بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۰}

اصلِ عدم ولایت

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو ولایت حاصل نہیں ہے۔ اسے اصلِ عدم ولایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ شیعہ مکتب اور اس کے نظریات کو سمجھنے کے لیے اس اصل کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ شیعہ قائل ہے کہ ولایت حقیقی طور پر اللہ تعالی کو حاصل ہے اور کسی ذات کو اس وقت تک ولی نہیں مانا جاۓ گا جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہو جاۓ کہ اس ذات کو اللہ تعالی کی طرف سے ولایت حاصل ہے۔

عدمِ ولایت کی تشریح

ولایت کی تمام اقسام کا حقیقی مالک اللہ تعالی ہے۔ چاہے وہ ولایت بمعنی معاشرے کی مدیریت کرنا ہو، قرب الہی کے معنی میں ہو، یا معجزہ دکھانے اور صاحب کرامات ہونے کے معنی میں ،یہ سب ولایتیں جس ذات کو بھی حاصل ہوں وہ ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے عطا کی گئی ہیں۔ ولایت کے بارے میں قاعدہ کلیہ ہمیشہ یہ ہے کہ حقیقت میں یہ کسی کو بھی حاصل نہیں مگر یہ کہ ایسی ادلہ سے ثابت ہو جاۓ جن کا انکار کرنا عقلی طور پر ناممکن ہو۔ اللہ تعالی نے باپ کو گھر میں ولی بنایا ہے۔ باپ اپنی طرف سے اولاد کے لیے کوئی حق نہیں رکھتا، بلکہ یہ حق اس کو اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اس لیے اللہ تعالی کے احکام کے دائرہ میں رہتے ہوۓ وہ ولی ہے اگر باپ کوئی ایسا کام کرنے کا حکم دیتا ہے جو گناہ ہو یہاں پر اس کی ولایت ساقط ہو جاتی ہے۔ مطلب باپ کی ولایت ذاتی و مستقل نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے حاکم شرع کو امور حسبیہ میں ولایت دی ہے، یا ولی فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے کی ولایت دی ہے یہ سب ولایتیں در اصل اللہ تعالی کو حاصل ہیں۔ اگر اللہ تعالی کسی کو ولایت عطا کر دے بس وہی ولی ہے ورنہ کوئی بڑا کسی چھوٹے پر، کوئی سید کسی امتی پر، کوئی سفید کسی کالے پر، کوئی امیر کسی فقیر پر کسی قسم کی ولایت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی نے سب کو آزاد خلق کیا ہے اور اسے یہ اجازت بھی نہیں دی کہ کسی ایسے انسان کی ولایت میں قرار دے جو اللہ تعالی کی طرف سے ولایت کا حق نہیں رکھتا۔ 

آئمہ معصومینؑ کی ولایت

اصل عدم ولایت کا ضابطہ کس مورد میں جاری ہوتا ہے؟ آیا آئمہ معصومینؑ کی ولایت میں بھی اصل یہی ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں چند اصطلاحات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلا آپ کہتے ہیں کہ تمام علماء کرام کا احترام کرنا چاہیے۔ کچھ دیر بعد آپ کہتے ہیں کہ جو فاسق عالم ہو اس کا احترام نہیں کرنا۔ پہلی دفعہ جو آپ نے بات کی وہ عمومیت رکھتی تھی اس میں عادل اور فاسق دونوں قسم کے علماء شامل تھے۔ لیکن دوسری بات کہہ کر آپ نے دائرہ محدود کر دیا اور کہا کہ صرف ان علماء کا احترام کرنا ہے جو فاسق نہ ہوں۔ اسے کہتے ہیں عمومی بات کو ایک اور کلام کر کے تخصیص لگا دینا۔ پہلے احترام کے حکم کو تعمیم حاصل تھی اب تخصیص حاصل ہو گئی۔ دوسری بات کرنے کے بعد احترام کرنا صرف عادل علماء کے ساتھ خاص ہو جاۓ گا۔ ایک مرتبہ آپ کہتے ہیں کہ سب طالب علم امتحان کے لیے تشریف لے آئیں۔ ایک فرد امتحان پر نہیں آتا۔ تو کوئی پوچھتا ہے کہ فلاں شخص امتحان دینے کیوں نہیں آیا تو آپ کہتے ہیں کہ وہ تو طالب علم ہی نہیں ہے۔ یہاں پر وہ شخص آپ کی بات سے تخصصا خارج ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ پہلی مثال میں فاسق اور عادل دونوں عالم شامل تھے، لیکن آپ نے فاسق علماء کو تخصیصی حکم لگا کر خارج کروا دیا۔ لیکن دوسری مثال میں بات ہی صرف طلاب کی ہو رہی تھی اور جو طالب علم نہیں ہے وہ آپ کی بات سے تخصصا خارج تھا۔ اس مثال کے سمجھ لینے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ کی ولایت بھی عدم ولایت کے قاعدے سے تخصیصا خارج ہے یا تخصصا؟ قرآن کریم سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ حقیقی طور پر ولایت صرف اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور اس کے علاوہ ہر ذات ولایت سے تخصصا خارج ہے۔ درست ہے کہ امامؑ کو اللہ تعالی کی طرف سے ولایت عطا ہوئی ہے، لیکن یہ ان کی ذاتی ولایت نہیں ہے۔

لزومِ اطاعت از ولی

ولایت کی ایک قسم معاشروں کی مدیریت کرنا ہے۔ جس شخص کو یہ حق حاصل ہو جاۓ اب اس کی اطاعت کرنا بھی واجب ہوگا۔ مثلا جب امام حکم دے کہ جنگ پر چلو تو یہاں پر کوئی بھی عذر پیش نہیں کرسکتا کہ میں جنگ پر نہیں جا سکتا۔ چاہے وہاں پر اس کا کوئی مالی و جانی نقصان ہو رہا ہو ولی کی اطاعت واجب ہوگی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں اگر جنگ پر جاتا ہوں تو گھر اکیلا ہو جاۓ گا بچے یتیم ہو جائیں گے قابل قبول نہ ہوگا۔ ہم نے آئمہ معصومینؑ کی ولایت کو کبھی اس جہت سے نہیں دیکھا، کیونکہ کبھی عملی طور پر یہ مسئلہ پیش بھی نہیں آیا اس لیے امام کی ولایت کو بہت آسان سمجھتے ہیں۔ ہمارے زمانے کے امام غائب ہیں اس لیے اس امتحان میں ہم کبھی نہیں پڑے اور آسودہ ہیں۔ با الفاظ دیگر ولایت کا لازمہ بہت سخت ہے جان کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ولایت بہت سنگین امر ہے اس لیے اس بات کا ثابت کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ جس شخص کے کہنے پر ہم اپنی جان قربان کر رہے ہیں آیا وہ واقعی اللہ تعالی کی طرف سے ولایت رکھتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر ولایت ہی نہیں رکھتا تو بھلا کیوں اس کو اتنی بھاری ذمہ داری دے دی جاۓ اور اس کی اطاعت واجب قرار دی جاۓ؟ اس لیے اس امر کو ثابت کرنے کے لیے بھی ہمیں ظنی دلیلوں کی نہیں بلکہ قطعی و یقین آور دلیلوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:
«إِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا».
ترجمہ:  ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا۔[1]
ہم ولایت کو ظنی دلیل سے نہیں بلکہ قطعی دلیل سے ثابت کریں گے۔ کیونکہ یہاں مسئلہ فعل مکلف کا نہیں بلکہ فعل خدا کو ظاہر کرنا ہے۔ فعل مکلف میں ظن معتبرہ بھی حجت بن سکتے ہیں لیکن فعل خدا کے لیے نہیں۔ اس لیے ہمیں قطعی دلیل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اللہ نے کسی ذات کو ولایت دی ہے یا نہیں؟ اس کے لیے خبر واحد یا ایک دو حدیثیں کافی نہیں ہیں بلکہ قطعی دلیل لانا ہوگی۔ اور جب قطعی دلیل سے ثابت ہو گیا تو پھر اس کے نتیجے میں ایسے شخص کی اطاعت کرنا بھی لازم ہوگا۔

دلیل کی صورت میں اختلاف

انسان گمراہی اور ہدایت کے راستے میں سے جس راستے کو بھی چنے وہ اختیار رکھتا ہے۔ اس میں اس کا اپنا فائدہ اور نقصان ہے۔ لیکن اس کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ معاشرے میں گمراہی پھیلاتا پھرے۔ اگر خود گمراہ ہو کر مرنا چاہتا ہے تو بسم اللہ گمراہ ہو کر مرے، لیکن دوسروں کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر اس کے نظر یہ سے اسلامی معاشرے کا امن و امان خراب ہوتا ہے اور گمراہی پھیلتی ہے تو وہاں پر اسے روکا جاۓ گا۔ اس لیے فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میرے نزدیک ولایت فقیہ ثابت نہیں ہے تو وہ معذور ہے لیکن اس بنا پر وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے نظریاتی اختلاف کی بنا پر معاشرے کا امن و امان خراب نہیں کر سکتا۔ دشمن کو نفوذ کا موقع دینا اور اسلامی حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانا حرام ہے۔[2] 

تواتر ۔ایک قطعی دلیل

معلوم ہوا کہ جب اصل عدمِ ولایت ہے تو ایسی صورت میں اگر ہم کسی کے لیے ولایت کے ہونے کو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں تو ہمیں قطعی دلیلوں سے ثابت کرنا ہوگا۔ احتمالی دلیلوں کی بنا پر یا بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں اس بنا پر ولایت فقیہ ثابت نہیں ہو سکتی۔ ایسی دلیل لانی ہوگی جس کے غلط ہونے پر ایک فیصد احتمال موجود نہ ہو۔ مثلا تواتر قطعی دلیل ہے۔ آئمہ معصومینؑ کا ہمارا امام ہونا اور ان کا صاحبِ ولایت ہونا قطعی دلیل سے ثابت ہے۔ جب ایک بات تواتر سے ثابت ہو جاۓ تو وہاں علم رجال کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ حدیث کی سند اس وقت دیکھی جاتی ہے جب اس کی مخالف جہت کا احتمال موجود ہو، جبکہ تواتر سے مخالف جہت کا احتمال ختم ہو جاتا ہے اور انسان کو یقین حاصل ہو جاتا ہے۔ یہاں پر یہ نہیں کہا جاۓ گا کہ ایک صحیح السند حدیث لے آؤ! نہیں! صحیح السند حدیث کی ضرورت نہیں ہے۔ خبر ہمیں اتنے کثیر ذرائع سے پہنچی ہے کہ ہمیں اس تعداد سے ہی یقین حاصل ہو جاتا ہے بے شک ان میں سے بعض ذرائع جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔

تواتر کی مثال 

مثلا خبر دی جاتی ہے کہ امریکہ ذلیل و خوار ہو کر شکست تسلیم کرتے ہوۓ مشرق وسطی سے نکل گیا ہے۔ آپ بی۔بی۔سی کھولتے ہیں وہاں پر خبر کو گھما پھرا کر بیان کیا جا رہا ہوتا ہے بہرحال یہ سمجھ آجاتی ہے کہ امریکہ نکل گیا ہے۔ اس کے بعد آپ سی۔این۔این کھولتے ہیں وہاں پر بھی دکھایا جا رہا ہوتا ہے کہ امریکی انخلاء جاری ہے اور خبر کا عنوان یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطی سے جا رہا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ یہ دونوں تو استعماری چینل ہیں اور کبھی بھی سچ نہیں بولتے۔ اکثر جھوٹ بولتے ہیں تو آپ پاکستانی چینلز کھول لیتے ہیں۔ وہاں آپ دیکھتے ہیں کہ تمام پاکستانی سرکاری و نجی چینل یہی بات کہہ رہے ہیں۔ یہاں پر آپ تھوڑا سا احتمال دیتے ہیں کہ ہاں بات سچ ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد آپ ایرانی اور عربی چینلز کھولتے ہیں، حزب اللہ کا المنار چینل کھولتے ہیں ان سب پر بھی یہی کہا جا رہا ہوتا ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطی میں بدترین شکست اور افواج کا انخلاء جاری۔ جیسے جیسے آپ کی خبر کے ذرائع بڑھتے جا رہے ہیں آپ کا شک رجحان اور رجحان یقین میں بڑھتا جا رہا ہے۔ اگلے دن آپ تمام اخبار کی سرخیوں میں بھی یہی خبر دیکھتے ہیں۔ بالآخر ایک جگہ پر آپ کو پورا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اتنے سارے چینلز سب مل کر ایک متفقہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ خاص طور پر اگر ان میں دشمنوں کے اپنے چینلز بھی شامل ہوں۔ اسے تواتر کہتے ہیں۔ ہم بہت سی چیزوں کو تواتر کی وجہ سے قبول کیے ہوۓ ہیں۔ مثلا گزشتہ ادوار میں گزرنے والے مصنفین کی تالیفات کو ہم نے خود تو نہیں دیکھا۔ تواتر کے ذریعے ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ مثلا الکافی شیخ کلینیؒ نے لکھی ہے، صحیح البخاری کو امام بخاری نے لکھا ہے۔ فلاں شے فلاں سائنسدان کی اختراع ہے۔ یا حتی بہت سے شہروں کے وجود کو بھی ہم نے تواتر کی وجہ سے قبول کیا ہوا ہے۔ ہم نےدنیا بھر کے تمام شہر تو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے لیکن پھر بھی ہم ان کو مانتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ تواتر کی حد تک اس شہر کے بارے میں ہم تک خبریں پہنچی ہیں۔ آئمہ معصومینؑ کی ولایت بھی تواتر سے ثابت ہے۔ ورنہ عقل یہ بات تو تشخیص نہیں دے سکتی کہ لاکھوں افراد میں امام کون ہے؟ عقل امام کے ہونے کو تو درک کر سکتی ہے لیکن یہ درک نہیں کر سکتی کہ امام کون ہے۔ ہاں عقل معیار کو درک کر سکتی ہے مثلا اگر ایک شخص امامت کے تمام معیاروں پر اتر رہا ہے عقل اس کو درک کر لے گی۔ اسی معیار کے تحت عقل آج بھی درک کر سکتی ہے کہ امام یا اس کا نائب کیسا ہو؟ 

ولایت فقیہ پر تین ادلہ

ہمارے پاس ولایت فقیہ پر تین قسم کی قطعی ادلہ ہیں۔
۱۔ محض عقلی دلیل: اس دلیل کے تمام مقدمات عقلی ہیں اور کہیں پر بھی نقل سے استفادہ نہیں کیا گیا۔
۲۔ محض نقلی دلیل: اس دلیل کے تمام مقدمات نقل یعنی قرآن کریم و روایات سے لیے گئے ہیں۔ 
۳۔ عقل و نقل سے مرکب دلیل: اس دلیل کے بعض مقدمات عقلی ہیں اور بعض نقلی ہیں۔ یا مقدمات نقل سے لیے گئے ہیں اور ان پر حکم عقل نے لگایا ہے۔ان تین ادلہ کی بنا پر ولی فقیہ کی ولایت ثابت ہوتی ہے۔[3]

منابع:

↑1 یونس: ۳۶۔
↑2 سائٹ خبر آنلائن۔
↑3 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:49
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۹}

