بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

{  دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۴ }

حاکم اسلامی اور ضرورتِ عصمت

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ہمارے پاس نقلی اور عقلی براہین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حق ولایت و حاکمیت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ انسانوں کی سرپرستی اور مدیریت کا حقیقی حقدار وہی ہے جس نے انسان اور جہان کو خلق کیا ہے۔ جو خالق ہے وہی حاکم بھی ہے۔ جو رب ہے اسی کو قانون گذاری کا بھی حق ہے۔ انسانوں میں سے صرف وہی اللہ تعالی کا جانشین ہو سکتا ہے جو مقام علم اور عمل میں عصمت کے درجے پر فائز ہو۔ اس کے علاوہ حکومت میں کوئی بھی انسان اللہ تعالی کا جانشین نہیں ہو سکتا۔

حق حاکمیت در قرآن

قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:

«فَاللهُ هُوَ الْوَلِیُّ».

ترجمہ: پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[1]

اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ اصالتا و بالذات حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ البتہ دیگر آیات میں خود اللہ تعالی نے ہی اپنی ولایت کے جانشین متعارف کرواۓ ہیں۔ تاہم ساتھ ان کی عصمت کی طرف اشارہ بھی کیا اور بیان کیا کہ چونکہ وہ معصوم ہیں اس لیے ان کی حاکمیت اتباع میں اللہ تعالی کی حاکمیت ہے۔ یہ جانشین جو سمجھتے ہیں اور جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب در اصل میں اللہ کا کام ہے۔انہیں آیات میں سے سورہ نساء کی آیت کریمہ ہے جس میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ جو افراد بھی امور مسلمین کے والی قرار دیے گئے ہیں ان کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللهَ‌ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْ‌ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ‌ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ‌ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ».

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔[2]

اس آیت کریمہ کے تین حصے ہیں۔پہلے حصے میں فرمایا:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللهَ‌ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ».

اس میں تین ذوات کا ذکر ہوا ہے جن کی اطاعت کی جانی ہے۔ اللہ تعالی ، رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر۔

آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں فرمایا:

«تَنازَعْتُمْ فی شَیْ‌ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ‌ وَ الرَّسُولِ».

اس حصے میں دو مرجع کی مرجعیت کا ذکر ہوا ہے یعنی اگر نزاع ہو جاۓ جن کی طرف رجوع کرنا ہے وہ دو مرجع ہیں ایک اللہ تعالی اور دوسرے رسول اللہ ﷺہیں۔

آیت کریمہ کے تیسرے حصےمیں فرمایا:

«إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ‌ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ».

اس حصے میں صرف اللہ تعالی اور یوم آخر پر ایمان لانے کےبارے میں ذکر ہوا ہے۔ آیت کریمہ کا مکمل طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ آیت کے پہلے حصے میں جس تثلیث (تین ذوات:اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ، اور اولی الامر)کا ذکر ہوا ، اور دوسرے حصے میں تثنیہ (دو ذوات:اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ)کا ذکر ہوا در حقیقت اس سب کا تعلق توحید در عبادت اور اطاعت سے ہے۔ یعنی ہر اطاعت جو رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر کی ہوگی در اصل اس کی بازگشت اللہ تعالی کی اطاعت کی طرف ہے۔ صرف رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر کی عصمت ہی اس بات کا باعث بن سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے ان دو کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے برابر میں قرار دے۔

اولی الامر کی اطاعت

اس آیت میں جو چیز اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں مطلق طور پر بغیر کسی شرط و قید کے اولی الامر کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ولی امر امت معصوم نہ ہو یا اس کے فعل اور قول میں اشتباہ کا احتمال بھی دیا جا سکتا ہو تب بھی اللہ تعالی اس کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم نہیں دے سکتا،  جس شخص کے علمی یا عملی میدان میں اشتباہ کا احتمال دیا جا سکتا ہو اس کی اطاعت بھی مقید اور مشروط ہو جاتی ہے ، مثلا کہا جاۓ گا کہ ہر صورت میں تو اس کی اطاعت نہ کرو بلکہ اس وقت اطاعت کرو جب اس کی بات فرمان الہی اور خواستہ الہی کے مطابق ہو۔ کیونکہ عقل بھی یہی حکم کرتی ہے اور مشہور حدیث بھی  اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ معصیت کے امر میں کسی کی اطاعت نہیں کر سکتے۔

روایت میں واردہوا ہے:

«لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق».

ترجمہ: جس امر میں خالق کی معصیت ہو اس امر میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔[3][4][5]یہ روایت اہلسنت منابع میں رسول اللہ ﷺ سے اور اہل تشیع میں امیرالمومنینؑ سے وارد ہوئی ہے۔

 ان سب کلمات کو ایک ساتھ ملائیں، یعنی ایک طرف کلام الہی سامنے رکھیں جس میں اللہ تعالی مطلق طور پر اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے، اور دوسری طرف حدیث کہ جس میں کہا جا رہا ہے کہ  مخلوق خدا کا وہ فرمان جو معصیت پر اکساۓ قابل عمل نہیں، ناگزیر ماننا پڑتا ہے کہ وہ شخص کسی بھی صورت میں مطلق طور پر مطاع (جس کی اطاعت کی جاۓ)واقع نہیں ہو سکتا جس کے بارے میں غلط فرمان جاری کرنے کا احتمال بھی دیا جا سکے۔ عدل الہی تقاضا کرتی ہے کہ ایسے فرد کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم دے جس کے اندر خطا کا احتمال نہ ہو اور وہ شخصیت صرف معصوم کی ہو سکتی ہے۔ نبی ﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی عصمت اور ان کی اطاعت کی ایک دلیل یہی ہے۔[6]

منابع:

 

↑1 شوری:۹۔
↑2 نساء: ۵۹۔
↑3 ری شہری، محمد،میزان الحکمہ، ج۱، ص۱۲۷۔
↑4 متقی ہندی، علی بن حسام، کنزل العمال، ج۵، ص۷۹۲۔
↑5 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت ۱۶۵۔
↑6 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:22
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۳}

حاکم اسلامی کون ہے؟

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

قرآن کریم میں انبیاء الہی و رسول اللہ ﷺ کا ایک اہم ترین وظیفہ جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء لوگوں پر حاکمیت کریں۔ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ انبیاءالہی آمروں کی طرح  اپنی مرضی کی حکومت نہیں کرتے بلکہ جو ان کو سکھایا جاتا ہے فقط اس تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوۓ حکومت کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر اسلامی حاکم اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلاتا بلکہ قوانین الہی کے آگے خود وہ بھی سرتسلیم خم ہوتا ہے۔اس لیے حکومت اسلامی کو قانون کی حکومت کہہ سکتے ہیں۔ حاکمیت اسلامی یا ولایت فقیہ یعنی قانون کی حکومت۔

اسلامی حکومت یعنی وحی کی حکومت

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«إِنَّا أَنْزَلْنا إِلَیْکَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِما أَراکَ اللهُ‌».

