیں یا ضعیف سے۔[8] تاہم اس کا جواب دیا گیا ہے کہ حساب احتمال کے نظریہ کے تحت محمد بن ابی عمیر نے جن ضعیف راویوں سے روایات لی ہیں وہ بہت قلیل ہیں۔ ایک یا دو فیصد روایات کا مجموعہ ایسا ہے جو محمد بن ابی عمیر نے ضعیف راویوں سے لیا ہے۔ اس بنا پر آپ محمد بن ابی عمیر کی تمام مراسیل کو ضعیف قرار نہیں دے سکتے۔کیونکہ کثیراحتمال یہ ہے انہوں نے وہ مراسیل ثقہ راویوں سے نقل کی ہیں۔

منابع:

↑1 مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۴۔
↑2 مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۵۔
↑3 مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۶۔
↑4 سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرواۃ فی کلیات علم الرجال، ص۱۹۶۔
↑5 حوالہ    درکار  ہے۔
↑6 نجاشی‌، احمد، الرجال‌ النجاشی، ج۲، ص۲۰۶۔
↑7 شیخ مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، ج۱، ص۸۶۔
↑8 حوالہ درکار ہے۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:46
عون نقوی

{علم رجال}

محمد بن سنان

تحریر: عون نقوی 

 

محمد بن سنان  امام کاظمؑ، امام رضاؑ اور امام تقیؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ علماء حدیث و رجال نے محمد بن سنان کی وثاقت میں اختلاف کیا ہے۔ قدماء میں سے بعض نے انہیں غالی قرار دیتے ہوۓ تضعیف کی ہے۔ اور دیگر بعض علماء آپ کی وثاقت کے قائل ہیں۔ اور انہیں امامؑ کا خاص صحابی قرار دیتےہیں۔ متاخرین میں سے ایک گروہ نے رجالیین(طوسیؒ، نجاشیؒ) کی تضعیف کی بنا پر ان کو ضعیف قرار دیا ہے یا توقف کیا ہے ۔لیکن علماء کی ایک کثیر تعداد محمد بن سنان کی مدح میں وارد ہونے والی روایات کی بنا پر ان کی توثیق کے قائل ہیں۔

ابتدائی تعارف

رجال کی کتابوں میں محمد بن سنان نامی دو افراد ذکر ہوۓ ہیں۔ ایک کا نام محمد بن حسن بن سنان زاہری ہے اور دوسرا محمد بن سنان ظریف ہاشمی ہے۔ ہماری بحث پہلے راوی میں ہے۔
پورا نام ابو جعفر محمد بن حسن بن سنان زاہری ہے۔ آپ کے بچپن میں والد کی وفات ہوگئی، دادا نے کفالت کی ذمہ داری لے لی۔[1]آپ نے فضل بن شاذان، ان کے والد، یونس بن عبدالرحمان، محمد بن عیسی عبیدی، محمد بن حسین بن ابی الخطاب، حسین بن سعید اہوازی اور ایوب بن نوح سے سے کسب فیض حاصل کیا۔

مدح میں وارد ہونے والی روایات

شیخ کشیؒ نے اپنی کتاب رجال میں محمد بن سنان کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ امام کاظمؑ نے محمد بن سنان کی مدح فرمائی۔ اس روایت میں امامؑ فرماتے ہیں:
«قد وجدتک فی صحیفة أمیر المؤمنین(ع) أمّا أنّک فى شیعتنا أبین من البرق فى اللّیلة الظلماء …یا محمّد! إنّ المفضّل اُنسی و مستراحی، و أنت اُنسهما و مستراحهما، حرام على النار أن تمسّک أبداً ‌(یعنى أبا الحسن و أبا جعفر(‌ع)».
ترجمہ: میں نے تمہارا نام صحیفہ امیرالمومنینؑ میں پایا۔ تمہارا شیعیان امیرالمومنینؑ میں سے ہونا شب کی تاریکی میں بجلی کی چمک سے زیادہ واضح ہے۔ اے محمد! مفضل میرے لیے انس اور راحت کا سرمایہ تھا اور تو بھی میرے لیے انس و راحت کا سامان ہو۔[2]
ایک اور روایت میں امام جوادؑ محمد بن سنان کو فرماتے ہیں:
«یا محمّد! أنت عبدٌ قد أخلصت لله . إنّی ناجیت الله فیک، فأبى إلاّ أن یضلَّ بک کثیراًً و یهدی بک کثیراً».
ترجمہ: اے محمد! تم ایک ایسے عبد ہو جس نے اللہ کے لیے خود کو خالص کیا۔ میں نے تمہارے بارے میں اللہ سے نجوی کیا ہے۔ خدا نے یہ چاہا ہے کہ تمہارے ذریعے بہت سوں کو گمراہ اور بہت سوں کو ہدایت دے۔[3]
شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب الغیبہ میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں محمد بن سنان کی توثیق و مدح وارد ہوئی ہے:
«و روی عن أبی طالب القمّی قال: دخلت علی أبی جعفر الثانی( فی آخر عمره، فسمعته یقول: جزی الله صفوان بن یحیی و محمّد بن سنان و زکریا بن آدم و سعد بن سعد عنّی خیراً، فقد وفوا لی . إلی أن قال: و أما محمّد بن سنان، فإنه روی عن علی بن الحسین بن داوود، قال: سمعت أبا جعفر( یذکر محمّدَ بن سنان بخیر، و یقول: رضی الله عنه برضائی عنه، فما خالفنی و لا خالَف أبی قطُّ».
ترجمہ: ابی طالب قمی سے روایت کی گئی ہے کہ اس نے کہا میں امام تقیؑ کیآخر عمر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سنا کہ انہوں نے فرمایا: اللہ میری طرف سے صفوان بن یحیی، محمد بن سنان، زکریا بن آدم، اور سعد بن سعد کو جزاء خیر دے۔ انہوں نے میرے ساتھ وفا کی۔ یہاں تک کہ امام نے فرمایا: جہاں تک محمد بن سنان کی بات ہے، یہ علی بن حسین سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے امام جوادؑ سے سنا وہ محمد بن سنان کی اچھائی بیان کر رہے تھے۔ اور انہوں نے کہا کہ خدا ان (محمد بن سنان) سے راضی ہو جس طرح سے میں ان سے راضی ہوں۔ انہوں نے میری اور میرے والد کی کبھی مخالفت نہیں کی۔[4]

توثیق کرنے والے علماء

شیخ مفیدؒ نے محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہے:
«إنّه من خاصّة الکاظم( ع)و ثقاته و أهل الورع و العلم و الفقه من شیعته».
ترجمہ: وہ (محمد بن سنان) امام کاظمؑ کے خواص، قابل اعتماد، اہل ورع، اور ان کے عالم و فقیہ شیعوں میں سے تھے۔[5]
علامہ حلیؒ نے اپنی کتاب خلاصۃ الاقوال میں رجالیوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوۓ فرمایا کہ میں ان کی شخصیت پر توقف کروں گا۔[6] لیکن اس راۓ سے پلٹتے ہوۓ اپنی کتاب مختلف الشیعہ میں محمد بن سنان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[7]
علامہ مجلسیؒ، سید نعمت اللہ جزائریؒ اور سید ابن طاؤوسؒ نے بھی محمد بن سنان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور ان کو آئمہ معصومینؑ کے خواص میں سے قرار دیا ہے۔[8]
صاحب وسائل شیخ حر عاملیؒ محمد بن سنان کے بارے میں لکھتے ہیں:
محمد بن سنان کی شیخ مفیدؒ نے توثیق کی ہے۔ ظاہرا نجاشیؒ اور طوسیؒ نے محمد بن سنان کی تعضیف ابن عقدہ کی وجہ سے کی ہے۔ ابن عقدہ کا نظریہ تھا کہ محمد بن سنان کی روایات سماعت کی اساس پر نہیں، وجادت کی اساس پر ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دلیل ان کے ضعیف ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ابن طاؤوسؒ، ابن شعبہ، اور دیگر بزرگان شیعہ ان کو ثقہ مانتے ہیں۔ اور یہی راۓ (محمد بن سنان کا ثقہ ہونا)درست ہے۔[9]
سید بحر العلومؒ لکھتے ہیں:
محمد بن سنان کے بارے میں متاخرین میں اختلاف علماء رجال کے اقوال سے پیدا ہوا۔ جن میں کشیؒ، نجاشیؒ، مفیدؒ، طوسیؒ، ابن شہر آشوبؒ، ابن طاؤوسؒ، علامہ حلیؒ، اور ابن داؤود ؒشامل ہیں۔ ہمارے بعض علماء نے ان کی تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہے۔ کچھ علماء نے ان پر توقف کیا ہے۔ بہرحال تمام اقوال کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہماری راۓ یہ ہے کہ محمد بن سنان ثقہ ہیں۔[10]
ابو المعالی کلباسی نے اپنی کتاب الرسائل الرجالیہ میں محمد بن سنان پر مختلف اقوال پر تبصرہ کرتے ہوۓ آخر میں ان کی وثاقت کے قول کو اختیار کیا ہے۔[11]
البتہ ان میں سے بعض علماء متاخر شمار ہوتے ہیں اور ان کی توثیق ہمارے لیے حجیت نہیں رکھتی لیکن بہرحال قابل استفادہ ضرور ہے۔

تضعیف کرنے والے علماء

نجاشیؒ نے اپنی رجال میں لکھا ہے:
«و هو رجل ضعیف جدّاً».
ترجمہ: وہ (محمد بن سنان) نہایت ضعیف شخصیت ہیں۔[12]
شیخ طوسیؒ نے اپنی رجال کی دونوں کتابوں میں محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[13][14]
ابن غضائری نے محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہے:
«ضعیف، غال، یضع (الحدیث) لا یلتفت إلیه‌».
ترجمہ: ضعیف، غالی اور حدیث گھڑنے والے ہیں۔ ان کی (روایات)طرف توجہ نہیں کی جاۓ گی۔[15]
ابن داؤود حلیؒ نے اپنی رجال کی کتاب میں محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[16]
آیت اللہ خوئیؒ نے توثیق اور تضعیف کے اقوال اپنی کتاب میں بیان کئے اور آخر میں تبصرہ کیا:
محمد بن سنان کے بارے میں جو روایات میں ملتا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آئمہ معصومینؑ کے موالی تھے اور ان کی آئمہ نے مدح کی ہے۔ خاص طور پر جن روایات میں امامؑ نے ان سے راضی ہونے کا ذکر کیا کی ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ اگر ابن عقدہ، نجاشی،ؒ شیخ طوسیؒ، اور ابن غضائری ؒنے ان کی تضعیف نہ کی ہوتی تو ان کی مدح میں وارد ہونے والی روایات پر عمل کرنے میں ہمارے لیے مشکل نہ ہوتی۔ لیکن ان بزرگان کا محمد بن سنان کو ضعیف قرار دینا ہمارے لیے ان پر اعتماد کرنے سے مانع بنتا ہے۔[17]

محمد بن سنان کی تضعیف کے اسباب

نجاشیؒ نے محمد بن سنان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوۓ ان ضعیف لکھا ہے۔[18] اس کے علاوہ طوسیؒ نے بھی ان کی تضعیف کی ہے۔

 غالی ہونے کا اتہام

صفوان بن یحیی سے شیخ طوسیؒ نے نقل کیا ہے:
«ان محمد بن سنان کان من الطیارة فقصصناه».
ترجمہ: محمد بن سنان غالیوں میں سے تھے، ہم نے ان کے خلاف قیام کیا۔[19]

 محمد بن سنان کا وجادتاً روایات نقل کرنا

محمد بن سنان نے سماعتاً روایات نہیں لیں۔ بلکہ انہوں نے اس وقت کی کتابوں میں جو پایا اس کو نقل کیا۔ اس طرح (وجادتاً)روایات نقل کرنا جنہیں آپ نے کسی سے نا سنا ہو، یا کسی نے آپ کو بیان نہ کیا بلکہ کسی بھی کتاب سے آپ نے پڑھ کر نقل کیا ہو، قابل قبول نہیں  ہے۔ ایوب بن نوح سے نقل ہوا ہے کہ اس نے محمد بن سنان کے بارے میں کہا کہ میں نے اس سے روایات سن کر اپنے پاس لکھی ہیں لیکن ان کو نقل نہیں کرونگا۔ کیونکہ محمد بن سنان نے مرنے سے پہلے مجھے کہا کہ جو کچھ بھی میں نے تمہیں بتایا وہ سماعت یا روایت کی بنا پر نہیں تھا بلکہ وجادت کی بنا پر تھا۔
وجادت دو طرح سے ہے۔ ایک دفعہ آپ کسی بھی کتاب سے اٹھا کر مطلب نقل کر دیتے ہیں۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لیکن ایک دفعہ آپ ایک ایسی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو علماء اور فقہاء میں شہرت رکھتی ہے۔ یہ وجادت قابل قبول ہے۔

معضل روایات نقل کرنے والا

خود محمد بن سنان سے نقل ہے کہ اس نے کہا:
«من أراد المعضلات فإلی، و من أراد الحلال و الحرام فعلیه بالشیخ».
ترجمہ: جو معضل روایات کو نقل کرنا چاہتاہے وہ میری طرف رجوع کرے اور جو حلال حرام جاننا چاہتا ہے وہ اس شیخ (صفوان بن یحیی) کی طرف رجوع کرے۔[20]
(معضل روایت کے دو معنی ہیں۔ ایسی روایت جس کے معنی کو سمجھنا دشوار ہو، اسے معضل کہتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ایسی روایت جس کے سلسلہ سند میں دو یا اس سے زائد راوی حذف ہوں۔)