ولایت و امامت اہل تصوف کی نظر میں

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

مسلمانوں کے درمیان اختلافی ترین موضوع امامت رہا ہے۔ اس مسئلے پر کئی جنگیں و کشت کشتار ہوا۔ امت کا حاکم کون ہوگا؟ امت کس کی قیادت میں چلے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر امت شیعہ سنی میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ سنی اس بات کے قائل ہوۓ کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یا رسول اللہﷺ نے ہماری اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی۔ لذا امت کسی بھی روش کو اختیار کرتے ہوۓ اپنا حاکم انتخاب کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس شیعہ اس معاملے میں اصول و ضوابط اور قرآنی معیار لاتا ہے۔ قرآن کریم مکمل نظام دیتا ہے اور اس نظام کی تشریح رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی۔ اسی تسلسل میں غدیر خم کے مقام پر اسلامی معاشرے کا ولی، ہادی، مدیر و امام معین کیا گیا۔ اہل تشیع ۱۲ویں امام تک اسی نظام کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن سوال ۲۶۰ ہجری میں پیدا ہوتا ہے جب امام معصوم و متعین الہی حاکم پردہ غیبت میں چلا جاتا ہے۔ غیبت کے بعد سیاسی نظام کیا ہوگا؟ کیا قرآن کریم اور مکتب تشیع نے اس حوالے سے بھی کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ اگر غیبت میں فتوی اور قضاوت کا نظام موجود ہے تو کیا سیاسی نظام بھی موجود ہے یا نہیں؟ اگر ۲۶۰ ہجری کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے کوئی معین سیاسی نظام موجود نہیں ہے تو یہی بات تو اہل سنت بھی کرتے ہیں لیکن وہ یہ بات سال ۱۱ہجری کو کرتے ہیں اور ہم یہی بات ۲۶۰ ہجری کو کر رہے ہیں۔ اگر مان لیا جاۓ کہ دین نے ۲۶۰ ہجری کے بعد سیاسی نظام بیان نہیں کیا،حاکم کے انتخاب کا کوئی معیار بیان نہیں کیا تو نہائی طور پر شیعہ سنی ہر دو ۲۶۰ ہجری کو اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ دین اسلام سیاسی نظام نہیں رکھتا۔ جبکہ یہ بات درست نہیں۔ اہل تشیع جس طرح سے ۱۱ہجری اس بات کا قائل تھا کہ دین نے باقاعدہ حاکمیت و سیاست کا نظام بیان کیا ہے ۲۶۰ ہجری بھی اس بات کا قائل ہے کہ جو ضرورت ۱۱ہجری کو تھی وہی ضرورت اس وقت بھی باقی ہے اور اب بھی اللہ تعالی نے نظام قرار دیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے علم میں یہ بات تھی کہ ۱۲ویں حجت غائب ہوگی۔ تو اس وقت غیبت میں سیاسی نظام کیا ہوگا؟ امت کی ہدایت کس کے ذمہ ہوگی؟ مسلمانوں کی مدیریت کون کرے گا؟ اگر یہ بات اللہ تعالی کے علم میں تھی اور پھر بھی اس نے اہتمام نہیں کیا تو اس کی بازگشت اس بات پر ہوتی ہے کہ نعوذباللہ اللہ تعالی کی ذات میں نقص لازم آۓ۔

ولایت و امامت کی ادھوری تفسیر

امت کی ہدایت و مدیریت کے لیے اللہ تعالی نے امامت کا نظام رکھا ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد ۱۲ امام حقیقی طور پر امت کے شرعی حاکم اور ان پر ہادی ہیں۔ ۱۲ویں امام کے بعد نیابت کا نظام ہے۔ اب نائبین کی ذمہ داری ہے کہ جو کام امام نے کرنا ہے اپنے تئیں وہ فریضہ انجام دیں اور امت کی مدیریت کریں۔ افسوس کے ساتھ امت کے ساتھ ایک مسئلہ شروع سے پیش آیا جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ اور یہ کہ امامت کا صحیح معنی امت پر واضح  نہیں ہو سکا۔ غدیر خم میں جب امام کا تعین ہوا تو اکثریت نے کوئی اور ہی معنی سمجھ لیا۔ اہل تشیع کے ہاں بھی یہ مسئلہ پیش آیا۔ امامت کا معنی ۱۲ اماموں کی ذوات تک تو صحیح کرتے ہیں لیکن جب باری آتی ہے نائبین امام کی تو وہاں پر امامت کا معنی صرف فتوی بیان کرنے اور قضاوت کے لیے مانتے ہیں۔ حاکمیت و اجتماعی طور پر امت کی مدیریت میں امامت کا معنی نہیں کرتے۔ ہمارے علماء اور اہل منبر نے یہ معنی بہت قلیل بیان کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں امامت کا معنی ایک روحانی مقام کیا جاتا ہے۔ امام کو ایک ایسی شخصیت سمجھا جاتا ہے جو عرفان کے اعلی مقامات پر فائز ہے، کرامات اور معجزے دکھا سکتا ہے اور اللہ تعالی کے بہت قریب ہے۔ یہ معنی درست ہے لیکن یہ معنی صرف امام کی ولایت تکوینی کی جہت کو بیان کر رہا ہے۔ جبکہ امام کا حقیقی معنی حاکم ہے۔ چونکہ برصغیر کے مسلمانوں پر اہل تصوف کے تفکر کی ایک گہری چھاپ موجود ہے اور کوئی بھی فرقہ اس سے استثناء نہیں ہے۔ ان مناطق میں زیادہ تر صوفیاء نے تبلیغات انجام دیں اور اسلام کو پھیلایا۔ اہل تصوف نے امام کا یہی معنوی معنی کیا ہے۔ شیعہ بھی اپنے منبر سے آئمہ معصومینؑ کی اسی معنوی جہت اور فضائل کو بیان کرتا ہےلیکن ان کی حاکمیت شرعی کا بیان بہت قلیل کرتا ہے۔

صوفیاء کی تبلیغ کا اثر

ہم یہ نہیں کہتے کہ جو اسلام صوفیاء نے تبلیغ کیا وہ سو فیصد غلط تھا۔ یا جو معنی امامت کا بیان کیا وہ درست نہیں۔ سب مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ آئمہ معصومینؑ کو عظیم مرتبہ و مقام حاصل ہے جو کسی کو بھی حاصل نہیں۔ اہل تشیع اسے رسول اللہﷺ کی صحیح السند احادیث کی بنا پر قبول کرتے ہیں اور صوفیاء اس حقیقت کو کشف و شہود سے درک کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امامت کی حقیقیت یہی ہے؟ کیا امام کا معنی با فضیلت و ایک معنوی شخصیت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف یہی حقیقت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امام کی اس حقیقت کی طرف بھی توجہ ہونا ضروری ہے کہ امام وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے امت کا حکمران ہو۔ امت کے اجتماعی و سیاسی مسائل کی مدیریت کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف عبادت کرنا، اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ریاضتیں کاٹنا، معجزے دکھانا نہیں۔ امام کا کام صرف فقہی احکام بیان کرنا اور درس و تفسیر بھی نہیں بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ امت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے، زمانے کے طواغیت سے امت کو نجات دے اور ان پر الہی قوانین کے مطابق حکومت کرے تاکہ امت ہدایت کے راستوں پر چل سکے۔ امامت اس کو کہتے ہیں۔ یہ وہ معنی ہے جسے صوفیاء بیان کرنے سے کتراتے ہیں بلکہ شیعہ بھی اس معنی کو بیان کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔

امامت کا معنی بدلنا

امامت ایک معنوی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ، سیاسی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہﷺ نے غدیر کے مقام پر امام علیؑ کے بلند معنوی مقام کو بیان کرنا نہیں چاہ رہے تھے بلکہ ان کے سیاسی طور پر امت کے مدیر ہونے کا اعلان فرمارہے تھے۔ اس لیے ہم شیعہ پہلا خلیفہ امیرالمومنینؑ کو مانتے ہیں۔ دوسرا خلیفہ امام حسنؑ اور اسی ترتیب سے ۱۲ویں امام تک امت کے رہبر و رہنما اور ان پر حکمران یہی ہیں جن کو اللہ تعالی نے منصوب کیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ کیا امامت کا نظام صرف ۱۲ویں امام کی غیبت تک تھا۔ اس کے بعد جمہوری یا بادشاہی نظام ہونگے؟ اور کیا غیبت کے بعد امامت کا معنی بدل جاۓ گا۔ نائب امام کا کام صرف فتوی دینا، قضاوت کرنا اور نماز جماعت کی امامت کرنا ہوگا؟ یہاں پر اہل تصوف کے اس معنی کی واضح چھاپ ہمیں نظر آتی ہے۔ انہوں نے معنی ہی ایسا بیان کیا جو غیر سیاسی تھا۔ شیعہ نے بھی امامت کو غیر سیاسی مان لیا۔ جبکہ امامت، امت کی سیاسی و اجتماعی باگ ڈور سنبھالنے کا نام ہے۔ شیعہ اس بات کا قائل ہے کہ ایک دن امامت کا نظام پوری دنیا پر حاکم ہوگا۔ جس طرح سے امامت کا نظام سیاسی ہے اسی طرح سے نیابت کا نظام بھی سیاسی ہوگا۔

امامت اور نیابت کا نظام

مکتب تشیع کا نظریہ ہے کہ ۱۲ویں امام اپنے بعد امت کو اپنے حال پر چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ نیابت کا نظام تشکیل دے کر گئے۔ جو ذمہ داریاں امام کی تھیں غیبت کے زمانے میں وہ ذمہ داریاں ان کے نائبین کی بنتی ہیں۔ نائب امام کے اختیارات میں اختلاف ہے۔ بعض صرف فتوی اور قضاوت کی دنیا میں نیابت مانتے ہیں سیاسی و اجتماعی مسائل میں نیابت نہیں مانتے۔ یعنی جو معنی صوفیاء نے امامت کا کیا وہی معنی ہم غیبت کے زمانے میں نیابت کا کرتے ہیں۔ صوفیاء نے کہا کہ امام کا کام صرف معجزے دکھانا اور اعلی مقامات معنوی کو کسب کرنا ہے۔ امام کا کام سیاسی مسائل میں پڑنا نہیں ہے۔ اور نیابت کا یہی معنی ہمارے بعض افراد زمانہ غیبت میں بھی قبول کیے ہوۓ ہیں۔ ان کے بقول نائب امام کا کام صرف فقہی حکم بیان کرنا ہے اس کا کام یہ نہیں کہ امت کے سیاسی و اجتماعی مسائل میں دخالت کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ فقیہ کی ذمہ داری امام کی نیابت میں صرف اتنی بنتی ہے کہ اگر اس سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھتا ہے تو اس کو بتاۓ اور اگر کوئی جھگڑے کا فیصلہ کروانے آتا ہے تو قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے تنازع کو حل کرے۔ جبکہ درست یہ ہے کہ جو معنی امامت کا ہے وہی نیابت کا بھی ہے۔ جو ذمہ داریاں امام کی ہیں وہی نائب امام کی ہیں۔ بات مقام و منزلت کی نہیں ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ نائب امام کا مقام، امام کے مقام کے آگے ہیچ ہے۔ اگر امام کی ذمہ داری صرف مسئلے بیان کرنا اور قضاوت کرنا نہیں ہے اور امت کی مدیریت کرنا ہے تو یہی صورت نائب امام کی بھی بنتی ہے۔ جو دلیلیں تقلید کے باب میں دی جاتی ہیں اور ان سے فقیہ کے فتوی دینے اور اس پر عمل کرنے کو واجب قرار دیے جانے کا کہا جاتا ہے انہیں دلیلوں کی بنا پر فقیہ کے سیاسی طور پر حاکم ہونے کو بھی ثابت کیا جاتا ہے۔ اگر معاشرے کو فقہی مسائل بیان کرنے والے فقیہ کی ضرورت ہے تو وہیں پر سیاسی طور پر ایک حکمران کی بھی تو ضرورت ہے۔ اگر دین اسلام اور ۱۲ امام کے لیے تقلید کا نظام دے کر جانا اتنا اہم تھا تو وہیں پر امت کا اجتماعی نظام بھی تو اہم تھا۔

اجتماعی مسائل کی اہمیت

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم امامت سے تقلید کا نظام تو اخذ کرلیں جو فرد کو گناہ سے بچانے اور واجبات کو انجام دینے کے لیے تشکیل دیا گیا لیکن پوری امت کے لیے سیاسی نظام نہ اخذ کریں؟ معاشرے کے اجتماعی مسائل زیادہ سنگین ہیں یا انفرادی عبادت کے مسائل؟ مثلا امت کے لیے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلاں فقہ کے جزوی مسئلے میں کیا کرے اور کیا نہ کرے یا یہ اہم ہے کہ امت کا حکمران کون ہوگا؟ یقینا اجتماعی مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اجتماعی مسائل کے آگے فرد کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہاں پر ہم مثال خود فقہاء کے فتاوی سے لاتے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ امت کا اجتماعی نظام زیادہ اہم ہے یا فقہی مسئلہ۔ مثلا مسلمانوں کے لشکر کا کسی کے کھیتوں سے نکلنا بہت ضروری ہو اور اگر وہ وہاں سے نہ نکلے تو نا صرف لشکر کو نقصان ہوگا بلکہ جنگ ہارنے کا خدشہ ہے۔ اب یہاں پر کیا کیا جاۓ؟ کسان کے کھیت کو اور اس کی فصل کو بچایا جاۓ یا لشکر کو؟ کیونکہ اگر لشکر وہیں سے نکلتا ہے تو اس شخص کا نقصان ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ اس زمین سے گزریں کیونکہ یہ میری ملکیت اور حق ہے۔ اب یہاں پر ایک شخص کا انفرادی نقصان ہے اور دوسری طرف امت کا اجتماعی طور پر نقصان۔ فتاوی بھی یہی کہتے ہیں اور عقل بھی یہی مانتی ہے کہ اس شخص کا ذاتی نقصان ہونے دیا جاۓ گا اور معاشرے کو اجتماعی نقصان سے بچایا جاۓ گا۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل کی یہ اہمیت ہے۔ ہمیں امامت سے انفرادی مسائل بھی نکالنے ہیں اور اس کے لیے فقہ کا علم ہے۔ ساتھ ہمیں امت کی اجتماعی مدیریت کے لیے امامت سے سیاست کو بھی استنباط کرنا ہے تاکہ اجتماعی مسائل کا شکار نہ ہوں۔ امامت کو صوفیاء کی نظر سے نہیں دیکھنا بلکہ تمام جہات سے دیکھ کر اس سے اپنی ہدایت کا سامان لینا ہے۔

