بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۵}

شیعہ اور سنی میں اصلی فرق

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ہم نے گزشتہ قسط میں ثابت کیا کہ اصلِ ولایت فقیہ کلامی بحث ہے۔ تاہم ولی فقیہ کی ذمہ داریوں اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے یا نہ ہونے کے لحاظ سے فقہی بحث ہے۔فعل الہی سے مربوط ہونے کی وجہ سے کلام کا موضوع شمار ہوگی۔ اور مکلف کے فعل سے مربوط ہو نے کے مورد میں فقہ کا موضوع ہوگی۔

معاشروں پر حکمرانی کا مسئلہ

حضرت آدمؑ کے دور سے ہی بنی نوع انسان میں یہ مسئلہ محوریت پکڑ گیا کہ حکمرانی کس کی ہوگی؟ حتی ابلیس نے بھی حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حضرت آدمؑ کی زمین پر حکمرانی ہو۔ جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کر رہا ہوں، اس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت اور خلافت حضرت آدمؑ کی ہوگی۔ یہی وہ مسئلہ رہا ہے جس پر تاریخ بھر میں خونی جنگیں ہوئیں، انسانیت کا قتل عام ہوا۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ اتنے حساس مسئلے پر باطل قوتیں خاموش رہیں۔ اور مسلمان معاشروں کو یہ سنگین اور اہمیت کا حامل ترین مسئلہ ان کے دینی مبانی کے مطابق حل کرنے کی اجازت دے دیں۔ آج کا استعمار نہیں چاہتا کہ اسلامی و الہی حکمران مسلمان معاشروں پر حاکم ہوں اس لیے ولایت فقیہ کو ہر صورت میں کچلنے کی کوشش میں ہے۔ ولایت فقیہ کیونکہ فتوی کی دنیا سے مربوط نہیں ہے بلکہ سیاست اور دنیوی حکمرانی سے مربوط بحث ہے اس لیے اس کو مشکوک بنانے کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر کھل کے دشمنی کر رہا ہے۔ اندرونی طور پر عالم نما افراد تیار کر کے ان کو ولایت فقیہ کے مدمقابل لاتا ہے اور اس بحث کو شکوک و شبہات میں ڈال کر ایک مناظرانہ موضوع بنا دینا چاہتا ہے۔ اور بیرونی طور پر اس نظام کے ساتھ مکمل طور پر بائیکاٹ، اقصادی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں تاکہ کسی طرح سے اس نظام کو گرا دیا جاۓ۔

ولایت فقیہ کے متعلق شبہات

گزشتہ دروس میں ہم نے ولایت فقیہ پر ہونے والے مختلف شبہات کے جوابات دیے۔ ایک شبہہ جو عموما بیان کیا جاتا ہے یہ کہ جو علماء ولایت فقیہ کو نہیں مانتے تھے اور اب وفات پا گئے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ کیا وہ ولایت فقیہ کو نہ جان کر جہالت کیی حالت میں وفات پا گئے۔اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ انسان نے صرف اس بات کا اللہ تعالی کی بارگاہ میں جواب دینا ہے جو اس کے لیے حجت تھی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ہمارے علماء نے فقیہ کے اختیارات پر گفتگو ہی نہ کی ہو۔ قدیم شیعہ علماء سے ہی یہ بحث چلتی آ رہی ہے کہ فقیہ کی ذمہ داری اور اس کا دائرہ اختیار کتنا ہے۔ اور پھر یہی سوال آپ ان علماء کے بارے بھی تو پوچھ سکتے ہیں جو اصلا تقلید کے ہی قائل نہ تھے۔ اخباری علماء جو تقلید نہیں کرتے تھے کیا وہ سب جہنمی ہیں؟ جی نہیں! ان کے لیے جو علم کی صورت میں عیاں تھا وہ ان پر حجت ہے۔ یہ ارتقاء آہستہ آہستہ شیعہ دنیا میں حاصل ہوا اور مکتب تشیع میں اب اصولی علماء چھاۓ ہوۓ ہیں۔ خود مرجعیت کا نظام بھی شروع سے اس طرح سے منظم نہیں تھا جیسے آج منظم ہے اور پوری دنیا کے شیعہ کو مرکزیت حاصل ہو گئی ہے۔ آج سے پانچ سو سال پہلے ہر گاؤں کا اپنا مجتہد ہوتا تھا، ہر مسجد کا اپنا مجتہد ہوتا، علامہ حلیؒ نے یہ کوشش کی اور ایک مجتہد و مرکز پر تشیع کو اکٹھا کیا۔ جو باتیں اس وقت علامہ حلیؒ پر کی گئیں بالکل وہی اعتراضات آج ولایت فقیہ پر ہوتے ہیں۔ مرجعیت کی مرکزیت حاصل ہونے سے تشیع میں فقہ اور فتوی کی دنیا متحد ہوئی۔ جبکہ ولایت فقیہ سے تشیع کی سیاسی قوت متحد ہو رہی ہے۔ آج شیعہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو وہ بغیر کسی ملک کی سرحدی حدود کی پرواہ کیے اپنے مجتہد کے فتوی پر عمل کرتا ہے۔ یہ کامیابی ہے اور ارتقاء کی علامت ہے لیکن یہ چیز پہلے موجود نہ تھی۔

امام خمینیؒ کا کارنامہ

امام خمینیؒ نے تشیع کو سیاسی اور اجتماعی طور پر متحد کیا۔ نظریاتی طور پر ولایت فقیہ کی بحث امام خمینیؒ سے پہلے فقہاء کی کتابوں میں موجود تھی۔ اور بہت سے علماء ولایت فقیہ مطلقہ کے قائل تھے۔ امام پہلی بار اس نظریہ کو عملی طور پر نافذ کرنے میں کامیاب ہوۓ۔ لذا اس بحث سے گھبرا جانا کہ فلاں مجتہد تو ولایت فقیہ کو نہیں مانتے، یا گزشتہ علماء میں سے بعض نے ولایت فقیہ کا انکار کیا ہے۔ اس سے کوئی حرج نہیں پڑتا۔ جب بہت سے فقہاء تقلید کے ہی قائل نہ تھے اور اخباری تھے، اگر ان پر کوئی حرج لازم نہیں آتا تو جو علماء ولایت فقیہ کے منکر تھے ان پر بھی کوئی حرج لازم نہیں آۓ گا۔ یہی علماء جو تقلید کے ہی قائل نہ تھے اور انہیں اخباریوں کے نام سے جاناجاتا ہے ان کے مکتب تشیع پر بہت احسانات ہیں۔ انہوں نے ہی احادیث کے منابع جمع کیے۔ پس یہ شبہہ اٹھانا کہ فلاں مرجع تقلید ولایت فقیہ کا قائل نہیں ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ امور حسبیہ میں سب علماء ہی اس بات کے قائل ہیں کہ فقہاء کو ولایت حاصل ہے۔ ممکن ہے انہوں نے اس موضوع کا مطالعہ ہی نہ کیا ہو۔ پس کوئی بات معلومات میں نہ آۓ اس سے ان کی شخصیت کی توہین نہیں ہوتی۔ اور نا ہی اس شخصیت کا احترام ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی فقیہ ہر پہلو سے ساری معلومات کا حامل نہیں ہوتا۔ ایک ہی فقیہ کے پاس سائنسی، عسکری، اقتصادی، اور سیاسی معلومات ہوں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ حتی جس علم کا ماہر ہے اس میں بھی غلطی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور علماء نے ایک دوسرے پر شدید علمی تنقیدیں کی ہیں جو اس بات پر شاہد کے طور پر ان کی کتابوں میں درج ہیں۔ شیخ طوسیؒ جیسی شخصیت پر اگر تنقید ہو سکتی ہے تو آج کے کسی مرجع تقلید پر بھی تنقید ہو سکتی ہے۔ علمی تنقید کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس شخصیت کا احترام ہی نہ کیا جاۓ اور اس کو غلط قرار دے دیا جاۓ۔ وہ طلاب جو تنقید کرنے پر ناراحت ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کرنے سے علماء کی توہین ہو جاتی ہے۔ علمی دنیا میں اختلاف کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔ مثلا اگر رہبر معظم کوئی فتوی دیتے ہیں جو امام خمینیؒ کے فتاوی سے مختلف ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب رہبر معظم امام خمینیؒ کے پیرو نہیں رہے۔

طالب علم کے علمی درجات

اساتیدِ اخلاق بیان فرماتے ہیں کہ طالب علموں کی علمی زندگی کے تین مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان کا استاد ہی ان کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے استاد کے علاوہ اور کسی کی بات کو حجت نہیں سمجھتے۔ سات آٹھ سال تک وہ اسی مرحلے میں رہتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں جب کچھ علم حاصل کرتے ہیں اور دیگر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کو معلوم پڑتا ہے کہ ہاں صرف ان کا استاد نہیں ہے بلکہ دوسروں نے بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے۔ اس مرحلے میں اقوال کا ڈھیر، فتاوی کا ڈھیر لے آتے ہیں۔ جب ان سے بحث ہوتی ہے تو آگے سے کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں جو آپ بات کر رہے ہیں اس میں فلاں مجتہد نے تو یوں کہا ہے۔ اگر کوئی اور راۓ ان کو بیان کی جاۓ تو کہتے ہیں کہ قم کے اس مشہور و معروف بزرگ نے تو یوں نہیں کہا۔ ان کو کوئی بھی بات کریں وہ کہتے ہیں کہ درست نہیں ہے کیونکہ فلاں بڑی شخصیت نے تو اس کی مخالفت کی ہے۔ حالانکہ معیار شخصیت نہیں ہوتی بلکہ علمی دلیل ہوتی ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدیؒ مرحوم فرمایا کرتے تھے میں سب بزرگ علمی شخصیات کا تہہ دل سے احترام کرتا ہوں لیکن کسی بھی علمی شخصیت کے علمی رعب میں نہیں آتا۔ صرف دلیل سے قانع ہونگا۔ پس کسی علمی دلیل کے جواب میں یہ کہنا کہ فلاں مجتہد نے یہ کہا، فلاں نے وہ کہا یہ اگرچہ پہلے مرحلے سے بہتر ہے لیکن علم یہ نہیں ہے۔ علم تیسرے مرحلے میں آتا ہے۔ اس مرحلے میں طالب علم مختلف اقوال کو رد کرتا ہے اور ایک قول کو قبول کر لیتا ہے۔ یا سب کو رد کر کے نیا قول اختیار کرتا ہے۔ نصاب کی کتابیں بھی اسی طرز پہ بنائی گئی ہیں۔ مقدمات میں ایک ہی مصنف کی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ پھر سطوح کی کتابیں آتی ہیں جس میں اقوال در اقوال ہوتے ہیں۔ آخر میں اجتہاد کا مرحلہ آتا ہے جس میں انسان مجتہد بنتا ہے۔ حقیقی عالم دین وہ نہیں ہوتا جس کے پاس اقوال کا ڈھیر ہو، عالم وہ ہوتا ہے جو دلیل سے ایک قول کو اختیار کرے۔ علمی دنیا میں یہ محاورہ مشہور ہے کہ نَحنُ اَبناَءُ الدَّلِیل۔ ہم دلیل کے فرزند ہیں۔ جہاں دلیل ہوگی وہاں ہم ہونگے۔ ولایت فقیہ پر اکثر اوقات پر جو بحث ہوتی ہے وہ اقوال کے گرد گھومتی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کا علمی جائزہ لیا جاۓ۔ اجتہادی بحث کی جاۓ۔

ولایت فعل الہی اور کلامی مسئلہ

ولایت اگر معاشروں کی حکمرانی کے معنی میں لیں تو حقیقی طور پر اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ یہ مطلب گزشتہ اقساط میں تکراری طور پر گزرا ہے کہ ولایت حقیقی طور پر اللہ کی ہے۔ اللہ تعالی کی اتباع میں یہ ولایت نبی اور امام کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ سے پہلے انبیاء بھیجے جن کا کام امت کی ہدایت کرنا اور ان پر حکمرانی کرنا تھا۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالی نے شریعت دی اور امت پر ولایت کا حق بھی دیا۔ لیکن ان کے بعد امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اصحاب کی ایک جماعت اس بات کی قائل تھی کہ اللہ تعالی کے رسولﷺ نے حکومت کے لیے ہمارے اوپر کسی کو بھی معین نہیں کیا۔ خود امت کی ذمہ داری ہے کہ خود میں سے کسی ایک کو حاکم کے طور پر معین کر لیں۔ با الفاظ دیگر اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ امام مقرر کرنا اللہ تعالی کا کام نہیں ہے اور نا ہی اللہ تعالی نے رسول کو اس بارے میں کوئی دستور دیا ہے۔ بلکہ خود امت پر ضروری ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امام بنا لیں۔ امامت اہل سنت کے ہاں فعل الہی نہیں ہے بلکہ فعل مکلف ہے۔ انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنا امام بنائیں۔ لیکن تشیع اس بات کا قائل ہے کہ اللہ تعالی کے رسولﷺ نے اپنے بعد امت کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا۔ بلکہ اللہ تعالی کے حکم سے ان پر حاکم و امام مقرر فرمایا۔ نا صرف مقرر کیا بلکہ امت سے بیعت کروائی گئی۔ امیرالمومنینؑ پہلے خلیفہ و امام ہیں اور اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہیں۔ پس سنی اور شیعہ میں اصلی اور بنیادی ترین اختلاف سیاسی اختلاف ہے۔ فقہی مسائل کا اختلاف نہیں ہے، نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھنے کا اختلاف نہیں ہے کیونکہ مالکی سنی تو ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں۔ اصل اختلاف یہ ہے کہ حکمران الہی ہوگا یا عوامی؟ امام منصوب ہوگا یا منتخب ہوگا؟ خلیفہ و امام کا انتصاب ہوگا یا انتخاب۔ ظاہر ہے اگر ہم حکمران کا چناؤ عوام پر ڈال دیں تو یہ فعلِ مکلف بن جاتا ہے اور اگر حکمران کا چناؤ خدا کے ذمہ لگا دیں تو یہ فعل الہی بن جاۓ گا۔ فعل مکلف ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ فقہی ہوگا اور فعل الہی ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ کلامی ہوگا۔ اہلسنت کے ہاں امامت کلامی مسئلہ نہیں ہے فقہی مسئلہ ہے۔ اور اہل تشیع کے ہاں امامت فقہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کلامی مسئلہ ہے۔

حاکم کا انتصاب یا انتخاب

معاشرے پر حاکم کون ہو؟ یہ مسئلہ بنیادی اور بہت اہم ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ اس بارے میں دین نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو۔ جیسا کہ بیان ہوا اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلے میں ہماری رہنمائی نہیں کی۔ ہم خود جس کو بھی حاکم بنا لیں یا جو بھی ہم پر حاکم کے طور پر مسلط ہو جاۓ اس کی اطاعت واجب ہے۔ جبکہ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی نے نا صرف اس مسئلے کی تبیین کی ہے بلکہ اس کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر یہ مسئلہ بیان نہ ہوتا تو رسول اللہﷺ کی پوری ۲۳ سالہ زحمات بھی رد کر دی جاتیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا:
«یا أیها الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربک وإن لم تفعل فما بلغت رسالته».
ترجمہ: اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔[1]
ساری رسالت ایک طرف اور معاشرے کے اوپر رہبر و امام کا اعلان ایک طرف۔ معاشرے کے رہبر کا اعلان اور تعیین بہت ضروری ہے۔ یہ رہبر و امام صرف دینی مسئلوں کے حل کے لیے نہیں تھا بلکہ دین اور دنیا ہر دو میں حکمران مقرر ہو رہا تھا۔ غدیر خم میں امیرالمومنینؑ کے امام ہونے کا اعلان ہوا۔ صرف یہ نہیں کہ امام علیؑ صرف دینی مسئلوں میں رہنما ہونگے بلکہ حکمران اور خلیفہ بھی علیؑ ہونگے۔ آئمہ معصومینؑ کو صرف دین کا رہنما ماننا کافی نہیں، امامت کا مطلب یہ ہے کہ دینی اور دنیوی ہر دو صورتوں میں حکمرانی آئمہ کی ہے۔ آئمہ معصومینؑ کو  ساسة العباد کہا گیا ہے۔ بندوں کی سیاست اور ان کی مدیریت کرنے والے آئمہ معصومینؑ اللہ تعالی کی جانب سے معین ہیں۔ ہم کسی کو اپنا حاکم نہیں بنا سکتے۔ یہ حق صرف اللہ تعالی کا ہے۔ لذا حاکم کا یا امام کا انتخاب نہیں بلکہ انتصاب ہے۔

ووٹ دے کر حکمران چننا

نظام جمہوریت کی یہیں سے نفی ہو جاتی ہے کہ اس نظام میں حاکم کا چناؤ عوام کرتے ہیں۔ جبکہ نظام ولایت میں عوام حاکم نہیں بنا سکتی۔ شیعہ سنی کا اختلاف ہی یہی ہے۔ سنی کہتے ہیں کہ حاکم بنانا عوام کا کام ہے۔ جبکہ شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم بنانا انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے معاشروں پر حاکم مقرر فرماۓ ہیں صرف انہیں کی اطاعت کی جا سکتی ہے اور کسی حاکم کی اطاعت نہیں کر سکتے۔ آج کے دور میں اگر کوئی ووٹ ڈال کر حکمران چننے کے سلسلے پر اعتراض کرتا ہے تو حق بات کرتا ہے۔ کیونکہ شیعہ انتخاب کا قائل ہی نہیں ہے بلکہ انتصاب کا قائل ہے۔ انسان فقہی مسائل سے شیعہ سنی نہیں بنتا ۔ شیعہ سنی انسان اس سیاسی مسئلہ پر بنتا ہے۔ اگر انتخاب کا قائل ہے تو سنی ہے اور اگر انتصاب کا قائل ہے تو شیعہ ہے۔ پس اعتراض اس پر نہیں بنتا جو جمہوریت پر اعتراض کرتا ہے اعتراض تو اس پر بنتا ہے جو انتصاب کو چھوڑ کر انتخابی سیاست کو اختیار کر رہا ہے اور خود کو شیعہ بھی کہتا ہے۔ کیونکہ انتصاب اور انتخاب کا نظریہ صرف آئمہ معصومینؑ کے دور تک محدود نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ غیبت امام زمانؑ کے دور تک انتصاب کے قائل ہوں اور آج ۲۰۲۲ میں انتخاب کے قائل ہو جائیں۔ یہ نہیں کر سکتے کہ جب تک امام ظاہر تھے تو تو ہم کہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے بس یہی حاکم ہیں کیونکہ منصوب ہیں، اور ان کے ہوتے ہوۓ اگر کوئی حاکم چاہے انتخاب سے بھی آتا ہے تو وہ ناجائزحاکم ہے کیونکہ اس کے ہوتے ہوۓ حق کا امام اور اللہ کی طرف سے منصوب امام موجود ہے۔ لیکن غیبت کے دور میں آپ کہیں کہ ہم بھی اپنا حاکم انتخاب کر لیتے ہیں۔ ۲۶۰ ہجری تک تو شیعہ ہوں اور بعد میں اہل سنت کے نظریہ انتخاب کو مان لیں؟ یہ درست نہیں ہے۔