کذاب ہونے کا اتہام

شیخ طوسیؒ نے فضل بن شاذان سے نقل کیا ہے کہ فضل نے اپنی کتابوں میں محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہےکہ  وہ مشہور کذاب تھا۔[21]

تضعیف کے اسباب پر تبصرہ

جہاں تک نجاشیؒ کے قول کا تعلق ہے تو ان کی عبارت میں ابہام موجود ہے۔ معلوم نہیں  جو عبارت لائی گئی ہے وہ ان کی اپنی ہے یا وہ ابن عقدہ سے نقل کر رہے ہیں۔ اگرچہ نجاشی نے دوسری جگہ پر محمد بن سنان کی تضعیف کی ہے ،تاہم شیخ مفیدؒ، شیخ طوسیؒ (نے اپنی کتاب الغیبہ میں محمد بن سنان کی مدح میں وارد ہونے والی روایت نقل کی ہے)، سید بن طاؤوسؒ، شیخ حر عاملیؒ، اور وحید بهبهانیؒ جیسے علماء کا ان کو ثقہ قرار دینا آپس میں تعارض رکھتا ہے اس لیے نجاشیؒ کے قول کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے۔
شیخ طوسیؒ کا اپنی رجال کی کتابوں میں ان کو ضعیف قرار دینا اور کتاب الغیبہ میں ان کی توثیق کرنا ،خود تعارض رکھتا ہے۔ اس لیے تعارض کی حالت میں ان کا قول بھی ہم پر حجت نہیں رہتا۔

غلو کی بنا پر تضعیف

محمد بن سنان پر غالی ہونے کا الزام چند بنا پر مسترد ہے:
اولا: اہل قم بالخصوص احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن حسن بن ولید اور محمد بن علی بن بابویہ جیسی شخصیات کا محمد بن سنان پر اعتماد کرنا انہیں اس اتہام سے بری کر دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل قم ہر شخص سے روایت نقل نہیں کرتے تھے، بلکہ ایسے شخص کو بھی قم سے نکال دیتے تھے جو خود تو ثقہ ہوتا لیکن کسی غیر ثقہ سے روایات لیتا تھا۔اگر اہل قم محمد بن سنان کی روایات کو لے رہے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کی نظر میں قابل اعتماد تھے۔
ثانیا: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب دوسرے کی راۓ آپ کی راۓ سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس کو غلو سے متہم کر دیا جاتا ہے۔اس لیے غلو کا الزام لگا دینا کافی نہیں بلکہ ثابت کیا جاۓ کہ وہ کونسے غلو آمیز نظریے کے قائل تھے۔
ثالثا: ہم جانتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ کے چند بہت ہی خاص اصحاب تھے۔ آئمہ معصومینؑ فقط ان پراسرار و عجائب کی دنیا فاش کرتے تھے۔ چونکہ یہ صلاحیت سب میں موجود نہ تھی، اس بنا پر جو صاحب اسرار نہ بن پاتا ، عدم معرفت کی بنا پر دوسرے پر غلو کا الزام لگا دیتا۔ جس طرح سلمان ؓو ابوذر ؓکے بارے میں بھی وارد ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر ابوذرؓ کو علم ہو جاۓ سلمانؓ کے دل میں کیا ہے تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ [22] سلمانؓ صاحب اسرار شخصیت تھے۔ اگر ان کی معرفت اور نظریات کا ابوذرؓ کو علم ہو جاتا تو وہ یقینا ان پر غالی اور شاید مرتد کا الزام لگا کر ان کو قتل کر دیتے۔ یہی صورت حال آئمہ معصومینؑ کے بقیہ اصحاب میں بھی تھی۔ اور عین ممکن ہے اسی بنا پر محمد بن سنان کو بھی غالی قرار دیا گیا ہو۔ اور اس پر امام جوادؑ کی وہ روایت گواہ ہے جس میں امام نے ابن سنان کو فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ تمہارے ذریعے بہت سوں کو ہدایت دے اور بہت سوں کو گمراہ کرے۔[23] یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن سنان خاص اصحاب میں سے تھے۔ سیرت علماء میں یہ امر بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تفکرات اور نظریات کے اختلاف پر انہوں نے ایک دوسرے پر نقص ایمان یا غلو کا الزام لگایا۔ جس طرح سید مرتضی علم الہدیؒ اور شیخ صدوقؒ کے مابین پیش آیا۔[24]

 وجادتاً روایات نقل کرنے کی بنا پر تضعیف

اولا: جیسا کہ بیان ہوا وجادہ کی دو صورتیں ہیں۔ وجادہ اگر قابل اعتماد اور مشہور کتاب سے ہو تو وہ معتبر ہے۔اس لیے اگر محمد بن سنان مشہور کتابوں سے وجادتاً روایت نقل کرتے ہیں تو وہ قابل قبول ہے۔
ثانیا: جن مضامین پر مشتمل روایات محمد بن سنان سے نقل ہوئی ہیں اس سے یہ تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ سب وجادتاً نقل ہوئی ہوں۔
ثالثا: ایوب بن نوح سے منقول مضمون در اصل محمد بن سنان کے دفاع میں ہے۔ نا کہ ان کی تضعیف پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ ایوب بن نوح نے کہا کہ میں نے محمد بن سنان کی کاپی سے بہت کچھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لیکن اس کو بیان نہیں کرتا۔ ایوب بن نوح کا کتاب سے نقل کرنا ان کے محمد بن سنان پر اعتماد کرنے پر دلالت کرتا ہے، اور ان کا محمد بن سنان کی روایت کو نقل نہ کرنااز روۓ  احتیاط ہے۔شاید اس بنا پر ہو کہ روایات کے مضامین اسرار پر مشتمل ہیں اس لیے ان کو صرف اہلیت رکھنے والے اشخاص کے سامنے نقل کیا جانا چاہیے۔
رابعا: اگر فرض کر لیں کہ محمد بن سنان نے بعض روایات کو وجادتاً لیا ہے تو ایک کثیر مجموعہ ایسا ہے جو انہوں نے وجادتاً نہیں لیا بلکہ مستقیم طور پر امامؑ سے سنا ہے۔ ہم ان چند روایات کی بنا پر محمد بن سنان کی تمام روایات کو غیر معتبر قرار نہیں دے سکتے جو انہوں نے مستقیم طور پر امامؑ سے لیں یا سماعت کی بنا پر لیں۔

 معضل روایات نقل کرنے کی بنا پر تضعیف

محمد بن سنان کا اپنے بارے میں یہ کہنا کہ جس نے معضل روایات لینی ہوں وہ میری طرف رجوع کرے۔ اس سے ان کی عظمت و جلالت ثابت ہوتی ہے نا کہ تضعیف۔ کیونکہ روایات اہل بیتؑ کے بارے میں وارد ہوا ہے:
«إِنَّ حَدِیثَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لَا یَحْتَمِلُهُ إِلَّا صُدُورٌ مُنِیرَةٌ أَوْ قُلُوبٌ سَلِیمَةٌ أَوْ أَخْلَاقٌ حَسَنَةٌ».
ترجمہ: بے شک ہماری احادیث بہت سخت اور دشوار ہیں۔ ان کو تحمل نہیں کرسکتے مگر وہ جن کے سینے نورانی، قلوب سالم، اور اخلاق حسنہ ہیں۔[25]

 کذاب ہونے کی بنا پر تضعیف

کتب تراجم و رجال میں کسی بھی جگہ پر محمد بن سنان کا نام اس وقت کے مشہور کذابین میں ذکر نہیں۔ شیخ طوسیؒ نے فضل بن شاذان سے نقل کیا ہے کہ محمد بن سنان کذاب تھا، جبکہ خود فضل بن شاذان ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے کثرت سے محمد بن سنان سے روایات نقل کی ہیں۔ اگر محمد بن سنان کذاب تھا تو اس سے روایات کیوں نقل کی ہیں، صرف فضل بن شاذان ہی نہیں بلکہ دیگر بزرگان تشیع نے بھی محمد بن سنان سے روایات لی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ محمد بن سنان کو جھوٹا نہیں سمجھتی تھیں۔

محمد بن سنان کی توثیق پر بعض قرائن

محمد بن سنان کو جن اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیا گیا ان پر ایک تبصرہ ذکر کرنے کے بعد وہ قرائن بیان کرنا ضروری ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سنان نا صرف ضعیف نہیں بلکہ جلیل القدر با عظمت شخصیت تھے۔
۱۔ محمد بن سنان کی مدح میں آئمہ معصومینؑ سے روایات نقل ہونا۔
۲۔ علماء رجال و حدیث کا محمد بن سنان پر اعتماد کرنا۔ جن میں شیخ مفیدؒ، علامہ مجلسیؒ، علامہ حلیؒ، شیخ حر عاملیؒ، اور سید بحر العلوم جیسے مشاہیر شامل ہیں۔
۳۔ بزرگ علماء و فقہاء کا محمد بن سنان سے روایت کرنا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ ان میں سے بعض بزرگان کے نام ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں جنہوں نے محمد بن سنان سے روایات لی ہیں:
احمد بن محمّد بن عیسی
ایوب بن نوح
حسن بن سعید بن سعید
حسن بن علی بن یقطین
حسین بن سعید
صفوان بن یحیی
عبّاس بن معروف
عبد الرحمان بن ابی نجران
عبد الله بن صلت
فضل بن شاذان
محمّد بن اسمعیل بن بزیع
محمّد بن حسین بن ابی الخطّاب
محمّد بن عبد الجبار
موسى بن قاسم
یعقوب بن یزید
یونس بن عبد الرحمان
مشہور(مؤثق و مقبول )راویان حدیث میں سے وہ نام جنہوں نے محمد بن سنان سے روایات نقل کی ہیں:
ابراہیم بن ہاشم
احمد بن محمّد بن خالد
حسن بن حسین لؤلؤی
حسن بن علی بن فضّال
شاذان بن خلیل
علی بن اَسباط
علی بن حکم 
محمّد بن احمد بن یحیی
محمّد بن خالد برقی
اور محمّد بن عیسى بن عبید.
۴۔ بزرگ محدثین کا محمد بن سنان سے اپنی کتب میں روایات نقل کرنا بھی ان کے ثقہ ہونے پر ایک بہت بڑا قرینہ ہے۔ احمد بن محمد بن یحیی اشعری قمی نے اپنی کتاب نوادر الحکمہ، مرحوم کلینی نے الکافی، شیخ طوسیؒ نے کتاب تہذیب، اور مرحوم شیخ صدوقؒ نے من لا یحضرہ الفقیہ میں محمد بن سنان سے کثیر روایات نقل کی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے محدثین روایات لینے میں انتہائی محتاط انداز اپناتے تھے اور ہرکس و ناکس سے روایات نہیں لیتے تھے۔ ایسے میں ایک راوی سے کثیر روایات لینا، نا صرف اس کی وثاقت کی دلیل ہے بلکہ اس کے جلیل القدر ہونے کی بھی علامت ہے۔

نتیجہ

محمد بن سنان کے بارے میں ہمارے پاس تین اقوال ہیں۔
۱۔ ان کی شخصیت کو ضعیف یا ثقہ قرار دئیے بغیر توقف کیا جاۓ۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے ان کی روایات بھی قابل عمل نہ ہونگی۔
۲۔ نجاشیؒ، اور شیخ طوسیؒ جیسے بزرگ رجالی علماء نے محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے اس لیے ان کی روایات ہمارے لیے معتبر نہیں ہیں۔
۳۔ محمد بن سنان کو بعض رجالی چند اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیتے ہیں، لیکن اگر ان اسباب کی تحلیل کی جاۓ تو ان میں سے ایک سبب بھی ان کی تضعیف کا باعث نہیں بنتا۔ اس لیے محمد بن سنان نا صرف ضعیف نہیں بلکہ تین اماموں کے خاص اصحاب میں سے تھے۔ اور یہی ہمارا قول مختار بھی ہے۔

منابع:

↑1 نجاشی، ابو عباس احمد بن علی، رجال النجاشی، ج۱، ص۳۲۸۔
↑2 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۷۹۷۔
↑3 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
↑4 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، الغیبہ، ص۳۴۸۔
↑5 شیخ مفیدؒ، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۲، ص۲۴۸۔
↑6 علامہ حلی، جمال‌ الدین حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، ج۱، ص۳۹۴۔
↑7 علامہ حلیؒ، جمال الدین حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ، ج۷، ص۸۔
↑8 خاقانی، شیخ علی، رجال خاقانی، ج۲، ص۱۶۲۔
↑9 شیخ حر عاملیؒ، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۲۹۔
↑10 سید بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، ج۳، ص۲۷۸۔
↑11 کلباسی، کمال الدین میرزا ابو مہدی، الرسائل الرجالیہ، ج۳، ص۶۵۱۔
↑12 نجاشی، احمد بن علی  ، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔
↑13 شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۴۶۔
↑14 شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۱۹۔
↑15 ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال۔ابن غضائری، ج۱، ص۹۲۔
↑16 ابن داؤود حلی، حسن بن علی، کتاب الرحال، ج۱، ص۲۷۳۔
↑17 خوئیؒ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۱۷، ص۱۷۰۔
↑18 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔
↑19 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۶۔
↑20 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص   ۷۹۶۔
↑21 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۸۲۳۔
↑22 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص  ۴۰۵۔
↑23 شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
↑24 خاقانی، شیخ علی، رجال الخاقانی، ج۲، ص۱۶۱۔
↑25 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۰۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:44
عون نقوی

«دروس شرح الکافی»

تدریس: آیت الله رضا عابدینی

تدوین: عون نقوی(درس۸)

