بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۵}

ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل(حصہ دوم)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ بدیہی امر ہے۔ ولایت فقیہ پر دلیل کے نام سے جو مطالب پیش کئے جاتے ہیں در اصل وہ مؤیدات ہیں۔ ہم تلفیقی دلیل کے ذیل میں صرف مقدمات کو قارئین کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔ اگر ان قضایا کے موضوع اور محمول کا درست تصور کروانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو ولایت فقیہ کی تصدیق خود بخود ہو جاۓ گی۔ لیکن جیسا کہ بیان ہوا اس موضوع پر مسلمین ِجہان کی نسبت دشمنان اسلام نے زیادہ کام کیا ہے۔ اس لیے دشمن نے اس نظریہ پر شبہات کی بھرمار کی ہے اور اسے مشکوک بنا کر پیش کر رہا ہے۔ 

علمی اختلافات میں عدم برداشت

پاکستانی معاشرے میں علمی اختلافات کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ ہم ہر بات کو عقائد سے جوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ بعض نظریات کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں عقائد سے جوڑ کے اختلاف کرنے والے کو دائرہ تشیع سے خارج کر دیتے ہیں۔ مثلا بعض مسائل انساب سے متعلق تھے۔ رسول اللہﷺ کی چار بیٹیاں تھیں یا ایک بیٹی؟ اس مسئلے کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی ایک بیٹی کا قائل ہے تو اس سے وہ شیعہ نہیں ہو جاتا۔ اور اگر کوئی چار بیٹیوں کا قائل ہے وہ اس سے سنی نہیں ہو جاتا۔ اگر کوئی شیعہ دلیل کی بنا پر چار بیٹیوں کا قائل ہے تو اس سے وہ دائرہ تشیع سے خارج نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ عقائد کا مسئلہ نہیں ہے۔ عقائد امامیہ کا انکار کرنے سے انسان دائرہ تشیع سے خارج ہوتا ہے۔ موجودہ شیعہ مراجع عظام میں سے بعض چار بیٹیوں کے قائل ہیں۔ مشہور قول یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی ایک بیٹی تھی۔ اور یہی قول عرب ممالک اور برصغیر کے شیعہ علماء میں رائج ہے۔ نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کی گواہی دینا یا نا دینا ایک فقہی مسئلہ ہے۔ فقہی مسئلے میں اختلاف کی بنا پر کوئی غیر شیعہ نہیں بن جاتا۔ کربلا میں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر تین دن پانی بند رہا یا نہیں؟ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی دلیل کی بنا پر اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ تین دن پانی بند نہیں رہا تو اس سے وہ مصائب امام حسینؑ کا منکر نہیں ہو جاتا۔ اس دور میں نادرہ دفتر تھا اور نا سب افراد کی دقیق معلومات ضبط کی جاتی تھیں، نا کیمرے تھے جو لائیو رپورٹنگ کر رہے ہوں، اس لیے ہم تک ازواج، اولاد کی دقیق طور پر خبر نہیں پہنچی۔ یہ سب تاریخی، فقہی یا جزوی مسائل ہیں۔ اگر شیخ مفید نے امام حسینؑ کی اولاد ۶ ذکر کر دی اور بقیہ نے ۹ ذکر کی ہے تو اس سے شیخ مفید کو تشیع کے دائرے سے خارج نہیں کر دیا جاۓ گا۔ یہ روش درست نہیں ہے۔ تقلید کا مسئلہ یا سید زادی کا غیر سید سے نکاح کا مسئلہ بھی اسی طرح سے ہے۔ ان اختلافی ابحاث میں مومنین دوسرے کی راۓ کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کو ایمان کے دائروں سے خارج مت کریں۔ یہ فضا ختم ہونی چاہیے۔ علمی اور دلیل سے پیش کی جانے والی بات قبول کی جانی چاہیے۔ ایسے ماحول میں علمی بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ واضح اور بدیہی ترین موضوع کو بھی مشکوک بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہاں پر ہم بھیڑ چال مت چلیں بلکہ دلیل کے پیچھے چلیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے مسائل کو بھی تفرقہ کا رخ دے دیا جاۓ اور مسلمین کو اندر سے کمزور کیا جاۓ۔ 

ولایت فقیہ کے متعلق شکوک و شبہات

ہمارے معاشروں میں اس سے پہلے کہ ولایت فقیہ کو اس کی دلیلوں سمیت تبیین کر دیا جاتا، اس موضوع کو شبہات کا شکار کر دیا گیا۔ اس لیے ہمیں جہاں پر اس کی دلیل دینا پڑتی ہے وہیں پر شکوک و شبہات کے جواب بھی دینا پڑتے ہیں۔ ابھی حال یہ ہے کہ تشیع کے علمی مراکز سے اس موضوع پر شبہات اٹھاۓ جا رہے ہیں۔ دشمن کا نفوذ حوزہ میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ اس موضوع کو وطنیت اور قومیت کے ذیل میں دیکھا جاتا ہے نیابت آئمہ کے ذیل میں نہیں دیکھا جاتا۔ ایک شخص جس نے ساری زندگی فقہ اور اصول پڑھنے میں لگا دی جب اس سے سیاسی اور عقلی ابحاث کی جائیں تو آگے سے کہتا ہے اچھا تو فلاں مجتہد غلط تھا جس نے اس کو نہیں مانا؟ جب اس کو عقلی دلیل پیش کی جاتی ہے تو کہتا ہے کہ فتوی لاؤ، جبکہ عقلی دلیل کسی فتوی کی محتاج نہیں ہوتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فلاں مجتہد غلط تھا لیکن ہم علمی تنقید تو کر سکتے ہیں۔ اگر ایک مجتہد کے علمی مقام کے رعب میں آ کر ہم دب جائیں تو رشد کیسے ہوگا؟ علمی اختلاف تو ضروری ہے۔ اول سے لے کر آج تک جو کتابیں بھی لکھی گئی ہیں وہ سب اختلافات سے ہی تو بھری ہوئی ہیں۔ اگر اختلاف نہ کریں تو حقائق روشن نہیں ہوتے۔ شخصیت کا تقابل کرنا علمی روش نہیں ہے بلکہ عوامانہ روش ہے۔ شخصیت کے مقابلے میں شخصیت نہیں لائی جاتی، اگر شخصیت کے مقابلے میں شخصیت لے آئیں تو پھر یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ بلکہ دلیل کے سامنے دلیل لے آئیں۔ جو دلیل قانع کنندہ ہو اس کو مانا جاۓ۔ نا کہ بڑی شخصیت کے علمی رعب کی وجہ سے اس کی بات مانی جاۓ۔ علمی اختلاف سے کوئی دائرہ تشیع سے خارج نہیں ہوجاتا اور نا ہی اس سے مراجع عظام کی توہین ہوتی ہے۔

غیر علمی ماحول میں علمی اختلاف

پاکستان میں جو فضا ایجاد کر دی گئی ہے وہاں پر علمی مباحثہ کا آخری نتیجہ ایک دوسرے کی عزت اچھالنا، طعنے کسنا اور دائرہ تشیع سے خارج کرنا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ کسی سے بحث مت کریں بلکہ عام عوام کو اپنا مخاطب قرار دیتے ہوۓ علمی تبیین پیش کرتے رہیں۔ حقائق کو عوام پر روشن کرتے رہیں ایک وقت آۓ گا جب لوگ حقیقت کو درک کر لیں گے۔ ہمارے حوزہ جات کا مسئلہ یہ ہے کہ بہت کم علماء عقلی اور نقلی دونوں علوم میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر حوزہ نجف کی بات کی جاۓ تو اکثریت عقلی دلیل سے قائل نہیں ہوتے۔ وہ اصلا عقلی دلیل کو دلیل ہی نہیں مانتے۔ یہ سب کی بات نہیں ہو رہی بلکہ بہت سے اچھے اور سنجیدہ علماء بھی حوزہ نجف میں موجود ہیں جو علوم نقلی و علوم عقلی میں استاد شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ایک کثیر تعداد حوزہ قم اور نجف میں موجود ہے جنہوں نے موضوعات پر عقلی دلیلوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ حالانکہ دین کے بہت سے موضوعات عقلی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں۔ مثلا تقلید کا مسئلہ اگر آپ نقلی دلیلوں سے ثابت کرنے بیٹھ جائیں تو آیت اللہ خوئیؒ کے مبانی سے تو وہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کے مبانی کے مطابق تقلیدکے موضوع پر مروی روایات ضعیف ہیں۔ تو اب کیا کریں؟ ظاہر ہے وہاں پر عقلی دلیل سے ان نقلی مقدمات کو تقویت دی جاۓ گی۔ لذا ہر موضوع کی دلیلوں سے علمی طور پر حل کریں۔ ممکن ہے ایک معاشرے میں ایک شاذ قول کو عالم دین دلیلوں کی بنیاد پر بیان کرے اور اس قول کو شہرت حاصل ہو جاۓ۔ یہاں پر اس عالم دین کو دیوبندی نہیں کہہ دینا۔ خود ولایت فقیہ کا موضوع بھی شاذ قول تھا، سب نے ابتدا میں مخالفت کی ابھی بھی زیادہ تر مخالف نظریہ ہی مشہور قول کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت کے رعب میں آ کر شاذ قول کو ترک کر دیں۔ آیت اللہ خوئیؒ نے اصول و فقہ کی دنیا میں شاذ اقوال کو رائج کر دیا۔ ان سے پہلے ان کے نظریات رکھنے والے علماء بہت شاذ تھے۔ لیکن انہوں نے شاذ اقوال کو دلیلیں دے کر حوزہ میں رائج کر دیا اور آج ان کے شاگردان کثرت میں ان کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں۔ اور آج وہی شاذ اقوال مشہور اقوال کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ معلوم ہوا دلیل کو مانا جاۓ، اکثریت سے مرعوب ہونا، یا جو علمی ماحول بنا ہوا ہے اس کے بر عکس گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔

ولی فقیہ کی موجودگی میں امام کی ضرورت

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ولایت فقیہ کو مان لیں تو پھر امامت کی کیا ضرورت ہے؟ جو کام ولی فقیہ سے ہو سکتا تھا پھر وہی کام اللہ تعالی نے امام سے کیوں کروایا؟ یا اس شبہہ کو ایک اور رخ سے دیکھا جاۓ تو یہ سوال بھی بنتا ہے کہ اگر ولی فقیہ آج کے دور میں موجود ہے تو پھر امام زمانؑ کی کوئی ضرورت نہیں۔ الہی قوانین کا آپ کو اجراء ہی کروانا تھا تو وہ کام تو ولی فقیہ بھی کر رہا ہے؟
جواب: جس طرح امامت نبوت کی بدیل نہیں ہے بلکہ جانشینی ہے اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی امامت کی بدیل نہیں بلکہ جانشینی ہے۔ امام کے آنے سے نبی کی ضرورت ختم نہیں ہوتی۔ رسالت و نبوت کی ضرورت تب بھی رہتی ہے۔ کیونکہ اصل یہ ہے کہ حاکم الہی معصوم ہو۔ اس کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا معصوم ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر معصوم نہ ہوا اور اس نے غلط حکم دیا تو یہ ہدایت نہ ہوئی بلکہ ضلالت ہوگی۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ حاکم اگر غلط حکم بھی دے تو اللہ تعالی اسے حکم شرعی بنا دیتا ہے۔ اس لیے وہ خطا نہیں کر سکتا، یزید کی حمایت بھی اسی تفکر کی بنا پر کی جاتی ہے۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ امام معصوم ہوتا ہے اور اس کا کوئی بدیل نہیں ہو سکتا۔ ولایت فقیہ کسی بھی صورت میں امامت کی بدیل نہیں ہو سکتی۔ امامت کی ضرورت ہر دور میں موجود ہے ولایت فقیہ کو صرف اضطراری صورت میں اختیار کیا گیا ہے۔ 

ولی فقیہ کا غیر معصوم ہونا

ایک شبہہ پیش کیا جاتا ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالی نے امام معصوم کے ذمہ لگائی ہیں وہیں ذمہ داریاں آپ ولی فقیہ کے ذمہ بھی لگا رہے ہیں جبکہ ولی فقیہ معصوم نہیں ہے وہ ان ذمہ داریوں کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے؟
جواب: اصل یہ ہے کہ یہ ذمہ داریاں امام معصوم ہی پوری کرے۔ لیکن زمانہ غیبت میں کیا کریں؟ مثلا کے طور پر زمانہ امامت میں معصوم امام ان ذمہ داریوں کو ۱۰۰ فیصد پورا کر رہا تھا۔تو زمانہ غیبت مین کیسا حاکم قرار دیا جاۓ؟جو ایک فیصد بھی امامت والی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا یا وہ جو ۶۰ یا ۷۰ فیصد تک امام کے قریب تر ہے؟تنزل کی صورت قابل امکان ہے۔ ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے معصوم حاکم تو غائب ہے اس صورت میں معصوم حاکم کے قریب ترین صورت کونسی بنتی ہے؟ عادل حاکم کی یا فاسق حاکم کی؟ عقل یہ کہتی ہے کہ اگر معصوم حاکم نہیں ہے تو کم پر اکتفا کرو اور عادل حاکم کو اپنے اوپر قرار دو ناکہ معصوم حاکم کے نہ ہونے کی صورت میں مسقیم طور پر فاسق کو حاکم بنا دو۔ ایک اور مثال دیتے ہیں۔ فقہی حکم بیان کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ جواب یہ ہے کہ فقہ کا کوئی بھی مسئلہ ہو اسے امام سے پوچھا جاۓ گا۔ اب فرض کر لیتے ہیں اگر امام نہ ہو، تو اس صورت میں کس سے فقہی مسئلہ پوچھیں؟ فقیہ سے یا کسی دوسرے شعبے کے انسان سے؟ عقل کہتی ہے کہ فقہی مسئلہ اس سے پوچھیں جو امام کے قریب تر ہو۔ اسی طرح سے قضاوت کا مسئلہ ہے۔ اگر مومنین کا آپس میں جھگڑا ہو جاۓ تو امام کی ذمہ داری ہے کہ اس کو حل کرے۔ لیکن اگر امام نہ ہو تو یہ فیصلہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ہم کہیں گے کہ امام کے قریب ترین شخصیت کو یہ حق بنتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے۔ عصمت کے قریب ترین مرتبہ عدالت ہے۔ عدالت کا پائین ترین مرتبہ یہ ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچاۓ اور واجبات انجام دے۔ اگر معصوم امام موجود نہیں ہے تو اس عادل شخص کی ذمہ داری ہے کہ امت کی مدیریت کرے کیونکہ یہ امام کے قریب تر ہے۔معاشروں کی مدیریت کا مسئلہ ہے۔ اصل ذمہ داری امام کی بنتی ہے۔ لیکن اگر امام پردہ غیبت میں ہیں تو یہ ذمہ داری ایک ایسے عادل انسان کی ہے جو عدالت تو رکھتا ہی ہے ساتھ میں فقیہ جامع الشرائط بھی ہے اور مدیریت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ امام معصوم کے برابر تو نہیں ہے لیکن بقیہ کی نسبت اس کے قریب تر ہے۔ ولی فقیہ اور امام معصوم کے مقام و مرتبہ کا مقائسہ کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ایک غیر معصوم کبھی بھی امام معصوم کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ۱۲ اماموں کے مرتبہ اور مقام تک کسی کا پہنچنا ناممکن ہے۔ یہاں پر بات ذمہ داری کو پورا کرنے کی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایک عہدہ موجود ہے۔ اس عہدے پر معصوم امام کو ہی فائز ہونا چاہیے تھا لیکن ابھی امام غائب ہے اور یہ ذمہ داری پوری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کس شخص کو اس عہدے پر بٹھایا جاۓ؟ ایسے شخص کو جس کے اندر امام سے شباہت نہیں پائی جاتی ؟یا ایک ایسے شخص کو جو ایک حد تک امام کے قریب تر ہے؟ عقل کہتی ہے کہ جب تک امام معصوم ظاہر نہیں ہو جاتے اضطراری صورت میں یہی شخص صاحب اختیار ہوجو امام کے زیادہ مشابہ ہے۔ جس طرح سے فقہی مسئلہ بیان کرنے کی ذمہ داری مجتہد کو عطا ہوئی ہے، حالانکہ اصلی ذمہ داری امام معصوم کی تھی۔ یا قضاوت کی ذمہ داری قاضی کو عطا کی گئی ہے اسی طرح سے معاشروں کی الہی قوانین کے مطابق مدیریت کرنے کی ذمہ داری بھی ولی فقیہ کو عطا ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ تمام صورتیں امام کے قریب ترین ہیں۔ یہ عام اور سادہ سی بات ہے جس کو سمجھنا بہت آسان ہے۔