زمانہ غیبت میں انتصاب کا نظریہ

۲۶۰ ہجری تک جب امام ظاہرا موجود تھے تب تک تو وہی ہمارے رہنما و امام ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہیں۔ اور اللہ تعالی پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امت پر حکمران معین فرماۓ۔ کیا زمانہ غیبت میں اللہ تعالی نے یہ ذمہ داری پوری کی ہے یا نہیں؟ زمانہ غیبت میں اگر یہ ذمہ داری پوری نہیں کی تو پھر تو سنیوں کا نظریہ درست ہے کہ اللہ تعالی پر حاکم مقرر کرنا ضروری نہیں ہے اور خود عوام اپنا حاکم خود بنا سکتے ہیں۔ اس لیے پھر حضرت ابوبکر کی خلافت بھی درست ثابت ہوئی۔ لیکن اگر اللہ تعالی نے جیسا کہ رسول اللہﷺ کے دور میں یہ ذمہ داری پوری کی اور امت پر حکمران و امام مقرر فرمایا زمانہ غیبت میں بھی یہ ذمہ داری پوری کرے گا اور اب بھی انتصاب ہی ہوگا۔ امت خود کسی کو انتخاب کر کے حکمران نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ انتصاب کی جو وجوہات اور دلیلیں ۱۱ ہجری کو حاصل تھیں وہی آج بھی حاصل ہیں۔ بلکہ اس سے شدید تر ہو گئی ہیں۔ اگر ۱۱ ہجری کا زمانہ دیکھیں تو اس وقت امت مختصر تھی، زمانہ سادہ تھا، مسائل اتنے کٹھن اور الجھے ہوۓ نہیں تھے۔ لیکن اس وقت پھر بھی خدا نے امت کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا اور ان کی ہدایت و حکمرانی کے لیے امام معین فرمایا۔ تو کیا وہی مسائل آج موجود نہیں ہیں؟ آج کا جدید دور جب آبادیاں بڑھ چکی ہیں، زمانہ ترقی یافتہ ہو گیا ہے، مسائل پیچیدہ ہو گئے ہیں کیا آج کے دور میں انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے کوئی الہی حاکم مقرر نہیں کیا؟ اگر اس وقت بغیر حاکم کے رسول اللہﷺ نے امت کو نہیں چھوڑا تو یہ توقع امام زمانؑ سے کیسے کی جا سکتی ہے کہ جب وہ پردہ غیبت میں جا رہے ہیں تو امت کو ان کے حال پر چھوڑ کر چلے جائیں؟ کیا بارہویں امام کے بارے میں وہی بات کرنا درست ہے جو اہل سنت رسول اللہﷺ کے بارے میں کرتے ہیں کہ رسول نے امت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور امت کی صوابدید پر ہے کہ جسے حاکم و خلیفہ بنا لیں۔ ۲۶۰ ہجری میں اگر یہی بات ایک شیعہ کرے کہ امام جب پردہ غیبت میں گئے تو امت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ میرے بعد بے شک جس کو بھی انتخاب کر لینااس کے شیعہ ہونے پر شک کرنا چاہیے ۔  امام یا نبی اپنے بعد اللہ تعالی کے حکم سے کسی کو منصوب کر کے جاتا ہے۔  پس جس طرح سے ۱۱ہجری میں ہم نے نظریہ انتصاب کو اختیار کیا آج بھی اسی نظریہ پر قائم رہیں نا کہ ۲۶۰ ہجری کے بعد آج کے حالات میں نظریہ انتخاب کے قائل ہو جائیں۔

امامت کی فقہی بحث

امامت اصل میں کلامی بحث ہے کیونکہ فعل الہی ہے۔ لیکن یہ بحث کہ امام کے وظائف کیا ہیں؟ امام کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ یہ فقہی بحث ہے۔ امت پر امام کی بات ماننا ضروری ہے یا نہیں یہ بحث بھی فقہی بحث ہے۔ لیکن خود امام علیؑ کا اللہ تعالی کی طرف سے حاکم منصوب ہونا کلامی بحث ہے۔ بعینہ اسی بحث کے ذیل میں ولایت فقیہ کا موضوع ہے۔ الہی حاکم کا معین ہونا کلامی بحث ہے لیکن اس کا حکم جاری کرنا، مثلا امر بالمعروف کرنا، نہی عن المنکر کرنا، اشرار سے جنگ کرنے کا حکم دینا، خمس و زکات موصول کرنا یہ سب فقہ سے مربوط ہیں۔ امیرالمومنینؑ کی جن لوگوں نے اطاعت نہیں کی انہوں نے حرام کام کیا۔ انہوں نے امت کو حکم دیا کہ قاسطین، مارقین اور ناکثین کے خلاف جنگ کریں اگر کسی نے اس حکم کی اتباع نہ کی اس نے در اصل معصیت الہی کو انجام دیا۔ امام کا کام معاشرے کی مدیریت کرنا ہے، اور امت کا کام اس کی اطاعت کرنا۔ ولایت فقیہ کے باب میں بھی امت کی ذمہ داری اطاعت کرنا ہے نا کہ دوسرے مراجع کی طرف رجوع کرنا۔ جب ولی فقیہ حکم دے وہاں اطاعت کی جاتی ہے۔ پس غیبت امام زمانؑ میں اہل سنت کے نظریے کے تحت حکمران کا چناؤ نہیں ہوگا۔ اہل سنت کے ہاں آسانی ہے وہ حاکمیت کو عوامی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی حکمران بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں کوئی معیار بیان نہیں ہوا۔ لیکن ہم شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ امت مسلمہ کی امامت اور ان پر ولایت کرنے والے شخص کو معیار ات پر اترنا ضروری ہے۔ یہ معیار ات صرف زمانہ ظہور کے لیے نہیں ہیں بلکہ انہیں معیارات کے مطابق زمانہ غیبت میں بھی حکمران بنے گا۔

تشیع سیاسی مکتب

ایک غلط سوچ ہمارے منبروں سے بیان ہوئی کہ سیاست کی بات نہ کی جاۓ۔ سیاست کی بات نہ کرنا تو اہل سنت کا نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنا سیاسی خلیفہ بنا کر نہیں گئے۔ انہوں نے جا کر کسی اور کو اپنا سیاسی رہنما بنا لیا۔ کیا اسی نظریہ کے ہم بھی قائل ہو جائیں؟ جی نہیں! اللہ نے زمانہ ظہور میں بھی امت کے لیے تدبیر رکھی اور زمانہ غیبت میں بھی تدبیر رکھی ہے۔ اللہ تعالی نے دین و شریعت بھیجی ہے۔ جس طرز زندگی کو اللہ تعالی نے انسانوں کے لیے متعارف کروایا ہے وہ صرف زمانہ ظہور کے لیے نہیں ہے وہ آج اکیسویں صدی کے لیے بھی ہے۔ لیکن یہ دین اور نظام نافذ تب ہی ہوگا جب معاشروں کی امامت اس شخص کے پاس ہو جس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کی مدیریت و امامت کرے۔ اگر صاحب حق کو یہ حق نہ ملا تو دین اور شریعت کو پس پشت ڈال دیا جاۓ گا۔ نا صرف یہ دین نافذ نہ ہوگا بلکہ ختم ہو جاۓ گا۔ کیونکہ دین کا کامل طور پر معاشروں میں نفاذ بہت ہی مشکل کام ہے۔ حتی امیرالمومنینؑ جیسے حکمران کو بھی یہ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس میں نعوذباللہ کوتاہی امیرالمومنینؑ کی نہیں تھی بلکہ امت آمادہ نہ تھی کہ ان پر اسلامی احکامات مکمل طور پر نافذ ہوں۔ بہت طویل وقت درکار ہے پھر جا کر ایک چیز معاشرے میں رچتی بستی ہے۔ اللہ تعالی نے غیبت کے زمانہ میں امت کے لیے تدبیر کی ہے۔ وہ تدبیر ِالہی علم کلام کی بحث ہے۔

ولایت فقیہ تدبیر الہی

اللہ تعالی نے اسلام کو کامل و جامع دین بنا کر اتارا ہے۔ اس میں انسانیت کے لیے مکمل طور پر ہدایت موجود ہے۔ صرف آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں ہی اسلام جامع و کامل نہیں بلکہ آج بھی کامل و جامع ہے۔ جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسلام آج کے دور کی بھی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور آج بھی کامل و جامع ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے معاشروں کی مدیریت کے لیے اللہ تعالی نے کیا تدبیر کی ہے؟ وہ تدبیر نظام امامت کی تبع میں نیابت کا نظام ہے جسے ہم ولایت فقیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو فلسفہ امامت کا ہے اور جس ضرورت کے تحت امامت ہے اسی ضرورت کے تحت ولایت فقیہ بھی ہے۔ ولایت فقیہ کا پھول سرزمینِ امامت میں اگا ہے۔ امامت نہ ہو تو یہ بھی نہیں ہے۔ امام زمانؑ کے وجود کو ماننے کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ نیابت کو بھی تسلیم کیا جاۓ۔  جو کردار زمانہ ظہور میں امام ادا کرتا ہے، وہی کردار اب نائب نے ادا کرنا ہے۔ جس ضرورت کے تحت اللہ تعالی نے امام قرار دیا تھا اسی ضرورت و فلسفہ کے تحت اس کا نائب بھی موجود ہے۔ نیابت صرف امام زمانؑ کے دور میں ہی شروع نہیں ہوئی بلکہ ہر امام نے متعدد نائب مقرر فرماۓ۔ مالک اشترؓ، محمد بن ابی بکرؓ، عثمان بن حنیف، عبداللہ بن عباسؓ یہ سب امام علیؑ کے نائب تھے۔ یہ افراد صرف فتوی دینے میں تو امیرالمومنینؑ کے نائب نہیں تھے کہ مالک مصر جائیں اور وہاں صرف فقہی مسائل بیان کریں۔ مالک اشترؓ کو جب اپنا نائب بنایا تو وہاں پر نیابت سے مراد مصر کی حاکمیت ہے۔ اسی طرح سے عثمان بن حنیف ؓکو بصرہ کا والی بنایا اس سے مراد یہ نہیں تھا کہ عثمان جائیں اور بصرہ میں صرف قضاوت کریں۔ نیابت سے مراد سیاسی منصب حکمرانی تھا۔

امیرالمومنینؑ اور نظریہ انتصاب

امیرالمومنینؑ نے مختلف علاقوں میں والی حضرات منصوب فرماۓ۔ سیرت آئمہ معصومینؑ میں انتخاب کہیں بھی نہیں ہے۔ یعنی ایسا کہیں بھی وارد نہیں ہوا کہ ایران کے علاقوں کے لیے کوئی حاکم مقرر کرنا تھا تو ایرانی عوام کے انتخاب سے ایرانی باشندہ حاکم مقرر کرتے بلکہ اپنے پاس سے افراد بھیجتے۔ نہج البلاغہ میں ہی ذکر ہے کہ ان غیر عرب علاقوں میں سارے والی حضرات ہی عرب تھے۔ اگر نظریہ انتخاب کو دیکھا جاۓ اس کے مطابق تو غیر عرب علاقوں پر عرب والی مقرر نہیں ہونے چاہیے تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں تمام علاقوں میں ہی عرب والی بھیجے۔ اسی طرح سے امام حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی نمائندگی میں افراد کو منصوب کیا۔ نظریہ امامت انتصاب پر کھڑا ہے۔ انتصاب اور انتخاب کی بحث کلامی بحث ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کلامی مسئلہ میں فتوی نہیں لیا جاتا۔فقہی مسئلے میں فتوی لیا جاتا ہے۔ اگر حکمران کا چناؤ کلامی مسئلہ ہے تو یہاں مجتہد سے فتوی لینا بے معنی ہے۔

انتخابات اور ووٹنگ کے جواز میں فتاوی

پاکستان میں جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے ہمارے مومنین فورا مراجع کے فتاوی لے کر آ جاتے ہیں کہ دیکھیے فلاں مرجع تقلید نے تو حکمران انتخاب کرنے کے جواز میں فتوی دیا ہے اور کہا ہے کہ ووٹ دے سکتے ہیں۔ اگر تشیع معاشروں کے حکمران کے تقرر کے لیے انتخاب کا نہیں بلکہ انتصاب کا قائل ہے تو پھر یہ فتاوی مراجع نے کیوں دیے ہیں؟ یہاں پر ہمیں دو بحثوں کو جدا کرنا ضروری ہے۔ انسانوں کے اجتماعی امور کی باگ ڈور کس کے حوالے ہوگی؟ یہ بحث تشیع میں اتنی شفاف ہے کہ دو راۓ موجود نہیں ہے۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل ہے کہ انسانوں پر حاکم صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہے۔ جو اللہ تعالی کی طرف سے منتصب نہیں ہے وہ شرعی حاکم نہیں ہو سکتا اور نا اس کی اطاعت کرنا جائز ہے۔ یہ کلامی بحث ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا حکمران کا تعین اور معاشروں کی مدیریت کا مسئلہ یہ وہ بحث ہے جو مکتب تشیع میں علم کلام میں پڑھی جاتی ہے۔ پس اس میں فتوی لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن جن فتاوی کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اس مورد کو بیان نہیں کر رہے ہوتے۔ اس لیے تمام فتاوی ہی مشروط ہوتے ہیں اور مراجع اگر کہہ کر فتاوی دیتے ہیں۔ ووٹ دینا یا نہ دینا ایک فقہی مسئلہ ہے۔ مثلا حالات تقیہ کے ہوں، عبادات آزاد نہ ہوں، مومنین کو زندانوں میں ڈالا جا رہا ہو، شیعہ کا اقتصاد نابود کیا جا رہا ہو، ان صورتوں میں مفادات کے حصول کی خاطر کسی غیر شرعی حاکم کی طرف رجوع کرنے کا مسئلہ جدا ہے۔ انتخاب کا مورد در اصل تقیہ کا مورد ہے۔ اگر تقیہ کی صورت نہ ہو تو تشیع نظریہ انتصاب کو ہی اختیار کرے گا۔ اگر اس کے مفادات کو کوئی خطرہ نہیں ہے تو وہ نظریہ انتخاب کو اپنے لیے جواز کے طور پر اختیار نہیں کر سکتا۔ با الفاظ دیگر شیعہ انتخاب کے نظریہ کو اس صورت میں اختیار کر کے ان غیر الہی حکمرانوں کو ووٹ دے سکتا ہے جب اس کی جان کو خطرہ ہو، اس کو دو وقت کی روٹی نہ مل رہی ہو، شیعہ نوجوان جیلوں میں ہوں، اور ان کے پاس جان بچانے کے لیے صرف حرام کا لقمہ ہے اگر سور کھاتے ہیں تو بچ جائیں گے ورنہ نہیں، اس صورت میں وہ اکل میتہ کے نظریہ کے تحت تب تک نظریہ انتخاب پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں جب تک وہ مجبوری ختم نہیں ہو جاتی۔ جب حالات معمول کے مطابق ہو جائیں تب شیعہ  پر فرض ہے کہ وہ مکتب کے حقیقی نظریہ امامت کے احیاء کے لیے کوشش کرے۔

پاکستانی تشیع اور تقیہ کا مورد

تشیع حکمران کے چناؤ کے لیے نظریہ انتصاب کا قائل ہے۔ نظریہ انتخاب کو صرف مجبوری کے ایام میں اختیار کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں شیعہ واقعی تقیہ کی حالت میں ہے؟ کیا سب شیعوں کو ہی جان کا خطر ہ ہے؟ کیا سب شیعہ علماء ہی شیخ باقر النمرؒ یا شیخ زکزاکی والی زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس ووٹ ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے؟ اگر وہ نظریہ انتصاب کے مطابق اجتماعی تحرک انجام دیں تو کیا ان کا قتل عام ہو جاۓ گا؟ معلوم ہوتا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بہت سی دیگر اقلیتیں پاکستان میں ایسی ہیں جو اپنے اپنے رہبر کی پیروی کرتی ہیں اور قوت رکھتی ہیں۔ ان کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے کسی سیاسی حکمران کی حمایت نہیں کرنی پڑتی۔ تشیع نے جتنا وقت تقیہ میں گزارا ہے اور اپنے اعتقادات کا تحفظ کیا ہے ایسی کوئی بھی آفت پاکستان میں نہیں پڑی کہ اگر وہ نظریہ انتخاب کو ترک کر دے تو اس کو ختم کر دیا جاۓ گا۔ کیونکہ جس دلیل کے تحت تشیع ۱۲ اماموں کے دور میں نظریہ انتصاب پر ڈٹا رہا ہے اسی دلیل سے آج بھی ڈٹ کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ تشیع نے اماموں کے دور میں کسی بھی انتخابی یا آمر حکمران کی اطاعت نہیں کی صرف ان اماموں کی اطاعت کی جن کو اللہ تعالی نے معاشروں کا حقیقی رہبر و رہنما بنایا ہے۔ تشیع نظریہ انتصاب پر ایسے حالات میں ڈٹا رہا ہے جب امام کا نام لینے والا قتل کر دیا جاتا۔ لیکن آج تشیع کے لیے حالات کھل چکے ہیں وہ امامت اور انتصاب کی بات کر سکتا ہے۔