زمانہ غیبت میں امام کا دیدار

گزشتہ دروس میں ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ زمانہ غیبت تمام زمانوں سے افضل زمانہ ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پرہمیں لگتا ہے کہ ہم امام کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے زمانہ محرومیت کا زمانہ ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہم اپنے زمانے کے امام کو نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نا ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ جبکہ امام کا کسی زمانے میں ظاہر ہونا بہت بڑی سعادت ہے جس سے ہم لوگ محروم ہیں۔ یقینا کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہم سب امام کو دیکھنے کےمشتاق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زیارت کریں۔ لیکن ان سب محرومیتوں کے باوجود کہا گیا ہے کہ زمانہ غیبت میں جہاں آپ کو محرومیت ہے وہیں نظام روحی کے ذریعے ابصار باطنی سے آپ امام سے ارتباط برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غیبت کو اللہ تعالی نے اسی لیے قرار دیا کہ مومنین اپنی باطنی آنکھوں کو روشن کریں اور ان سے قلبی ارتباط برقرار کریں ،اس دیدار کی اہمیت اور فضیلت ظاہری آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ ہے۔ اگر اللہ تعالی نے ایک طرف سے محرومیت قرار دی ہے تو دوسری طرف سے اس تلافی کا مکمل طور پر ہمیں موقع فراہم کیاہے۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر آج کے دور میں امام ہوتے تو میں زیادہ با استعداد ہوتا، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ آج بھی راستہ کھلا ہے۔ اگر ظاہری آنکھ سے دیکھنے کی محرومیت ہے تو وہیں قلبی ارتباط کا امکان ہے،اور یقینا یہ دیدار بالا تر درجے کی رُؤیت ہے۔

ہم محروم ہیں یا نہیں؟

لیکن یہاں پر کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آج کے دور کا منتظر جو امیرالمومنینؑ کے دور میں بھی نہیں تھا اور ممکن ہے زمانہ ظہور میں بھی زندہ نہ ہو، یہ محروم نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ جن لوگوں نے امیرالمومنینؑ کے دور کو پایا، ان کا ساتھ دیا اور بصیرت سے ان کے ساتھ حق پر ڈٹے رہے یقینا ان کا بہت مقام ہے ،آج کا انسان اس مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا،کیا یہ نعمت صرف اس دور کے لوگوں کے ساتھ خاص تھی اور ہم اس نعمت سے محروم ہیں؟ زمانے کے لحاظ سے تو نا ہم رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی کر سکے ہیں اور نا کسی اور امام معصومؑ کی۔ بشر ہونے کی جہت سے تو ہم میں اور آئمہ معصومینؑ کے زمانے کے بشر میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں پر ہماری استعداد کا کیا بنے گا جو نکھر نہیں سکی؟ اس کے جواب میں مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم زمانے کو معیار قرار دیں تو ایسا ہی ہے کہ ہم محروم ہیں۔

لیکن اگر ہم بدن کو انسانی وجود کا ایک مرتبہ قرار دیں، ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ انسانی وجود کے تمام مراتب کے لیے تعین اور حجاب نہیں بلکہ انسان کے روحی نظام کے لیے نا تو کوئی زمانہ حائل بنتا ہے اور نا ہی مکان۔ اس صورت میں ہم محروم نہیں کہلائیں گے۔ کیونکہ ہماری روح اگرچہ بدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن خود بدن میں نہیں ہے۔ اگر بدن میں ہوتی تو بدن میں مقید ہوتی، ممکن ہے خود میں اپنی روح کو بدن میں مقید کر لوں اور یہ اعتقاد بنا لوں کہ میں یہی بدن ہوں اور روح وغیرہ کچھ نہیں، اس طرح تمام زمان اور مکان سے بالاتر روحی کمالات سے بھی محروم ہو جاؤں گا۔ لیکن خود انسان کی روح کی حقیقت اس سے جدا ہے۔ دین نے انسان کو بہت وسعت دی ہے اس کو درک کرنا ہوگا کیونکہ عدم ادراک باعث بنتا ہے کہ ہم حسرت کریں کہ امیرالمومنینؑ کے ہمراہ نہیں تھے، جبکہ یہ حسرت فعلیت میں بھی بدل سکتی ہے۔

انسان کی استعداد اور اس کی فعلیت

انسان کی تمام استعدادیں فعلیت کے مرحلے تک پہنچ سکتی ہیں، چاہے امام ظاہر ہو یا غائب،ایک تنہا مومن ہو یا چاہےمومنین کا ایک جمع۔ اس طرح سے نہیں کہ ہم کسی شے کو زمانی یا مکانی طور پر نہیں پا سکے تو اس کی حسرت کریں، اگرچہ حسرت ہے لیکن ایسی حسرت نہیں ہے جو حاصل نہ ہو سکے۔ کیونکہ خود حسرت بھی  ایک عمل ہے۔ حسرت انسان کے روحی نظام کو فعلیت عطا کرتی ہے۔ اگر یہ نگاہ انسان کے اندر پیدا ہو جاۓ تو وہ ہر دور کے انسان اور ہر جگہ پر رہنے والے انسان کے کمالات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا امکان دیکھتا ہے۔ راستہ کھلا ہے جو بھی اس راہ کا راہی بننا چاہے آ سکتا ہے۔ رجعت کی بحث بھی اسی بحث کے ذیل میں آتی ہے۔ رجعت کو کامل اور تبیین یہی بحث کرتی ہے۔ اگرچہ رجعت میں کہا گیا ہے کہ وہاں محض ایمان اور محض کفر کی رجعت ہے لیکن اس بحث میں ہم اس امر کو ہر انسان میں سرایت دے رہے ہیں۔ ہم مادی طور پر بھی اس کا شاہد لا سکتے ہیں۔ مثلا جب کسی انسان کی ایک حس کام کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کی دیگر حسیں زیادہ قوی ہو جاتی ہیں اور اس طرح ایک مقدار تک جبران ہو جاتا ہے۔ لیکن  ہماری محرومیت کا جواب کیا ہے؟ اور ہم محروم کیسے نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب امامؑ دیتے ہیں۔

مستتر امام کے مراتب

ہم نے گزشتہ درس میں روایت کو ملاحظہ کیا تھا جس میں امام فرماتے ہیں:

«الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِیُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَحْیَى وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَیُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِی السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِی ظُهُورِ الْحَقِّ وَ دَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الظَّاهِرِ».

ترجمہ:عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام سے عرض کی: باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ سِری عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری عبادت؟ [1]

واضح رہے کہ خود امام کے مستتر ہونے کے بھی مراتب ہیں۔ جس طرح ظالم حکومتوں کو ظلم کی مقدار کی جہت سے ہم مراتب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔مثلا  ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ظالم حکومت کا مکمل طور پر تسلط ہے اور مومنین شدید تقیہ کی حالت میں ہیں، لیکن بعض دفعہ ایسا ہے کہ ظالم حکومت موجود ہے لیکن اسے خود اپنی پڑی ہوئی ہے۔ مومنین اگر کوئی فعلیت انجام دیتے ہیں تو اگر حکومت کو ان کاموں سے کوئی خطرہ نہیں تو وہ بھی ان کاموں سے حساس نہیں ہوتی۔ اگرچہ خود مومنین اور حق کے امام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی جبت، اور طاغوت کی حکومت میں اپنے کام سے کام رکھیں کیونکہ اللہ کی زمین پر قانون گذاری اور حکومت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔ کسی بھی غیر الہی قانون کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ کہ تقیہ کی حالت ہو۔

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام کے مستتر ہونے کا دورصرف زمانہ غیبت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ بقیہ گیارہ آئمہ معصومینؑ کے ادوار کو بھی شامل ہے۔ حتی امیرالمومنینؑ کا دور کہ اس دور میں بھی افراد ان کو امام ہونے کی حیثیت سے نہیں جانتے تھے۔ ان کو بقیہ خلفاء کی طرح ایک خلیفہ و حکمران سمجھتے تھے۔ خود امیرالمومنینؑ کی امامت مستتر تھی۔ بہت قلیل اور چند افراد ان کو اپنا امام مانتے تھے۔ یہ دور اسی طرح سے رہا یہاں تک کہ امام سجادؑ کے دور تک یہ استتار شدید تر ہوتا گیا۔ اسی طرح سے بقیہ آئمہ معصومینؑ کا دور مثلا امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کا دور، ان سب ادوار میں استتار کا مرتبہ شدید یا ضعیف ہوتا رہا۔ با الفاظ دیگر استتار ایک تشکیکی امر ہے۔ استتار کے تشکیکی ہونے  کے نتیجے میں ہمارے پاس جو احکام سامنے آتے ہیں وہ بھی تشکیکی ہونگے۔ ہر دور میں استتار کا جبران بھی تشکیکی ہوگا۔

سخت حالات میں عبادت کی افضلیت

راوی نے امام سے سوال کیا کہ باطل کی حکومت میں جب امام مستتر ہیں، اس دور میں چھپ کر کی جانے والی عبادت افضل ہے یا حق کے امام کی حکومت میں جب امام ظاہر ہیں علنى عبادت افضل ہے؟اگرچہ حق کے امام کی حکومت اور ظاہر ی امام کا اپنے اوج کو پہنچا ہوا مرتبہ ہمیں صرف زمانہ ظہور میں دیکھنے کو ملے گا۔تاہم  حق کی حکومت کا ایک مرتبہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں، ظاہری طور پر خفاء نہیں تھا مگر یہ کہ بعض مقامات پر خود امام صلاح نہیں سمجھتے تھے۔

بہرحال کونسی عبادت افضل ہے؟ اس افضلیت کی اساس اور  معیار کیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے میں مومنین کی استعداد یں زیادہ نکھر کے سامنے آتی ہیں، اس زمانے کی عبادت زیادہ افضل ہوگی۔ اگر اس روایت کے ظاہر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے امام کسی زمانے کی افضلیت کو بیان کرنے چاہ رہے ہیں لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بتانا چاہتے ہیں کہ حالات کا تنگ ہو جانا اور شدید ترین حکومتی دباؤ اور مسائل مومن کی راہ کو بند نہیں کر سکتے۔ وہ ان حالات سے بھی نکل سکتا ہے۔ اس لیے امام افضلیت کو سخت ترین دور میں قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پرسکون حالات میں استعداد فعلیت کو نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن واضح رہے جہاں مومن کے لیے حالات سخت ہو جائیں اس کے لیے موانع نہ صرف مانع نہیں بنتے بلکہ اس کے اندر کمال اور استعداد کے مواقع کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ اس نگاہ کو اگر مومن اپنے اندر پیدا کر لے تو دشمن مجبور اور لاچار ہو کر رہ جاۓگا۔ کیونکہ اس کے پاس اب کوئی مومن کو شکست دینے کا راہ حل نہیں ہے ۔ حتی مومن کو زیر زمین زندان میں بند کر دیں وہاں بھی وہ سوچے گا کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے یہی تکلیف معین فرمائی ہے۔

دینی نکتہ نظر سے ایک مومن چاہے وہ جس دور یا جس جگہ کا بھی ہو اس کے لیے اللہ تعالی کا قانون یکساں ہے۔ وہ شخص جو کال کوٹھڑی میں قید ہے اور وہ شخص جو منظر عام پر تمام افراد کی طرح معمولی زندگی بسر کر رہا ہے ہر دو کے لیے اس الہی قانون گذاری کے مطابق کمال تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہے۔ کوئی بھی امر اس کے لیے مانع نہیں بن سکتا۔ دشمن جتنا بھی آپ کو مقید کر لے زیادہ سے زیادہ آپ کے بدن کو قید کر سکتا ہے لیکن کیا آپ کی روح کو بھی قید کر سکتا ہے؟ روح کو قید کرنا دشمن کے بس سے باہر ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ جب فرعون نے جادوگروں کو کہا کہ موسیؑ کے معجزے کا انکار کرو ورنہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دونگا تو انہوں نے کہا:

«قَالُوا لَا ضَیْرَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ».

ترجمہ: وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب کے حضور لوٹ جائیں گے۔[2]

انہوں نے کہا کہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکو۔ ان جادوگروں کا فہم و بصیرت کے اس درجہ تک پہنچ جانا کوئی معمولی مرتبہ نہیں۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تو کیا کر لے گا؟ ہمارے بدنوں کو شکنجہ کرے گا یا اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا، یہ بدن تو آج یا کل ویسے بھی مر جانے ہیں لیکن تو ہماری روح و روان کو ختم نہیں کر سکتا۔

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«وَ اللَّهِ عِبَادَتُکُمْ فِی السِّرِّ مَعَ إِمَامِکُمُ‌ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ تَخَوُّفُکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ حَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ». 