زمانہ غیبت میں اضطراری صورت

حج کے احکام میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ تین دن روزہ رکھے۔ یہ ایک اضطراری صورت ہے۔ اگر انسان کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو تو وہ اس صورت میں تین دن روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اضطراری صورتوں کے احکام خود دین نے بیان کیے ہیں۔ اضطراری صورت والے احکام کسی بھی صورت میں بدیل نہیں ہو سکتے، بدیل یہ ہوتا ہے کہ کسی کو بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلا ایک شخص پر روزے کا کفارہ پڑ گیا ہے۔ وہ ۶۰ روزے بھی رکھ سکتا ہے۔ اس کا بدیل بھی اختیار کر سکتا ہے مثلا ۶۰ فقیروں کو کھانا کھلا دے۔ یہ دونوں بدیل ہیں ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔ لیکن قربانی کرنے کی استطاعت موجود ہو پھر بھی کوئی شخص تین دن روزہ رکھے یہ قبول نہیں۔ کیونکہ تین دن روزہ رکھنے کا حکم اضطراری ہے بدیل نہیں بن سکتا۔ جس طرح سے فقہ اصغر میں اضطرار کی صورت ہے فقہ اکبر میں بھی اضطرار کی صورت ہے۔ اگر معصوم امام موجود نہیں ہے تو غیر معصوم عادل ولی فقیہ کی صورت میں معاشرے کی مدیریت کو سنبھالے۔ جو امام کے قریب تر ہے۔ نظام امامت کے قریب ترین صورت جمہوری نظام نہیں ہے۔ بلکہ ولایت فقیہ امامت کے قریب تر ہے۔

امامت کا سیاسی نظام ہونا

ایک شبہہ یہ بھی عوام میں پھیلایا گیا ہے کہ امامت تو سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ ہمارے امام تو ہادی اور بشیر تھے۔ ان کا کام امت کو صرف نیکی کے کام بتانا اور ان کو نصیحت کرنا تھا۔ وہ تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کو برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آج کے دور میں فقیہ کا کام بھی یہی ہونا چاہیے اس کا سیاست سے کیا تعلق؟
جواب: جہاں پر نبی اور امام ہادی، بشیر، نذیر اور مبلغ ہوتا ہے وہیں پر معاشرے کا رہبر بھی ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں مختلف ہیں۔ اس کی ذمہ داری دین کی تبیین، تبلیغ، اور معاشرے کی الہی قوانین کے مطابق مدیریت کرنا ہے۔ انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ لوگوں پر اللہ تعالی کی جانب سے حاکم تھے۔ ان کا امت پر سیاسی طور پر حاکم ہونا ان کے نذیر اور ہادی ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ امام ہوتا ہی وہ شخص ہے جو دین اور دنیا کا رئیس ہو۔ تمام سنی شیعہ علماء نے امامت کی یہی تعریف کی ہے۔[1][2][3][4] کسی بھی عالم دین نے امامت کی یہ تعریف نہیں کی کہ امام صرف دینی رہنمائی کرنے کے لیے ہوتا ہے بلکہ وہ دینی اور دنیوی ہر دو امور میں امت کا رئیس ہوتا ہے۔ 

ولایت فقیہ۔اضطراری صورت

زمانہ اختیار میں امام معصوم ہوگا۔ جبکہ زمانہ اضطرار میں ولی فقیہ کو ماننا ہوگا۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل ہے کہ معاشرے پر ایک الہی حاکم ہونا چاہیے ورنہ معاشرہ ہرج مرج کا شکار ہو جاۓ گا۔ اہل سنت بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حاکم ہونا چاہیے کیونکہ حاکم کے بغیر معاشرہ ہرج مرج کا شکار ہوتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ حاکم کا اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ خود امت شوری بنا کر حاکم چن سکتی ہے۔ زمانہ غیبت میں اہل تشیع اضطرار کی وجہ سے غیر معصوم کی حکومت کو مان رہا ہے کیونکہ ضرورت تو بہرحال پوری کرنی ہے۔ ورنہ اشرار کی حکومت کو ماننا پڑے گا۔ اگر آپ اس بات کے قائل ہو جائیں کہ حاکم صرف معصوم ہونا چاہیے تو جب امام غائب ہو تو کیا کریں؟ اب دو صورتیں ہیں۔ یا تو ایک ایسے شخص کی حاکمیت کو مشروع مان لیں جو امام کے قریب تر ہے اور اس کی حکومت کے لیے راہ ہموار کریں۔ یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ چونکہ امام معصوم تو ہے نہیں اب ہماری حکومت کے متعلق کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اشرار آپ پر حاکم ہو جائیں گے۔ اگر اشرار اور طاغوتی حکمرانوں سے بچنا ہے تو امامت سے قریب ترین صورت کو اختیار کرنا ہوگا۔

زمانہ اختیار اور زمانہ اضطرار

ایک زمانہ اختیار ہے جس میں امام معصوم موجود ہے۔ اس صورت میں صرف معصوم امام کو حکومت کرنے کا حق ہے۔ عصمت کی شناخت ہمارے لیے آسان نہیں۔ اس لیے نبی بتاۓ گا کہ معصوم کون ہے یا ایک امام اگلے امام کا نام بتا کر جاۓ۔ اگر تقیہ کی وجہ سے نام بتا کر نہ جاۓ تو معجزے سے بھی ہم معصوم کو پہنچان سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب صورتیں زمانہ اختیار میں بنتی ہیں۔ زمانہ اضطرار میں کیا کریں؟ کیونکہ زمانہ اضطرار میں نا تو شخص معین کیا گیا ہے اور نا ہی نام بتایا گیا ہے۔ غیر معصوم معجزہ بھی نہیں دکھا سکتا۔ اس صورت میں کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ زمانہ اضطرار میں معیار عدالت ہے۔ اعلی درجےکی  عدالت و فقاہت جو انسان کی استطاعت میں ہے اس کو ملاک قرار دیا جاۓ۔ اس لیے ولی فقیہ کون ہوگا ان معیاروں پر اترنے والی شخصیت کو ڈھونڈھنے کے لیے مجلس خبرگان کی شوری بنائی جاتی ہے۔ لوگ ولی فقیہ کو انتخاب نہیں کر سکتے۔ بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے زمانہ اضطرار میں جو الہی حاکم ہونے کے معیارات ہیں اس کی حامل شخصیت کو کشف کرنے کے لیے خبرگان کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا ولی فقیہ کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا انکشاف ہوتا ہے۔ جس طرح رؤیت ہلال کی کمیٹیاں پہلی کا چاند انتخاب نہیں کرتیں بلکہ اس کو کشف کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ کمیٹی چاند بناتی نہیں ہے بلکہ کشف کرتی ہے۔ چاند پہلے سے موجود ہوتا ہے یہ صرف کشف کر رہے ہیں۔ ان کے انتخاب سے چاند، چاند نہیں بنتا۔ بلکہ چاند پہلے سے موجود ہوتا ہے اس کو کشف کیا جاتا ہے اور رؤیت ہلال کمیٹی اس پر شہادت دیتی ہے۔ مجلس خبرگان بھی ولی فقیہ کو انتخاب نہیں کرتی بلکہ اس کو کشف کرتی ہے اور اس کے الہی حاکم (کے اندر پائی جانے والی صفات کی حامل شخصیت )ہونےکی شہادت دیتی ہے۔ جمہوریت اور ولایت فقیہ کے نظام میں یہی فرق ہے۔ ولایت فقیہ میں جمہور حق کو قبول کرنے والے ہیں، حقِ حاکمیت دینے والے نہیں ہیں۔ یہ شبہہ ہے کہ جمہوریت اور ولایت فقیہ ایک ہی نظام ہے۔ ولایت فقیہ میں حقِ حاکمیت از طرف خدا عطا ہوتا ہے اور اس کو جمہور قبول کرتی ہے۔ لیکن جمہوری نظاموں میں حاکم بننے والے شخص کو جمہور اپنی طرف سے حقِ حاکمیت دیتے ہیں چاہے وہ حاکم بننے کا اہل ہو یا نہ ہو۔ با الفاظ دیگر جمہوری نظام میں صرف عوام معیار ہے، جبکہ ولایت فقیہ میں الہی خصوصیات کا حامل ہونا اور عوامی مقبولیت کا حاصل ہونا دونوں معیار ہیں۔[5]

منابع:

↑1 شریف، جرجانی، التعریفات، ج۱، ص۳۵۔
↑2 تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۴۔
↑3 علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، ج۱، ص۱۰۔
↑4 فاضل مقداد، ابوعبداللہ مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، ج۱، ص۳۲۵۔
↑5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۴تا۱۶۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:27
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۴}

ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل(حصہ اول)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ امامت کی جزوی بحث ہے۔ اگر ہمارے لیے امامت ثابت ہو جاۓ تو جزوی طور پر ولایت فقیہ بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ اس لیے ولایت فقیہ کی دلیلیں بھی وہی دلیلیں ہیں جو نبوت اور امامت کی ضرورت ثابت کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ اگر کوئی شیعہ اصل امامت کو مانتا ہو اور اس کی جز(ولایت فقیہ) کو نا مانے اس سے وہ دائرہ تشیع سے خارج نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی اصلِ امامت کا ہی انکار کر دے تو دائرہ تشیع سے خارج ہو جاتا ہے۔ ولایت فقیہ چونکہ جزوی بحث ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے کہ جو نہیں مانتا وہ شیعہ ہی نہیں ہے۔ لیکن کسی کو یہ اجازت بھی نہیں دی جا سکتی کہ وہ دشمنوں سے مل کر اسلامی نظام کی تضعیف کا باعث بنے،مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرے یا ان کے اندر تفرقہ کا باعث بنے۔

بیان ہوا کہ ہمارے پاس ولایت فقیہ پر تین دلیلیں ہیں۔
۱۔ محض(خالص) عقلی دلیل
۲۔ محض(خالص) نقلی دلیل
۳۔ عقل اور نقل سے مرکب(تلفیقی) دلیل۔ اس دلیل کو مصنف نے تلفیقی دلیل کا نام دیا ہے۔ تلفیقی سے مراد یہ ہے کہ عقل اور نقل سے مرکب ہے۔ 

تلفیقی دلیل اور محض عقلی دلیل میں فرق

عقلی دلیل ایسی دلیل ہوتی ہے جس کے تمام مقدمات عقلی ہیں۔ گزشتہ تین اقساط میں ہم نے عقلی دلیل کی تبیین پیش کی۔ انسان کا مدنی الطبع ہونا، انسان کو عدالت کی ضرورت، قانون اور اس کے اجراء کی ضرورت، یہ سب عقلی باتیں تھیں۔ ان کو ثابت کرنے کے لیے ہم نے کسی آیت یا روایت کا استفادہ نہیں کیا۔ بلکہ انسانی عقل مستقل طور پر ان باتوں کو درک کر کے حکم لگاتی ہے۔ جبکہ تلفیقی دلیل ایسی دلیل ہوتی ہے جس کے بعض مقدمات عقلی اور بعض نقلی ہیں۔ ولایت فقیہ کو ثابت کرنے کے لیے تلفیقی دلیل کا ایک مقدمہ قرآن کریم سے لاتے ہیں:

«لَا یَأْتِیهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ».
ترجمہ: باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔[1]
قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے کہ اس میں باطل سرایت نہیں کر سکتا۔ آیا اس کی کوئی مدت معین کی گئی ہے یا تا قیامت یہ دعوی موجود ہے؟ ظاہری طور پر آیت میں کوئی مدت معین نہیں کی گئی اور قیامت تک یہ کتاب سراسر ہدایت ہے اور اس میں باطل امر موجود نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوا اس کتاب اور دین اسلام کی ضرورت دائمی ہے۔ آج کے معاشروں کو بھی دین کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نقلی مقدمہ ہے جو ہم نے قرآن مجید سے لیا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرا عقلی مقدمہ ملائیں تو ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قرآن محید صرف ۲۶۰ ہجری تک کے انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ آج بھی قرآنی تعلیمات کے اندر ہمارے لیے ہدایت اور انسانی ضرورتوں کا نظام موجود ہے۔ نبوت اور امامت کی جو ضرورت ۲۶۰ ہجری تک کے افراد کو تھی وہی ضرورت آج بھی ہے ورنہ معاشرے میں ہرج مرج لازم آ جاۓ گا۔ معاشروں کو آج بھی عدالت کی ضرورت ہے۔ معاشروں کو الہی قانون کی ضرورت آج بھی ہے۔ عقل یہاں پر کہتی ہے کہ اللہ تعالی نے امتوں کو ۲۶۰ ہجری کے بعد آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جو ان کی مرضی کرے غیر الہی و غیر قرآنی نظام اپنا لیں۔ بلکہ اس کے اندر آج کے انسان کے لیے بھی ہدایت موجود ہے۔ اللہ تعالی کا قرآن کریم کو اتارنے کا ہدف قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کرنا تھا۔ اس سے صرف ۲۶۰ ہجری تک کے انسان استفادہ لینے کے حقدار نہیں ہیں۔ ان دو مقدمات کو آپس میں ملائیں تو ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ 

عقل اور نقل

عقل اور نقل(قرآن کریم و احادیث) دونوں دین کے منابع ہیں۔ با الفاظ دیگر جو بات عقل کرتی ہے وہی بات نقل کرتی ہے۔ دین کا عقل سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ عقلی دلیل کے مقابلے میں نقلی دلیل آتی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں عقلی دلیل اور نقلی دلیل دونوں دین کی دلیلیں ہیں۔ دین کے مقابلے میں عقلی دلیل نہیں آتی۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی خود ہمارے اپنوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عقلی دلیل ہمارے کسی کام کی نہیں ہے اور ہمیں صرف نقلی دلیل پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ اور یہی طعنہ آج مغرب بھی مسلمانوں کو دیتا ہے اور اپنے گمان میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان عقل کا استعمال نہیں کرتے اور عقلی دلیل نہیں رکھتے اور خود وہ عقلی اور منطقی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے بقول اسلام یعنی غیر عقلی باتوں کا مجموعہ۔ یا کہتے ہیں کہ عقل اور دین دو متضاد راستہ دکھاتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ کام پاپ نے کیا اور ہر عقلی بات کو رد کیا۔ اس لیے وہ ہر دین کے بارے میں یہی سوچتے ہیں۔ وگرنہ حقیقت میں حضرت عیسیؑ کا دین تو عقل کے برخلاف نہ تھا۔ یہ تو کلیسا میں بیٹھا پاپ غیر عقلانی کام کر رہا ہے اور اس کو دین کا نام دے رہا ہے۔ دوسری طرف ایک نادان گروہ خود مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے جو کہتا ہے کہ نقل کافی ہے اور عقل کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ دین ثابت ہی عقل سے ہوتا ہے۔ پہلے عقل سے ثابت کرنا ہوگا کہ دین ہو یا نہ ہو، اگر عقل سے ثابت ہی نہ ہو سکے کہ دین ہونا چاہیے یا نہیں تو پھر کونسی دین کی باتیں اور کونسی کتاب و حدیث۔