ترجمہ: (اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں۔[1] 

رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں پر حکومت کریں لیکن اپنے میل اور ارادے کی بنا پر نہیں بلکہ جو آپ پر وحی ہوتی ہے اس کے مطابق حکومت کریں۔کیونکہ اس جہان کا خالق اور مالک اللہ ہے۔تنہا خدا اور رب وہی خدا ہے جو ولی اور حاکم ہے۔ جس نے وحی کے ذریعے تمام انسانوں کی تدبیر اور تربیت کی ہے۔لیکن یہاں پر ایک سوال ہے یہ کتاب حق جو آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے وہ وحی کی صورت میں کیسے رسول اللہ ﷺ تک پہنچے گی؟ وحی کیا ہے اور کیا رسول اللہ ﷺ کی ہر بات حق ہے ؟ ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے۔

وحی کے تین مرحلے

اللہ تعالی نے انسانی معاشروں کی حاکمیت در اصل اپنے دست قدرت میں قرار دی۔ یہ حکومت کیسے قائم ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وحی کے ذریعے۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالی اپنا حکم رسول  تک پہنچاۓ گا اور رسول من و عن اس وحی کو آگے پہنچا دیں گے۔ وحی تین مراحل میں نازل ہوتی ہے۔ ان تینوں  مراحل میں رسول اللہ ﷺ کو معصوم اور مصون قرار دیاگیا ہے۔وحی کے تین مرحلے درج ذیل ہیں۔

۱۔ مرحلہ دریافت وحی

۲۔ مرحلہ ضبط و نگہداری وحی

۳۔ مرحلہ ابلاغ و انشاء وحی

نبی اکرمﷺ وحی کو دریافت کرتے ہیں، اس کو یاد کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں، اوراس وحی کو امانت کے ساتھ درست طریقے سے امت تک پہنچاتے ہیں، ان تینوں مرحلوں میں نبی اکرمﷺ معصوم ہیں غلطی نہیں کر سکتے۔

وحی کا پہلا مرحلہ

پہلے مرحلے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرمایا:

«نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِینُ».

ترجمہ: جسے روح الامین نے اتارا۔[2]

بیان ہوا کہ وحی کا فرشتہ اس وحی کو آپ ؐکے قلب مبارک پر نازل کرتا ہے اور وہ اس کام میں ہرگز غلطی نہیں کرتا۔ وحی میں کمی یا زیادتی نہیں کرتاامانت اور بغیر کسی تبدیلی کے آپ ؐتک پہنچادیتا ہے۔ اور آپ ؐبھی اس وحی میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے امت تک پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:

«وَ إِنَّکَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ عَلِیمٍ».

ترجمہ: اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔[3]

علم لدنی سے مراد وہ علم ہوتا ہے جس کا منبع اور سرچشمہ خدا ہو۔

وحی کا دوسرا مرحلہ

دوسرے مرحلے میں رسول اللہ ﷺ وحی کو جس طرح سے نازل ہوتی ہے اسی طرح سے یاد کر لیتے ہیں اور اس کو محفوظ کر تے ہیں۔اس مرحلے میں بھی اللہ تعالی نے قرآ ن کریم میں رسول اللہ ﷺ کو معصوم قرار دیا ۔ اور بیان ہوا کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ بھی خدا کی طرف سے دریافت کرتے ہیں اپنے قلب کے حرم میں اس کو محفوظ کر لیتے ہیں  اس میں کمی و زیادتی نہیں کرتے۔

«سَنُقْرِئُکَ فَلا تَنْسى».

ترجمہ: (عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔[4]

وحی کا تیسرا مرحلہ

اس مرحلے میں رسول اللہ ﷺ کتبی یا شفہی صورت میں وحی ابلاغ کرتے ہیں۔ آپؐ کلام الہی بولتے جاتے ہیں اور دوسرے اس کو سنتے ہیں یا لکھ لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ذکر ہوتا ہے:

«وَ النَّجْمِ إِذا هَوى. ما ضَلَّ صاحِبُکُمْ وَ ما غَوى. وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْهَوى. إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحى».

ترجمہ: قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب کرے۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔[5]

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَ ما هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنینٍ».

ترجمہ: اور وہ غیب (کی باتیں پہنچانے) میں بخیل نہیں ہے۔[6]

رسول اللہ ﷺ وحی کو پہنچانے میں کتمان نہیں کرتے یعنی جو نازل ہوتا ہے بیان کر دیتے ہیں کچھ بھی چھپاتے نہیں ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا کلام بھی معصوم اور مصون ہے۔

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ راوی نے پوچھا جب ہم آپ کی محضر میں ہوتے ہیں تو جو کچھ بھی دیکھنے یا سننے کو ملے لکھ لیں؟ فرمایا: ہاں! عرض کیا کہ کبھی آپ خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں اور کبھی غضبناک ۔ تو کیا ان حالات میں بھی جو کچھ ہم سنیں یا دیکھیں وہ لکھ لیں؟ فرمایا لکھ لو۔ روایت کے الفاظ ہیں کہ راوی کہتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:

«یا رسول الله أکتب کلما أسمع منک؟ قال : نعم. قلت : فی الرضا والغضب؟ قال : نعم فإنی لاأقول فی ذلک کله إلا الحق».