ترجمہ:خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔

امام فرماتے ہیں کہ باطل کی حکومت میں جو مومنین کو خوف لاحق ہوتا ہے وہ بھی عبادت ہے۔ اگر مومن حق کا مطیع ہے تو اس کا حق کی اطاعت میں رہنا، ظاہری عبادات انجام دینا یا حتی کسب معاش کرنا اور روابط بھی عبادت شمار ہونگے۔

حدیث معراجیہ میں وارد ہوا ہے کہ اگر عبادات کو دس حصوں میں تقسیم کریں تو اس کے نو حصے کسب حلال کو شامل ہیں۔[3] ایک عبادت کا تصور ہم لوگ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنا اور روزے رکھنایا  تلاوت کرنا عبادت ہے جبکہ دین نے عبادت کے ۱۰ حصوں میں سے ۹ حصے کسب حلال میں قرار دیے ہیں۔ کیونکہ عبادت کا مغز اطاعت الہی ہے۔ اگر اطاعت الہی میں رہتے ہوۓ باطل کی حکومت میں کسب حلال کرتے ہیں ،بہت سخت ہے لیکن یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔

نظام الہی میں موانع اور مواقع

اللہ تعالی نے اس عالم کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ کہ دشمن کی جانب سے پیش آنے والی محدودیت اور موانع، یا حتی طبیعی موانع بھی اس سیر کی حرکت کو روک نہیں سکتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بہتے ہوۓ پانی کے سامنے ڈیم آ جاۓ، ڈیم جب لبریز ہو جاۓ گا پانی پھر سے اپنے راہ کو پا لے گا۔ یہ قانون الہی ہم عالم طبیعت میں بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے ہی مانع وجود میں آیا دیر نہیں لگتی کہ اسے راہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالی متعدد راستے نکال کر دے دیتا ہے۔

اس روایت میں لفظ «تَخَوُّفُکُمْ» وارد ہوا ہے۔ خود خوف مانع نہیں ہے بلکہ راہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ خوف اور دبدبہ ایجاد کر کے مانع ایجاد کرے لیکن خدا کہتا ہے کہ میں اسی مانع کو راہ بنا دونگا۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کے سامنے دریا موجود تھا، پیچھے فرعون اور اس کا لشکر، خدا نے اسی مانع(دریا) کو راہ بنا دیا۔ وہ آگ جسے نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو جلانے اور مارنے کے لیے بھڑکایا خدا نے اسی آگ کو ان کے لیے کامیابی اور فتح کا باعث بنا دیا۔ وہ جادوگر جو فرعون نے حضرت موسیؑ کا راستہ روکنے کے لیے مانع کے طور پر مدعو کیے تھے، اللہ تعالی نے انہیں جادوگروں کو ہدایت دی اور حضرت موسیؑ کی فتح کا ذریعہ بنا دیا۔

جو مانع ہے وہی راہ کا ذریعہ

اگر اس طرح کی دینی نگاہ ہمارے وجود میں پیدا ہو جاۓ کبھی سلوک الی اللہ میں مانع نہیں پائیں گے۔ ہر ظاہری رکاوٹ ہمیں راستے کی نشانی لگنے لگے گی۔ اگر یوسفؑ کو کنویں میں ڈالا گیا تو وہی کنواں ان کے عزیز مصر بننے کی راہ بنا۔ جن بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو نابود کرنا چاہا وہی باعث بنے کہ یوسفؑ مصر کی نجات کا باعث بن جائیں۔ جس طرف بھی آپ حوادث کی طرف غور کریں یہی سنت الہی آپ کو نظر آۓ گی۔ غیبت میں بھی یہی سنت حاکم ہے۔کلی طور پر  ہر حکم الہی میں یہی سنت حاکم ہے۔  اللہ تعالی کا ہر کلی یا جزئی حکم جو ہم پر نازل ہوا ہے اس کے لیے مانع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی ان موانع پر قاہر ہے اور یہ سب مقہور ہیں۔ نا صرف مقہور ہیں بلکہ اس کے آگے مسخر ہیں۔ آگ اور دریا جو دو نبیوں کے لیے مانع بن رہے تھے نا صرف مانع نہ بن سکے بلکہ مسخر ہو کر ان انبیاء کی فتح و کامرانی کا باعث بنے۔ وہی آگ تھی جس نے حضرت ابراہیمؑ کو نجات دی اور وہی دریا تھا جس نے حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کو راستہ دیا۔

انسان کی زندگی میں جتنے بھی حوادث اور واقعات پیش آتے ہیں ظاہری طور پر مانع نظر آتے ہیں۔ لیکن وہی موانع اللہ تعالی نے راہ قرار دیے ہیں۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا».

ترجمہ: البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔[4]

«فَإِنَّ بعدَ الْعُسْرِ یُسْرًا» وارد نہیں ہوا کہ کوئی کہے عُسر کے بعد یُسر ہوگی۔بلکہ عُسر ،یُسر کے ہمراہ ہے۔ دو زاویوں سے اس مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بدن کی جہت سے دیکھیں تو ممکن ہےعُسر ہو۔ لیکن روح کی جہت سے یُسر ہو۔ لہذا حضرت ایوبؑ کو جن تکلیفوں سے آزمایا گیا وہ تکالیف ان کے لیے گشائش کا سبب بنیں۔ یا حضرت موسیؑ کا قبطی کو قتل کے بعد فرار کرنا اور مشکلات میں پڑنا ہی باعث بنا کہ وہ حضرت شعیبؑ کے پاس جائیں اور وہاں رسالت جیسی عظیم  ماموریت کے لیے تیار ہو سکیں۔ وہی فرار ان کے لیے راہ بن گیا۔ اگر زندگی کے تمام واقعات کو اس الہی منظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جن ظاہری موانع کو ہم اپنی زندگی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں وہی ہمارے کمال کا باعث ہیں۔ تاہم جیسا کہ بیان ہوا دو متفاوت نگاہیں ہیں۔ ایک دفعہ انسان اور خدا کے درمیان رابطے کے ایجاد ہونے کی جہت سے دیکھتے ہیں، اور ایک دفعہ بدن کے اس جہان سے ارتباط کی جہت سے دیکھتے ہیں۔ اگر بدن کے اس جہان کے ارتباط کی جہت سے دیکھیں تو حتی خوشی اور سکون بھی مانع ہے۔ لیکن اگر پہلی نگاہ کو اختیار کریں تو جن کو ہم بدترین مانع قرار دے رہے ہیں وہ راہ ہیں اور مواقع ہیں۔ یہ نگاہ کنویں کی تاریک فضا میں بھی یوسفؑ کے لیے گشائش قرار پاتی ہے۔ بالالفاظ دیگر ایک منظر الہی ہے اور ایک منظر بدنی۔ بدنی نگاہ یا بشری تقاضوں کے مطابق دیکھیں تو ناامیدی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر حوادث کو منظر الہی سے  دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے اس کی ذات ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔

«إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَهْدِینِ».

ترجمہ: میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔[5]

یہ نگاہ انبیاء کو حاصل ہوتی ہے جب بھی وہ موانع کو دیکھتے ہیں اسی موانع میں راہ نجات بھی دیکھ لیتے ہیں۔جہاں ہمارے حساب کتاب اور ہوتے ہیں خدا کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے۔الله تعالی اپنے اولیاء کے امور کو بعض اوقات صرف ایک رات جیسے معمولی زمان میں درست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ  حضرت موسیؑ کو ایک رات میں رسالت عطا ہوگئی۔ روایت میں واردہوا ہے:

«وَ إِنَّ اَللَّهَ لَیُصْلِحُ أَمْرَهُ فِی لَیْلَةٍ کَمَا أَصْلَحَ أَمْرَ کَلِیمِهِ مُوسَى عَلَیْهِ السَّلاَمُ».

ترجمہ: اور بے شک اللہ تعالی اپنے امر (ظہور کے مقدمات) کو ایک ہی رات میں درست کرے گا جس طرح اس نے موسیؑ کے امر کی ایک رات میں اصلاح کی۔[6]

جیسا کہ امام جعفر صادقؑ کا فرمان مبارک ہے:

«کُنْ لِمَا لَا تَرْجُو أَرْجَى مِنْکَ».

ترجمہ: جس چیز میں تمہیں کوئی امید نہ ہو  اس میں زیادہ پر امید رہو۔[7]

پس جہاں بھی ناامیدی شدید ہو جاۓ، زیادہ پر امید ہو جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں جب دوسرے عوامل اور اسباب کو کم دیکھ رہے ہیں اور موانع زیادہ، وہاں ہم رجاء کو بڑھا لیں، یہ نگاہ پیدا کرنا ضروری ہے۔

منابع:

 

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑2 شعراء:۵۰۔
↑3 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۳،ص۹۔
↑4 شرح:۵۔
↑5 شعراء:۶۲۔
↑6 راوندی، قطب الدین، الخرائج والجرائح،ج۳،ص۱۱۷۱۔
↑7 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۸۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 14:19
عون نقوی

«دروس مهدویت»

درس شرح الکافی

موضوع: غیبت کی حقیقت(۷)

تدریس: آیت الله رضا عابدینى

تدوین: عون نقوی

حجت کا زمین پر ہونا ضروری

خداوند متعال کے شکر گزار ہیں جس نے یہ علمی دسترخوان نصیب کیا۔ ان نورانی ذوات سے فیض و برکات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شکر گزار ہیں اس خدا کے کہ جس نے ہماری ہدایت کے لیے انبیاء کرامؑ بھیجے اور حضرات معصومینؑ مقرر فرماۓ۔ہم الکافی کے ۷۹ ویں باب کی پہلی روایت پڑھ رہے تھے جس میں غیبت کی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔ اس باب کی پہلی روایت کو ہم نےملاحظہ کیا جس میں امام نے فرمایا:

«قَالَ: أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ أَرْضَى مَا یَکُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ».

ترجمہ: بندوں کا خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہونا اور راضی ہونا اس حالت میں ہے جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ [1]

اس قرب کے بارے میں بیان ہوا کہ اس قرب سے مراد قربِ وجودی ہے۔ قرب مکانی یا زمانی مراد نہیں۔  دوسرا بیان خدا کی رضایت کے بارے میں ہے کہ خدا ان سے راضی ہے۔ با الفاظ دیگر «اقرب ما یکون» یعنی یہ لوگ «رضوا عنہ» ہیں۔ اور «ارضی ما یکون» یعنی «رضی اللہ عنهم» ہیں۔ یہ دو بشارتیں ہیں۔ یہ دو بشارتیں لازم و ملزوم ہیں۔ ممکن نہیں کوئی «اقرب» ہو اور «ارضی» نہ ہو۔ جو اقرب ہوگا حتما ارضی بھی ہوگا۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَکَىٰ مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا».

ترجمہ: اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہوتا۔ [2]

ممکن نہیں کوئی عمل کی توفیق حاصل کرے مگر خدا نے اسے توفیق نہ دی ہو۔ خدا توفیق دیتا ہے تو عمل وجود میں آتا ہے۔ دو نگاہ ہیں۔ ایک دفعہ ہم نیچے سے اوپر کی طرف نگاہ کرتے ہیں۔ یہ «اقرب ما یکون العباد» ہے۔ ایک دفعہ ہم اوپر سے نیچے کی طرف نگاہ کرتے ہیں جو خدا کی نگاہ ہے۔ اوراسے «ارضی ما یکون» سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہر دو طرف سے یہ کلمات ہمارے لیے بشارت ہیں۔ تاہم یہ دوسرا کلمہ «ارضی ما یکون» زیادہ شیرین ہے کہ انسان سے اس کا اللہ راضی ہو جاۓ۔ لیکن انسان کو یہ استعداد کب حاصل ہوتی ہے؟ ہم نے روایت میں پڑھا کہ یہ استعداد انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب زمانے کی حجت ان کی نظروں سے اوجھل ہو۔

«إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ یَعْلَمُوا مَکَانَهُ».

ترجمہ: جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ اور حجت ان پر ظاہر نہ ہوں، ان کے جاۓ قیام کو نہ جانیں۔

روایت یہ نہیں کہتی کہ حجت ہے ہی نہیں یا وہ کہیں نہیں رہتی بلکہ فرمایا لوگ ان کی جاۓ رہائش کو نہیں جانتے، حجت کو دیکھ نہیں سکتے یا نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہے؟ ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شے موجود نہیں اور ہم اس شے کا فقدان کہتے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ شے موجود ہے لیکن ہمیں میسر نہیں، اس دوسرے معنی میں جو فقدان مراد ہے وہ روایت میں وارد ہوا ہے۔

«وَ هُمْ فِی ذَلِکَ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ».

ترجمہ: اور اس کا علم رکھیں کہ حجت خدا سے زمانہ خالی نہیں ہوتا۔

زمانہ غیبت میں حجت ہے لیکن اس کو دیکھنا ممکن نہیں۔ نہ یہ کہ حجت ہی نہ ہو۔ لوگ ان کے وجود کو علم حصولی اور برہان کی صورت میں قبول کیے ہوۓ نہیں بلکہ مکاشفہ اور حضوری صورت میں ان کو دیکھتے ہیں اور ان سے ارتباط برقرار کرتے ہیں لیکن اس ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ قلبی بصیرت سے۔ روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«وَ لَا مِیثَاقُهُ».

یہ لوگ جانتے ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زمین حجت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ حجت کو نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی ان کو یقین حاصل ہے کہ زمین حجت کے بغیر نیہں ہو سکتی کیونکہ چونکہ قوس صعود میں امام واسطہ ہیں ہدایت کے پہنچنے کا اور اگر ہدایت کا سلسلہ رک جاۓ تو انسان گمراہ ہو جاۓ گا۔ حجت در اصل صراط ہے۔ اگر حجت نہ ہو مطلب یہ ہوگا کہ صراط بند ہے۔ لہذا حجت کا ہر دور میں حی ہونا ضروری ہے۔

نبی اور امام میں فرق

علامہ طباطبائیؒ المیزان میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبی کا کام انذار، تبشیر اور تبلیغ ہے۔ امام کا کام «ایصال الی المطلوب»  ہے۔ امام صرف راستہ نہیں بتاتا بلکہ ہاتھ پکڑتا ہے اور اس منزل تک ساتھ لے جاتا ہے۔ ایک دفعہ جب ہم سے راستہ پوچھا جاتا ہے تو ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ اس طرف سے جاؤ پہنچ جاؤگے۔ لیکن ایک دفعہ آپ سے راستہ پوچھا جاتا ہے تو آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو وہاں تک لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جگہ ہے جس کی آپ تلاش میں ہیں۔ نبی بھی امام ہونے کی حیثیت سے امام ہوتا ہے لہذا انبیاء امام بھی تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ جَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا».

