بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

اسلام کی اپنے بارے میں نظر یہ ہے کہ اس دین کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ وہ انسانی زندگی کے تمام امور کے بارے میں نظریہ رکھتا ہے۔انسان کے دل کی گہرائیوں کے انفرادی ترین مسائل سے لے کر سماجی مسائل، سیاسی مسائل، بین الاقوامی مسائل، پوری انسانیت کے مسائل اس دین میں بحث کیے گئے ہیں۔ قرآن میں یہ معنی واضح طور پر آیا ہے؛ یعنی اگر کوئی اس مسئلہ کا انکار کرتا ہے تو اس نے یقیناً قرآن کی طرف توجہ نہیں کی۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

 یـٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکرًا کَثیرًا، وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیـلًا؛

اس آیت میں کامل طور پر ایک انفرادی اور قلبی معاملے کو ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری جگہ ارشاد ہے:

اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیط‌ـٰن؛ 

یہ سب بھی اسی قرآن میں آیا ہے کہ جہاں پر اذکروا اللہ کا ذکر ہے جو کہ انسان کا قلبی معاملہ ہے، وہیں پر

فقاتلوا اولیاء الشیطن؛

بھی آیا ہے، یہ سب امور دین میں ہیں پس معلوم ہوا دین کا دائرہ وسیع ہے۔
ایک جگہ پیغمبر کو ارشاد ہے کہ:

قُمِ الَّیلَ اِلّا قَلیلًا، نِصفَه اَوِ انقُص مِنهُ قَلیـلًا، اَو زِد عَلَیهِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلًا؛

اور اسی پیغمبر کو ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا ہے کہ:

 فَقاتِل فى سَبیلِ اللهِ لا تُکَـلَّفُ اِلّا نَفسَکَ وَ حَرِّضِ المُـؤمِنین‌؛ 

یعنی نبیﷺ کا آدھی رات کو اٹھ کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و توسل و دعا و گریہ اور نماز کا انفرادی عمل و خداوند متعال کا اپنے نبیﷺ کو عبادت کے متعلق حکم، اور اسی نبیﷺ کو میدان جنگ میں حاضر ہونے کا حکم و کفار سے مقاتلہ کا حکم، یہ دونوں انفرادی و اجتماعی حکم اور خود نبیﷺ کی انفرادی و اجتماعی زندگی سے بھی ہمیں یہی سب نظر آتا ہے۔ (یعنی نبیﷺ کے انفرادی ترین اعمال اور ان کی معاشرتی زندگی میں اجتماعی فعالیتیں)

 

اقتصادی و مالی مسائل میں اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:

وَیُؤثِرونَ عَلَى أَنفُسِهِم وَلَو کَانَ بِهِم خصاصة؛ 

اس آیت میں ایک ذاتی معاملے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

کَی لا یَکونَ دولَةً بَینَ الاَغنِیاءِ مِنکُم؛

 یعنی دولت و ثروت کی درست تقسیم جو کہ سو فیصد ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ یا اسی طرح سے ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا ہے:

لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط؛

اس آیت میں انبیاء کرام و اولیاء عظام کے مبعوث ہونے کا فلسفہ ذکر ہوا ہے، در اصل انبیاء و اولیا معاشروں میں قسط و عدالت قائم کرنے کے لیے آۓ ہیں۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوا: 

وَلا تُؤتُوا السُّفَهـاءَ اَموالَکـُمُ الَّتی جَعَـلَ اللهُ لَکُـم قِیٰما؛

ایک جگہ پر فرمایا: 

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیهِم بِها؛ 

قرآن کریم مالی و اقتصادی مسائل کو تمام جہات سے، کلی طور پر بیان کرتا ہے اور ہدایت کرتا ہے البتہ ان تمام مسائل کو عملی طور پر کامیاب بنانے کے لیے نظام بنانا ہوگا، لیکن ان مسائل کی کلیات اور جہات یہی ہیں جو قرآن کریم میں ذکر ہوئی ہیں پس معلوم ہوتا ہے اسلام مالیات کے امور میں نظریہ رکھتا ہے۔