ترجمہ: یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں جو کچھ بھی آپ کی طرف سے سنتا ہوں وہ لکھ لیا کروں؟ فرمایا: ہاں! میں نے عرض کی رضایت اور غضب  ہر دو حالتوں میں؟ فرمایا: ہاں ! میں جو کچھ بھی  ان حالات میں کہتا ہوں سواۓ حق کے کچھ نہیں ہوتا۔[7]

پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں پر وحی کی حکومت ہو اور انسانی معاشرہ الہی تعلیمات کے مطابق چلے تو لازم ہے کہ ایک ایسا انسان کامل اس کے لیے قرار دیا جاۓ جس کے لیے وحی ممثل ہو۔ وحی اس کے سامنےحاضر ہو۔ وہ انسان کامل جس کا قلب کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتا ، ہرگز گناہ کا خیال تک نہیں کرتا اور یہ انسان سواۓ معصوم کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

حکومت وحی میں سب برابر

حکومت وحی میں ایسا نہیں ہے کہ جس کے پاس معاشرے کی بڑی ذمہ داری ہے تو وہ آزاد ہوگا، جی نہیں! بلکہ اس پر وظائف دیگر افراد سے زیادہ لاگو ہیں۔ اگر عام لوگوں پر اللہ تعالی نے دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنا واجب قرار دیا ہے تو وہیں رسول اللہ ﷺ کے لیے چھ نمازیں قرار دی گئیں۔ جیسا کہ وارد ہوا:

«أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّیْلِ».

ترجمہ:زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو ۔[8]

رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ نماز شب بھی وجوبا ادا کریں۔اگلی آیت میں حکم ہوا:

«وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَکَ عَسى أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقاماً مَحْمُوداً».

ترجمہ: اور رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ بیداری میں گزارو، یہ ایک زائد (عمل) صرف آپ کے لیے ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔[9]

اسی طرح سے سیاسی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اگر عام لوگوں پر جہاد اور طاغوت سے مبارزہ واجب قرار دیا وہیں رسول اللہ ﷺ پر بدرجہ اولی واجب قرا ردیا کہ وہ جہاد کریں۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ اگر کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہ ہو تو تنہا قیام کے وظیفے کو پورا کریں۔

«فَقاتِلْ فی سَبیلِ اللهِ‌ لا‌تُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنینَ».

ترجمہ:(اے رسول) راہ خدا میں قتال کیجیے، آپ پر صرف اپنی ذات کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے اور آپ مومنین کو ترغیب دیں۔[10]

مومنین کو جنگ اور نبرد کے لیے تشویق کا حکم دیا ، اگر مومنین آمادہ نہیں ہوتے تو تنہا اس امر کو انجام دیں۔ رسول اللہ ﷺ کا وظیفہ جہاد اکبر میں بھی عام لوگوں سے زیادہ قرار دیا گیا اور جہاد اصغر میں بھی۔[11]

منابع:

 

↑1 نساء: ۱۰۵۔
↑2 شعراء: ۱۹۳۔
↑3 نمل: ۶۔
↑4 اعلی: ۶۔
↑5 نجم: ۱تا۴۔
↑6 تکویر: ۲۴۔
↑7 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲، ص۱۴۷۔
↑8 اسراء: ۷۸۔
↑9 اسراء: ۷۹۔
↑10 نساء: ۸۴۔
↑11 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۴تا۹۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:19
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ: قسط ۳۲}

تبدیلی لانے کا اسلامی اور غیر اسلامی طریقہ

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ہم نے گزشتہ اقساط میں بیان کیا کہ مغربی جمہوری نظام میں اکثریت  حاکم چنتی ہے۔ اس حاکم کا معیار کیا ہے؟حاکم کیسا ہو اور کیسا نہ ہویہ اہم نہیں ہوتا بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ کس شخص کو زیادہ ووٹ دیے گئے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ پڑیں گے وہی حاکم ہوگا۔ لیکن الہی نظام میں یہ معیار قابل قبول نہیں ہے۔ اکثریت حاکم ہونے کا معیار نہیں ہو سکتی۔ ہاں! ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلامی حاکم کو عوام قبول نہ کرے اور وہ پھر بھی حاکم ہو، بلکہ اسلام جبری حکومت کے خلاف ہے۔ ایک الہی حاکم بھی جبری طور پر اپنی حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی معاشروں کی تدبیر اور تعمیر چاہتا ہے،دراصل معاشرے کی تربیت کرنا مقصود ہے۔ تربیت و تعمیر جبر سے نہیں بلکہ اختیار اور خود عوام کے ارادے سے یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ وگرنہ ایسا ہو سکتا تھا کہ کوئی ایسا حاکم آسمان سے اترتا جو زبردستی سب کو ہی مسلمان،مومن بناتا اور ان کو غیر شرعی کام کرنے ہی نہ دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ خلقت کے ہدف کے ہی خلاف ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالی نے معاشروں کو آزاد بھی نہیں چھوڑا بلکہ اس کی تربیت کے لیے نظام مقرر فرمایا ہے۔ اس نظام میں حاکم کیسا ہوگا؟اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ اسلام میں حاکمیت اور حکومت کا تصور کیا ہے؟

وحی کی حکومت

جب ہم اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کسی شخص یا بشر کی حکومت مراد نہیں ہوتی۔ اسلامی حکومت سے مراد وحی کی حکومت ہے۔ اسلام وحی کی حکومت چاہتا ہے۔ وحی کی حکومت سے مراد اللہ تعالی کی حکومت ہے،جو بشر کے توسط سے قائم ہوگی لیکن ہوگی در اصل اللہ تعالی کی حکومت۔ اسلامی حکومت میں حاکم وحی کے تایع ہے۔ اسلامی حاکم  متبوع نہیں بلکہ خود بھی تابع ہوتا ہے۔ کس کے تابع؟وحی کے تابع محض۔ در اصل اس کی مرضی اور حکومت نہیں چلنی بلکہ وحی کی حکومت کارفرما ہے۔ ہمیں یہاں پر وحی پر متمرکز ہونا ہوگا،کیونکہ اسلامی حکومت کو وحی کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ خود وحی صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ مختص ہے،اس لیے وحی کو سمجھنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات اہم ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور حاکمیت اسلامی

رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں ۔ ان کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ وحی کی حکومت کو جاننے کے لیے اس شخصیت کا جاننا ضروری ہے جس پر وحی نازل ہوئی اور جس نے وحی کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ رسول اللہ ﷺ نے قبل از بعثت جو زندگی گزاری سب کو اپنے کردار اور گفتار سے متاثر کیا۔ اعلان نبوت کے بعد مکی زندگی کے تیرا سال بہت مشقت سے گزارے۔مشرکین مکہ آپؐ کے جانی دشمن بن گئے۔[1]مکہ میں  ان کی توہین [2]اور شخصیت کشی کی جاتی،مذاق اڑایا جاتا[3][4]، بچوں کو آپ کو تنگ کرنے کے لیے پیچھے لگایا جاتا، طعنےتشنیع[5]، دیوانہ ،مجنون [6]،جادوگر [7]اور شاعر[8]کہہ کر معاشرے میں آپؐ کی تحقیر اور تکذیب کرنے کی کوشش کی جاتی۔[9][10]جاسوسی، سازشیں [11]،جھوٹے پروپیگنڈے[12]اور قتل کی دھمکیاں[13][14][15][16]دی جاتی تھیں۔ قرآن کریم میں بہت سے موارد میں وارد ہوا ہے جس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی اور فرمایا کہ یہ نبی مجنون اور شاعر وغیرہ نہیں ہیں بلکہ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں وہ کلام میں اللہ کا کلام ہے۔[17]

شعب ابی طالب کی سختیاں

جب مشرکین مکہ آپ کی دلیلیں سن کر عاجز اور آپ کو ڈرا دھمکا کر چپ کرانے میں عاجز ہو گئے تو سب قبائل نے متفقہ طور پر آپ اور آپ کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب بھیج دیا۔ سارے معاشرے نے ایک طرح سے بائیکاٹ کر دیا اور سب کو کہہ دیا گیا کہ ان کے ساتھ کوئی بھی معاشرت اور آنا جانا نہیں رکھے گا۔ یہ وہ جگہ تھی جہأں سر چھپانے کو جگہ اور کھانے پینے کے لیے کچھ میسر نہ تھا، اس بیابان میں تین سال گزارے۔جب یہ تین سالہ دور گزرا اور واپس ہوۓ تو ہجرت کا حکم آ گیا۔

رسول اللہ ﷺ ہجرت کے بعد

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک نبی جسے معاشرے نے رد کر دیا، اس کے ساتھیوں کو قتل اور قید کیاگیا ہو، جب اپنے ہی وطن سے اس کو ساتھیوں سمیت نکال دیا گیا تو اس نے ہجرت کے بعد کیا کیا ہوگا؟ اگر آج کی سوچ رکھنے والے ہم جیسے افراد وہاں ہوتے تو کیا کرتے؟مثلا ہم فرض کرتے ہیں، ہم نے اپنے ہی علاقے میں ایک اصلاحی تحریک شروع کی ہے، اکثریت نے ہمیں رد کر دیا، ساتھیوں کو زد و کوب کیا خود ہمارا پہلے بائیکاٹ کیا اور بعد میں ہجرت پر مجبور کر دیا، ان حالات میں ہم بنا کسی تیاری کے اپنے ساتھیوں کو کسی اور جگہ بھیج دیتے ہیں اور خود بھی بغیر کوئی زیادہ اہتمام کیے ہجرت  کر جاتے ہیں، اگر ہم ہوں تو اپنا اور اپنے لٹے پٹے ساتھیوں کے لیے سب سے پہلے ہم کیا کریں گے؟سب سے پہلے مثلا اپنے ساتھیوں کے رفاہی مسائل حل کریں گے،کوئی لنگر خانہ کھولیں گے یا ان میں سے کوئی بیمار ہے تو ان کے لیے ہسپتال بنوائیں گے، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی ادارہ بنائیں گے، یا جن کی شادیاں نہیں ہوئیں ان کی شادیاں کروائیں گے۔ آج جب کوئی تحریک یا اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے یہ باتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے کیا کیا؟سب سے پہلے ریاست تشکیل دی۔انہوں نے حکومت تشکیل دی اور دوسرا کام جو فوری طور پر انجام دیا وہ مسجد بنائی۔

حکومت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں

جب تک حکومت آپ کے پاس نہیں ہے، آپ اجتماعی طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔معاشرے کی اصلاح کی یہ روشیں ہمیں سیرت رسول اللہ ﷺ سے سیکھنی چاہئیں۔ آج اگر کوئی معاشرے میں واقعی تبدیلی یا مخلوق خدا کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہسپتال بنوا دیں، روڈیں بنوا دیں؟تعلیمی ادارے بنوادیں؟ یا اپنے بندے بڑی بڑی پوسٹوں پر لگوادیں؟کیا کریں کہ ہم بھی مضبوط ہو جائیں اور معاشرے کو بھی تبدیل کر سکیں؟ یہ سب کام جو ہم نے بیان کیے ہیں ان سب سے آپ ایک حد تک تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن معاشرہ اس سے نہیں بدل سکتا۔ لیکن اگر آپ حکومت بناتے ہیں تو سب کچھ آ جاۓ گا،رفاہ بھی آ جاۓ گا، ادارے بھی بن جائیں گے اور باقی سب بھی درست سمت میں حرکت کرے گا۔یہی مدینہ کی سرزمین پر بھی ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اس سرزمین پر اللہ تعالی نے اپنی برکات کا نزول فرمایا۔ ان کی بھوک کو ختم کیا اور رزق نازل کیا۔