ترجمہ: ور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔[3]

انبیاء کرام امام تھے۔ رسول ہونے کی حیثیت سے دین کی تبیین کرتے اور امام ہونے کی حیثیت سے ایسے رہنمائی کرنے والے تھے جو ہاتھ پکڑ کر منزل تک لے جانے والا ہوتا ہے۔ دین ایک ایسا راستہ ہے جس میں اگر ہاتھ پکڑ کر پہنچانے والا نہ ہو انسان اس مسیر کو طے نہیں کرسکتا۔ دین کا راستہ وہ ہے جس پر ہم چل نہیں سکتے بلکہ کوئی چلانے والا ہو تو دین پر چلنا ممکن ہوتا ہے۔ تاہم خود ہم پر بھی ضروری ہے کہ اس راہ میں کوشش کریں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بیابان میں ہمیں لاکر کھڑا دیں ۔ ہر طرف صرف چٹیل میدان ہو اور راستے و منزل کی نشانی نہ ہو۔ یہاں پر ایک رہبر اور پرچم دار کی ضرورت ہے جو ہمیں بتاۓ اور ساتھ چلے البتہ چلنا ہم نے خود ہے  اس نے صرف رہنمائی کرنی ہے ۔

حجت در قوس صعود اور نزول

«و لا میثاقہ» بھی بہت خوبصورت بیان ہے۔ قوس صعود میں حجت کے ہونے پر دلالت کرتا ہے۔۔ اس میں احتجاج اور بینات موجود ہیں۔ تاہم حجت بمعنی عام جو کہ واسطہ فیض در قوس نزول بنتا ہے وہ بھی اس میں موجود ہے ہر دو معنی کو شامل ہے۔ «أَیْنَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ بَیْنَ الْأَرْضِ وَالسَّماءِ»[4]

وہ سبب جو متصل کرتا ہے ارض و سماء کو قوس صعود ہے۔ سماء اور ارض کے مابین ارض ہے۔ اور «یدبر الامر من السماء الی الارض» بواسطہ حجت قوس نزول ہے۔

«ارادة الرب فی مقادیر الامور تهبط الیکم و تصدر من بیوتکم» یہ قوس نزول میں ہے۔ کہ تمام ارادات الہی اور تقادیر «تهبط الیکم و تصدر من بیوتکم» ان کی جانب سے سب تک رزق وغیرہ پہنچتا ہے۔ اگر قوس نزول میں حجت نہ ہو اختلال ایجاد ہو جاۓ گا کیونکہ فیض صادر نہیں ہوگا، اور قوس صعود میں بھی خلل واقع ہوگا کیونکہ ہدایت کا راستہ بند ہو جاۓ گا۔ اور بشر حیوانیت کے مرتبے میں رہ جاۓ گا مرتبہ انسانی تک نہیں پہنچ سکے گا۔

میثاق کی حقیقت

«و لا میثاقہ» یعنی اس کا میثاق باطل نہیں ہوگیا۔ میثاق کیا ہے؟ میثاق وہ رمز  اور شیرین ترین کلمہ ہے اگر اس کی آیات اور روایات میں ہم کھوج لگائیں تو بہت عالی معارف ہمیں حاصل ہو سکتے ہیں۔ ربوبیت اور مربوبیت کا بہت بہترین ربط اسی میثاق کے رابطے سے شروع ہوتا ہے جو سب اشیاء کے لیے ربطیت بنتا ہے۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ».

ترجمہ: اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے)۔ [5]

یہ میثاق ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ میثاق ربوبیت ہے۔ یہ میثاق تمام انبیاء کی نبوت اور ان کے اوصیاء کی وصایت کو بھی شامل ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے: «الی ههنا التوحید». یعنی نظام وصایت بھی میثاق ربوبیت میں شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص توحید کو مانتا ہو لیکن نبی کی رسالت کو نہ مانتا ہو اس نے درحقیقت توحید کا انکار کیا۔ اگر کسی نے نبی کی نبوت اور رسالت کو قبول کر لیا لیکن اس کے وصی اور ولی کی ولایت کو قبول نہ کیا گویا اس نے نبوت کا انکار کیا۔ اگر ولایت کو قبول کرے اور آخری ولی خدا کو قبول نہ کرے توحید کامل نہیں ہوتی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان سے انبیاء کرامؑ کی نسبت میثاق لیا گیا کہ اس امر الہی کو پورا کریں گے۔ انبیاء سے اولوالعزم انبیاء کی نسبت میثاق لیا گیا، اور اولوالعزم انبیاء سے نبی خاتم ﷺ کی نسبت میثاق لیا گیا۔ وہ میثاق جو انبیاء سے لیا گیا اس کا تسلسل امام عصرؑ تک ہے کہ وہ اس مرتبے تک اقرار اور باور رکھتے تھے۔ میثاق ایک بہت عظیم امر ہے جس کے روایات میں متعدد معنی واردہوۓ ہیں۔ میثاق کی اصل اور اساس میثاق عبودیت و ربوبیت ہے۔ یہ میثاق نبوت و وصایت تا آخرین وصی جاری ہے۔

امام زمانؑ کا انکار رسول اللہ ﷺ کا انکار

«عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ: مَنْ‏ أَقَرَّ بِجَمِیعِ‏ الْأَئِمَّةِ وَ جَحَدَ الْمَهْدِیَّ کَانَ کَمَنْ أَقَرَّ بِجَمِیعِ الْأَنْبِیَاءِ وَ جَحَدَ مُحَمَّداً ص نُبُوَّتَهُ».

ترجمہ: امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: جو تمام آئمہ کی امامت کا اقرار کرے اور مہدی کا انکار کرے وہ اس شخص کی مانند ہے جو تمام انبیاء کی نبوت کو مانے اور محمد ﷺ کی نبوت کا انکار کرے۔ [6]

یہ سب کیوں کہا گیا ہے؟ کیونکہ یہ سب حقیقت واحدہ ہیں۔ ان سب کا ایک ظہور اور واقعیت ہے۔ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک شے کی آخری مرتبے کی کامل شکل کو نا مانیں اس سے اس آخری مرتبے کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ اس شے کی کامل حقیقت کا انکار لازم آتا ہے۔ وہ پہلے مرتبے تو دراصل اس آخری مرتبے کا مقدمہ تھے۔مقدمہ کو مان لیں اور ذوالمقدمہ کا انکار کردیں۔ یہ سب نور واحد ہیں، الہی جہت سے واحد ہیں لیکن لوگوں سے اربتاط کی جہت سے ممکن ہے کسی کا مرتبہ ظہور پہلے ہو اور کسی کا بعد میں۔ لہذا سب انبیاء کرامؑ سے امام زمانؑ کا میثاق لیا گیا۔ میثاق کی حقیقت سادہ نہیں ہے کہ ہم اسے محض قبولیت قرار دیں۔ بلکہ میثاق ایک حقیقت عینیہ ہے۔ جو دورہ غیبت اور دوران ظہور عظیم حقیقت کی صورت میں سامنے آۓ گی۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ اس بلند مرتبہ کے میثاق کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ خود اس مرتبے کے میثاق کا حامل ہونا بھی بہت بڑا امر ہے۔

میثاق، تکوینی امر یا تشریعی

میثاق تکوینی امر ہے یا تشریعی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میثاق نظام قوس نزول کو بھی شامل ہے اور اس جہت سے تکوینی ہے اور نظام قوس صعود کو بھی شامل ہے کہ اس جہت سے تشریعی ہے۔ بقیہ انبیاء کرامؑ اپنی باور اور میثاق کی مقدار کے مطابق اپنی امت کو دعوت دیتے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ باور نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس کے لیے ظرف وجود چاہیے تھا، لذا انبیاء خود امت ختمی مرتبت ہیں۔ لیکن ان کی امتیں انبیاء کی امتیں ہیں۔

«فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِیدًا».

ترجمہ: پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پر بطور گواہ پیش کریں گے۔ [7]

انبیاء کرام اپنی امتوں پر شاہد ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نا صرف اپنی امت پر شاہد ہیں بلکہ شاہدان (انبیاء کرامؑ) پر بھی شاہد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لیے بھی میزان ہیں اور تمام انبیاء کرامؑ کے لیے بھی میزان ہیں۔ پس ہر دو یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت اور تمام انبیاءکرامؑ، رسول اللہﷺ کی امت ہیں۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت تمام انبیاءکرامؑ اپنی امتوں سمیت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں گے۔

ہر دور میں امام کا ہونا

میثاق اگر قوس نزول میں باطل ہو جاۓ فیض الہی کا سلسلہ منقطع ہو جاۓ گا، اور اگر قوس صعود میں باطل ہو جاۓ ہدایت کا سلسلہ رک جاۓ گا پس ضروری ہے کہ وہ حقیقت جو قوس صعود اور قوس نزول میں واسطہ ہے ہر دور میں موجود ہو۔

فرج کا انتظار صبح شام

روایت کے اگلے حصے میں امام کا فرمانا ہے:

«فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَ مَسَاءً».

ترجمہ: ان کو چاہیے کہ ہر صبح و شام ظہور حضرت حجتؑ کی توقع رکھیں۔

روایت میں آیا ہے کہ «اصلح الله امر ولیه فی لیلة». کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حادثات اور واقعات ایک رات میں درست ہو جاتے ہیں۔ موسی کلیم اللہؑ آگ کی تلاش میں نکلے تھے، اللہ تعالی نے انہیں رسالت کے لیے مبعوث فرما دیا۔ حضرت موسیؑ کو توقع نہ تھی وہ آگ کی تلاش میں نکلے تھے کہ خود کو گرم کر سکیں لیکن ان کو رسالت عطا ہوگئی۔ کہاں آگ کی تلاش اور کہاں رسالت کی عظیم ذمہ داری؟ اللہ تعالی آگ کے ذریعے موسیؑ پر متجلی ہوۓ۔ آگ کی طرف احتیاج حضرت موسیؑ کو حرکت میں لایا اور وہ تلاش میں نکلے، اللہ تعالی کے لیے ممکن ہے اس کو کسی اور شکل میں عظیم امر سے پورا کر دے۔ حضرت موسیؑ کو رسالت عطا ہوگئی۔ حضرت موسیؑ کا مبعوث ہونا خود ان کے لیے فرج شخصی تھا لیکن ان کی قوم کے لیے فرج جمعی تھا۔

اس میں دوسری جہت کی طرف غور کرنا ضروری ہے جب ہم اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ظاہر سے باطن کی طرف عبور کرنا، اور یہ یقین کرنا کہ امام ہیں اور ان کا وجود  اور ان کی ہدایت گری پہلے سے زیادہ فعال تر ہے اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر لحظے فرج موجود ہے۔ جب انسان اس نگاہ سے دیکھے تو یہ نیہں کہے گا کہ فرج ہوگا بلکہ اس کے لیے تو فرج موجود ہے، اس کے لیے امام کا وجود اور ان سے ارتباط کا امکان زمانہ حضور امام سے زیادہ موجود ہے۔ ان کلمات سے بھی یہی مراد ہے یعنی صبح و شام کے خاص اوقات مراد نہیں ہیں بلکہ لحظہ بہ لحظہ  یہ حقیقت موجود ہے۔ اگر کوئی اس نگاہ سے زمانہ غیبت کو دیکھے تو اس کی مثال بھی ان انبیاء کرامؑ کی جیسی ہوگی جن کے زمانے میں ان کا امام عصر غائب تھا لیکن ان کا ایمان تھا کہ امام موجود ہے اور اس کی فرج کے منتظر تھے۔ اسی باور تک اگر آج کا منتظر بھی پہنچ جاۓ اس کے لیے یہ مسئلہ اسی طرح آسان ہو جاۓ گا۔

دشمنوں پر غضب الہی

امام فرماتے ہیں:

«فَإِنَّ أَشَدَّ مَا یَکُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِهِ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ».

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی کے دشمنوں پر شدید ترین لمحہ وہ ہے جب حجت خدا ان سے غائب ہے اور ان کے لیے آشکار نہیں۔

دوسری جانب زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کا اپنے دشمنوں پر غضب بھی شدید تر ہو جاۓ گا۔ کیونکہ دشمنان غیبت کی طولانیت کا باعث بنیں گے اور نزول برکات میں مانع قرار پائیں گے۔ آیت اللہ بہجتؒ فرمایا کرتے تھے کہ فرج کی تاخیر کی وجہ سے ہم کتنی برکات اور منافع سے محروم ہو گئے ہیں اس کا ہمیں علم نہیں، اگر ہمیں علم ہو جاتا کہ فرج کی تاخیر کی وجہ سے ہمارا کتنا نقصان ہو رہا ہے تو اتنی آرام کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ دشمنان کیوں «اشد ما یکون غضب الله علی اعدائه» بن گئے ہیں؟ اس لیے کہ لوگ رحمت الہی کے نزول میں مانع بن رہے ہیں۔

غضب الہی کسی بھی دور میں اتنا شدید نہیں رہا ہوگا جتنا زمانہ غیبت میں غضب الہی شدید ہو جاۓ گا حتی نمرود اور فرعون کے زمانے سے بھی شدید تر اللہ اپنے دشمنوں پر غضب فرماۓ گا۔ کیونکہ جو محرومیت اس زمانے میں لوگوں کو حاصل ہو رہی ہے وہ کسی بھی زمانے میں حاصل نہ ہوئی تھی اور اس محرومیت کا باعث یہ دشمن ہیں۔ یہ دور اشد محرومیت کا دور ہے۔ عذاب الہی بھی حقائق کے تابع ہے اعتبارات کے تابع نہیں۔ اس زمانے میں جو مانعیت اور محرومیت ایجاد ہوئی ہے بالاترین کمال کی محرومیت ہے۔ لذا دشمنان الہی بالاترین غضب کے حقدار ہیں۔ یہ الفاظ واقعیات ہستی کو بیان کر رہے ہیں۔ معصوم کی زبان ان حقائق کو بیان کر رہی ہے۔ کیوں کہ شدت محرومیت ایجاد ہوئی ہے اس لیے غضب بھی شدید ہو۔ شدید ترین صورت میں «سدّ عن الطریق» واقع ہوۓ ہیں لذا خدا بھی شدید ترین صورت میں غضب فرماۓ گا۔  ہمیں ہر وقت دعا کرنی چاہیے کہ خدا نہ کرے ہم سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جو غضب الہی کا باعث بنے۔

آیت اللہ بہجتؒ جب یزید یا شمر کا نام سنتے یا ذکر کرتے تو فرماتے کہ ایسا مت سوچیں کہ ہم ان بدترین مرتبوں سے بَری ہیں، ہمارے لیے کبھی پیش ہی نہیں آیا، اگر ہمارے لیے یہ مرحلہ پیش آتا تو معلوم نہیں ہم کہاں کھڑے ہوۓ؟ اس روایت میں وارد ہوا ہے کہ اس زمانے کے لوگ «اشد ما یکون غضب الله» ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے زمانہ غیبت میں اپنی تکلیف پر درست طور پر عمل نہ کیا، نعوذباللہ کوئی مانعیت ایجاد کرتا ہے، یا عناد کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، وہ «أشدّ ما یکون» کا کامل مصداق بن سکتا ہے یا ان (شمر و یزید و فرعون و نمرود) سے بھی اشد تر ممکن ہے بن جاۓ۔

اصلِ غیبت اللہ تعالی کی جانب سے

«وَ قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَوْلِیَاءَهُ لَا یَرْتَابُونَ وَ لَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ یَرْتَابُونَ مَا غَیَّبَ حُجَّتَهُ عَنْهُمْ طَرْفَةَ عَیْنٍ وَ لَا یَکُونُ ذَلِکَ إِلَّا عَلَى رَأْسِ شِرَارِ النَّاسِ».