عقل کی ضرورت اور اس کا ادراک

چونکہ تلفیقی دلیل کے بعض مقدمات عقلی ہیں اس لیے ہمیں عقل کو مزید کھول کر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ عقل یہ بات درک کرتی ہے کہ انسان بغیر ہدف کے پیدا نہیں ہوا۔ وہ معاشرتی زندگی گزارتا ہے اور اسے قانون کی ضرورت ہے۔ یہ سب باتیں عقل مانتا ہے۔ یہ بات عقل نے مستقل طور پر سمجھی ہے اسے کسی نبی یا امام نے نہیں بتائی۔ عقل اس ضرورت کو کسی خاص زمانے کے ساتھ محدود بھی نہیں کرتی۔ بلکہ عقل مانتی ہے کہ انسان کو قانون اور ہدایت کی ضرورت زمانہ امامت میں بھی ہے اور زمانہ غیبت میں بھی ہے۔ اب یہ ساری باتیں عقلی دلیل کے مقدمات ہیں۔ منطق کی زبان میں اسی کو صغری کبری اور نتیجہ کہتے ہیں۔ صغری کبری میں بدیہی مقدمات لاۓ جاتے ہیں۔ جب مقدمات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیں تو نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ نتیجہ دلیل کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ اس نے حاصل ہونا ہی ہوتا ہے۔ عقلی دلیل کے مقدمات سب عقلی ہوتے ہیں۔ لیکن تلفیقی دلیل میں ایک مقدمہ عقلی ہوتا ہے اور ایک مقدمہ نقلی۔ ان دونوں کی ترکیب سے ایک نتیجہ نکلتا ہے جو عقل درک کرتی ہے۔ ہم یہاں پر مثال پیش کرتے ہیں:
صغری: علی انسان ہے۔
کبری: ہر انسان فکر کر سکتا ہے۔
نتیجہ: علی فکر کر سکتا ہے۔
صغری اور کبری میں انسان حد وسط ہے۔ جو ایک مقدمے کو دوسرے مقدمے سے جوڑتی ہے۔ حد وسط نتیجہ میں گر جاتی ہے۔ حد وسط کا کام دونوں مقدموں میں ارتباط پیدا کرکے فنا ہو جانا ہے۔
اسلامی نظام کی ضرورت کے بارے میں ہم اس طرح سے دلیل قائم کریں گے:
صغری: قرآن کریم ہدایت کی کتاب ہے۔
کبری: انسان کو ہر دور میں ہدایت کی ضرورت ہے۔
نتیجہ: قرآن کریم آج بھی انسان کی ضرورت ہے۔

قاعدہ لطف کا بیان

تلفیقی دلیل کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک قاعدہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس قاعدے کو متکلمین قاعدہ لطف کا نام دیتے ہیں۔قاعدہ لطف ایک معروف قاعدہ ہے جو علم عقائد کی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ ہمارے علماء نبوت اور امامت کی ضرورت کو قاعدہ لطف سے ہی ثابت کرتے ہیں۔ جب نبوت اور امامت کا عہدہ ثابت ہو جاتا ہے تو اگلا سوال ایجاد ہوتا ہے کہ اس زمانے کا نبی یا امام کون ہے۔ مکتب تشیع میں عقلی دلیلیں متعدد ہیں لیکن سب سے پہلے جس دلیل کا تذکرہ ہوتا ہے وہ قاعدہ لطف ہے۔ اس قاعدہ کو تقریبا تمام امامیہ متکلمین نے قبول کیا ہے تاہم آج کے دور میں اس کی تبیین اور تشریح پر بعض علماء نے اعتراضات کئے ہیں اور اپنے خاص انداز میں مختلف تشریح کی ہے۔ معتزلہ علماء میں سے بشر بن معتمر اور جعفر بن حرب نے اس قاعدہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ جبکہ اشاعرہ اس قاعدہ کو رد کرتے ہیں کیونکہ وہ حسن و قبح عقلی کے اصل سے ہی منکر ہیں۔ شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب الفہرست میں بیان کیا ہے کہ امام صادقؑ کے مشہور شاگرد ہشام بن حکم نے ایک کتاب لکھی جس کا نام الالطاف ہے۔[2] اس قاعدے پر باقاعدہ کوئی آیت یا روایت موجود نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اور معنی اس دور میں پھیل گیا تھا۔ ہشام بن حکم بہت بڑے متکلم و مناظر تھے۔ اس طرح کی شخصیات ہر دور میں ہونا ضروری ہیں جو مکتب کے عقلی مبانی کو مضبوط کریں اور دفاع کریں۔ معتزلہ مکتب اس لیے ضعیف ہوا کہ اس کے مناظر علماء ختم ہو گئے تھے۔ معتزلہ عقلی روش کے قائل تھے لیکن بعد میں اہل اسلام میں اہل حدیث کی روش پھیل گئی تو یہ لوگ ختم ہو گئے، تاہم مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوۓ آج بھی عالم اسلام میں اس طرح کی شخصیات موجود ہیں جو معتزلہ کی طرح عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں۔ بہرحال اس قاعدے سے نبوت اور امامت کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ اور اسی کے ذیل میں زمانہ غیبت میں فقیہ کی ولایت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

قاعدہ لطف کی وسعت

قاعدہ لطف ثابت ہو جاۓ تو اس سے بہت سے دیگر نظریات بھی ثابت ہو جاتے ہیں۔ اسی قاعدے کی بنا پر وجوب تکلیف، بعثت انبیاء، امامت کی ضرورت، اور عصمت آئمہ معصومینؑ بھی ثابت ہوتی ہے۔ وعد و وعید، عذاب و ثواب، اور قیامت بھی اسی قاعدے سے ثابت ہوتی ہے۔ لذا اس قاعدہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ عقیدے صرف سن کر مان لینے سے راسخ نہیں ہوتے۔ جب تک ہم اس کو تفصیل سے سمجھ نہیں لیتے اور فہم حاصل نہیں کر لیتے فائدہ نہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حوزے میں سال ہا سال گزارنے والے بعض افراد کے عقیدے بالکل عوامانہ ہوتے ہیں۔ جو معاشرہ کہہ دے اور علماء سے سن لیا اسی کو عقیدہ بنا لیا۔ ان کی آخری دلیل فتوی ہوتی ہے۔ ہر بحث میں فتوی لے آتے ہیں۔ جبکہ ہماری بحث سیاست، عقائد اور تاریخ کے موضوعات پر ہو رہی ہوتی ہے۔ اس قاعدے کو تحقیقی طور پر سمجھیں اور اس کے مطابق عقیدے بنائیں۔ اور اس بات کو درک کریں کہ اس قاعدے میں کس طرح سے عقل سے استفادہ کیا گیا ہے۔ بہت سے امور میں ہمیں عقل سے مدد لینا پڑتی ہے کیونکہ نقل ہمارے لیے متشابہ واقع ہو رہی ہوتی ہے۔ مثلا قرآن کریم میں حضرت آدمؑ کے عصیان کا ذکر ہونا۔ حضرت آدمؑ کے بارے میں عصیان کلمہ وارد ہونا بہت سنگین بات ہے۔کیسے عصمت آدمؑ کو ثابت کریں گے۔ حتما ہمیں عقل کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اور ان آیات کو متشابہ قرار دے کر ان کا ارجاع محکمات کی طرف کرنا ہوگا۔ عقل سے ثابت کریں گے کہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ اگر آیت کے ظاہر سے مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو تو متشابہ قرار دے کر توقف کریں گے خود سے تاویل نہیں کریں گے۔ حضرت آدمؑ کو کونسا حکم دیا گیا تھا؟ حکم ارشادی تھا یا حکم مولوی؟ حکم ارشادی کا مطلب ہوتا ہے کہ صرف رہنمائی کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ تعاونوا علی البر والتقوی میں حکم دیا گیا ہے۔ نیکی اور تقوی کے امور میں تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔آیا تعاون کرنا واجب ہے؟ اگر واجب ہوتا تو پھر چندہ دینے والے کو خالی ہاتھ لوٹانا حرام ہوتا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معلوم ہوا تعاون کرنے کا حکم ارشادی ہے۔ حکم مولوی کی خلاف ورزی کرنا حرام ہوتا ہے۔ بعض علماء کے بقول حضرت آدمؑ کو حکم ارشادی ہوا تھا۔ اب یہ علمی ابحاث ہیں جن میں عقل سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔

قاعدہ لطف کی تعریف

شیخ مرتضی علم الہدی فرماتے ہیں:
لطف ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت کی انجام دہی کی طرف دعوت دیتی ہے۔ اور اگر لطف نہ ہوتا تو مکلف اطاعت کو انتخاب نہ کرتا۔[3] پس اللہ تعالی پر ضروری تھا کہ وہ لطف کرے، مثلا نبی بھیجے، کتاب بھیجے، امام منصوب کرے۔ یہاں پر اہل سنت کہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں اللہ تعالی پر کوئی چیز لازم قرار دینے والے؟ ہم کہتے ہیں کہ عقل کہتی ہے کہ اللہ تعالی یہ کام کرے۔
ابو اسحاق نوبختی فرماتے ہیں:
لطف ایک ایسا امر ہے جو اللہ تعالی مکلف کے لیے انجام دیتا ہے۔ لطف میں کوئی ضرر موجود نہیں ہوتا اور اللہ تعالی اس بات کو جانتا ہے کہ اگر وہ لطف نہ کرے تو مکلف اطاعت نہیں کرے گا۔[4]
علامہ حلی فرماتے ہیں:
لطف ایک ایسا امر ہے جس کے ذریعے مکلف اطاعت الہی کو انجام دینے کے نزدیک تر اور معصیت الہی سے دور تر ہو جاتا ہے۔[5]
زندگی میں بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو انسان انجام دے لے تو بہت سے نیکی کے راستے اس کے لیے کھل جاتے ہیں۔ لطف بھی انہیں امور میں سے ہے جو اللہ تعالی کے لیے ضروری ہے اگر وہ انجام نہ دے انسان معصیت کی طرف چلے جائیں گے۔ اللہ تعالی نے ایسے امور بناۓ ہیں جن کی بنا پر اطاعت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یا معصیت سے بچنے کے لیے اسے مدد ملتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی پر یہ کام کرنا ضروری تھا یا نہیں؟ مثلا اللہ تعالی نے انسان کو بنایا اب معبود کی عبادت انسان پر ضروری تھی، اگر اللہ تعالی انبیاء اور شریعت نہ بھیجتا تو انسان کیا کرتے؟ عذاب اور ثواب کا ان کو پتہ ہی نہ ہوتا تو کیا یہ درست صورت تھی؟ کیا یہاں پر عقل کافی تھی کہ وہ سب کچھ سمجھ لے؟ یا اللہ تعالی پر انبیاء بھیجنا، شریعت اور کتابیں بھیجنا بھی ضروری تھا تاکہ انسان کو رہنمائی مل سکے، اس طرح کی رہنمائی کہ جس سے وہ نیکی کی طرف راغب اور برائی سے بچ سکے؟ اگر اللہ تعالی پر یہ سب امور انجام دینا ضروری تھے اور لطف کرنا اس پر واجب تھا تو یہ لطف صرف ۲۶۰ ہجری تک ہے؟ کیا اللہ تعالی کا لطف زمانہ غیبت میں ختم ہو جاۓ گا؟ یا ابھی بھی جاری ہے؟ اگر ضرورت نہیں ہے تو پھر تو امام کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر ضرورت ہے اور لطف ابھی بھی جاری ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟

قاعدہ لطف کی ضرورت

یہاں پر ہم قارئین کو دوبارہ تفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو خلق کیا، ان کو زندگی دی، عقل و ضمیر و احساسات دیے۔ انسان کے اندر تمنائیں اور خواہشیں رکھ دیں۔ انسان عقل کی مدد سے سب امور کو حل کر سکتا تھا یا نہیں؟ جس انسان نے اسی عقل کی مدد سے ہوا میں اڑنا، پانی پر سفر کرنا، اور اونچی بلڈنگیں بنانا سیکھا ہے وہ عقل اس کے لیے کافی نہیں تھی کیا؟ عقل ہمیں اتنا تو بتا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہم پر احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گزار ہوں۔ یہ سب باتیں تو عقل بھی ہمیں بتا رہی ہے، عقل عذاب و ثواب کو بھی درک کر سکتی ہے تو پھر رسول بھیجنے اور شریعت کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں کی تعداد میں نبی بھیجنا، ان کو غلطی سے پاک ہمارے لیے نمونہ قرار دینا، شریعت نازل کرنا، نظام امامت بنانا یہ سب اللہ تعالی پر ضروری تھا یا نہیں؟ عقل کہتی ہے کہ یہ سب اللہ تعالی پر لازم تھا۔ اللہ تعالی پر لازم تھا کہ وہ امام بھیجے۔ اگر یہ سب اللہ تعالی نہ کرتا تو ہم نیکی اور بدی کو دقیق طور پر نا جان پاتے۔ لیکن ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب عقل نے کیسے حکم لگایا؟ اللہ تعالی کے اندر تین صفات کی بنا پر عقل نے یہ حکم لگایا۔ اگر اللہ تعالی کے اندر یہ تین صفات نہ ہوتیں تو عقل بھی یہ حکم نہ لگاتی۔
۱۔ اللہ تعالی کا عالم ہونا
۲۔ اللہ تعالی کا قدیر ہونا
۳۔ اللہ تعالی کا حکیم ہونا
جب اللہ تعالی کے علم میں تھا کہ اگر یہ سب کام میں نے نہ کیے تو اطاعت جنم نہ لے گی تو اس کے عالم ہونے نے یہ تقاضا کیا کہ وہ یہ کام انجام دے۔ آیا اللہ تعالی ان کاموں پر قدرت رکھتا تھا یا نہیں؟ اس کے قدیر ہونے نے یہ کام اس سے کروایا۔ آیا اللہ تعالی کی حکمت یہ اجازت دیتی تھی کہ یہ کام ہونے چاہئیں یا نہیں؟ اس کا جواب بھی مثبت ہے۔ اس کی حکمت نے تقاضا کیا کہ وہ یہ سب کام کرے۔ اگر یہ کام نا کرتا تو حکیم نہ ہوتا۔ ان مقدمات کو جاننے کے بعد معلوم ہوا کہ عقل حکم لگاتی ہے کہ اللہ تعالی ان سب امور کو انجام دے کر لطف کرے۔

قاعدہ لطف پر اعتراض

بعض اہل سنت علماء نے اس پر اعتراض کیا کہ انسانی عقل کون ہوتی ہے اللہ تعالی پر کوئی کام لازم قرار دینے والی؟ انسانی عقل تو خود مخلوق ہے۔ کیا ایک مخلوق خالق کو حکم دے سکتی ہے؟ مصنف نے اس کا جواب دیا ہے کہ اللہ تعالی پر کوئی امر واجب قرار دینا جسارت نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالی پر کوئی حکم نہیں لگا رہے در اصل ہمارا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جانب سے یہ کام ہونا ضروری ہے۔ یہاں پر کلمہ واجب علم فقہ کی اصطلاح نہیں ہے۔ یجب علی اللہ کی بجاۓ اگر یجب عن اللہ کہہ دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ تاہم علماء امامیہ کی قاعدہ لطف سے مراد یہ ہے کہ ان امور کو اللہ تعالی کی جانب سے انجام دیا جانا ضروری ہے۔ جسارت کرنا مقصد نہیں ہے کہ ہم خدا پر کوئی چیز واجب قرار دے رہے ہیں۔