دفاع کے معاملے میں، معاشرے کی امنیت و سلامتی کے معاملات اور اندرونی و بیرونی عوامل سے سلامتی کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے:

لَئِن لَم یَنتَهِ المُنٰفِقونَ وَ الَّذینَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَةِ لَنُغرِیَنَّکَ بِهِم؛

یا امنیت کے مسئلے میں یہ ارشاد فرمانا: 

وَ اِذا جاءَهُم اَمرٌ مِنَ الاَمنِ اَوِ الخَوفِ اَذاعوا بِه؛  وَلَو رَدّوهُ اِلَی الرَّسول؛

 تا آخر آیت۔۔۔ یعنی اسلام انسانی سماجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں پر بات کرتا ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جو قرآن پاک میں ہے۔ آپ کو قرآن میں ایسی سینکڑوں آیات مل جائیں گے جن میں اجتماعی مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

 

جو شخص قرآن کا پیروکار ہے اور قرآن اور قرآن کے احکام سے واقف ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن متعارف کراتا ہے۔ قرآن جس اسلام کی تعریف اور تعارف پیش کرتا ہے وہ اسلام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں شامل ہے، رائے رکھتا ہے، آراء رکھتا ہے، مطالبات رکھتا ہے۔ جی ہاں، آپ کو یہ جاننا ہوگا، اور آپ کو ان لوگوں کو جواب دینا ہوگا جو اس واضح حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اصلی متن

نچه اسلام مطرح میکند، این است که عرصه‌ی فعّالیّت این دین، تمام گستره‌ی زندگی بشر است؛ از اعماق قلب او تا مسائل اجتماعی، تا مسائل سیاسی، تا مسائل بین‌المللی، تا مسائلی که به مجموعه‌ی بشریّت ارتباط دارد. در قرآن، این معنا واضح است؛ یعنی اگر کسی این قضیّه را انکار کند، قطعاً به بیّنات قرآن توجّه نکرده. در قرآن، یک جا میگوید: یـٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکرًا کَثیرًا، وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیـلًا، که مطلب یک مطلب قلبی و مربوط به دل انسان است، امّا یک جا هم میگوید: اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیط‌ـٰن؛ این هم هست؛ یعنی از آن «اُذکُرُوا الله» تا «فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیط‌ـٰن»، همه‌ی این عرصه‌ی عظیم در حوزه‌ی تصرّف دین است.
یک جا خطاب به پیغمبر میفرماید که «قُمِ الَّیلَ اِلّا قَلیلًا، نِصفَه اَوِ انقُص مِنهُ قَلیـلًا، اَو زِد عَلَیهِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلًا»، یک جا هم باز خطاب به پیغمبر میفرماید که «فَقاتِل فى سَبیلِ اللهِ لا تُکَـلَّفُ اِلّا نَفسَکَ وَ حَرِّضِ المُـؤمِنین‌»؛یعنی همه‌ی این عرصه‌های عظیم زندگی: از بیداری نیمه‌ی شب و تضرّع و توسّل و دعا و گریه و نماز، تا مقاتله و حضور در میدان جنگ، که زندگی پیغمبر هم همین را نشان میدهد.
در احکام مالی، یک جا میفرماید: وَ یُؤثِرونَ عَلیٰ اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خَصاصَة،که یک امر شخصی [است]، و یک جای دیگر میفرماید: کَی لا یَکونَ دولَةً بَینَ الاَغنِیاءِ مِنکُم،  [یعنی] تقسیم درست ثروت که مسئله‌ی صد درصد اجتماعی [است]؛ یا میفرماید که «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط»؛ اصلاً انبیا و اولیا و همه آمده‌اند برای اقامه‌ی قسط، برای اقامه‌ی عدل. یک جا میفرماید: وَلا تُؤتُوا السُّفَهـاءَ اَموالَکـُمُ الَّتی جَعَـلَ اللهُ لَکُـم قِیٰما، یک جا میفرماید: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیهِم بِها؛ یعنی همه‌ی گوشه و کنارهای مسائل مالی را به شکل آن فکر کلّی و نظر کلّی و هدایت کلّی [بیان میکند؛] که البتّه اینها باید برنامه‌ریزی بشود در عمل؛ امّا کلّیّات و جهت‌گیری، اینهایی است که بیان میکند. یعنی اسلام در همه‌ی این مسائل دارای نظر است.
در مسائل امنیّتی و مسئله‌ی امنیّت داخلی جامعه: لَئِن لَم یَنتَهِ المُنٰفِقونَ وَ الَّذینَ فى قُلوبِهِم  مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَةِ لَنُغرِیَنَّکَ بِهِم؛مسئله‌ی امنیّت. یا «وَ اِذا جاءَهُم اَمرٌ مِنَ الاَمنِ اَوِ الخَوفِ اَذاعوا بِه؛  وَلَو رَدّوهُ اِلَی الرَّسول» تا آخر آیه؛ یعنی اسلام در همه‌ی ابعاد مهمّ زندگی اجتماعی بشر حرف دارد. اینها که عرض کردیم نمونه‌های اندکی است از آنچه در قرآن کریم هست؛ صدها مورد از این قبیل در قرآن مشاهده میکنید.