ترجمہ: اور بتحقیق خدا جانتا تھا کہ (غیبت کی وجہ سے) اس کے اولیاء شک میں نہیں پڑیں گے اور اگر وہ جانتا کہ وہ شک میں پڑ جائیں گے تو وہ اپنی حجت کو پلک جھپکنے کی مدت تک بھی نہ چھپاتا۔ اور یہ غیبت نہیں ہوگی مگر بدترین لوگوں کی وجہ سے۔ (غیبت کی وجہ بدترین لوگ ہیں)۔ [8]

معلوم ہوتا ہے کہ غیبت ایک الہی امر ہے۔ جزائی امر نہیں ہے۔ اگر جزائی امر ہوتا تو کہا جاتا کہ تم لوگ خود اسکا باعث بنے ہو اور یہ اس کی جزا ہے۔ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ غیبت سے کوئی شک میں پڑ جاۓ گا، نہیں فرمایا کسی کو یقین ہو جاۓ گا، بلکہ اگر کوئی غیبت کی وجہ سے شک میں بھی پڑ جاتا تو غیبت کو خدا کبھی قرار نہ دیتا۔ پس «اصل الغیبة من الله» ہے۔ اصلِ غیبت کسی کی گمراہی یا شک میں پڑنے کا باعث نہ بنے گی۔ لیکن طولِ غیبت اور اس کا دوام باعث بن سکتا ہے کہ جو اولیاء الہی نہیں ہیں اور ان کے دل مریض ہیں گمراہ ہو جائیں۔ ان کا گمراہ ہو جانا یا شک میں پڑ جانا اصلِ غیبت کی وجہ سے نہیں بلکہ طول غیبت کی وجہ سے ہے۔ اس کی علت خود ان کے اعمال ہیں۔ «فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا» [9] ان کے قلوب میں پہلے سے ہی مرض موجود تھا خدا ان کے مرض میں اور زیادہ اضافہ فرما دے گا۔

دوران غیبت، شریر ترین حکومتوں کا دوران

امام کا یہ فرمانا کہ «و لا یکون ذلک الا علی راس شرار الناس» بتاتا ہے کہ دوران غیبت ایک ایسا دور ہے جس میں شر ترین، و بد ترین ظالمین اپنے شر اور ظلم کے بالاترین مرتبے پر موجود ہیں اور شر و ظلم ایجاد کر رہے ہیں۔ دوران غیبت میں «راس شرار الناس» لوگ حاکم ہیں۔ ہمارے سب آئمہ معصومینؑ شرار  ناس کے ظلم سے متاثر رہے ہیں لیکن ان سب شرار ناس کے رأس اور ان کا آخری درجہ دوران غیبت حاکم ہے۔ لذا اس دور میں رہنے والے مومنین ہی «ارضی و اقرب ما یکون» ہو سکتے ہیں۔ جس طرح سے وارد ہوا ہے کہ ہر دور کا شیطان اور اس کے وسوسے اس دور کے نبی کے درجے کے مطابق ہے۔ لذا جب حضرت عیسیؑ مبعوث ہوۓ شیطان کو چوتھے آسمان تک رسائی سے منع کر دیا گیا، یعنی سقوط کے چار مرتبے امکان پذیر ہو گئے اور جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوۓ تو ساتوں آسمانوں سے شیطان کی رسائی کو روک دیا گیا مطلب سقوط بہ ارضین سبع ممکن ہو گیا۔ شیطان ہر وجود کے پاس اس کے مرتبہ وجودی کے مطابق آتا ہے، عالم کے پاس عالمانہ انداز میں اور جاہل کے پاس جاہلانہ طور پر۔

دجال کا گزشتہ ظالمین سے اشد ہونا

یہاں سوال ہے کہ کیا دجال، فرعون اور نمرود سے اشد ہوگا؟ روایات کا ظاہر بتاتا ہے کہ اشد ہوگا۔ اس کے پاس مکاریت اور حیلہ گری کے وسائل زیادہ ہیں۔ اس کے پاس گزشتہ تمام شیاطین کے مراتب، با اضافہ ان تمام وسائل کہ جو جدید ہیں اور بالا مرتبے کے ہیں سب موجود ہیں۔ اس وجہ سے ان کو «علی راس شرار الناس» قراردیا گیا ہے۔ البتہ ہمیں اس کلام کو ان روایات سےسازگار کرنا ہوگا کہ جن میں ان سات افراد کا ذکر ہے جو جہنم کی بدترین جگہ میں موجود ہیں اور «ویل» کے کنویں میں ہیں یا آگ کی صندوق میں موجود ہیں۔ کبھی ایک مسئلے کو از جہت مبدئیت دیکھا جاتا ہے اور کبھی اس کے نتیجے کی جہت سے۔ از لحاظ نتیجہ دجال بدتر ہے اور از لحاظ مبدئیت وہ سات افراد بدتر ہیں۔

عبادات کی افضلیت

سوال یہ ہے کہ ظاہری عبادات زمانہ ظہور میں افضل ہیں یا زمانہ غیبت میں سِری عبادات افضل ہیں۔

روایت میں واردہوا ہے:

«عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَیُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِی السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِی ظُهُورِ الْحَقِّ وَ دَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الظَّاهِرِ».

ترجمہ: عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام سے عرض کی: باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ سِری عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری عبادت؟ [10]

دوران غیبت میں باطل کی حکومت ہے اور عبادات کو علنی طور پر انجام دینا ممکن نہیں۔ امام بھی مخفی ہے۔ عبادات کو سری اور مخفی طور پر کر سکتے ہیں۔ یہ دوران صرف آج کے دور کو شامل نہیں کہ جب بارہویں امام غیبت میں ہیں بلکہ اس دور کو بھی شامل ہے جب آئمہ معصومینؑ لوگوں میں ظاہری طور پر موجود تھے لیکن حکومت باطل کی تھی، امام سب کے لیے آشکار نہیں ہوتے تھے تاہم ظہور کا ایک مرتبہ ان کو میسر تھا۔ لذا استتار کا ایک مرتبہ ان کے دور کو بھی شامل ہے۔ مثلا امام رضاؑ نے چار سال تک اپنے والد گرامی امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد اپنی امامت کو ظاہر نہ کیا۔ فقط خواص میں سے کچھ افراد جانتے تھے لیکن عام شیعہ نہیں جانتے تھے۔ حتی بعض خواص میں سے بھی کچھ کو پتہ نہ تھا کہ امام کاظمؑ کے بعد امام کون ہیں؟ یہ بہت سخت دور تھا استتار کا ایک مرتبہ اس دور کو بھی شامل ہے۔معلوم ہوا امام کا مستتر ہونا تشکیکی ہے۔ اسی طرح باطل کی حکومت بھی تشکیکی ہے، مثلا بعض حکومتیں ایسی ہیں جن کو مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔ پس ایک طرف سِری عبادت ہے، باطل کی حکومت ہے اور امام بھی مستتر ہیں، ظاہری طور پر عبادات انجام دینا یا اجتماعی عبادات انجام دینا یا تو مشکل ہے یا نا ممکن۔ اور دوسری طرف امام ظاہر ہیں، حق کی حکومت ہے اور ظاہری عبادت؟ کونسی عبادت افضل ہے؟ عبادتِ ظاہر در دوران ظہور یا عبادتِ سری در زمان غیبت؟ ممکن ہے دوران ظہور میں ہم عبادت امام کی اقتداء میں انجام دے رہے ہیں، امام پورے معاشرے پر حاکم ہیں اور پورے سیطرے کے ساتھ ، پورے ظہور کے ساتھ حجت امامت کرتی ہے اس جاہ و جلال و شکوہ کے ساتھ اس نماز کا کیا ہی معراج ہوگا؟ اور ایک طرف غیبت کا دور، امام بھی مستتر، حکومت بھی باطل کی، مخفیانہ نماز وہ بھی ممکن ہے فرادی؟ کس نماز کو افضل قراردیا جاۓ گا؟

«فَقَالَ یَا عَمَّارُ الصَّدَقَةُ فِی السِّرِّ وَ اللَّهِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ فِی الْعَلَانِیَةِ وَ کَذَلِکَ وَ اللَّهِ عِبَادَتُکُمْ فِی السِّرِّ مَعَ إِمَامِکُمُ‌ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ تَخَوُّفُکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ حَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ».

ترجمہ: امام نے فرمایا: اے عمار وہ صدقہ جو مخفی طور پر دیا جاتا ہے خدا کی قسم اس صدقے سے افضل ہے جو علانیہ دیا جاتا ہے اسی طرح خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔

لیکن سوال پیدا ہوگا کہ صدقہ تو مستحب عمل ہے کیا واجبات کو بھی یہ امر شامل ہے؟ وارد ہوا ہے کہ نماز جماعت میں شرکت کرو چاہے اس میں تمہارا حضور قلب کم ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ خود جماعت، نماز کا علنی ہونا، مسلمانوں کا جمع ہونا اور یہ اجتماع خود مطلوب امر ہے اور اس کے آثار ہیں۔ جب امام نے دوران غیبت کی اتنی فضیلت بیان کی تو راوی نے پوچھا کہ یا امام پھر ہم ظہور کی دعا نہ کریں؟ امام نے فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھنا چاہتے کہ حکم خدا ہر جگہ جاری ہوتا نظر آۓ؟ اگر کوئی اس مطلب کو درک کر لے تو اس کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ خدا کسی اور طرح سے جبران فرما دے گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ دوران غیبت کی ہمیں دقیق معرفت عطا فرماۓ اور دوران ظہور کا درک عنایت فرماۓ۔

 

 

 

 


منابع:

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑2 نور: ۲۱۔
↑3 انبیاء: ۷۳۔
↑4 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۲، ص۱۰۷۔
↑5 اعراف: ۱۷۲۔
↑6 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۳۳۳۔
↑7 نساء: ۴۱۔
↑8 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑9 بقره: ۱۰۔
↑10 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 March 22 ، 14:06
عون نقوی

تدریس: استاد عابدینی

تحریر: عون نقوی

درس: ۳۲۶

 

 

روایتِ نُوَمہ

آج جس روایت کی شرح کر رہے ہیں اس کو «روایت نُوَمَہ» کہا جاتا ہے۔ امام صادقؑ امیرالمومنینؑ سے نقل کرتے ہیں جس میں امام فرماتے ہیں کہ روایت کو سمجھنا ہزار روایتوں کو نقل کرنے سے بہتر ہے۔ دین ہمیں ظواہر سے بواطن کی طرف عمق سے جانے کا حکم دیتا ہے۔

ہم اس روایت کے ایک ایک جملے کو پیش کریں گے اور اس میں دقت کرنے کی کوشش کریں گے۔

روایت میں وارد ہوا ہے:

خَبَرٌ تَدْرِیهِ خَیْرٌ مِنْ‏ عَشْرٍ تَرْوِیهِ.

ایک روایت کو سمجھنا، ایک ہزار روایت کو صرف نقل کرنے سے بہتر ہے۔(۱) 

دین میں کثرت معیار نہیں ہے بلکہ فہم اور شعور معیار ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ مت دیکھو کہ فلاں شخص کتنی نمازیں پڑھتا ہے اور کتنی کثرت سے روزے رکھتا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ امانت دار ہے یا نہیں؟ وعدہ وفا کرتا ہے یا نہیں؟ ایک شخص کے بارے میں امامؑ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ وہ بہت نمازیں پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے۔ امامؑ نے فرمایا کہ اس کی عقل کیسے ہے؟ عقل سے کام لیتا ہے یا نہیں؟ ممکن ہے بعض افراد عمل کثیر انجام دیں، لیکن فہم اور بصیرت کے حصول کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ دین کی نظر میں زیادہ عبادات کرنے والوں سے وہ افراد بہت بہتر ہیں جو فہم و شعور حاصل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

ہر حق کی ایک حقیقت 

إِنَّ لِکُلِّ حَقٍّ حَقِیقَةً.

