بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

حضرت آیت اللہ العظمی بہجتؒ

امریکہ اور برطانیہ روۓ زمین پر سب سے بڑی خباثت ہیں۔(۱)

 


 

حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ بہجت۔

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 February 22 ، 13:59
عون نقوی

صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ

عارف وہ ہے جو خدا کی عبادت اس سے پیار اور محبت کی وجہ سے کرتا ہے نہ ثواب اور عذاب کے ڈر سے۔ اس لیے عرفان کو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ عرفان عبادت کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسا طریقہ جو ظواہر دینی اور تفکر عقلی کی بجاۓ حقیقت کو درک کرتا ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ طباطبائی، محمد حسین، شیعہ در اسلام، ص۱۰۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 22 ، 08:40
عون نقوی

دین اسلام مکمل ضابطہ حیات

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر دو پہلوؤں پر اسلام نے اپنی نظر بیان کی ہے۔ اجتماعی زندگی کے بہت سے شعبے ہیں۔ تعلیم، دفاع، حکومت اور عدالت یہ سب شعبہ جات انسان کی اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم جان چکے ہیں کہ انسان اجتماعی زندگی گزارتا ہے اس لیے ممکن نہیں کہ ان شعبہ جات سے انسان کی زندگی متاثر نہ ہو۔ اگر انسان کا وجود ہے تو یہ سب بھی ہیں، چاہے انسان ان سے تعلق رکھے یا نہ رکھے بہرحال ان سب پہلوؤں سے انسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ان سب پہلوؤں کو مد نظر رکھتا ہے یا نہیں؟یا ایسے مسائل اور شعبہ جات جو پہلے نہیں تھے اور آج اہمیت کے حامل ہیں ،ان سب امور میں اسلام کی کیا نظر ہے؟ اس کے بارے میں اسلامی مفکرین کے تین نظریات ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تین نظریات اسلامی مفکرین کے ہیں۔

پہلا نظریہ

علماء اسلام کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ دین اسلام فقط عبادات، اخلاقیات اور چند احکام کا نام ہے۔ دین اسلام ایک انسان سے بس اتنا چاہتا ہے کہ نمازیں اور روزے رکھے، اخلاق کا خیال رکھے اور چند شرعی احکام پر عمل کرےیہ بہترین انسان اور مسلمان ہے۔ دین اسلام اجتماعی زندگی کے بارے میں کوئی نظر نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی میں انسان کو آزاد رکھا ہے کہ وہ عدالتی نظام، سیاسی نظام، دفاعی نظام اور دیگر نظاموں میں جس طرح سے بھی اجتماعی زندگی گزارتا ہے ، آزاد ہے۔ با الفاظ دیگراسلام فردی دین ہے اجتماعی دین نہیں ہے۔اس نظریہ کے بارے میں اگر مختصر تبصرہ کرنا چاہیں تو اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظریہ مغربی مفکرین نے پھیلایا، مغرب میں دین مسیحیت  کی بگڑی ہوئی شکل کے بدترین استبداد کے بعد جب دین کو اجتماعی زندگی سے دور کر دیا گیا ، یہی سوچ مسلمان معاشروں میں بھی سرایت کر گئی ۔ اور آج کے دور میں ہمارے نادان دوستان بھی اسی نظرے کے قائل نظر آتے ہیں اور یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ ہمیں کسی کے انفرادی عمل یا دین سے کیا تعلق؟ بے شک اگر کوئی حکمران فاسق اور فاجر ہو کہتے ہیں کہ وہ انفرادی طور پرجو عمل کرتا ہے وہ اس کا اپنا ایمان اور عمل ہے اس سے ہمیں کیا ؟ ہمیں تو صرف اس سے اپنا مفاد پورا کرنا ہے کسی کی ذاتی زندگی سے ہمارا کیا تعلق؟ 

