بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

{ دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۹ }

نظام ِولایت فقیہ اور اسلامی جمہوری 

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

بعض نادان افراد کی جانب سے اسلامی نظام ِحکومت اور جمہوری نظامِ حکومت میں فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت وہی جمہوری نظامِ حکومت ہے جو مغربی ممالک میں موجود ہےاور پاکستان میں بھی یہی اسلامی نظام موجود ہے۔  ان کی نظر میں ۷۳ کا آئین عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس کے اوپر دو لائنوں میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کی ہوگی اور ملک کا صدر مسلمان ہوگا، اور یہی سب بس ان کے نزدیک اسلامی ہونے کے لیے کافی ہے۔ جبکہ اس جملے کی تشریح کیا ہے کسی کو بھی معلوم نہیں؟ جبکہ اسلام نے حکومتی نظام مکمل طور پر وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ان جزئیات کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں۔حتی بعض شیعہ علماء اس شبہہ کا شکار نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران میں جو نظام موجود ہے پاکستان میں بھی وہی نظام ہے اور دونوں ملکوں کا حکومتی سسٹم اور نام بھی ایک جیسا ہے۔ پاکستان بھی جمہوری اسلامی ہے اور ایران بھی جمہوری اسلامی ہے۔ جبکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ  ہمارے اسلامی مفکرین بالخصوص امام خمینیؒ، شہید مطہری، مصباح یزدیؒ اور رہبر معظم لفظ جمہوری کا معنی کچھ اور کرتے ہیں۔ جبکہ مغربی جمہوری نظام کا جو معنی مغربی مفکرین کرتے ہیں وہ بالکل الگ ہے۔ انتہائی افسوس ہوتا ہے جب افراد رہبر معظم کے افکار کو مسخ کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رہبر معظم بھی جمہوری نظام کے خواہاں ہیں اور ہم بھی پاکستان میں جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تہمت اور بہتان ہے کہ رہبر معظم بھی جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ دونوں میں فرق ہے اور فرق بھی زمین آسمان کا ہے۔ ایک فرق تو خود تفسیر کا ہے کہ  لفظ ایک ہی ہے لیکن دونوں کی تفسیر جدا ہے۔ اور دوسرا فرق اہداف کا ہے۔ جس معنی میں مفکرین اسلام جمہوری لفظ استعمال کرتے ہیں اس حکومت کے اہداف جدا ہیں، اس کے برعکس جو مغربی جمہوری نظام ہے اس کے اہداف جدا ہیں۔

اسلامی جمہوری ایران میں لفظ جمہوری 

سب سے پہلے اس امر کو واضح کرنا ضروری ہے کہ جب آپ نہضت شروع کرتے ہیں اور معاشروں کی اصلاح شروع کرتے ہیں عملی طور پر آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کو دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ درست ہے کہ ایران میں انقلاب آیا اور انقلاب کے ذریعے اسلامی حکومت بھی قائم ہو گئی لیکن اس سب کے بعد ایرانی معاشرہ کتنا اسلامی بنا اس کو عملی طور پر تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ خود رہبر معظم نے تمدن نوین انقلاب اسلامی اور انقلاب کے دوسرے گام پر گفتگو کے دوران فرمایا کہ اس اسلامی تمدن کے حصول کے پانچ مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ انقلاب اسلامی ہے، دوسرا حکومت اسلامی، تیسرا دولت اسلامی، چوتھا معاشرہ اسلامی اور پانچواں تمدن اسلامی ہے۔[1] ایران میں پہلا اور دوسرا مرحلہ طے ہوا ابھی ایران تیسرے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اس کے بعد چوتھا اور پانچواں مرحلہ ہے۔ گزشتہ اقساط میں یہ امر بیان ہوا کہ دین اسلام جبری حکومت کا قائل نہیں ہے۔[2] اس لیے امام خمینیؒ کی نہضت جب انقلاب میں تبدیل ہو گئی اور فتح نصیب ہوئی تو فورا امام نے اپنی مرضی کی کابینہ ایرانی عوام پر مسلط نہیں فرمائی۔ بلکہ ایران کے آئین یعنی ولایت فقیہ کے نظام کا رفرانڈوم کروایا جس میں ۹۰ فیصد سے زائد ایرانی عوام نے اس نظام پر اعتماد کا اظہار کیا۔ نظام ولایت فقیہ کی آئینی حیثیت کو قبول کروانے کے بعد آزاد انتخابات کا اعلان کروایا جس میں عوام کو اس بات کا مکمل حق دیا گیا کہ وہ اپنے منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے اس نظام کا حصہ بنیں۔ ولایت فقیہ دیگر آمرانہ نظاموں اور بادشاہی نظام کی طرح نہیں ہے کہ قانون بھی بادشاہ کا چلے گا اور صدر وزیر بھی اسی کے بٹھاۓ ہوۓ ہوں۔ بلکہ امام نے فرمایا کہ عوام بھی اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کو ایک طرف سے دینی طور پر مشروعیت بھی حاصل ہے اور پھر رفرونڈم و انتخابات کے بعد عوام کی مقبولیت بھی حاصل ہو گئی۔ اسلامی حکومت کی تشکیل میں یہ دو رکن اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دین کی نظر میں اگر کسی حکومت کو دینی طور پر مشروعیت حاصل ہو اور عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو وہ حکومت دینی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر کوئی حکومت عوامی مقبولیت تو رکھتی ہو لیکن دینی مشروعیت نہ رکھتی ہو وہ بھی دینی نہیں ہو سکتی۔ امام خمینیؒ جمہوری اسلامی کی تفسیر اس طرح سے کرتے ہیں:

ہمارى حکومتى نظام کا ڈھانچہ جمہورى اسلامى ہے، جمہورى اس معنى میں کہ لوگوں کى اکثریت اس کو قبول کرے اور ’’اسلامى‘‘ اس معنى میں کہ اس کو قوانین اسلام کے مطابق چلایا جاۓ۔[3]

بنی صدر اور امام خمینیؒ کا اختلاف

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد پہلے آزاد انتخابات کا اعلان ہوا، ابو الحسن بنی صدر پہلے صدر منتخب ہوۓ لیکن ان کا اسلام اور انقلاب سے کوئی گہرا تعلق نہ تھا لیکن چونکہ ایک کثیر تعداد نے اس کو ووٹ دیا امام خمینیؒ نے بھی عوام کی اکثریت کو پس پشت نہ ڈالا اور اس کی اصلیت سب کے سامنے لانے تک خاموش رہے۔ یہاں تک کہ انتخابات کے بعد ملک کے نام رکھے جانے کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ ملک کے منتخب شدہ پہلے صدر کا اصرار تھا کہ نام جمہوری ایران رکھا جاۓ گا۔ جبکہ بعض علماء کا کہنا تھا کہ اسلامی ایران رکھا جاۓاور جمہوری کسی بھی صورت میں نام میں شامل نہ ہو۔ ایک گروہ اس بات کا قائل تھا کہ ملک کا نام اسلامی جمہوری ایران ہو۔ لیکن بنی صدر اس کے بھی مخالف تھا اور اس کا کہنا تھا کہ نام صرف جمہوری ایران ہوگا۔ یہ تنازعہ اتنا بڑھ گیا کہ بنی صدر نے کہا کہ اگر ملک کا نام جمہوری ایران نہیں رکھا جاتا تو میں مستعفی ہو جاؤنگا۔ ایران میں خانہ جنگی اور انتشار کا خوف بڑھ گیا، اندر سے یہ حالات، باہر سے دشمنوں کی سازشیں جو انقلاب کو ابتدا میں ہی سرکوب کرنا چاہتے تھے، علماء کا ایک گروہ امام خمینیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو تمام مصلحتوں سے آگاہ کیا گیا مجبوری کی حالت میں ملک کا نام جمہوری اسلامی رکھ دیا گیا۔ یہ نام مجبوری کے تحت پڑا بعد میں خود امام خمینی اور دیگر مفکرین نے لفظ جمہوری کی اپنی تفسیر کی جو مغربی جمہوری سے مختلف ہے۔ اسلامی جمہوری ایران میں اسلام  ،جمہور پر مقدم ہے۔ یہاں پر امام خمینیؒ نے بنی صدر کو ہٹا دیا حالانکہ بنی صدر ایک جمہوری صدر تھا۔ مغربی جمہوری نظام میں ایک منتخب صدر کو نہیں ہٹایا جا سکتا لیکن امام کا اس کو ہٹا دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جمہوری اسلامی میں اسلامی ہونا مقدم ہےجمہوری ہونے پر، اگر کوئی شخصیت یا قانون اسلام سے ہی ٹکرا جاۓ وہاں جمہور کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اسلام کو اصلیت حاصل ہے۔ اس کے برعکس جمہوری نظاموں میں جو فیصلہ جمہور کر دے اس کو مقدم کیا جاتا ہے اب چاہے دین اس کو حرام بھی قرار کیوں نہ دے رہا ہو۔ اسی طرح سے ایران میں تشخیص مصلحت نظام کا ادارہ ہے یا خبرگان کی نظارتی ٹیم ہے۔ یہ وہ فرق ہیں جو دیگر جمہوری حکومتوں میں نہیں ہیں۔ آج تک امریکہ نے صرف اسی وجہ سے ایران پر دباؤ ڈالا ہوا ہے اور شدید پابندیاں لگائی ہوئی ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایران میں جمہوریت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے نادان افراد کہتے ہیں کہ نا جی! ایران میں جمہوریت ہے۔  

پہلا فرق۔ اہداف کا مختلف ہونا

مغربی جمہوری نظاموں کا پہلا ہدف جمہور کی رضا حاصل کرنا اور ان کو رفاہ دینا ہے۔ لیکن حکومت اسلامی کا پہلا ہدف جمہور کی رضا اور اس کی مادی ضروریات کو پورا کرنا نہیں بلکہ اس کا ہدف انسان کو خلیفہ الہی بنانا ہے۔ انسان کو حق کے معیارات پر چلانا ہے۔ اس طرح سے نہیں کہ نعرہ صرف اسلامی ہو لیکن اس سے اہداف آپ غیر اسلامی پورے کر رہے ہوں۔ مثلا ہمارے ملک عزیز میں سب سیاستدانوں نے یہی کام کیا، ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اسلام کا استعمال کیا۔ اگر آپ واقعی حقیقی دیندار اور اسلام چاہتے ہیں تو اسلام تو چاہتا ہے کہ حق اور عدل قائم ہو، یہ حکمران پہلے اپنے جسم پر تو عدالت قائم کریں۔ اگر حاکم عادل نہیں ہے تو کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ بے شک آپ سینکڑوں بہانے لے آئیں اور کہیں کہ وہ عمرے پر جاتا ہے، تسبیح ہاتھ میں رکھتا ہے، اس نے مشہد میں امام رضاؑ کی زیارت کی یا رہبر سے ملاقات کی۔ یہ سب اس وقت دیکھا جاۓ گا جب خود عادل ہو اگر عادل نہیں ہے اور عدل کا قیام نہیں چاہتا بلکہ اس کے اہداف غیر دینی ہیں تو اس کی مخالفت ضروری ہے۔