امام فرماتے ہیں: ’’بے شک ہر حق کی ایک حقیقت ہے‘‘۔ حق خود بہت عظیم امر ہے لیکن اس حق کا ایک باطن اور درون ہے جو اس کے عمق میں چھپا ہے وہ اس حق سے بھی عظیم ہے۔ وہ اس سے لطیف تر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک عمق۔ جس طرح ہر حادثہ کی ایک تعبیر اور تأویل ہوتی ہے۔ یا اس طرح سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمل اور نیت کے مابین نیت اساس ہے۔ نیت ہر عمل کی حقیقت ہوتی ہے۔ یعنی صرف عمل کو نہ دیکھا جاۓ اگر اس کے پیچھے اس کی حقیقت جو کہ نیت ہے اگر وہ خالص ہے تو خود یہ عمل بھی مقبول ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے:

النیّة افضل من العمل.

نیت عمل سے افضل ہے۔(۲)

اگر عمل کی حقیقت کو دقت سے دیکھنا چاہیں تو اس کی نیت ہی در اصل اس کی حقیقت ہے۔ عمل ایک ظاہری حرکت ہے۔ اگرچہ اس ظاہری حرکت میں آداب، شریعت، طریقت اور اخلاق کو ملاحظہ کیا جاتا ہے اور ان کی پابندی سے ہی عمل میں حسن پیدا ہوتا ہے جو کہ حسن نیت کی علامت ہوتا ہے۔ اس عمل کے یہ سب آداب در اصل بدن ہیں اس روح (نیت) کے لیے۔ اگر بدن مریض ہو جاۓ روح بھی مریض ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہر حق کا ایک ظاہر ہے اور ایک حقیقت ہے جو اس کا باطن اور عمق ہے۔ اس لیے دینی دستورات میں بہت تاکید ہوئی ہے کہ نیت اور قربت کا خیال رکھا جاۓ کیونکہ یہی نیت اس عمل کی حقیقت ہے۔

عمل صالح نوری مقام پر پہنچنے کا ذریعہ

وَ لِکُلِّ صَوَابٍ نُوراً.

امام فرماتے ہیں کہ ہر درست عمل کے لیے ایک نور موجود ہے۔ باالفاظ دیگر ہر عمل صالح کا ایک مقام نوریہ ہے۔ انسان اگر کوئی عمل صالح انجام دیتا ہے تو اس کا مقصود خود عمل نہیں ہوتا بلکہ عمل صالح کی انجام دہی سے عبور کر کے مرتبہ عمل سے گزرنا ہے اور اس عمل کے مقام نوریہ تک پہنچنا ہے۔ اس عمل کو «عبور از حق بہ حقیقت» بھی کہہ سکتے ہیں۔ پس ہم جب بھی عمل صالح انجام دیں صرف مرتبہ عمل پر رک نہ جائیں، حقیقت عمل کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ورنہ محروم رہ جائیں گے۔ ہر عمل کو اس کی حقیقت اور نورانی مقام تک پہنچانا ضروری ہے۔ امام کا فرمانا کہ «لکل صواب نورا» اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل نیت ساز ہوتا ہے۔ انسان جب نیت کر کے ایک عمل انجام دے کر اس نیت کو مرتبہ ظہور تک پہنچا دیتا ہے اس کی نیت میں تاکید لاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی نیت کی اصلاح ہو یا قوی ہو تو اسے چاہیے کہ کثرت سے عمل انجام دے۔ جن باتوں کو جانتا ہے ان پر عمل کرے تاکہ اسے بلند درجے کی نیت اور اس نیت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہو۔ 

مومن کا زیرک اور تیز فہم ہونا

ثُمَّ قَالَ إِنَّا وَ اللَّهِ لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مِنْ شِیعَتِنَا فَقِیهاً حَتَّى یُلْحَنَ لَهُ فَیَعْرِفَ اللَّحْنَ.

امام فرماتے ہیں: ’’خدا کی قسم ہم اپنے شیعوں میں سے کسی کو اس وقت تک فقیہ نہیں مانتے جب تک اسے کوئی رمز کی بات نہ کہہ دی جاۓ اور وہ اس رمز کو سمجھ نہ لے‘‘۔

شیعہ عالم وہ ہے جو رمز و راز کی بات کو تیزی سے سمجھ لے۔ ایسا نہ ہو کہ اول سے آخر تک ساری بات کھول کر اسے سمجھانی پڑے۔ «العاقل یکفیه الاشاره» عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کیسے ظاہر سے باطن کی طرف عبور کے مراحل کو خوبصورتی سے بیان فرما رہے ہیں۔ شیعہ عالم وہ ہے جس کی اخذ کرنے کی قدرت زیادہ ہو، بسیط نہ ہو اور نہ ہی سادہ لوح ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آخری جملے تک بات کھل کر بیان کریں تو تب کہے کہ اب مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ اتنا زیادہ ظواہر پر تکیہ کرنے والا نہ ہو۔ جو ظاہر معنی دے رہا ہو اسی کو لے لے، ہاں ہم مانتے ہیں کہ کلام کا ظاہر معتبر ہے لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ ساری بات بتاتے ہیں تب منتقل ہوتی ہے اور ایک دفعہ آپ صرف اشارہ کرتے ہیں تو اگلا مکمل طور پر متوجہ ہو جاتا ہے۔ سادہ لوح ہونا خوبی نہیں، ہاں پہلے مراحل میں انسان کے لیے اچھا ہے کہ مکمل طور پر عاجزی سے سیکھے لیکن آخر میں اسے بصیر اور زیرک ہونا چاہیے۔ ممکن ہے دوسرے اس کو سادہ لوح سمجھتے ہوں لیکن وہ خود تمام لوازمات کی طرف متوجہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی لوگ یہی سوچتے تھے کہ نعوذ باللہ وہ سادہ لوح ہیں جو بات بھی ان کو کہہ دیں فورا باور کر لیتے ہیں۔ آیت نازل ہوئی:

وَمِنْهُمُ الَّذِینَ یُؤْذُونَ النَّبِیَّ وَیَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَیْرٍ لَکُمْ.

اور ان (منافقین) میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں، کہدیجئے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے۔ (۳)

سادہ لوح ہونا اور بات ہے بعض افراد سادہ لوحی کو اچھا سمجھتے ہیں، ان کے بقول انسان جتنا سادہ لوح ہو اتنا بہتر، دین اس کے برعکس کہتا ہے۔ درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اخلاق کی وجہ سے سب کی بات سنتے لیکن ایسا نہ تھا کہ جیسا وہ منافقین سمجھتے تھے۔

إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ع قَالَ عَلَى مِنْبَرِ الْکُوفَةِ إِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ فِتَناً مُظْلِمَةً عَمْیَاءَ مُنْکَسِفَةً.

امیرالمومنین علیؑ منبر کوفہ پر براجمان تھے انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ عنقریب تم لوگوں پر ایسے فتنے آنے والے ہیں جو گمراہ کرنے والے، اندھا کر دینے والے ہیں، ان میں حق ایسا چھپ کر رہ جاۓ گا جیسے سورج گرہن کے وقت سورج کی روشنی کم پڑ جاتی ہے۔

لَا یَنْجُو مِنْهَا إِلَّا النُّوَمَةُ.

امام فرماتے ہیں ان فتنوں میں کسی کو نجات نہیں ملے گی مگر وہ شخص جو «نُوَمَہ» ہے۔

نومہ کون؟

قِیلَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَ مَا النُّوَمَةُ قَالَ الَّذِی یَعْرِفُ النَّاسَ وَ لَا یَعْرِفُونَهُ.

امامؑ سے پوچھا گیا کہ نومہ کون ہے؟ امام نے فرمایا کہ نومہ وہ شخص ہے جو تمام حوادث اور اشخاص کو جانتا ہے اور بہت خوب جانتا ہے، ایسا نہیں کہ صرف نام کی حد تک جانتا ہو یا حوادث اور واقعات کی صرف خبر رکھتا ہے بلکہ لوگوں کی معرفت رکھتا ہے اور ہر واقعے کی اس کے پاس تحلیل  موجود ہے۔ اس دور کے تمام گروہ، انحرافی نظریات، صحیح اور بد کی مکمل اس کو شناخت ہے لیکن لوگ اس کو نہیں جانتے۔ ایسا نہیں کہ اس شخص کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں یا اس کا نام نہیں جانتے بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگوں میں اس حیثیت سے معروف نہیں۔ یہ خود اس طرح سے ان لوگوں میں رہتا ہے کہ لوگ اس کو ان جہات سے نہ جانیں۔ یہ شخص نومہ ہے۔ اس عصر میں کہ جس میں تاریک، اندھا کر دینے والے فتنے موجود ہیں یہ شخص جریان شناس ہے فقط یہی نجات حاصل کر پاۓ گا، معلوم ہوا کہ سادہ لوح ہونا، حالات حاضرہ سے ناواقف ہونا اچھی چیز نہیں۔ اس کی مثالیں ہمارے پاس متعدد ہیں۔ نا صرف عام عوامی افراد بلکہ بہت سے طلاب کرام کو ہم نے مختلف حادثات اور واقعات میں منحرفین کے گروہ میں پایا، قرآن کریم  میں وارد ہوا ہے:

کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَ مُنْذِرِینَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیهِ إِلاَّ الَّذِینَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیاً بَیْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَ اللَّهُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ.

لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ (۴)

ایک اختلاف منابع کا اختلاف ہے جو انبیاء کرامؑ کے آنے سے قبل تھا اور ایک اختلاف انبیاء کرامؑ کے آنے کے بعد ہے، اختلاف صاحبانِ علم «بغیا بینہهم»۔

کتاب نازل ہوئی کہ پہلے اختلاف کو ختم کیا جاۓ، لیکن اسی کتاب میں ہی بعض نے اختلاف کرنا شروع کر دیا، جو خود منشأ تھا اختلاف ختم کرنے کا وہ خود اگلے اختلاف کا موضوع بن گیا۔ اگلا اختلاف کن لوگوں نے شروع کیا؟ کیا ان پر کوئی بات مبہم رہ گئی تھی؟ جی نہیں! بلکہ ان کے لیے سب کچھ روشن تھا لیکن یہ لوگ انحراف کا سبب بنے۔ اگر ہم میں سے کوئی جریان شناس نہ ہو، حالات سے واقف نہ رہتا ہو یہ انسان ان انحرافی نظریات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

وَ اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.

امامؑ فرماتے ہیں کہ مومنین جان لیں زمین حجت الہی سے خالی نہیں ہو سکتی۔

غیبت کا حجاب ہماری طرف سے

وَ لَکِنَّ اللَّهَ سَیُعْمِی خَلْقَهُ عَنْهَا بِظُلْمِهِمْ وَ جَوْرِهِمْ(جَهلهمْ) وَ إِسْرَافِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ.

لیکن الله تعالی اپنی مخلوق کو اس کے دیکھنے سے اندھا کر دے گا ان کے ظلم اور جور کی وجہ سے اور اس اسراف کی وجہ سے جو انہوں نے اپنی ذاتوں پر کیا۔ روایات کے یہ الفاظ بہت دقیق اور غور طلب ہیں۔ اللہ تعالی ان کو اندھا کر دے گا کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب حجاب ہماری طرف سے ہے۔ وہ غائب نہیں بلکہ ہماری آنکھوں پر پٹی پڑی ہے۔ یہ حجاب یا تو انفرادی مسائل کی وجہ سے پڑا ہے یا اجتماعی مسائل کی وجہ سے۔ امام فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ انفرادی زندگی یا اجتماعی مسائل میں عادل نہ رہے تو امام کو دیکھنے سے قاصر ہونگے۔ کیونکہ سنت الہی تو یہ ہے کہ حجت الہی زمین پر ہو اور کبھی بھی زمین اس سے خالی نہ ہو، لیکن یہ حجت ممکن ہے کبھی ظاہر ہو اور کبھی باطن۔ اس کا باطنی ہونا اس جہت سے ہے کہ امت اعتدال سے نکل کر «سیعمی» اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسان کے لیے ہر ظلم و جور اور اسراف کا مرتبہ اس کے جہل اور اندھے ہونے کے ایک درجے کو بڑھا دیتا ہے۔ جتنا انسان مبتلا ہوتا جاۓ گا نابینا ہوتا چلا جاۓ گا۔ 

توبہ۔ حجت الہی کو دیکھنے کا ذریعہ

اس کے برعکس ہر ظلم و جور جو انسان نے خود پر کیا ہے یا اجتماعی زندگی میں انجام دیا ہے اگر توبہ کرتا ہے تو ہر توبہ کا مرتبہ اس کے لیے حجت الہی کی رؤیت کے مرتبے کو بڑھا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت آدمؑ کے متعلق وارد ہوا ہے:

وَ قُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ لَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعٌ إِلَى حِینٍ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ. 

پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ (۵)

حب توبہ کی تو «هبوط» بھی متفاوت ہو گیا۔ وارد ہوا:

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِیعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّی هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لاَ هُمْ یَحْزَنُونَ.

ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (۶)

جب توبہ ہوئی تو ہدایت بھی آ گئی۔ وہاں ہدایت پانے والے خود حجت تھے۔ آدمؑ کے لیے خود اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت آنا حجت تھا اور ہم لوگوں کے لیے انبیاء الہیؑ اور آئمہ معصومینؑ حجت ہیں۔ ہم جتنا اپنے اعمال سیئہ سے پشیمان ہوتے جائیں اتنا ہی حجت الہی کو دیکھنے کے مراتب کو زیادہ کر سکتے ہیں۔ 

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

وَ لَوْ خَلَتِ الْأَرْضُ سَاعَةً وَاحِدَةً مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا.