دوسرا نظریہ

دوسرے نظریہ کے قائل علماء کے مطابق اسلام فقط انفرادی دین نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی زندگی کے امور بھی ذکر ہوۓ ہیں۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کے پہلوؤں پر اجمالی طور پر اپنی نظر بیان کی ہے لیکن اس کی تفصیل بیان نہیں کی۔ اسلام سیاست کے بارے میں نظر رکھتا ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ نظام کونسا ہو؟اس لیے اگر سیاسی طور پر کوئی بھی نظام اپنا لیا جاۓ کوئی مشکل نہیں۔ جمہوریت ہو، بادشاہت ہو، حاکم انتصابی ہویا انتخابی، ووٹ سے حاکم کو چناجاۓیا کسی اور طریقےسے، یہ سب اسلام نے نہیں بتایا ۔ جب اسلام نے یہ سب تفصیلی طور پر نہیں بتایا تو ہم بھی آسانی سے کسی سیاسی ، یا اقتصادی نظام کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔ آج کے دور میں اگر ایک حاکم انتخابات کے مراحل سے چنا جاتا ہے تو اس میں کوئی مشکل نہیں۔

تیسرا نظریہ

اس نظریہ کے مطابق اسلام نا صرف انسان کی اجتماعی زندگی کے متعلق نظریات رکھتا ہے بلکہ تفصیل سے یہ بھی بتاتا ہے کہ نظام کیسا ہو۔ اسلام صرف حکومت کا ہی نہیں بتاتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ حاکم کونسا ہو؟ حاکم کے بننے کے کیا طریقے ہیں؟ اسلام بتاۓ گا کہ ہم نے کس کو اپنا حاکم بنانا ہے؟ اور کس طرح سے ایک حکومت لانی ہے؟ تیسرا نظریہ ہی اسلام کی جامعیت کا آئینہ دار ہے۔ اگر ایک مسلمان دین اسلام کی جامعیت کا قائل ہے تو اسے ماننا ہوگا کہ یہ دین اس کی اجتماعی زندگی کے پہلوؤں پر کیا نظر رکھتا ہے؟ اگر اسلام سے اجتماعی زندگی کے پہلوؤں کو نکال دیں تو اس کی جامعیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور اسلام کی جامعیت کا انکار در اصل اسلام کا انکا رہے۔امام خمینیؒ، رہبر معظم، اس کتاب کے مؤلف اس تیسرے نظریہ کے قائل ہیں۔

پہلے دو نظریات کا رد

ہم نے کہا کہ اسلام انسان کی سعادت چاہتا ہے۔ جہاں پر بھی انسان کی سعادت موجود ہو گی وہاں پر اسلام اپنا نکتہ نظر بیان کرے گا او ر اس سعادت تک پہنچانے کا راستہ دکھاۓ گا۔ دوسری طرف سے ہم جانتے ہیں کہ انسان کی انفرادی زندگی اس کی اجتماعی زندگی سے متاثر ہوتی ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ انسان اجتماع سے متاثر نہ ہو یا اجتماع کو متاثر نہ کرے۔ باالفاظ دیگریہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان اجتماعی طور پر آزاد طریقے زندگی گزارے او ر اسلام اس کو اجتماعی زندگی کے کسی بھی میدان میں محدود نہ کرے اور وہ انفرادی طور پر ایک ایماندار انسان ہو۔ انسان کی انفرادی زندگی اس کی عبادات، اس کی گھریلو زندگی ، میاں بیوی کے مسائل، ہمسائیوں کے حقوق، یہ سب امور انسان کی اجتماعی زندگی سے متاثر ہوتے ہیں۔ انسان کا اقتصاد، سیاست، امن و امان کے مسائل، اور صلح و صفائی کے مسائل انسان کی انفرادی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اگر ان تمام شعبوں میں انسان اسلامی نکتہ نظر اختیار نہ کرے تو اس کی انفردی اسلامی زندگی  کا بھی ضرر ہوگا۔ اجتماعی زندگی میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنا اس سے بہت زیادہ اہم ہے کہ ہم انفرادی طور پر اسلام کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر اقتصاد اسلامی نہ ہوا تو آپ سود کھاؤگے، اگر سیاست اسلامی نہ ہوئی تو آپ غیر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاؤ گے، اگر دفاعی نظام اور تعلیمی نظام اسلامی نہ ہوا تو آپ نام کے تو مسلمان ہونگے لیکن ایک ایسی قوم کا حصہ شمارہونگے جو دوسروں کی غلام ہے۔اسلام آپ کی اجتماعی زندگی کو بہتر کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر معاشرہ ٹھیک ہو گیا تو اس سے فرد بھی راہ راست پر آ جاۓ گا۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۶۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 13:40
عون نقوی