کسی که اهل قرآن است و با قرآن و احکام قرآن آشنا است، میفهمد که اسلامی که قرآن معرّفی میکند، این است. اسلامی که قرآن معیّن میکند و معرّفی میکند، اسلامی است که در تمام شئون زندگی دخالت دارد، رأی دارد، نظر دارد، مطالبه دارد. خب، این را بایستی دانست و در مقابل افرادی که در این زمینه تلاش میکنند تا این حقیقت روشن را انکار کنند، بایستی پاسخگویی کرد.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 October 21 ، 11:05
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ان (اسلام دشمن سیاسی طاقتوں) کی نظر میں زندگی کے اہم ترین شعبے، اور اجتماعی مناسبتوں میں اسلام کی دخالت کو ممنوع قرار دیا جاۓ، یہ نگاہ ظاہرا فکری ہے لیکن باطنا سیاسی ہے۔ ان کی نظر میں معاشرے کی مدیریت (Management)، تمدن سازی، اور اسلام کی ثقافت و تمدن کی تولید میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام میں یہ ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ کوئی معاشرے کے بارے میں ذمہ داری رکھتا ہو، اور اسلام کے پاس کوئی امکان ہے ہی نہیں اور نا ہی اسلام کو کوئی اس بارے میں کردار (Role Play) کرنا چاہیے۔