اجتماعی مسائل میں اجتماعی نگاہ کی ضرورت

اگر ہم دین، معاشرہ اور انسان کے مسائل کو صرف فقہ کی جہت سے دیکھیں تو کبھی بھی فلاح نہیں پائیں گے۔ دین جہاں پر آپ کو فقہ اور قضاوت کے باب میں ہدایت کرتا ہے وہیں سیاسی و اجتماعی مسائل میں رہنمائی کرتا ہے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم دین سے اجتماعی مسائل کا حل استنباط کریں۔ اور یہ نا کہیں کہ غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داری ہی نہیں بنتی۔ کربلا میں جب داعش پہنچی تو ہمارے بعض مراجع نے فقہ سے یہ راہ حل استنباط کیا کہ ابھی ہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کیونکہ ہم نجف میں بیٹھے ہیں اور جب داعش نجف پہنچے گی تو موضوع محقق ہوگا تو دفاع واجب ہوگا۔ تو ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ گھوڑوں اور تلواروں کا دور نہیں ہے، جنگ بغداد میں ہو رہی ہے اور دشمن ایک بٹن دباۓ گا کوئی بھی شہر عراق کا نابود ہو جاۓ گا۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل میں ہمارے پیچھے رہ جانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے ۲۶۰ ہجری کے بعد امامت اور اس کے ذیلی نظام نیابت کو غیر سیاسی کر دیا۔ اور کہا کہ ہماری ذمہ داری اجتماعی مسائل میں مداخلت کرنا نہیں، ہماری ذمہ داری دفاع کرنا نہیں، ہماری ذمہ داری امت کے سیاسی و اجتماعی مسائل کی مدیریت کرنا نہیں بلکہ صرف فتوی دینا فریضہ ہے۔ یہ شبہات ہیں۔ یہ ناقص دین ہے جو پھیلا دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ طواغیت و ظالمین کے تابع رہیں۔ وہ ان پر ظلم و ستم کریں اور یہ فریضہ سمجھ کر خاموش رہیں۔ یا یہ سوچتے رہیں کہ ہم سیاسی امور میں مداخلت کریں یا نہ کریں؟ ہم اخبار پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ اخبار پڑھنے کا زیادہ فائدہ ہے یا فقہ کی کتاب پڑھنے کا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے یہ بات بھی علماء میں مشہور تھی کہ جو عالم منبر پر مجلس پڑھتا ہے وہ مجتہد نہیں بن سکتا۔ یہ غلط تفکرات تھے جن کو ختم کرنا ہے۔

اجتماعی مسائل میں استنباط کی ضرورت

ہمارے فقہاء کرام ماشاء اللہ اتنے با استعداد ہیں کہ انہوں نے ایک آیت «اوفوا بالعقود »سے ہزاروں فتاوی استنباط کیے ہیں۔ فقہ کے کئی ابواب میں اسی آیت سے استدلال کرتے ہوۓ ہزاروں فرعیات نکال کر فتاوی دیتے ہیں۔ لیکن یہ فقہ کی دنیا ہے جو مکلف کی انفرادی زندگی سے مربوط احکام کا حل بتاتی ہے۔ ہم اس حدیث سے استنباط کیوں نہیں کرتے جو کہتی ہے کہ«مَنْ أَصْبَحَ لا یَهْتَمُّ بِأُمورِ الْمُسْلمینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ »[1]اس حدیث سے مسلمانوں کے اجتماعی و سیاسی مسائل اجتہاد کیوں نہیں کرتے؟ مسلم ممالک کے دفاع کے امور، ان کے معاشرتی مسائل، مسلمان معاشروں کے سیاسی مسائل، اقتصادی اور امنیتی مسائل کو اس حدیث سے استنباط کرنا ضروری ہے۔ یہ کہہ کر اس فریضے سے پیچھے ہٹ جانا کہ سیاسی امور میں مداخلت کرنا فقیہ کی ذمہ داری بنتی بھی ہے یا نہیں اور یہ تو اختلافی موضوع ہے تو اس پر محنت کرنے کی کیا ضرورت؟ پھر تو توحید، رسول اللہﷺ کی ذات اور قرآن کریم میں بھی اختلاف ہے۔ پھر تو سب امور ہی اختلافی ہیں۔ آیت اللہ خوئیؒ علمی دنیا میں نادر و شاذ اقوال کو حوزہ میں شہرت دے گئے تو کیا وہ ٹھیک تھے اور ان سے پہلے والے علماء غلط؟ جی نہیں! بلکہ دلیل کو دیکھا جاۓ گا۔ اگر دلیل ہے تو مشہور کے مقابلے میں نادر قول کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ آخر کیا مسئلہ ہے کہ ہم اجتماعی مسائل سے اتنا کٹ کر رہیں؟ یہی نجف کی سرزمین اگر کسی یہودی یا عیسائی کے پاس ہوتی تو اس نے پورے شہر کو جنت بنا دینا تھا۔ لیکن ہم مدیریت کرنے میں اتنے پیچھے  ہیں کہ اس شہر کی صفائی بھی نہیں کروا سکتے۔ جب ہم نے خود کو اجتماعی مسائل سے دور کر لیا تو حالت یہ ہوگئی کہ تشیع کے مرکزی شہر کی ایک گلی تک صاف نہیں۔ بجلی ہے نا پانی ہے۔ اللہ تعالی نے قدرتی طور پر اس شہر کو خوبصورتی عطا کی ہے لیکن چونکہ ہمارے اندر معاشرہ سازی کا کوئی ایک مسئلہ بھی استنباط شدہ موجود نہیں اس لیے وہ شہر اس حالت میں ہے۔ جو حالت ایک دور دراز عام سے گاؤں کی ہے وہی حالت ایک ایسے شہر کی ہے جس میں کفایہ مکاسب پڑھنے پڑھانے والے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات قبول کرنا ہوگی کہ فقہ و اصول پڑھنے سے اور دین کو صرف ایک جہت سے دیکھنے سے معاشرے کے اجتماعی مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے دین بھی انفرادی حیثیت کا قبول کیا ہوا ہے اور ہمارا طرز تفکر بھی انفرادی ہے۔ اجتماعی شعور کی کمی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کروڑ پتی ہو اس کا گھر شیش محل ہو لیکن اس کے گھر کی گلی میں مہینوں سے بارش کا پانی کھڑا ہو۔ اس نے اپنا گھر تو سجایا ہوا ہے لیکن ایک ایسے محلے میں رہتا ہے جس کا پانی صرف سورج سکھاتا ہے ورنہ سیورج کا کوئی انتظام نہیں۔ اس سوچ کا متحمل معاشرہ جب دین کو پڑھتا ہے تو اسے بھی انفرادی سوچ سے پڑھتا ہے اور اس سے انفرادی احکام اخذ کرتا ہے۔ دین سے اجتماعی و سیاسی نظام استنباط نہیں کر سکتا۔ ایسا شخص مجتہد یا ولی فقیہ نہیں بن سکتا جس کا گھر تو صاف ہو لیکن باہر گند کے ڈھیر ہوں۔ یہ شخص عالم تو ہے لیکن مدیریت نہیں جانتا، منظم کرنا نہیں جانتا، ہمارے آئمہ معصومینؑ ایسے نہ تھے۔ نظافت، طہارت، اور گھرانے کو منظم کرنے میں بہت حساسیت دکھاتے۔ لیکن افسوس ہم نے آئمہ معصومینؑ کی اجتماعی زندگی کا تعارف ہی نہیں کروایا۔

ناقص دین اور کامل دین

اگر ہم نے کامل دین پڑھا اور سمجھا ہوتا تو یہ نہ کہتے کہ فلاں مسئلے میں دین ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ فلاں سیاسی و اجتماعی مسئلے میں ہمیں دین سے کوئی مؤقف نہیں ملتا۔ یہ کیسا دین ہے جو آپ کو انفرادی مسائل میں تو ہدایت کرتا ہے لیکن اجتماعی مسائل میں آپ کو کوئی رہنمائی نہیں کرتا؟ کیا ایسا دین کامل ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے مسائل میں نبیﷺ کا مؤقف کیا ہوتا؟ قرآن کریم کا مؤقف کیا ہے؟ کیا دین صرف ۲۶۰ ہجری تک ان مسائل کا جواب دہ ہے؟ اس کے بعد دین تعطیل ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء انفرادی مسائل میں اتنے حساس ہیں اور اس کے حل کے لیے سال ہا سال قرآن و سنت سے دینی مؤقف نکالنے کی زحمت اٹھاتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ایک فقہی مسئلے میں فتوی دینے میں کتنے سال کی زحمت موجود ہوتی ہے؟ لیکن اجتماعی مسائل میں کاملا سکوت؟ امت کے اجتماعی مسائل، امنیت میں کیا مؤقف اختیار کیا جاۓ؟ امت کو اجتماعی گناہوں سے کیسے محفوظ کیا جاۓ؟ ہمارے پاس حج کے ایک فقہی باب کا ۱۴ سالہ درس خارج موجود ہے لیکن حکومت، سیاست، اجتماعی امور پر ایک بھی درس خارج نہیں ہے۔ اجتماعی قوانین پر ایک درس بھی نہیں ہو رہا۔ ہم احکام استنباط کرنے پر زور لگا رہے ہیں اور دشمن نظام استنباط کرنے میں زور لگا رہا ہے۔ جب ہماری ساری توانائیاں احکام نکالنے میں سرف ہو رہی ہیں وہاں دشمن ہمارے لیے منصوبے بنانے میں مصروف ہے۔ کیا اس سے غیبت کی راہ ہموار ہو سکے گی؟ ولایت فقیہ کا موضوع معاشرے کی مدیریت کا مسئلہ ہے اس کو بحث کرنا ضروری ہے لیکن ہمارے بعض افراد کی پوری کوشش ہے کہ اس موضوع کو بھی انفرادی حیثیت دے دی جاۓ اور اگر دین سے کسی موضوع سے اجتماعی مسائل کا حل نکل بھی رہا ہے تو اسے بھی اختلافی موضوع بنا دیں اور اسی ناقص دین پر عمل کریں جس میں صرف چند عبادات اور احکام ہیں لیکن نظام نہیں ہے۔

جامع تفکر رکھنے والے علماء کی قلت

ہم نے سیاسی طور پر کوئی بھی تفکر رکھنا ہو یا کسی بھی طاغوت کی اطاعت کا جواز نکالنا ہو تو فورا فتوی لے لیتے ہیں۔ فتوی بھی اپنی مرضی کا مسئلہ مروڑ تروڑ کر بیان کر کے لے لیتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ اقساط میں بیان ہوا کہ معاشرے کی مدیریت و امامت اور رہبری کا موضوع اصلاً فقہی مسئلہ ہی نہیں۔ معاشرہ کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کرنے والے علماء آسانی سے آپ کو کسی بھی غیر الہی سیاسی نظام کا حصہ بننے کا جواز فراہم نہیں کر دیتے۔ وہ امامت کی تبیین پیش کرتے ہیں اور جب امامت کا حقیقی تعارف کرایا جاتا ہے تو تب بات ولایت فقیہ تک پہنچتی ہے۔ لیکن اگر امامت کا معنی ہی صوفیاء والا کیا جاۓ تب تو کبھی بھی ولایت فقیہ کی نوبت نہیں آۓ گی۔ در اصل جس شخص کو امامت حقیقی معنی میں سمجھ آ جاۓ اس کے لیے ولایت فقیہ کو سمجھنا آسان ہے۔ ہمیں انفرادی دین سے نکل کر جامع دین کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے جس میں اجتماعی مسائل کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دین اسلام نے بھی انفرادی گناہوں سے زیادہ اجتماعی گناہوں کو اہمیت دی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زنا کرتا ہے اور چار گواہ ثابت نہیں ہوتے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ کیوں؟ کیونکہ گناہ اجتماعی شکل اختیار نہیں کر سکا لیکن اگر اس کے چار گواہ ہوں تو چونکہ اب ایک حد تک گناہ اجتماعی ہو گیا ہے اور معاشرے کو متاثر کر رہا ہے اس لیے حد جاری کرنا ضروری ہے۔ دین تو کامل تھا لیکن ہم نے غفلت کی اور دین کو جامع نظر سے نہیں دیکھا۔ ولایت فقیہ در اصل ایک ایسا موضوع ہے جو سیاسی اور اجتماعی نگاہ کو دین میں واپس لاتا ہے۔ آج کے دور میں اگر آپ دین کے کامل ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو کوئی نظام پیش کرنا ہوگا جو اسلام سے آپ نے استخراج کیا ہو۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو نا آپ کا دین کامل ہے اور نا آپ کی دینی معرفت کامل ہے۔[2]

منابع:

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۱۶۳۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:47
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۸}

امامت و خلافت اہل تشیع کی نظر میں

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

شیعہ نظریہ امامت کو قرآن کریم اور صحیح السند روایات سے ثابت کرتے ہیں۔ مخالفین شیعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ نظریہ امامت شیعہ کتب سے ثابت نہیں ہے ۔ ان کے بقول شیعہ کتابوں میں بھی چند ضعیف السند روایات ہیں جن سے نظریہ امامت ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ معترضین صرف وہ روایات لے آتے ہیں جو ضعیف ہیں صحیح السند روایات نہیں لے آتے۔

نظریہ امامت پر دلیل

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
«وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هادٍ».
ترجمہ:  اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔[1]
اس آیت کے ذیل میں الکافی میں امام باقرؑ سے صحیح السند روایت وارد ہوئی ہے:
«عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع‌ فِی قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ‌ هادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْمُنْذِرُ وَ لِکُلِّ زَمَانٍ مِنَّا هَادٍ یَهْدِیهِمْ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ».
ترجمہ: امام باقرؑ سے اللہ تعالی کے قول «إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ‌ هادٍ »کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ منذر ہیں اور ہر زمانے میں ایک ہادی ہوتا ہے جو اس کی طرف لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جو رسول لاۓ۔[2]
اس کے علاوہ دیگر روایات بھی موجود ہیں جن سے نظریہ امامت ثابت ہوتا ہے۔ پس یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ نظریہ امامت شیعہ کتابوں سے ہی ثابت نہیں ہے اور شیخ صدوقؒ نے خود سے شیعی نظریات پھیلاۓ درست نہیں۔

شیعت کا معیار

شیعہ اور سنی ہونے کا معیار نظریہ امامت ہے۔ شیعہ حاکم کے انتصاب کا قائل ہے۔ اساسی ترین مسئلہ جس کی بنا پر شیعہ سنی میں فرق کیا جاتا ہے یہی مسئلہ ہے۔ اگر آج بھی کوئی شخص حاکم کے انتصاب کی بجاۓ انتخاب کا قائل ہو جاۓ وہ سنی ہو جاۓ گا۔ کیونکہ اصلی مسئلہ حاکمیت و امامت ہے۔ اگر ایک شخص خلفاء کی چار خصوصیات بیان کر دے یا ان کے حکومتی نظام کا تجزیہ تحلیل کر دے تو اس سے وہ سنی نہیں نہیں بن جاتا۔  اگر آج کوئی سمجھتا ہے کہ امت خود حاکم بنا سکتی ہے یہ سنی ازم (Sunnism)ہے۔ حاکمیت کا حق اللہ کو حاصل ہے اور حاکم کے منصوب کرنے کا حق بھی اللہ کا ہے یہ شیعت ہے چاہے وہ ۱۱ہجری ہو یا عصر حاضر کا زمانہ۔ ہمارے دین کی اساس ہی سیاسی نظریہ ہے۔ اس لیے کُل دین سیاست ہے۔ دین سیاست سے جدا نہیں ہو سکتا۔ 