دین اسلام کامل دین

دین اسلام خاتم ہے ۔ اس لیے اس کا کامل ہونا ضروری ہے۔ دین اسلام کےبعد کسی دین نہیں آنا اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس دین میں کوئی نقص ہو۔ تمام انبیاء کرامؑ نے ایک دین تبلیغ کیا ، دین شروع سے ایک ہی تھا شریعتیں بدلتی رہیں۔ یہی دین رسول اللہ ﷺ کے دور میں خاتم قرار پایا۔ دین مکمل طور پر تبلیغ کر دیا گیا ۔ لیکن کیا اس دین کو غلبہ بھی حاصل ہوا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس کو غلبہ امام مہدیؑ کے دو میں حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے دین کو بھیجا ہی اس لیے تھا کہ پوری دنیا پر اس دین کا غلبہ ہو۔ اس دین کواللہ تعالی غالب کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ یہ دین کامل ہے۔ ہر دین میں عبادات، احکام اور اخلاق ہیں۔ حتی اکثر ادیان میں معاد کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔مثلا بت پرستی، زرتشت ، مسیحیت اور یہودیت وغیرہ۔ یہ سب بہت پرانے دین ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں دین رہا ہے لیکن اس کو تکمیل کی ضرورت تھی۔ لیکن جب دین تکمیل ہوا تو کچھ قومیں اسی پرانے غیر تکمیل شدہ دین پر ہی رہ گئیں۔دین اسلام کامل و خاتم دین ہیں اور آج کے انسان کا وظیفہ ہے کہ دین اسلام کے مطاق زندگی گزارے۔

اسلام کمال ِمطلق

کمال نسبی یہ ہے کہ ایک شے کو خود کوئی کمال حاصل نہیں لیکن اگر اس شے کو کسی دوسری شے کے مقابلے میں دیکھا جاۓ تو یہ بہتر لگتی ہے۔ مثلا آنکھوں سے معذور اشخاص کو جمع کیا جاۓ اور دیکھا جاۓ کہ ان میں سب سے بہتر کون ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے وہ شخص جو کانا ہوگا وہ اندھوں سے بہتر ہوگا حالانکہ کانا ہونا خود ایک نقص ہے۔ لیکن اندھوں کی نسبت ایک کمال ہے کیونکہ بہرحال اندھوں سے بہتر ہے اور کچھ نا کچھ دیکھ سکتا ہے۔ کیا دین اسلام کو بھی اسی طرح سے کمال نسبی حاصل ہے یا اسلام خود کمال مطلق ہے؟ اسلام کو کمال نسبی حاصل نہیں ہے کیونکہ اگر کمال نسبی کے قائل ہو جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اسلام کی طرح بقیہ ادیان بھی انسان کو سعادت تک پہنچا سکتے ہیں ، سب ادیان میں کچھ نقص اور کچھ اچھی باتیں۔ لیکن اسلام ان سے بہتر ہے۔ یہ بات درست نہیں بلکہ اسلام کمال مطلق ہے اور اس میں دوسرے ادیان یا مکاتب کی نسبت کسی قسم کا نقص اور عیب نہیں پایا جاتا۔ دین اسلام کی خاتمیت اور کمال کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ انسان کی تمام جہات سے سعادت چاہتا ہے ۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں اور کوئی بھی ایسا مکتب نہیں جو انسان کو ہر جہت سے کمال تک پہنچا سکے۔