ولایت فقیہ کا نظام اور امامت

جیسا کہ بیان ہوا کہ ولایت فقیہ وہ پھول ہے جو امامت کی سرزمین پر اگا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرتا ہے کہ آپ نے ولی فقیہ کو امام سے ملا دیا تو جواب یہ ہے کہ اچھی  بات ہے کہ ولی فقیہ کو امام سے ملا رہے ہیں۔ غیبت کے دور میں وہ شخص حاکم ہے جو امام سے قریب ترین ہے۔ اعتراض تو تب کرنا چاہیے تھا اگر امامت سے نہ ملاتے، امیر شام سے ملاتے، یا کسی دیگر طاغوتی نظام سے اس کو ملاتے۔ اگر کوئی شخص اپنے افعال، کردار، علم و عمل میں امام سے قریب ہے وہ تو زیادہ حقدار ہے حکمرانی کے لیے، بجاۓ ان افراد کے جو امام سے کسی بھی قسم کی مشابہت نہیں رکھتے۔ نیابت و ولایت فقیہ کا نظام ہے ہی اس لیے کہ ہم حقیقی امام کی امامت و حکومت کے لیے آمادہ ہو سکیں۔ نیابت کا نظام انسانیت کو نشو و نما دینے کے لیے ہے۔ ان چالیس سالوں میں اس نظام نے کسی بھی محاذ پر شکست نہیں کھائی۔ اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنوں نے لگاتار مسلسل کوششیں کیں لیکن یہ نظام شکست نا پذیر رہا۔ اگر کہیں زد پہنچی ہے تو اپنوں کی طرف سے ان منافقین کی طرف سے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر اندر سے ہی نظام سے دشمنی کر رہے ہیں۔ یہ وہ شہوانی طبقہ اور جاہل طبقہ ہے جو دین پر عمل تو کرتا ہے لیکن دین کا شعور نہیں رکھتا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو غافل اور سست لالچی طبقہ ہے جو ہر دور میں ہی رہا جس نے امیرالمومنینؑ کی حکومت کو زد پہنچائی۔

نائب امام کے وظائف

امیرالمومنینؑ نے مالک اشترؓ کو مصر کی طرف روانہ کیا اور اپنی نیابت میں ان کو حکومت عطا کی۔ مالک اشترؓ مصر میں صرف فتوی دینے میں نائب نہ تھے بلکہ حکومت میں نائب تھے۔ مصریوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ نائب کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ امامت کی نیابت میں معاشروں کی مدیریت کرے۔ امر و نہی کرے، سرحدوں کی حفاظت کرے باطل کو دباۓ یا ختم کرنے کی کوشش کرے، دین کی طرف دعوت دے یہ سب کام نائب کے ذمہ ہیں۔ نائب کی یہ ذمہ داریاں صرف زمانہ ظہور میں نہیں ہے بلکہ زمانہ غیبت میں بھی اللہ تعالی نے معاشروں کی مدیریت کے لیے یہی تدبیر رکھی ہے۔ غیبت سے پہلے جو نظام موجود تھا وہی نظام آج بھی موجود ہے۔ ولایت فقیہ پر اعتراض کرنے والوں کا یہ کہنا کہ آپ نے نیابت کہاں سے لائی ہے؟ نیابت ہم نے نہیں لائی یہ تو پہلے سے ہی موجود ہے۔ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں تمام اسلامی ممالک کی طرف امام نے اپنے والیوں کو بھیجا۔ نیابت سے ہی اسلامی حدود کی حفاظت کرنا ممکن ہے۔ آج فرق صرف اتنا ہے کہ اصل امیر جس نے نائب مقرر کرنے تھے وہ پردہ غیبت میں ہیں۔ کیا غیبت آنے کی وجہ سے سارا نیابتی نظام ہی ختم ہو جاۓ گا؟ مثلا اگر امیرالمومنینؑ کے دور میں امام کوفہ میں دکھائی نہ دیں تو کیا مصر والوں پر مالک اشترؓ کی اطاعت کرنا ضروری نہیں رہے گا؟ کیا مصر والے مالکؓ کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی چونکہ امیرالمومنینؑ کوفہ میں غائب ہو گئے ہیں اور دکھائی نہیں دے رہے تو ہم بھی آپ کی اطاعت نہیں کریں گے؟ ہرگز نہیں! کیا ان حالات میں خود مالکؓ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ امام علیؑ کوفہ میں نظر نہیں آ رہے تو لذا میری اطاعت اب کوئی نہ کرے حکومت بے شک معاویہ لے لے۔ یا مالکؓ پہلے سے زیادہ شدت سے حکومت اپنے پاس رکھین گے تاکہ امام جب تشریف لائیں تو ان کو زیادہ مشکل پیش نہ آۓ۔ ان کے لیے معاشروں میں آمادگی پیدا کی جاۓ۔ پس جس طرح سے اس دور میں نائب امام علیؑ کی ذمہ داریاں تھیں آج بھی نائب امام زمانہؑ کی وہی ذمہ داریاں ہیں۔ 

نیابت کے نظام کی ترقی

شیعہ تاریخ بھر میں مظلوم رہا ہے۔ کئی دہائیاں شیعہ نے تقیہ میں گزاری ہیں۔ اس لیے شیعی تفکرات و نظریات نے آہستہ آہستہ ترقی کی۔ زمانہ شیعہ کے لیے کھلتا گیا اور مباحث بعد میں ابھرتی رہیں۔ نیابت کے نظریہ نے بھی اسی طرح سے ترقی کی۔ ایک دور تھا جس میں صرف فتوی کی حد تک  امام کے نائب مقرر ہوتے تھے۔ ان ادوار میں خود امام کے لیے حکومت کی راہ ہموار تھی اور نا ہی ان کے نائبین کے لیے۔ آئمہ معصومینؑ فتوی دینے کی حد تک اپنے نائب مقرر فرماتے، مگر یہ کہ کسی علاقے میں شیعہ کے لیے ماحول آسودہ ہو وہاں پر نائبین کو حکم دیتے کہ ان افراد کی مدیریت کریں۔ یہ دور ایک عرصہ تک رہا۔ بعد کے ادوار میں تشیع نے ایک حد تک ترقی کی اور قضاوت کے باب میں علماء تشیع نیابت کی ذمہ داریاں پوری کرنے لگے۔ اس دور میں لوگوں کے درمیان مسائل کا حل کرنا، ان کے جھگڑوں میں قضاوت کرنا اور شیعوں کے باہمی اختلافات کو دور کرنا نائبین امام کے اختیار میں تھا۔ علماء تشیع نے کئی حدود کو اجراء کیا، کئی گاؤں اور قصبوں کی عملی طور پر مدیریت انہیں علماء کے ہاتھ ہوتی۔ نیابت کے نظریہ میں مزید ترقی ہوئی اور آج معاشروں کی رہبریت کے باب میں نیابت کی بحث ہونے لگی۔ یہ وہ دور ہے جب تشیع کے لیے تقیہ ختم ہو چکا ہے، شیعہ افکار و نظریات عمومی محافل میں بحث ہونے لگی ہیں۔ امام خمینیؒ نے پہلی مرتبہ نیابت کے نظام کو سیاست کے باب میں عملی طور پر نافذ کیا۔ نیابت کا نظام آئمہ معصومینؑ کی طرف سے تشکیل شدہ نظام ہے۔ 

نائب امام کی کی نیابت سے مراد

نائب امام جامع الشرائط فقیہ کی زمانہ غیبت میں ذمہ داری کیا ہے؟اس کا  جواب یہ ہے کہ نائب کا کام بھی وہی ہے جو امام کا کام ہے۔ لیکن اس نے وہی کام نیابت میں کرنا ہے۔ فقیہ کا کام صرف فتوی اور قضاوت کرنا نہیں ہے بلکہ امت کی رہبری کرنا بھی فقیہ کی ذمہ داری ہے۔ جس دلیل سے فقہاء فتوی دینے اور قضاوت کرنے میں نائب ہیں اسی دلیل سے رہبریت میں بھی نائب ہیں۔ البتہ نائب کی ذمہ داری کیا ہے اور امت کا نائب کے مدمقابل کیا وظیفہ ہے؟ یہ ایک فقہی بحث ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ولایت فقیہ کو ہر دو علم میں بحث کیا جاتا ہے۔ ولایت فقیہ جب کلام میں ثابت ہو جاتی ہے تب اس کے ذیل میں فقہ میں یہ بحث ہوتی ہے کہ ولی فقیہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور امت کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اگر پہلی بحث نہ ہو تو دوسری بحث جو فقہ میں مطالعہ ہوتی ہے وہ بھی وجود میں نہیں آتی۔ علم کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہم عوام کسی کو بھی اپنے اوپر حکومت کرنے کا حق نہیں دے سکتے۔ کیونکہ یہ حق خود ہمیں بھی حاصل نہیں ہے کہ کسی کو اپنے اوپر حاکم بنا لیں۔ اسی طرح سے فتوی دینے کا حق ہے۔ ہم ووٹنگ کے ذریعے کسی کو مفتی نہیں بنا سکتے۔ نا ہی عوام کی اکثریت سے کوئی شخص قاضی بن سکتا ہے۔ بلکہ یہ حق جس کو اللہ تعالی نے دیا ہے صرف وہی حاکم، مفتی یا قاضی ہو سکتا ہے۔ ولی فقیہ یا معاشرے کا حاکم ہمیشہ انتصابی ہوگا، وہ ہمیشہ منصوب ہوگا، حکومت کرنے کا حق بھی صرف اسی کو ہے اور لوگوں پر ضروری ہے کہ اس کی اطاعت کریں۔ تقلید صرف فتوی کے باب میں ہے۔ ولی فقیہ فتوی نہیں دیتا بلکہ حکم دیتا ہے۔ 

اصول دین اور ولایت فقیہ

لوگوں پر حکمران و امام بنانا اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے، زمانہ ظہور میں بھی یہ ذمہ داری اللہ تعالی کی ہے اورزمانہ غیبت میں بھی۔ اگر حاکم بنانا فعل الہی ہے تو زمانہ ظہور میں بھی کلامی مسئلہ ہے اور زمانہ غیبت میں بھی کلامی مسئلہ ہے۔ لذا جو لوگ ولایت فقیہ کو کلامی مسئلہ نہیں سمجھتے در اصل وہ امامت کو بھی کلامی مسئلہ نہیں سمجھتے۔ کیونکہ معیار ایک ہونا چاہیے جو معیار زمانہ ظہور میں ہے وہی معیار زمانہ غیبت میں بھی ہے۔ خود امامت کے بھی دو رخ ہیں۔ امام کا منصوب من اللہ ہونا فعل الہی ہے اور کلامی مسئلہ ہے۔ جبکہ امام کے وظائف کی بحث فقہی بحث ہے۔ اسی طرح سے ولایت فقیہ ہے۔ خود ولی فقیہ کا نائب امام ہونا اور حاکم الہی ہونا کلامی مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے وظائف کیا ہیں؟ یہ فقہی بحث ہے۔ یہاں پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ولایت فقیہ کو کلامی مسئلہ مان لیں تو پھر اصول دین چھ ہونے چاہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے ایک مسئلہ کلامی ہو لیکن اصول دین میں سے نہ ہو۔ کیونکہ توحید، نبوت، اور امامت کی بہت سی جزوی ابحاث ہیں جو علم کلام میں بحث کی جاتی ہیں لیکن وہ اصول دین میں سے نہیں ہیں۔ نبوت کو اگر توحید کی جہت سے دیکھیں تو توحید اصل ہے اور نبوت جزء ہے۔ امامت کو اگر نبوت کی جہت سے دیکھیں تو یہاں نبوت اصل بن جاتی ہے اور امامت جز۔ اسی طرح سے ولایت فقیہ اور امامت کی نسبت ہے۔ ولایت فقیہ جز ہے اور امامت اصل ہے۔ ولایت فقیہ اصول دین میں سے ہے اور نا اصول مذہب میں سے ہے۔ لیکن پھر بھی کلامی موضوع ہے۔ جس طرح سے توحید کے جزوی مسائل اگرچہ اصول دین نہیں ہیں مثلا قبر، حشر، پل صراط، برزخ وغیرہ کی ابحاث علم کلام میں آتی ہیں لیکن پھر بھی کلامی مسائل ہیں۔[2]

منابع:

 

↑1 مائدہ: ۶۷۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۶۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 November 22 ، 14:36
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۵۴ }

ولایت فقیہ کلامی بحث یا فقہی

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ دین کے اہم ترین امور میں سے ہے۔ دین دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اصول اور فروع۔ اصول کی ابحاث کو علم کلام میں اور فروع کی ابحاث کو علم فقہ میں پڑھا جاتا ہے۔اصول  دین میں تقلید نہیں ہوتی اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم کلام  سے مربوط مسائل عقل و نقل سے سمجھنا خود انسان پر ضروری ہیں۔ جبکہ فقہی امور میں بعض جزئیات جن کا سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے، ان میں تقلید کی جا تی ہے۔ولایت فقیہ کلامی بحث ہے یا فقہی بحث؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ولایت فقیہ اصل میں کلامی بحث ہے۔ لیکن مختلف جہات سے ولایت فقیہ کے موضوع کو فقہ میں بھی بحث کیا جاتا ہے۔

کلامی یا فقہی بحث ہونے میں فرق

بعض افراد نے یہ شبہہ ایجاد کیا کہ ولایت فقیہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اور مکلف کو چاہیے کہ اس مسئلے میں اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرے۔ جو فقیہ کہے گا بس اسی پر عمل کرے۔ یہ اشتباہ ہے۔ اصل میں ولایت فقیہ کلام کی بحث ہے۔ اور کلام میں جو امر عقلی دلیل سے ثابت ہو جاتا ہے وہ قابل تقلید نہیں رہتا بلکہ خود دلیل حجت بن جاتی ہے۔ پس اگر ثابت ہو جاۓ کہ ولایت فقیہ کلامی مسئلہ ہے تو اس میں ہم کسی مجتہد کی طرف رجوع نہیں کر سکتے۔ اس کے بر عکس اگر فقہی مسئلہ ہے تو ہر مکلف اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرے گا اور اس سے پوچھے گا کہ اس کا وظیفہ ولایت فقیہ کے متعلق کیا بنتا ہے؟ یہاں پر ہمارے لیے پہلے یہ معیار واضح کرنا ضروری ہے کہ کلامی بحث کہتے کسے ہیں؟ کلامی بحث اور فقہی بحث ہونے کا معیار کیا ہے؟ اگر کلامی بحث ہے تو کس طرح سے؟ اور اگر فقہ میں بھی ولایت فقیہ کو بحث کیا گیا ہے تو وہ کس جہت سے بحث کیا گیا ہے؟

علوم کی تقسیم

یہ امر واضح کر دیا جانا ضرویری ہے کہ قرآن کریم یا روایات میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں ہے کہ دین کی کونسی بات فقہ سے مربوط ہے اور کونسی بات کلام سے۔ علوم کی شعبہ جات کی جہت سے تقسیم بعد کے ادوار میں ہوئی۔ ایک شعبہ دین کا تفسیر کہلایا، ایک حدیث، عقائد، فقہ، رجال وغیرہ کہلایا۔ یہاں پر ایک بہت ہی اہم سوال ابھرتا ہے۔ علوم کس اساس پر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ علم کلام اور علم فقہ میں کیا فرق ہے؟ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ فلاں موضوع علم کلام کا ہے یا علم فقہ کا؟ اس کے جواب میں مختلف نظریات ہیں۔ بعض نے بیان کیا کہ کسی علم کی بحث کرنے کی روش اس کو دوسرے علوم سے جدا کرتی ہے۔ دیگر نے کہا کہ علم کی غرض و غایت سے اسے دوسرے علوم سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ موضوع سے علوم ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ مصنف کا نظریہ بھی یہی ہے کہ موضوع کی اساس پر ایک علم دوسرے علوم سے جدا ہوتا ہے۔ صاحب کفایہ کا نظریہ ہے کہ علوم کے اغراض و مقاصد انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔ امام خمینیؒ نے اس نظریہ پر نقد کیا اور فرمایا کہ کسی علم کا ہدف تب سامنے آتا ہے جب اس علم کے قضایا اور مسائل ہمارے سامنے ہوں۔ مسائل کی سنخ کی وجہ سے علوم ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ علم کے مسائل، موضوع اور محمول سے مرکب ہوتے ہیں۔ مسائلِ علم وجود میں آئیں تو تب ہدف کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پس علوم ایک دوسرے سے ہدف کی وجہ سے نہیں بلکہ مسائل کی وجہ سے جدا ہوتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے نظریہ پر نقد کرتے ہوۓ اور درحقیقت اسی نظریہ کو مزید ترقی دیتے ہوۓ صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ نے فرمایا کہ ایک علم کا مسئلہ بھی تب سامنے آتا ہے جب موضوع اور محمول ہوں۔ موضوع ہوگا تو تب محمول بھی ثابت ہوگا۔ پس مسئلے یاقضیے سے پہلے موضوع ہوتا ہے۔ موضوع، محمول اور ان کے درمیان نسبت کے آ جانے کے بعد مسئلہ ایجاد ہوتا ہے۔ اس لیے علوم ایک دوسرے سے مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ موضوعات کی بنا پر جدا ہوتے ہیں۔

ایک غلط نظریہ اور اس کا جواب

بعض نے کہا ہے کہ علوم کو جدا کرنے کا معیار دلیل کی نوعیت پر منحصر ہے۔ ان کے بقول اگر بحث کے اوپر بیان کی جانے والی دلیلیں عقلی ہیں تو وہ کلامی بحث ہوگی اور اگر نقلی دلیلیں دی جا رہی ہیں تو وہ فقہی بحث ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ بہت سے فقہی مسائل ایسے ہیں جن کی دلیل عقلی ہے۔ اور بہت سے کلامی مسائل ایسے موجود ہیں جن کی دلیل صرف نقل ہے۔ جیسا کہ قبر و حشر و میزان کے مسائل ہیں۔ یہ سب ابحاث علم کلام میں پڑھی جاتی ہیں۔ ان مسائل کو عقل درک نہیں کر سکتی اور نا ان پر عقلی دلیل دی جاتی ہے۔ بلکہ یہ سب امور نقل سے ثابت ہیں۔  لیکن یہ سب کلام کے موضوعات ہیں۔اسی طرح سے بہت سی فقہی ابحاث ہیں جن پر نقلی دلیل تو موجود نہیں ہے بلکہ خالصتا عقلی دلیل پر کھڑی ہیں۔ جیسا کہ شہید باقر الصدرؒ کا حق الطاعہ کا نظریہ ہے۔ حسن و قبح کا نظریہ، مقدمہ اور ذی المقدمہ کا نظریہ بھی عقلی اساس پر کھڑا ہے۔