 امام کی معرفت اور اس کا انتصاب

تمام شیعہ سنی علماء کا اتفاق ہے کہ وقت کے امام کی معرفت ضروری ہے۔ کیونکہ طرفین کی صحیح السند احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو جہالت کی موت مرے گا۔[3][4][5][6][7] سوال پیدا ہوتا ہے اگر زمانے کے امام کی معرفت ضروری ہے تو پھر آج کے دور کا امام کون ہے؟ اگر آج کے دور میں کوئی بھی امام نہیں ہے توپھر ہم سب کیا جہالت کی موت مر رہے ہیں؟ آج بھی اہل سنت اس سوال پر خاموش ہو جاتے ہیں۔کیونکہ جو معیار انہوں نے حاکمیت کے انتخاب کے لیے رکھا ہوا ہے پھر تو سب کو ہی ان کو قبول کرنا ہوگا؟ اگر سارے حاکم ہی قبول ہیں تو پھر ایران میں سید علی خامنہ ای کی حکومت کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ پہلے تو بتائیں آپ کے زمانے کا امام کون ہے؟ اور اگر ہر حاکم ہی زمانے کا امام ہوتا ہے تو پھر ایران کے حاکم کی اطاعت امام کی طرح اہل سنت پر فرض ہے یا نہیں؟آپ کے بقول امت جس کو حاکم بنا لے یا جو بھی جس طرح سے امت کا حاکم بن جاۓ اس کی اطاعت فرض ہے پھر ایران میں اہل سنت کو ایرانی حاکم کے سامنے سرتسلیم خم ہونا چاہیے۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ امت خود سے کوئی معیار نہیں بنا سکتی۔ بلکہ حاکم بنانا اللہ تعالی کا کام ہے۔ حقیقی حق حاکمیت اللہ تعالی کو حاصل ہے اللہ تعالی اپنی طرف سے جس کو حاکم بنا دے۔ رسول اللہﷺ نے باقاعدہ طور پر امیرالمومنینؑ کی حاکمیت کا اعلان فرمایا اور ان کو منصوب فرمایا۔حاکمیت کے مسئلے کو امت کی صوابدید پر نہیں چھوڑا۔ لیکن ایک سوال اب اہل تشیع کے لیے ہے۔ انتصاب کا معیار صرف ۲۶۰ ہجری تک کے لیے ہے یا ہر دور کے لیے ہے؟اگر ۱۱ ہجری میں حاکمیت کا مسئلہ اللہ تعالی کے ساتھ خاص اور کلامی مسئلہ تھا اور اللہ نے ہی حاکم کو منصوب کرنا تھا تو آج کے دور میں بھی یہ کلامی مسئلہ  ہے اور اللہ تعالی کا ہی حق ہے یا ۲۰۲۲ میں فقہی مسئلہ بن جاۓ گا اور ہم فتوی لے کر کسی کوبھی اپنا حاکم منتخب کر سکتے ہیں؟ بالآخر آج کے دور میں حاکمیت کا مسئلہ انتخابی ہے یا انتصابی؟اگر انتصابی ہے تو پھر تو نیابت کے نظام کو ماننا پڑے گا اور جو بھی نائب امام ہوگا اس کی اطاعت واجب ہوگی۔ 

سیاسی امور میں مداخلت اور شیعہ

امیرالمومنینؑ جب خلفاء کے دور میں تھے اور عملی طور پر ان سے حکومت چھین لی گئی تو کیا وہ اور ان کے حقیقی شیعہ ابوذرؓ، عمار، وغیرہ سیاسی نظام پر خاموش رہتے تھے یا اعتراض اٹھاتے تھے؟ اجتماعی اور سیاسی امور میں مداخلت کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے؟ اگر کرتے تھے تو کیسے آج کا شیعہ کہہ سکتا ہے کہ ہمیں سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور جب امام آئیں گے تو خود سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ ہمارا وظیفہ آج کیا بنتا ہے؟ دین کو معاشرے اور سیاست سے کاٹ دیں؟ دین کو مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کریں؟ جبکہ دین تونازل ہی معاشروں کو چلانے اور ان کی مدیریت کے لیے تھا۔ دین تو معاشروں پر نافذ ہونے کے لیے اترا تھا؟ تو کیا آج ہم دین کو معطل کر دیں؟ اگر دین کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں تو ۸۰فیصد حصہ معطل ہو جاۓ گا۔ اگر امام زمانؑ ہزار سال غیبت اختیار کرتے ہیں اور مزید ایک اور ہزار سال بھی غائب رہیں تو کیا تب تک دین معطل رہے؟ اللہ تعالی نے اسی لیے دین اتارا تھا کہ معطل رہے؟ اجراء نہ ہو؟ حوزہ جات میں بس علمی بحثیں تو ہوتی رہیں لیکن معاشرے میں نافذ نہ ہو؟ دین حاکمیت چاہتا ہے۔ الہی حاکمیت چاہتا ہے۔ ہم ایک بات کریں یا تو کہیں کہ لوگوں کو حاکم انتخاب کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ اگر حق نہیں ہے تو ۱۱ہجری میں بھی جن لوگوں نے حاکم انتخاب کیا وہ غلط تھا اور آج بھی اگر امت خود اپنا حاکم بناتی ہے تو غلط کرتی ہے۔ اور اگر حاکم انتخاب کرنے کا حق امت کو حاصل ہے تو پھر ۱۱ہجری کے زمانے میں رہنے والے لوگوں نے بھی ٹھیک کام کیا، الہی منصوب حاکم کو ترک کر کے خود حاکم چن لیااور آج بھی یہ کام جائز ہے۔

حاکم کے انتخاب کے لیے فتوی لینا

حاکم کو عوام انتخاب کرے یا اللہ تعالی حاکم کو منصوب کرے گا؟ یہ ایک کلامی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں آپ فتوی نہیں لے سکتے۔ جو فتاوی موجود ہیں ان کی حیثیت کسی اور جہت سے ہے۔ وہ اضطراری مورد کے لیے دیے گئے ہیں۔ کس حکمران کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں؟ ووٹ دینا جائز ہے یا نہیں؟ واجب ہے یا حرام یہ سب سوال کلام سے مربوط ہیں۔ کلامی مسئلے میں تقلید نہیں ہوتی۔ تشیع کی اساس واضح ہے۔ مکتب تشیع اصل میں امت یا فرد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کو اپنا حاکم بناۓ۔ یہ حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ مراجع نے جو فتاوی دیے ہیں وہ تقیہ کے مورد کو شامل ہیں۔ یہ مورد فتوی کا نہیں کیونکہ یہ بحث فقہی نہیں بلکہ کلامی ہے اور کلامی بحث میں فتوی نہیں لیا جاتا۔ جب مجتہد کو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اضطراری حالت میں ہیں اور اگر ووٹ نہ دیں تو موت واقع ہو سکتی ہے تو اس صورت میں حاکم کو انتخاب کرنے کا جواز وہ بھی اضطرار کی صورت میں جائز ہو جاتا ہے ورنہ اگر اضطراری صورت نہ ہو تو یہ حکم بھی جاری نہ ہوگا۔ مثال کے طور پر آپ پیاس سے مرنے والے ہیں اور پینے کے لیے صرف شراب موجود ہے۔ تو فتوی یہ ہے کہ اضطرار کی صورت میں اتنی شراب پی سکتے ہیں جس سے جان بچ جاۓ۔ اب یہاں پر یہ نہیں کرنا کہ پیٹ بھر کر شراب پی لیں۔ اور اگر اضطرار کی صورت ختم ہو جاۓ تو شراب ترک کرنا ضروری ہوگا۔ ہم نے سیاست سے مربوط سب مسائل کو ہی اضطراری صورت دی ہوئی ہے۔ اگر یہی روش اختیار کر لی جاۓ تو پھر تو کوئی حرام، حرام نہیں رہے گا۔ پھر تو رشوت لینا، سود کھانا، اور چوری ڈاکہ مارنا سب جائز ہوگا کیونکہ ان کو انجام دینے والا کہے گا کہ یہ سب کام نہ کروں تو میری فیملی کیسے چلے گی؟ گھر کیسے چلے گا؟ معلوم ہوا اضطراری صورت کا تعین بہت ضروری ہے۔

نظریہ امامت در تشیع

شیعہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے ہے۔ اس پر عقلی و نقلی ادلہ موجود ہیں۔ قرآن اور متواتر روایات سے اہل تشیع امامت کو ثابت کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے خلیفہ کی نسبت اپنی طرف دی ہے۔ وارد ہوا:
«إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَة».
ترجمہ:  میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں۔[8]
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ زمین پر خلیفہ بن گیا، یا لوگوں نے بنا لیا بلکہ خلیفہ بنانے کی نسبت اپنی طرف دی ہے۔ شیعہ امامت کو اصول دین میں سے قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ رویہ بھی اصول دین والا کرتے ہیں اور یہی اعتدال ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ خلیفہ یا حاکم بنانا اللہ تعالی کا کام نہیں ہے اور رسول نے بھی کسی کو اپنے بعد متعین نہیں کیا۔ شیعہ کہتے ہیں کہ معین بھی کیا اور معیار بھی بتایا۔ ایسا نہیں تھا کہ بغیر معیار کے ہی کسی کو خلیفہ معین کر دیں۔ بلکہ معیار اور ضابطہ دے کر گئے ۔کس شخص کو یہ حق ہے کہ وہ امت مسلمہ کا خلیفہ ہو؟ یہ سب دین میں موجود ہے۔ ہمارے نزدیک وہ شخصیت امیرالمومنین علیؑ ہیں۔ وہ کمالات کے مالک تھے اور امامت کی تمام شرائط کے حامل تھے۔ امت کا کام ان کو بطور حاکم قبول کرنا ہے۔ ہاں اگر قبول نہیں کرتی تو امام کو جبری حکومت کرنے کوئی حق نہیں۔ لیکن امت حق حکمرانی کسی کو نہیں دے سکتی صرف قبول کرنے کا حق رکھتی ہے۔ 

امام و خلیفہ کی شرائط

اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ دین نے خلیفہ یا امام کی شرائط بیان نہیں کیں۔ جبکہ اہل تشیع کے بقول شرائط قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ ہر شخص حاکم نہیں بن سکتا۔ اہل سنت یہاں پر اس لیے بھی شرائط کی نفی کرتے ہیں کہ اگر شرائط کے قائل ہو جائیں تو پھر ان کو خلفاء کے اندر وہ تمام شرائط ثابت کرنا ہونگی۔ جبکہ یہ بات خود اہل سنت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امیرالمومنینؑ بہت سی صفات میں باقی سب صحابہ سے افضل تھے، علم میں اور شجاعت میں تو سب ہی قائل ہیں۔ دیگر شرائط میں بھی امیرالمومنینؑ زیادہ حقدار بنتے ہیں۔ لیکن اہل سنت اس بات کا اصل سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلیفہ ہونے کے لیے شرائط کا حامل ہونا ضروری ہی نہیں۔ جبکہ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ حاکمیت و خلافت کا کوئی تو معیار ہو؟ خلیفہ کے اندر کچھ تو شرائط ملحوظ رکھی جائیں۔ دین من مانی کی نفی کرتا ہے۔ حاکمیت کے لیے کسی کی مرضی نہیں چلے گی حتی رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی مرضی سے علیؑ کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالی کے حکم سے انہیں اپنا خلیفہ منصوب کیا۔اس لیے جب بعض افراد نے رسول اللہﷺ پر اعتراض کیا کہ آپ اپنی مرضی سے علیؑ کو ہم پر مسلط کر رہے ہیں تو ان پر عذاب نازل ہوا۔
سورہ معارج میں وارد ہوا ہے:
«سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِعٍ».
ترجمہ:  ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے۔[9]
امامیہ و غیر امامیہ مصادرمیں آیا ہے کہ جب رسول اللہؐ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان فرمایا تو حارث بن نعمان الفہری نے کہا: محمدؐ جو کچھ کہ رہا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو اے اللہ مجھ پر آسمان سے پتھر برسا دے یا مجھے دردناک عذاب دے۔ یہ کہ کر وہ اپنی سواری کی طرف چلا ہی تھا کہ ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر گرا اور اس کے نیچے سے نکل گیا اور وہ مر گیا۔ لذا یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ حاکم انتخاب کرے۔کسی فرد کو اور نا پوری امت کو۔اب پہلے والا سوال دوبارہ اٹھاتے ہیں کیا شیعہ ۱۲ امام کے بعد اہل سنت والا نظریہ اختیار کر لیں گے؟ ۱۲ اماموں کے بعد حاکمیت کے لیے انتصاب کا نظریہ ترک کر کے انتخاب کی طرف آ جائیں گے؟ یا آج بھی نظریہ انتصاب پر ہی قائم رہیں گے؟اور اگر اسی نظریہ پر قائم ہیں تو اس کی زمانہ غیبت میں کیا صورت بنتی ہے؟

غیبت کے زمانہ میں حاکمیت کا نظام

شیعہ کے پاس زمانہ غیبت میں دو راستے (Option) ہیں۔

۱۔ نظریہ امامت

اس نظریہ کو اختیار کرے اور کہے کہ جس طرح سے ۱۱ہجری میں امت کا حاکم اللہ نے بنایا اور رسول نے منصوب فرمایا۔ زمانہ غیبت میں بھی حاکم اللہ کی طرف سے ہوگا۔اور ۱۲ویں امام اپنے بعد کسی کو منصوب کر کے گئے ہیں۔ کیونکہ جس طرح سے ۱۱ہجری کو امت کو حاکم کی ضرورت تھی، زمانہ غیبت میں بھی امت کو رہبر و حاکم کی ضرورت ہے۔ جس طرح سے رسول اللہﷺ نے اپنے بعد منصوب کیا، اور حاکم کا معیار دیا اسی طرح سے ۱۲ویں امام نے بھی پردہ غیبت میں جانے سے پہلے حاکم معین فرمایا اور اس کے معیار بتایا۔ لیکن اگر ہم مان لیں کہ ۱۲ویں امام نے اپنے بعد کسی کو بطور حاکم معین نہیں فرمایا اور نا ہی حاکم کے انتخاب کے لیے کوئی معیار دے کر گئے ہیں تو پھر اہل سنت کے تفکر صحیح ثابت ہو جاۓ گا جو کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد کسی کو معین نہیں فرمایا اور نا ہی کوئی معیار دیا۔ جبکہ ہر دو صورتوں میں معیار اور تعیین موجود ہے۔ رسول اللہﷺ بھی معیارا ور تعیین کر کے گئے اور اسی طرح سے امام زمانؑ بھی معیار اور تعیین کر کے گئے ہیں۔

۲۔ نظریہ اہل سنت

یا شیعہ یہ بات مان لے کہ زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کی جانب سے کوئی بھی حاکم معین نہیں ہے۔ ہاں ۱۲ویں امام تک تو اللہ تعالی نے معین فرماۓ اس کے بعد لوگوں کے سپرد کر دیا کہ وہ خود جس کو چن لیں۔ با الفاظ دیگر شیعہ ۲۶۰ ہجری تک تو شیعہ عقیدے پر قائم رہے اس کے بعد سنی بن جاۓ۔ سنی سے مراد یہ ہے کہ جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ اس وقت اللہ کی طرف سے کوئی بھی معین شدہ حاکم نہیں ہے اور میں خود حاکم بنا سکتا ہوں۔ افسوس کے ساتھ دوسرا تفکر اس وقت تشیع میں وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حاکمیت فعلِ الہی ہے۔ حاکم کا چناؤ ایک کلامی مسئلہ ہے۔ اگر رسول اللہﷺ اپنے بعد امت کی حاکمیت کا اہتمام کر کے گئے ہیں تو یہی توقع ۱۲ویں امام سے بھی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہﷺ تو اپنے بعد امت کو اپنے حال پر نہ چھوڑ کر جائیں لیکن ۱۲ویں امام امت کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیں۔