قاعدہ لطف کا استمرار

اللہ تعالی نے لطف فرمایا اور شریعت نازل کی۔ اللہ تعالی نے امتوں کی ہدایت کے لیے نظام اتارے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب امور کی ضرورت صرف ۲۶۰ ہجری تک تھی؟ نظام اور قانون الہی کی ضرورت صرف زمانہ امامت میں تھی؟ اسلامی حاکم کی ضرورت صرف زمانہ امامت میں تھی؟ اب حاکم کون ہوگا؟ زمانہ امامت میں اللہ تعالی کے لطف کی صورت کیا ہے؟ آج اگر امام معصوم موجود نہیں ہے تو ہم کیا کریں؟ ہم کہیں گے کہ آج کے دور میں وہ شخص حاکم اسلامی ہوگا جو امام کے قریب تر ہو۔ اور وہ ولی فقیہ ہے۔[6]

منابع:

↑1 فصلت: ۴۱۔
↑2 شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۵۹۔
↑3, ↑4, ↑5 حوالہ درکار ہے۔
↑6 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۲۔
۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 15:01
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۳}

ولایت فقیہ پر محض عقلی دلیل(حصہ سوم)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ اور ولایت فقہاء میں فرق ہے۔ ہماری بحث ولایت فقہاء میں نہیں ہے۔ ولایت فقہاء سے مراد یہ ہے کہ سب فقہاء ولی فقیہ ہیں۔ با الفاظ دیگر سب فقہاء کو امور حسبیہ میں ولایت حاصل ہے۔ جبکہ ہماری بحث امور حسبیہ میں ولایت پر نہیں ہو رہی۔ ہماری بحث کا مرکز یہ ہے کہ فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے کی ولایت حاصل ہے۔ اسلامی مفکرین کی ولایت فقیہ سے مراد یہ ہوتی ہے کہاایک جامع الشرائط فقیہ  الہی قانون کو معاشرے میں جاری کرے،اور اسلامی معاشرے کی الہی نظام کے تحت مدیریت کرے۔

ولایت فقیہ پر شبہات کے حملے

اب تک ہم اپنے دروس میں مختلف شبہات کے جواب دے چکے ہیں۔ اس کتاب کے آخری حصے میں مصنف نے شبہات اور اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔ فعل حال ہم ان شبہات کے جواب دے رہیں جو پاکستان میں پھیلاۓ جا رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ولی فقیہ کو امام معصوم کا مرتبہ دے دیا گیا ہے، کبھی کہا جاتا ہے ولی فقیہ کو ولی کیوں کہا گیا؟ کبھی کہا جاتا ہے کہ ولایت فقیہ سے کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ گی وغیرہ۔ یہ وہ شبہات ہیں جو پاکستانی مومنین کے ذہنوں میں ابھار دیے گئے ہیں جبکہ ابھی تک باقاعدہ طور پر اس نظام کو تبیین نہیں کیا گیا۔ اور جب ایک ذہن مکمل نظریہ سمجھے بغیر شبہہ کا شکار ہو جاۓ وہ حقیقت سن کر بھی کنفیوذ ہو جاتا ہے۔ ولایت فقیہ سے مراد قانون یا شریعت وضع کرنا نہیں ہے۔ ولی فقیہ قانون نہیں بناتا بلکہ الہی قانون نافذ کرتا ہے۔ اس لیے صرف وہی شخص ولی فقیہ بن سکتا ہے جو جامع الشرائط فقیہ ہو۔ صرف جامع الشرائط فقیہ ہی دین شناس و شریعت شناس ہو سکتا ہے۔ دوسری شرط عدالت کی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ولایت فقیہ کی بات پاکستان میں نہ کریں ورنہ کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ گی ایک بیہودہ بات ہے۔ ولایت فقیہ سے مراد اسلامی حکومت ہے نا کہ کسی فرقے کی حکومت۔ 

غیر الہی حکومتوں کا حصہ بننا

پاکستان میں یہ شبہہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر آپ ولایت فقیہ کا نظام لاتے ہیں تو کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ گی۔ اور وہ ہم پر ظلم و ستم کرے گا ایسی حکومت سے شیعہ کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اولا ولایت فقیہ سے مراد کسی فرقے کی حکومت نہیں ہے بلکہ ولایت فقیہ صرف ایسے فقیہ کو حاصل ہے جو جامع الشرائط مجتہد ہو اور پھر عادل ہو۔ لذا جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ ولایت فقیہ نہیں ہے۔ دوسری بات اگر بنو عباس کے دور میں شیعہ اپنے حقوق کا دفاع کر سکتا ہے تو ہر دور کی حکومت میں ایسا کر سکتا ہے۔ بدترین آمریت کے دور میں شیعہ رہتا رہا ہے۔ اور اگر جمہوری نظام میں اپنے حقوق کا دفاع کر سکتا ہے تو کسی دیوبندی کی حکومت میں بھی حقوق کا دفاع کر سکتا ہے۔ یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ ہماری ولایت فقیہ سے مراد کسی دیوبندی کی حکومت مراد نہیں ہے۔ یہ آپ نے بدگمانی کی بنا پر ولایت فقیہ کی من پسند تشریح کی ہے۔ شیعہ کا دشمن سنی نہیں ہے چاہے وہ دیوبندی ہو یا چاہے بریلوی۔ شیعہ صدیوں سے ان مسالک کے ساتھ رہتا رہا ہے۔ شیعہ کی ان کے ساتھ تو کبھی جنگ نہیں رہی۔ شیعہ کو مارنے والا امریکہ اور آل سعود ہے۔ شیعہ سنی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس لیے آپ اس بات سے ڈرنے کی بجاۓ کہ کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ، اس بات سے زیادہ ڈریں کہ کسی امریکہ نواز کی حکومت نہ آ جاۓ۔ آپ پاکستان میں اس بات سے ڈرنے کی بجاۓ کہ کسی بریلوی کی حکومت آ جاۓ، اس بات سے زیادہ ڈریں کہ کسی سعودی نواز کی حکومت نہ آ جاۓ۔ ہمارا جھگڑا فرقوں سے نہیں ہے۔

پاکستان میں ولایت فقیہ کی عملی صورت

پاکستان میں اگر ۱۰۰فیصد اسلامی حکومت کی صورت اختیار نہ ہو سکے تو ہم تنزل کر سکتے ہیں۔ حکومت اسلامی کی اعلی ترین صورت عملی نہیں ہو سکتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم طاغوتی حکومت کی صورت اختیار کر لیں۔ جتنا ممکن ہو حکومت کو اسلامی کرنے کی کوشش کریں اگر ممکن نہ ہو تو بعض مقامات پر پیچھے ہٹ جائیں۔ لیکن مکمل طور پر اسلامی حکومت کو ترک کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جانا درست نہیں ہے۔ اس نظریہ کو فرقہ واریت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ شروع میں ممکن ہے ایسی صورت اختیار کر لی جاۓ جو تمام امت کے لیے متفقہ ہو۔ اگر اختلافات کو ہی مدنظر رکھا تو پھر تو اہل سنت مین بھی ہزاروں فرقے ہیں، خود ایک بریلوی تفکر کے اندر مختلف سیاسی نظریات ہیں۔ حکومت اسلامی سے مراد اسلامی قوانین کا اجراء ہے۔ اس سے مراد تفرقہ بازی نہیں ہے۔ ایسے عمامہ پہننے والے افراد جو یہ بات کرتے ہیں کہ ہمیں سیکولر کی حکومت تو قبول ہے لیکن اسلامی حکومت قبول نہیں ہے، انہوں نے در اصل اسلام کو فرقے کی نگاہ سے دیکھا ہے جامع دین کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ 

امت اور فرقے

ہم کہتے ہیں کہ امت الگ ہے اور فرقے الگ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے امت بنائی تھی اور فرقے دشمن نے بناۓ ہیں۔ طالبانی تفکر اہلسنت کی ترجمانی نہیں کرتا، یہ ایک سازشی ٹولہ ہے، اسی طرح داعش ہے وہ بھی کسی اہل سنت مکتب کی ترجمانی نہیں کرتی۔ یہ بھی دشمن نے بنائی اور انہوں نے بلا استثناء سب مسلمانوں کا خون بہایا۔ شیعہ میں بھی دشمن نے تبرہ بازی پارٹی بنائی جس کا کام صرف تشیع کو مناظراتی دین بنا کر پیش کرنا ہے۔ اپنی باتیں ہر قیمت پر ثابت کرنا اور دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنا۔ یہ اہلسنت کے مقدسات پر حملہ کرتے ہیں تو اس کے ردعمل مین داعش آئمہ معصومینؑ کے حرموں پر حملہ کرتی ہے۔ اصل میں یہ دونوں ایک ہیں۔ ایک کا کام ذہنی آمادگی پیدا کرنا ہے اور دوسرے کا کام عملی طور پر جا کر بم پھوڑنا ہے۔ داعش اسرائیل پر حملہ نہیں کرتی اور یہ تبرہ باز پارٹی اسرائیل اور امریکہ کو اپنا دشمن نہیں مانتی۔ بلکہ ان کے علماء امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اور وہاں سے صرف ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ اتنے ہی بڑے شیعہ ہیں تو یمن، عراق، افغانستان، ایران، پاکستان میں بسنے والے شیعہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ کیا امریکہ اور برطانیہ کی امداد نہ ملنے کا خوف ہے؟ آپ کو دارالکفر میں بیٹھ کر امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں پر کوئی اعتراض نہیں جو مسلمانوں کی بدترین دشمن ہیں لیکن اسلامی حکومت سے تکلیف ہے؟ ہمارے نزدیک چاہے وہ بنو امیہ کی حکومت ہو یا چاہے بنو عباس کی، چاہے وہ برطانیہ کی حکومت ہو یا چاہے امریکہ کی ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پہلے دور میں مستکبر طاقتیں ڈنڈے کے زور پر لوگوں پر ظلم کرتی تھیں اور آج آزادی کے نعروں سے ملکوں کو تباہ کرتی ہیں۔

ولایت فقیہ ۔تشیع کی طاقت

دارالنفاق اور دارالکفر میں بیٹھ کر تشیع کی طاقت کو کمزور کرنا اور اسے مشکوک بنا کر پیش کرنا کونسی خدمت ہے؟ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے ہمیں درس دیا ہے کہ استدلال سے بات کرو، اپنا مؤقف پیش کرو۔ ایسا بھی نہیں کہ اپنا مؤقف ہی پیش نہ کرو جو دوسرے سے اختلاف رکھتے ہو اس کو ضرور بیان کرو لیکن آداب کا خیال رکھتے ہوۓ۔ قرآن کریم میں حکم آیا:
«و جَادِلْهم بالّتی هیَ أحْسَن».
ترجمہ: اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔[1]
دین کہتا ہے کہ فتنے کھڑے مت کرو ۔فتنہ قتل سے بدتر گناہ قرار دیا گیا ہے۔[2] پاکستان میں اگر بنو عباس اور بنو امیہ کی بھی حکومت آ جاۓ تب بھی وہ شیعوں پر اتنا ظلم نہیں کریں گے جو ان سیکولر حکومتوں نے ۲۰ سالوں میں کیا ہے۔ کتنے شیعہ قتل عام ہوۓ۔ شیعہ دفاع کر سکتا ہے اور اس نے دفاع کیا، سکاوٹ بناۓ، خودکش حملہ کرنے والے شیعوں کی ایک مسجد بھی بند نہیں کر سکے، ایک جلوس بھی ختم نہیں ہوا۔ ان حکومتوں سے شیعہ ختم تھوڑی ہونے والا ہے۔ یہ سارے ظلم پاکستان میں کسی دیوبندی یا بریلوی حکومت کے ذیل میں تو نہیں ہوۓ انہیں سیکولر حکومتوں کے تحت ہوۓ ہیں۔ ان کی تائید کس لیے کی جاتی ہے؟ یہ بھی تو ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔

طالبان کی حکومت میں شیعہ

آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ فرقے کے نام پر اگر کوئی حکومت آ جاۓ تو وہ تو آپ کو قبول نہیں ہے لیکن اگر سیکولرزم یا لبرلزم کے نام پر کوئی حکومت آ جاۓ تو اس کی آپ مکمل حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ دونوں ہی باطل حکومتیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے جبری حکومت مسلط کی ہوئی ہے۔ ہم طالبان کی حمایت نہیں کر رہے لیکن وہاں پر بھی تو شیعہ رہ رہے ہیں۔ کیا طالبان وہاں پر شیعوں پر کھلم کھلا ظلم کر سکتے ہیں؟ شیعوں کو ختم کر سکتے ہیں؟ اگر طالبان شیعہ کو ختم نہیں کر سکتے تو اور بھی کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ ہمیں ان بہروپیوں کی حکومت نہیں چاہیے۔ اسلام کے نام پہ یہ حکومتیں باطل کی حکومتیں ہیں۔ صرف نعروں سے نہیں ،اچھے نعرے تو کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ کوئی اسلام کا نعرہ، کوئی اقتصاد کا نعرہ، اور کوئی کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر پوری قوم کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔ شیعہ کو ان کے چنگل میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ لوگ ووٹوں کے دنوں میں ہمیں گھیر لیں اور بعد میں حکومت کے وقت ہمیں لفٹ ہی نہ کروائیں۔ ووٹ لیتے وقت تو کہیں کہ ہم آپ کے مسائل کو حل کریں گے اور جب حکومت میں آئیں تو کہیں کہ ہم خود بے بس ہیں آپ کے شیعہ نوجوان ہم نہیں چھڑوا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے مسائل کا حل نہیں چاہتے۔ 

امریکہ۔ تشیع کا دشمن

اس وقت عالم اسلام کا حقیقی دشمن امریکہ ہے۔ جس نے تمام اسلامی ممالک میں تباہ کاریاں مچائی ہوئی ہیں۔ امریکہ کے مظالم بنو عباس اور بنو امیہ سے زیادہ ہیں۔ اس نے اسلامی ممالک میں فرقہ واریت پھیلائی، دہشتگردی کو ختم کرنے کے نام پر دہشتگرد گروہ خود بناۓ اور اس بہانے اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، مسلمانوں کو ویران کیا اور ان کے مال و متاع کو غارت کیا۔ آج امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھا ہوا مولوی ولایت فقیہ کو مشکوک بنا کر پیش کرتا ہے۔ دارالکفر میں بیٹھ کر ان کی حمایت لے کر کیسا اسلام کا دفاع کر رہے ہو؟ کیا یہ لوگ تمہیں واقعی اسلام کا دفاع کرنے دیں گے؟ آج تک آپ لوگوں نے امریکہ اور برطانیہ کے مظالم تو امت کو نہیں بتاۓ؟ جبکہ ان کے مظالم پوری دنیا پر عیاں ہیں۔ آلودہ دل کے ساتھ دارالنفاق میں بیٹھ کر اسلامی حکومت اور الہی قوانین کے نفاذ پر شکوک پیدا کرتے ہو؟ اس سے بڑھ کی دشمنی کیا ہوگی؟ مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرنا، ان کے اختلافات کو ہوا دے کر مشترکہ دشمن سے توجہ ہٹانا کب سے دین کی خدمت قرار پایا؟ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کسی پر اس طرح کی تبرہ بازی اور لعن طعن نہیں کی۔ کیا دین صرف تبرہ کرنا ہے؟ کہاں گئی توحید؟ کہاں گیا نبوت اور امامت کا پیغام؟ کلمۃ اللہ ہی العلیا کا شعار کہاں گیا؟ توحید کی حاکمیت کا نعرہ کس نے بلند کرنا ہے؟ توحید کے قوانین کو معاشروں پر نافذ کرنے کی ذمہ داری کس نے سنبھالنی ہے؟ اللہ تعالی کا دین معاشروں میں کیوں تعطیل ہے؟ یہ غم کیوں کسی کے دل میں نہیں ہے؟ آپ کے دل میں یہ غم نہیں ہے۔ آپ کی توجہ صرف امت کو الجھانا اور مغالطے پیدا کرنا اور امریکہ اور اسرائیل کے مفاد کے لیے کام کرنا ہے۔