علم کلام اور علم فقہ میں فرق

ہر وہ بحث جو اللہ تعالی کی ذات، صفات اور افعال سے مربوط ہو وہ علم کلام کا مسئلہ قرار پاۓ گی۔ اور ہر وہ بحث جو فعل مکلف سے مربوط ہو وہ علم فقہ سے مربوط ہوگی۔ یعنی فعل الہی کی بحث علم کلام کا موضوع ہے اور فعل مکلف کی بحث علم فقہ کا موضوع ہے۔مثلا فقہ میں آپ طہارت، نماز، روزہ پڑھتے ہیں یہ سب موضوعات مکلف کی انجام دہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نماز پڑھنا واجب ہے، روزہ ترک کرنا حرام ہے وغیرہ۔ فقہ میں ہر مسئلہ اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ مکلف نے فلاں کام کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ جبکہ علم کلام میں موضوعات اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور افعال سے مروبط ہوتے ہیں۔نبوت، امامت، وحی، یہ سب مسائل کلام سے مربوط ہیں۔ حجت الہی بنانا، اس کی اطاعت کرنا، شریعت اتارنا اس کی حفاظت کرنے والا مقرر کرنا، یہ سب اللہ تعالی کے افعال ہیں۔ ولایت فقیہ در اصل فعل الہی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کلامی بحث ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں چند مقدمات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ زمین خدا کی ہے۔ اس پر سب مخلوقات بھی خدا کی ہیں۔ گزشتہ اقساط میں ہم نے قرآن کریم کی آیات اور عقلی ادلہ سے ثابت کیا کہ مخلوق پر حکومت بھی اللہ کی ہے۔ کائنات پر حاکم قوانین بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔ شریعت بھی الہی ہے اور اس کو نافذ کرنے والا شخص بھی اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہے۔ قرآن کریم کی آیت کے مطابق ایک چھوٹا سا ذرہ بھی اللہ کی ذات سے پوشیدہ نہیں ہے۔[1] ان سب عقیدوں پر ایمان رکھنے کے بعدجب ہم زمانہ غیبت میں پہنچتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالی نے معاشروں کی حاکمیت کس کے ذمہ لگائی ہے؟ جب تک انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ تھے تو ان ادوار میں تو شریعت کو بتانے والے، اور نافذ کرنے والے وہ خود تھے۔ اگر ان ادوار میں شریعت، دین، قوانین اور الہی حکمرانوں کی ضرورت تھی تو آج بھی تو ضرورت ہے۔ بلکہ آج کے جدید دور میں تو الہی حاکم کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ تو کون ہے آج کے دور میں جو معاشروں کی الہی طرز پر مدیریت کرے؟ کیا اللہ تعالی کو پتہ تھا یا نہیں کہ زمانہ غیبت ہوگا؟ اگر پتہ نہیں تھا تو خود اللہ تعالی کی ذات پر حرف آتا ہے۔ لیکن اگر پتہ تھا کہ زمانہ غیبت آۓ گا تو پھر آج کے دور میں کیا کریں؟

دین کی تعطیلی کا نظریہ

زمانہ غیبت میں اگر اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کوئی حاکم موجود نہیں ہے تو پھر دین کی تعطیل لازم آۓ گی۔ اللہ تعالی نے دین، شریعت اور انبیاء و آئمہ اس لیے بھیجے تھے کہ لوگ ان کے مطابق الہی راستوں پر چلیں۔ یہ ضرورت اگر آئمہ اور انبیاء کے دور میں موجود تھی تو کیا یہ ضرورت آج غیبت کے دور میں ختم ہو گئی؟ دین کے اترنے کا فلسفہ، عدل و انصاف کا قیام، یہ ساری ضروریات آج ختم ہو گئیں؟ کیا اللہ تعالی نے انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے؟ یا اللہ تعالی نے کوئی تدبیر رکھی ہے؟ رہنمائی کا کونسا دستور آج کے دور کے لیے اتارا ہے؟ یا ہماری مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ جو کریں اور جو نا کریں۔ اگر پہلے کے ادوار میں دستور تھا تو آج کے لیے کیوں نہیں؟ اور اگر دستور رکھا ہے تو وہ کیا ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالی نے زمانہ غیبت کے لیے کوئی دستور بیان نہ کیا ہو۔ اس لیے الہی دستور موجود ہے۔ اور اگر موجود ہے تو یہ فعل الہی ہے۔ اور فعل الہی ہمیشہ علم کلام کا مسئلہ ہوگا۔ اللہ تعالی نے زمانہ غیبت میں امت کے لیے ولایت فقیہ کا دستور رکھا ہے۔زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کی جانب سے جامع الشرائط فقیہ کا معاشروں پر حاکمیت کے لیے منصوب ہونا یا نہ  ہونا فعل الہی ہے۔ جس دلیل سے ہم ثابت کریں گے کہ اللہ تعالی نے زمانہ غیبت میں فقیہ کو ولایت دی ہے  یہ دلیل کلامی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالی کے فعل کو ہم ثابت کر رہے ہیں۔ ابھی بحث یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے ولی فقیہ کو زمانہ غیبت میں معاشروں پر حاکمیت کا حق دیا ہے یا نہیں؟ ہر دو صورت میں چونکہ یہ بحث فعل الہی سے مربوط ہو جاتی ہے اس لیے اصالتا کلامی بحث ہے۔جس طرح سے نبیﷺ نے اپنے بعد اللہ تعالی کے حکم سے دستور بیان کیا۔ امیرالمومنینؑ کی ولایت اللہ تعالی کی طرف سے حکم کے بعد اعلان ہوئی۔ وہ بھی دستور الہی تھا۔ اللہ تعالی کے رسولﷺ امت کو تنہا ان کے اپنے حال پر نہیں چھوڑ کر گئے۔ اسی طرح سے بارہویں امام بھی جب پردہ غیبت میں جانے لگے شیعوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ کر نہیں گئے۔ بلکہ نائب چھوڑ کر گئے۔ اور ہمارا عقیدہ ہے کہ امام کا فعل در اصل اس کا اپنا فعل نہیں ہوتا بلکہ اس کا فعل اللہ تعالی کی اتباع میں ہوتا ہے۔ امام نے امت کے لیے دستور بیان فرمایا۔ نیابت کا نظام متعارف کروایا۔ یہاں سے ولایت فقیہ ایک کلامی مسئلہ بن جاتا ہے۔

ولایت فقیہ کی فقہی بحث

زمانہ غیبت میں ولی فقیہ کے تعین کی شرائط کیا ہیں؟ یہ بحث فعل مکلف سے تعلق رکھتی ہے اور فقہی بحث ہے۔ ولی فقیہ کی لوگوں پر اطاعت کرنا واجب ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ بھی فقہی ہے۔ ولی فقیہ کے کیا وظائف ہیں اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ یہ بحث بھی فقہ سے متعلق ہے۔ با الفاظ دیگر ایک ولی فقیہ کا وظیفہ ہے اور ایک امت کا وظیفہ ہے۔ یہ دونوں بحثیں فقہ سے مربوط ہیں۔ ولایت فقیہ کے عنوان سے جب حکم آتا ہے تو وہاں اطاعت ہے، اگر فتوی ہے تو وہاں تکلیف ہے۔ تکلیف اور اطاعت میں فرق کرنا ضروری ہے۔ اگر حکم ہے تو دوسرے فتاوی کی طرف رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ ولایت فقیہ کے ساتھ اطاعت کا مورد ہے۔ ہمارے اکثر فقہاء کرام نے ولایت فقیہ کا فقہی جائزہ لیا ہے۔ جب ایک بحث کا فقہی جائزہ لیں تو اس کے نتائج بھی فقہی نکلتے ہیں۔ لیکن اگر اس بحث کا کلامی جائزہ لیں تو اس کے نتائج نظریاتی نکلتے ہیں۔ امام خمینیؒ، شہید باقرالصدرؒ، شہید مطہریؒ، رہبر معظم امام خامنہ ای اور مصنف نے اس کا علم کلام میں جائزہ لیا۔ جب طلاب کرام عموما ولایت فقیہ پر بحث کرتے ہیں تو اس کو فقہی تناظر میں مدنظر قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اشتباہات کا شکار ہوتے ہیں۔

دینی نصاب میں ولایت

طلاب دینی جو مدارس میں تعلیمی نصاب پڑھتے ہیں اس میں صرف دو جگہوں پر ذیلی ابحاث میں ولایت فقیہ کا ذکر آتا ہے۔ کتاب البیع میں نابالغ بچے کی خرید و فروخت کی بحث میں ولی کا ذکر ہوتا ہے۔ اور قضاوت کے باب میں مقبولہ عمر بن حنظلہ کی روایت میں بحث کی جاتی ہے۔ اگر کسی عالم دین نے صرف یہی حصہ پڑھا ہے اور ولایت فقیہ پر حملہ کرتا ہے یہ قطعا درست روش نہیں ہے۔ ۲۰۰ سال پرانی کتاب کی ابحاث کے ذیل میں آپ ایک بحث کو پڑھیں اور اس بحث پر لکھی جانے والی جدید کتابوں کا مطالعہ کیے بغیر رد کر دریں یقینا یہ علمی روش نہیں ہے۔ جبکہ آج کے دور میں یہ موضوع کئی جوانب سے علمی حلقوں میں بحث ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر کئی جوانب سے قلم اٹھایا گیا ہے۔ جو شخص اس موضوع کی جامعیت کا حق ادا کرے اور دقیق طور پر تمام جوانب سے اس کا مطالعہ کرے وہ ایک علمی تبصرہ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے جامعیت سے مطالعہ نہیں کیا تو اس سے بحث کرنا ہی نہیں بنتا۔ ہم ولایت فقیہ کو علم کلام کے ذیل میں مطالعہ کر رہے ہیں، جب ولایت فقیہ علم کلام میں ثابت ہو جاتی ہے تو تب وظائف کی دنیا آتی ہے اور فقہ میں اس کا دروازہ کھلتا ہے۔ علم کلام میں ولایت فقیہ ثابت ہوجانے کے بعد یہ بحث بنتی ہے کہ ولی فقیہ کے وظائف کیا ہیں؟ اور امت کی ذمہ داری کیا ہے؟ ان دونوں موضوعات کو جدا کرنا ضروری ہے۔ خود ولایت فقیہ کے موضوع کا ثابت ہونا یا رد ہونا علم کلام کا مسئلہ ہے۔ جب ثابت ہو جاۓ کہ ولایت فقیہ موجود ہے تو اب علم فقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتاۓ ولی فقیہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور امت پر ولی فقیہ کی اطاعت ضروری ہے یا نہیں؟

ایک موضوع کا کلامی اور فقہی ہونا

ممکن ہے کہ ایک موضوع ایک ہی وقت میں کلامی بھی ہو اور فقہی بھی ہو۔ جہت مختلف ہو جانے سے اس کا علمی شعبہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عدل ہے۔ عدل کا ایک معنی ہے اگر کوئی عدل نہ کرے تو وہ ظالم ہے۔ جہاں پر بھی عدل نہ ہو وہاں ظلم ہے درمیانی صورت نہیں ہے۔ عدل کی نسبت اگر اللہ تعالی کی طرف ہو تو یہ کلامی بحث ہو جاۓ گی۔ لیکن عدل کی نسبت انسان کی طرف بھی دے سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہ فقہی بحث ہوگی۔ عدل الہی اور عدل انسانی میں فرق ہے۔  انسان پر عدل کرنا ضروری ہے۔ پس یہاں پر یہ فعل انسان بن جاتا ہے۔ اگر کوئی عدل نہیں کرتا وہ حرام کام انجام دیتا ہے اس صورت میں بھی یہ فقہی بحث ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی پر عدل کرنا واجب ہے۔ اس کا مطلب اور ہے۔ اور جب کہا جاتا ہے کہ انسان پر عدل کرنا واجب ہے اس کا مطلب کچھ اور ہے۔ یہاں پر بعض نے اعتراض کیا کہ ہم کون ہوتے ہیں کہ اللہ تعالی پر کوئی چیز واجب قرار دیں؟ جبکہ انہوں نے سمجھا نہیں ہے۔ علم کلام میں واجب کا مطلب کچھ اور ہے اور علم فقہ میں واجب کا معنی کچھ اور ہے۔ فقہ میں واجب کا مطلب یہ ہے کہ ایک مولا نے کسی امر کو اپنے عبد پر ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کے لیے جب لفظ واجب بولا جاتا ہے اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ یہ وہ امر ہے جو خدا کی ذات سے جدا نہیں ہو سکتا۔ علمی اصطلاح میں اگر موضوع سے محمول جدا نہ ہو سکتا ہو تو اسے قضیہ ضروریہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالی پر عدل کرنا واجب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے عدل جدا نہیں ہو سکتا وہ ہمیشہ عدل کرتا ہے۔ علم فقہ میں وجوب کے مقابلے میں حرمت ہے۔ اور علم کلام میں وجوب کے مقابلے میں امتناع ہے۔

نتیجہ ہمارے سامنے اس طور پر آتا ہے کہ ولایت فقیہ کلامی مسئلہ ہے۔ زمانہ غیبت میں اللہ تعالی نے انبیاء اور آئمہ کی نیابت میں فقہاء کو معاشروں پر حکمرانی کا حق دیا ہے یا نہیں؟ یہ بحث فعل اللہ ہے۔ پس کلامی بحث ہے۔[2]

منابع:

 

↑1 زلزال: ۷۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۱تا۱۴۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 August 22 ، 12:25
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۵۳ }

ولایت فقیہ میں فقیہ سے مراد

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ اقساط میں ہم نے بیان کیا کہ ولایت فقیہ کی بحث میں ولایت سے مراد کیا ہے۔ ولی فقیہ کی ولایت سے مراد معاشرے کی مدیریت کرنا ہے۔ تاہم دین الہی اور قانون الہی کی اتباع میں مدیریت کرنا۔ ولی فقیہ کی ولایت بالذات نہیں ہے، بلکہ اس کو عطا ہوئی ہے۔ ولایت کا حقیقی سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ تمام کمالات اللہ تعالی کو حاصل ہیں، جو خالق، رازق، رب اور ولی ہے۔ قرآن کریم کے مطابق یہ ولایت اللہ تعالی نے اپنی نیابت میں نبی اور اولی الامر کے سپرد کی ہے۔ اور زمانہ غیبت میں یہ ولایت امام کی نیابت میں فقیہ کو حاصل ہے ۔جس طرح سے معاشرے کو امام یا نبی مدیریت کرتا ہے اسی طرح سے فقیہ بھی معاشروں کی مدیریت کرے۔

شوری اور رہبریت کا نظریہ

زمانہ غیبت میں معاشرے کی حکمرانی کون کرے؟ کیا ایک رہبر شورائی کمیٹی ہو جو مشورت سے سارے امور کو سنبھالے؟ یا ایک شخص رہبر ہونا چاہیے؟ یہاں پر دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک شخص کو رہبر بنا دینا درست نہیں ہے بلکہ ایک شوری ہو جس میں مختلف افراد موجود ہوں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنا ہو اس شوری کے تمام اراکین اس پر بحث کریں اور راۓ دیں۔ جو راۓ اکثریت اختیار کر لے اس کو بیان کر دیا جاۓ۔ اس نظام میں رہبر کٹھ پتلی کی مانند ہوتا ہے۔ وہ صرف اس فیصلے کو اعلان کرتا ہے جو شوری میں طے پایا ہے۔ لیکن دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شوری مشورے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن حتمی فیصلہ رہبر کا ہونا چاہیے۔ اور یہی درست نظریہ ہے۔ ولایت فقیہ سے مراد بھی یہی ہے۔ رہبر پر ضروری ہے کہ امور میں مشورت کرے لیکن ان مشاورین کا پابند نہیں۔ حکومتی امور میں مشورہ لے سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ».

ترجمہ: اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں۔[1] اس آیت سے بعض نے جمہوریت کو ثابت کرنا چاہا ہے۔ حالانکہ اس آیت میں حکمران چننے کے مورد میں مشورہ کرنے کا ذکر نہیں ۔ امت کو حکمران چننے کا اصلا اختیار ہی نہیں کہ وہ مشورہ دینے آۓ۔

مشورے کا مورد

 مشورے کے دو مورد ہیں۔ ذاتی زندگی کے امور میں مشورہ کرنا۔ ہمیں ہمیشہ مشورہ کو استخارہ پر فوقیت دینی چاہیے۔ سیرت معصومینؑ یہی ہے کہ مشورہ لینا چاہیے۔ کسی بھی امام نے کبھی کسی کو استخارہ کر کے نہیں دیا، آئمہ معصومینؑ ہمیشہ مشورہ دیتے تھے، حتی حکمران طبقہ بھی آئمہ معصومینؑ سے مشورہ لینے آتا تھا۔ یہاں پر استخارہ کی نفی نہیں کی جا رہی، بلکہ استخارہ بھی کرنا چاہیے البتہ اس کا اپنا مورد ہے۔ مشورے کا دوسرا مورد اجتماعی اور سیاسی امور میں مشورہ لینا ہے۔ حاکم کے چننے میں مشورہ نہیں لیا جا سکتا کیونکہ وہ اللہ تعالی کا کام ہے کہ معاشروں پر ولی حکمران مقرر کرے۔ لیکن الہی حاکم کا سیاسی اور اجتماعی امور میں مشورہ کرنا درست امر ہے۔ اور اس آیت میں یہی مورد بیان کیا جا رہا ہے۔

تنظیمی اسٹریکچر اور دینی نظام

زمانہ غیبت میں امور کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہو، اس موضوع پر بہت گرما گرم ابحاث موجود ہیں۔ حتی ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بعض علماء نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ولی فقیہ کے اوپر ایک شوری کمیٹی ہونی چاہیے۔ جو بات شوری میں طے ہو وہی بات رہبر بھی بیان کر دے۔ رہبر پر ضروری ہو کہ وہ کمیٹی سے مشورہ لے اور اکثریتی راۓ کو قبول کرے۔ لیکن امام خمینیؒ اور دیگر علماء کرام نے اس کی شدید مخالفت کی۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ رہا ہے۔ اور موجودہ تنظیمی اسٹریکچر اب شوری کے نظریہ کے مطابق ہوتا ہے۔  تنظیم کا جنرل سیکرٹری بنایا جاتا ہے، اس کی شوری بنائی جاتی ہے اور جو بات شوری میں طے ہوتی ہے وہی بات تنظیم کے سربراہ اعلان کر دیتے ہیں۔ دلیل کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنی جامع شخصیت نہیں ہے کہ سب امور ہم اسی کی صوابدید پر ڈال دیں۔ کسی ایک شخص کی مرضی نہیں چلنی چاہیے۔ شوری کا نظریہ بظاہر اچھا لگتا ہے اور افراد سمجھتے ہیں کہ ہم سب کا ہی برابر کا حق ہے اور ہماری بھی چلتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا پاکستانی تنظیموں میں یا کسی بھی تنظیم میں نہیں ہوتا، عملی طور پر ایک ہی شخص ہوتا ہے جو فیصلے کرتا ہے۔ اور تا مرگ وہی قائد رہتا ہے۔ اور درست نظریہ یہی ہے کہ رہبر کو ہی رہبریت کا حق دیا جانا چاہیے۔ اس کا حق ہے کہ مدیریت کرے ورنہ اس کے رہبر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں دینی معیاروں کے مطابق رہبر کو منصوب کرنا چاہیے اور اسی کی صوابدید پر امور کو چھوڑ دینا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر بیان کی گئی آیت کا اگلا حصہ یہی کہتا ہے:

«فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ».