نیابت کا نظام اور اس کے اختیارات

بارہویں امامؑ کلی ضابطہ دے کر گئے ہیں۔ نیابت کا نظام دے کر گئے ہیں۔ اور نیابت صرف فتوی دینے میں نہیں بلکہ تمام امور میں نیابت دے کر گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو شخص وزیر اعظم کا نائب ہو اس کے پاس وزیر اعظم والے اختیارات ہی نہ ہوں۔ درست ہے کہ وہ نائب ہے اور حقیقی طور پر اصلی عہدہ وزیر اعظم کا ہے۔ لیکن جب تک اضطراری صورت ہے اس نائب کے پاس بھی وہی اختیارات ہونگے جو وزیراعظم کے ہوتے ہیں۔ ولایت فقیہ صرف فتوی کی حد تک نیابت کا نام نہیں بلکہ سیاسی اور اجتماعی امور میں امام کی نیابت کا نام ہے۔ جس طرح امام کی امامت زمین کے کسی خاص کونے سے مختص نہیں ہوتی، اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی کسی زمین کی خاص حد تک نہیں ہے۔ ممکن ہے اجرائی طور پر صرف ولایت فقیہ کے اختیارات صرف ایک خاص سرزمین تک محدود ہوں،لیکن قانونی طور پر ولی فقیہ اسی طرح سے پوری دنیا کا رہبر ہے جس طرح سے امام پوری دنیا کا حاکم ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں امیر شام نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ عملی طور پر امیرالمومنینؑ ان علاقوں پر اجرائی قوت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان پر امیر شام کا قبضہ تھا؟ لیکن پھر بھی ان علاقوں کے قانونی و شرعی حاکم امیرالمومنینؑ ہی تھے۔ کوئی یہ اعتراض بھی نہیں کر سکتا کہ امیرالمومنینؑ تو کوفیوں اور مکہ و مدینہ والوں کے امام تھے، کیونکہ انہیں علاقوں کے لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ اگر اہل شام نے ان کی بیعت نہیں کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ امیرالمومنینؑ شام والوں کے امام نہیں ہیں۔ یہ اعتراض کرنا کہ ولی فقیہ کو تو ایران والوں نے بنایا ہے اس کا ہم سے کیا تعلق؟ یہ اعتراض در اصل امیر شام نے پہلی بار کیا۔ الہی حاکم قانونی طور پر پوری دنیا کا حاکم ہوتا ہے اور اس کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو مملکت داری کے لیے اسے حاصل ہونےچاہیں۔

ولی فقیہ کا انتخاب یا انتصاب

بعض نادان افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ولی فقیہ کو ایک شوری انتخاب کرتی ہے۔ پس یہ بھی ایک قسم کا انتخاب ہوا نا کہ انتصاب! اس کا جواب یہ ہے کہ جو شوری ولی فقیہ بناتی ہے وہ انتخاب نہیں بلکہ وہ بھی انتصاب کرتی ہے۔ وہ اس شخص کو ولی فقیہ بناتی ہے جس کے اندر پہلے سے صلاحیت موجود ہوتی ہے، شوری ولی فقیہ کے اندر صلاحیت ڈال دینے کا سبب نہیں بنتی۔اور نا ہی شوری کے انتخاب کرنے سے اس شخص میں صلاحیت و مدیریت پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ وہ خصوصیات اور معیار کو دیکھتے ہیں جس شخص کے اندر وہ تمام دینی معیار موجود ہوں جو ولی فقیہ کے اندر ہونا چاہیں اس کو منصوب کردیتے ہیں۔ با الفاظ دیگر شوری کسی نااہل شخص کو انتخاب نہیں کر سکتی، اگر آپ کے بقول ولی فقیہ کا بھی انتخاب ہوتا تو شوری جس کو بھی چاہے ولی فقیہ بنا سکتی تھی۔ لیکن شوری صرف اس کو ولی فقیہ بناتی ہے جس کے اندر پہلے سے ولایت کی شرائط موجود ہوں۔ وہ صرف اس شخص کو کشف کرتے ہیں اور اسے یہ ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔ شوری کا کام ولی فقیہ کو تلاش کرنا اور اس کے ذمہ یہ مدیریت دینا ہے۔ 

ایک وقت میں دو ولی فقیہ

سوال ہے کہ آیا ایک وقت میں دو ولی فقیہ ہو سکتے ہیں۔ جبکہ دونوں ایک برابر عالم، فقیہ، مدبر و دانا سیاستمدار ہوں؟ جواب یہ کہ جس طرح ایک وقت میں ایک امام ناطق ہوتا ہے اور دوسرا صامت و مطیع اسی طرح سے ایک وقت میں ولی فقیہ بھی صرف ایک ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے صلاحیتوں میں چند افراد برابر کے شریک ہوں۔ لیکن عملی طور پر ولی فقیہ ایک ہی ہو سکتا ہے۔ جس طرح رسول اللہﷺ کے دور میں امام علیؑ بھی موجود تھے اور حسنینؑ بھی۔ لیکن معاشرے کی مدیریت رسول اللہﷺ کے ہاتھوں میں تھی اور یہ تینوں امام مطیع رسول اللہﷺ تھے۔ یہ واضح سی بات ہے اور عملی طور پر اس حکمت کو آرام سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے اعتراضات جان بوجھ استعمار کے ہتھکنڈوں کے شکار افراد شیعوں میں پھیلاتے ہیں۔ یہ لوگ تو پہلے سے ہی چاہتے ہیں کہ حکومت فقیہ کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ امت انہیں مسائل میں بحثوں کا شکار رہے اور حکومت ہم کریں۔ یہ لوگ ہر بات میں ہی شک و شبہہ ایجاد کرتے ہیں اور بعض ہمارے اپنے ہی افراد نافہمی میں انہیں بحثوں میں الجھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ استعماری ذہن ایک شیطانی سوال ابھارتا ہے اور علماء دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ یہ اجتماعی شعور نہ ہونے کی علامت ہے۔ مثلا دشمن ایک شبہہ پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ مقدس شخصیات تھیں اور معصوم لوگ تھے ان کو حکومت کی تو ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ تو صرف معاشروں میں اصلاح چاہتے تھے بس۔ بظاہر یہ ایک بہت اجھی بات محسوس ہوتی ہے لیکن پیچھےسے ایک شیطانی سوچ ہے۔اور بہت سے نادان افراد اس کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ سوچ تھی جس کی وجہ سے ہمارے ۱۲ امام شہید ہو گئے۔ یہی وہ سوچ تھی کہ امیرالمومنینؑ کا حق غصب کر لیا گیا، اگر ان کو حکومت ہی نہیں چاہیے تھی تو پھر بی بی ؑ نے کس حق کےلیے قیام کیا تھا؟لیکن ہمارے بعض نادان دوست کہتے ہیں کہ ہاں بھئی! امام کو تو حکومت کی ضرورت ہی نہ تھی اور نا کسی امامت نے حکومت کے لیے قیام کیا؟ کس کتاب میں لکھا ہے کہ کسی امام نے فرمایا ہو کہ میں حکومت کے لیے قیام کر رہا ہوں؟ پھر اس سے بندہ پوچھے کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ تقلید کرنا ضروری ہے۔ اگر آئمہ معصومینؑ کو حکومت نہیں چاہیے تھی تو جھگڑا کیا تھا پھر؟ اگر آئمہ معاشروں کی اصلاح چاہتے تھے تو کیا اصلاح کرنا حکومت کے بغیر ممکن ہے؟ کیا بغیر چولہا جلاۓ آپ ہنڈیا بنا سکتے ہیں؟ اصلاح بغیر حکومت اور اختیارات کے ممکن ہے؟ یہ وہ اعتراضات ہیں جو دشمن کی جانب سے ایجاد ہوتے ہیں ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔اگر حکومت اللہ کے مقرب اور مقرر کردہ افراد کے پاس نہ ہو تو کیا وہ زمین پر الہی حاکمیت قائم کریں گے یا شیطانی حکومت؟

ولی فقیہ کا عادل ہونا

اہل تشیع کے ہاں حاکم کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ لیکن نائب امام کا کم از کام عادل ہونا ضروری ہے۔ اسلامی معاشروں کا حاکم ایسا فرد نہیں ہو سکتا جو عادل ہی نہ ہو۔ کیونکہ اگر یہ معیار ختم کر دیا جاۓ تب ہی فرعون، یزید، ہارون، صدام اور رضا شاہ پہلوی جیسے حکمران مسلط ہو ہیں۔ اصل اور بہترین (Ideal) صورت یہ ہے کہ حاکم معصوم ہو لیکن اگر مجبوری ہے جیسا کہ زمانہ غیبت میں اضطراری صورت ہے تو اس زمانے میں بھی اس شخصیت کو حاکم قرار دیا جاۓ جو امام کے قریب تر ہو۔ کم از کم عدالت کی صفت اس کے اندر موجود ہو۔ اگر حاکم عادل نہ ہو اور ظالم ہو تو وہ اسلامی معاشروں پر ظلم کرے گا اور اس سے امام مہدیؑ کی عالمی حکومت کے منصوبہ کو سخت تر کردے گا۔ اس کی بجاۓ ایک ایسا شخص حاکم ہو جو امام مہدیؑ کے اہداف کو سمجھتا ہو اور ان کے لیے راہ ہموار کرے۔ جس طرح سے امام کو حکومت کی ضرورت ہے اسی طرح سے فقیہ کو بھی حکومت کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے کی بہترین صورت میں مدیریت کر سکے اور اللہ تعالی کی زمین پر اللہ تعالی کی حاکمیت اور اس کے دین کو نافذ کر سکے۔[10]

منابع:

 

↑1 رعد: ۷۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۹۱۔
↑3 شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۴۰۹۔
↑4 حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۴۶۔
↑5 نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۷۸۔
↑6 بیهقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، ج۸، ص۲۷۰۔
↑7 حنبلی، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۲۸، ص۸۸۔
↑8 بقرہ: ۳۰۔
↑9 معارج: ۱۔
↑10 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:45
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۷}

امامت و خلافت اہل سنت کی نظر میں

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

 معاشروں کے اوپر ایک خلیفہ ،امام یا حاکم کے ضروری ہونے میں شیعہ اور سنی ہر دو قائل ہیں اختلاف صرف اس بات کا ہے کہ وہ امام اللہ تعالی بناۓ گا یا امت خود بناۓ گی۔برادران اہل سنت کے نزدیک  معاشروں پر ایک حاکم کا ہونا ایک فقہی مسئلہ ہے۔ لیکن عملی طور پر اس مسئلے کے ساتھ اصول دین سے بھی بڑھ کر برتاؤ کرتے ہیں۔اہل سنت اس تضاد کا شکار کیوں ہوۓ اس تحریر میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

قبائلی نظام اور حاکمیت کا تصور

دور جاہلیت میں عرب معاشرے پر باقاعدہ طور پر حکومت نہ تھی۔ قبائلی نظام تھا۔ عربوں کے اندر شدید قبائلی تعصب پایا جاتا جو آج بھی موجود ہے۔ قبیلہ کے افراد ایک دوسرے سے نسبت و رشتہ داری کے افراطی حد تک پابند تھے۔ جنگ کے دوران ایک جنگجو رجز پڑھتا تو اپنے قبیلہ کا ذکر کرتا اور اس پر فخر و مباہات کرتا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر کا ثقیفہ بنی ساعدہ میں انتخاب بھی در اصل قبائلی بنیاد پر ہوا۔ انصار کے مقابلے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کے قرابت دار ہیں اس لیے ان کو خلافت کا حق حاصل ہے۔ حالانکہ خلافت کے لیے رسول اللہﷺ کا قرابت دار ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ شخص کی اہلیت دیکھنا اور اس کا دینی و شرعی جواز رکھنا ضروری ہے۔ بعض نادان افراد نے مکتب تشیع پر بھی یہی الزام لگانے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ بھی تو خلافت و امامت کو قریش میں سے بنی ہاشم اور صرف اولاد فاطمہؑ کا حق قرار دیتے ہو؟ کس نے کہا کہ صرف اولاد فاطمہؑ میں سے ہی امام ہوگا؟ حالانکہ امامت کا سلسلہ قبائلیت کی بنا پر نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک قدر و قیمت و کردار اہم ہے۔ ورنہ اگر اولاد حضرت یعقوبؑ کو دیکھیں تو ان میں سے یوسفؑ صرف ایک ہے۔ سب بھائی آل یعقوب ہونے کی وجہ سے برابر نہیں ہیں اور نا ہی وہ نبی بن سکتے ہیں۔ مکتب تشیع میں بھی جب امامت کی بات ہوتی ہے وہاں قبیلہ بنی ہاشم و اولاد فاطمہؑ کی بنا پر امامت نہیں چلتی بلکہ قرآن کریم کے قاعدے کے مطابق اس امر کا حقدار وہی ہے جو اہل ہو:
«لَا یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ».
ترجمہ: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔[1]
جب حضرت ابراہیمؑ کو امامت کا منصب ملا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میری ذریت میں سے بھی امام قرار دے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ امامت کا عہد تمہاری نسل میں صرف ان کو ملے گا جو ظالم نہ ہوں۔مکتب تشیع کے نزدیک معیار حسب و نسب نہیں ہے۔ اگرچہ تاریخ بشریت میں اہل بیتؑ سے بڑھ کر کسی کا بھی حسب و نسب نہیں ہے لیکن معیار خود ان کی قدر و قیمت ہے۔
ایک روایت میں وارد ہوا ہے:
«قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع جُعِلْتُ فِدَاکَ وَ یَوْمَ الْقِیامَةِ تَرَى الَّذِینَ کَذَبُوا عَلَى اللَّهِ قَالَ کُلُّ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ إِمَامٌ وَ لَیْسَ بِإِمَامٍ قُلْتُ وَ إِنْ کَانَ فَاطِمِیّاً عَلَوِیّاً قَالَ وَ إِنْ کَانَ فَاطِمِیّاً عَلَوِیّاً».
ترجمہ: راوی  کہتا ہے کہ میں نے امام سے کہا کہ میری جان آپ پر فدا ہو قیامت کے دن وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی کے اوپر جھوٹ بولا، ان سے مراد کون ہیں؟ امام نے فرمایا ہر وہ شخص جس نے گمان کیا کہ ہ امام ہے  جبکہ حقیقت میں وہ امام نہ تھا۔ میں نے امام سے پوچھا چاہے وہ فاطمی اور علوی ہی  کیوں نہ ہو؟ امام نے فرمایا: ہاں چاہے وہ فاطمی و علوی ہی کیوں نہ ہو۔[2]
معیار قبائلیت نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ جو بھی اولاد حضرت فاطمہؑ سے ہو وہ امامت کا حقدار ہے۔ بلکہ جسے امامت اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوئی ہو صرف وہ امام ہے۔

شیعہ اور سنی کے نزدیک خلیفہ کی ضرورت

اہل سنت کی ایک فقہی تقسیم ہے جسے ہم حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سے جانتے ہیں۔ اور ایک کلامی تقسیم ہے۔ جنہیں حنابلہ، معتزلہ اور اشاعرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اشاعرہ نقلی دلیل کی بنا پر اس بات کے قائل ہیں کہ خلیفہ یا امام ہونا چاہیے جبکہ دیگر مکاتب بھی عقلی و نقلی ہر دو دلیلوں کی بنا پر قائل ہیں کہ خلیفہ و امام کے بغیر امت نہیں ہو سکتی۔ یہ روایت شیعہ اور سنی ہر دو منابع میں وارد ہوئی ہے کہ وہ شخص جس کو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہو یا جس شخص کی گردن پر کسی امام کی بیعت نہ ہو وہ جہالت یا کفر کی حالت میں مرے گا۔ یہ روایت مختلف الفاظ سے وارد ہوئی ہے لیکن سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔[3][4][5][6][7] معتبر منابع میں وارد ہونے والی حدیث کے بعد تقریبا تمام علماء اسلام سواۓ خوارج کے اس بات کے قائل ہیں کہ امت کا امام ہونا ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام کیسے بنے گا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس سے امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ سنی اس بات کے قائل ہیں کہ حکمران بنانے کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کوئی ہدایت بیان نہیں فرمائی۔ اور نا ضابطہ بیان کیا ہے کہ حاکم و امام کن خصوصیات کا مالک ہو؟ رسول اللہﷺ نے بھی اپنے بعد کسی شخص کو حاکم و امام کے طور پر معین نہیں فرمایا۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر کو پہلا خلیفہ مانتے ہیں۔ لیکن مکتب تشیع اپنی خاص دلیلوں کے تحت امام علیؑ کو پہلا خلیفہ سمجھتے ہیں۔