اسلامی نظریات پر حملہ

دین اسلام عقلانی ترین دین ہے۔ اگر دین اسلام کے نظریات کا صحیح تصور حاصل ہو جاۓ تو عقل فورا اسے تسلیم کرتی ہے۔ کیونکہ دین اسلام فطری دین ہے۔ فطرت کو جگانے کی ضرورت ہے، اگر جاگ جاۓ فورا تائید کرتی ہے۔ ولایت فقیہ کا درست تصور اس کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ ہم یہ سب گفتگو صرف تائید کے طور پر لا رہے ہیں۔ اور ان شبہات کا جواب دے رہے ہیں جو واضح اور روشن ترین مطالب کے آگے حجاب بنا کر معاشروں میں پھیلا دیے گئے ہیں۔ اسلامی قوانین کا تصور کریں اور پھر ان کے اجراء کی ضرورت پر غور کریں آپ فورا تصدیق کریں گے کہ کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے جو قوانین کو جاری کرے۔ البتہ یہاں پر مسئلہ ان کو پیش آتا ہے جن کو قوانین کے اجراء سے تکلیف ہو۔ اسلامی قوانین کے اجراء سے یقینا فاسقین کو تکلیف ہوگی۔ جیسا کہ ابھی ایران میں ہوا۔ جب حجاب کے مسئلے پر اسلامی حکومت نے اجراء کی کوشش کی تو فاسقین نے شور مچایا۔ بے حیا خواتین نے حجاب کو ترک کیا تو ان کی حمایت میں بے غیرت افراد بھی کھڑے ہو گئے جنہوں نے کہا کہ ہاں عورت پر حجاب ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بے غیرت مرد عورت کو ننگا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس مسئلے پر بھی بعض قاضی شریح صفت مولویوں نے مغربی حمایت یافتہ باغیوں کی حمایت کی۔ اور کہا کہ ایرانی حکومت کو حجاب آزاد کر دینا چاہیے۔ ایسے علماء جن کو اسلامی قوانین کے اجراء سے تکلیف ہے یہ کونسے اسلام کا دفاع کر رہے ہیں؟ اگر امریکی استعماری اداروں کے پریشر میں آ کر پاکستان میں غیر اسلامی قانون کا نافذ ہوتا ہے تو ان مولویوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر ایران میں کسی اسلامی قانون کا نفاذ ہوتا ہے تو اس پر شور مچاتے ہیں۔ اسلامی قوانین کا اجراء اللہ تعالی کی حاکمیت کی طرف لے جاتا ہے۔ آئمہ معصومینؑ کی طرف ہمیں لے جاتا ہے۔ ظہور کے لیے آمادگی پیدا کرتا ہے۔ حد اقل ہمیں اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ جو متفق اسلامی قوانین ہیں ان کے اجراء کی کوشش کی جاۓ۔ مثلا حجاب ، اسلامی حدود کا اجراء، سود پر پابندی، قتل و غارت کا خاتمہ وغیرہ۔ ان سب مسائل میں تو سب متفق ہیں۔ اس میں تو کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔ اس سے تو کسی دیوبندی کی حکومت نہیں آتی۔

عقلی دلیل کی اہمیت

حوزہ جات علمیہ میں زیادہ تر ولایت فقیہ کی نقلی دلیل کو بحث کیا جاتا ہے۔ نقلی دلیل کے ذیل میں بھی تقلید کی جاتی ہے یا جو استاد نے کہہ دیا اسی کو قبول کر لیتے ہیں۔ یا کہیں گے کہ ولایت فقیہ کی دلیل میں وارد ہونے والی روایات ضعیف السند ہیں۔ سند کی تحقیق بھی تقلیدی طور پر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت اللہ خوئیؒ کی نظر کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔آیت اللہ خوئیؒ کی تحقیق ہمارے لیے قابل استفادہ ہے لیکن ہم نے علمی میدان میں کسی کی تقلید نہیں کرنی۔ ابھی ایک طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو ہر بات ذاتی رجحان کی بنا پر لیتا ہے۔ اگر آیت اللہ خوئیؒ کی بات ولایت فقیہ کے ذیل میں قبول نہیں کرنی تو کہیں گے کہ ہمارا آیت اللہ خوئیؒ سے اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ لیکن اگر آیت اللہ خوئیؒ کی بات مختار ثقفی کے بارے میں اچھی لگے تو کہیں گے کہ آیت اللہ خوئیؒ سے بڑھ کر اور کون عالم ہو سکتا ہے؟ نظریات میں تقلید نہیں ہوتی۔ اگر آیت اللہ خوئیؒ کے نزدیک مختار ثقفی کی مذمت میں وارد ہونے والی روایات ضعیف ہیں اور آپ کو ان کی تحقیق قبول ہے تو پھر ولایت فقیہ کے ذیل میں جب آیت اللہ خوئیؒ نے یہ بیان کیا کہ اکثر روایات ضعیف ہیں تو وہاں پر بھی قبول کریں۔ ذاتی رجحان کی بنا پر دین کو اختیار مت کریں۔

ابن سیناؒ کی دلیل کی تکمیل

پچھلی قسط میں بیان ہوا کہ ابن سیناؒ نے ضرورت وحی و نبوت پر اپنی کتابوں میں عقلی برہان پیش کیا ہے۔ وہاں پر ثابت ہوا کہ وحی ضروری ہے۔ اگر وحی نہ ہو تو ہمیں عبادات سمجھ میں نا آتیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی کی عبادت کرتا۔ عبادات کی جامعیت وحی سے حاصل ہوئی۔ عقل عبادت کے ہونے کو تو ثابت کر لیتی ہے لیکن عبادت کی کیا شکل ہو؟ یہ صرف وحی بتا سکتی ہے عقل اس کو درک نہیں کر سکتی۔ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے بھی شریعت اور وحی کا ہونا ضروری تھا۔ مثلا سود کیسے پورے معاشرے کو تباہ کرتا ہے؟ یہ وحی کے ذریعے ممنوع قرار پایا۔ حقوق انسانی بھی وحی پر موقوف ہیں، خاندانی نظام بھی وحی سے ثابت ہوا۔ انسانی بنیادی ترین ضرورتیں اور ان کی ایجاد بھی وحی کی مرہون منت ہے۔ کشتی بنانا، لوہے سے اوزار بنانا، سلائی کرنا، لکھنا، گھر بنانے کا طریقہ یہ سب ہمیں انبیاء نے سکھایا۔ اسلامی حکماء کی انہیں دلیلوں کو سب فرقوں نے اپنی کلامی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ در اصل شریعت اور انبیاء کرام سے ہم نے بنیادی زندگی کے اصول حاصل کیے ہیں۔ اخروی اور ابدی زندگی کی کامیابی بھی شریعت پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ انسان کے معنوی مقامات، زاہدین، عابدین اور فقہاء کرام کا علم و عمل سب وحی پر موقوف ہے۔ اگر وحی نہ ہوتی تو صالح اجتماعی زندگی موجود نہ ہوتی۔ ورنہ صرف طاقتور کو جینے کا حق ہوتا، ایمان اور اقدار کیا  چیزیں ہیں ان کا کسی کو پتہ نہ ہوتا۔ زندگی کو شہوت کی نظر کر دیا جاتا۔

اجتماعی زندگی کی اہمیت

ابن سیناؒ کی دلیل کو سمجھنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم انفرادیت سے نکل کر اجتماعی سوچیں۔ انسان اگر اجتماعی زندگی نہ گزارے تو بہت سے منافع سے محروم ہو جاۓ گا۔ اجتماعی مسائل کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔ مثلا اس وقت ایران میں سوشل میڈیا کی بعض ایپس کو بند کر دیا گیا ہے۔ ایرانی حکومت نے ان کے سامنے چند مطالبات رکھے جو انہوں نے قبول کرنے سے منع کر دیا تو ایران نے بھی ان پر پابندی لگا دی۔ حالانکہ لاکھوں ایرانیوں کے روزگار انہیں سوشل میڈیاز سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف اگر ان کو بند نہیں کیا جاتا تو پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی پلیٹ فارمز ہیں ان کے فوائد اور مصیبتیں دونوں اجتماعی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب ایک طرف پورے ملک کا نقصان ہے اور دوسری طرف چند افراد کا۔ جب دو افراد کا آپس میں منفعت کا ٹکراؤ ہو جاۓ تو یہاں سے تنازع پیدا ہوتا ہے۔ ایک کو اپنا کاروبار چاہیے اور دوسرے کو اپنی عزت ناموس اور دیگر مفادات کا حصول۔ مثال کے طور پر زمین کے مسائل ہیں، اموال، اجرت وغیرہ کے مسائل ان سب میں جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ انسان کی طییعت سرکشی دکھاتی ہے۔ طبیعت کا میلان ایک نظریہ کی طرف ہے وہ دوسروں کو باطل اور خود کو حق کہے گی۔ جو شخص سرکش ہو جاۓ وہ خود کو حق کا معیار سمجھ لیتا ہے اور دوسروں کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس سرکشی کو دبانا ضروری ہے اگر یہ شخص خود نہیں دباتا تو دوسروں کو چاہیے کہ اس کی سرکشی کو دبائیں۔ یہاں پر خاموش ہو جانا جرم ہے۔ اس کی سرکشی تنازع کا باعث بنے گی اس کا واحد علاج عدالت کا برقرار ہونا ہے۔عدالت کو قوانین الہی کے ذریعے برقرار کیا جا سکا ہے۔ اور قوانین الہی کے اجراء کے لیے مجری کی ضرورت ہے۔ یہاں سے ولایت فقیہ ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دین شناس جامع الشرائط فقیہ ہو جو الہی قوانین کو معاشرے میں جاری کرے تاکہ اجتماعی زندگی رہنے کے قابل ہو سکے۔ [3]

منابع:

↑1 نحل: ۱۲۵۔
↑2 بقرہ: ۱۹۱۔
↑3 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۴تا۱۵۸۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:58
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۲}

ولایت فقیہ پر محض عقلی دلیل(حصہ دوم)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی

 

غیر اللہ کے لیے اصل عدمِ ولایت ہے۔ اس لیے اگر ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور ذات کے لیے ولایت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قطعی دلیل لانا ہوگی۔ ولی فقیہ کو جو ولایت حاصل ہے وہ حکومت کرنے، معاشرے کی مدیریت کرنے کے معنی میں ہے۔ اس ولایت پر ہمارے پاس تین قسم کی قطعی دلیلیں ہیں۔ پہلی دلیل محض(خالص) عقلی ہے۔

محض عقلی دلیل کی دلالت

محض عقلی دلیل سے ہم صرف عہدے کو ثابت کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر اس سے صرف ولایت فقیہ کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ولی فقیہ کون ہو؟ اس دلیل کے ذریعے ہم صرف اتنا ثابت کر رہے ہیں کہ معاشرے کو نظم اور قانون کی ضرورت ہے۔ قانون کو جاری کرنے کے لیے مجری کی ضرورت ہے۔ یہی دلیل علم کلام میں نبوت اور امامت کے اثبات میں بھی بیان ہوتی ہے۔ متکلمین پہلے نبوت اور امامت کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں اور پھر نبی و امام کا ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اس دلیل سے ہم بھی صرف ولایت فقیہ کا عہدہ ثابت کر رہے ہیں۔ 

ایک شبہہ کا جواب

پاکستان میں ولایت فقیہ کے موضوع کو لے کر بہت سے شبہات ایجاد کئے جا رہے ہیں۔ اور دشمن کی کوشش ہے کہ اس موضوع کو شیعہ نما علماء کی شکل میں مشکوک بنا کر پیش کیا جاۓ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ولایت فقیہ کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر ولایت فقیہ آ گئی تو کوئی وہابی ولی فقیہ بن جاۓ گا۔ ایسے لوگ ہر موضوع کو فرقہ واریت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی اکثریت اہل سنت ہے تو اگر کوئی ولی فقیہ بنا بھی تو وہابی یا دیوبندی بنے گا اور پھر شیعوں پر ظلم و ستم ڈھاۓ گا۔ ایسی بات کوئی ایسا انسان کر سکتا ہے جس نے ولایت فقیہ کا موضوع کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ اس شخص کو حاصل ہے جو جامع الشرائط فقیہ ہو۔ اور دوسری شرط عدالت ہے۔ اگر کوئی شخص عادل نہیں ہے تو وہ ولی فقیہ نہیں بن سکتا بے شک کوئی شیعہ عالم دین ہی کیوں نہ ہو۔ ولایت فقیہ کی نعمات اور اس کی برکات سے دور کرنے کے لیے اسے وہابیت بنا کر پیش کرنا خیانت ہے۔ اگر آپ کو واقعی اسلام اور تشیع کا درد ہے تو جہاں آپ وہابیت کے دشمن بنتے ہیں وہیں سیکولرزم کے بھی دشمن بنیں۔ ایک سنی یا شیعہ مسلمان کے لیے اگر طالبان یا داعش قابل نفرت ہے تو وہیں ملحد بھی قابل نفرت ہے۔ صرف وہابیت کی نہیں بلکہ سیکولرزم کی بھی مخالفت کریں۔ ہمیں دونوں ہی قبول نہیں ہیں۔ ہمیں طالبان کی جبری حکومت بھی قبول نہیں ہے اور لبرل لوگوں کی مغربی ڈیموکریسی بھی قبول نہیں ہے۔ آپ کا جتنا نقصان طالبان اور داعش نے کیا ہے اس سے کم نہیں تو اتنا ہی نقصان ان سیکولر سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں نے بھی کیا ہے۔ ملک اور قوم کو قرضے میں ڈبویا، مغربیوں کے آگے بھکاری بنایا، مشرقی پاکستان(بنگلادیش) کی جدائی اور کشمیر کا مسئلہ بھی انہیں سیکولر حکمرانوں کی وجہ سے پیش آیا۔ حتی جن لوگوں نے طالبان بناۓ ہیں خود وہ لوگ مذہبی نہیں تھے بلکہ سیکولر سوچ رکھنے والے افراد تھے۔ انہوں نے سیکولر سوچ کے تحت طالبان بناۓ امریکہ سے مفادات حاصل کیے۔ ان دہشتگرد گروہوں کو منصوبے بنا کر دینے والے اور پیسوں کی خاطر ملک میں فرقہ واریت پھیلانے والے بھی حقیقی علماء تو نہیں ہیں۔ چند ایک مولوی ہیں جن کا سب کو معلوم ہے کہ کس لیے فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں اور کس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہیں۔ لہذا لوگوں کو اس طرح کے بیہودہ شکوک و شبہات اٹھا کر اسلامی حکومت سے دور کرنا اسلام کے ساتھ خیانت کے سوا کچھ نہیں۔