اسلام کے پاس معاشرے کی قدرت یا ثروت تقسیم کرنے کا منصوبہ نہیں ہے، معاشرے کا اقتصاد کیسا ہو، دیگر معاشرتی و اجتماعی مسائل کیسے ہوں اور کیسے نہ ہوں ان سب سے اسلام کا کوئی ربط نہیں۔ جنگ کا مسئلہ ہو یا صلح کا، سیاست خارجی ہو یا سیاست داخلی، بین الاقوامی مسائل (International Issues) ہوں، بعض اوقات کہتے ہیں کہ ڈپلومیسی کو نظریاتی مت بناؤ، یعنی کیا مطلب نظریاتی مت کرو؟ یعنی اسلام سے ڈپلومیسی (Diplomacy) کو مربوط مت کرو۔ اسلام کو ڈپلومیسی سے مربوط مت کرو یعنی اسلام کا خارجی سیاست یا خارجہ پالیسی (Foreign Policy) اور بین الاقوامی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ خیر کی اشاعت کے مسئلے، عدالت کے قیام کے مسئلے، شرور سے مقابلے کے مسئلے، ظلم سے مقابلے کے مسئلے، سپر طاقتوں کے شر کے مقابلے کے مسئلے، اور ان سب امور میں اسلام کا کوئی واسطہ نہیں۔ (جبکہ اسلام سب کا سب یہی ہے)۔ انسانی زندگی کے ان اہم ترین شعبوں میں اسلام کو کوئی دخالت حاصل ہے اور نا اسلام کی ان بارے میں راۓ لی جانی چاہیے اور نا ہی عملی طور پر کوئی اسلام سے کوئی رہنمائی لی جانی چاہیے۔ یہ اصرار ہے ان اسلام دشمن طاقتوں کا کہ اسلام کو ان معاملات سے دور کر کے محدود کیا جاۓ۔ اب اس اصرار کی علت کیا ہے؟ اس کا منشأ اور مبدأ کیا ہے؟ اور کہاں سے شروع ہوا یہ کام؟ یہ سب سوال آج کی بحث سے مربوط نہیں ہیں۔ جو آج عرض کرنا چاہتا ہوں اولا یہ کہ یہ سب تحرکات اسلام کی تعلیمات کے متضاد ہیں، زیادہ تر یہ نظریات سیاسی بڑی طاقتوں نے پھیلاۓ ہیں، یہ وہ طاقتیں ہیں جو اس میدان میں فعال ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مطالب مفکر لوگوں کی زبان سے جاری ہوں۔

اسلام کی تعلیمات ان نظریات کو صریح طور پر رد کرتی ہیں اور ہم مسلمانوں کو اس مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دینا ہوگی۔ یہ جو عرض کیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو اسلام کی جامعیت کا حق ادا کرنا ہوگا اور یہ مسئلہ اسلام کے درجہ اول کے مسائل میں سے ہے اس کے پیچھےیہ سب مسائل ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ اسلام اپنے بارے میں اور جن زندگی کے شعبوں کے بارے میں انسانی زندگی کا اہتمام کیے ہوۓ ہے، یا عملی نظام رکھے ہوۓ ہے اس کو تبیین کریں اور تشریح کریں۔ ان تشریحوں اور نظاموں کو معاشروں میں ترویج دیں، بیان کریں ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے۔

اصلی متن

از نظر این گرایشِ باطناً سیاسی و ظاهراً فکری، عرصه‌های مهمّ زندگی و مناسبات اجتماعی از دخالت اسلام باید خارج بشود؛ در مدیریّت جامعه و تمدّن‌سازی، اسلام در مورد تولید تمدّن و ساخت تمدّن بشری نقشی ندارد، وظیفه‌ای ندارد، امکانی ندارد؛ در مدیریّت جامعه نقش ندارد، در تقسیم قدرت و ثروت در جامعه، اسلام نقشی ندارد؛ اقتصاد جامعه، مسائل گوناگون جامعه مربوط به اسلام نیست؛ یا مسئله‌ی جنگ، مسئله‌ی صلح، سیاست داخلی، سیاست خارجی، مسائل بین‌المللی. گاهی می‌شنوید گفته میشود که «دیپلماسی را ایدئولوژیک نکنید»، با ایدئولوژی مربوط [نکنید] یعنی اسلام در مسئله‌ی سیاست خارجی و مسائل بین‌المللی بایستی اظهار نظری نکند؛ در مسئله‌ی اشاعه‌ی خیر، اقامه‌ی عدل، مقابله‌ی با شُرور، مقابله‌ی با ظلم، جلوگیری از اَشرار عالم، در این زمینه‌ها، اسلام کاره‌ای نیست. در این عرصه‌های مهمّ زندگی بشری، اسلام نه مرجع فکری باشد، نه راهنمای عملی باشد؛ این اصراری است که دارند. حالا علّت این اصرار چیست، منشأ آن چیست، از کجا شروع شده، اینها دیگر بحثهای مربوط به صحبت امروز من نیست. آنچه من میخواهم عرض بکنم این است که اوّلاً این حرکتِ در واقع ضدّ اسلامی، عمدتاً از سوی قدرتهای سیاسی بزرگ دنیا است و آنها هستند که در این زمینه فعّالند و تلاش میکنند و سعی هم میشود که از زبان صاحبان فکر بیان بشود.