اہل سنت کے نزدیک خلیفہ بنانے کے طریقے

جیسا کہ بیان ہوا اہل سنت حاکم کے چناؤ میں کسی ایک ضابطہ کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک چاروں خلیفہ راشد الگ الگ طریقوں سے انتخاب ہوۓ۔ اس لیے وہ اس بات کے قائل ہیں جس طریقے سے بھی حاکم بن جاۓ ٹھیک ہے۔

۱۔ اہل حل و عقد

خلیفہ یا امام کے انتخاب کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اہل حل و عقد کی ایک جماعت خلیفہ کو منتخب کر لے۔  خلیفہ ابو بکر اسی طرز پر بناۓ گئے۔ تاہم یہ طریقہ خود خلیفہ دوم کے نزدیک غلط تھا۔ اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح البخاری میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عمر نے کہا کہ خلیفہ اول کی خلافت ایک فلتہ (ایک ایسا کام جو بغیر تدبیر کے ناگہانی طور پر کیا جاۓ) تھی اور اللہ نے ہمیں اس کے شر سے بچا لیا۔[8]اگر یہ بیعت ٹھیک تھی تو اس کو شر کیوں کہا گیا ؟ اور اگر شر ہی تھا سوال پیدا ہوگا کہ اس شر پر سواۓ چند افراد کے سب راضی کیوں ہوۓ رہے؟

۲۔ وصیت خلیفہ

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پہلا خلیفہ وصیت کرے کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہونگے۔ حضرت عمر کی خلافت حضرت ابوبکر کی وصیت کی وجہ سے ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر کے جائیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو خلیفہ اول کی دوراندیشی و عقلمندی تھی کہ وہ یہ کام کر کے اگر وہ یہ کام نہ کر کے جاتے تو امت میں فتنوں کا ڈر تھا، امت میں خلافت کے مسئلے کو لے کر دراڑ پڑ جاتی۔ لیکن یہ دلیل دیتے ہوۓ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر خلافت کے مسئلے پر حضرت ابوبکر کو امت کے بارے میں اندیشہ تھا تو رسول اللہﷺ کو اندیشہ نہیں تھا؟ کیا رسول اللہﷺ نعوذباللہ دور اندیش نہیں تھے کہ انہوں نے تو اپنے بعد امت کے لیے کسی کو تعیین نہیں کیا لیکن حضرت ابوبکر اتنے دور اندیش تھے کہ وہ خلیفہ تعیین کر کے گئے؟

۳۔ شوری کا نظریہ

 تیسرا نظریہ یہ ہے کہ امت کے بزرگان کی ایک شوری بنائی جاۓ اور وہ شوری خلیفہ منتخب کرے۔ حضرت عثمان اس روش پر خلیفہ بناۓ گئے۔

۴۔ امت کا اجماع

اس طریقے میں پوری امت ایک نام پر جمع ہو جاتی ہے۔ حضرت علیؑ اس طرز پر خلیفہ بنے۔ امام علیؑ خود کو خلافت سے کنارہ کش کرتے رہے لیکن امت کا اصرار تھا کہ آپ ہی خلافت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ جبکہ ہم پچھلے خلفاء کو دیکھیں تو انہوں نے خود کو خلافت کے لیے پیش کیا۔ پہلے دو خلفاء تو رسول اللہﷺ کے جنازے کو چھوڑ کر ثقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے۔ [9]اور خود کو خلافت کے لیے پیش کیا۔ امام علیؑ نے کہا کہ مجھے خلافت نہیں چاہیے۔[10]

۵۔ لشکر کشی 

اہل سنت نے اب ایک پانچواں طریقہ بھی ایجاد کر لیا ہے۔ کیونکہ بقیہ چار طریقوں سے تو خلیفہ بننے سے رہا۔ اہل سنت کے ہاں اتنا شدید اختلاف ہے کہ وہ کسی ایک شخصیت پر متفق ہی نہیں ہوسکتے۔ ایک قلیل جماعت خلیفہ بناۓ اور ساری سنی عوام اس پر راضی ہو جاۓ ناممکن ہے۔ دوسرا طریقہ وصیت والا بھی ناممکن ہے۔ جب پہلا آۓ گا تو دوسرے خلیفہ کی وصیت کرے گا۔ شوری کا نظریہ بھی ممکن نہیں۔ شوری میں کونسے افراد بیٹھیں گے؟ ایک متفقہ شوری نہیں بن سکتی۔ چوتھا طریقہ بھی عملی طور پر ناممکن ہے کہ ایک شخص پر پوری امت اکٹھی ہو جاۓ۔ لذا اب انہوں نے پانچواں طریقہ یہ نکالا ہے کہ لشکر کشی کر کے حملے کیے جائیں۔ مخالفین کو قتل کیا جاۓ اور موافقین و خاموش رہ جانے والوں پر حکومت کی جاۓ۔ بعد میں سب ہی ڈر کر ہمارے ساتھ ہو جائیں گے۔ طالبان اور داعش اسی نظریے کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بعض اہل سنت علماء اس روش کے مخالف ہیں جیسا کہ پاکستان کی مشہور و معروف شخصیت ڈاکٹر اسرار کا کہنا تھا کہ ہم سفید انقلاب لائیں گے۔ان کا مطلب تھا کہ ہم خون کا ایک قطرہ بہاۓ بغیر انقلاب لائیں گے اور اس طرح سے حکومت اسلامی قائم ہو جاۓ گی۔اہل سنت اصل میں خلافت راشدہ کے قائل ہیں۔ لیکن وہ ملوکیت کو بھی غیر اسلامی نظام نہیں سمجھتے۔ ملوکیت کو خلافت راشدہ سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ ان کا اصرار ہے کہ بعض حکمرانوں کو حتما خلیفہ راشد ہی قرار دیا جاۓ اگرچہ ان کا طرز حکمرانی ملوکیت والا تھا۔ جیسا کہ معاویہ، عمر بن عبدالعزیز، ہارون اور مامون کی حکومتیں ہیں۔ متعصب سنی ان کے تقدس کے قائل ہیں۔ انہوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے چند حکمرانوں کو چنا اور ایک ضابطہ ایجاد کیا کہ لشکر کشی کر کے ملوکیت کی طرز حکومت بھی قابل قبول ہے۔

اہل سنت کے آپس میں اختلاف

جیسا کہ بیان ہوا پہلے چار طریقوں سے خلافت کا نظام لانا ان کے لیے تقریبا نا ممکن ہے۔ اہل حدیث نے بریلویوں اور دیوبندیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہوا ہے۔ اور بریلوی و دیوبندی علماء نے اہل حدیث کو گستاخ رسول ہونے کا فتوی دیا ہوا ہے۔ گستاخ رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب اہل حدیث مرتد ہیں اور ان کی سزا موت ہے۔ خود بریلویوں اور دیوبندیوں کے اختلاف بھی الی ماشاء اللہ بہت زیادہ ہیں۔ ایک دوسرے کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں ان کے اکابر علماء نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خود بریلوی فرقے کے اندر کے اختلافات کو دیکھ کر بھی انسان حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ دیوبندیوں کے اندر حیاتی اور مماتی فرقے کا اختلاف اتنا شدید اختلاف ہے کہ وہ اسی مسئلے پر ہی ایک دوسرے کے مشرک ہونے کے احکام لگاتے ہیں۔[11] تو ایسے میں کیسے ممکن ہے وہ ایک خلیفہ پر جمع ہو جائیں یا ایک شوری بنا کر اسے خلیفہ بنانے کا اختیار دے دیں۔

استعمار کی شیعہ دشمنی

آج استعمار بھی شیعوں کو اہل سنت کی طرح ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ شیعہ ایک مرکز میں جمع ہوں۔ کبھی اصولی و اخباری کہہ کر تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی بعض فقہی مسائل کی بنا پر شیعہ کو آپس میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شہادت ثالثہ ہو، تقلید کا مسئلہ ہو یا دیگر فرعی مسائل۔ ان مسائل میں علمی اختلاف کرنا سب کا حق بنتا ہے۔ لیکن ان مسائل میں اختلاف یہ سبب نہیں بنتا کہ مخالف کو دائرہ تشیع سے ہی خارج قرار دے دیں۔ کسی بھی فقہی مسئلہ کی بنا پر مکتب سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روش جاہل طبقے نے شروع کی ہوئی ہے کہ ایک فقہی مسئلے کی بنا پر ایک شیعہ عالم دین کو ہی دائرہ تشیع سے خارج کر دیتے ہیں اور اسے دیوبندی کہہ دیتے ہیں۔ خود علماء تشیع اس چیز کے قائل نہیں ہیں۔ فرض کیا اگر کسی عالم دین نے تجزیہ تحلیل کرتے ہوۓ یہ کہہ دیا کہ مختار ثقفی اپنے قیام میں حق پر نہ تھے تو اس سے مختار ثقفی کی توہین نہیں ہو  جاتی، اور نا ہی اس کا جہنمی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ مختار ثقفی کا قیام اصول دین میں سے تو نہیں ہے اور نا ہی وہ معصوم امام ہیں کہ جن پر علمی اختلاف کرنے سے انسان دائرہ تشیع سے خارج ہو جاۓ۔ بالکل اسی طرح سے اگر ہم کہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں قیام کیا وہ باطل تھا۔ اس سے ام المومنین کی توہین نہیں ہو جاتی۔ اگر ام المومنین کے بارے میں یہ جملات کہنے سے ان کی توہین نہیں ہوتی تو مختار ثقفی کی بھی توہین نہیں ہوتی۔ ورنہ پھر اہل سنت کو بھی حق دیں کو وہ اس جملے کے کہنے پر شیعہ حضرات کو توہین کرنے والا قرار دے دیں۔ یہ درست روش نہیں ہے۔ اگر علمی اختلاف و تنقید کا دروازہ بند کر دیں اور ایسی باتیں کرنے والے پر توہین کا الزام لگا کر اسے مکتب تشیع سے ہی خارج کر دیں تو پھر تو ہر دوسرے تیسرے مسئلے پر یہی کام کرنا ہوگا۔ افراط اور تفریط درست روش نہیں ہے۔

خوارج اور غالی فرقہ

خوارج اور غالی دونوں گروہ امام علیؑ کے بارے میں افراط و تفریط کرنے کی وجہ سے گمراہ شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ہی امیرالمومنینؑ کے گروہ سے مربوط ہیں۔ خوارج کا لشکر معاویہ کے لشکر سے تو نہیں نکلا تھا۔ امام علیؑ کے لشکر میں ہی یہ سب لوگ موجود تھے۔ لیکن انہوں نے تفریط کی۔ غالی طبقہ بھی امام علیؑ کے ساتھ افراطی طور پر محبت کرنے والا طبقہ شمار ہوتا ہے۔ لیکن یہ دونون حق پر نہیں ہیں۔ مکتب تشیع معتدل ترین مکتب ہے۔ افراط اور تفریط سے خالی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی فقہی مسئلے پر اختلاف کی بنا پر اگلے کو کافر قرار دیدے۔ اہل سنت یہی غلط کام کرتے ہیں۔ اگر ان کے ہاں خلافت و امامت فقہی مسئلہ ہے تو پھر فقہی مسئلے کی بنا پر وہ اہل تشیع کو کیسے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ جبکہ خلفاء کی خلافت اصول دین میں سے تو نہیں۔ جب ایک مسلمان اصول دین کو مان رہا ہے تو پھر فقہی مسئلے کی بنا پر کافر کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ افراط ہے۔ اسی طرح سے اہل سنت کا صحابہ کے بارے میں عدالت کا نظریہ ہے۔ کہنے کو تو صحابہ کو صرف عادل مانتے ہیں لیکن عصمت سے بڑھ کر ان کو درجہ دیتے ہیں۔ ہم اہل تشیع تو صرف ۱۴ معصومینؑ کے قائل ہیں وہ سب ہی صحابہ کے افراطی طور پر عدالت کے قائل ہیں۔

اہل سنت کے نظریہ اور عمل میں تضاد

نظریاتی طور پر اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ امت کا رہبرہونااور امام کی تقرری ایک فقہی مسئلہ ہے۔ یہ ذمہ داری لوگوں کی ہے کہ کسی کو بھی اپنا حاکم بنا لیں۔ اللہ تعالی نے اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں بیان کی۔ دین میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا کہ ہم کس کو حکمران بنائیں۔ جبکہ کلامی مسئلہ وہ ہوتا ہے جو قرآن کریم میں ذکر ہو اور رسول اللہﷺ نے باقاعدہ اس کی تشریح کی ہو۔ اس لیے امامت و خلافت ایک فقہی مسئلہ ہے۔ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کی حدود کے اجراء ، اسلامی حدود کی حفاظت کے لیے ایک حاکم منتخب کرے۔ چونکہ اسلامی حدود کا اجراء واجب ہے اور یہ سب حاکم کی تعیین پر موقوف ہیں اس لیے حاکم کا انتخاب بھی واجب ہے۔ لیکن یہ صرف کہنے کی حد تک ہے حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت عملی طور پر خلافت کو اصول دین ہی سمجھتے ہیں۔ جان بوجھ کر اس کو کلامی و اصول دین کا مسئلہ قرار نہیں دیتے۔

خلافت کے نظریہ پر تضاد کی وجہ

اہل سنت مجبور ہیں کہ خلافت کے نظریہ کو اصول دین میں سے قرار نہ دیں۔ لیکن کتابوں میں اور کہنے کی حد تک اس کو فقہی مسئلہ قرار دیں۔ لیکن جب اس کو فقہی مسئلہ قرار دیتے ہیں تو خود پھنس جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امامت کے مسئلے کو اصول دین میں سے قرار دے دیں اور اسے کلامی مسئلہ مان لیں تو پھر ان کو بتانا پڑے گا کہ خلیفہ ابو بکر کی خلافت پر نص کہاں ہے؟ کیونکہ کلامی مسئلہ یا اصول دین وہ ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ان کی نص موجود ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس مسئلے کی تشریح کی ہے۔ اب اگر وہ کہتے ہیں کہ یہ اصول دین میں سے ہے اور فعلِ الہی ہونے کی بناپر کلامی مسئلہ ہے تو شیعہ پوچھیں گے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر قرآن کریم سے نص لے آئیں۔ دین نے کہاں پر حضرت ابوبکر کی واضح طور پر خلافت کا حکم دیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے کہاں پر حضرت ابوبکر کو اپنے بعد امت کا جانشین و امام مقرر فرمایا؟ اگر نص ہے تو پیش کریں۔ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے اس مصیبت سے بچنے کے لیے وہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو اللہ تعالی، یا رسول اللہﷺ سے منصوب ہی نہیں کرتے اور فورا کہتے ہیں کہ ان کو خلیفہ امت نے بنایا۔ خلیفہ بنانا تو خدا کا کام ہی نہیں اور نا ہی رسول اللہﷺ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بعد جانشین کی تعیین کریں۔ اس لیے امت نے خلیفہ بنا لیا اور یہ فعل مکلف سے مربوط بحث ہے فقہی بحث ہے۔ 