برہان ضرورت وحی و نبوت

نظریات کو دلیل کی بنا پر قبول کرنابہت ضروری ہے۔ معاشرے کے اندر کسی نظریہ کے اٹھان کی وجہ سے اس نظریہ کو قبول مت کریں۔ اگر یہ نظریہ دشمن کی جانب سے دبا دیا گیا تو آپ کا ایمان بھی اس نظریہ سے اٹھ جاۓ گا۔ یا اگر مشکل وقت آیا تو فورا چھوڑ دیں گے۔ نظریہ ولایت فقیہ کی تبیین ضروری ہے اسے دلیل کی بنا پر قبول کریں اگر ان دلیلوں پر ہمیں عبور حاصل نہ ہو ایک شبہہ ہی ہماری ساری عمارت کو گرا دے گا۔ ولایت فقیہ امامت و نبوت کی جزوی بحث ہے۔ اس لیے ولایت فقیہ کو ثابت کرنے کے لیے بھی وہی دلیل دی جاتی ہے جو نبوت اور وحی کی ضرورت پر ہمارے متکلمین و فلاسفہ نے اپنی کتابوں میں بیان کی ہے۔ ابن سیناؒ نے اپنی کتاب الہیات شفاء اور الاشارات وتنبیہات میں وحی اور نبوت کی ضرورت کو ثابت کیا ہے۔[1][2]اس تفصیلی برهان میں شیخ الرئیس فرماتے ہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اجتماعی (Social) زندگی گزارنے والا موجود ہے۔ اب یہ جدا بحث ہے کہ وہ اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہے یا فطری طور پر ہی اجتماعی تھا۔ بہرحال جو نظریہ بھی قبول کر لیں انسان مدنی الطبع ہے۔ اگر اجتماعی زندگی نہ گزارے تو زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس بات کو آج کے دور میں بہت آسانی سے درک کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں لاہور جیسے پُر جمیعت شہر میں ایک دن آٹے کی سپلائی بند ہو جاۓ تو کیا ہوگا؟ یا آلو پیاز کی فروخت بند ہو جاۓ۔ فرض کریں ایک دن کے لیے سیورج کا نظام خراب ہو جاۓ اور صفائی کرنے والے گٹر وغیرہ صاف نہ کریں کیا لاہور شہر سانس لینے کے قابل ہوگا؟ معلوم ہوا انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ اجتماعی طور پر ضرورتیں وابستہ ہیں۔ ہر شخص اپنے لیے پیاز بھی اگاۓ، علاج بھی کرے، اپنے بچوں کو بھی پڑھاۓ، گھر کے اخراجات بھی پوری کرے، گھر کا سامان بھی خود بناۓ یہ سب ممکن نہیں ہے۔ واضح ہوا کہ انسان مدنی زندگی گزارتا ہے اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔

قانون و نظم کی ضرورت

ابن سیناؒ برہان کا اگلا نکتہ بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ انسان کی طبیعت میں سرکشی موجود ہے۔ انسانوں کی ضرورتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اس لیے سرکشی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ ان کو زیادہ حصہ ملے۔ سب کو ہی رہنے سہنے، کھانے پینے اور وسائل کی فراوانی چاہیے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی وارد ہوا ہے:
«فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا».
ترجمہ: پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔[3]
انسان کی طبیعت میں بغاوت موجود ہے۔ اگر ایک شخص بھی خراب ہو جاۓ پورے معاشرے کا نظم خراب کر دیتا ہے۔ کسی بھی جگہ پر چلے جائیں اگر کہیں پر دو انسان رہ رہے ہیں تو وہاں پر کامل طور پر امن و امان سے زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ان کے حالات یکساں نہیں ہونگے۔ کبھی ایک فجور کی حالت میں اور دوسرا تقوی کی حالت میں ہوگا۔ انسان کے اندرونی اور بیرونی حالات خراب اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حتی والد اپنی اولاد پر قابو پانے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اس کے نتیجے میں لڑائی ہوتی ہے۔ ماضی سے لے کر آج تک ہر تنازع کی اصل وجہ انسان کی سرکشی ہے۔ بغاوت اور فسق و فجور باعث بنتے ہیں انسان جھگڑا کرے۔ 

قانون کی ضرورت پر عام فہم مثال

ممکن ہے کسی کے لیے معاشرے کی مثال سمجھنا مشکل ہو۔ ہم ایک ادارے کی مثال دیتے ہیں۔ ایک ادارہ ہے جس میں پچاس افراد کام کرتے ہیں۔ ان کی رہائش کا انتظام، کھانا پینا، صفائی ستھرائی کا سسٹم بنانا ہے۔ کیا یہ سب کام ان سے روایات اور آیات سنا کر کرواۓ جا سکتے ہیں۔ مثلا ہر روز ان کو درس قرآن سنایا جاۓ اور کہا جاۓ کہ دوسروں کے کام آنا بہت ثواب کا کام ہے، اللہ تعالی دوسروں کی خدمت کرنے والے کو پسند کرتا ہے یا رسول اللہﷺ صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آپ کے خیال میں ان سب باتوں کو جاننے کے بعد ان کے یہ سب امور حل ہو جائیں گے۔ کیا وہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا شروع کر دیں گے؟ کھانے کی باری کا خیال رکھنا شروع کر دیں گے؟ یا صرف ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں گے؟ یہ بات وہ افراد بہت بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو کسی ادارے میں رہتے ہیں۔ ان باتوں سے ممکن ہے ایک حد تک اثر ہو لیکن اس کا حل قانون ہے۔ جب تک آپ قانون نہیں بنائیں گے وہ جگہ رہنے کے قابل نہ ہوگی۔ افراد ایک دوسرے کی جگہ پر سونے لگیں گے، ایک دوسرے کا کھانا کھا جائیں گے اور کوئی بھی صفائی نہیں کرے گا۔ آپ جتنا بھی نیک اور پاکیزہ بندہ لے آئیں وہ سرکشی دکھاۓ گا۔ باہمی حقوق کا خیال رکھنا بہت سخت امر ہے۔ ہمارے علماء کرام تو کسی دوسرے شخص کی جوتی پر پاؤں تک نہیں رکھتے تھے۔ وہ افراد جو ایک دوسرے کی امانت کا خیال نہیں رکھتے ،مجرم بنتے ہیں۔ آج جو طالب علم کسی دوسرے کا کھانا بغیر اجازت کے کھا رہا ہے کل اگر اس کو خمس ملا تو اس میں خیانت کرے گا۔ ایسے مجرمین کو معاف کرنا اور ان پر رحم کرنا خود جرم ہے۔ ایسی جگہ پر فورا شور مچانا چاہیے۔ حقوق العباد کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ ان سب کا حل صرف قانون ہے۔ نصحیت سے ایک حد تک اثر ضرور ہوتا ہے لیکن نصیحت کافی نہیں ہوتی بلکہ قانون کی ضرورت بالآخر موجود رہتی ہے۔اگر نصیحت سے ہی مسائل حل ہو جاتے تو انبیاء کی اولادیں نا بگڑتیں۔ یہ قانون ہے جو اجتماعی طور پر معاشرے میں نظم و انضباط کا باعت بنتا ہے۔

قانون کے اجراء کی ضرورت

یہاں تک قانون کی ضرورت ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن قانون کا صرف موجود ہونا کافی نہیں ہے جب تک جاری نہ ہو جاۓ۔ قانون کے لیے وحی کی ضرورت پڑتی ہے۔ قانون کا مرحلہ وحی سے مربوط ہے۔ وحی کے بغیر انسان کو جامع قانون نہیں مل سکتا۔ الہی قانون وحی کے ذریعے انسانوں تک پہنچتا ہے۔ یہاں سے وحی کی ضروت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر انسان خود قانون بنانے لگ جائیں اور سو سال بعد پتہ چلے کہ یہ قانون تو صحیح نہیں تھا تو اس عرصے میں لاکھوں انسانوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا جوابدہ کون ہوگا؟ الہی قانون ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کے بعد رک نہیں جانا بلکہ اس کا اجراء ضروری ہے۔ الہی قانون اور دینی احکام کا مجتہد ہو جانا کافی نہیں ہے۔ شریعت صرف مطالعہ کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے اجراء کی کوشش ضروری ہے ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے قوہ مقننہ انتھک محنت کے بعد ایک قانون وضع کرے اور جب قوہ مجریہ کو قانون جاری کرنے کا کہے تو وہ آگے سے کہیں کہ قانون تو بہت اچھا ہے ہم اس کو پڑھ بھی لیتے ہیں اور اس کو عوام کو سمجھا بھی دیتے ہیں لیکن اس کا اجراء نہیں ہوگا۔ ایسے قانون کا یقینا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان مطالب کے بعد یہ بات سمجھنا آسان ہو جاتی ہے کہ انسان کی اجتماعی ضرورتیں، قانون اور اس کے اجراء کی ضرورت کسی خاص زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ انسان کا مدنی الطبع ہونا آئمہ معصومینؑ کے دور میں بھی ثابت تھا، آج بھی ثابت ہے، انسان کو الہی قانون کی ضرورت آئمہ معصومینؑ کے دور میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔ انسان کو الہی قانون کے اجراء کی ضرورت   نبیﷺ کے دور میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔ انسان ہر دور میں مادی و معنوی کمال چاہتا ہے۔ سوال پیدا ہوگا کہ ان ضرورتوں کو آئمہ معصومینؑ کے دور میں تو امام معصوم کی شکل میں پورا کیا جا رہا تھا، آج کے دور میں غیبت میں یہ ضرورت کیسے پوری ہوگی؟ کیا انسانوں کو اب ان سب امور کی ضرورت نہیں رہی یا بلکہ پہلے سے زیادہ یہ ضرورت بڑھ گئی ہے؟ اگر اب بھی ضرورت ہے تو اس کی صورت کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں یہ ضرورت اب نیابت کے نظام کے تحت ولایت فقیہ کی صورت میں پوری ہوگی۔ کیونکہ یہ نظام امامت و نبوت سے قریب ترین نظام ہے۔[4]

منابع:

↑1 ابن سینا، ابو علی حسین بن عبداللہ، الہیات شفاء، مقالہ دہم،فصل دوم و سوم،۴۴۱تا۴۴۶۔
↑2 ابن سینا، ابو علی حسین بن عبداللہ، اشارات  و تنبیہات، ج۱، نمط۹، ۱۴۱۔
↑3 شمس: ۸۔
↑4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۴تا۱۵۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:55
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۱}

ولایت فقیہ پر محض عقلی دلیل(حصہ اول)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ ولایت فقیہ پر ہمارے پاس تین دلیلیں ہیں۔ ان میں سے پہلی دلیل محض(خالص) عقلی دلیل ہے۔ محض عقلی دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جس کے تمام مقدمات عقلی ہیں۔ دلیل پر حکم عقل نے لگایا ہے ، دین کے نقلی منابع سے استفادہ نہیں کیا گیا۔

دلیل کے مقدمات کی خصوصیات

عقلی دلیل کے مقدمات کی چار خصوصیات ہیں۔ ان خصوصیات کا آپس میں ربط سمجھنا بہت ضروری ہے:

۱۔ کلیت: عقلی دلیل کے مقدمات میں کلیت پائی جاتی ہے۔ یہ مقدمات کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ کسی ایک شخصیت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے کے اوپر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔
۲۔ ذاتیت: عقلی دلیل کے مقدمات ذاتیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان کی ذات تقاضا کرتی ہے کہ ان کو واقع ہونا چاہیے۔ ان کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور چیز یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔ مثلا زمین کی حرکت کو ثابت کرنے کے لیے آپ کو دلیل لانا پڑے گی، لیکن خود زمین کا وجود ذاتی ہے۔ زمین موجود ہے یا نہیں اس کے لیے آپ کو دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
۳۔ دوام: تیسری خصوصیت یہ ہے کہ دلیل کے مقدمات دائمی ہیں اور ہر زمانے میں استمرار رکھتے ہیں۔ چاہے وہ عصر نبوت ہو، آئمہ معصومینؑ کا دور ہو یا آج کا غیبت امام کا دور۔
۴۔ ضرورت: یہ امور ضروری ہیں۔ با الفاظ دیگر ایسے امور ہیں جن کو ان کی ذات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز دوسری شے سے جدا نہ ہو سکتی ہو اسے ضروری کہتے ہیں۔ مثلا آپ کا یہ کہنا کہ میں موجود ہوں۔ آپ کا وجود آپ کی ذات سے جدا نہیں ہو سکتا، یعنی آپ کا وجود آپ کی ذات کے لیے ضروری ہے۔
جب ہم نے ان مقدمات کا کلی ہونا ثابت کر دیا تو ماننا پڑے گا کہ یہ بات صرف نبوت اور امامت پر رک نہیں جاۓ گی بلکہ کلیت کی وجہ سے عصر نبوت اور عصر امامت کے بعد عصر غیبت کو بھی شامل ہوگی۔ مثلا معاشرے کو نظم کی ضرورت صرف آئمہ معصومینؑ کے دور میں نہیں تھی ، بلکہ آج بھی معاشروں کو نظم کی ضرورت ہے۔ کسی بھی زمانے میں یہ ضرورت ختم نہیں ہو سکتی، یہ ضرورت دائمی ہے۔ یہ دلیل اور اس کے مقدمات صرف نبوت اور امامت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ یہ دلیل عمومیت رکھتی ہے۔ اس دلیل سے در اصل آپ منصب نبوت و منصب امامت ثابت کرتے ہیں، کیونکہ پہلے نبوت اور امامت کو ثابت کرنا ضروری ہے پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ نبی یا امام کون ہے؟ اس دلیل سے عہدہ ثابت ہوگا پھر صاحب عہدہ ثابت کیا جاۓ گا۔ اس دلیل سے ہم منصب کو ثابت کریں گے صاحب منصب کو نہیں۔ جب نبوت اور امامت ثابت ہو جاۓ گی تو اب سوال ہوگا کہ وہ صاحب نبوت کون ہے؟ اسی طرح سے پہلے ولایت فقیہ کو ثابت کرنا ہوگا پھر سوال پیدا ہوگا کہ اس منصب پر فائز فقیہ کون ہے؟

محض عقلی دلیل کے مقدمات

ہمارے لیے تین امر قابل غور ہیں۔ نظم، قانون اور اجراء قانون۔

۱۔ نظم

اگر نظم وجود میں نہ آۓ تو کوئی بھی کام درست نہیں ہو سکتا۔ اس کی آپ اپنی زندگی سے ہی ہزاروں مثالیں لا سکتے ہیں۔ حالیہ مسائل میں سے مثال لانا چاہیں تو یہی سیلاب ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں شدید بحران پیدا ہوا ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے یہ بدنظمی وجود میں آئی۔ آپ اگر معلوم کریں تو بہت سے ممالک سے ایک بھاری مقدار میں امداد پاکستانی حکومت کو موصول ہوئی ہے۔ لیکن اس کا کتنے فیصد حصہ سیلاب زدگان کو ملا ہے؟ آدھے سے زیادہ امداد تو غائب ہوگئی۔ یہ امداد حقدار تک کیوں نہیں پہنچی سکی؟کیونکہ نظم نہیں ہے۔ قانون نہیں ہے اور اگر قانون ہے بھی تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ بدنظمی ہے۔ اگر نظم ہوتا تو یہ گھرانے پھر سے آباد ہو سکتے تھے۔ جس معاشرے سے نظم ختم ہو جاتا ہے وہاں فساد پیدا ہوتا ہے۔ ابھی اربعین کے ایام ہیں اگر عراقی حکومت کروڑوں زائرین کا مناسب اہتمام نہ کرے تو بہت بڑا جانی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ جیسا کہ ۲۰۱۶ میں حج کے موقع پر منا میں ہوا۔ البتہ بعض شواہد بتاتے ہیں کہ جان بوجھ کر یہ حادثہ کروایا گیا تھا۔ بہرحال وہاں پر کیا ہوا؟ صرف انہوں نے رش کے نظم کو چھیڑا، آگے راستہ بند کر دیا اور پیچھے سے حاجیوں کا پریشر بڑھتا رہا، بیچ میں حاجی مر رہے تھے، لاشوں کی تہیں لگ گئیں۔ وہاں پر کوئی گولی تو نہیں چلائی گئی صرف نظم کو چھیڑا گیا۔ اور اس کے نتیجے میں ہزاروں حاجی شہید ہو گئے۔ پس نظم بہت ضروری ہے۔ نظم کے ضروری ہونے کے لیے ہمیں کسی آیت اور روایت سے دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر عقلمند انسان اس ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ یہ عقلی مقدمہ ہے۔ اسلامی معاشرہ نظم کا محتاج ہے یہ بدیہیات اور واضحات میں سے ہے۔