خب متون اسلامی صریحاً این را رد میکند و ما مسلمانها به این مسئله باید اهمّیّت بدهیم. اینکه عرض میکنم «اداء حق»، در درجه‌ی اوّل این است: تلاش کنیم نظر اسلام را درباره‌ی خودش که به کدام عرصه از عرصه‌های زندگی اهتمام می‌ورزد، در آنها نظر دارد، اقدام دارد، تبیین کنیم، ترویج کنیم، بیان کنیم؛ اوّل‌قدم این است.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 October 21 ، 09:14
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

اسلام کی جامعیت کا حق ادا کرنے کے متعلق ہمیشہ اصرار کیا جاتا رہا اور ابھی بھی کیا جاتا ہے، سیاسی مادہ پرست قدرتوں نے ہمیشہ اصرار کیا کہ اسلام کو انسان کے فردی عمل اور عقیدتی امور میں ہی منحصر کر دیں۔ یہ کوشش بہت پہلے سے کی جاتی رہی اس کی معین تاریخ کو اب مشخص نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کوشش کب سے شروع ہوئی البتہ حدس یہ ہے کہ ایک صدی یا اس سے کچھ سال پہلے یا بعد میں یہ کوششیں تیز کر دی گئیں اور مشاہدہ ہونے لگیں۔ جمہورس اسلامی ایران کی تشکیل کے بعد یہ کوششیں دو برابر ہو گئیں کوشش کی جانے لگی اس انقلاب کو سیاسی شکل نہ دی جاۓ اور کہا جاۓ کہ یہ کام فکری تھا۔ ان فرنگیوں کے بقول اس کو تھیوریائزڈ کرنے کی کوشش کی گئی، مفکرین، لکھاریوں اور فکری فعال افراد کو مامور کیا گیا اس کام پر کہ وہ اس پر لکھیں اور ثابت کریں کہ اسلام کا انسانی زندگی کے اجتماعی مسائل، یا بشریت کے اساسی ترین مسائل سے کوئی ربط نہیں رکھتا بلکہ اسلام ایک قلبی عقیدہ ہے اور بس۔ خدا اور بندے کے درمیان ذاتی (Personal Contact) ارتباط ہے۔ اور سارا کا سارا اسلام اس ارتباط پر ہی مترتب ہوا ہے، اصرار کرتے ہیں کہ اس اسلام کو مخاطبین کے ذہنوں میں ڈالا جاۓ اور اثبات کیا جاۓ۔

 

اصلی متن

در مورد مسئله‌ی اداء حقّ جامعیّت اسلام اصراری وجود داشته است و دارد ــ که عمدتاً‌ هم این اصرار از سوی قدرتهای سیاسی مادّی است ــ بر اینکه اسلام را در عمل فردی و عقیده‌ی قلبی منحصر کنند؛ این تلاش از قدیم بوده است؛ حالا من نمیتوانم یک تاریخ معیّنی را مشخّص کنم که از این زمان شروع شده امّا از حدود صد سال، صد و خرده‌ای [سال] پیش این تلاش در دنیای اسلام به طور برجسته مشاهده میشود. در دوره‌ی تشکیل جمهوری اسلامی این تلاش مضاعف شده است؛ سعی هم میکنند که شکل سیاسی به این [کار] ندهند و شکل فکری بدهند؛ به تعبیر فرنگی تئوریزه کنند این را. به متفکّرین و نویسندگان و فعّالان فکری و مانند اینها مأموریّت داده میشود تا درباره‌اش مطلب بنویسند و اثبات کنند که اسلام به مسائل اجتماعی، مسائل زندگی، مسائل اساسی بشریّت کاری ندارد؛ اسلام یک عقیده‌ی قلبی است، یک ارتباط شخصی است با خدا و عملیّات فردی‌ای است که مترتّب بر این ارتباط است؛ اسلام این است؛ اصرار دارند این را در ذهنهای مخاطبین خودشان اثبات کنند.(۱)