اگر زمین حجت الہی سے ایک ساعت کے لیے بھی خالی ہو جاۓ تو زمین اپنے تمام اہالی کے ساتھ نابود ہو جاۓ گی۔ ان کلمات کے متعدد معانی کیے گئے ہیں۔ آیا زمین کا نابود ہو جانا اس معنی میں ہے کہ انسانی نظام حیوانی نظام میں تبدیل ہو جاۓ گا کیونکہ ہدایت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ یا زمین نابود ہو جاۓ گی اس لیے کہ چونکہ امام تمام مخلوقات اور خالق کے مابین واسطہ فیض ہیں، اور اگر یہ واسطہ فیض نہ ہو تو زمین نابود ہو جاۓ گی؟

وَ لَکِنَّ الْحُجَّةَ یَعْرِفُ النَّاسَ وَ لَا یَعْرِفُونَهُ.

لیکن حجت لوگوں کو پہچانتی ہے، لوگ اس کو نہیں پہچانتے۔ جس طرح امام نے نُوَمَہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگوں کو جانتے ہیں لیکن وہ لوگوں میں معروف نہیں اسی طرح حجت الہی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لوگ اس کو بحیثیت حجت نہیں جانتے۔ ممکن ہے لوگ اس کو دیکھتے ہوں اس کو ایک اچھا آدمی سمجھتے ہوں لیکن ان کے حجت ہونے کی خبر نہیں رکھتے۔

کَمَا کَانَ یُوسُفُ یَعْرِفُ النَّاسَ وَ هُمْ لَهُ مُنْکِرُونَ.

جس طرح حضرت یوسفؑ کو لوگ عزیزِ مصر ہونے کی حیثیت سے جانتے تھے۔ لیکن کیا حضرت یوسفؑ کی حقیقت ان کا عزیزِ مصر ہونا تھا؟ ان کی حقیقت یہ نہ تھی بلکہ حقیقت میں وہ نبی اور رسول الہی تھے۔ زمین پر حجت تھے۔ لیکن لوگ ان کو بحیثیت حجت نہیں جانتے تھے۔ اس کا بہت اکرام اور احترام کرتے کیونکہ عزیز مصر تھے اور نیک و صالح بھی تھے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حجت کسی مسؤولیت کو قبول ہی نہ کرے اور کسی گوشہ کنار میں چھپ جاۓ، ممکن ہے میدان میں حاضر ہو لیکن لوگ اس کی حجت الہی ہونے کی حیثیت سے شناخت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد امامؑ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

ثُمَّ تَلَا: یا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ ما یَأْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُنَ.

ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔ (۷)

لوگ چونکہ انبیاء کرامؑ کی شناخت نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کا تمسخر کرتے۔ ہمارا بھی امام غائب سے رابطہ اس نوع کا ہے۔ جیسا کہ روایت کے الفاظ ہیں کہ امام لوگوں کو جانتے ہیں لیکن لوگ ان کو نہیں جانتے۔ ہم ان کو بعنوان حجت نہیں جانتے اس لیے ان سے بہرہ مند بھی نہیں ہو پاتے۔ جس طرح حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کو حجت الہی ہونے کی حیثیت سے نہ پہچانا اور ان کو صرف عزیزِ مصر سمجھتے رہے۔ ممکن ہے ہم بھی ان کو دیکھتے ہوں، ان سے ارتباط بھی قائم کیا ہو لیکن ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ وہ حجت ہیں۔ لہذا امام کا یہ فرمانا کہ ’’ہر حق کی ایک حقیقت ہے‘‘ بہت عمیق جملہ ہے۔ یا امام کا یہ فرمانا کہ ’’ہر درست عمل کے اوپر ایک نور موجود ہے‘‘ یہ اشارہ ہے کہ ہر صواب سے نور تک ہمیں پہنچنا ہے۔ کیونکہ حقیقی امام شناس اور حجت شناس وہ ہے جس کے لیے اشارہ بھی کافی ہو۔ جیسے ہی اس کو کسی طرف سے اشارہ ملتا ہے فورا منتقل ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی ظاہر کو دیکھتا ہے اس کے باطن تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ قدرت انسان کو ایسے ہی نہیں مل جاتی بلکہ طہارت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک مرحلہ اس کا علمی بصیرت پیدا کرنا ہے جو کہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں بلکہ علم کے ساتھ باطنی طہارت کا حصول بھی ضروری ہے۔

دوران ظہور۔ خالص سازی کا محور

 ایک اہم نکتہ جو اس موضوع میں بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ ظہور میں خالص سازی کا محور اغیار ہیں، نا کہ خالصان۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ خالص سازی خالصان کی ہوگی اس کا مطلب یہ ہے کہ خالص سازی کی اساس خالص افراد ہونگے۔ لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ اس خالص سازی سے اغیار جدا ہونگے اس کی اساس ناخالص افراد قرار پائیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی بھی خود کو راہ ہدایت سے دور نہیں کرتا، شیطان کی نگاہ اس کے برعکس ہے۔ شیطان کی نگاہ یہ ہے کہ اصل خالصان کی جدائی میں ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں شیطان کا مؤقف اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے:

قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ إِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ.

کہنے لگا: مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔ ان میں سے سواۓ تیرے خالص بندوں کے۔ (۸)

اللہ تعالی نے اس کے جواب میں فرمایا:

إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ.

 جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔ (۹)

شیطان کی نظر میں اصل ہلاکت پر ہے۔ لیکن اللہ تعلی کی نظر میں اصل ہدایت پر ہے۔ زمانہ ظہور کی خالص سازی کے جریان میں بقیہ ہلاک نہیں ہونگے۔ ان میں جو نجات پائیں گے یہ سابقون ہونگے۔ باقی نچلے درجے کے طبقات میں رہ جائیں گے۔ ہلاک ہونے والے چند گروہ ہونگے جو جدا ہو جائیں گے۔ وارد ہوا ہے کہ مبطلون افراد خالص سازی کے بعد جدا ہو جائیں گے۔ اس قدر شدید حوادث پیش آئیں گے کہ منحرفین خود ہی مخلصین سے جدا ہو جائیں گے۔ 

نورانیتِ امام کا حصول

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِیمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَسْبَاطٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْکَابُلِیِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ(ع) عَنْ‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ تَعَالَى‏– «فَآمِنُوا بِاللَّهِ‏ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذِی أَنْزَلْنا» فَقَالَ یَا أَبَا خَالِدٍ النُّورُ وَ اللَّهِ الْأَئِمَّةُ ع یَا أَبَا خَالِدٍ لَنُورُ الْإِمَامِ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ أَنْوَرُ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِیئَةِ بِالنَّهَارِ. 

ابو خالد کابلی کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ سے اس قول تبارک و تعالی «فَآمِنُوا بِاللَّهِ‏ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذِی أَنْزَلْنا» کی تفسیر معلوم کی۔ امام نے فرمایا اے ابا خالد! خدا کی قسم نور سے مراد آئمہ معصومینؑ ہیں۔ اے ابا خالد مومنین کے دل میں آئمہ کا نور دن میں چمکتے ہوۓ سورج کے نور سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔(۱۰)

ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو چمکتے سورج کے نور کو نہ دیکھ سکتا ہو؟ امام فرماتے ہیں کہ وجود امام کا نور سورج کے نور سے بھی قوی تر ہوتا ہے پھر ہماری آنکھیں اس نور کو کیوں نہیں دیکھ رہیں؟ شاید ہم «سیعمی» ہو گئے ہیں۔ انحرافات نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔ ورنہ اگر امام کی بات درست ہے جو کہ سو فیصد درست ہے تو ہمیں امام کا نور نظر آنا چاہیے تھا۔ اگر ابو ہارون مکفوف امام کو نابینائی کی حالت میں دیکھ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام کا نور ساطع ہے، معلوم ہوتا ہے امام حقیقت میں قلوب میں رہتے ہیں۔ امام کی تبعیت انسان کے قلب میں ایک ربط ایجاد کر دیتی ہے اور جب یہ ربط بن جاتا ہے نور امام سورج کے نور سے بھی روشن تر دکھائی دیتا ہے۔ اسی روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

وَ هُمُ وَ اللَّهِ یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِینَ.

اور خدا کی قسم! وہ (آئمہ) مومنین کے قلوب کو منور کر دیتے ہیں۔

اگر ہم مومن ہیں تو یا تو یہ نور ہمارے اندر موجود ہے اور ہمیں اس کے ہونے کا علم نہیں۔ ہدایت کے نور کو اعمال اور اپنے قلوب میں پاتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ نور امام ہے۔ یا کم از کم اس نور کا کمترین درجہ ہمارے قلوب میں موجود ہے لیکن اس کے بارے میں بھی علم نہیں رکھتے کہ یہ نور امام ہے۔ خود یہ بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔ انسان کے اعمال صالح اس کے دل میں نور پیدا کرتے ہیں، دل میں نور کا ایجاد ہونا یعنی امام کا ہمارے دل میں وارد ہونا اگر انسان اس حالت کو درک کر لے تو یقینا منقلب ہو جاۓ گا۔ اس کی حالت یقینا متغیر ہو جاۓ گی اور احساس کرے گا کہ امام نے اس کے دل میں اپنے قدم مبارک رکھے ہیں۔ اس وقت انسان اس نور کی حفاظت کرے گا۔ اور یہی مطلوب ہے اگر انسان جان لے کہ ہرعمل صالح «یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ اَلْمُؤْمِنِینَ» اس کے قلب کو نورانی کر دیتا ہے یہ احساس بہت لذت بخش ہے۔ مثلا کہا جاۓ کہ رہبر معظم آپ کے گھر تشریف لا رہے ہیں۔ انسان اپنے گھر کو صاف ستھرا کرے گا اور ہر میل کچیل سے اس کو پاک کرے گا۔ کیوں؟ کیونکہ ایک بہت ہی معزز ترین مہمان اس کے گھر آ رہا ہے۔ عمل صالح کا انجام دینا بھی یہی صورت رکھتا ہے۔

امام کا قلب مومن میں ورود

ہم اعمال انجام دیتے ہیں لیکن اس بات پر ایمان نہیں رکھتے کہ اس عمل سے امام ہمارے قلب میں داخل ہو گئے ہیں۔ عمل کو صرف اس کے عمل ہونے کی حد تک دیکھتے ہیں۔ اس لحن اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے جو امام «لکل صواب نورا» اس جملے میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایک درست عمل انجام دیتے ہیں یعنی امام سے مرتبط ہو گئے ہیں۔ اور امام کا نور «یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ اَلْمُؤْمِنِینَ» ایسا نور ہے جو مومنین کے قلوب کو منور کر دیتا ہے۔ لیکن ہم اسے نہیں دیکھتے۔ یہ نہ دیکھنا بہت بڑا خسارہ ہے۔ روز قیامت جب سب حضرت کی محضریت میں ہونگے اس وقت اس آیت مجیدہ کے مصداق بن جائیں گے۔

یَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِی جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِینَ.

 افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔(۱۱)

ہم خدا کے پاس ہی محشور تھے لیکن جس کو نہ دیکھا وہ خود خدا ہی تھا۔ ہم خدا کے پاس تھے لیکن اس کو اپنے پاس قرار نہ دیا۔

هُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُم.

تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔(۱۲) اور یہ معیت امام کے وجود کے ساتھ اپنا معنی کامل کرتی ہے۔ پہلی روایت کو اگر اس روایت کے ساتھ ضمیمہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ قلب کو عمل صالح سے نورانی کیا جا سکتا ہے۔ امام اسی عمل صالح کی انجام دہی سے قلب میں وارد ہوتے ہیں۔ مطلب جب امام حکم دیتے ہیں اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو امام تمامِ وجود کے ساتھ ہمارے قلب میں وارد ہو جاتے ہیں۔ ہم صرف عمل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس لحن اور جملے کے عمق کو نہیں سمجھ رہے ہوتے، اگر ہماری آنکھیں کھل جائیں اور اس کو دیکھ لیں تو ہماری حالت متغیر ہو جاۓ گی۔ ساری عمر ہم نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور اعمال صالحہ انجام دیے، امام کے ساتھ محشور تھے ان کی معیت میں تھے لیکن ہم نہیں سمجھے اور ہمیشہ کہتے رہے کہ ہمارے امام کہاں ہیں؟ ہمارا یہ کہنا ہی ہمارے اندھے پن کا ثبوت ہے۔ کیونکہ امام تو غائب ہی نہیں ہیں۔ ایک اور روایت میں بھی اسی طرح سے وارد ہوا ہے کہ سب اعمال صالحہ جو ہم انجام دیتے ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم امام کے ساتھ محشور ہو جائیں۔ لیکن ہم ان سب اعمال صالحہ کو امام سے جدا دیکھتے ہیں۔ 

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ یہ قدرت، فہم و شعور اور ارتباط با امام ہمیں نصیب فرماۓ۔ اور یہ غیبت، فرج انفسی و شخصی میں تبدیل ہو جاۓ۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ للنعمانی، ص۱۴۱۔

۲۔ الحویزی، عبد علی، تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۲۱۴۔

۳۔ توبہ: ۶۱۔

۴۔ بقرہ: ۲۱۳۔
۵۔ بقرہ: ۳۶،۳۷۔

۶۔ بقرہ: ۳۸۔

۷۔ یس: ۳۰۔

۸۔ ص: ۸۲،۸۳۔

۹۔ حجر: ۴۲۔

۱۰۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۹۵۔

 ۱۱۔ زمر: ۵۶۔

۱۲۔ حدید: ۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 March 22 ، 10:12
عون نقوی