رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی
اردو ترجمہ
اسلام کی اپنے بارے میں نظر یہ ہے کہ اس دین کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ وہ انسانی زندگی کے تمام امور کے بارے میں نظریہ رکھتا ہے۔انسان کے دل کی گہرائیوں کے انفرادی ترین مسائل سے لے کر سماجی مسائل، سیاسی مسائل، بین الاقوامی مسائل، پوری انسانیت کے مسائل اس دین میں بحث کیے گئے ہیں۔ قرآن میں یہ معنی واضح طور پر آیا ہے؛ یعنی اگر کوئی اس مسئلہ کا انکار کرتا ہے تو اس نے یقیناً قرآن کی طرف توجہ نہیں کی۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
یـٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکرًا کَثیرًا، وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیـلًا؛
اس آیت میں کامل طور پر ایک انفرادی اور قلبی معاملے کو ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری جگہ ارشاد ہے:
اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیطـٰن؛
یہ سب بھی اسی قرآن میں آیا ہے کہ جہاں پر اذکروا اللہ کا ذکر ہے جو کہ انسان کا قلبی معاملہ ہے، وہیں پر
فقاتلوا اولیاء الشیطن؛
بھی آیا ہے، یہ سب امور دین میں ہیں پس معلوم ہوا دین کا دائرہ وسیع ہے۔
ایک جگہ پیغمبر کو ارشاد ہے کہ:
قُمِ الَّیلَ اِلّا قَلیلًا، نِصفَه اَوِ انقُص مِنهُ قَلیـلًا، اَو زِد عَلَیهِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلًا؛
اور اسی پیغمبر کو ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا ہے کہ:
فَقاتِل فى سَبیلِ اللهِ لا تُکَـلَّفُ اِلّا نَفسَکَ وَ حَرِّضِ المُـؤمِنین؛
یعنی نبیﷺ کا آدھی رات کو اٹھ کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و توسل و دعا و گریہ اور نماز کا انفرادی عمل و خداوند متعال کا اپنے نبیﷺ کو عبادت کے متعلق حکم، اور اسی نبیﷺ کو میدان جنگ میں حاضر ہونے کا حکم و کفار سے مقاتلہ کا حکم، یہ دونوں انفرادی و اجتماعی حکم اور خود نبیﷺ کی انفرادی و اجتماعی زندگی سے بھی ہمیں یہی سب نظر آتا ہے۔ (یعنی نبیﷺ کے انفرادی ترین اعمال اور ان کی معاشرتی زندگی میں اجتماعی فعالیتیں)
اقتصادی و مالی مسائل میں اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:
وَیُؤثِرونَ عَلَى أَنفُسِهِم وَلَو کَانَ بِهِم خصاصة؛
اس آیت میں ایک ذاتی معاملے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
کَی لا یَکونَ دولَةً بَینَ الاَغنِیاءِ مِنکُم؛
یعنی دولت و ثروت کی درست تقسیم جو کہ سو فیصد ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ یا اسی طرح سے ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا ہے:
لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط؛
اس آیت میں انبیاء کرام و اولیاء عظام کے مبعوث ہونے کا فلسفہ ذکر ہوا ہے، در اصل انبیاء و اولیا معاشروں میں قسط و عدالت قائم کرنے کے لیے آۓ ہیں۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوا:
وَلا تُؤتُوا السُّفَهـاءَ اَموالَکـُمُ الَّتی جَعَـلَ اللهُ لَکُـم قِیٰما؛
ایک جگہ پر فرمایا:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیهِم بِها؛
قرآن کریم مالی و اقتصادی مسائل کو تمام جہات سے، کلی طور پر بیان کرتا ہے اور ہدایت کرتا ہے البتہ ان تمام مسائل کو عملی طور پر کامیاب بنانے کے لیے نظام بنانا ہوگا، لیکن ان مسائل کی کلیات اور جہات یہی ہیں جو قرآن کریم میں ذکر ہوئی ہیں پس معلوم ہوتا ہے اسلام مالیات کے امور میں نظریہ رکھتا ہے۔
دفاع کے معاملے میں، معاشرے کی امنیت و سلامتی کے معاملات اور اندرونی و بیرونی عوامل سے سلامتی کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے:
لَئِن لَم یَنتَهِ المُنٰفِقونَ وَ الَّذینَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَةِ لَنُغرِیَنَّکَ بِهِم؛
یا امنیت کے مسئلے میں یہ ارشاد فرمانا:
وَ اِذا جاءَهُم اَمرٌ مِنَ الاَمنِ اَوِ الخَوفِ اَذاعوا بِه؛ وَلَو رَدّوهُ اِلَی الرَّسول؛