دوسرا فرق۔ دین کی حکمرانی

اسلامی نظام حکومت کا دوسرے نظاموں سے ایک فرق یہ ہے کہ اس نظام میں دین کو اختیار کر کے تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر دین کو اختیار کر کے تبدیلی واقع نہیں ہو رہی اور مادی طور پر نقصان بھی ہو رہا ہے وہاں پر دین کو ترک نہیں کیا جاۓ گا بلکہ مادی نقصان کو قبول کر کے دینی نقصان سے بچا جاۓ گا۔ لیکن دوسرے نظام مخصوصا جمہوری حکومتیں مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی غیر دینی طریقہ کار اور روش کو اختیار کر نے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مثلا ہم مانتے ہیں کہ آل سعود آج کی یزیدی حکومت ہے اس نے اہل بیتؑ اور رسول اللہﷺ کے ساتھ دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی، اسلام کو مسخ کر کے رکھ دیا پوری دنیا میں شیعہ سنی قتل عام میں یہ خاندان ملوث ہے لیکن اس سے ہم تعلقات اور روابط بڑھاتے ہیں تاکہ ہمیں کچھ ڈالر عطا کرے۔ کیا یہ روابط بڑھانا درست ہے؟ ہم جس نظام کو اسلامی جمہوری کہتے ہیں اور اس کو عین دینی نظام کہتے ہیں کیا اس کے حکمران اس تعلق کے لیے مرے نہیں جاتے؟ کیا انہوں نے اسلامی ریاست کا نعرہ لگا کر آل سعود کی غلامی نہیں کی؟ ایران میں بھی تو یہی حالات تھے اور ابھی بھی ہیں۔ ایران کو بھی ہزاروں بار پیشکش ہوئی اور کہا گیا کہ تمام پابندیاں ہٹا دیں گے فقط اپنی مقاومت سے ہٹ جاؤ، لیکن انہوں نے جنگ قبول کر لی، پابندیاں مول لیں اور امریکہ شیطان بزرگ کے آگے کھڑا ہو گئے اور اسلامی نظام کو آنچ نہ آنے دی۔ جب ایران نے دیکھا کہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کریں یا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا کر پابندیاں ہٹوائیں انہوں نے مظلوم فلسطین کا ساتھ دینا ضروی قرار دیا، لیکن ہم نے آل سعود کی یمن پر ظالمانہ بمبارمنٹ کی حمایت کی اور یمنی مجاہدین کو باغی کہا۔ ایران میں بعض قوم پرست افراد نے حتی علماء نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہ جوڑے تو ملک ٹوٹ جاۓ گا تب بھی اس نظام نے شکست قبول نہیں کی۔ ایرانی مفادات پر اسلام کے اصول و ضوابط کو مقدم رکھا۔ شام کی جنگ میں مقدسات کے دفاع کو اپنا فریضہ قرار دیا حالانکہ اس جنگ میں پوری دنیا مغرب، مشرق، عربی اور عبری اسلحہ اور پیسہ مقاومت کے خلاف جمع ہوا اور انہوں نے سب کی مخالفت مول لی۔ اگر یہ داعش اس خطے پر حاکم ہو جاتی تو نا کوئی مزار باقی رہتا اور نا عام شیعہ و سنی مسلمان۔ مسلمانوں کی سرزمینوں کو وحشی داعش سے انہوں نے نجات دی۔ ابھی جو ہمارے ملک میں خان صاحب نے امریکہ مخالفت کا نعرہ لگایا ہے یہ کیسی مخالفت اور دشمنی ہے؟ آپ اپنی حکومت میں تو ان کے صدر سے بڑی جھپیاں ڈال کر ملے اور بائڈن کی کال کا انتظار کرتے رہے جب آپ کے پاس موقع میسر تھا امریکہ کے ساتھ دشمنی کرنے کا آپ نے نام تک نہ لیا۔ جب اقتدار چلا گیا تو عوام کی نفسیات سے کھیلنے لگے؟یہ وہ فرق ہیں جن کی طرف توجہ نہیں کی جاتی کہ ایک نظام آپ کو عزت کا راستہ دکھاتا ہے اور آپ کے آگے اعلی اہداف رکھتا ہے لیکن دوسرا نظام آپ کو حقارت اور ذلت کے لیے تیار کرتا ہے اور ڈالروں کے لیے پوری قوم کو بیچ دینے پر بھی آپ کو آمادہ کر دیتا ہے۔[4]

منابع:

 

↑1 سائٹ البر۔
↑2 سائٹ البر۔
↑3 خمینی، سید روح اللہ، حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ، ص۵۷۔
↑4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ،ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:34
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۸ }

حکومت ِ اسلامی کا عالی اور متوسط ہدف

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

سیاسی احزاب حکومت کے حصول کے لیے مختلف نعرے لگاتی ہیں۔ اپنے اہداف عوام کے سامنے رکھتی ہیں اور اس طرح عوامی مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔ گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ اسلامی حکومت کا پہلا ہدف انسان کو اس کمال تک پہنچانا ہے جس تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالی نے اسے خلق کیا ہے۔ اسے مصنف نے حکومت اسلامی کا ہدفِ عالی کہا ہے۔

اہدافِ حکومت کا بیان اور اس کی اہمیت

جب تک ہم حکومت اسلامی کا ہدف واضح طور پر سمجھ نہیں لیتے اور اس کی اہمیت عوام میں اجاگر نہیں کرتے اس وقت تک عوامی حرکت شروع نہیں ہو سکتی۔ اہداف اور خوش نما نعرے آج کی سیاست میں بہت تاثیر گذار ہیں۔ وطنیت اور آزادی ایک نعرہ ہے جو جنگ عظیم اول اور دوم میں لگایا گیا اور پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس کا معنی مبہم رکھا گیا کسی کو بھی علم نہ تھا کہ وطن کیا ہے اور اس کی حدود کیا ہیں؟ یا آزادی کیا ہے کس سے آزادی حاصل کرنی ہے؟ انہوں نے کروڑوں افراد اسی نعرے کی زد میں قتل کر دیے۔ پوری دنیا میں ہی اس کا شکار ہےحتی اسلامی ممالک میں مبہم نعرے لگا کر عوام کو فریب دیا جاتا ہے اور اس طرح بدترین حکومتیں اپنے لیے جواز اور مشروعیت کے اسباب پیدا کر لیتی ہیں۔ عوام بھی ان کا شکار ہو کر اپنے اصلی اہداف سے منحرف ہو کر ان نعروں کے پیچھے لگ جاتی ہے۔

حکومت اسلامی کے ہدف کی تبیین

ان سوالات کا جواب ڈھونڈھنا ہر مومن پر ضروری ہے؟ اسلامی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ اسلامی حکومت آ کر کیا کرے گی؟ اگر آپ کی نظر میں دنیا کے سارے نظام ہی باطل ہیں اور آپ الہی نظام لانا چاہتے ہیں اس میں ہوگا کیا؟ مثال کے طور پر اگر افغانستان، عراق یا پاکستان میں مکتب تشیع کی حکومت آ جاۓ تو وہ مکتب کیا کرے گا؟ کس ہدف کو حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا ریاست کے بڑے بڑے مسائل حل کریں گے؟ عوام کا رفاہ، ان کی امنیت، علاج اور تعلیم کے مسائل اور ان کے لیے سوسائٹی بنائیں گے؟ کیونکہ اگر آپ بھی یہی سب کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی اسلامی حکومت اور ان مغربی ممالک کی جمہوری حکومتوں میں کیا فرق ہوگا؟ ان مغربی حکومتوں نے تو سوسائٹی بھی بنا کر دے دی لوگوں کو رفاہ، امنیت اور تعلیم و علاج معالجے کی سہولیات بھی دی ہوئی ہیں۔ یہ کام تو غیر اسلامی جمہوری حکومتیں بھی انجام دے سکتی ہیں اور دے رہی ہیں تو پھر اسلامی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے حتی بعض افراد یہ کہتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں کہ جب امام زمانؑ تشریف لائیں گے ان کو اپنے قیام میں صرف مشرق وسطی اور بعض ایشیا کے فقیر ممالک میں محنت کرنا پڑے گی اور ان ممالک کا رفاہ، امنیت اور دیگر مسائل حل کرنا پڑیں گے، مغربی ممالک تو ویسے بھی ترقی یافتہ ہیں ان ممالک میں امام کو کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ جبکہ یہ بہت بڑا شبہہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں امام زمانؑ کے ظہور کے اہداف کا پتہ ہے اور نا ہی اسلامی حکومت کے اہداف کا؟ امام آ کر کیا کریں گے؟ اس کو کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ امام نے آ کر ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے ہدف ِعالی کو پورا کرنا ۔ خود اسلامی حکومت ہدف نہیں ہے بلکہ اس حکومت کے ذریعے جس ہدف عالی کو پورا کریں گے وہ ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

معاشرہ سازی اور انسان سازی

اسلام انسان کے مادی مسائل کو حل کرنے یا سوسائٹی بنا کر دینے سے پہلے چاہتا ہے کہ معاشرہ سازی اور انسان سازی ہو۔ پھر بقیہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ دنیا میں جتنے بھی مسائل کا انسان شکار ہیں اس کی پیچھے وجہ یہ ہے کہ انسان خود سازی نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے مادی مسائل حل کر رہا ہے لیکن جتنا سہولت اور رفاہ میں آتا جا رہا ہے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ مثلا پوری دنیا میں ہی طاقتور حکمرانوں کے اندر دوسرے ممالک کے حقوق پائمال کرنے کا جنون موجود ہے، معاشروں میں کرپشن عام ہے، نا امنی اور فقر ہے۔ ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟ کہاں سے ان مسائل کو ختم کیا جاۓ؟ مسائل کی جڑ کہاں ہے؟ مثال کے طور پر اگر آج ہی پاکستان میں کسی شیعہ عالم دین کو وزیر اعظم بنا دیا جاۓ اور سارے وزیر و مشیر ہی عادل اور نیک لوگ ہوں، مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ کابینہ ایسا کیا کرے جس سے سب مسائل ختم ہو جائیں؟ لا قانونیت کو کیسے ختم کریں؟ قانون تو موجود ہے اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ پولیس، فوج، عدالتیں اور بقیہ ادارے سب ہی موجود ہیں پھر بھی پاکستان میں امنیت اور انصاف کسی کو نہیں ملتا؟ اس کی پیچھے اصل وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارا معاشرہ اپنے نفس کا غلام بن چکا ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں کر لیتے اور انسان سازی نہیں ہو جاتی اصلاح ممکن نہیں۔ اگر آپ نفس کو کنٹرول نہیں کرتے اور انسان کو درون سے اصلاح نہیں کر لیتے ہزار قانون لے آئیں وہ کوئی نا کوئی طریقہ کرپشن کا نکال ہی لے گا۔ آپ جتنا کنٹرول کر لیں جب تک اس کے نفس کی اصلاح نہیں کر لیتے مسائل حل نہیں ہونگے۔