ترجمہ: پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔[2]

شوری کا نظریہ خلیفہ ثانی کی ایجاد

دین اسلام میں حاکمیت کے مورد میں شوری کا نظریہ سب سے پہلے خلیفہ ثانی نے پیش کیا۔ انہوں نے خلیفہ کے انتخاب کے لیے چھ افراد کی شوری کمیٹی بنائی اور انہیں اس بات کا پابند بنایا کہ وہ اگلے خلیفہ کا انتخاب کریں۔ اہل بیتؑ نے حاکمیت کے مورد میں کبھی شوری نہیں بنائی۔ تشیع میں رہبریت کا سلسلہ اس طرح سے کبھی بھی نہیں رہا جیسے آج کل رائج ہو گیا ہے۔ جب کسی کو رہبر مان لیا تو اس کو رہبریت کا حق بھی دیں، مدیریت کرنے کا حق اسی کو دیں، اس کو کٹھ پتلی نہ بنائیں۔ تنظیمی اسٹریکچر میں بظاہر کہا جاتا ہے کہ ہم تو کسی کو رہبر نہیں بنا رہے بلکہ اجرائی امور کی ذمہ داری سونپ رہے ہیں۔ بے شک آپ اس کو لفظی طور پر رہبر کا نام نہ دیں کوئی اور نام دے دیں، جنرل سیکرٹری کہہ دیں یا کچھ اور۔ جہاں پر بھی اکثریتی راۓ کو رہبر کے اوپر مسلط کیا جاتا ہے وہاں تنظیم اغوا ہو جاتی ہے۔ اس کو اپنے ہدف سے منحرف کر دیا جاتا ہے۔ عملی طور پر اس معاملے میں سنی شیعہ سب ہی ایک جیسا رویہ اختیار کئے ہوۓ ہیں۔ جب مدت ختم ہوتی ہے دوبارہ تنظیم کا رہبر اسی کو بنا دیتے ہیں جو کئی سال سے بنا ہوا ہے۔

ولی فقیہ کی شرائط

بیان ہوا کہ ولی فقیہ مشورے کی حد تک تو افراد کی بات سنتا ہے۔ لیکن اس کا پابند نہیں ہوتا۔ سیاسی و اجتماعی امور، زندگی کے مختلف شعبہ جات زندگی میں ماہرین سے مشورہ لیتا ہے لیکن فیصلہ خود کرتا ہے۔ اس لیے یہاں پر جو بعض افراد شبہہ اٹھاتے ہیں کہ ہر فقیہ ہی ولی فقیہ ہے درست نہیں۔ ہر قضاوت کرنے والا اور فتوی دینے والا فقیہ، ولی فقیہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ولی فقیہ وہ ہے جو ملک کی سیاست (مدیریت) کرتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مرضی کرے وہی انجام دے۔ بلکہ جو دینی تقاضا بنتا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ اس لیے ہر انسان اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ ولی فقیہ بننے کے لیے چند شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے جن میں سے چند کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ اجتہاد مطلق

ہمارے پاس دو قسم کے مجتہد ہوتے ہیں۔

۱۔ مجتہد مطلق

۲۔ مجتہد مجزی

ولی فقیہ ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مجتہد مطبق ہو۔مجتہد مطلق سے مراد وہ مجتہد ہے جو اسلام کی تعلیمات کو صحیح طرح سے جامع طور پر جانتا ہے۔ وہ صرف فقہ اور اصول میں فقیہ نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام اصول، فروع، عبادات، عقود، احکام، ایقاعات اور اسلامی سیاست میں مجتہد ہے۔ اگر کوئی مجتہد ان تمام دینی معارف میں اجتہاد مطلق نہیں رکھتا وہ ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صرف دعوی نہ کرتا ہو بلکہ واقعیت میں مجتہد ہو، ممکن ہے خود کو انکساری کی وجہ سے مجتہد نہ کہتا ہو۔ حالانکہ اس کے اساتید اسے مجتہد کہتے ہوں۔ یہ شبہہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے بارے میں بھی اٹھایا جاتا ہے کہ وہ تو حجت الاسلام تھے اچانک مجتہد کیسے بن گئے؟ ممکن ہے ایک شخص خود کو مجتہد نہ کہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجتہد نہیں۔ مجتہد کی شناخت وہی کر سکتا ہے جو خود علماء کے درمیان رہتا ہے۔ یہ ایک جاہلانہ بات ہے کہ جس شخص نے ساری زندگی مثلا عراق میں گزاری ہے اس سے ہم کسی ایرانی شخصیت کے اجتہاد کے بارے میں پوچھیں۔ ظاہر ہے نجف کے فقہاء وہاں رہتے ہیں عراق میں اور ایران کے علماء ایران میں رہتے ہیں۔ عراق میں رہنے والا عالم دین کیسے کسی ایرانی عالم دین کے اجتہاد کی گواہی دے سکتا ہے یا کسی کے مجتہد ہونے کو رد کر سکتا ہے؟ مثلا سیستانی صاحب نجف میں ہوتے ہیں اور ان کے شاگردان بھی نجف میں مقیم ہیں۔ اب ایرانی علماء کو یہ علم نہیں ہو سکتا کہ سیستانی صاحب کے بعد ان کے شاگردوں میں کون سا شاگرد مرجعیت کا حامل ہو سکتا ہے؟ ایران کے عالم دین کی عراقی علماء کے بارے میں تائید یا تردید قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ کسی شخصیت کے اندر اجتہاد کی قابلیت کا ہونا یا نہ ہونا ، اس کا معلوم کرنا آسان نہیں، بلکہ اس کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے وقت درکار ہے، یہاں تک کہ اس کی علمی قابلیت واضح اور عیاں ہو جاۓ۔ اسی طرح سے رہبر معظم ہیں کہ انہوں نے بھی کئی حوزہ جات اور اساتید سے استفادہ کیا ہے۔ جو ان کے ہمراہ رہے ہیں وہ اس بات کی تائید کر سکتے ہیں کہ رہبر معظم مجتہد ہیں یا نہیں؟ جو شخص ان کے ہمراہ نہیں رہا وہ گواہی نہیں دے سکتا۔ رہبر معظم کے ہمراہ جو شخصیات رہی ہیں مثلا آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ مکارم شیرازی، اور کتاب کے مصنف آیت اللہ جوادی آملی، یہ لوگ گواہی دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں کہ رہبر معظم فقیہ ہیں۔

مجتہد مطلق وہ ہے جو تفسیر، حدیث، کلام، فقہ کے ساتھ ساتھ علم سیاست میں بھی ید طولی رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی شخصیات ہیں جن کا اجتہاد سب پر عیاں ہے لیکن ان کے بارے میں یقین ہے کہ وہ علم سیاست میں مہارت نہیں رکھتے۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ شخصیات فقہ اور اصول میں تو ماہر ہیں لیکن سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتیں۔ اگر فقہ و اصول میں مجتہد ہوں اور سیاست میں مجتہد نہ ہوں تو وہ مجتہد مطلق نہیں ہیں بلکہ مجتہد مجزی ہیں۔ اور یہ امر آپ آسانی سے جان سکتے ہیں، مثلا ایک شخص جو ایک دفتر کی مدیریت تک کرنا نہیں جانتا اور معاملات کو خراب کر بیٹھتا ہے اس کے اندر مدیریت (Management) کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ شخص ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ مجتہد ہے اور اپنے فن کا ماہر ہے۔ زمانہ غیبت میں ایسے شخص کو معاشرے کی مدیریت نہیں دے سکتے جو تمام علوم میں مجتہد نہ ہو، ضروری ہے کہ وہ دین کو جامع طور پر سمجھتا ہو دینی سیاست کے تمام اصول و ضوابط سے آشنا ہو اور ان میں اجتہادی نظر رکھتا ہو۔ ولی فقیہ پر ضروری ہے کہ مبیِن قرآن ہو، اس کے معارف سے آشنا ہو۔ بالخصوص قرآن اور احادیث میں انسان اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جو امور ذکر ہوۓ ہیں ان کو جانتا ہو علمی دسترس رکھتا ہو۔

انسان شناسی اور معاشرہ کی اصلاح کا علم

انسانی شناسی اور معاشرہ شناسی (Sociology) وہ علوم ہیں جن میں ولی فقیہ کو مجتہد ہونا ضروری ہے۔ اکثر افراد جو ولایت فقیہ کو بنا پڑھے ہی اس کو رد کر دیتے ہیں انہوں نے بہت کم ان علوم کو پڑھا ہے۔ لیکن ان موضوعات پر جن شخصیات نے کتابیں لکھی ہیں وہ بہت قلیل ہیں۔ شہید مطہریؒ، شہید باقر الصدرؒ،آیت اللہ مصباح یزدیؒ، علامہ طباطبائیؒ یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے انسان اور اسلامی معاشرے کی اصلاح کے متعلق قرآن و روایات میں وارد ہونے والے موضوعات پر لکھا۔ لیکن جن اشخاص نے کبھی یہ موضوعات پڑھے تک نہیں اور الف ب تک نہیں جانتے وہ آرام سے ولایت فقیہ کو رد کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہاں پر ان افراد کو جدا کرنا ہوگا جو جامع مجتہد ہیں جنہوں نے دین سے اور قرآن و روایات سے صرف فقہ و اصول کو نہیں پڑھا بلکہ انسان اور معاشرے کی مدیریت کے اصول نا صرف پڑھے بلکہ ان پر تحقیقات کی ہیں۔ جس مجتہد نے اسلامی معاشرے کو قرآن و روایات سے کبھی نہیں پڑھا اور اسلامی معاشرے کے خد و خال کو کبھی بیان نہیں کیا وہ مجتہد مطلق نہیں ہے۔ بعض ہمارے علماء کا یہاں تک کہنا ہے کہ جو شخص انسان اور اسلامی معاشرے کے بارے میں دقیق نظر نہیں رکھتا اور اس موضوع میں اجتہاد نہیں کرتا وہ ولی فقیہ تو دور کی بات مرجع تقلید بھی نہیں ہو سکتا۔ فقیہ وہ ہے جو نا صرف قدیم مسائل میں بلکہ مسائل مستحدثہ میں بھی صاحب نظر ہے۔ مسائل مستحدثہ سے مراد آج کے دور میں پیش آنے والے جدید مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر بینک، حدود، ویزہ، غیر مسلم ممالک جانا، انٹرنیٹ، اور جدید کرنسیوں کے مسائل وغیرہ۔ ان سب مسائل میں فقیہ کو صاحب نظر ہونا چاہیے اگر ان مسائل میں کوئی شرعی راہ حل نہیں دے سکتا وہ امت کی بھی مدیریت نہیں کر سکتا۔ اسے نئے مسائل اور نئے نظریات سے آشنا ہونا چاہیے، ان سب مسائل کی تحلیل کرنا جانتا ہو، بین الاقوامی مسائل پر دقیق نظر اور ان کا قرآنی راہ حل پیش کرے، صرف ان مسائل کا سرسری مطالعہ نہیں بلکہ عمیق تفکر اور منظم آئیڈیالوجی رکھتا ہو۔

۲۔ عدالت مطلق

عدالت کی ایک تعریف یہ ہے کہ انسان کے اندر گناہ نہ کرنے کا ملکہ پیدا ہو جاۓ۔ یعنی خود کو گناہوں سے اتنا دور رکھے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو جاۓ کہ گناہ نہ کرے۔ فقیہ پر ضروری ہے کہ خود کو گناہ سے بچاۓ۔ امت اسلامی کی مدیریت بہت ہی حساس امر ہے۔ اور جتنا بڑا منصب ہے اسی اوج کی اعلی عدالت ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر فقیہ عادل نہ ہو تو وہ عمومی حکمرانوں کی طرح مسلمین کے اموال میں خیانت کرے گا اور ہوا و ہوس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ تاہم مکتب تشیع کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے فقہاء عدالت کا مکمل پیکر رہے ہیں۔ امام خمینیؒ پوری اسلامی مملکت کے رہنما تھے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو میراث کے طور پر مال وغیرہ نہیں چھوڑ کر گئے۔ بلکہ خود انہوں نے وصیت فرمائی کہ میرے اموال کیا ہیں؟ اور اس کے علاوہ اگر کوئی دعوی کرے کہ وہ اموال میری ملکیت ہیں تو وہ جھوٹ ہوگا۔ ان کے کسی بھی بینک میں پیسے جمع نہیں تھے۔ ولی فقیہ بننے کے بعد ان کے اموال میں اضافہ نہیں ہوا۔[3] اسی طرح سے رہبر معظم کی زندگی ہے۔ انتہائی سادہ زندگی، معمولی سا گھر، کھانے میں وہی خوراک استعمال کرتے ہیں جو جلسات میں عام افراد کو دی جاۓ، عام لوگوں میں مل جل جاتے ہیں۔ تاہم جب سے ان کی کمر کی ڈیسک کا مسئلہ بنا ہے زیادہ دیر تک نیچے نہ بیٹھ سکنے کی وجہ سے کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ مرجع عالیقدر آیت اللہ سیستانی کی زندگی بھی نہایت سادہ ہے۔ لذا جب بات آتی ہے ولی فقیہ کی جسے معاشرے کی مالی و افرادی قوت حاصل ہے اور اسی کے پاس تمام امور کی پاگ ڈور ہے، اس کے لیے موقع ہوتا ہے کہ اموال اور امکانات کو اپنی ذات یا رشتہ داروں کے لیے بھرپور استعمال کرے۔ لیکن یہاں پر دین اسلام نے معاشرے کے حکمران پر ضروری قرار دیا ہے کہ وہ عادل ہو۔ یہ عدالت ہے جو اس کو ہواۓ نفس کے مطابق چلنے سے روکتی ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ».

ترجمہ:  کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔[4]

اس کے ساتھ ساتھ عدالت میں یہ بھی ضروری ہے کہ جس بات کا فہم رکھتا ہے اسے تبلیغ بھی کرے اور اس پر خود بھی عمل کرے۔ وظائف دینی کے اجراء کی کوشش کرے۔ اپنے نفس کو معبود نہ بناۓ۔ مصنف قرآن کریم سے ایک اور مثال لے آتے ہیں:

«اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ».