پولیٹیکل سائنس کا سائنس ہونا

اسلام کے بالمقابل دیگر مکاتب انسان کو سعادت تک پہنچانے کے دعوے دار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مشاہدہ اور تجربے سے انسانوں پر تجربہ کرتے ہیں اور نتائج حاصل کرتے ہیں اس لیے ہمارا دیا ہوا راہ حل بہتر ہے۔ پولیٹیکل سائنس کو سائنس اسی بنا پر کہا جاتا ہے۔ سائنس ہر اس علم کو کہتے ہیں جس میں مفروضہ، مشاہدہ ، تجربہ اور نتیجہ لیا جاتا ہے۔ ان مراحل سے جو علم گزرتے ہیں اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ اگر پولیٹیکل سائنس کو سائنس قرار دیں تو جواب دینا پڑے گا کہ کیا آپ نے انسانوں پر تجربہ کیا ہے؟ وہ لیبارٹری کہاں ہے جہاں آپ نے ان مراحل سے اس علم کو گزارا ہے جس کے نتیجے میں اسے سائنس قرار دیا ہے؟ جواب میں کہا جاتا ہے کہ معاشرہ لیبارٹری ہے، مشاہدہ ہمارا تاریخ ہے۔ ہم ایک معاشرے پر تجربہ کرتے ہیں اور پچاس سال بعد جب معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے تو اس سے نتیجہ لیتے ہیں ک یہ ٹھیک ہوا یا غلط ہوا۔ اس لیے ہمارا انسانی نجات کا دیا ہوا فارمولا بہتر ہے ہم آپ کو کامل حل دیتے ہیں۔

اسلام کا کامل ہونا

یہاں پر سوال ابھر تاا ہے کہ اسلام کے پاس بشریت کی نجات اور اس کو سعادت تک پہنچانے کا کیا منصوبہ ہے؟ کیا اسلام نے بھی آزمائش کی ہے کسی معاشرے پر اور اس کو سعادتمند کیا ہے؟ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی حکومت کا دس سالہ دور امام علیؑ کے پانچ سال نمونے کے طور پر موجود ہیں ۔ کیا ان ادوار میں بشریت کے تمام مسائل حل ہو ۓ؟ کیا آپ کے پاس عملی دلیل یا تجربہ اور اس کا نتیجہ ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ نا صرف اس مادی عالم کو حاصل ہے بلکہ برزخ اور عالم قیامت کے حقائق تک کو شامل ہے کیونکہ یہ دین کامل ہے۔ دین اسلام صرف اس عالم کی مشکلات کو حل نہیں کرتا بلکہ قبر، قیامت تک کے مسائل کو حل کرتا ہے۔ صرف وہی مکتب کالم ہونے کا دعوی کر سکتا ہے جس نے تمام عوالم کو دیکھا ہو اور ان کے نفع نقصان کو جانتا ہو۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ کو کامل ترین وجود عطا کیا اوررسول اللہ ﷺ کے بارے میں وارد ہوا کہ وہ مقام ’’لقاء اللہ ‘‘ سے ہمکنار ہوۓ۔ ’’دنا فتدلی‘‘ اور پھر ’’فکان قاب قوسین او ادنی‘‘(۱)  کے مقام تک پہنچے۔ لوح محفوط، ام الکتاب، اور کتاب مبین کا علم ان کو عطا ہوا۔رسول اللہ ﷺ کی وجود بلند ترین کمال تک پہنچا ہوا وجود ہے۔ ان کی اتباع کر کے ہی معاشرے کمال حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم لوگ جو ذاتا کمال نہیں رکھتے اگر اس باکمال ذات سے متصل اور ان کے تابع ہو جائیں کمال حاصل کر سکتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ عمل بنانا ہوگا۔ سب انسانوں کے پاس برابر فرصت موجود ہے سب ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اگر اسوہ قرار دے کر ان کی اتباع کی تو کمال حاصل ہوگا ورنہ نہیں۔ (۲)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ نجم:۹۔

۲۔جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت،فقاہت و عدالت، ص ۶۴تا۶۵

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 11:45
عون نقوی

ولایت فقیہ (تالیف آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ قسط۱۹)

ہر انسان ضرر اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور سعادت و کمال چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعادت کیسے حاصل ہو تی ہے؟  سعادت مند کو ن ہے؟ آخرت کا سعادت مند تو وہ ہے جس نےخدا کی بندگی اختیار کی اپنی قبر اور برزخ کا اہتمام کیا اور صالح اعمال انجام دے کر جنت میں پہنچ گیا۔ لیکن دنیا میں سعادت مند کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کی ضروریات پوری ہوں  وہ شخص سعادت مند ہے۔  دین نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کو پورا ہی نہ کرے بلکہ اس شخص کو سعادت مند قرار دیا ہے جس شخص کی ضروریات زندگی پوری ہوں۔ ان ضروریات ِ زندگی کی صرف اس وقت نفی کی گئی ہے جب یہ آخرت کو نقصان دینے لگیں۔ یہی دنیا، مال اور اولاد اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں لیکن اگر دین کی راہ میں آ جائیں تو قرآن کریم نے انہیں کو انسان کا دشمن قرار دیا ہے۔ اگر ضروریات ِ زندگی انسان کے لیے آخرت کا کمال حاصل کرنے کے لیے وسیلہ بن رہے ہوں تو نعمت ہیں لیکن اگر یہی آخرت کے لیے آزمائش بن رہے ہوں تو ان کو ترک کرنا ضروری ہے۔