۲۔ قانون

نظم برقرار کرنے کے لیے انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ یہ اتنی بدیہی ترین بات ہے کہ آپ اس کو ہر جگہ پر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پودا بھی بغیر نظم کے اور قانون بناۓنہیں اگ سکتا۔ پودے کو متناسب ہوا اور پانی دینا ہوگا، اس کی نمود کے لیے یہ قانون بھی بنانا ہوگا کہ اس کو آپ کے علاوہ کوئی نہ چھیڑے۔ اگر یہ قانون نہ بنایا تو یہ پودا بھی فاسد ہو جاۓ گا۔ ایک کامیاب ادارہ وہ ہے جس میں نظم اور قانون حاکم ہو۔ اگر اس ادارے میں کام کرنے والے افراد وقت میں منظم ہو کر نہیں آتے یا ان کے اوپر دیر سے آنے پر کوئی قانون نہیں بنایا جاتا تو یہ ادارہ کبھی نہیں چل سکے گا۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جو سنجیدہ افراد ہوتے ہیں اور کامیاب لوگ وہ اپنی زندگی میں اس بات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ حتی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہی ہے کہ وہ منظم ہیں اور قانون کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بچپن سے ہی قانون کا احترام کرنا سکھایا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو لاشعوری طور پر قانون مند شہری بنتا ہے۔  گھر کا ماحول بھی انہیں دو چیزوں پر موقوف ہے۔ اگرچہ گھر کو بہت زیادہ قانونی شکل نہیں دے سکتے کیونکہ گھر گھر ہے اور سکون کی جگہ ہے ،ادارہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی وہاں پر ایک حد تک قانون کا ہونا ضروری ہے مثلا رات کے ۱۱ بجے تک سب افراد کا گھر پہنچ جانا۔ اگر یہ قانون نہ ہو تو گھر کے افراد ممکن ہے فاسد ہو جائیں۔ اسی طرح سے زندگی کے دیگر امور میں بھی نظم و قانون بنائیں۔ البتہ سب سے پہلے خود ان پر عمل کریں۔ ایسا کوئی حکم جاری نہ کریں جس آپ خود عمل پیرا نہ ہوتے ہوں۔ یہ بات بھی بدیہیات اور واضحات میں سے ہے۔ اس کے لیے آپ کو نقلی دلیل نہیں لانا پڑی۔ بلکہ عقل نے اس مقدمے کو بھی خود درک کیا ہے اور اس پر حکم بھی جاری کیا ہے۔ قانون کے ذریعے نظم کا پرپا ہونا اور اس کا اجراء کروانا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زمانہ امام کے ساتھ خاص ہو۔ بلکہ ہر دور میں یہ ضرورت موجود ہے۔ معاشرے کو نظم اور قانون کی ضرورت ہے قیامت تک رہے گی۔ حتی جب امام زمانؑ تشریف لائیں گے وہ بھی دین کے ذریعے ہی دنیا میں نظم قائم کریں گے۔ نبی اور امام دین حق لے کر آتا ہے ہدایت کا قانون لے کر آتا ہے۔ قانون کے مقولہ کے ذیل میں یہ بات بھی مسلم ہے کہ سب قانون نہیں بنا سکتے۔ قانون کو لانے والا صرف نبی ہے۔ اور یہ دروازہ اب بند ہو چکا ہے۔ شریعت کے عنوان سے اب کوئی بھی قانون نہیں لا سکتا۔ آئمہ معصومینؑ قانون لانے والے نہیں تھے بلکہ اس کے امین اور محافظ تھے۔ ولی فقیہ کا کام بھی قانون بنانا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف الہی قانون کو نافذ کرنا ہے۔ ممکن ہے حکم ثانوی کے طور پر کوئی بھی حاکم کسی حکم اولی میں تغییر لاۓ۔ مثال کے طور پر حکم اولی کچھ اور تھا لیکن حاکم کسی عمومی مصلحت کے تحت اس کو کچھ عرصے کے لیے ممنوع قرار دے ۔ یہ صرف اضطراری صورتوں میں ہوتا ہے۔اس کا نمونہ ہم صدر اسلام میں بھی دیکھتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے بھی ایک سال احتجاجی طور پر ایرانی عوام کو حج پر جانے سے منع فرمایا۔ اب حکم اولی تو یہ تھا کہ جس شخص کو استطاعت حاصل ہو جاۓ اس پر حج کرنا واجب ہے جبکہ امام نے حج کرنے سے منع کر دیا تو کیا اس سے حکمِ خدا تبدیل ہو گیا؟ کیا ولی فقیہ نے دین کو معطل کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سال ایرانی حاجیوں کے قتل عام کااندیشہ لاحق تھا۔ اس لیے جو استطاعت حج کے لیے درکار ہوتی ہے اس سال مہیا نہ تھی۔  اسی طرح دو شروں میں سے ایک شر کا انتخاب بھی اضطراری صورت میں حکم ثانوی کی حیثیت سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ حکم اولی اور اصل یہ ہے کہ شر سے اجتناب کیا جاۓ۔ لیکن حکم ثانوی کے طور پر مثلا اتنی شراب پی جا سکتی ہے جس سے جان بچ جاۓ۔لیکن حکم ثانوی کا بہانہ بنا کر ہر حکم اولی کو ترک کر دینے کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان میں غیر الہی قانون

کسی بھی اسلامی ملک میں حکم اولی یہ ہے کہ اس ملک میں الہی قانون نافذ کیا جاۓ۔ الہی حکومت تشکیل دی جاۓ اور اس کا حاکم بھی اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہو۔ حکم اولی کے طور پر یہ صورت بنتی ہے۔ لیکن اگر تشخیص دی جاۓ کہ ہم اضطراری صورت میں ہیں تو حکم ثانوی کے طور پر غیر الہی قانون اور غیر الہی حاکم کو بھی ایک وقت تک قبول کیا جا سکتا ہے جب تک اضطراری حالت ختم نہ ہو جاۓ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں حکم ثانوی کا مورد ہے بھی یا نہیں؟ یہ کون ثابت کرے گا کہ پاکستان میں مومنین و مسلمین حکم اولی کو ترک کر سکتے ہیں اور حکم ثانوی پر عمل کریں؟ کیا واقعی پاکستانی امت اضطرار کی حالت میں ہے۔ کیونکہ ہم نے بیان کیا کہ حکم ثانوی اضطراری کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کی واقعی جان کو خطرہ ہے اور پیاس سے مرنے کا خطرہ ہے تو وہ اس مقدار میں شراب پی سکتا ہے جس سے اس کی جان بچ جاۓ۔ یہاں پر پیٹ بھر کر بھی شراب نہیں پی جا سکتی۔ اور جب مجبوری ختم ہو جاۓ تو فورا شراب پینا ترک کرنا ہوگا۔ کیا یہی صورت پاکستان میں بھی ہے؟ کیا حکم اولی پر عمل کرنا پاکستانیوں کے لیے قتل عام کے مترادف ہے؟ اور اگر غیر الہی نظام میں شریک نہیں ہوتے تو کیا ان کی جان کو خطرہ ہے؟ مثال کے طور پر ابھی پاکستان میں ایک بل پاس ہوا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے بعد مرد کی مرد سے شادی کو بھی قانونی قرار دیا جا سکے گا۔ یہ سلسلہ یہیں پر رک تو نہیں جانا۔ بعد میں یہ لوگ جانور سے شادی، اشیاء مادی سے شادی کرنے کو بھی قانونی کر دیں گے۔ کیونکہ ہمارے اکثر ادارے مغربی نظاموں کے تابع ہیں۔ آئین میں کچھ اور لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی حاکمیت ہوگی غیر اسلامی قانون کو پاس نہیں کیا جاۓ گا لیکن عملی طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ کیا اضطرار کی صورت میں یہ بل پاس کروانا بھی جائز ہے؟ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اضطراری صورت نہیں ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں اور خود کو شریعت محمدیﷺ کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں عدالتوں میں برطانوی نظام کے مطابق نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی روش پر انصاف چاہیے۔ سیاسی، تعلیمی اور عسکری نظام دینی نظام کے مطابق چاہئیں نا کہ مغربی نظام کے مطابق۔

فاسق شخص کی حاکمیت کا جواز

اصل تو یہ ہے کہ کسی فاسق فاجر شخص کی حکومت قبول نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اضطراری صورت میں اس کو قبول کر لیا جاۓ۔ سوال یہ ہے کہ اضطرار کی حد کیا ہے؟ کیا ۷۰ سالوں سے پاکستانی قوم اضطرار کی حالت میں ہے۔ مثلا ایک شخص شراب کا عادی ہو جاتا ہے اور جب اس سے پوچھا جاۓ کہ شراب کیوں پیتے ہو تو وہ کہے کہ مجبوری ہے۔ اضطراری صورت ہے اگر شراب نہ پیوں تو مر جاؤں گا۔ کیا اس کی بات مانی جاۓ گی؟ جی نہیں! ایک قوم کب تک خود کو اضطراری حالت میں رکھ سکتی ہے؟ یہ غیر اسلامی بل انہیں فاسقوں کے ہاتھوں پاس ہوا ہے۔ پورا پاکستان جانتا ہے یہ لوگ کیسے عدل و انصاف کی حکومت قائم کر سکتے ہیں؟ انہوں نے یہ قانون بنا کر خاندانی نظام پر حملہ کیا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ مغرب کے انحطاط کی ایک بہت بڑی وجہ خاندانی نظام کی تباہی تھی۔ حلال نسل بہت ضروری ہے۔ ابھی جبکہ مغربی معاشروں کے مفکرین اس مسئلے پر حساسیت دکھا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں حلال زادہ نہ ہونگی۔ گھرانہ موجود نہ ہوگا، افراد کو سکون، گھرانے کی طرف سے تقویت، محبت، ہمدردی اور سپورٹ حاصل نہ ہوگی۔ یہ نسل کیسی ہوگی پھر؟ یہ نسل اپنا اضطراب (Stress) کیسے ختم کرے گی؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشروں میں بہت سے مسائل اس نعمت کی وجہ سے حل ہو جاتے ہیں جو گھرانے کی صورت میں ہمیں حاصل ہے۔ خاندان تقویت کا باعث بنتے ہیں، سکون اور راحت کا باعث بنتے ہیں۔ خاندانی نظام کو اس بل کے ذریعے برباد کیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے بھی اسی آفت کا شکار ہونگے جس میں مغربی معاشرہ مبتلا ہوا۔ پہلے انہوں نے معاشروں سے دین کو ختم کیا جب دیکھا کہ دین کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا اب دوبارہ دین کو واپس لا رہے ہیں۔ وہ خاندانی نظام کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ خاندان کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں اور ابھی ہم وہ غلطی ابھی کرنے جا رہے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے مغرب کی قباحتیں تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی اچھی بات میں پیروی نہیں کرتے۔ وہ لوگ قانون کی پیروی کرتے ہیں ہمارا شہری قانون کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتا، وہ لوگ صفائی کا خیال رکھتے یہں لیکن ہمارے یہاں گند ہی گند ہے۔ انہوں ںے محنت و کوشش کو اپنا شعار قرار دیا اور ترقی حاصل کی جبکہ ہمارے معاشرے میں یہ شخص اپنی ذمہ داری پیسے لے کر بھی پوری نہیں کرتا۔

۳۔ اجراء

شریعت الہی جسے ہم قانون کہہ رہے ہیں صرف ماننے، پڑھنے پڑھانے کے لیے نہیں ہے۔ قانون ہمیشہ اجراء کے لیے ہوتا ہے۔ یہ بدیہی ترین بات ہے جس کے لیے کسی دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ معاشرے کو نظم کی ضرورت، قانون اور اس کے اجراء کی ضرورت زمانہ امامت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ آج بھی یہ ضرورت موجود ہے۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ نے جو دین بیان کیا وہ قیامت تک کے لیے ہے۔ دین اور اس کے قوانین قیامت تک کے بشر کے لیے نازل ہوۓ۔ اس لیے ان قوانین الہیہ کو صرف جان لینا یا پڑھنا کافی نہیں ہے۔ اس کے اجراء کی بات کی جانی چاہیے۔ یہاں آ کر بعض افراد کہہ دیتے ہیں کہ دین اور اس کے احکام کو مان لینا کافی ہے، اس کا اجراء کرنا ہمارے اوپر ضروری نہیں ہے اور اگر ان سے منوا لیا جاۓ کہ قوانین جاری ہونے چاہئیں تو اگلے مرحلے میں یہ کہتے ہیں کہ ہم اجراء نہیں کر سکتے۔ حالانکہ یہ تمام امور بدیہیات میں سے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر معاشرے میں نظم وجود میں نہ آۓ تو کمال مادی حاصل ہو سکتا ہے اور نا کمال معنوی۔ انسان کو کمال صرف قانون کے اجراء سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو ناقص نہ ہو، کیونکہ اگر ناقص ہوا اور اس کا اجراء کر دیا گیا تو ۵۰ سال بعد پتہ چلے گا کہ کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اس خسارے کا جواب دہ اس وقت کون ہوگا؟ پس قانون ایسی ذات بناۓ جو خطا نہ کرے اور وہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
مکتب تشیع کا ماننا ہے کہ جب تک انبیاء الہی اور آئمہ معصومینؑ موجود تھے الہی قانون کے اجراء کی ذمہ داری ان پر تھی۔ آج کے دور میں امام مہدیؑ زندہ ہیں اور حاضر بھی ہیں لیکن ہم پر ظاہر نہیں ہیں۔ لیکن معاشروں کو ظاہر رہبر اور قائد کی ضرورت ہے جو ان پر الہی قانون نافذ کرے۔ جو ضرورت آئمہ معصومینؑ کے ظہور کے دور میں موجود تھی وہ ضرورت تو آج بھی موجود ہے۔ نبوت اور امامت کا سلسلہ ختم ہوا ہے لیکن معاشروں پر رہبریت کی ضرورت آج بھی موجود ہے۔ لذا آج نائب امام وہی کام کرے گا جو امام کرتا ہے۔ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ بعض پہلو صرف امام معصوم کے ساتھ خاص ہیں۔ یہ خصوصیات کسی غیر معصوم میں منتقل نہیں ہو سکتیں۔ مثلا معجزہ دکھانا، ولایت تکوینی، خصوصی طور پر معصوم ہونا وغیرہ یہ سب پہلو امام معصوم کے ساتھ خاص ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ پہلو ہیں جو غیر معصوم میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ مثلا نمازجماعت کی امامت کرنا، جمعہ قائم کروانا، عیدین کی نماز پڑھانا، نماز میت کی امامت کرنا، دینی احکام بیان کرنا، مومنین میں قضاوت کرنا اور معاشرے کی مدیریت کرنا۔ اسلامی معاشروں کی مدیریت کرنا قابل انتقال ہے۔ کیونکہ اگر یہ سلسلہ جاری نہ ہو تو دین اور قوانین الہی معطل قرار پائیں گے جو حکمت الہی کے برخلاف ہے۔