تبلیغی جماعت اور تشیع میں فرق

ایک اصلاحی تفکر وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اس تفکر کے مطابق اگر آپ معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو عوام میں رفاہ لے آئیں، ہسپتال، روڈیں، یونیورسٹیاں، اور فیکٹریاں لگا دیں۔ جب عوام کا رفاہ ٹھیک ہو جاۓ گا سب مسائل درست ہو جائیں گے۔ دوسرا تفکر تبلیغی جماعت والوں کا ہے۔ صوفیاء بھی اسی منہج کے قائل ہیں ان کے بقول افراد میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں، جامع اسلام نہیں بلکہ محدود اسلام جس میں صرف عبادات اور اخلاقیات ہیں اور بس۔ تبلیغی جماعت کے مطابق ہمیں گھر گھر اور ہر مسجد میں جا کر مسلمانوں کو نماز پڑھوانے پر آمادہ کرنا چاہیے،ظاہری طور پر ان کو داڑھی رکھوادینے پر تیار کرنا چاہیے۔سب لوگ اسی طرح سے مومن بن جائیں گے۔اور معاشرہ سدھر جاۓ گا۔  تشیع ان محدود تفکرات سے مبراء ہے۔ مکتب تشیع رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ بغیر اسلامی حکومت کی تشکیل کے آپ معاشرے میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ خود امام زمانؑ اگر آج تشریف لے آئیں تو کیا کریں گے؟ وہ بھی حکومت تشکیل دیں گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حکومت تشکیل دی۔[18]

منابع:

↑1 بقرہ: ۲۰۴۔
↑2 توبہ:۶۱۔
↑3 انبیاء:۳۶۔
↑4 توبہ:۶۴۔
↑5 توبہ:۵۸۔
↑6 حجر:۶۔
↑7 زخرف:۳۰۔
↑8 صافات: ۳۶۔
↑9 مومنون:۸۔
↑10 مجادلہ:۸۔
↑11 نساء:۸۱۔
↑12 مائدہ:۴۱۔
↑13 توبہ:۴۸۔
↑14 طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۰۔
↑15 توبہ:۷۴۔
↑16 طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۹۔
↑17 نجم:۴۔
↑18 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۲۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:15
عون نقوی

پہلی فصل میں ہم نے جانا کہ انسان  کو اللہ تعالی نے محدود آزادی عطا کی ہے۔ آزادی کی حد بندی کے لیے اللہ تعالی نے اس کے لیے شریعت  قانون کی شکل میں نازل کی ہے۔ شریعت اور قانون کے نفاذ کے لیےانسان کو حکومت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی نے قانون کا انتظام فرمایا ہے حکومت کی ضرورت کو بھی اللہ تعالی نے پورا فرمایا ہے۔ پہلی فصل در اصل دوسری فصل کا مقدمہ ہے۔  دین ایک جامع نظام ہے جس میں حکومت اور  سیاست کے مسائل موجود ہیں۔ دین وعظ و نصیحت اور محض انفرادی مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ سیاسی اور اجتماعی احکام بھی بیان کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے پیغمبروں کو مبعوث کرنے کا ہدف اس طرح سے بیان کیا ہے:

کانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فیمَا اخْتَلَفُوا فیهِ.

 لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔(۱)

اس آیت کریمہ کے مطابق انبیاء کرام  اس لیے مبعوث ہوۓ کہ وہ معاشرے میں اختلاف کو ختم کریں۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ ایک انسان کب فیصلہ یا حکم کرتا ہے؟ ظاہر ہے انسان صرف وعظ و نصیحت سے فیصلہ نہیں کر سکتا بلکہ جب اس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو تو تب فیصلہ کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی اس آیت میں یہ نہیں فرماتا کہ رسول تبشیر اور انذار سے اختلاف کو دور کریں بلکہ فرمایا بوسیلہ ’’حکم‘‘ اختلافات کو ختم کریں۔ کیونکہ اختلافات کو بغیر حکم او ر حکومت کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانوں کا آپس میں اختلاف کرنا طبیعی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اختلاف کرنا ہمیشہ مذموم ہو بلکہ صرف وہ اختلاف مذموم قرار دیا گیا ہے جو علم آ جانے کے بعد ہو۔ پس انسانوں میں اختلاف ہونا ہی ہے لیکن اس  اختلاف کو ختم کرنے کے لیے کیا کریں؟ اس کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر صاحب شریعت نبی کا کام یہی ہے ۔ تعلیم و تبشیر کرے، لوگوں کو انذار کرے اور ان کے اختلاف کو ختم کرے۔ صرف قانون لانا کافی نہیں مثلا اگر کوئی نبی شریعت لے آتا ہے اور اس کو نافذ نہیں کرتا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس  قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو صرف کاغذوں میں لکھ دیا جاۓ اور اس کا نفاذ نہ ہو۔ یہ بات واضحات میں سے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضحات میں سے ہے کہ قانون اور شریعت کے ساتھ ساتھ حکومت اور قوت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت نہ ہوئی تو قانون اور شریعت کا اجراء نا ممکن ہو کر رہ جاۓ گا۔

حکومت سے مراد

حکومت سے مراد عموما تین شعبے ہوتے ہیں۔

۱۔ قوہ مقننہ( جو قانون بناتی ہے)

۲۔ قوہ قضائیہ(جو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دیتی ہے)

۳۔ قوہ مجریہ(جو قانون کا اجراء کرتی ہے)

بعض اوقات صرف قوہ مجریہ کو حکومت کہہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر قوت سے قانون کو نافذ کر کے اختلاف کو ختم نہ کیا جاۓ تو معاشرے میں فساد بڑھتا جاتا ہے۔ قانون کا صرف ہونا کافی نہیں ، کسی کاغذ پر قانون کا لکھ دیا جانا،قرآن یا روایت میں قانون کا آجانا کافی نہیں بلکہ اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حقیقی حاکم ہے اس نے احکام جاری کر دیے ہیں لیکن اب سوال پیدا ہوگا کہ ان کا اجراء کس نے کرنا ہے؟ حکومت کس کے پاس ہو؟

حکومت کی ضرورت

دین کے مطابق قانون بنانے کا حق، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کی سزا کی تعیین، اللہ تعالی کا  حق ہے۔ لیکن قانون کا اجراء  کون کرے؟ ظاہر ہے اس کےلیے ایک ایسا شخص ہو جو اللہ تعالی کے قوانین کو جاری کرے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دے۔  خوارج کا نظریہ یہ تھا کہ حاکم صرف اللہ ہے اور امیر بھی صرف اللہ تعالی ہےیعنی وہ کہتے تھے کہ جب حکومت صرف اللہ کی ہے تو اسی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ آۓ اور زمین پر اپنی مخلوقات پر اپنے قوانین کو نافذ کرے۔اس کے علاوہ اور کسی کو حکومت کرنے کا حق نہیں ، کوئی بھی قوانین الہی کو نافذ نہیں کر سکتا، نا تو امیرالمومنینؑ اور نا ہی معاویہ۔ امیرالمومنینؑ نے ان کا شعار سن کر فرمایا :

کَلِمَهُ حَقٍّ یُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ نَعَمْ إِنَّهُ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ لَکِنَّ هَؤُلاَءِ یَقُولُونَ لاَ إِمْرَهَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ إِنَّهُ لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ.

یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں ، وہ غلط ہے۔ ہاں بیشک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کے لیے حاکم کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہوا یا برا۔(۲)

ہمارے پاس صرف دو انتخاب ہیں۔ عادل حاکم یا فاجر حاکم۔ تیسرا انتخاب سب سے بدترین ہے۔ یعنی ہم کہیں عادل حاکم ہو نا فاسق حاکم۔ جو انتخاب خوارج نے کیا وہ سب سے بد تر ین ہے۔ حاکم کے بغیر ایک معاشرے کا ہونااس سے بھی بدترین ہے کہ حاکم فاس ہو۔ فاسق حاکم کم از کم خود فساد میں مبتلا ہوتا ہے لیکن معاشرے کا نظم و نسق پھر بھی چلاتا ہے۔ لیکن اگر یہی فاسق حاکم بھی نہ ہو ہر گلی کوچے میں جرم و جنایت ہوگی۔ اس کی مثال آپ ہر اس معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ہم مقتدر حکومت نہیں دیکھتے۔ یا ایک حکومت جب گرتی ہے دوسری حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک معاشرہ سخت ترین حالات سے گزرتا ہے۔ مثلا عراق میں جس دور میں صدام کی حکومت گری، اور امریکیوں نے جب تک مکمل طور پر چارج نہ سنبھالا تھا بد ترین جرائم عراق میں وقوع پذیر ہوۓ۔ اتنے نقصان خود جنگ اور صدام کی غارتگریوں سے نہ ہوۓ جتنے ان ایام میں ہوۓ۔در نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ حکومت کا ہونا ضروری ہے اب سوال پیدا ہوگا کہ حکومت کونسی ہو؟ حکومت اسلامی ہویا غیر اسلامی؟ اس سوال کا جواب اگلی قسط میں بیان ہوگا۔(۳)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۴۰۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۳تا۷۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 March 22 ، 19:29
عون نقوی

اسلام دینِ کامل اور خاتم

بیان ہوا کہ اسلامی مفکرین نے اسلام کی جامعیت کے بارے میں تین نظریات بیان کیے ہیں۔ پہلے نظریے کے مطابق اسلام انفرادی زندگی کی بہتری کے لیے ہے۔ عبادات، اخلاقیات اور چند احکام کا مجموعہ ہے۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کے اندر فقط انفرادی زندگی کے پہلو بیان نہیں ہوۓ بلکہ اجتماعی پہلوؤں پر بھی اسلام نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے لیکن اس کی تشریحات وارد نہیں ہوئیں لہذا مسلمان جس اجتماعی شکل کو مناسب سمجھیں اس کو اختیار کر سکتے ہیں۔ تیسرا نظریہ یہ تھا کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی  ہردو پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے اور جزئیات سے اس کی شرح بھی بیان کی ہے۔مؤلف نے تیسرا نظریہ اختیار کیا ہے اور اس کی دلیل میں بیان کیا کہ دین اسلام ایک جامع ،کامل اور دین  ِخاتم ہے۔ اور جو دین خاتم ہو  اس کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے کچھ چیزیں تو بیان کی ہیں اور بعض کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر اسلام کو کامل اور خاتم مانتے ہیں تو اس کو عملی طور پر بھی کامل اور خاتم ماننا ضروری ہوگا صرف لسانی طور پر اس بات کا اقرار کر لینا کہ اسلام دین خاتم  ہے کافی نہیں۔

حق اور عدالت

دینِ اسلام نے دو چیز کو اصل قرار دیا ہے۔

۱۔ حق

۲۔ عدالت

اسلام معاشروں میں حق کو دیکھنا چاہتا ہے اور عدالت قائم کرنا چاہتا ہے۔ مکتب تشیع  معاشرے میں حق کے نفاذ اور عدالت کی برقراری کے لیے نظریہ امامت کا قائل ہے۔ نظریہ امامت کو صرف کلامی اور اعتقادی مسئلہ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اسلام کا سیاسی تفکر امامت ہے۔ وہ شخص جو امامت کا قائل ہے وہ کیسے اجتماعی پہلوؤں پر اسلام کے عمل دخل کا انکار کر سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص امامت کا قائل ہے وہ کیسے اسلام کی جامعیت کا انکار کر سکتا ہے؟ شیعہ سنی کا بنیادی اور اساسی ترین اختلاف ہی سیاسی اختلاف ہے۔ مکتب تشیع بعد از رسول اللہﷺ امام علیؑ کو اپنا حاکم مانتے ہیں۔ اور مکتب تسنن خلفاء کو اپنا حاکم مانتے ہیں۔ یہاں پر مراد ظاہری حاکمیت ہے کیونکہ امام علیؑ کی معنوی امامت کے تو سنی صوفیاء کرام بھی قائل ہیں۔ لہذا اسلامی مکاتب فکر جس مسئلے پر دو حصوں میں تقسیم ہو رہے ہیں وہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ امام حسینؑ ایک سیاسی مسئلے پر شہید ہوۓ۔ امام حسینؑ کا  مؤقف یہ تھا کہ امت پر بعد حق امامت اور حق حاکمیت مجھ امام معصوم کو حاصل ہے۔ کوئی فاسق فاجر انسان امت اسلامی کا حکمران نہیں ہو سکتا۔ امت اسلامی پر صرف الہی حاکم ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ بقیہ آئمہ معصومینؑ کی حیات مبارکہ کو بھی دیکھا جاۓ تو یہی مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے۔ تشیع کی پوری تاریخ خون میں ڈوبی ہے ، شیعہ ہمیشہ شکنجوں میں رہا، پہلے بنو امیہ اور پھر بنو عباس اور بعد میں آنے والے ادوار میں تقیہ میں رہا۔ اس کے پیچھے وجہ صرف شیعہ کا سیاسی تفکر تھا۔ یعنی شیعہ اور تشیع کی بقاء اس کے نظریہ امامت پر ہے۔ ہر دور کی حکومت اس سے ڈرتی ہے ،کیوں؟ کیونکہ شیعہ غیر الہی نظام حکومت کو نا صرف قبول نہیں کرتا بلکہ حکومتِ عدل قائم کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔

عبادات کے اجتماعی پہلو

عموما سمجھا جاتا ہے کہ عبادات صرف انفرادی پہلو رکھتی ہیں اور انسان کی انفرادی زندگی سے مربوط ہیں۔ قرآن کریم  کے مطابق یہ بات درست نہیں۔ عبادات ایک جہت سے انفرادی ہو سکتی ہیں لیکن اس کے اجتماعی پہلو بھی موجود ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا قرآن کریم میں وارد ہوا ہے :

أقیموا الصلوۃ.(۱کتب علیکم الصیام.(۲)، نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کیا گیا کہ نماز پڑھو بلکہ حکم ہوا ہے کہ نماز قائم کریں، اس سے جماعت  کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ اسلام ایک عبادت (نماز ) کے ذریعے مسلمانوں کو پانچ مرتبہ ایک جگہ پر جمع ہوتا دیکھناچاہتا ہے۔ نماز جماعت کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ مسجد کا ہمسایہ گھر میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔(۳)  اسی طرح سے نماز جمعہ کا حکم ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ پوری آبادی کے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہوں، عید فطر اور عید قربان کے اجتماعات بھی نماز کے اجتماعی پہلو کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ حج کی عبادت کو دیکھ لیں جس کے اجتماعی پہلو کو بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا سے مسلمان مختلف ممالک سے ایک جگہ پر، ایک لباس اور ایک طرف رخ کر کے ایک مرکز خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ اور بیت العتیق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ہر پلیدگی، غیر خدا اور مشرکین سے اعلام برأت کرتے ہیں یہ سب عبادات اسلام کے اجتماعی پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

اخلاقیات کے اجتماعی پہلو

عبادات کے علاوہ اسلام میں چند اخلاقیات بھی وارد ہوۓ ہیں۔ قرآن کریم میں وار دہوا ہے:

لا یسخر قوم من قوم.(۴)

ایک قوم کا دوسری قوم کو مسخرہ کرنا بہت قبیح عمل ہے۔ مومنین آپس میں بھائی ہیں۔اسلام نے عمومی طور پر مسلمانوں کو آپس میں الفت اور محبت کا درس دیا ہے۔ قبائل پرستی، قوم پرستی اور سرحدوں کی تقسیم سے بالاتر ہو کر مسلمان آپس میں اخوت اور برادری سے رہیں۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں  بھی  اس شے کو بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ پٹھا ن  ہے تو پنجابی کا مذاق اڑا رہا ہے اور کوئی سندھی ہے تو بلوچ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر وارد ہوا ہے:

لا یغتب بعضکم بعضا.(۵)

دین اسلام نے غیبت کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ وارد ہوا ہے کہ جو شخص غیبت کرتا ہے گویا اس نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہے۔ غیبت ایک فردی عمل نہیں ہے بلکہ معاشرے میں ایک شخص کو بےآبرو کرنا ہے جو قبیح عمل ہے اور بدترین بد اخلاقی ہے۔

اقتصادی اور حقوقی امور

دین اسلام نے مسلمین پر فرض قرار دیا ہے کہ معاشرے میں موجود مساکین اور فقراء کا خیال رکھیں، صدقہ، خیرات، زکات اور خمس کو ضروری قرار دیا۔ اموال کو جمع کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور حکم دیا ہے کہ معاشرے میں موجود وہ افراد جو اقتصادی طور پر مضبوط ہیں ، اپنے اموال کا ایک حصہ ان لوگوں پر خرچ کریں جو فقر میں مبتلا ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

ءاتوا الزکوۃ.(۶)

زکات کو اللہ تعالی نے واجب قرار دیاتاکہ معاشرے میں اموال گردش میں رہیں، اورفقر ختم ہو۔جرائم کے خاتمے کے لیے حدود اور تعزیرات مقرر فرماۓ۔ وارد ہوا ہے:

السارق و السارقة فاقطعوا ایدیهما.(۷)

زانی اور زانیہ کے بارے میں حکم دیا:

الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منها مأة جلدة.(۸)

اسلام نے باقاعدہ قانون گذاری کی ہے اور معاشرے سے جرائم کے خاتمہ کے لیے احکام جاری کیے ہیں۔

دفاعی احکام

اسلام  نے کفار کے مقابلے میں قوت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔وارد ہوا ہے:

و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة.(۹)

یعنی اگر ٹینک بنا سکتے ہو تو ٹینک بناؤ، میزائل بنا سکتے ہو تو وہ بناؤ، دشمن کے خلاف نرم گوشہ اختیار نہیں کرنا۔ اسلام ابتدا میں جنگ کا قائل نہیں بلکہ حکم دیتا ہے کہ پہلے مرحلے میں صلح اور امن برقرار رکھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اگر کافر بھی ہے تب بھی اس کی جان محترم ہے۔ لیکن اگر کافر جنگ پر تل جاۓ اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے اس صورت میں شدت دکھانے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

یا ایها الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدو فیکم غلظة.

اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں۔(۱۰)

یہ احکام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام اپنی حاکمیت چاہتا ہے اور پہلا اور دوسرا نظریہ درست نہیں جو کہتا ہے کہ اسلام نے کہا ہے تم آزاد ہو جو چاہو اجتماعی امور میں انجام دو، اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم میں یہ آیات کس لیے نازل ہوئی ہیں؟

معاشرے کی جمعی روح

معاشرہ اصالت رکھتا ہے یا فرد؟ یا ہر دو اصیل ہیں؟ اگر معاشرے کا مفاد فرد کے مفاد سے ٹکرا رہا ہو تو کس کو مقدم کیا جاۓ گا؟ یہ بحث عمرانیات کی پیچیدہ ترین ابحاث میں سے ہے۔ جس میں اسلامی مفکرین اور مغربی مفکرین کا شدید اختلاف ہے، حتی خود اسلامی مفکرین نے بھی اس میں مختلف نظریات بیان کیے ہیں۔ معاشرہ جب بنتا ہے تو ایک جمعی روح بنتا ہے جس کے لیے دین اسلام نے خصوصی طور پر احکام بیان کیے ہیں۔ ایک انسان کا فردی روح ہے اور ایک پورے اجتماع یا معاشرے کا روح ہے جسے ہم جمعی روح کہہ سکتے ہیں۔ مؤلف فرماتے ہیں کہ اسلام  اس بات کا قائل ہے کہ اگر فرد کی مصلحت اور معاشرے کی مصلحت آپس میں ٹکرا جائیں تو معاشرے کی مصلحت کو مقدم کیا جاۓ گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان معاشرے پر جنگ مسلط ہو جاۓ ،جنگ میں اس معاشرے کو انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ بچا سکے گی۔ کیونکہ اگر سب نے انفرادی طو رپر اپنا اپنا سوچااور کوئی بھی جنگ پر دفاع کے لیے قربانی دینے نہ گیا تو کوئی بھی نہ بچے گا لیکن اگر ان میں سے بعض نے اجتماعی  سوچااور قربانی دی تو یہ معاشرہ بچ جاۓ گا۔مسلمانوں کے دفاع کے لیے اگر کسی علاقے کے لوگوں کو وہاں سے زبردستی نکلوانا پڑے تو یہاں پر انفرادی نہیں سوچا جاۓ گا کہ اس بستی کے لوگوں کا کیا بنے گا یا وہاں سے کوئی ایک شخص کہے کہ میں تو اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤنگا۔ یہاں پر اس شخص کی بات نہیں سنی جاۓ گی بلکہ زبردستی اس کو  وہاں سے نکالا جاۓ گا اور پورے معاشرے کا سوچا جاۓ گا۔

خود رسول اللہ ﷺ نے  ایک جنگ میں کسی شخص کی زرعی زمین سے اسلامی لشکر گزارنا چاہا۔ لیکن مالک نے اجازت نہ دی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور اسے سمجھایا کہ اگر یہاں سے لشکر نہ گزرا تو بہت نقصان ہوگا، ہمیں اپنی زمین میں سے گزرنے دو لیکن وہ پھر بھی نہ مانا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ لشکر کو وہاں سے گزاردیں۔ یہا ں پر کسی کی انفرادی زندگی متاثر ہوتی ہے تو ہو جاۓ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر ایک شخص کی وجہ سے پورا معاشرہ  نقصان میں جا رہا ہو تو وہاں پر اس ایک شخص کو نقصان میں ڈال کر معاشرے کو بچایا جاۓ گا۔ اس لیے بہت آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے ، اسلام نے باقاعدہ  اجتماعی احکام بیان کیے ہیں۔

انفرادی سوچ کی مذمت

ہمارے یہاں ایک بنیادی ترین مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اجتماعی سوچ نہیں رکھتے ، کوئی بھی معاشرے کا نہیں سوچتا، اجتماعی بھلے کا کوئی بھی خیال نہیں رکھتا۔ جو انفرادی طور پر اپنا کام نکال لے اس کو کامیاب سمجھا جاتا ہے چاہے اس کے اس منفی کام سے پورے معاشرے کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ مثا ل کے طور پر اگر کوئی شخص خالصتا دین کے احیاء کے لیے کام کرتا ہے اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے یا اسے کہا جاتا ہے کہ تم سے کام نکلوایا جا رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسے لے کر کام کرتا ہے اسے بہت کاردان سمجھتے ہیں۔ معاشروں میں جب تک انفرادی سوچ ختم نہیں ہو جاتی وہاں نیکیاں جنم نہیں لیتیں۔ اس لیے اسلام نے ایثار اور صبر کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے اگر گھر میں کوئی بھی قربانی نہ دے اور دوسرے کی تند زبانی پر صبر نہ کرے یہ گھرانہ ٹوٹ جاۓ گا بالآخر کسی کو صبر اور ایثار سے کام لینا ہوگا، اگر اپنی ذات کا سوچا تو گھر ٹوٹ جاۓ گا۔ اگر گھر بچ جاۓ اور اس فرد کو طعنہ سننا پڑتا ہے تو یہ کامیابی ہے، اگر دین کے لیے خالصتا کام کرنے سے آپ کا ذاتی نقصان ہوتا ہے لیکن دین زندہ ہوتا ہے یہ کامیابی ہے۔

نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک کامل دین ہے جس میں انفرادی پہلو موجود ہیں۔ میاں بیوی کے مسائل، نکاح طلاق، عبادات، اخلاقیات، حتی بیت الخلاء جیسے انسان کے نفرادی ترین مسائل کے بارے میں اسلام میں احکام وارد ہوۓ۔  ناخن کاٹنا، زیر ناف بالوں کی صفائی یا ایسی بیماریاں جن کے متعلق انسان ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہوۓ شرم محسوس کرتا ہے ان کے بارے میں بھی اسلام نے حکم بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی اجتماعی زندگی کے پہلو ؤں کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دراصل یہ کہنا سراسر زیادتی ہوگی کہ اسلام نے انسان کی انفرادی ترین زندگی کے مسئلے (بیت الخلا ء میں جانے کے احکام)پر تو اپنی نظر بیان کی ہے لیکن اجتماعی پہلوؤں پر کوئی نظر بیان نہیں کی۔ در اصل یہ بات کرنا اسلام کی درست طور پر شناخت نہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔(۱۱)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ بقرہ:۴۳۔

۲۔ بقرہ:۱۸۳۔

۳۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۸۰، ص۳۷۹۔

۴۔ حجرات:۱۱۔

۵۔ حجرات: ۱۲۔

۶۔ توبہ:۵۔

۷۔ مائدہ:۳۸۔

۸۔ نور: ۲۔

۹۔ انفال:۶۰۔

۱۰۔توبہ:۱۲۳۔

۱۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت،ص۶۶تا۶۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 February 22 ، 17:35
عون نقوی