ترجمہ:  تف ہو تم پر اور ان (معبودوں) پر جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟[5]اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابراہیمؑ بت پرستوں پر غضبناک ہوۓ۔ یہاں پر بتوں کی عبادت سے مراد ظاہری بت پرستی ہے اور اپنے نفس کی پوجا ہے۔ جو شخص نفس کی باتیں مانتا ہے وہ ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی حکم جاری کرتا ہے تو خود اس پر ایمان رکھتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو۔ اگر کوئی قضاوت کرتا ہے تو خود بھی اس پر محکم ایمان رکھتا ہو۔ کرونا کی وبا کے ایام میں رہبر معظم نے فرمایا کہ ماسک پہننا ضروری ہے اور ویکسین لگوانی چاہیے۔ ہم نے دیکھا کہ مرتب اس پر عمل کیا اور ہر جلسے میں ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ عام طور پر ماسک سے انسان الجھن کا شکار رہتا ہے اور جہاں پر زیادہ رش نہ ہو وہاں انسان ماسک اتار دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ بیت امام خمینیؒ میں پچھلے دو سال سے ہونے والی مجالس کی تصاویر دیکھیں وہاں خطاب کرنے والے مقرر اور مداح کے علاوہ صرف رہبر معظم ہوتے ہیں اور ایک فاصلے پر بیٹھے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ماسک پہنا ہوتا ہے۔ مطلب جس بات کا حکم دیتے ہیں خود اس پر عمل کرتے ہیں۔ جہاد کے میدان میں بھی یہی حکم ہے۔ اگر ولی فقیہ جہاد کا حکم دے خود بھی میدان میں حاضر ہو۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دو افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ ایک رہبر معظم اور دوسرے سید مقاومت حسن نصراللہ ہیں۔ لذا دشمن دار ترین شخصیت ہیں۔خود رہبر بھی جنگ کے ایام میں میدان میں خط مقدم پر موجود رہے ہیں اور ان کے فرزندان بھی اس جنگوں میں دفاع کے لیے حاضر تھے۔ پس عدالت بہت اہم ہے۔

۳۔ مدیریت اور رہبریت کی استعداد

یہ وہ اہم ترین شرط ہے جس کی وجہ سے بہت سے انقلابی اور غیر انقلابی علماء ولی فقیہ بننے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ مطلق طور پر اجتہاد، رہبریت کے معیار کی عدالت اور یہ تیسری شرط، جو سب سے اہم ہے۔ کیونکہ جس شخص کے اندر مدیریت کی صلاحیت نہیں ہے، مسائل کی صحیح نظر اور فکر حاصل نہیں ہے، وہ مسائل کو بہت تنگ نظری سے دیکھتا ہے۔ صحیح تفکر نہیں کر پاتا۔ دشمن ایک سازش کر رہا ہوتا ہے اور اس رہبر کو پتہ تک نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور دشمن کا ہدف کیا ہے؟ اور اگر درست فیصلہ نہ کرے پوری امت کو ہی لے ڈوبے گا۔ چھوٹا سا غلط فیصلہ کروڑوں افراد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم امیرالمومنینؑ کے عہد حکومت کا ایک واقعہ لے آتے ہیں۔ وارد ہوا ہے کہ جب امیرالمومنینؑ نے تروایح کی بدعت کو ختم کرنا چاہا تو لوگوں نے مسجد میں ہی شور مچانا شروع کر دیا۔ اور واہ عمرا! واہ عمرا! کے نعرے لگانے لگے۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ میں وہ شیعہ نہ تھے جس معنی میں آج لفظ شیعہ استعمال ہوتا ہے۔ شیعہ حقیقی معنی میں بھی موجود تھے لیکن بہت قلیل تھے۔ لیکن کوفہ میں رہنے والے لوگ یہ وہ شیعہ تھے جو صرف معاویہ کے مقابلے میں امیرالمومنینؑ کا ساتھ دے رہے تھے۔ عقائد اور فقہ میں وہ کس کے پیرو تھے یقینا امیرالمومنینؑ کے پیرو نہ تھے، بلکہ امام علیؑ کو پہلا امام بھی نہیں ماننے والے تھے صرف خلیفہ سمجھتے تھے۔ اب جب انہوں نے خلیفہ عمر کی بدعت کو ختم ہونے پر واویلا مچایا تو امام علیؑ نے بھی اصرار نہ کیا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام فرماتے ہیں اگر اس بدعت کو ختم کرتا تو خود مجھ پر ہی یہ لوگ شورش کر دیتے۔ امام نے امت کے اتحاد کو مدنظر رکھا اور اس فرصت تک منتظر رہے جب تک فضا ہموار نہیں ہو جاتی اور امت میں اتنا شعور نہیں آ جاتا کہ بدعت پر باقی رہنا درست نہیں ہے۔[6] اگر آج کل کے جذباتی علماء ہوتے تو فورا وہاں پر کہتے کہ ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے خاص طور پر جب حکومت بھی ہاتھ میں ہو۔ لیکن امیرالمومنینؑ نے وہاں پر ایسا کچھ نہیں کیا۔

زنجیر زنی کا مسئلہ اور رہبر معظم

ولی فقیہ کو پوری امت کو متحد کر کے رکھنا ہوتا ہے۔ دشمن امت مسلمہ کے اندر کسی بھی اختلافی مسئلے کو اٹھا کر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے نقصان صرف ایک فرقے کو نہیں بلکہ پوری امت بلکہ اسلام کا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر وہ مسئلہ جس کی اساس اسلامی ہے اس پر ولی فقیہ کو ڈٹ جانا چاہیے لیکن اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے جو اسلام کی اساس پر نہیں کھڑا اور نا ہی سیرت معصومینؑ سے ثابت ہے اور دشمن بھی اس سے حتی الامکان فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسلام کو بدنام کر رہا ہے وہاں پر رہبر معظم اس کے حرام ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ زنجیر زنی اور قمہ زنی قرآن کریم سے ثابت ہے اور نا روایات اہل بیتؑ سے۔ دوسری طرف دشمن اسلام اس کا بہانہ بنا کر پوری دنیا میں تشیع کو بدنام کر رہا ہے اور منفی پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ یہاں پر رہبر معظم فرماتے ہیں کہ جائز نہیں ہے لیکن ایک فقیہ کہتا ہے کہ جائز ہے اور اس کو بھرپور طریقے سے دینی ثقافت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دلیل کے طور پر بحار الانوار کی ایک ضعیف ترین روایت لے آتا ہے اور کہتا ہے کہ زنجیر زنی کرو۔ اگر سیاسی و اجتماعی فہم نہ ہو اور انسان اسلام کے احکام کو جامع طور پر نظر نہ رکھتا ہو تو فقہی مسئلہ میں ایک راۓ دے دیتا ہے، اگر اس کی سیاسی ادراک درست ہو اور اجتماعی مسائل میں گہری نظر رکھتا ہو ایسی بات کبھی نہ کہے۔ جیسا کہ آیت اللہ سیستانی دام ظلہ العالی کی شخصیت ہے۔ مرجع تقلید ہیں اور بڑے شجاعانہ فتاوی دیتے ہیں۔ لیکن تطبیر کے معاملے میں انہوں نے کوئی فتوی نہیں دے رکھا۔ جب ان کے دفتر کی طرف رجوع کریں تو کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں دیگر مراجع کی طرف رجوع کیا جاۓ، کیوں؟ کیونکہ اس مسئلے کی سیاسی و اجتماعی جہت کو درک کرتے ہیں۔ اور جب فقیہ ایک مسئلے کو صرف فقہی نظر سے نہیں بلکہ تمام جہات سے دیکھتا ہے تو اگر اس کے جواز کا بھی قائل ہو تو عملا اس پر خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر فقیہ مسئلے کی فقط ایک جہت کو دیکھے اور فورا فتوی دے نقصان پورے مکتب کا ہوتا ہے اور دین بدنام ہوتا ہے۔اگر یہی فقیہ امام علیؑ کے دور میں ہوتے تو کیا کرتے؟ کیا امام علیؑ کے تراویح کی بدعت کو ختم نہ کرنے اور اس مسئلے کی سیاسی و اجتماعی جہت کو ملاحظہ کرنے پر یہ فقیہ امام علیؑ پر اعتراض نہ کرتے؟ یقینا ان کی نظر میں تو امام علیؑ نے بھی نعوذباللہ غلط کام کیا کیونکہ فقہی طور پر تو تراویح بدعت ہے اور حرام ہے۔ امام علیؑ کے پاس حسنینؑ بھی موجود ہیں، اصحاب بھی موجود ہیں، حکومت بھی ان کے ہاتھ میں ہے تو پھر اس بدعت کو ختم کیوں نہیں کر رہے؟ معلوم ہوا معاشرے کی وحدت کو ضرب نہیں لگانی۔ صرف مسئلے کی فقہی جہت کو نہیں دیکھنا بلکہ اس کی اساس، اس مسئلے کی اجتماعی حساسیت کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔اگر اہل بیتؑ کی سیرت کا اجتماعی اور سیاسی پہلو سے مطالعہ کیا ہوتا تو تطبیر کے مسئلے پر یہ فتوی نہ دیتے۔ درست ہے کہ ہم نے فقہ و اصول کو بہت دقیق طور پر پڑھا ہے لیکن سیاست اور اجتماعی مسائل میں صحیح نگاہ نہیں رکھتے۔ وہ شخص جو ولی فقیہ ہوتا ہے اس کا سیاسی امور کی صحیح سوجھ بوجھ رکھنا ضروری ہے اور سیاسی امور کی درست مدیریت کر سکتا ہو۔ شجاع، نڈر ہو عوام کو خوش رکھنے کے لیےدین کے احکام کو پائمال نہ کرے۔ بلکہ یہاں پر عوام سے ڈرنے کی بجاۓ اللہ سے ڈرے۔ پس ضروری ہے کہ ہم صرف علمی صلاحیت کو نہ دیکھیں بلکہ عملی مدیریت کرنے کی صلاحیت کو حتمامد نظر رکھیں۔

رہبر معظم کی تدبیر اور مخالف راۓ

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد حکومت اسلامی تشکیل پا گئی۔ ظاہر ہے حکومت اسلامی کے اپنے تقاضے ہیں اگر ان تقاضوں کو پورا نہ کرے اسلامی نہیں رہتی۔ یہاں پر ایران کے اندر ہی اس مسئلے پر اختلاف پیدا ہو گیا اور علماء کا ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ ہماری حکومت کو کسی بھی ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ظاہرا یہ بات درست تھی لیکن اس سے وہ چاہ رہے تھے کہ ہمیں قدس کی ریلی نہیں نکالنی چاہیے، اسرائیل کے قبلہ اول کو غصب کرنے کی بات نہیں کرنی چاہیے، فلسطینی مسلمانوں کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے، کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے، اور کہیں بھی مظلومین جہان و مستضعفین عالم کے لیے اپنے ملک کے مفادات کو بین الاقوامی سطح پر خدشہ دار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ اس تفکر کے حامل بہت سے علماء تھے۔ لیکن اس کے مقابلے میں امام خمینیؒ اور رہبر معظم کا موقف تھا کہ اسرائیل ایک ظالم ریاست ہے۔ تمام عالم اسلام میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ہمیں وہاں آواز اٹھانی چاہیے۔قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے:

«لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ».

ترجمہ: نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔[7]جس طرح سے ظلم کرنا غلط ہے ظلم قبول کرنا بھی غلط ہے۔

نہج البلاغہ میں حسنینؑ کو امیرالمومنینؑ وصیت فرماتے ہیں:

«کونا لِلظّالِمِ خَصْما وَ لِلْمَظْلومِ عَوْنا».

ترجمہ: ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔[8] رہبر معظم نے فرمایا کہ جہاں ہمیں ظالم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور مظلوم کی حمایت وہیں پر اسلام کا بھی دفاع ضروری ہے۔ ان ممالک میں در اصل اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ دشمن اسلام اور ولایت فقیہ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ  ایران کا دشمن نہیں ہے ، ہدف ایران نہیں ہے بلکہ ایران کے اندر اسلامی نظام ان کا ہدف ہے۔ داعش صرف شیعہ کی نہیں بلکہ سنی کی بھی دشمن ہے۔ اسلامی ممالک سے امریکہ کا انخلاء اور عراق و شام میں داعش کو شکست دینا ضروری ہے اس لیے کہ تمام اسلامی ممالک خطرے میں ہیں۔ اگر اسلامی ممالک کے وسط میں داعش جیسی خونخوار حکومت تشکیل پا جاتی اس سے صرف ایران اور عراق کو ہی نقصان نہ ہوتا پاکستان میں بھی بم دھماکے ہوتے۔ اس تفکر نے تو کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ خود پاکستان میں کونسا شعبہ ان کے حملوں سے محفوظ رہ سکا ہے۔ انہوں نے شیعہ مساجد، امام بارگاہیں، سنیوں کی مساجد، ان کے دربار، پولیس چوکیاں، بازار اور فوج کو نشانہ بنایا ہے۔ کوئی بھی اسلامی ملک نہ بچ پاتا، ان کو ختم کرنے کے لیے انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب دشمن گھر میں گھس آۓ اس وقت دفاع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سازش کو بفضل الہی اور رہبر معظم کی درایت سے وہیں پر دفن کر دیا گیا جہاں سے اٹھے تھے۔ اس طرح سے اسلامی ممالک بھی بچ گئے، ولایت فقیہ کا نظام بھی بچ گیا اور آئمہ معصومینؑ کے حرم بھی محفوظ ہو گئے۔ اگر اس طرح کی استعداد فقیہ کے پاس نہ ہو جس سے وہ مدیریت کر سکے وہ ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ایسے فقہاء کو الگ کرنا ہوگا جو صرف فقہ و اصول میں ماہر ہیں، اجتماعی مسائل کی ابجد بھی نہیں جانتے، رہبریت و نظام ولایت فقیہ کی تضعیف کرتے ہیں۔

عالم ہونے اور مدیر ہونے میں فرق

علم عروض وہ علم ہے جو شعر و شاعری سے مربوط ہے۔ اس علم کے مطابق شعر کے ۱۶ اوزان ہوتے ہیں۔ممکن ہے کوئی اس علم میں بہت ماہر ہو لیکن اسے ایک شعر کہنا بھی نہ آۓ۔ پس ایک شاعر ہوتا ہے اور ایک اشعار کی صحیح تعلیم جاننے والا ہوتا ہے۔  شعر و شاعری کا علم ہونا الگ ہے اور شعر کہنا الگ ہے۔ شعر کہنا ایک خداداد صلاحیت ہے، علم عروض میں ماہر ہونے سے شعر نہیں آنے لگ جاتا۔ اسی طرح سے صاحب علم ہونا یا مجتہد ہونا الگ بات ہے اور سیاسی و اجتماعی امور کی سوجھ بوجھ اور ان کی مدیریت کرنا الگ بات ہے۔ ولی فقیہ کے اندر ایک وقت میں ان دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر صاحب علم نہ ہوا تو اپنی راۓ کو دین کی راۓ پر مقدم کر بیٹھے گا، اور اگر اچھا مدیر نہ ہوا اور عالم ہوا تو نیت ٹھیک ہوتے ہوۓ بھی بگاڑ دے گا۔ اور یہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات دیکھنے کو ملتا ہے ایک شخص ہے جوانی سے ہی تنظیمی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا اور اب اس کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں لیکن اچھا عالم دین نہیں ہے۔ اس کے برعکس بھی ممکن ہے ایک شخص بہت زیادہ علم رکھتا ہو صاحب نظر ہو لیکن ایک ہاسٹل یا چھوٹے سے مدرسے کی بھی مدیریت نہ کر سکے۔ پس ہمیں فرق کرنا چاہیے کہ عدل اور انصاف کا علم ہونا جدا ہے اور معاشرے کو علم و انصاف کے مطابق چلانا اور ہے۔

قائدانہ صلاحیت اور مدیریت

دنیا میں بہت سے رہبر گزرے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ حق پر تھے یا نہیں ۔بعض افراد کے اندر پچپن سے ہی قائدانہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کارل مارکس ہیں۔ جنہوں نے مارکسزم کا نظریہ پیش کیا۔ خود بہت سخت زندگی گزاری۔ ان کی گھریلو زندگی بھی خوشحال نہ گزری اور فقر و غربت کے عالم میں مرے۔ اس نے نظام سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھائی اور مزدور طبقہ کے حق میں بولے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے نظریات کی اساس کفر پر ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں یہی مسئلہ ہے۔ چاہے وہ دینی دنیا ہو یا دنیوی ادارے ہوں۔ سب سے زیادہ مدیریت کا مسئلہ ہے۔ پاکستانی قوم جتنا مال خرچ کرتی ہے شاید ہی کوئی اور قوم اتنا مال فی سبیل اللہ خرچ کرتی ہو، اس لیے یہ کہنا کہ وسائل کی کمی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ پاکستانی مدارس میں سب سے زیادہ پیسہ آتا ہے، وقت بھی ہے علماء کے پاس لیکن کچھ بھی نہیں بنا سکے۔ ایک بلڈنگ تک نہیں بنا سکتے۔ کیونکہ عالم دین تو ہیں لیکن مدیر نہیں ہیں۔ بڑے مدرسے کے پرنسپل تو بن گئے ہیں لیکن قائدانہ صلاحیت نہیں ہیں اس لیے مدرسہ ضائع کر دیتے ہیں۔ لیکن جن علماء کے پاس علم کے ساتھ مدیریت کی صلاحیت تھی انہوں نے بہت کم مدت میں ایسے کام کر دکھاۓ جو پچاس سال تک دیگر علماء سے نہیں ہونے والے تھے۔ اگر عالم دین علمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحیت بھی رکھتا ہو وہ کم مدت میں مدرسے بھی بنا لیتا ہے، ثقافتی و فرہنگی امور بھی انجام دیتا ہے، تبلیغ بھی کرتا ہے اور امت کو نہضت کے لیے آمادہ بھی کرتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے تمام وسائل ایسے افراد کو دیے ہوۓ ہیں جن سے عملی طور پر ایک کمرہ بھی مدیریت نہیں ہوتا لیکن وہ بڑے بڑے اداروں کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں۔ ممکن ہے نیک اور زاہد ہوں، حقیقی معنی میں دین کے عالم ہو ں لیکن مدیریت کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔

پنجاب کے ایک مدرسے کا حال

تبلیغات کے دوران ہمیں پنجاب کے ایک مشہور و معروف مدرسے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ مدرسہ بہت بزرگ شخصیت کی یادگار تھی۔ ہم وہاں گئے عجیب حالت تھی۔ مدرسے کے ایک طرف نوجوانوں کے لیے تعلیمی کیمپ لگایا گیا تھا جہاں شدید گرمی تھی اور اوپر سے بجلی بھی نہیں تھی۔ لیکن ساتھ میں ہی پرنسپل صاحب اپنے مخصوص کمرے میں جنریٹر لگا کر اے سی لگا کر آرام فرما رہے تھے۔ خاص مہمانوں کے لیے بہترین کھانے اور اہتمام کیا ہوا تھا لیکن طلاب کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ ہم چند افراد ان سے ملاقات کے لیے گئےاس مدرسے کے مدیر ٹیبل پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹے ہوئے تھے۔ وہاں سے فورا باہر نکلے، لیکن اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ یہاں پر مدیریت کیسے ہو رہی ہے۔ ایک مدیر جو خود اے سی کے مزے لے رہا ہے، لیکن عام افراد گرمی بھگت رہے ہیں، اسے کیمپ میں تبلیغات کا موقع بھی حاصل ہے اور عالم کا وظیفہ تبلیغ کرنا ہے، لیکن یہ صاحب آرام فرما رہے ہیں۔ جب ایسے افراد کی مدیریت پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ اصلی مدیر کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمیں دونوں مدیروں میں فرق کرنا چاہیے۔ ظاہر میں دونوں مدیر عالم دین ہونگے، دونوں عمامہ پہنے ہونگے، لیکن ایک عالم دین اپنے وظیفہ کی شناخت رکھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہے لیکن دوسرا جانتے بوجھتے ہوۓ بھی کاہلی کرتا ہے۔