نفس کی اصلاح کیسے ہو؟

یہاں پر ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ نفس کی اصلاح کا کام بہت لمبا ہے؟ معاشرے میں ہزاروں لوگ ہوتے ہیں ان کے نفس کو ہم کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں اس میں تو ہزاروں سال لگ جائیں گے؟ ابھی کا کیا کریں؟ نفس کی اصلاح تو ہوتی رہے گی آج کا کیا کرنا ہے؟ اس کا جواب بھی مختصر ہے آپ اس تفکر کو رواج دیتے جائیں جتنا یہ تفکر پھیلتا جاۓ گا مسائل ختم ہوتے جائیں گے مثلا ہر چیز ہی حکومتوں پر نہ ڈال دیں۔ اپنے نفس کی حکومت اور اس کا اختیار تو خود آپ کے پاس ہے اس کی اصلاح کریں، اس کے بعد گھر کی حکومت ہے ، گھر میں تو آپ ہی بڑے ہیں ، بیوی بچوں میں تو عدالت قائم کریں۔ اگر اپنے نفس اور گھر میں اصلاح قائم کر دیں یہیں سے مسائل کا حل شروع ہو جاۓ گا۔ لیکن اگر ہم نے اپنے نفس اور گھرانے کی اصلاح نا کی جو کہ ہماری قدرت میں بھی تھا تب معاشرے کی بھی اصلاح نہیں کر سکیں گے۔ نفس کی اصلاح کے بغیر جب انسان معاشرے میں قدم رکھتا ہے اب فرق نہیں پڑتا وہ عالم ہو یا عام شہری، قاری ہو یا استاد، فاسق ہو یا دیندار شخص وہ اپنی مادیات کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوگا؟ عالم دین ہے تو وہ دین بیچے گا۔ قاری ہے تو قرآن بیچے گا۔ ڈاکٹر انجینیر یا آفیسر ہوا تو اپنی خدمات بیچے گا۔ اسی طرح سے اگر کوئی حکمران ہوا تو ملک و قوم بیچے گا۔ یہی فرق ہے اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت کا۔ اسلامی حکومت لوگوں کی اصلاح درون سے کرتی ہے اور اس سے بیرونی مسائل بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ غیر اسلامی جمہوری یا دیگر حکومتیں ظاہری طور پر انسان کے بیرونی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں لیکن کر نہیں سکتیں کیونکہ جب تک انسان کا اندرون اصلاح نہ پا جاۓ آپ اس کے جتنے بیرونی و مادی مسائل حل کرتے جائیں وہ بد سے بدتر ہوتا جاۓ گا۔

حکومت اسلامی کا ہدف متوسط

حکومت اسلامی کا دوسرا ہدف جسے مصنف نے ہدف متوسط قرار دیا ہے یہ ہے کہ اسلامی حکومت کو اسلام کے عنوان سے تشکیل دیا جاۓ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حجت الہی کی اطاعت سے انسان کمال تک پہنچے۔ انسان کا کمال اور حکومت اسلامی کا پہلا ہدف پورا نہیں ہو سکتا مگر وقت کی حجت کی اطاعت کے ساتھ۔ اس لیے نبوت اور امامت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ پورے معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور اصلاح ِنفس چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں مگر یہ کہ حاکم اسلامی ہو، نبی یا امام کے توسط سے یہ کام انجام پاۓ۔ ہماری بات انفرادی اصلاح یا چند اشخاص کی انسان سازی تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے اگر اصلاح چاہتے ہیں حتی یورپی معاشرے، ضروری ہے کہ وہ دین کے ذریعے، امامت و نبوت کے ذریعے اصلاح پائیں۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ لوگوں کی اصلاح کے لیے حکومت کی کیا ضرورت؟ تو کہا جاۓ گا کہ حکومت کے بغیر آپ انفرادی طور پر تو چند لوگوں کی اصلاح کر سکتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر پورے کے پورے معاشرے ایک جمع کی صورت میں اصلاح نہیں پا سکتے مگر یہ کہ اس معاشرے کی زمام حجت الہی کے ہاتھ میں ہو۔

انفرادی سوچ کی مذمت

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیشہ انفرادی سوچتے ہیں معاشرے کی اجتماعی صورت کو مدنظر نہیں رکھتے۔ انفرادی طور پر اپنی یا چند افراد کی اصلاح کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور معاشرہ دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس وقت متوجہ ہوتے ہیں جب پورا معاشرہ گمراہ ہو چکا ہوتا ہے اس وقت ان اصلاح شدہ افراد کا ہونا اور نا ہونا برابر ہو جاتا ہے۔ اس انفرادی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ امام خمینیؒ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اس سوچ کو ابھار اور انفرادی سوچ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان سے پہلے حتی حوزہ جات قم اور نجف میں یہ سوچ پائی جاتی تھی، سیاست کو بد سمجھا جاتا تھا۔ اخبار پڑھنے والے عالم دین کو یا امت مسلمہ کی ابتری پر بات کرنے والے کو سیاسی مولانا کہا جاتا اور اس کو کوئی بھی مجتہد نہیں مانتا تھا جو اجتماعی مسائل کی طرف توجہ دلاتا۔ یہ تفکر آج بھی موجود ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں حکومتوں، سیاسی امور، اور اجتماعی مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے بس اپنی، گھر والوں کی اصلاح کر لی بہت ہے۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس تفکر کو نابود کیا، حمایت اور مخالفت کے معیار قرآن و سیرت آئمہ معصومینؑ سے نکال کر بتاۓ۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں پر آواز بلند کرنا اور امت کے اجتماعی مسائل کی طرف ان کو متوجہ کروایا۔ اور بتایا کہ مؤقف کیا ہو؟ کس بنیاد پر ہم حاکم کی حمایت کریں؟ کیا حکمرانوں کی حمایت کریں بھی یا ان کے خلاف قیام کریں۔ کیا مفادات کی بنا پر ہر یزید فاسق فاجر شخص کی حمایت کرنا شروع کر دیں؟ مثلا اگر آل سعود آپ کو ڈالر دیتا ہے تو کیا اس کے نوکر بن جائیں؟ یا ملک و قوم کی عزت و وقار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جب تک ہم اجتماعی سوچ نہیں رکھتے حل نہیں ہو سکتے اور اسی طرح سے غلام رہیں گے۔ ان سب مسائل کا حل دین اسلام نے ذکر کیا ہے۔ آئمہ معصومینؑ کی سیرت موجود ہے ان حالات میں ان کا مؤقف ہمارے سامنے ہے۔

جہادِ تبیین اور رہبر معظم کا حکم

رہبر معظم  نے بطور ولی امر حکم جاری کیا ہے اور اس کی تعمیل سب پر فوری طور پر واجب ہے۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ دین کی تبیین کی جاۓ، ملکی مسائل کی تبیین اور تشریح کی جاۓ، امت مسلمہ جن مسائل کا شکار ہے ان کا راہ حل کیا ہے اس کی تبیین ہم سب پر واجب ہے۔ ان مسائل پر گفتگو کریں اور ان کا دین کی نظر میں حل تلاش کریں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں غربت و فقر کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ مسئلہ سود سے حل ہو رہا ہو تو کیا ہم سود کو قبول کر لیں؟ اگر پاکستان کے مسائل آل سعود کی غلامی کرنے سے حل ہوں تو کیا ہم غلامی قبول کر لیں؟ ابھی عام مسلمان یہ سوچتا ہے کہ چونکہ ابھی مسائل کا حل یہی ہے لہذا کوئی حرج نہیں، سود بھی قبول ہے اور غلامی بھی قبول ہے۔ جب امام آئیں گے تو خود ان مسائل کو حل کریں گے ابھی جیسے چل رہا ہے چلنے دو۔ یہ تفکر بہت خطرناک ہے دین اور مکتب کربلا یہ بتاتا ہے کہ اگر جان جاتی ہے تو چلی جاۓ لیکن باطل کو قبول نہیں کرنا۔ ہمیں ایسی اولاد نہیں چاہیے جو حلال حرام ہر طریقے سے ہمارے لیے باعث تسکین ہو بلکہ وہ اولاد چاہیے جو حق کا ساتھ دے۔ ہمیں ہر یزید کی حکومت میں ملنے والا رفاہ اور امنیت نہیں چاہیے بلکہ عزت اور وقار چاہیے۔ جو بھی مشکل ہے اس کا حل دین کی حدود میں چاہیے اگر ان حدود سے باہر نکلنا پڑے تو ایسا کوئی راہ حل نہیں چاہیے۔ سب مشکلات کو دین اور حجت الہی کے توسط سے حل کرنا ہے اور یہی اسلامی حکومت کا دوسرا بڑا ہدف ہے جسے ہم نے ہدف متوسط کہا۔ عوام کے دین اور رفاہ میں ٹکراؤ ہو جاۓ، امنیت اور عزت و وقار میں ٹکراؤ ہو جاۓ، وہاں پر جو کام امام حسینؑ نے کیا وہ کرنا ہے۔ امام حسینؑ نے خود کو، اپنی اولاد اور اصحاب کو قتل ہونے دیا لیکن دین کو بچا لیا۔

قرآن کریم میں حکومت اسلامی کا ہدف

قرآن کریم واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ دین کا اصلی ہدف نبی یا امام نہیں بلکہ خود اللہ تعالی کی ذات ہے۔ نبی، امام یا دین ہدف متوسط ہیں ان کا واسطہ ضروی ہے لیکن خود یہ بھی ہدف نہیں ہیں بلکہ عالی ہدف اللہ تعالی ہے۔ انبیاء کرام اور معصومینؑ اپنی ذوات کو دین اور خدا کے لیے قربان کرتے ہیں تاکہ امت عالی ہدف تک پہنچ سکے، امت کو اپنی ذوات تک پہنچانا ہدف نہیں ہے، اگرچہ یہ بھی ہدف متوسط ہے کہ امت حجت الہی تک پہنچ جاۓ لیکن یہ عالی ہدف نہیں بلکہ متوسط ہدف ہے۔ عالی ہدف تک پہنچنے کا یہ ذوات ذریعہ ہیں۔ باالفاظ دیگر ہدف متوسط سے ہدف عالی حاصل ہوگا۔جب امتیں حجت الہی تک پہنچ جاتی ہیں یہ ذوات ان کو اللہ تعالی کی ذات تک پہنچا دیتی ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلامُ».

ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔[1]

ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلامِ دیناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ».

ترجمہ: اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔[2]

سورہ حدید میں وارد ہوا ہے:

«لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْکِتابَ وَ الْمیزانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ».

ترجمہ:  بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔[3]

ایک بدترین سوچ ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے کہ دینداری صرف گھر میں ہے، دین کا اجتماعی امور سے کیا تعلق؟ مولانا صاحب کا سیاست سے کیا تعلق؟ فقہ کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے؟ مدارس دینیہ، قرآن، آئمہ معصومینؑ، مجالس محافل میں سیاست کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہمیں دنیا کے مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کے لیے دین کی ضرورت نہیں بلکہ ہم دنیاداروں سے پوچھ لیں گے یہی حکمران اور سیاستدان ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ دین، مولانا حضرات اور قرآن صرف مردے بخشوانے اور تعویذ گنڈوں کے لیے آۓ ہیں ان سب کا اجتماعی اور سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کریم اس سوچ کی شدت سے مذمت کرتا ہے اور انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف ہی یہ بیان کرتا ہے کہ وہ اس لیے بھیجے گئے کہ لوگوں کے اندر میزان اور قسط یعنی عدل و انصاف کو قائم کریں۔ یعنی جو توقع ہم نے فاسق حکمرانوں سے رکھی ہوئی ہے اور وہ کبھی بھی اس توقع پر پورا نہیں اترے اور نا ہی اتر سکیں گے وہ کام انبیاء الہی کا وظیفہ ہے۔ اور ان کی اتباع میں علماء کرام کا یہ وظیفہ ہے۔ علماء انبیاء کرام کے وارث اور نائب ہیں ۔ انبیاء کی نیابت میں علماء کا وظیفہ ہے کہ وہ یہ کام انجام دیں۔یہ وہ حقیقی دین کی شکل ہے جو ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ تشیع کا معیار ختم کر دیا گیا۔ تشیع کی پہچان اور معیار ہی یہ تھی کہ انہوں نے پہلے دن سے غیر الہی حکمران کے انتخاب کو رد کر دیا اور امیرالمومنینؑ کی ولایت (حاکمیت)کو واجب قرار دیا۔ ہر دور میں تشیع نے اپنی پہچان حکمرانوں اور حکومتوں کی مخالفت کو قرار دیا۔ ہر دور میں حکومتوں کا سب سے بڑا مخالف شیعہ رہا ہے۔ کیونکہ اس کا مکتب اور امام یہ بتاتے ہیں کہ حکومت کرنے کا حق صرف امام کو حاصل ہے اس کے علاوہ اور کوئی بھی حاکم نہیں ہو سکتا۔ امام کی نیابت میں نائب امام ہیں جو زمانہ غیبت میں حاکم ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس دین کو فراموش کر دیا گیا ۔آج شیعہ کو سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی ہمیں بے وقوف بنانے کے لیے امریکہ دشمنی کا نعرہ لگاتا ہے ہم اس کے پیچھے لگ جائیں۔ ہم نے اندھا دھند اس کی حمایت نہیں کرنی۔ وہاں پر ہم عدل و انصاف کے معیار لائیں گے دشمنی اور دوستی کے وہ معیار لائیں گے جو تولی اور تبرا کے ذیل میں آئمہ معصومینؑ نے ہمیں سکھاۓ۔ یہ چیزیں انبیاء اور آئمہ ہمیں سکھا کر گئے ہیں وہ صرف معلم اور مسجد کے مولانا نہیں بن کر آۓ تھے بلکہ معاشروں کا تزکیہ نفس کرنے اور ان پر اللہ تعالی کی حاکمیت کے نفاذ کے لیے آۓ تھے۔[4]

منابع:

 

↑1 آل عمران: ۱۹۔
↑2 آل عمران: ۸۵۔
↑3 حدید: ۲۵۔
↑4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۹تا۱۰۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:33
عون نقوی

{  دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۷ }

حکومت ِ اسلامی کے اہداف

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

کسی بھی حکومت کو ہم اس کے اہداف سے پہچان سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جمہوری حکومت کا ہدف جمہور کی رضا حاصل کرنا ہے، اسی طرح سے اسلامی حکومت ہےکہ اس کا بھی ایک ہدف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت آ جاۓ تو وہ کیا کرے گی؟ اس کے سامنے کون سے اہداف ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے یہ حکومت بنی ہے؟ کیا اسلامی حکومت بنانا ہی خود ہدف ہے؟ یا ہدف کچھ اور ہے؟ مثلا پاکستان میں انقلابی طبقہ اسلامی حکومت لانے کی بات کرتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان کا ہدف فقط اسلامی حکومت لانا ہے اور بس؟ یا اصلی ہدف کچھ اور ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ حکومت اسلامی خود ہدف نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت لا کر کسی اور ہدف تک پہنچنا ہے۔اس مطلب کو ہم نہج البلاغہ کے متعددخطبات اورمکتوبات میں بھی  موجود پاتے ہیں۔ جس میں امیرالمومنینؑ خود حکومت کو ہدف قرار نہیں دیتے بلکہ کسی اور ہدف تک پہنچنے کے لیے اس کو وسیلہ قرار دیتے ہیں۔[1][2]

لقاء الہی اور ارتقاء کی طرف حرکت

اسلامی حکومت کا پہلا ہدف معاشروں کو لقاء الہی کی منزل تک پہنچانا ہے۔ انسانیت کا حقیقی کمال حکومت اسلامی کا ہدف ہے۔ حق اور عدالت کا قیام اس حکومت کا ہدف ہے۔ اس حکومت میں معاشرے اللہ کی طرف بڑھتے ہیں، اجتماعی طور پر حرکت میں ہیں۔ یہاں پر ہم تاکید سے بیان کر رہے ہیں کہ حکومت اسلامی میں معاشرے اجتماعی طور پر اللہ کی طرف بڑھیں گے، انفرادی طور پر بعض افراد کا کمال تک پہنچنا مقصود نہیں۔  کیون کہ اگر انفرادی طور پر ہی کمال تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے تو حکومت کی ضرورت نہیں ہر معاشرے میں ہی انفرادی طور پر بعض افراد حقیقی کمال کو پہنچے ہوۓ ہیں۔ اس کے لیے تو حاکم اسلامی کی ضرورت نہیں بلکہ عام پیر فقیر اور آستانوں پر یہ کام ہو رہا ہے۔ اسلامی حکومت اس لیے ضروری ہے کہ وہ اجتماع کو ہدایت کرتی ہے اور یہ کام آ کر کرتی ہے کہ لوگوں کو اللہ کے نزدیک کرنے کے موانع کو دور کرتی ہے اور پورا معاشرہ الی اللہ حرکت کرتا ہے۔ فرض کریں ایک دفعہ مثلا مسجد میں کوئی چھپ کر عبادت کر رہا ہے اور پورا محلہ اپے کام کام میں لگا ہوا ہے۔ لیکن ایک دفعہ آپ دیکھتے ہیں کہ پورے شہر کے لوگ جمع ہیں ہر طرف سے  «خلصنی من النار یا رب»کی صدائیں بلند ہیں اور گلی گلی روحانیت کا ماحول ہے لوگ اپنے معبود کو پکار رہے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں فرق ہے۔ اسلامی حکومت افراد کی اجتماعی تربیت کرتی ہے اور ان کو لقاء الہی کی طرف گامزن کرتی ہے۔

تبدیلی لانے کے لیے حقیقی انقلاب کی ضرورت

جس حرکت کی ابھی بات ہو رہی ہے اور معاشرے کو اس سمت میں لے جانے کا بیان ہوا ایسی تبدیلی کے لیے انقلاب کی ضرورت ہے۔ یعنی جتنا پاکستان کا نظام فاسد ہو چکا ہے بنیادی تبدیلی لاۓ بغیر آپ معاشروں کی سمت بدل نہیں سکتے۔ ابھی آپ دیکھ سکتے ہیں پاکستانی معاشرے کی سمت کس طرف ہے؟ جو نعرہ جمہوری حکومتیں لگاتی ہیں اس کی طرف عوام بھاگے چلی جاتی ہے۔ کیا ایک الیکشن، یا چند علماء کے پارلیمنٹ جانے یا بعض اداروں کو ٹھیک کر دینے سے یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف آپ کو انقلاب چاہیے کیونکہ اگر اس کے بغیر آپ کسی تبدیلی کی کوشش کریں گے تو یا تو آپ کو قتل کر دیا جاۓ گا، غائب کر دیا جاۓ گا۔ حکومت اسلامی سے پہلے آپ کو انقلاب کی چاہیے جو اس فاسد نظام کو جڑ سے کاٹ پھینکے۔ یہ گندگی بغیر انقلاب کے صاف نہیں ہو سکتی اور انقلاب بھی حقیقی معنوں میں جو جڑوں سے گندگی کو صاف کرے اور نئی بنیادوں کو قائم کرے۔

اسلام یا مفادات

حکومت اسلامی کا پہلا ہدف خدا ہے۔ دیگر حکومتوں اور اسلامی حکومت کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اسلامی حکومت کی اولین ترجیح عوام نہیں ہے۔ اگر ایک طرف ملک قوم اور عوام کا مفاد ہے اور دوسری طرف دین تو اسلامی حکومت کیا کرے گی؟ جواب واضح ہے وہاں پر ملکی مفاد کو قربان کر کے دین کو محفوظ کیا جاۓ گا۔ اس کے برعکس غیر اسلامی حکومتیں ہیں ان کا اولین ہدف ہی عوام اور ان کا رفاہ ہے۔ اگر دین، مذہب، اقدار اور عزت جاتی ہے اور غلامی کے نتیجے میں کوئی مفاد مل رہا ہے تو وہ سوچے بغیر اس غلامی کو قبول کرتے ہیں۔ یہی مسئلہ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کی تشکیل کے بعد ایران میں بھی پیش آیا۔ جب ملعون سلمان رشدی نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو امام خمینیؒ نے اس کے قتل کا فتوی دیا۔[3] بعض انقلابی افراد امام کی خدمت میں گئے اور کہا کہ اس فتوی کو واپس لے لیجیے ورنہ ایران پر پابندیاں لگ جائیں گی اور دنیا تعلقات ختم کر دے گی، ملکی اور ایرانی مفاد اس میں ہے کہ ہم اس مسئلے میں خاموشی اختیار کریں۔ وہاں پر امام خمینیؒ نے واضح طور پر فرمایا کہ یہ انقلاب اور سب قربانیاں اسلام کی راہ میں دی گئی ہیں اگر اسلامی اقدار اور رسول اللہﷺ کی شخصیت پر کوئی حرف آتا ہے وہاں ایران کو نہیں دیکھا جاۓ گا ہمیں اسلام اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھنا ہے اس کے لیے اگر ایران قربان ہوتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن دوسری طرف جمہوری یا پادشاہی حکومتیں ہیں ان کے لیے ذاتی مفاد اہم ہوتا ہے اس لیے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اس میں مفاد ہے یا نہیں؟ دین کی بات بھی تب ہی کرتے ہیں جب مفاد ہو اگر مفاد حاصل نہیں ہوتا تو دین اور اقدار کو قربان کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔

اسلامی حکومت کا دوسرا ہدف

دوسرا ہدف تمدن کو اسلامی بنانا ہے۔ جس تمدن اور ثقافت پر آج ہمارے معاشرے کھڑے ہیں وہ غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑا ہے با الفاظ دیگر تمدن کی بنیاد مادی ہے۔ اگر تعلیم ہے تو مادی بنیادوں پر، اس وقت ہم آرام سے کہہ سکتے ہیں کہ تمام علوم کی اساس شیطانی ہے۔ حتی حوزوی علوم بھی مادی مفادات کی بنا پر حاصل کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں صرف یونیورسٹیاں اور کالحز صرف اس لیے نہیں چاہیں کہ وہاں سے پڑھے لکھے افراد نکلیں لیکن جونکہ ان کی تعلیم کی اساس ہی مادی تھی تو وہ باہر آ کر لوگوں کی مسیحائی کرنے کی بجاۓ عوام کو ہی لوٹیں۔ مثلا آج کا پڑھا لکھا طبقہ چاہے وہ ڈاکٹر یا انجینئر ہوں یا پڑھے لکھے استاد وہ کیا کرتے ہیں؟ کیا یہی لوگ عوام کو لوٹنے میں مصروف نہیں ہیں؟ آخر یہ لوگ کیوں؟ یہ تو ہیں بھی پڑھے لکھے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام ہی شیطانی اساس پر کھڑا ہے اب ایک شیطانی نظام سے فارغ التحصیل ہونے والے سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ انسانیت کی خدمت کرے بلکہ وہ وائرس یا ایٹم بم ہی بناۓ گا جس سے لاکھوں انسان کی جان خطرے میں پڑے گی۔ اسلامی حکومت آتی ہے اور تمدن و نظاموں کی اساس کو تبدیل کرتی ہے، انسانوں کی تربیت کرتی ہے اداروں کی بنیاد کو اسلامی کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی ادارے کا نام اسلامی رکھ دینے سے یا مسجد بنا دینے سے وہ ادارہ اسلامی ہو جاتا ہے، اسلامی حکومت صرف اداروں میں مسجد بنا دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس ادارے کی اساس اور فکر کو اسلامی کرتی ہے۔[4]

منابع:

 

↑1 سیدرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۳۔
↑2 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۔
↑3 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۹تا۱۰۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:29
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۶ }

معاشرے میں حاکم کون ہو ؟

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ماضی سے لے کر آج تک یہ سوالات محققین کے زیر  مطالعہ رہے ہیں کہ معاشرے میں کن خصوصیات کا حامل شخص حاکم ہو؟حاکم کا معیار کیا ہے؟ کس شخص کو عوام پر حاکمیت کرنے کا حق حاصل ہے؟ایسا کیا کریں کہ حاکم ظلم نہ کرے، حاکم کرپشن نہ کر سکے، کیونکہ آج تک حکمرانوں کی تاریخ اس کی گواہ رہی ہے کہ جب بھی حاکم اقتدار میں آیا اس نے عوام پر ظلم کیا، دوسروں کا حق لوٹا، اپنوں کو نوازا اور ذاتی مفادات کو حاصل کیا۔کس طرح کا حاکم لایا جاۓ جو یہ کام نہ کرے اور حقیقی طور پر عوام کی سعادت کا خیال رکھے؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کے مختلف مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں جوابات دیے ہیں۔یہاں پر مختصر طور پر چند اقوال بیان کیے جار ہے ہیں اور آخر میں مکتب اہل بیتؑ کا نظریہ پیش کیا جاۓ گا۔

افلاطون کا نظریہ

افلاطون نے جو مدینہ فاضلہ کے ذیل میں نظریہ پیش کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  حاکم فیلسوف ہونا چاہیے۔ یہاں پر فیلسوف سے مراد صرف فلسفہ پڑھنے والا مراد نہیں ہے بلکہ پرانے ادوار میں فیلسوف اس شخص کو کہا جاتا تھا جو تمام علوم پر مہارت رکھتا ہو۔بہرحال افلاطون فرماتے ہیں کہ آئیڈیل حکومت وہ ہے جو عقلی حکومت ہو اور اس کا حکمران فیلسوف ہو۔ اس حکمران کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام مادیات سے اس  حاکم کو دور ہونا چاہیے۔ مثلا حاکم شادی نہیں کر سکتا، جب بیوی بچے نہیں ہونگے تو صرف اپنے ملک اور عوام کا سوچے گا۔حاکم اپنا مال نہیں بنا سکتاوغیرہ۔ یعنی حاکم کے ہاتھ پاؤں باندھ دو، کرپشن کے مواقع ا س سے چھین لے جانے چاہیں، کسی بھی شے کا مالک نہ بننے دیا جاۓ اور نہ ہی ذاتی کاروبار کرنے کی اجازت ہو۔اگر اس کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیرونی ذرائع سے وہ ضرورت پوری کی جاۓ۔ مثلا جنسی خواہشات کے لیے اسے خواتین مہیا کی جائیں لیکن کسی خاتون سے قلبی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔افلاطون در اصل حاکم کی شہوت کو بیرونی طور پر ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کے باطن اور اندرون میں اس نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے کا راہ حل پیش نہیں کر پا رہا۔ باالفاظ دیگر افلاطون کا نظریہ عملی نہیں ہے ۔بہر صورت اگرآپ کوئی ایسا حاکم لے بھی آئیں تب بھی اس کی نفسانی خواہشات کا علاج نہیں ہوا کیونکہ آپ نے بیرونی ذرائع کو ختم کیا اس کے درون میں اب بھی شیطان موجود ہے اس کا کیا علاج کریں گے؟ جب تک نفس انسان اندرون سے پاک نہیں ہو جاتا انسان شیطنت کرنے سے رک نہیں سکتا یہ حکمران ظلم و ستم اور لوگوں پر تعدی کرنے کے اور طریقے ایجاد کر لے گا۔تو پھر کیا کیا جاۓ؟

اہل سنت مسلمانوں کا نظریہ

اہل سنت محققین نے اس مسئلے پر بہت گفتگو کی ہے لیکن کوئی  راہ حل پیش نہیں کر سکے۔ در اصل اہل سنت کے پاس نظام کی صورت میں کوئی سیاسی نظریہ موجود نہیں ہے۔ان کے خلافت راشدہ کے نظریہ کو دیکھیں تو ہر چار خلیفہ الگ الگ طرح سے حاکم بنے ہیں۔لہذا کوئی خاص معیار ہمارے سامنے نہیں بن پاتا کہ کس معیار کے تحت حاکم کا انتخاب ہوو؟ پھر آپ بتائیں موازنہ قوا کا مسئلہ کیسے حل کریں گے؟ کیونکہ خود یہی مسئلہ خلیفہ سوم کے زمانے میں بھی رہا، حتی امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی بعض والی کرپشن کے جرم میں معزول ہوۓ ہیں۔اور آج بھی یہی مسئلہ پوری دنیا میں موجود ہے خود وطن عزیز میں بھی انہیں حکمرانوں  نے پاکستانی عوام کو  فقر میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یعنی کھربوں روپے اپنی آنے والی چند نسلوں کے لیے انہوں نے جمع کیے ہوۓ ہیں لیکن پھر بھی ہوس اقتدار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

ترقی یافتہ ممالک اور موازنہ قواء

یہ مسئلہ صرف جہان سوم (Third World)کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک بھی یہی کام کرتے ہیں۔اس وقت امریکہ برطانیہ اور جرمنی یہ وہ ممالک ہیں جن کی بات پوری دنیا نے ماننی ہے اور ان کے مفادات کو پورا کرنا ہے اگر کوئی ملک اپنے مفاد کا سوچتا ہے اور ان کی بات نہیں مانتا تو فورا ان پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور ان کی غلامی قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔مثال آپ کسی بھی ملک کی لے سکتے ہیں مثلا خود پاکستان اگر ان کے مفادات کو پورا نہ کرے فورا پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا دیتے ہیں۔یا ایران اور روس وغیرہ ہیں۔ اب روس ان کے کنٹرول سے باہر ہو رہا ہے تو انہوں نے ہر قسم کی پابندی اس پر لگادی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ روس بہت اچھا ملک ہے اور ہمیں اس کی ہمیشہ حمایت کرنی چاہیے ۔ جی نہیں! رہبرمعظم اور انقلابی طبقے نے کبھی بھی روس کی مطلق طور پر حمایت نہیں کی بلکہ رہبر معظم نے اصرار کرتے ہوۓ فرمایا کہ یوکرائن میں جنگ فورا بند ہونی چاہیے۔[1]پس ہمارے پاس کیا راہ حل ہے حاکم کی شہوت اور مادی سوچ کو ختم کریں؟مکتب تشیع نے اس کا راہ حل پیش کیا ہے۔

مکتب تشیع کا نظریہ

۔مکتب اہل بیتؑ نے مہدویت کو آئیڈیل حکومت قرار دیا ہے۔ مکتب امامت و ولایت میں صرف امام معصوم حاکم ہو سکتا ہے۔ اہلسنت و تشیع میں بنیادی ترین فرق یہی ہے کہ شیعہ رسول اللہ ﷺ کے بعد امام معصوم کواپنا حاکم مانتے ہیں ۔ اور ضروری قرار دیتے ہیں کہ دین اور دنیا کا رہبر و امام معصوم ہونا چاہیے لیکن اہل سنت اس امر کو ضروری قرار نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ غیر معصوم شخص بھی حاکم و امام ہو سکتا ہے۔ یہاں پر امام سے مراد حاکم ہے۔ معنوی امامت کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ امام علیؑ کی معنوی امامت کے تو بعض اہلسنت بھی قائل ہیں۔ اور معنوی امامت تو کسی سے چھینی نہیں جا سکتی بلکہ یہاں پر ظاہری امامت و حکومت کی بات ہو رہی ہے۔ افلاطون نے جو حاکم کا معیار بتایا تھا اس میں ظاہرا اس نے حاکم کے لیے ظاہری اسباب کو ختم کر کے مجبور کرنا چاہا لیکن درونی راہ حل پیش نہیں کیا۔ مکتب امامت کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس مکتب نے اندرون سے اور باطنی طور پر مسئلہ حل کیا ہے۔ جوشخص عصمت کے درجے پر فائز ہو محال ہے وہ کسی پر ظلم کرے یا کسی کا حق کھاۓ۔ اس سلسلے میں امیرالمومنینؑ کے اقوال ضرور مدنظر رکھنے چاہیں کہ جب وہ  ظاہری حکومت کو ہاتھوں میں لیتے ہیں اور اپنی خلافت کے دورانیےمیں انہوں نے کیسے حاکمیت کی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔امامؑ نعوذباللہ کسی پر ظلم کیا اور نہ کسی پر ظلم ہونے دیا، خود کرپشن کی اور نہ کسی کو اجازت دی، اپنے لیے اموال جمع کیے اور نا ہی اموال میں کسی کو خوردبرد کرنے کی اجازت دی۔[2][3][4][5][6][7][8][9][10][11][12][13]