روایت میں وارد ہوا ہے :

قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ مِنْ سَعَادَةِ اَلْمَرْءِ اَلْمُسْلِمِ اَلزَّوْجَةُ اَلصَّالِحَةُ وَ اَلْمَسْکَنُ اَلْوَاسِعُ وَ اَلْمَرْکَبُ اَلْهَنِیءُ وَ اَلْوَلَدُ اَلصَّالِحُ.

رسول اللہ ﷺ نے فرمایاایک مسلمان مرد کی خوشبختی یہ ہے کہ اس کی ایک صالح زوجہ ہو،کھلا گھر، آرام دہ سواری اور صالح فرزند ہو۔(۱)

انسان چاہے دنیا میں سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے یا چاہے آخرت میں اسے عقل کے ساتھ ساتھ شریعت کی ضرورت ہے۔ مغربی مفکرین کا یہ کہنا کہ ہمیں شریعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل ہمارے لیے کافی ہے اس بات کو اسلام نے غلط قرار دیا ہے۔ آخرت کی سعادت کے لیے تو حتما شریعت چاہیے لیکن دنیا میں بھی سعادت مند ہونے کے لیے صرف عقل کافی نہیں پھر بھی شریعت چاہیے۔ یہاں پر عقل کی نفی نہیں کی جا رہی بلکہ انسان کے لیے عقل کا استعمال کرنا بہت ضروری ہے، قرآن کریم نے بھی تفکر اور تعقل کا حکم دیا ہے۔ لیکن تعقل اور تفکر اس وقت ہے جب شریعت کے ہمراہ ہو۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

رُسُلاً مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کانَ اللَّهُ عَزیزاً حَکیماً.

(یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔(۲)

اس آیت سے انسانی عقل کا ناکافی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر انسانی عقل ہدایت کے لیے کافی ہوتی تو بشر پر حجت تمام ہوتی  اور  پیغمبروں کو بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ’’حجۃ بعد الرسل‘‘ یہ نہیں کہا کہ ’’حجۃبعد العقل‘‘۔

ایک اور آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:

وَلَوْ أَنَّا أَهْلَکْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آیَاتِکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَىٰ.

 اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟(۳)

اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کےلیے عقل اور فطرت اس کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ان پر حجت تمام ہوتی۔ لیکن اس آیت میں کفار کا یہ کہنا کہ ہمارے لیے پیغمبر نہیں بھیجے گئے تھے اس لیے وہ خدا کے ہاں احتجاج کر سکتے ہیں کہ بغیر پیغمبر بھیجے وہ کیسے ہمیں عذاب دے سکتا ہے؟

یہ آیات اور ان کے علاوہ دیگر آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی عقل کفایت نہیں کرتی۔ بیرونی حجتوں کو ہونا ضروری ہے۔ عقل درونی حجت ہےاور بلا شک و شبہ بہت ضروری ہے انسان کو فہم عطا کرتی ہے۔ اور فطرت قرآن کریم اور انبیاء کرام کی باتوں کو قبول کرتی ہے۔ عقل اور فطرت ہر دو ساتھ ہوں تو تب وحی کی بات انسان کو فائدہ دیتی ہے۔ تنہا عقل نہ تو اجتماعی پہلوؤں کو سمجھ سکتی ہے اور نا جنت و جہنم سے مربوط مطالب کو درک کر سکتی ہے۔ (۴)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۳،ص۱۵۵۔

۲۔ نساء:۱۶۵۔

۳۔ طہ: ۱۳۴۔

۴۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۶۱تا۶۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 11:42
عون نقوی