امام خمینیؒ اور دیگر فقہاء میں فرق

مصنف ولی فقیہ کی تیسری شرط کے ذیل میں امام خمینیؒ کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے ایک فقیہ اسلام شناسی رکھتا ہو لیکن اسلامی احکام پر شجاعت سے جب عمل کرنے کی باری آتی ہے تو بہت سے افراد ہمیں پیچھے ہٹتے ہوۓ نظر آتے ہیں ان کے اندر امام خمینیؒ جیسی بہادری نظر نہیں آتی۔ جب شاہ ایران نے کرفیو نافذ کیا اور حکم دیا کہ جو بھی گھر سے باہر نکلے گا اسی وقت مار دیا جاۓ گا۔ ان حالات میں بڑی شخصیات نے بھی خود کو گھروں میں بند کر لیا لیکن امامؒ بالکل ہراس میں نہیں تھے۔ اور فرمایا کہ اس حصار کو توڑ ڈالو اور کرفیو کو ختم کر دو۔ سب نے اپنے دروازے ڈر سے بند کر دیے انہوں نے کہا کہ سارے دروازے کھول دو۔ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے بعض دوستان مراجع عظام کے پاس جاتے اور ان سے تکلیف معلوم کرتے کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ میں بھی ایک مرجع تقلید کے پاس گیا، یہ ہمارے استاد تھے اور ہم پر ان کا بہت بڑا حق تھا۔ جب میں ان کے پاس حاضر ہوا تو وہ بحار الانوار سے تقیہ کے موضوع کی روایات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ جبکہ امام خمینیؒ نے حکم دے رکھا تھا کہ جب دین خطرے میں ہو تقیہ کرنا حرام ہے۔ اور دین کی حفاظت کے لیے جان بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن یہ فقیہ بزرگوار جنہیں کامل طور پر قرآن کریم، اور سنت کا علم تھا اور اپنے زمانے کے بزرگ ترین علماء میں سے تھے۔ اگر ان کے بارے میں کہا جاۓ کہ وہ اعلم نہ تھے تو دیگر فقہاء بھی ان سے اعلم تر نہیں تھے۔ سب فقہاء سے دقیق تر اسلام کا مطالعہ تھا لیکن سیاسی اور اجتماعی امور میں سوجھ بوچھ نہیں رکھتے تھے۔ فقیہ بہت بڑے تھے لیکن شجاعت، سیاست مداری، تدبیر اور مدیریت ان کے وجود میں نہ تھی۔

مومن کا خون اور اسلام کی حفاظت

یہاں پر بعض فقہاء نے بیان کیا کہ اگر اس طرح کے حالات بن جائیں کہ مومن کی جان خطرے میں ہو تو وہاں پر مومن کو بچانا ضروری ہے۔ حالات بعد میں بہتر ہو سکتے ہیں لیکن پہلے مومن کی جان بچائی جاۓ۔ لیکن درست نظریہ یہ ہے کہ اگر اسلام کی حفاظت کے لیے ہزاروں جانیں بھی قربان ہو جائیں وہ رایگاں نہیں جائیں گی۔ ظلم کے خاتمے اور اسلامی نظام کے احیاء کے لیے اگر جانیں جاتی ہیں تو انہیں رایگاں نہیں کہا جا سکتا۔ بعض نادان افراد یہ شبہہ اٹھاتے ہیں کہ امام خمینیؒ نے بہت بڑی غلطی کی اور ان کی وجہ سے ہزاروں انسانوں کی جان چلی گئی۔ اور دلیل میں کہتے ہیں کہ خود روایات میں آیا ہے کہ ظلم کے خلاف تب تک آواز نہ اٹھاؤ جب تک خود امام مہدیؑ کا ظہور نہیں ہو جاتا۔ ایک صاحب نے ہمیں کہا کہ روایات میں آیا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں سے مسلمانوں کو ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ جب ان سے عرض کیا کہ قرآن کریم، سیرت آئمہ معصومینؑ اور روایات اس بات کے برخلاف کہتی ہیں۔ ظلم کے خلاف قیام کرنا ہر مومن پر ضروری ہے۔ ظلم سہتے رہنا اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ تو آگے سے بات کو گھمانے لگے اور کہا کہ ہمیں حق نہیں بنتا کسی کی جان کو خطرے میں ڈالیں۔ یہ وہ سوچ ہے جو افراد میں پائی جاتی ہے، جیسا کہ بیان ہوا حتی بعض فقہاء بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجاۓ تقیہ کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔

امام خمینیؒ اور آیت اللہ محسن الحکیم ؒکا واقعہ

آیت اللہ العظمی محسن الحکیم عراق کے نامور شیعہ مراجع میں سے گزرے ہیں۔ صدام کے دور میں سیاسی و اجتماعی فعالیت کی بنا پر ان کو بہت سختیاں تحمل کرنا پڑیں۔ صدام نے ان کو تبعید کر دیا۔ جب تبعید ختم ہوئی اور کربلا واپس آۓ تو ان کا بہت زبردست استقبال ہوا جس میں کثیر عوام موجود تھی۔ امام خمینیؒ بھی ان ایام میں عراق میں موجود تھے۔ آپ نے محسن الحکیمؒ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ عراقی عوام کی رہبریت سنبھال لیں، قیام کریں  اور نیابت امام زمانؑ میں اسلامی حکومت تشکیل دیں۔ محسن حکیمؒ نے کہا کہ اگر میں قیام کرتا ہوں تو ممکن ہے عوام میرا ساتھ نہ دے یا کسی کا خون بہہ جاۓ۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون بہے۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ ہم نے ایران میں شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا نہ صرف عوام نے ساتھ دیا بلکہ جس نے بھی قیام کی مخالفت کی اسے لوگوں کی ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ قیام کریں سب سے پہلے میں آپ کا ساتھ دونگا چاہے جو بھی ہو جاۓ۔ محسن حکیمؒ نے کہا کہ اگر عوام کا خون بہہ جاۓ اس کا جواب کون دے گا اور اس کا کیا اثر ہوگا؟ کوئی فائدہ بھی ہوگا؟ امام نے فرمایا کہ فائدہ ہے، قیام امام حسینؑ کا جو فائدہ تھا وہی فائدہ حاصل ہوگا۔ محسن حکیمؒ نے کہا کہ امام حسنؑ نے تو قیام نہیں کیا ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ امام نے جواب دیا: اگر امام حسنؑ کے پاس اتنے پیروکار ہوتے جتنے آپ کے پاس ہیں وہ قیام کرتے۔ لیکن امام حسنؑ نے نے دیکھا کہ ان کے پیروکار ہی اہل شام کے ہاتھوں بک گئے ہیں تو صلح کی۔ لیکن آپ کے پیروکار تمام عالم اسلام میں موجود ہیں۔[9] یہ بحث تاریخ میں وارد ہوئی ہے لیکن اس سے کم از کم یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آیت اللہ حکیمؒ نے خود رہبریت کا دعوی نہیں کیا۔ لیکن جن کے اندر سیاسی استعداد اور رہبریت کی بالکل بھی صلاحیت نہیں ہے وہ دعوی کرتے ہیں کہ میں ولی فقیہ ہوں۔ آیت اللہ حکیمؒ جیسی عظیم ہستی انکار کر رہے ہیں کہ میں یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ لیکن امام خمینیؒ جانتے تھے کہ یہ کام کر سکتے ہیں اور انہوں نے کیا غلبہ بھی اللہ تعالی نے عطا کیا۔[10]

منابع:

 

↑1 آل عمران: ۱۵۹۔
↑2 أل عمران: ۱۵۹۔
↑3 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑4 جاثیہ: ۲۳۔
↑5 انبیاء: ۶۷۔
↑6 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۶۲۔
↑7 بقرہ: ۲۷۹۔
↑8 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۷۔
↑9 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑10 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۱۳۷تا۱۴۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 22 ، 11:29
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۵۲ }

ولایت بالذات اور ولایت بالعرض

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

سب مخلوقات پر حقیقی و ذاتی ولایت اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی کی ولایت کے اتباع میں یہ ولایت رسول اللہﷺ اور امام یا فقیہ کو حاصل ہے۔ 

ولایت کے مراتب

جب تک انسان پچپن میں ہے اس کی ولایت والدین کو حاصل ہے۔ والدین کے پاس یہ ولایت بالذات نہیں ہے۔ والدین بچے کے مالک نہیں ہیں بلکہ ولی ہیں۔ یعنی جب تک بچہ بالغ نہیں ہو جاتا تب تک اس کی سرپرستی والدین کو حاصل ہے۔ لیکن وہ مالک نہیں ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ کہتے جائیں بچے پر بات ماننا ضروری ہے۔ وہ اس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ جی نہیں! بلکہ یہ بچہ ان کے پاس امانت ہے۔ زبردستی نہیں کر سکتے۔ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو حقیقی ولایت رکھتی ہے۔ باپ ولی ہے لیکن بالعرض ولی ہے۔ باپ کی ولایت اصلی نہیں ہے بلکہ اس کو عطا ہوئی ہے۔ ایک اور مثال دیتے ہیں، مثلا ہمارے معاشرے میں عموما سمجھا جاتا ہے کہ اگر کہیں سے گرا ہوا مال مل جاۓ یا پیسے مل جائیں تو ان کو اٹھانے والا ہی مالک  ہوگا۔ جب کہ ایسا مال مجہول المال ہے اور اس کا مالک امام یا نائب امام ہے۔ ہمارا یہ دعوی کرنا کہ یہ مال میرا ہے، اس مال کی اپنی ملکیت کی طرف نسبت دینا درست نہیں۔ حقیقی معنی میں سب اشیاء کا مالک اللہ تعالی ہے اور اسی کو ولایت حاصل ہے۔ اس کے بعد جس کو خدا نے ولایت دے دی وہی ولی ہے۔

انسان کا اپنا ولی بنانا

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
« أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِیاءَ فَاللهُ هُوَ الْوَلِیُّ».

ترجمہ:  کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[1] اس آیت کریمہ کے مطابق انسان اپنا ولی اور سرپرست بنانے کا حق نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس ولی بنانے کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ جب ہمارے پاس اختیار ہی نہیں ہے تو ہم کون ہوتے ہیں یہ حق کسی اور کو دینے والے؟ اس آیت میں ولایت کو صرف اللہ تعالی کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اگر ولی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ہے۔ ہر قسم کی ولایت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ چاہے وہ ولایت تکوینی ہو، ولایت بر تشریع ہو یا ولایت تشریعی۔[2] ولایت تشریعی کہ جس میں ہم معاشرے کی مدیریت اور حاکمیت کا حق کسی کو دے دیتے ہیں، یہ حق تو ہمیں حاصل ہی نہیں کہ ہم کسی کو اپنا حاکم قرار دیں۔ یہ ہمارے اعتقاد کا حصہ ہے۔ اور اس میں کسی کی تقلید بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالی نے حق حاکمیت یا ولایت اپنے مخصوص نمائندوں کو عطا کیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اپنا ولی (ولی بمعنی حکمران) بنائیں۔ ہم صرف ان اولیاء کی اطاعت کر سکتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے ولی بنایا ہے۔

ولایت بالذات اور بالعرض در قرآن

اللہ تعالی وحدہ لا شریک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور شرک گناہ کبیرہ میں سے ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ آپ نے کہا اللہ بھی ولی ہے اور رسول یا امام بھی ولی ہے تو کیا یہ شرک نہیں ہے؟ اس کے جواب میں مصنف قرآن کریم سے جواب پیش کرتے ہیں:

«وَ لِلهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِلْمُؤْمِنینَ».

ترجمہ: جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے۔[3]

لیکن سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

«فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ‌ جَمیعاً».

ترجمہ: ے شک ساری عزت تو خدا کی ہے۔[4] شرک تب ہوتا ہے جب دو برابر میں عزت دار ہوں۔ سورہ نساء میں اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ ساری عزت تو اللہ کے لیے ہے، اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ عزت بالذات اللہ کے لیے ہے۔ بالعرض یہ عزت رسول اور مومنین کو بھی حاصل ہے۔ رسول اور مومنین اللہ کے برابر میں عزت نہیں رکھتے۔ موت دینے کے بارے میں بھی ہمارا یہی نظریہ ہے۔کیا موت اللہ تعالی دیتا ہے یا عزرائیلؑ؟ اگر مان لیں کہ عزرائیلؑ بھی موت دیتا ہے اور اللہ بھی تو یہ شرک ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقی موت کا مالک اللہ تعالی ہے اور عزرائیلؑ صرف منیجر ہیں یا ماتحت ہیں جو اس کام کو اللہ تعالی کی اجازت سے انجام دیتے ہیں۔ جس طرح ایک کمپنی ہوتی ہے۔ کمپنی کا ایک مالک ہوتا ہے اور ایک منیجر۔ ظاہری طور پر پوری کمپنی منیجر کے ماتحت ہوتی ہے اور وہی کمپنی کو چلاتا ہے۔ لیکن وہ خود مالک کا ماتحت ہوتا ہے۔ حقیقی ملکیت کمپنی کی مالک کے ہاتھ میں ہے۔

قوت کی نسبت

اللہ تعالی نے چند آیات میں قوت کی نسبت انسانوں کی طرف دی ہے۔ سورہ مریم میں وارد ہوا ہے:

«یا یَحْیى خُذِ الْکِتابَ بِقُوَّةٍ».

ترجمہ: اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو قوت کے ساتھ تھام لو۔[5] اس آیت میں قوت کا منبع حضرت یحییؑ کو قرار دیا گیا ہے۔

سورہ بقرہ میں وارد ہوا:

«خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اسۡمَعُوۡا».

ترجمہ: جو چیز (تورات) ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور سنو۔[6] اس آیت میں قوت کی نسبت بنی اسرائیل کی طرف دی گئی ہے۔

سورہ انفال میں آیا ہے:

«وَ اَعِدُّوۡا لَهمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ».

ترجمہ: اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو۔[7] اس آیت میں  عام مسلمانوں کی طرف قوت کے حصول کی نسبت دی گئی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قوت میں نبی، عام انسان اور اللہ تعالی شریک ہو جائیں؟ در اصل ان آیات میں مندرجہ بالا ذوات کو قوت تو حاصل ہے لیکن یہ سب عطا ہے۔ یہ قوت ان کو بالذات حاصل نہیں ہے۔ بلکہ بالعرض سب قوی ہیں۔ قوی بالذات نہیں ہیں۔ سورہ بقرہ میں وارد ہوا ہے:

«اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا».

ترجمہ: ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں۔[8] یہ آیت در اصل جواب ہے۔ قوت کا حقیقی منبع اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس لیے شرک وجود میں نہیں آتا۔

رزق کی نسبت

سورہ جمعہ میں وارد ہوا ہے:

«وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ».

ترجمہ: اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔[9] بیان ہوا کہ سب سے بہترین رزق دینے والا اللہ ہے۔ کیا کوئی اور بھی ہے جو رزق دیتا ہے ؟ ظاہر آیت بتاتی ہے کہ رازقین تو بہت ہیں لیکن ان سب میں بہترین اللہ ہے۔ لیکن وہ سب رزق دینے میں اللہ تعالی کے شریک نہیں ہیں کیونکہ وہ بالذات رازق نہیں ہیں۔ سورہ ذاریات میں وارد ہوا ہے:

«اِنَّ اللّٰہَ هوَ الرَّزَّاقُ».

ترجمہ: یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا ہے۔[10] اس آیت میں ضمیر هو اور لفظ رزاق پر ال کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ حصر کا معنی موجود ہے۔ پس رزق دینے والا بالذات اللہ ہے۔ 

شفاعت کی نسبت

سورہ مدثر میں وارد ہوا ہے:

«فَمَا تَنۡفَعُهمۡ شَفَاعَة الشّٰفِعِیۡنَ».

ترجمہ: اب سفارش کرنے والوں کی سفارش انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی۔[11] اس سے معلوم ہوا قیامت کے روز بہت سے شفاعت کرنے والے ہوں گے۔ لیکن سورہ زمر میں وارد ہوا ہے:

«قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَة جَمِیۡعًا». 

ترجمہ:کہدیجئے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔[12] بالکل اسی طرح سے ولایت کا نظریہ بھی ہے۔ کئی ولی بیان ہوۓ ہیں لیکن اصلی ولی کون ہے؟ وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ سورہ مائدہ میں زکات دینے والے مومنین کو بھی ولی قرار دیا گیا ہے:

«إِنَّما وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذینَ آمَنُوا الَّذینَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راکِعُونَ». 

ترجمہ: تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔[13]

سورہ احزاب میں بیان ہوا: 

«النَّبِیُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ». 

ترجمہ: نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔[14] ولایت کی نسبت رسول اور مومنین کی طرف دینے کے باوجود سورہ شوری میں وارد ہوا:

«فَاللهُ هُوَ الْوَلِیُّ». 

ترجمہ: پس ولی تو صرف اللہ ہے۔[15] بقیہ سب ولایتیں تبع میں ہیں۔ بقیہ سب ولی حقیقی ولی کے مظاہر میں سے ہیں۔ مصنف کے بقول اصلی ولایت کے آئینہ ہیں۔ مثلا آئینے کے اندر جو حقیقت نظر آتی ہے وہ مظہر ہے۔ حقیقت وہ نہیں ہے جو آئینے میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح سے کائنات کی ہر شے مظہر ہے اصل اللہ تعالی کی ذات ہے۔ در اصل ہر شے آیت ہے۔ اس میں اللہ کی ولایت کا جلوہ موجود ہے۔ اگر کسی مقدس شے کو ہم بوسہ دیتے ہیں تو در اصل اللہ کو بوسہ دے رہے ہیں۔ ان سب آیات میں سب سے بڑی آیت انسان کامل ہے اور وہ نبی یا امام کی ذات ہے۔ سب سے زیادہ اللہ تعالی کے مظاہر جس ذات میں موجود ہیں وہ یہی ہستیاں ہیں۔ جیسا کہ امیرالمومنینؑ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

«أنا الحجة العظمى والآیة الکبرى». 