دین اسلام کی نظر میں لوگوں پر ولی اور سرپرست صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ حقیقی ولی صرف اللہ تعالی ہے۔ لوگوں پر حق حکومت صرف اللہ کا ہے اور بقیہ سب مجازی ولی ہیں۔ حتی انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کی ولایت اللہ تعالی کی ولایت کے ذیل میں ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالی نے لوگوں کو صرف اپنی، رسول اللہﷺ اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے اس کے علاوہ لوگوں کے لیے جائز نہیں کسی اور انسان کو اپنا ولی بنائیں اور اس کی اطاعت کریں۔[14][15][16]

نظام ولایت فقیہ کی مشروعیت

رسول اللہﷺ نے اپنے بعد اللہ تعالی کے حکم سے بارہ آئمہ معصومینؑ کو جانشین قرار دیا۔ امت پر حاکمیت کا حق صرف ان ۱۲ آئمہ کرامؑ کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تمام حکمران غاصب اور طاغوتی ہیں۔ رہی بات زمانہ غیبت میں حاکمیت کی تو اس کے لیے کم از کم عدالت شرط قرار دی۔ زمانہ غیبت میں چونکہ امام معصوم تو موجود نہیں ہے کہ وہ ہم پر حکومت کرے پس اس زمانے میں حاکم کم از کم وہ ہو جو امام معصوم کی شخصیت سے قریب ترین ہو۔ عادل ہو، فقیہ ہو اعلم ہو اور مدبر ہو۔ اور اس پر دلیل خود آئمہ معصومینؑ کی سیرت ہے کہ خود امیرالمومنینؑ نے اپنے زمانہ حکومت میں غیر معصوم افراد کو لوگوں کا حاکم و والی بنا کر بھیجا۔ مالک اشترؒ، ابن عباس، عثمان ابن حنیف، محمد بن ابی بکر اور اس کے علاوہ بقیہ علاقوں کے والی سب کے سب غیر معصوم تھے۔ لیکن ان کی رہبری و ولایت ذاتی نہ تھی بلکہ امام علیؑ کی ولایت کے سائے میں ان کی نیابت میں وہ اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں پر ولی مقرر ہوۓ۔ ولایت فقیہ بھی در اصل فقیہ کی ذاتی ولایت و رہبری کا نام نہیں بلکہ امام زمانہؑ کی نیابت میں وہ لوگوں کے ولی ہیں اور ان کا حکم ویسے ہی حجت ہے جیسے مالک اشترؓ کا حکم مصر کے لوگوں پر حجت تھا۔ مگر یہ کہ کوئی شخص خدانخواستہ ہواۓ نفس کا شکار ہو کر امامؑ کی نیابت سے خارج ہو جاۓ اس وقت اس کی ولایت اور اتباع جائز نہ ہوگی۔[17]

منابع:

 

↑1 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑2 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۷۷۔
↑3 محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۰، ص۷۴۵۔
↑4 محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۲، ص۲۰۸۔
↑5 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۵۳،ص۴۴۴۔
↑6 محمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۰۰۔
↑7 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۶۔
↑8 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۵، ص۵۷۔
↑9 محمد ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۱، ص۱۹۲۔
↑10 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ ،مکتوب۴۳، ص۴۱۵۔
↑11 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۶،ص۳۸۳۔
↑12 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۰، ص۳۷۷۔
↑13 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۷۱، ص۴۶۲۔
↑14 شوری: ۹۔
↑15 مائدہ: ۵۵۔
↑16 نساء: ۵۹۔
↑17 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:27
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۵}

مختلف دور کی حکومتیں اور تشیع

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

پچھلی قسط میں ہم نے جانا کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق حق حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے یہ حق حاکمیت اپنی تبع میں رسول اللہﷺ اور ان کے بارہ معصوم اوصیاء کو عطا کیا ہے۔ حاکم کا معصوم ہونا ضروری ہے اگر کوئی حاکم معصوم نہ ہو تو وہ الہی حاکم نہیں ہو سکتا۔ مادی طور پر دیکھا جاۓ تو حاکم طبقہ سب چیزوں پر حاوی ہوتا ہے، یہ شخص اگر معصوم ہو تو سب چیزیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اگر معصوم نہ ہو تو معاشرے میں ہرج مرج لازم آتا ہے۔ حاکم طبقہ افراد پر مسلط ہو جاتا ہے اور ان کا حق سمیٹ لیتا ہے اور ہر شے کو اپنے لیے قرار دیتا ہے۔ اس ناانصافی کو روکنے کے لیے اللہ تعالی نے ضروری قرار دیا ہے کہ معاشروں پر صرف وہی شخص حاکم بنے جو معصوم ہو۔

حاکم کو کیسے کنٹرول کیا جاۓ؟

ماضی سے لے کر آج تک پولیٹیکل سائنس کا اہم ترین موضوع جو سب سے زیادہ زیر بحث رہا ہے ’’موازنہ قوا ‘‘ہے۔ موازنہ قوا یعنی طاقت اور قوت کا توازن کیسے برقرار رکھا جاۓ؟ایک حاکم جب تمام قدرت کے ساتھ ایک معاشرے پر مسلط ہو جاتا ہے اس کو کنٹرول کیسے کیا جاۓ؟ زمانہ ماضی میں بادشاہ ہوا کرتے تھے وہ عام لوگوں کے ساتھ غلاموں جیسا رویہ رکھتے، ان سے سارا دن کام لیتے اور سرکاری خزانہ بھرتے، جنگوں میں بھی انہیں عام لوگوں کو دھکیلا جاتا اور حاکم طبقہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا۔ آج بھی پوری دنیا میں یہی مسئلہ ہے مثلا مغربی دنیا ہے، امریکہ جو خود کو سپر پاور سمجھتا ہے اور ملکوں پر چڑھائی اور ان کے اموال اور خزانے لوٹنا اپنا حق سمجھتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ موازنہ قوا یعنی ایک قدرت کو کیسے کنٹرول کریں؟ مقتدر بادشاہ، طاقتور ادارے یا کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک پر چڑھائی سے کیسے روکیں؟ یہ وہ بحث ہے جس پر بہت سے نظریات موجود ہیں، مسلمان مفکرین نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن ان سب میں ہمارا موضوع اس سلسلے میں آئمہ معصومینؑ کا مؤقف ہے۔

مکتب تشیع بطور سیاسی تفکر

شیعہ وہ گروہ ہے جو ایک سیاسی مسئلے پر دوسرے مسلمانوں سے اختلاف کی بنا پر اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ اور وہ سیاسی مسئلہ یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے بعد امت کا حکمران کون ہوگا؟ کیا مسلمانوں نے خود اپنا حکمران بنانا ہے یا اس مسئلے کو رسول اللہﷺ خود حل کر کے گئے ہیں؟ یہ وہ سیاسی مسئلہ تھا جو بعد میں اور حتی آج تک عقائدی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ تشیع کی اساس ہی اسی سیاسی مسئلے کی بنا پر تھی۔ تشیع شروع سے ہی ایک سیاسی تفکر رکھتا تھا اور وہ تفکر یہ تھا کہ امت کا حکمران صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہو۔ حاکم انتخابی نہیں ہو سکتا بلکہ انتصابی ہوگا۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل تھا کہ دین میں کوئی بھی چیز انتخابی نہیں، اور امت پر حکمرانی کا مسئلہ جو کہ اساسی ترین مسئلہ تھا کہ جس کی دلیل یہ ہے کہ آج تک امت مسلمہ اس مسئلے پر دو گروہوں میں بٹ گئی، یہ وہ مسئلہ تھا جس میں تشیع نے اپنا راستہ تمام اسلامی فرقہ جات سے جدا رکھا اور یہی وہ تفکر تھا جس کی بنا پر تشیع کی تاریخ صدرِ اسلام سے لے کر آج تک سرخ ہے۔

تشیع کی سیاسی فکر اور حکمران

جیسا کہ بیان ہوا کہ جیسے ہی ثقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کا انتخاب ہوا وہیں سے امت مسلمہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک گروہ وہ تھا جس نے آرام سے جا کر خلیفہ اول کے انتخاب کو قبول کر لیا اور بیعت کر لی۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس نے کہا کہ خلافت انتخابی نہیں، یہ وہ مسئلہ ہے ہی نہیں جسے امت کے انتخاب پر چھوڑ دیا جاۓ بلکہ یہ مسئلہ تو انتصابی ہے اور امیرالمومنینؑ پہلے سے ہی امت پر نصب شدہ ہیں۔ اس سیاسی تفکر کا اٹھنا تھا کہ حکومت نے بلا تفریق سب سیاسی مخالفین کو سرکوب کرنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلی قربانی بنت رسول حضرت فاطمہ زہراؑ نے پیش کی۔ اور خلیفہ کے دربار میں حقیقی دین اور اس کا نظام متعارف کیا، لیکن امت نے ساتھ نہ دیا۔ [1][2][3][4][5][6]بی بی کی غم انگیز شہادت کے بعد یہ سیاسی اختلاف ختم نہ ہوا بلکہ اور بڑھ گیا، اہلبیتؑ کا معاشرے نے بائیکاٹ شروع کیا، یہاں تک کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت آئی۔ فتنوں کا شکار امیرالمومنینؑ کی حکومت زیادہ دیر تک نہ چل سکی، پہلے امام کو شہید کر دیا گیا، دوسرے امام جب تک حالات ان کے اختیار میں تھے جنگ کرتے رہے لیکن ان کو بھی صلح پر مجبور کر کے بعد میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد واقعہ کربلا ہوا کہ امت کے حقیقی امام نے امت کو ظالم حاکم کے خلاف جنگ کرنے پر بلایا لیکن امت کربلا نہ آئی اور امام حسینؑ بھی بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ کربلا کے بعد تشیع کے اس سیاسی تفکر اور شیعہ کو بہت شدت کے ساتھ کچلا گیا اور آج تک کچلا جا رہا ہے۔ یہ کہانی کسی ایک سال یا دو سال کی نہیں بلکہ صدیوں سے تشیع اس سیاسی تفکر پر کچلا جا رہا ہے۔