فقہی مسئلہ پر اختلاف اور کفر کے فتاوی

عملی طور پر اہل سنت اس فقہی مسئلے پر اختلاف کی بنا پر شیعہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ جبکہ خود اہل سنت کی چار مکاتب فقہی میں شدید ترین فقہی اختلافات ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فقہی مسئلے کی بنا پر وہ دوسرے فرقے کو اسلام سے خارج نہیں کرتے۔ لیکن خلافت کے مسئلے پر کافر قرار دیتے ہیں۔ اتنی شدت تو شیعہ حضرات بھی نہیں دکھاتے کہ جو امیرالمومنینؑ کو پہلا امام نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ حالانکہ شیعہ کے ہاں امامت اصول دین میں سے ہے۔ لیکن یہ لوگ حضرت ابوبکر کی خلافت کو لے کر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے مطابق یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ کفر کا فتوی دینے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر امت کا اجماع ہو گیا تھا اس لیے جو امت کے اجماع سے نکل جاۓ وہ مرتد و کافر ہے۔ جبکہ یہ بات خود اہل سنت کی کتب سے ہی ثابت نہیں ہے کہ کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر امت کا اجماع ثابت ہو گیا ہو۔ اہل سنت کتب میں ہی وارد ہوا ہے کہ بنت رسول حضرت فاطمہؑ نے آخر وقت تک حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور ان سے ناراضگی کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں۔ [12] اسی طرح سے سعد بن عبادہ اور امیرالمومنینؑ نے بھی بیعت نہیں کی۔ معلوم ہوا اس مسئلے پر اجماع بھی نہیں۔[13][14][15][16]

خلافت حضرت ابوبکر کا منکر

آپ کسی بھی سنی سے پوچھ لیں وہ حضرت ابوبکر کی خلافت کو نا ماننے والے کو مومن نہیں سمجھتا۔ کہنے کو تو کہے گا کہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ لیکن پھر بھی اس فقہی مسئلے کی مخالفت کی بنا پر آپ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے گا۔ متعہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں خود صحابہ کے درمیان اختلاف تھا۔ اہل سنت کتب میں وارد ہوا ہے کہ بعض صحابہ نے متعدد مرتبہ متعہ کیا لیکن اس مسئلے کی بنا پر کوئی بھی صحابی کافر نہیں ٹھہرتا۔ اگر یہ فقہی مسئلہ ہے اور اس کی بنا پر کسی کو کافر قرار نہیں دے سکتے تو پھر خلافت و امامت بھی تو فقہی مسئلہ ہے اس کی بنا پر کیسے کسی کو کافر قرار دے رہے ہیں؟ اگر اصول دین کا مسئلہ ہے تو قرآن و روایت سے نص لے آؤ۔ خلافت ابی بکر کو تواتر سے ثابت کرو، یا حد اقل خبر واحد کی حد تک پہنچی ہوئی روایات سے ہی ثابت کر دو۔ لیکن یہ ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ اس کو مکلف کے فعل سے مربوط مسئلہ سمجھتے ہو، اصلا خلافت ابی بکر کو قرآن و روایات سے ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔

خلافت کے متعلق دو نظریات

۱۔ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ خلافت ایک فقہی مسئلہ ہے۔تاہم عملی طور پر برتاؤ اصول دین والا کرتے ہیں۔
۲۔ ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ خلافت اصول دین میں سے ہے۔ ان قلیل علماء کے نزدیک خود رسول اللہﷺ نے ابوبکر کو خلیفہ بنایا۔ ان کی دلیلیں ضعیف روایات پر مشتمل ہیں۔ جن کو خود اہل سنت علماء رد کرتے ہیں لیکن یہ تسامح اختیار کرتے ہوۓ ان روایات سے خلافت ابو بکر کو اصولی و کلامی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ایک اور  دلیل دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں ایسا اور کوئی مسئلہ نہیں جس پر اتنی جنگیں ہوئی ہوں۔ مسلمانوں کے درمیان جنگیں نماز، روزہ اور حج کے اختلافی مسائل کو لے کر تو نہیں ہوئیں۔ ثقیفہ بنی ساعدہ کا اختلاف، جمل، صفین، نہروان، بسر بن ابی ارطاۃ کا قتل عام، خانہ کعبہ پر حملے، حجاج کی خون ریزیاں، کربلا کا واقعہ، یہ سب مسئلہ خلافت کی اساس پر ہوا۔ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں ہے جس پر مسلمانوں نے اتنی خونریز جنگیں کی ہیں۔ ابھی بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث یہی مسئلہ ہے۔

قول دوم پر شواہد

۱۔ شاہ ولی اللہ

شاہ ولی اللہ پاک و ہند کے معروف علماء اہل سنت میں سے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء لکھی ہے۔ اس کتاب کے مقدمے کے پہلے صفحے پر ہی وہ خلفاء راشدین کی خلافت کو اصول دین میں سے قرار دیتے ہیں۔[17]
حجت البالغہ، خلفاء کی خلافت پر جو اعتراض ہیں ان سب شبہات کو زائل کر رہے ہیں۔

بیضاوی، منہاج الوصول الی علم الاصول، شیعوں کی طرف سے ادعا ہے ۔۔۔ خلافت کو نا ماننا بدعت و کفر ہے۔ کفر اصول دین سے تعلق رکھتا ہے یا فقہ سے۔

القام الحجر لمن سب ابی بکرو عمرسیوطی۔۔۔

۱۔ اس کتاب کا پہلا چیپٹر ان کے فضائل پر ہے،دوسرا چیپٹر میں کہتے ہیں کہ جو سب و شتم کرے و ہ فاقسق ہے،

تیسرا کہا کہ کافر ہے۔جو ابوبکر کو گالی دے وہ مرتد زندیق ہے۔

چوتھا، جو خلافت ابی بکر اور عمر  کا نکار کرے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ خلافت کا انکار صرف، مرتد ہے، واجب القتل، خودکش حملے ان فتوای کی وجہ سے آتے یہں۔ یہ بحث اصولی ہے یا فقہی، فروع دین کا انکار کفر ہوتا ہے ای اصول دین کا انکار،

ابن تیمہ کے کلمات: اس سے بڑھ کر حساس تر مسلہ نہیں ہے اس لیے یہ اصول دین یمں سے ہے۔ امامت ابی بکر عمر کا مخالف کفر او بدعتی ہے۔ تکراری طور پر کہا۔ اس اساس پر آج بھی افراد کو کافر کہتے ہیں۔

نتیجہ

اہل سنت کی نظر کے مطابق خلافت و امامت فقہی مسئلہ ہے لیکن عملی برتاؤ اس کے ساتھ وہ والا کرتے ہیں جو اصول دین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ صحابہ کو معصوم نہیں مانتے صرف عادل مانتے ہیں لیکن عملی برتاؤ ان کے ساتھ معصوم والا کرتے ہیں۔ پاکستان کے مشہور و معروف اہل سنت خطیب کی بلال نامی شخص کے ساتھ ایک کال اس پر واضح ثبوت ہے۔ یہ بات چیت نیٹ پر موجود ہے جس میں وہ شخص مولانا طارق جمیل صاحب کو بار بار کہتا ہے کہ آپ نے کیسے شیعوں کو مسلمان کہا ہوا ہے جبکہ وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرتے ہیں۔ اب مولانا صاحب اس کو بار بار کسی نا کسی طرح سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دفاع کے طور پر کسی کتاب کا حوالہ بھی نہیں دیتے کیونکہ اگر حوالہ دیتے ہیں تو اگلا اس مصنف کو بھی اڑا دے گا۔ یہ لوگ صحابہ کو نہیں چھوڑتے تو مصنفین و محدثین کی کیا مجال؟ حتی رسول اللہﷺ کی شان میں کمی آتی ہے تو برداشت کر لیں لیکن عظمت خلیفہ میں کمی آ جاۓ تو گویا کافر ہو گئے۔[18]

منابع:

 

↑1 بقرہ: ۱۲۴۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۵۴۔
↑3 شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۴۰۹۔
↑4 حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۴۶۔
↑5 نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۷۸۔
↑6 بیهقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، ج۸، ص۲۷۰۔
↑7 حنبلی، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۲۸، ص۸۸۔
↑8 بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۸، ص۱۶۸۔
↑9 حوالہ درکار ہے۔
↑10 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۹۰۔
↑11 سائٹ افتاء دیوبند۔
↑12 بخاری ، محمد بن اسماعیل صحیح البخاری، ج۴، ص۷۹۔ 
↑13 رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۳۵۔
↑14 رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۸۳۔
↑15 رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۸۵۔
↑16 رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۸۴۔
↑17 دہلوی، شاہ ولی اللہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۱، ص۷۹۔
↑18 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:42
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۶}

تشیع کے نظریات کا علمی ارتقاء

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

دین اسلام نے علم ِنافع حاصل کرنے کا درس دیا ہے۔ روایات اہل بیتؑ میں علم ِغیر نافع سے پناہ مانگنے کی تلقین وارد ہوئی ہے۔ افسوس کے ساتھ بعض افراد علم غیر نافع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی سب موضوعات کو مشکوک کرنا اور اختلافی بنا کر پیش کرنا ہے۔ یہ کام ایک عالم دین کرنے لگ جاۓ تو اس کے شر سے کوئی موضوع سالم نہیں رہتا۔ پھر چاہے توحید کا نظریہ ہو، نبوت، امامت و عصمت کا نظریہ ہو۔ یہ ایک غلط روش ہے۔ دشمنان دین کی کوشش ہوتی ہے ایسے افراد کو جذب کریں اور ان سے اپنے لیے کام لیں۔ یہ نادان افراد بھی عمدا یا سہوا دشمن کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ولایت فقیہ کا موضوع بھی ان حملات کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ حالانکہ یہ موضوع مناظراتی نہیں ہے۔

بزمی تشیع اور رزمی تشیع

عام طور پر تشیع کے اعتقادات اور نظریات پر حملہ کرنے والے افراد کفار و مشرکین کے مراکز میں بیٹھے ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک ان سب کو نا صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ وسائل مہیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اندر سے لڑانے کی کوشش کریں اور نظریات کو مشکوک بنا کر پیش کریں جن کی بنا پر شیعہ آج ناقابل شکست بن چکا ہے ۔ ان سے منسلک بعض افراد حوزہ جات میں بھی موجود ہیں جو نادانی میں دشمن کے میدان میں کام کر رہے ہیں اور ولایت فقیہ کو مشکوک بنا کر تشیع کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صرف وہی موضوعات اٹھاتے ہیں جن سے تشیع ضعیف ہو، مثلا وہ فقہی احکام جن سے تشیع بدنام ہوتا ہے صرف وہی مسائل محل بحث بناتے ہیں، جیسا کہ زنجیر زنی اور قمہ زنی کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل کو مورد بحث قرار نہیں دیتے جن سے تشیع کو سیاسی و اجتماعی قوت حاصل ہو۔ بلکہ الٹا ایسے مسائل کی شدید نفی کریں گے اور کہیں گے کہ شیعہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک امام کا ظہور نہیں ہو جاتا شیعہ کا فریضہ صرف ظلم سہنا ہے۔ یہ حقیقی تشیع نہیں ہے۔ یہ در اصل بزمی تشیع ہے جو حقیقی تشیع کے بالکل برعکس ہے۔ شیعہ ہمیشہ سے رزم اور پیکار کا قائل رہا ہے۔ اور آج بھی میدان میں شیعہ موجود ہیں جنہوں نے مسلسل استعمار کو شکست دی ہے۔ وہ شیعہ ہیں جو رزمی شیعہ ہیں، اگرچہ اقلیت میں ہیں اور دشمن ان کو کمزور کرنا چاہتا ہے لیکن نا صرف انہوں نے اپنا دفاع کیا ہےبلکہ مکتب اور آئمہ معصومینؑ کے حرموں کا بھی دفاع کیا ہے۔ اس شیعہ نے سنی کا بھی دفاع کیا ہے اور حتی غیر مسلم اقلیتوں کا بھی دفاع کیا ہے۔ اس با اقتدار تشیع کو کمزور کرنا دشمن کا ہدف ہے۔ دشمن کو ایسے بزمی شیعہ سے کوئی خوف نہیں جو چند عبادات انجام دیتا ہے، اس کا کسی سے لینا دینا نہیں ہے رسم انجام دے کر دس محرم کو خود کو ہی زخمی کر کے چلا جاتا ہے اس سے دشمن کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

رزمی تشیع اور اس کے نظریات

حقیقی شیعہ وہ ہے جو قرآن کریم کے ذکر کردہ جامع و کامل دین کا پیرو ہے۔ دین کو کسی بھی مورد میں ناقص نہیں سمجھتا۔ رسول اللہﷺ کے بعد امت کے دو حصے ہو گئے۔ ایک کثیر جماعت نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے بعد امت پر حکمرانی کا مسئلہ ہم خود بیٹھ کر حل کر لیں گے۔اور جس کو چاہیں گے اپنا حاکم و امام بنا لیں گے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی نے ہمیں کوئی رہنمائی نہیں دی کہ کس کو حاکم بنائیں؟ حاکم کے معیار کیا ہیں اور نا ہی رسول اللہﷺ نے ہماری کوئی رہنمائی کی ہے کہ میرے بعد امت کا امام و حاکم کون ہوگا۔ با الفاظ دیگر یہ جماعت ایک ایسے دین کی پیرو بن گئی جس میں امامت و خلافت جیسے اہم ترین مسئلے پر دین کی طرف سے یا اللہ تعالی کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں۔ اس جماعت نے امامت و خلافت کو فقہی مسئلہ مان لیا اور کہا کہ عوام جس کو انتخاب کر لیں وہی حاکم و امام ہوگا۔ جبکہ ایک قلیل جماعت اس بات کی قائل تھی کہ دین نے حاکمیت و امامت کے مسئلے کو بیان کیا ہے۔ حاکم و امام صرف وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالی یہ حق دیدے۔ ہم انسان کسی کو بھی اپنا امام و حاکم مقرر نہیں کر سکتے۔ یہ اللہ تعالی کے ذمہ ہیں۔ یہ کام اللہ تعالی نے کیا ہے، رسول اللہ کو غدیر خم میں نا صرف امام و حاکم کے اعلان کا حکم دیا بلکہ رسول اللہﷺ نے اس کی بیعت بھی کروائی۔ یہیں سے امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک نے کہا کہ امت کا رہبر حضرت ابو بکر ہے۔ جس کو خود امت نے انتخاب کیا ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ امت کو رہبر انتخاب کرنے کا حق ہی نہیں ہے، حاکم و رہبر انتخاب نہیں ہوتا بلکہ انتصاب ہوتا ہے۔ حاکم منصوب کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے۔ شیعہ کے بقول ۱۲ امام امت کے حقیقی امام و رہنما ہیں۔ ان کے علاوہ کسی اور کو امت پر حاکمیت کرنے کا حق نہیں۔ اس لیے تمام خلفاء اور بعد میں آنے والی بنو امیہ و بنو عباس کی حکومتوں کو شیعہ جائز حکومت نہیں مانتا۔ انتصاب کا نظریہ ۲۶۰ ہجری تک چلا۔ اور شیعہ اس بات کا قائل رہا کہ حاکم تو پہلے سے منصوب شدہ موجود ہے تو ان مسلط حکمرانوں کو حکومت کا کیا جواز بنتا ہے؟ ۲۶۰ ہجری کے بعد حالات مختلف ہوۓ۔ وقت کے امام غیبت میں چلے گئے۔ اب مسئلہ پیش آیا کہ ہم تو حکمران کے عوام کے ہاتھوں انتخاب کے قائل ہی نہیں ہیں تو اب جبکہ امام پردہ غیبت میں ہیں حاکم کون ہوگا؟ ۲۶۰ ہجری کے بعد حاکم انتخابی ہوگا یا انتصابی؟ معاشروں کی حاکمیت کی ذمہ داری کس کے پاس ہو؟ اس شخص کے پاس جو عوام منتخب کر لے یا اس شخص کے پاس جو اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہو؟ اگر انتخاب والی صورت قبول نہیں ہے تو پھر دوسری صورت میں حاکم کون ہوگا کیونکہ حقیقی امام تو پردہ غیبت میں چلے گئے۔