تا آخر آیت۔۔۔ یعنی اسلام انسانی سماجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں پر بات کرتا ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جو قرآن پاک میں ہے۔ آپ کو قرآن میں ایسی سینکڑوں آیات مل جائیں گے جن میں اجتماعی مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
جو شخص قرآن کا پیروکار ہے اور قرآن اور قرآن کے احکام سے واقف ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن متعارف کراتا ہے۔ قرآن جس اسلام کی تعریف اور تعارف پیش کرتا ہے وہ اسلام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں شامل ہے، رائے رکھتا ہے، آراء رکھتا ہے، مطالبات رکھتا ہے۔ جی ہاں، آپ کو یہ جاننا ہوگا، اور آپ کو ان لوگوں کو جواب دینا ہوگا جو اس واضح حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصلی متن
نچه اسلام مطرح میکند، این است که عرصهی فعّالیّت این دین، تمام گسترهی زندگی بشر است؛ از اعماق قلب او تا مسائل اجتماعی، تا مسائل سیاسی، تا مسائل بینالمللی، تا مسائلی که به مجموعهی بشریّت ارتباط دارد. در قرآن، این معنا واضح است؛ یعنی اگر کسی این قضیّه را انکار کند، قطعاً به بیّنات قرآن توجّه نکرده. در قرآن، یک جا میگوید: یـٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکرًا کَثیرًا، وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیـلًا، که مطلب یک مطلب قلبی و مربوط به دل انسان است، امّا یک جا هم میگوید: اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیطـٰن؛ این هم هست؛ یعنی از آن «اُذکُرُوا الله» تا «فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیطـٰن»، همهی این عرصهی عظیم در حوزهی تصرّف دین است.
یک جا خطاب به پیغمبر میفرماید که «قُمِ الَّیلَ اِلّا قَلیلًا، نِصفَه اَوِ انقُص مِنهُ قَلیـلًا، اَو زِد عَلَیهِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلًا»، یک جا هم باز خطاب به پیغمبر میفرماید که «فَقاتِل فى سَبیلِ اللهِ لا تُکَـلَّفُ اِلّا نَفسَکَ وَ حَرِّضِ المُـؤمِنین»؛یعنی همهی این عرصههای عظیم زندگی: از بیداری نیمهی شب و تضرّع و توسّل و دعا و گریه و نماز، تا مقاتله و حضور در میدان جنگ، که زندگی پیغمبر هم همین را نشان میدهد.
در احکام مالی، یک جا میفرماید: وَ یُؤثِرونَ عَلیٰ اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خَصاصَة،که یک امر شخصی [است]، و یک جای دیگر میفرماید: کَی لا یَکونَ دولَةً بَینَ الاَغنِیاءِ مِنکُم، [یعنی] تقسیم درست ثروت که مسئلهی صد درصد اجتماعی [است]؛ یا میفرماید که «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط»؛ اصلاً انبیا و اولیا و همه آمدهاند برای اقامهی قسط، برای اقامهی عدل. یک جا میفرماید: وَلا تُؤتُوا السُّفَهـاءَ اَموالَکـُمُ الَّتی جَعَـلَ اللهُ لَکُـم قِیٰما، یک جا میفرماید: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیهِم بِها؛ یعنی همهی گوشه و کنارهای مسائل مالی را به شکل آن فکر کلّی و نظر کلّی و هدایت کلّی [بیان میکند؛] که البتّه اینها باید برنامهریزی بشود در عمل؛ امّا کلّیّات و جهتگیری، اینهایی است که بیان میکند. یعنی اسلام در همهی این مسائل دارای نظر است.
در مسائل امنیّتی و مسئلهی امنیّت داخلی جامعه: لَئِن لَم یَنتَهِ المُنٰفِقونَ وَ الَّذینَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَةِ لَنُغرِیَنَّکَ بِهِم؛مسئلهی امنیّت. یا «وَ اِذا جاءَهُم اَمرٌ مِنَ الاَمنِ اَوِ الخَوفِ اَذاعوا بِه؛ وَلَو رَدّوهُ اِلَی الرَّسول» تا آخر آیه؛ یعنی اسلام در همهی ابعاد مهمّ زندگی اجتماعی بشر حرف دارد. اینها که عرض کردیم نمونههای اندکی است از آنچه در قرآن کریم هست؛ صدها مورد از این قبیل در قرآن مشاهده میکنید.
کسی که اهل قرآن است و با قرآن و احکام قرآن آشنا است، میفهمد که اسلامی که قرآن معرّفی میکند، این است. اسلامی که قرآن معیّن میکند و معرّفی میکند، اسلامی است که در تمام شئون زندگی دخالت دارد، رأی دارد، نظر دارد، مطالبه دارد. خب، این را بایستی دانست و در مقابل افرادی که در این زمینه تلاش میکنند تا این حقیقت روشن را انکار کنند، بایستی پاسخگویی کرد.(۱)