حکومت مخالف تحریک کا مطلب

ان حالات پر اگر دقت کی جاۓ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک ریاست میں حکمران کے خلاف تحریک چلتی ہے تو ہوتا کیا ہے؟ حکومتی عسکری طاقتیں اکشن میں آجاتی ہیں، سیاسی تحریک کو مختلف طریقوں اور بہانوں سے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلا تحریک کے بڑے بڑے افراد کو قتل کروا دیا جاتا ہے، اگر قتل کرونے میں حکومت کامیاب نہ ہو سکے تو یا تو تحریک کے لیڈران کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے یا جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، چھوٹے کارکنوں کو بھی جیلوں میں یا فتنہ انگیزی کے جرم میں قتل کروا دیا جاتا ہے۔ یہ حال تشیع کے ساتھ رہا ہے۔ ہمارے سب آئمہ معصومینؑ شہید ہوۓ ہیں، ایسا نہیں کہ وہ کچھ کر ہی نہیں رہے تھے اور حکومتوں نے بغیر کسی وجہ کے ان کو شہید کروا دیا، اگر آئمہ معصومینؑ غیر اسلامی حکومتوں کا خاتمہ نہ چاہتے ہوتے اور حق کے قیام کی بات نہ کرتے، اپنی انفرادی زندگی گزارتے تو ایک امام بھی شہید نہ ہوتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سب آئمہ معصومینؑ کو یا تو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی، جب وہ نہ ہو سکا تو اپنی زیرنگرانی رکھا گیا۔ جب حالات کنٹرول میں نہ کر سکے تو شہید کروا دیا۔

مکتب تشیع ایک سیاسی مکتب

ایک اعتراض جو تشیع پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگوں نے آج کے دور میں ان سیاسی نظریات کو خود سے گھڑا ہے، یا کہتے ہیں کہ اسلام نے سیاست اور حکومت کی تو بات ہی نہیں کی یہ تم لوگوں نے آج کے دور میں سب کچھ ایجاد کیا ہے؟ اگر تشیع کے ان نظریات کے مبانی بھی آج گھڑے جاتے تو یہ بات درست تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تشیع کے ہاں سیاسی تفکر اور اس کے مبانی صدر اسلام سے ہی پاۓ جاتے ہیں۔ یا خود ولایت فقیہ کے نظریے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو امام خمینیؒ کا ایجاد کردہ نظریہ ہے اس سے پہلے تو کسی نے بھی فقیہ کی ولایت کی بات تک نہیں کی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کم علمی یا اسلام دشمنی کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ ورنہ اگر تشیع کی تاریخ اور اس کے آئمہ کی تاریخ کو بغور مطالعہ کیا جاۓ تو تشیع کا سیاسی تفکر صراحت کے ساتھ ہمیں صدر اسلام سے میں ہی موجود نظر آتا ہے۔

نظریہ امامت بحیثیت سیاسی نظریہ

امامت، خلافت کے برعکس تشیع کا ایک سیاسی نظریہ تھا۔ شیعہ حکومتی میدان میں آئمہ معصومینؑ کو اپنا حقیقی امام (امام بمعنی حاکم) مانتے تھے۔ معنوی طور پر تو آئمہ معصومینؑ کو ولایت حاصل ہے ہی، لیکن یہاں پر بات ان کی ظاہری حکومت کی ہو رہی ہے۔ اہلسنت خلفاء کو اپنے اوپر حکمران سمجھتے تھے لیکن اس کے برعکس شیعہ اپنے نظریہ امامت کی بنا پر آئمہ معصومینؑ کو اپنا امام اور دنیوی طور پر اپنے اوپر حکمران مانتے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ امامت کے نظریے کو بعد میں عقائدی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کو مناظرانہ حیثیت سے دیکھا جانے لگا جبکہ یہ ایک سیاسی نظریہ تھا اور سیاسی نظریہ ہمیشہ عملی صورت میں لاگو ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ تشیع پر شدید ظلم و ستم تھا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد سب شیعہ ایک طرح سے روپوش ہوگئے۔ مثلا بی بی زینبؑ، عبداللہ بن جعفر، ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کی دیگر شخصیات مکمل طور پر ایک سائڈ پر کر دی گئیں۔ کربلا کے بعد معاشرے میں ان افراد کو اصلا ابھرنے ہی نہیں دیا گیا۔

امام زین العابدینؑ کی تشیع کو بچانے کی تدبیر

کربلا کے بعد تشیع کو شدت کے ساتھ کچل دیا گیا، دشمن کی خواہش تھی کہ آئمہ معصومینؑ کے پیروکاروں کو نیست و نابود کر دیا جاۓ۔ یہاں پر امام زین العابدینؑ نے تشیع کو بچانے کی تدبیر کی۔ اب یہاں پر علماء تشیع کے مفکرین دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک علماء کرام کا گروہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ اگر کوفہ کے شیعوں کے قیام وجود میں نہ آتے تو اسی دور میں حکومت اسلامی قائم ہو جاتی اور امام زین العابدینؑ امت کے ظاہری خلیفہ بن جاتے۔ اس کے لیے ان کی تدبیر یہ تھی کہ بنو امیہ اور آل زبیر کا آپس میں ٹکراؤ ہو، ان کے ٹکراؤ سے فائدہ تشیع کو ہوگا، بالاخر جو لشکر بھی ان میں سے کامیاب ہوتا تازہ جنگ سے فارغ ہوتا، اور ایک اور جنگ کے لیے آمادہ نہ ہوتا، منصوبہ یہ تھا کہ ان دو کا ٹکراؤ ہو اور بعد میں جیتے ہوۓ لشکر سے امامت کے پیروکار امامؑ کے رکاب میں جنگ کر کے ان کو شکست دیں  اور اس طرح امامت کا نظام نافذ ہوتا۔ لیکن اس منصوبے کو کوفہ کے بعض شیعہ رہنماؤں نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ کوفہ میں اس وقت دو سیاسی شیعہ پارٹیاں موجود تھیں۔ ایک سیاسی پارٹی مختار ثقفی کی تھی اور دوسری سلیمان ابن صرد خزاعی کی۔ ان مفکرین کے بقول مختار ثقفی کے قیام نے امامؑ کے منصوبے کو نقصان پہنچایا کیونکہ مختار نے مصعب کے خلاف جنگ کر کے آل زبیر کی تو کمر توڑ دی لیکن جو اصل فائدہ ہوا وہ بنو امیہ کو ہوا۔اصلی دشمن اور حریف جو ظاہری طور پر قدرت میں بھی تھا وہ بنو امیہ تھے ۔ لیکن مختار کے قیام کے نتیجہ میں بنو امیہ کے لیے دونوں حریف (آل زبیر اور شیعہ) ہر دو کمزور ہو چکے تھے۔ اس بنا پر اسلامی حکومت قائم نہ ہو سکی۔[7] تاہم علماء کرام کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مختار ثقفی کا قیام درست تھا اور اس کو امامؑ کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اس پر وہ دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ امامؑ نے مختار کے لیے دعا کی کیونکہ اس نے انتقام خون امام حسینؑ لیا۔[8]

تشیع امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے دور میں

یہ وہ دور تھا جس کے لیے گزشتہ آئمہ معصومینؑ نے خصوصی طور پر آمادگی کی ہوئی تھی کہ حکومت اسلامی و نظام امامت نافذ ہو جاۓ، اس دور میں شیعوں کی آبادی بڑھ چکی تھی، امام باقرؑ و امام صادقؑ کے افکار و ان کے شاگردوں کی کتابیں عالم اسلام میں پھیل چکی تھیں۔ دوسری طرف امام کاظمؑ کا پھیلایا ہوا وکالت کا نظام جو بہت کامیاب تھا۔ اس دور میں بھی نظام امامت نافذ ہوجانا تھا لیکن اس دور کے شیعہ راز کی نگہداری نہ کر سکے۔[9] جذباتی شیعوں نے امر امامت کا راز افشاء کر دیا جس کی وجہ سے حکومتوں کی جانب سے شدید پکڑ دھکڑ ہوئی، اصحابِ آئمہ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، عام شیعوں کا جینا حرام کر دیا گیا اور خود رہبر تشیع امام کاظمؑ کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ یہ دور تشیع پر سخت ترین دور تھا، ایک طرف سے اسلامی تعلیمات کو مسخ کیا جا رہا تھا، شہبات کی بھرمار اور فرہنگی و ثفافتی طور پر فحاشی بڑھ گئی۔[10] ہر دوسری جگہ پر قیام ہو رہے تھے سیاسی احزاب وجود میں آ چکی تھیں، علویوں، زیدیوں اور خوارج کے قیام سے ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔ اسی اثناء میں شیعہ اثناء عشری گروہ ہے جو مطیع محض امامت ہے۔ اگرچہ بہت ہی قلیل تھا لیکن موجود تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود سے کوئی حرکت نہیں کرتے تھے اگر امام کہتے کہ گھروں میں بیٹھے رہو تو بیٹھ جاتے اور اگر کہتے کہ قیام کے لیے آ جاؤ تو تیار رہتے۔ یہ نا تو عباسیوں کے نعرے میں بہکے جنہوں نے امویوں کے خلاف انتقام امام حسینؑ کا نعرہ لگایا تھا اور نا کسی دوسرے پرچم کے تلے گئے۔ ان سختیوں کا زمانہ چلتا رہا یہاں تک کہ غیبت کا دور آیا۔

مکتب تشیع غیبت کے زمانے کے بعد

ہمارے آخری اماموں کا زمانہ تشیع کے لیے سخت ترین دور ہے۔ اس دور میں آئمہ معصومینؑ ایک طرح سے سرکاری نظر بندی میں محبوس تھے اور ان کا اپنے شیعوں سے رابطہ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا۔ یعنی اگر کوئی امام سے ملنے آتا تو اسے یا تو قتل کر دیا جاتا یا زندانوں میں ڈال دیا جاتا، شدید تقیہ کے دور تھا اس لیے اس دور کے اصحاب بہت سختی سے اماموں سے مل پاتے، کبھی غلام کی صورت میں خرید لیے جاتے اور کچھ عرصہ امام کی خدمت کرتے، کبھی کسی فروشندے کی شکل میں چیزیں فروخت کرنے کے بہانے امام سے ملاقات کرتے۔ یعنی اگر آئمہ معصومینؑ کی تدبیر نہ ہوتی اور خدا نے اس نور کی حفاظت نہ کی ہوتی تو اگر کوئی اور گروہ یا جماعت ہوتی تو یقینا نابود ہو جاتی۔ یہی تقیہ کا دور غیبت تک رہا، غیبت کے ابتدائی دور میں تشیع کی اساس کو بچایا گیا جس کو ختم کرنے کے لیے عباسی حکمران ایڑی چوٹی کا زور لگاۓ ہوۓ تھے۔ اس دور میں کتابیں لکھی گئیں فقاہت اور نظام مرجعیت کی اساس اسی دور میں رکھی گئی۔ 