ترجمہ: میں سب سے بڑی حجت اور آیت کبری ہوں۔[16][17] ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت ایک مومن سے پوچھا جاۓ گا کہ تم نے خدا کی عیادت کیوں نہیں کی؟ تو وہ کہے گا بھلا خدا کی عیادت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کو جواب دیا جاۓ گا کہ جب فلاں بندہ مریض ہوا تھا اگر اس کی عیادت کرتے تو گویا تم نے خدا کی عیادت کی۔ مومن کی عیادت خدا کی عیادت ہے۔[18] البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی کی ذات ان سب ذوات میں حلول کر گئی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب ذوات اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور اسی کی محتاج ہیں بقاء میں بھی اور حدوث میں بھی۔ امام خمینیؒ کا بسیجیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور ان ہاتھوں پر میں بوسہ کرتا ہوں ،بھی اسی معنی میں ہے۔ امام فرماتے تھے کہ میں اس بوسہ پر فخر کرتا ہوں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بسیجیوں کے ہاتھ در اصل مظہر خدا ہیں۔ اللہ کی آیات ہیں۔[19]

ولی فقیہ کی ولایت

ان سب مقدمات کے بعد معلوم ہوا کہ ربوبیت، عبادت، ولایت، حکومت در اصل خدا کی ہے۔ اگر نبی یا امام ولایت تکوینی، ولایت بر تشریع یا ولایت تشریعی رکھتے ہیں تو یہ سب اذن الہی سے ہے۔ یہ سب ولایت الہی کے مظاہر ہیں۔ اور اگر زمانہ غیبت میں فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے اور اس کی سرپرستی عطا ہوئی ہے وہ بھی اذن خدا اور فرمان خدا سے ہے۔ ورنہ کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کسی قسم کی ولایت حاصل نہیں ہے۔[20]

 

منابع:

 

↑1, ↑15 شوری: ۹۔
↑2 سائٹ البر۔
↑3 منافقون: ۸۔
↑4 نساء: ۱۳۹۔
↑5 مریم: ۱۲۔
↑6 بقرہ: ۹۳۔
↑7 انفال: ۶۰۔
↑8 بقرہ: ۱۶۵۔
↑9 جمعہ: ۱۱۔
↑10 ذاریات: ۵۸۔
↑11 مدثر: ۴۸۔
↑12 زمر: ۴۴۔
↑13 مائدہ: ۵۵۔
↑14 احزاب: ۶۔
↑16 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۳۵۔
↑17 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲۳، ص۲۰۶۔
↑18 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۸، ص۲۲۷۔
↑19 خمینی، سید روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۶، ص۹۶۔
↑20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۹تا۱۳۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 22 ، 11:26
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۱}

ولی فقیہ کون؟ اور اس کی ذمہ داری

کتاب: ولایت فقیہ، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ ولایت فقیہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ فقیہ کو ولایت تکوینی حاصل ہے۔ ولایت فقیہ میں فقیہ صرف دین الہی کے مقررات کا محافظ ہوتا ہے اور جس طرح سے شریعت میں وارد ہوا ہے اس کو نافذ کر کے معاشرے کی مدیریت کرتا ہے۔

ولایت فقیہ کے متعلق شبہات

یہ شبہہ حتی دیندار افراد میں پایا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ولی فقیہ کا بھی وہی مقام و مرتبہ ہے جو امام معصوم کو حاصل ہے۔ یہ شبہہ ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے جو عوام میں پھیلایا گیا ہے۔ فقیہ کو ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جو بات عوام کے ذہنوں میں پہلے ڈال دی جاتی ہے اسے وہ مان لیتے ہیں۔ چونکہ شدید قسم کا پروپیگنڈہ ہر دور میں ولایت کے خلاف ہوتا رہا ہے۔ ولایت فقیہ کے خلاف پروپیگنڈہ مشینری نے یہ بات عوام میں رائج کر دی کہ ولایت فقیہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی ولی فقیہ ہوتا ہے وہ امام معصوم کی مانند ہوتا ہے۔ اور بعض جملات کو پکڑ کر شدید منفی باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ مثلا امام خمینیؒ کا یہ قول نقل کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ولایت فقیہ در اصل ولایت آئمہ معصومینؑ کا تسلسل ہے۔ تو اس قول کی بھی تشریح ہوئی، خود امام نے بھی فرمایا کہ اس سے مراد ولایت تکوینی نہیں ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو مقام و منزلت و عظیم معنوی مقام و فضائل امام معصوم کو حاصل ہوتے ہیں وہی سب فقیہ کے لیے بھی قرار دے دیے جائیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ولایت فقیہ کا درست معنی معاشرے میں تبلیغ کیا جاۓ۔ سالوں سے بنے ہوۓ ذہن آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ بہت ٹائم لگتا ہے کہ ایک قوم اجتماعی طور پر ایک بات قبول کر لے۔حتی بعض طلاب بھی یہی بات کرتے ہیں کہ ولی فقیہ کو امام کی مانند بنا دیا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا جاۓ کہ کس ولایت فقیہ کی کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے اساتید سے سنا ہے۔ خود کسی کتاب کو مطالعہ نہیں کرتے۔

ولی فقیہ کی ولایت

ہم کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد یہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ زمانہ غیبت میں معاشروں کو شریعت الہی اور قانون الہی  کے مطابق چلانا ولایت فقیہ کہلاتا ہے۔ اب جب آپ نے پورے ملک کی مدیریت کسی کو دینی ہے تو خواہ نخواہ آپ کو اختیارات بھی اتنے ہی دینے ہونگے جتنا اس کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ پورے معاشرے کا مدیر بنائیں اور اس کے اختیارات ایک چوکیدار جتنے ہوں۔ اگر اس کو اختیارات ہی نہیں دینے تو پھر کیسی معاشرے کی مدیریت؟ اگر فقیہ کو اختیارات ہی نہیں دینے تو پھر دین کو وہ کیسے قائم کرے؟ پھر اس سے یہ توقع بھی نہ رکھیں کہ ملک کی مدیریت کر سکے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کو امام بنا دیں لیکن اختیارات اتنے ضرور دیں جس سے معاشرےکی  مدیریت ہو سکے۔ اختیارات دے دینے سے کوئی امام تو نہیں بن جاتا۔ یہی اختیارات آپ دنیوی طاغوتی حکمرانوں کو دیتے ہیں اور وہ اپنی ہی حدود سے نکل جاتا ہے لیکن اس کو کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اگر فقیہ عدالت، اور دین کے دائرے میں معاشرے کی مدیریت کرتا ہے اس کی ولایت قبول نہیں۔ اگر حکومتی امور میں کوئی امام سے قریب تر ہے اور شبیہ ہے دوسرے سب سے زیادہ تو اس میں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے نا کہ روڑے اٹکانے چاہیں۔ اگر کسی حکومت میں امام معصومؑ کی حکومت کی جھلک نظر آتی ہے، اسلامی قوانین کا نفاذ نظر آتا ہے تو اس سے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔ لیکن ابھی الٹ ہے، حکومت جتنی فاسق اور فاجر تر ہو، عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا۔لیکن ولی فقیہ  کی حکومت، نیابت امام زمانؑ میں قائم ہونے والی عادل فقیہ کی حکومت قبول نہیں۔

ولی فقیہ اور قانون گذاری

دنیا کا کوئی ایسا نظام حکومت موجود نہیں ہے جو خود قانون گذاری نہ کرتا ہو۔ نظام ولایت فقیہ وہ واحد نظام ہے جس میں قانون گذاری نہیں ہے۔ ولی فقیہ قانون گذار نہیں ہوتا۔ قانون بنانے کا اختیار ولی فقیہ کو حاصل نہیں ہے۔ یہ مطلب پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ولایت بر تشریع یا قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ حتی ہمارے بعض شیعہ فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ قانون بنانے کا حق رسول اور امام کو بھی نہیں ہے۔ وہ بھی قانون لے کر صرف پہنچا دیتے ہیں اور اس کو نافذ کر دیتے ہیں۔ ولی فقیہ بھی اپنی مرضی سے یا ہوا و ہوس کی بنا پر اپنے مفادات کے مدنظر کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ ولی فقیہ صرف قانون اور شریعت کو لے کر اس کو نافذ کر دیتا ہے۔ با الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ولایت فقیہ در اصل قانونی ترین حکومت ہے۔ اس کے پاس پہلے بنا ہوا قانون موجود ہے اس نے صرف نفاذ کرنا ہے۔ اس کا کام صرف قانون الہی کو نافذ کرنا اور اس کے مطابق معاشرے کو چلانا ہے۔ ہمارے پاس ادارے ہیں، ان سب کے لیے قوانین موجود ہیں، اگر ان اداروں پر یہ قوانین الہی نافذ نہ ہوں تو یہ ادارے اور عوام ہرج و مرج کا شکار ہو جاتے ہیں، معاشرے کو اندرونی خلفشار، امنیتی مسائل، دشمنوں کے حملات، اور اجتماعی امور کی دیکھ بھال کے لیے مدیر کی ضرورت ہے۔ اس مدیر کا نام ولی فقیہ ہے۔ لیکن یہ مدیر ہر شخص نہیں بن سکتا۔ اس کی شرائط ہیں۔ الہی قانون کو ولی فقیہ کیسے نافذ کرے اور کیسے مدیریت کرے یہ ولایت فقیہ سے مربوط ہے۔ ولایت فقیہ کا دائرہ اختیار پورا معاشرہ ہے۔ فقہی تناظر میں بہت سی ولایتیں بیان ہوئی ہیں۔ مثلا میت کو دفنانے کے احکام میں ولی کی اجازت، قصاص کے باب میں ولی الدم کا عنوان، نکاح کے باب میں لڑکی کے ولی کی اجازت، مفلس، دیوانے اور سفیہ کے امور کی دیکھ بھال ان سب امور کو ولایت سے عنوان کیا گیا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ سے مراد یہ سب ولایتیں نہیں ہیں، با الفاظ دیگر ولایت فقیہ جدا ہے اور ولایت بر محجوران جدا امر ہے۔

(ممکن ہے یہاں پر کوئی اعتراض کرے کہ اگر ولایت فقیہ کے نظام میں قانون ساز ادارہ قوہ مقننہ موجود ہے پھر اس کو کیوں بنایا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ادارے کے اوپر ایک ناظر ادارہ موجود ہے جس کا کام اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ کوئی قانون اسلامی کلی قوانین سے ٹھکراتا تو نہیں ہے؟ کیونکہ اسلام بھی ہمیں کلی قوانین دیتا ہے ، جزئی جدید مسائل میں قوانین ہمیں خود بنانا پڑتے ہیں، لیکن ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتے جو اسلام کے کلی قوانین سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا نظام اسلام کے کلی قوانین کے تابع ہے۔)

ولایت فقیہ اور ولایت بر محجوران میں فرق

یہ مطلب گزشتہ قسط میں بھی بیان ہوا کہ ولایت فقیہ سے مراد ولایت بر محجوران نہیں ہے۔ ولایت بر محجوران یہ ہے کہ معاشرے کے نادارافراد  کی ولایت، فقیہ کے ذمہ ہے۔ ولایت بر محجوران کے موضوع پر کسی بھی فقیہ نے اختلاف نہیں کیا اور سب فقہاء تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ مجوروں کی ولایت اور ان کی سرپرستی کرنا فقیہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن امت اسلامی کی عمومی سرپرستی کرنا، ان کے اجتماعی اور سیاسی امور کی باگ ڈور سنبھالنا فقیہ پر واجب ہے یا نہیں در اصل اس مطلب میں اختلاف ہے۔ مثلا ایک ملک کی حکمرانی کس کے ہاتھ میں ہو۔ ملک کے حکمران کو ولی فقیہ کہتے ہیں لیکن ولی فقیہ ملک کو قانون الہی کے تابع رہتے ہوۓ چلاتا ہے۔ در اصل ان دونوں ولایتوں میں فرق یہ ہے کہ ناداروں کی ولایت میں فقیہ بعض اوقات واسطے اور کبھی بغیر واسطے کے ان کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس لیے اس ولایت میں لوگ موردِ کار ہوتے ہیں۔ موردِ کار میں ولی کام کرتا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ میں فقیہ اسلامی اقدار اور اس کے اجراء کے لیے لوگوں کو حرکت اور قیام کی دعوت دیتا ہے۔ ہر دونوں ولایتوں میں کام ہو رہا ہے، لیکن ولایت بر محجوران میں فقیہ کام کو انجام دیتا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ میں ولی فقیہ لوگوں کے انفرادی امور کی جا کر دیکھ بھال نہیں کرتا بلکہ وہ مصدرِ کار ہوتا ہے۔ موردِ کار اور مصدر کار میں فرق یہ ہے کہ اگر ولایت بر محجوران کی ولایت کو لے لیں اور ایک فقیہ کسی نادار کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے تو خود جا کر یا کسی واسطے سے اس کی ذمہ داری لیتا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ میں جہاں فقیہ مصدرِ کار ہوتا ہے وہاں فقیہ جا کر معاشرے کے کام نہیں کرتا، بلکہ معاشرے کے سب کاموں کا مصدر اس کی ذات ہوتی ہے۔ ولایت بر محجوران میں ان کا ولی اس لیے خود جا کر کام کرتا ہے کیونکہ محجور طبقہ خود کام نہیں کر سکتا مثلا اپاہج ہے، یا دیوانہ ہے۔ اس سبب کی وجہ سے فقیہ اس کی ولایت سنبھالتا ہے اور اس کے امور کی خود دیکھ بھال کرتا ہے۔ لیکن ولی فقیہ ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ امت مردہ نہیں ہے، امت مفلس نہیں ہے، امت اپاہج یا دیوانی نہیں ہوئی کہ ان کی جگہ پر جا کر امور کی دیکھ بھال کرے۔ ولی فقیہ سالم افراد کی ولایت کرتا ہے۔

ولایت فقیہ کے معنی میں اشتباہ

اب تک جو مطالب ذکر ہوۓ ولایت فقیہ کا معنی روشن ہو جانا چاہیے۔ اب ہمیں اشتباہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہر مجتہد ولی فقیہ ہوتا ہے یا نہیں؟ ہر مجتہد جو فتوی دینے کی ولایت رکھتا ہے من باب فتوی ولی ہے۔ لیکن وہ ولی فقیہ نہیں ہے۔ امت کے اجتماعی امور کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ امت کا مدیر صرف ایک شخص ہو سکتا ہے۔ لیکن اسی حال میں ممکن ہے کہ امت کے اندر چند افراد فتوی دینے کی ولایت رکھتے ہوں۔ فتوی دے سکتے ہیں لیکن اجتماعی امور میں نظر نہیں دے سکتے۔ با الفاظ دیگر فتوی دینے والے کو ولی فقیہ نہیں کہتے، الہی حاکم کو ولی فقیہ کہتے ہیں۔ بعض علماء نے یہاں پر اشتباہ کیا اور من باب فتوی سب فتوی دینے والے فقہاء کو ولی فقیہ کہہ دیا۔ جبکہ ولایت فقیہ سے مراد فتوی دینے کی ولایت مراد نہیں ہے بلکہ معاشرے کی سرپرستی کرنا مراد ہے۔ معاشرے کے لوگ اپنے کام کاج خود کریں گے، فقیہ ان کی جگہ پر جا کر تجارت نہیں کرتا بلکہ ان سب کاموں کا منبع اور مصدر ولی فقیہ کی ذات ہوتی ہے۔ اس کا کام یہ نہیں ہوتا کہ گھروں میں جا کر مسائل حل کرے، لوگوں کے درمیان قضاوت کرے، فتوی دے، یا ان کے انفرادی ذاتی کاموں میں مداخلت کرے۔ معاشرے کے حاکم کا کام یہ نہیں ہوتا وہ صرف عوام الناس کو دعوت دیتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، دستور امر و نہی کرتا ہے اور اسلامی تفکر کی اساس پر دعوت دیتا ہے۔ اس کے برعکس ولی بر محجوران لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کے مسائل حل کرتا ہے، ان کا راشن پورا کرتا ہے یا ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

دعوت۔ ولی فقیہ کی ذمہ داری

ولی فقیہ کا کام دعوت دینا ہے۔ قیام، اور حرکت کی دعوت۔ عوام آئیں اور اسلام کی سربلندی کی خاطر قیام کریں اور اس کی طرف حرکت کریں۔ ولی فقیہ کے مصدرِ کار ہونے کا یہی مطلب ہے۔ تمام انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف بھی یہی تھا کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو نافذ کریں، ظلم و ستم کا خاتمہ کریں اور عدالت کا نظام برقرار کریں۔ لیکن یہ کام صرف نبی نہیں کر سکتا، یہ کام صرف ولی فقیہ اکیلا نہیں کر سکتا۔ پورا معاشرہ اس امر میں شریک ہو، قیام کرے اور حرکت کرے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ».

ترجمہ:  بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔[1]

تمام رسولوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ عدل و قسط کو معاشرے میں قائم کریں۔ عدل وہ عام ترین چیز ہے جس کی بہت اہمیت ہے۔ ولایت فقیہ میں فقیہ میں ایک شرط اس کا عادل ہونا ہے۔ ظاہر ہے جب خود ولی عادل ہو تب ہی عدالت کی طرف دعوت دے سکتا ہے۔ ولی فقیہ کا کام دعوت ہے۔ امت کو ابھارنا ہے۔ جبری طور پر امت سے کام نہیں کروا سکتا۔

ولی فقیہ اور دین کا زبردستی قیام

ایک شبہہ یہ بھی عوام میں پھیلایا جاتا ہے کہ اگر ولی فقیہ واقعی اسلامی حکمران ہے تو پھر زبردستی طور پر دین کو قائم کیوں نہیں کر دیتا۔ غیر اسلامی طریقہ کاروں کو جبر اور طاقت کے بل پر ختم کر دے۔ اس کا جواب یہاں پر واضح ہوگا کہ درست ہے کہ قوانین کو جبری طور پر لاگو کیا جاۓ گا لیکن اسلامی اقدار کو جبری طور پر حاکم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کی دعوت دی جاتی رہے گی۔ جب تک خود عوام اس کو نہ چاہیں اور اس کی طرف حرکت نہیں کرتے دین کو قائم کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ولی فقیہ کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے کہ جو کہہ دے  مان لیں، یہ کام نبی یا امام بھی نہیں کر سکتا کجا یہ کہ ولی فقیہ کو کہا جاۓ کہ امت پر اپنے احکامات ٹھونس دے۔ ہاں! اس کی ذمہ داری ہے کہ دعوت دیتا رہے، ہدایت کرتا ہے اور مسلسل تبلیغ کرتا رہے، یہاں تک کہ لوگ خود عدل و قسط کو قائم کرنے میں شریک ہوں۔[2]

منابع:

 

↑1 حدید: ۲۵۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۷تا۱۲۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 August 22 ، 14:30
عون نقوی