زمانہ غیبت میں نظریہ انتصاب کا تسلسل

جس طرح سے رسول اللہﷺ کے بارے میں اہل سنت کا یہ گمان کرنا درست نہیں ہے کہ وہ امت کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ کر بغیر حاکم کی تعیین کیے چلے گئے اسی طرح سے امام زمانؑ کی نسبت بھی یہ بدگمانی درست نہیں۔ جس طرح سے رسول اللہﷺ کے بعد امت کا خود حاکم منتخب کر لینا درست نہیں ہے اسی طرح سے امام زمانؑ کے بعد بھی امت کا خود حاکم منتخب کر لینا درست نہیں ہے۔ درست نظریہ انتصاب ہے۔ ۱۱ ہجری میں بھی امت کو انتصاب کے نظریے کے مطابق چلنا چاہیے تھا اور ۲۶۰ ہجری میں بھی نظریہ انتصاب اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ معاشروں کو تو حاکم و امام کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ اگر یہ ضرورت ۱۱ ہجری کو تھی تو یہی ضرورت ۲۶۰ ہجری کے بعد بھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے ۱۱ ہجری کے لیے کسی نا کسی کو امامت و حکمرانی کے لیے منتصب کیا ہے تو ۲۶۰ ہجری کو بھی حتما یہ اہتمام کرنا ضروری ہے۔

زمانہ غیبت اور تقیہ کا ماحول

لیکن عملی طور پر شیعہ ان نظریات کو اختیار نہیں کر سکا۔ شیعہ کو دبا دیا گیااور منتصب امام کی حکومت تشکیل نہ پا سکی۔ خود آئمہ معصومینؑ کے دور میں بھی یہ کوششیں ہوئیں کہ حکومت کسی طرح سے حق کے امام کے پاس آجاۓ لیکن نہ ہو سکا۔غیبت کے بعد بھی یہ کام نہ ہو سکا۔ شیعہ کے امام شہید کر دیے گئے اور پیروکار تقیہ میں چلے گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں شیعہ کے لیے ایک حد تک حالات سازگار ہوۓ۔ غیبت سے پہلے اور اس کے بعد کا دور بہت سخت تھا۔ تقیہ کی وجہ سے تشیع کے صرف انفرادی موضوعات ہی زیر مطالعہ رہے۔ حتی آئمہ معصومینؑ کو تقیہ اختیار کرنا پڑتا، ان کو اتنی شدت کے ساتھ تحت نظر رکھا جاتا کہ ہر محفل میں جاسوس بٹھا دیتے۔ ایسی کوئی بھی بات امام سے صادر ہوتی فورا گرفتار کر لیا جاتا اور زندان میں ڈال دیا جاتا۔ البتہ آئمہ معصومینؑ نے تدابیر اختیار کیں کہ دین کو کامل طور پر اپنے شیعوں کے لیے تبیین کر دیا۔ بعد میں جب حالات سخت تر ہو گئے تو ایسا دین پڑھایا اور بحث ہوتا رہا جو صرف ذاتی مسائل اور مکلف کی تکلیف کو دور کرنے کی حد تک تھا۔ تشیع کو سیاسی و اجتماعی نظریات کو پڑھنے یا پڑھانے کی اجازت نہ تھی ۔ یہاں تک تشیع پھیل گیا اور سیاسی و اجتماعی نظریات بھی علماء نے بحث کرنا شروع کر دیے۔ مختلف علوم میں آراء بیان ہونے لگیں۔ اور آج فقہاء ان تمام مسائل پر اجتہادکرتے ہیں ۔

شیعی نظریات میں ارتقاء

جیسےجیسے تقیہ کا ماحول ختم ہوتا گیا شیعہ فقہاء نے نظریات کو بھی ارتقاء دی۔ حتی معاصر فقہاء نے جدید مسائل میں استنباط کیا جو آج سے پہلے کسی بھی دور میں موجود نہ تھے۔ مثلا بارڈر کراس کرنے کے مسائل، اربعین کے موقع پر یہ سوال بہت کیا جاتا ہے کہ آیا بغیر ویزہ کے اربعین کی زیارت کے لیے عراق میں داخل ہو سکتے ہیں؟ ویزا اور پاسپورٹ کے مسائل، بینکنگ کے مسائل، انٹرنیٹ وغیرہ۔ پس ایک ارتقاء نظر آتا ہے جو قدیم فقہاء سے آہستہ آہستہ چلا اور آج ترقی کر چکا ہے۔ لیکن اس ارتقاء کی ایک وجہ علمی اختلاف تھا۔ فقہاء نے شدید تنقید کی، تنقید علمی رشد کا باعث بنتی ہے جس کا سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ بہت سے نظریات بعد میں ترقی پا گئے۔ ورنہ قدیم علماء میں اس موجودہ شکل میں نہ تھے۔ عصمت کا نظریہ شدید اختلافی نظریہ رہا ہے۔ آج دنیا بھر کے شیعہ آرام سے اس نظریہ کے قائل ہیں کہ امام معصوم ہیں لیکن کیا یہ نظریہ پہلے سے ہی اسی طرح سے تھا؟ جی نہیں! اس نظریہ نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور اب عصمت کا نظریہ تشیع میں راسخ ہو چکا ہے۔ حتی کہ ۱۲ اماموں کا نظریہ ہے۔ آپ کے خیال میں کیا چھٹے اور ساتویں امام کے دور کے شیعوں کو ۱۲ اماموں کے نام پتہ تھے؟ جواب یہ ہے کہ خود زمانے کے امام کا بھی بعض اوقات پتہ نہ ہوتا۔ اور بڑے بڑے نامور شیعوں کو بھی ایک عرصہ بعد پتہ چلتا کہ ہمارے زمانے کے امام فلاں ہیں۔ کیونکہ تقیہ کا دور تھا۔ اگر سب کو ہی عام پتہ ہوتا اسی وقت امام کو قتل کر دیا جاتا۔ اس لیے جیسے ہی ایک امام شہید ہوتا شیعوں میں کئی فرقے وجود میں آ جاتے۔ امام کی اولاد میں ہی شیعوں کا اختلاف ہو جاتا۔ ایک گروہ امام کے ایک فرزند کو امام مان لیتا اور دوسرا گروہ دوسرے بیٹے کو۔ان وجوہات کی بنا پر اس دور کے شیعوں کے ایمان پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ دور ہی سخت تھا۔ خود امام علیؑ پر کتنے سو سال سب و شتم کیا جاتا رہا، آئمہ معصومینؑ کی احادیث نقل کرنا جرم سمجھا جاتا تو ایسے میں کس طرح سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ شیعہ کے سیاسی نظریات کو کھل کر بیان کرتے اور اس کو عملی زندگی میں اختیار کرتے۔ سیاسی میدان دشمن کے پاس تھا جو قوت سے ایسے شیعہ افراد پر نظر رکھتا جو سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے یا تشیع کے سیاسی نظریات بیان کرتے۔ پس یہ کہنا کہ تشیع ۲۶۰ ہجری کے بعد نظریہ انتصاب پر عمل پیرا کیوں نہ ہو سکا تو اس کا جواب تقیہ ہے۔ نا یہ کہ مکتب تشیع میں سیاسی نظریات موجود ہی نہ ہوں اور بعد میں خود سے گھڑے گئے ہوں۔ تشیع ۱۱ہجری کو بھی انتصاب کا قائل تھا، ۲۶۰ ہجری میں بھی اور آج بھی نظریہ انتصاب کو مانتا ہے۔

ولایت فقیہ میں فقہی بحث

شیعہ فقہاء میں کوئی بھی فقیہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ایک فقیہ کو حکومت نہیں کرنی چاہیے۔ یا اگر کوئی فقیہ حکومت بناتا ہے تو وہ غیر اسلامی ہوگی۔ بلکہ تمام فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر شرائط مہیا ہوں تو فقیہ کو چاہیے کہ وہ اسلام کے مطابق حکومت چلاۓ۔ بحث صرف اس میں ہے کہ کیا فقیہ پر اسلامی حکومت قائم کرنا واجب ذمہ داری ہے یا نہیں؟ کیا اس کا وظیفہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت بنانے کی کوشش کرے؟ یہ بحث اختلافی ہے۔ آیت اللہ خوئیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ فقیہ کی واجب ذمہ داری میں سے نہیں ہے کہ وہ حکومت اسلامی کا قیام کرے۔ ہاں اگر اس کو حکومت اسلامی قائم کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اسلام کے مطابق اس کو چلاۓ۔ فقیہ کی واجب ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ امور حسبیہ میں جہاں ممکن ہو سکے دخالت کرے اور امور کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ امام خمینیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ فقیہ کی واجب ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی حدود کی حفاظت کرے، دین کو متعارف کرواۓ، دینی احکام کے اجراء کی کوشش کرے۔ اور یہ سب اس وقت ممکن ہے جب قوت حاصل ہو، اگر قوت حاصل نہیں کرتا تو دین کو جاری نہیں کر سکتا۔ فقہ میں موضوعاتی بحث یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ایک کثیر مدت تک یہ بحث صرف کتابوں میں ہی بند تھی، دین کے اجراء کی باتیں کتابوں میں گم تھیں، علماء کو ملتی ہی نہیں تھیں۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس بحث کو کتابوں سے نکال کر عملی صورت دی۔ یہ وہ نظریہ تھا جس کو بیان کرنے کے لیے بھی جرات چاہیے تھی، لیکن گویا امام زمانؑ کے معجزات میں سے ہے کہ اس پوشیدہ نظریہ کو عملی صورت مل گئی اور اس نے اپنے نائب کی جھلک میں حقیقی اسلامی حکومت کا ایک سایہ اس امت کو دکھایا۔

امام خمینیؒ سے پہلے نظریہ ولایت

جیسا کہ گزشتہ اقساط میں بیان ہوا کہ تشیع کے نظریات نے مرحلہ بمرحلہ ترقی۔ امام خمینیؒ سے پہلے یہ موضوعات بیان ہی نہیں ہوتے تھے۔ فقہاء کتاب البیع میں ولی کی حدود کو حاشیے میں بیان کر کے گزر جاتے۔ ولایت کی بحث کتاب البیع کی انتہائی جزوی بحث شمار ہوتی تھی۔ بعض فقہاء کرام نے یہاں سے روایات اٹھائیں اور تبصرہ کیے۔ اجتہادی ابحاث کیں اور پھر اسی بحث کو مناظرانہ بحث بنا دیا گیا۔ حوزہ جات علمیہ میں اس کے فقہی تناظر کو بحث کیا جاتا ہے۔ اس لیے محدود پیمانے پر جائزہ لیتے ہیں۔ قضاوت کے باب میں بھی اس کو ایک حد تک بحث کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب فقہاء قوت میں نہ تھے۔ اجتماعی امور ان کے ہاتھ میں نہ تھے۔ لیکن آج کے دور میں تشیع مضبوط ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد تشیع طاقتور مکتب بن کر ابھرا۔ اس سے پہلے شیعہ وہ طبقہ تھا جن پر حکومت کرنا دیگر اقوام پر حکومت کرنے سے زیادہ آسان تھا۔ شیعہ ہر حالت میں ہی تقیہ میں رہنے کا قائل ہو چکا تھا۔ اور جو لوگ تقیہ کی زندگی گزارتے ہیں ان پر کسی بھی قسم کی حکومت مسلط کرنا آسان ترین کام ہوتا ہے۔ جوقوم سیاست و حکومت کے حوالے سے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیسی حکومت ہے اور کون حاکم ہے ایسی قومیں آسان ترین ہدف ہوتی ہیں۔ اگر کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ ان کا ہدف صرف معمول کے مطابق زندگی گزارنا، عبادات انجام دینا اور علم حاصل کرنا ہے اور اجتماعی امور میں آگے نہ بڑھے ،اسے کچلنا آسان ہوتا ہے۔ امام خمینیؒ نے شیعہ کو اندھیر نگری سے نکالا اور حقیقی تشیع سے متعارف کروایا۔ ان کو سمجھایا کہ گھروں میں بیٹھے رہنا اور اجتماعی امور سے رخ موڑ لینا شیعہ کا وتیرہ نہیں۔ شیعہ کی ذمہ داری اپنے وقت کے امام کے لیے عالمی حکومت کے حالات سازگار کرنا ہے۔ ایسی حکومت جو ظلم و ستم کو ختم کر کے عدل و انصاف سے دنیا کو بھر دے گی، ایسی حکومت کی شیعہ کے دل میں آرزو پیدا کی اور اس کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے ان کو متحرک کیا۔ 

سیکولر تفکر اور شیعہ تفکر

مغربی تفکر نے مسلم دنیا کو بہت حد تک متاثر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ انفرادی طور پر جس دین کے بھی پیرو بنتے ہیں بنے رہیں لیکن اجتماعی اور سیاسی میدان میں دینی بات کو نہیں لے آنا۔ سیاست میں دینی تفکر کو ڈالنے کی کوشش نہیں کرنا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ دین کو دین کے ذریعے سے ہی ختم کر سکتے ہیں اس لیے انہوں نے بھی ایسے علماء  تیار کیے جو ولایت فقیہ کو مشکوک بنا کر پیش کریں۔ وہ دینداروں کے ذریعے ہی سیکولرزم کی تبلیغ کرواتے ہیں۔ سیکولرزم کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دین کے ہی دشمن ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دین کا اجتماعی امور میں دخل نہ ہوبے شک دین کو انفرادی زندگی میں رکھا جاۓ۔ اور یہی بات ولایت فقیہ کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقیہ کو صرف فتوی دینے کی حد تک رکھنا چاہیے اس کا سیاست اور اجتماعی امور میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ ولایت فقیہ کا مطلب ہی سیاسی اور اجتماعی امور میں فقیہ کی دخالت کرنا ہے۔ ایسے فقہاء سے پھر استعمار دشمنی بھی کرتا ہے۔ ان کے لیے ایسے فقیہ خطرناک نہیں ہیں جو صرف کتابیں پڑھتے ہیں، زیارات پر جاتے ہیں، مجالس پڑھتے ہیں اور دین کو سیاسی و اجتماعی امور میں دخل نہیں دیتے۔ در اصل یہی سیکولرزم ہے۔ دین کو اجتماعی امور سے دور کر لینا ہی سیکولرزم ہے۔ استعمار کو ایسا فقیہ چاہیے جو سارا دن کتاب میں لگا رہے اور اجتماعی امور سے بے خبر ہو۔ جس کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ گھر کیسا ہو، گلی کیسی ہو، معاشرہ کیسا ہو؟ اس سطح کا مولوی ان کو چاہیے۔ اور ایسے علماء کو وہ خود پروموٹ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دکھا سکیں کہ دین یعنی یہ شخصیت، دین یعنی یہ تفکر۔[1]

منابع:

 

↑1 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:39
عون نقوی