 

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 October 21 ، 18:49
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

ردو ترجمہ

ہم اس پیغمبر (حضرت محمدﷺ) کے پیروکاروں میں سے ہیں، ہم خود کو  ان سے نسبت دیتے ہیں کہ ہم ان کی امت ہیں۔ ان کی امت ہونے سے ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ تاریخ کے ہر دور میں مومنین پر ایک فریضہ یہ بنتا ہے کہ وہ سوچیں کہ کس موقعیت میں آ کھڑے ہیں اور دین کا ان سے اس دور میں کیا مطالبہ بنتا ہے اور اس وقت ان پر کونسی ذمہ داری بنتی ہے۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ انہیں کس چیز پر فکر کرنی چاہیے اور کس امر پر عمل کرنا چاہیے۔ ہر دور کی امت پر یہ دو امر ضروری ہیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے علماء اور دینی روشنفکر حضرات اس امر میں کیا سوچتے ہیں، انہوں نے بہت بحث کی ہے اور بہت سی باتیں کی ہیں۔ میں اس مسئلہ میں ایک مختصر سی عرض آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا ان میں سے ایک نظر امت اسلامی پر ہے اور دوسری نظر ایران اور جمہوری اسلامی کے بارے میں ہے۔

 

وہ نظر جو امت اسلامی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے بارے میں ہے، اس میں دو نکتے قابل توجہ ہیں کہ جس کے بارے میں مختصر سی عرض ہے۔ ایک مسئلہ تو اسلام کی ہمہ جانبی اور جامعیت کا حق ادا کرنا ہے۔ ہم مسلمان کہتے ہیں کہ اسلامی ایک جامع دین ہے اور اسلام کی اس جامعیت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اور دوسرا نکتہ اتحاد مسلمین کا ہے۔ یہ دو مسئلے اس دور کے سب سے اہم ترین مسائل میں سے ہیں البتہ دیگر مسائل بھی متعدد ہیں تاہم یہ دو اہم ترین مسائل میں سے ہیں۔

اصلی متن

 حالا ما پیروان همین پیغمبریم؛ ما خودمان را منتسب به این پیغمبر میدانیم. وظیفه‌ی ما چیست؟ در هر دوره‌ای از دوره‌های زمان وظیفه‌ی مؤمنین این است که ببینند در چه موقعیّتی قرار دارند و دین از آنها چه میخواهد و چه مأموریّتی را بر عهده‌ی آنها میگذارد؛ آنچه باید به آن بیندیشند و آنچه باید به آن عمل کنند؛ این را در هر دوره‌ای باید بفهمند. خب، در این زمینه‌ها علما و روشنفکران دینی بحث زیاد کرده‌اند و حرفها زده‌اند و بحثها کرده‌اند. من در این جلسه یک مختصری در این زمینه‌ها میخواهم عرض بکنم که یک نگاه به امّت اسلامی است، یک نگاه به مجموعه‌ی ایران و جمهوری اسلامی در ایران است.

 

در مورد آنچه مربوط به امّت اسلامی و مربوط به کلّ مسلمانها است، دو نکته باید مورد توجّه قرار بگیرد که درباره‌ی آن مختصری صحبت میکنیم.  یکی مسئله‌ی اداء حقِّ جامعیّت اسلام است ــ اسلام دین جامعی است و باید حقّ این جامعیّت را اداء کرد؛ این یک مسئله است ــ یک مسئله هم مسئله‌ی اتّحاد مسلمین است؛ این دو مسئله جزو مسائل مهمّ روز ما است؛ البتّه مسائل روز، متعدّد داریم که اینها هم جزو مهم‌ترینش است.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 October 21 ، 09:37
عون نقوی