شیخ طوسیؒ سے علامہ مجلسیؒ تک کا دور

شیخ طوسیؒ مکتب تشیع کی وہ عظیم ترین شخصیت ہیں جنہوں نے بہت خدمات انجام دیں۔ آپ نے تفسیر، حدیث، کلام، فقہ، اصول فقہ، رجال اور متعدد دیگر علوم میں کتابیں لکھ کر تشیع کی تراث کو محفوظ کیا۔[11] اس کے بعد آنے والے دیگر فقہاء و علماء تشیع نے اس مکتب کی حفاظت کی یہاں تک علامہ مجلسی کا دور آتا ہے۔ ان کے دور تک تشیع کے لیے کافی حد تک فضا کھل چکی تھی۔ شیعہ کی پہلی حکومت علامہ مجلسی کے دور میں بنی۔ صفوی بادشاہ مذہبی طور پر شیعہ تھے اگرچہ بادشاہی نظام کے تحت ہی انہوں نے امور مملکت کو چلایا اس لیے ہم اس حکومت کو مکتب تشیع کی حکومت یا نظام امامت قرار نہیں دے سکتے لیکن بلا شک و شبہ ایک شیعی حکومت تھی جس میں شیعہ کے لیے حالات کھل گئے۔ اسی دور میں سید علماء کے لیے کالے عمامے کا رواج پڑا، علماء کا لباس، عزاداری کے طور طریقے اور بہت سی رسومات اسی دور کی ایجاد ہیں۔ اسی دور میں دوبارہ شیعہ سیاسی تفکر بھی ابھرنے لگا، علماء تشیع نے سیاسی نظریات پر قلم اٹھانا شروع کیا، اگرچہ قلیل تھے لیکن موجود تھے ایسے علماء جو سیاسی تفکرات رکھتے تھے۔ 

علامہ مجلسیؒ سے امام خمینیؒ تک کا دور

سیاسی تفکر پر بحث مباحثہ اور تصنیفات اگرچہ علامہ مجلسی کے دور سے دوبارہ شروع ہو گئی تھیں لیکن علماء تشیع کا سیاسی میدان میں باقاعدہ طور پر ورود اس وقت شروع ہوا جب اسلامی ممالک میں انگریز استعمار کے لیے داخل ہوا۔ [12]علماء کرام نے اسلامی تفکرات اور ثقافت کو بچانے کے لیے انگریزوں کے خلاف بھرپور مقاومت کی، سیاسی تفکرات کو ابھارا گیا اور سیاسی اقدامات شروع ہوۓ۔ اس دور تک اگرچہ علماء شیعہ کی جانب سے مختلف سیاسی اقدامات کیے جا رہے تھے لیکن باقاعدہ طور پر کوئی سیاسی نظریہ موجود نہ تھا۔ یعنی کوئی سیاسی آئیڈیالوجی موجود نہ تھی جس کی بنا پر شیعہ کو اکٹھا کر کے مکتب اور اسلامی مبانی کے تحت ایک دینی حکومت قائم ہو۔ امام خمینیؒ وہ اولین شخصیت ہیں جنہوں نے نظریہ امامت کو سیاسی جہت سے بحث کیا۔ وہ سیاسی تفکر جو صدر اسلام میں تشیع کی اساس بنا دوبارہ مناظروں کی بحث سے نکل کر اپنی اصلی شکل یعنی سیاسی و حکومتی نظریے کے طور پر دیکھا گیا۔ امام خمینیؒ نے نظریہ امامت کو سیاسی جہت دی اور اس کو مہدویت سے ربط دیا کیونکہ خود مہدویت بھی قرآنی اور سیاسی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر اس پورے کرہ عالم پر حق کا غلبہ ہونا ہے اور باطل مٹ جانا ہے۔ 

امام خمینیؒ اور نظریہ امامت

امام خمینیؒ سے پہلے اگرچہ ولایت فقیہ کی بحث موجود تھی اور ہمارے قدیم فقہاء نے فقیہ کی ولایت اور اس کے اختیار پر بحثیں کی ہیں،[13][14]لیکن امام خمینیؒ نے اس بحث کو  فقہ سے نکال کر کلام میں داخل کیا اور عقیدہ امامت کے ذیل میں ولایت فقیہ کو پیش کیا۔ امام خمینیؒ نے بیان کیا کہ دین اور اس کے احکام رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے بعد لغو نہیں ہو گئے بلکہ آج بھی ان کو نفاذ کی ضرورت ہے، جو ذمہ داری رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی ہے وہی ذمہ داری نیابت میں علماء کی بھی ہے۔[15] اس لیے جس طرح انبیاء الہی اور آئمہ کا وظیفہ ہے کہ وہ الہی حکومت قائم کریں فقیہ کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ اس حکومت کے قیام کے لیے اقدام کرے[16]۔ پس اگر کوئی کہتا ہے کہ نظریہ امامت یا نظریہ ولایت فقیہ امام خمینیؒ کی ایجاد ہے، ایسی بات کرنا غلط ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اس نظریے پر مواد اور نظریات بہت قدیمی ہیں، سیاسی نظریات صدر اسلام سے ہی موجود تھے، لیکن ان نظریات پر مطالعات اور اس پر عمل بہت دیر سے شروع ہوا، اگر ہمارے نظریات کا مواد اور مبانی جدید ہوتے تو تب آپ کا اعتراض درست تھا۔ اس لیے تشیع کے سیاسی نظریات پر اعتراض نہیں بنتا۔

موازنہ قوا کا مسئلہ اور تشیع کا نظریہ

ہمارا سوال یہ تھا کہ تشیع نے قوت کو موازن رکھنے کے لیے کیا راہ حل پیش کیا ہے؟ اسی کے ذیل میں ہم نے مندرجہ بالا تشیع کے سیاسی تفکرات اور ان کے احوال کو بھی بیان کیا۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مکتب امامت نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ حاکم کو معصوم ہونا چاہیے۔ صرف وہی شخص لوگوں پر حاکم اور ان کا امام ہو سکتا ہے جو معصوم ہو۔ اس لیے سب سے پہلا اعتراض جو خلفاء پر شیعہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خلفاء معصوم نہیں تھے اور آئمہ معصومینؑ معصوم ہیں اس لیے حقیقی حاکم و معاشرے کے رہبر یہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنی، رسول اللہﷺ اور اولی الامر کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللهَ‌ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ».

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔[17]

پچھلی قسط میں ہم نے ثابت کیا کہ اولی الامر کی جب مطلق طور پر اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد صرف امام معصوم ہو سکتا ہے ہر حاکم اولی الامر نہیں ہو سکتا۔[18] اور جہاں تک مسئلہ ہے زمانہ غیبت کا کہ جب امام ظاہری طور پر موجود نہیں ہیں اس دور میں صرف وہ شخص حاکم بن سکتا ہے جو کم از کم عادل ہو اور فقیہ ہو۔ جیسا کہ ولی فقیہ معصوم نہیں ہوتا اس کو آپ اسلامی حاکم کیسے مان سکتے ہیں اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ ولی فقیہ اگرچہ معصوم نہیں ہے لیکن اس کا عادل اور فقیہ ہونا شرط ہے۔ اگر ولی فقیہ ایک حکم بھی اپنی خواہش نفسانی کی بنا پر دے یا خدانخواستہ کسی فسق کا مرتکب ہو اس کی دینی حیثیت ختم ہو جاۓ گی۔ جب تک وہ عدالت کی حدود میں عین دین کے احکامات جاری کرتا ہے اس کی اطاعت کی جاۓ گی کیونکہ یہ اطاعت در اصل خود اس کی اطاعت نہیں بلکہ دین کی اور شریعت کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی غیر دینی حکم ولی فقیہ کی جانب سے جاری ہوتا ہے اس کی ولایت ساقط ہو جاۓ گی اس لیے ولی فقیہ کا فقیہ ہونا ضروری ہے یعنی ایسا شخص ہو جو احکام شرعیہ کو ان کی دلیل سمیت جانتا ہے۔ لیکن غیر معصوم کی اس جہت سے اطاعت کرنا کہ وہ معصوم کے بتاۓ ہوۓ فرمان ہی ہمیں بتاۓ گا اس بات پر ہمارے پاس کوئی دلیل ہے؟ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سیرت رسول اللہﷺ اور سیرت امیرالمومنینؑ موجود ہے۔ ان ہر دو بزرگوار شخصیات نے غیر معصوم ہستیوں کو اپنی نیابت میں علاقوں کا والی بنایا۔ مثلا امیرالمومنینؑ نے حضرت مالک اشترؓ کو مصر کا والی بنایا۔ اب مصر والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کسی غیر معصوم کی حکومت کو نہیں مانتے۔ امام نے جو دستاویز مالک کے لیے تیار کی ہے اس میں خود مصر والوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کرو کیونکہ جب تک یہ میرے احکامات پر چلتا ہے سمجھو یہ میں امام کی اطاعت ہے۔ [19]پس غیر معصوم بھی حاکم ہو سکتا ہے جب تک امام کی اطاعت میں ہو اگر ہواۓ نفس اس پر غالب آ جاۓ تب وہ نہ تو امام کا والی رہتا ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت واجب ہے۔[20]

 

منابع:

 

↑1 شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔
↑2 طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔
↑3 نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمہ الاطهار، ج۳، ص۳۴۔
↑4 امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔
↑5 طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔
↑6 فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔
↑7 سائٹ فارس نیوز۔
↑8 سائٹ شیعہ نیوز۔
↑9 سائٹ علوم انسانی۔
↑10 آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مکارم شیرازی۔
↑11 سائٹ ویکی فقہ۔
↑12 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑13 سائٹ علوم انسانی۔
↑14 آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مصباح یزدی۔
↑15 آفیشل ویب سائٹ امام خمینی۔
↑16 سائٹ ویکی فقہ فارسی۔
↑17 نساء:۵۹۔
↑18 سائٹ البر۔
↑19 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۳۴۔
↑20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:25
عون نقوی