حکومت کی ضرورت اور امام کی ذمہ داری

قانون میں دو چیزیں مد نظر رکھنا ضروری ہیں۔
۱۔ قانون اللہ تعالی بناۓ۔
۲۔ اس کو جاری کرنے والا بھی اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہو۔
جب ہم ان دو امور کو مان لیتے ہیں تو پھر قانون کو جاری کرنے کی نوبت آتی ہے۔ جب بھی نبی یا امام آتا ہے قانون الہی کی تبلیغ کر کے اسے معاشرے میں جاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ بات بدیہیات میں سے ہے کہ قانون کو لاگو کرنے کے لیے آپ کو قدرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر قدرت نہ ہو تو آپ قانون بھی جاری نہیں کر سکتے۔ ہاں نصیحت اور وعظ کی حد تک بات اگلوں تک پہنچ جاۓ گی لیکن قانون باتوں سے نافذ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے آپ کے پاس اجرائی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ اور اسی کو حکومت کہتے ہیں۔ اس قدرت کا نام حکومت اسلامی ہے اور جو قدرت سے قانون کو جاری کرتا ہے اسے حاکم اسلامی کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ایک جہت سے کام بہت آسان ہو جاتا ہے کہ ان کے پاس قرآن و سنت موجود ہے اور وہی ان کا قانون ہے۔ ان کو جدید قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب کس چیز کی ضرورت ہے؟ صرف حکومت اور حاکم کی ضرورت باقی ہے۔ ایسا حاکم جو اللہ تعالی کی طرف سے ہو۔ عہد امامت میں یہ ذمہ داری امام کی ہے کہ وہ دین الہی کی تبیین کرے اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ امام علیؑ نے پانچ سال حکومت کی اور الہی قانون کو جاری کیا۔ جتنی مقدار میں بھی ممکن تھا انہوں نے اجراء کی کوشش کی۔ ان کے بعد میں آنے والے آئمہ کی بھی کوشش تھی کہ دین الہی کو معاشروں میں نافذ کریں لیکن عملی طور پر ان کو دشمنان دین نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ دشمن مانع بنے اور یہی وجہ ہے کہ بقیہ آئمہ معصومینؑ کو اسی راہ میں شہید کر دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک عہد امامت تھا تو امام اس ذمہ داری کو پورا کر رہے تھے تو آج کے دور میں غیبت میں معاشرے کو نظم، قانون اور اس کے اجراء کرنے والے کی ضرورت نہیں رہی؟ اس کے جواب میں سب ہی مانتے ہیں کہ ضرورت تو اب بھی باقی ہے۔ اگر ضرورت باقی ہے تو کیا کریں؟ آیا جس طرح سے نظام چل رہا ہے اسی طرح سے چلنے دیں یا دین نے ہمارا کوئی یہاں پر وظیفہ مقرر فرمایا ہے؟ اگر وظیفہ معین فرمایا ہے تو وہ کیا ہے؟ 

سیکولر سوچ 

زمانہ غیبت میں بھی دین، شریعت اور ولایت کی اسی طرح سے ضرورت موجود ہے جس طرح سے زمانہ امامت میں ضرورت موجود تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت امام لوگوں کے درمیان موجود تھے اور اب پردہ غیبت میں ہیں۔ معاشروں کو آج بھی اسلامی قانون کی اور اس کے اجراء کی ضرورت ہے۔ ہمیں دین کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کی ضرورت ہے، حاکم شرع کی ضرورت ہے۔ ایسا حاکم جس پر اللہ تعالی راضی ہو۔ معاشروں کو بغیر حاکم کے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جس طرح رسول اللہﷺ امت کو بغیر ہادی و امام کے نہیں چھوڑ کر گئے اسی طرح امام مہدیؑ بھی غیبت میں جانے سے پہلے امت کو ان کے حال پر چھوڑ کر نہیں گئے ہیں۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کبھی بھی ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ زمانہ غیبت میں جو تمہارا دل کرے اختیار کر لینا، جس طرز ِحکومت کو انتخاب کرنا چاہو انتخاب کر لینا، ایسا کسی امام نے نہیں فرمایا کہ انفرادی زندگی میں تو دیندار اور اجتماعی طور پر جس نظام کا بھی حصہ بنتے ہو تمہیں اختیار ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ یہی سیکولر سوچ ہے۔ سیکولرزم کا مطلب مذہب کی دشمنی کرنا نہیں ہوتا۔ بہت سے سیکولر آپ دیکھیں گے جو انفرادی زندگی میں کٹر دیندار ہیں۔ اور اب تو یہ سوچ حوزہ جات میں بھی پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر دنیوی امور کو نہیں چلانا چاہیے۔ قم اور نجف کے علماء میں یہ تفکر آج بھی موجود ہے اور وہ شدت سے اس بات کے قائل ہیں کہ امام حسینؑ کا قیام اور تمام آئمہ معصومینؑ کی  زندگی سیکولر تھی۔ ان کے بقول آئمہ معصومینؑ لوگوں کی انفرادی زندگی میں تقوی و زہد لانے کی کوشش کرتے تھے، ان کے عقائد ٹھیک کرواتے اور ان کو فقہی احکام بیان کیا کرتے تھے اور بس۔آئمہ معصومینؑ کو لوگوں پر حکومت کرنے کوئی ضرورت نہ تھی اور نا انہیں حکومت چاہیے تھی۔ یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ان کو نعوذباللہ ذاتی مفادات کے لیے حکومت نہیں چاہیے تھی، لیکن حق کے قیام کے لیے بہرحال ان کو حکومت کی ضرورت تھی۔ اور یہ ان کی ضرورت نہیں بلکہ وظیفہ تھا کہ لوگوں کی امامت و رہبری کریں۔ سیکولر سوچ کے مطابق دین کو انفرادی زندگی کے دائرے میں رکھنا چاہیے جو خلوتوں میں جس دین کا پیرو ہو کر اعمال بجالانا چاہتا ہے ٹھیک ہے۔ صرف اسے اپنے دین کو اجتماعی امور میں لانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے مغربی معاشرے ایسے مسلمانوں سے بہت راضی ہیں جو دین کو سیاسی اور اجتماعی دنیا سے الگ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ دن کے کچھ اوقات اگر انفرادی طور پر اپنے دین کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں تو اس کا ہم سے کیا تعلق؟ ہاں اگر ان کا کوئی دینی نظریہ ہمارے سماجی نظام کی نفی کرتا ہے تو ایسے نظریہ کو بیان کرنے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

ولایت فقیہ اور قانون کا اجراء

ہم ولایت فقیہ کو اس لیے مانتے ہیں کہ یہ امامت کا ذیلی  نظام ہے۔ نظام امامت صرف یہ نہیں تھا کہ امام آۓ بس لوگوں میں دین کو تبیین کرے لیکن اس کے نفاذ کی کوشش نہ کرے۔ جس طرح امام دین تبیین بھی کرتا ہے اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے ولایت فقیہ بھی صرف دینے کا نام نہیں بلکہ اس کے اجراء کا نام ہے۔ دین کے قوانین کو جاری کرنے کی جو ضرورت زمانہ امامت میں تھی وہ آج بھی موجود ہے۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ قوانین الہیہ کو صرف بیان کر دینے پر اکتفاء نہیں فرماتے تھے بلکہ انہوں نےدین کو جاری کیا۔ ولید بن عقبہ نے جب شراب پی تو امام نے اس پر حد جاری فرمائی۔ امام زمانؑ بھی بے فکر ہو کر صرف دین کو بیان نہیں کریں گے بلکہ پوری دنیا پر اس کو جاری کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ یہ نہیں کر سکتے کہ امت کو ہزار سال کے لیے بغیر قانون اور مجری کے چھوڑ کر چلے جائیں اور دشمنان اسلام آئیں معاشروں میں باطل شیطانی قوانین نافذ کر دیں۔ امام خمینیؒ کا کمال یہ تھا کہ انہوں نےآ کر اس تفکر کو توڑا اور فرمایا کہ دین کے قوانین کا اجراء ضروری ہے، علماء کی ذمہ داری ہے کہ الہی قوانین کو جاری کرنے میں جو رکاوٹیں موجود ہیں ان کو ختم کریں اور دین الہی کو جاری کریں۔ اس سے پہلے ہمارے یہاں تفکر یہ تھا کہ دین کو صرف پڑھا اور پڑھایا جاۓ، اجراء کی ضرورت نہیں ہے۔

تدبیر الہی در عصر غیبت

تدبیر الہی یہ ہے کہ دین معاشروں میں جاری ہو۔ عصر غیبت میں مسلمان معاشرے الہی قوانین کے بغیر نہیں چلنے چاہیں۔ اب جبکہ امام غائب ہیں تو ایسا نہیں کہ ہم فاسق فاجر افراد کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کی حکومت میں زندگی گزاریں۔ بلکہ ہم آئمہ کے نائبین کی حکومت میں خود کو قرار دیں ۔ خود انبیاء و آئمہ معصومینؑ کو بھی ان خصوصیات کی وجہ سے حکومت ملی۔ اور انہیں خصوصیات کی وجہ سے حکومت ولی فقیہ کا حق ہے۔ لیکن ولی فقیہ میں یہ خصوصیات  ایک خاص حد تک ہیں اور انبیاء و آئمہ میں اتم  و اکمل درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں:
تین خصوصیات:
۱۔الہی قانون کی شناخت۔ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو الہی قوانین کو جانتا ہی نہیں وہ اجراء کیسے کرے گا۔ با الفاظ دیگر ولی فقیہ کا جامع الشرائط مجتہد ہونا ضروری ہے۔
۲۔ تشکیل حکومت کی استعداد ۔ فقیہ جو حکومت کو تشکیل دے سکے ورنہ دین کا اجراء نہیں کر سکے گا۔ انفرادی سطح اور معاشرے کے اوپر اجتماعی طور پر دینی قوانین کو جاری کرے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت تشکیل دے۔ اگر اس کے پاس حکومت نہیں ہے تو اس کے اسباب جمع کرے۔ یہ کہہ دینا کہ ہم الہی قوانین کو کیسے جاری کریں ہمارے پاس تو طاقت ہی نہیں تو اصلی مسئلہ تو یہی ہے جو حل کرنا ہے۔ اگر حکومت آپ کے پاس نہیں ہے تو لینے کی کوشش کریں۔ امام خمینیؒ نے نجف اشرف کی سرزمین پر جب ولایت فقیہ پر دروس دینا شروع کئے تو بہت قلیل طلاب ان کے درس میں شرکت کرتے تھے، ایران سے ان کو ملک بدر کر کے صدام جیسے ڈکٹیٹر حاکم کی حکومت میں بھیج دیا گیا ۔ ان سخت حالات میں طلاب امام خمینیؒ کو ہاتھ ملانے سے بھی کتراتے تھے۔ اس وقت ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی شاید پانچ یا سات افراد ہوتے۔ لیکن انہوں نے یہ دروس دیے اور بیداری کی تحریک چلائی۔ امام فرمایا کرتے تھے کہ آپ ان موضوعات پر بحث کرنا شروع کریں آہستہ آہستہ حکومت اسلامی تشکیل بھی ہو جاۓ گی۔ اچانک حکومت اسلامی مفت میں تو نہیں مل جانی ۔ اس کے لیے زحمت اور سالوں کی محنت درکار ہے۔ اور ظاہر ہے اس کے لیے قربانی بھی دینا ہوگی۔ کم از کم اپنے گھرانے کے افراد میں، دوستوں کی محفل میں یہ ابحاث چھیڑی جانی چاہئیں۔اور دوسرا قابل غور نکتہ یہ کہ فقیہ پر اس لیے بھی حکومت کی تشکیل ضروری ہے کہ بغیر قوت کے قانون کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ صرف تبلیغات و نصیحتوں سے تو پورا معاشرہ مومن نہیں بن سکتا۔ اگر والد سختی نہ کرے تو گھر کے افراد بھی صرف نصیحت سے نہیں سدھرتے کجایکہ پورا معاشرہ ہم صرف تبلیغات کے سہارے ہدایت کی طرف لے جائیں۔فقیہ کا ہدف خود حکومت کا حصول نہیں ہوتا بلکہ الہی قوانین کا اجراء ہدف ہے۔ اگر کوئی فقیہ حکومت تشکیل نہیں دے پاتا تو ولی فقیہ بھی نہ ہوگا۔ ولی فقیہ مدیریت کے معنی میں ہے فتوی دینے اور امور حسبیہ میں ولایت کے معنی میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ سب فقہاء ہی ولی فقیہ ہیں تو وہ  فتوی دینے کے معنی میں ولی فقیہ ہیں ۔ جبکہ ہم اس معنی کو ولایت فقیہ نہیں قرار دے رہے۔
ممکن ہے کسی کے ذہن میں شبہہ ایجاد ہو کہ پھر تو اکثر آئمہ معصومینؑ بھی حکومت تشکیل نہیں دے سکے۔ کیا وہ بھی امام نہیں ہیں؟ اس کا جواب منفی ہے۔ہماری بحث نیابت میں چل رہی ہے اصل امامت میں یہ نہیں دیکھا جاۓ گا کیونکہ  ابھی اضطرار کا زمانہ ہے اور معاشرے کی مدیریت کی ذمہ داری نائب کے ذمہ ہے۔ نیابت میں امور کی مدیریت کرنے والے کی تمام خصوصیات کو دیکھنا ہوگا ورنہ اس کو ولایت حاصل نہیں ہوگی۔ جس فقیہ کی استعداد اور صلاحیت آشکار ہو گئی اور وہ حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو گیا وہ ان معیاروں کی بنا پر ولی فقیہ قرار پاۓ گا۔ جبکہ اصلِ امامت میں تو شخص معین ہوتا ہے۔ نیابت میں شخص معین نہیں کیا گیا بلکہ معیاروں پر عملی طور پر اترنے والی شخصیت ولی فقیہ قرار پاتی ہے۔ 

۳۔ اسلام کے دستورات کو جاری کرتے ہوۓ مکمل امانت داری اور عدل سے کام لینے والا۔ الہی قانون پہلے اپنی ذات ،اہل و عیال پر اور بعد میں معاشرے میں لاگو کرے۔ایسا نہ ہوکہ کبھی شدید رغبت کی صورت میں تو دستورات کا بہت خیال رکھے لیکن جب کبھی ضعف ایمانی کا شکار ہو تو حدود الہی کا ہی خیال نہ کھے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مثلا انسان اعتکاف سے اٹھ کر آیا ہے تو ٹی وی پر اشتہار دیکھ کر فورا  غصہ ہو جاتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسی تصاویر دیکھنے پر نصیحت کرنے لگتا ہے لیکن کچھ دن پتہ چلتا ہے کہ موصوف کی نماز صبح ہی قضا ہو گئی ہے۔ خود کو دوسروں سے جدا نہ سمجھے۔ انسانی حقوق اور دینداری کی رعایت کرے۔ ایران میں پہلے دو کام تو ہو گئے، انقلاب کامیاب ہو گیا، با استعداد فقیہ کی حکومت بھی آگئی لیکن تیسرے مرحلے میں آ کر ایران ابھی پھنسا ہوا ہے۔ اجراء کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے بھی جب حکومت سنبھالی تو الہی قوانین کو جاری کرتے ہوۓ ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو الہی قانون سے ایک انچ پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں تو ان کو سخت لگااور امام سے دشمنی پر اتر آۓ۔ امیرالمومنینؑ نے خلیفہ ثانی کی بدعات کو ختم کرنا چاہا تو کوفہ میں فتنہ کا ڈر لاحق ہو گیا۔ اگر امیرالمومنینؑ وہاں اصرار کرتے تو کوفہ ہاتھ سے نکل جاتا۔ معلوم ہوا الہی قوانین کا اجراء کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ خود احکام الہی بھی رسول اللہﷺ پر تدریجا نازل ہوۓ، حج کا حکم ۱۰ہجری کو آیا۔ معاشروں کے اندر قوانین کے اجراء کے لیے زمینہ سازی کرنا ضروری ہوتی ہے۔ پہلے گنجائش پیدا کی جاتی ہے اور جب قدم جم جاتے ہیں تو اقدام کیا جاتا ہے۔ ایران میں اس وقت یہی ہو رہا ہے اندرونی اور بیرونی طور پر ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے یہی حجاب کا مسئلہ جب انہوں نے اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کی ہے تو پوری دنیا کا میڈیا مخالفت پر اتر آیا۔ اور اس بنا پر ملک پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں۔[1]

منابع:

↑1 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۱تا۱۵۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:52
عون نقوی