بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

{ دروس ولایت فقیہ:قسط۴۴ }

مدینہ فاضلہ کے لیے نہضت کا قیام

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ دروس میں ہم نے مدینہ فاضلہ کی تعریف اور اس کی خصوصیات کو بیان کیا۔ مدینہ فاضلہ میں علمی اور عملی رُشد ہوتا ہےلیکن اس رُشد کی اساس ہدایت  ہوتی ہے۔ علم کو آج کے دور میں دنیوی اور دینی میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ حقیقت میں یہ تقسیم درست نہیں ہے۔ دنیوی علوم بھی دراصل دینی علوم ہی شمار ہوتے ہیں۔ دین نے جو تقسیم پیش کی ہے وہ نافع اور غیر نافع علم کی تقسیم ہے۔ علم نافع کو حاصل کرنے کی تشویق وارد ہوئی ہے۔ علم نافع سے مراد ہر وہ علم ہے جو انسان کو فائدہ پہنچاۓ۔ اس تناظر میں فقہ ہو یا کیمسٹری ہر دو علمِ دین شمار ہونگے۔ لیکن ان ہر دو علوم کا ہدایت کی اساس پر ہونا ضروری ہے۔ جب تک اساس ہدایت نہیں مدینہ فاضلہ نہیں بنے گا، نظام جہالت کو ختم کر کے ہدایت کی اساس قائم کرنے کے لیے ہمیں نہضت کی ضرورت پڑتی ہے۔

رُشد کا ہدایت کے ہمراہ ہونا

یہ بات تاکید کے ساتھ بیان ہوئی کہ علمی رُشد کی اساس ہدایت پر ہو۔ اگر اساس ہدایت نہ ہوئی تو علمی ترقی تو کر جائیں گے لیکن یہ ترقی انسان کے لیے مفید نہ ہوگی بلکہ انسان کی تباہی کا باعث بنے گی۔ علم اور سائنس کا ہدایت کے ہمراہ ہونا ضروری ہے۔ عمل کے مرحلے میں بھی ہدایت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ علم کے بغیر عمل حاصل نہیں ہوتا بعض اوقات خود علم کا حصول ہی کمال ہوتا ہے کیونکہ علم خود کمال ہے۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علم پیدا ہونے کی صورت میں اس کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری قرار پاتا ہے۔ ہمارے معاشروں کی ایک مشکل یہ ہے کہ علم تو ہوتا ہے لیکن اس کے مطابق عمل نہیں ہوتا۔ مثلا ہم سب کو علم ہے کہ ہر دور میں ایک ہادی کا ہونا ضروری ہے اگر عمل کے مرحلے میں ہم اس کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق عمل نہ کریں تو اس میں ہمارا نقصان ہے۔ ایک معاشرہ ہدایت یافتہ تب کہلاتا ہے جب علم کے مطابق عمل کرے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم کے نظام میں زندگی گزارنا جرم ہے لیکن یہ علم ہمارے لیے کسی عمل کے وجود میں آنے کا سبب نہیں بنتا۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق اپنے اموال سفہاء کے حوالے نہیں کرنے چاہییں۔[1] لیکن ہمارے معاشروں میں اموال پر احمق ترین افراد حاکم ہیں۔ ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟ رسول اللہﷺ کی سیرت اور تاریخ اسلام میں ہم ان مسائل کا حل پاتے ہیں۔ خود ایران میں انقلاب اسلامی بھی اس سوال کا جواب بنتا ہے۔ اور وہ جواب یہ ہے کہ نہضت کو وجود دیا جاۓ۔ نہضت کے بغیر آپ مدینہ فاضلہ کو قائم نہیں کر سکتے۔ با الفاظ دیگر اگر آپ پاکستان کے حالات کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہدایت کی اساس پر ایک ایسی نہضت کا قیام ضروری ہے جو معاشرے کی فاسد جڑوں کو کاٹے اور ان کی اصل سے اصلاح کرے۔ اسی کو انقلاب بھی کہتے ہیں، انقلاب اور اصلاحات کا بنیادی فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ اصلاحات میں چند سطحی امور کو اوپر اوپر سے تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن انقلاب بنیاد سے فساد کی جڑ کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔

ہماری تدبیر اور آئمہ معصومینؑ کی تدبیر

پاکستان میں اکثر طور پر یہ تدبیر مدنظر رکھی جاتی ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں اس لیے پاکستان میں اسلامی حکومت کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہاں اسلامی حکومت آ ہی نہیں سکتی، اس تدبیر کو لے کر آگے کا منصوبہ بناتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، مثلا اسی منصوبے کے تحت ان کو سیاستدانوں کے آگے جھکنا پڑتا ہے، حکمرانوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں، ان کے ساتھ سیاسی سمجھوتے بھی کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کامیاب نہیں ہو پاتے، مثلا یہی لوگ جن کی ہم توجہ جلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شیعہ قوم کی حمایت مفت میں ان کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں ایک دفعہ بھی ہم ان کو اپنے مراکز اور مدارس میں نہیں لا سکے۔ لیکن دوسری جگہوں پر یہ سیاستدان خود دورہ کرنے جاتے ہیں۔ بہت فرق ہے۔ ہم ان کے دروازوں پر جاتے ہیں اور وہ ہمارے پاس کپھی نہیں آۓ الٹا ہمارے دشمنوں کے مراکز میں گئے ہیں۔ مکتب تشیع سمجھوتوں کا قائل نہیں ہے۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کسی سیاستدان اور حکمران کے ساتھی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا، ان کا منصوبہ پہلے دن سے یہ رہا کہ الہی حکومت قائم کی جاۓ، ایک مخلص افراد کا قلیل گروہ آمادہ ہو جس سے قوت اور اقتدار ہاتھ میں لے کر عادلانہ نظام برقرار ہو، کیونکہ حکومت اور ولایت کا حق اللہ تعالی نے صرف آئمہ معصومینؑ کو دیا ہے۔ اللہ کی مخلوق پر اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حکومت کرے۔ یہ حق صرف اللہ تعالی نے آئمہ معصومینؑ کو دیا ہے اور اسی حق کے نفاذ کے لیے آئمہ نے کوشش کی ہے۔

نہضت اور دہشت گردی میں فرق

جب کہا جاتا ہے کہ وہ راستہ اختیار کیا جاۓ جو ہمارے آئمہ معصومینؑ نے اختیار کیا تو کہا جاتا ہے کہ آپ ملک میں دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں یا ملک کو توڑنا چاہتے ہیں؟ یہ وہ اعتراضات ہیں جو بہت ہی نادان انسان کر سکتا ہے۔با الفاظ دیگر آپ آئمہ معصومینؑ کی نہضتوں کو دہشتگردی کہہ رہے ہیں۔  نہضت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ ملک میں عسکری کاروائیاں کروائیں اور خانہ جنگی شروع کر دیں۔ مدینہ فاضلہ کا قیام اس پر نہیں ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کرنا شروع کر دیں۔ بلکہ نہضت کا مطلب یہ ہے کہ ظلم کو ختم کیا جاۓ، بے عدالتی کو ختم کیا جاۓ، باطل کے نظاموں کو ختم کر کے عدل و حق پر مبنی ہدایت کا نظام نافذ کیا جاۓ۔ اس لیے ہم آئمہ معصومینؑ کی سیاسی سیرت میں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی دہشت گردی ، یا ٹارگٹ کلنگ جیسے کاموں کی کبھی حمایت نہیں کی الٹا اس کام سے شدت سے منع کیا۔[2] لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ ظالمانہ حکومتوں کے خلاف حق پر مبنی قیاموں کی حمایت نہ کی ہو۔ بہت سے قیاموں کی حمایت کی اور کچھ قیاموں کی حمایت نہ کی۔ مطلوب یہ تھا کہ حق کا نظام قائم ہو لیکن حق کے راستوں پر چلتے ہوۓ قائم ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ حق کو قائم کریں لیکن جو روش اختیار کریں وہ حق نہ ہو۔ اس لیے آئمہ معصومینؑ نے صرف ان قیاموں کا ساتھ دیا جو حق اور ہدایت کے مطابق تھے۔

تمدن سازی اسلامی

شیعہ تاریخ بھر میں اپنے قیاموں اور نہضتوں کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔ نہضت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ رہبر معظم نے تمدن سازی اسلامی کے نظریے کے تحت پانچ مراحل بیان کیے ہیں جو بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اسلامی انقلاب

نہضت چلانا اور انقلاب لانا۔ شیعہ کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ملک میں نہضت شروع کرے اور انقلاب کی کوشش کرے ۔جب تک آپ انقلاب نہیں لاتے اور اساسی تبدیلی نہیں لاتے لاکھ اصلاحات لے آئیں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

۲۔ اسلامی نظام

جب پہلا مرحلہ کامیاب ہو جاۓ دوسرا مرحلہ نظام اسلامی کی تشکیل ہے۔ بہت سے انقلاب ایسے ہیں جو کامیاب ہوۓ لیکن حکومت بنانے میں اور اپنا نظام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ شیعہ کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ حکومت اسلامی تشکیل دے۔انقلاب لا کر جو نظام لاۓ وہ اسلامی ہو۔

۳۔ اسلامی دولت

حکومت اسلامی کے بعد تیسرا مرحلہ دولت اسلامی کا ہے۔ جو پہلے دو مراحل سے بھی سخت تر ہے۔ اس مرحلے میں آپ نے جو حکومت اسلامی بنائی تھی اس کے ذیل میں سب اداروں کو اسلامی کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر نظام اسلامی کے اندر جتنے بھی ادارے ہیں یا ان کے مدیر ہیں وہ اسلامی اہداف کو مدنظر رکھیں۔ اسلامی حدود و قیود سے باہر نہ نکلنے پائیں۔ ایران اس وقت تیسرے مرحلے میں موجود ہے۔ انقلاب اسلامی کامیاب ہوا، حکومت اسلامی بھی بن گئی لیکن ابھی تک دولت اسلامی بنانے میں کوشاں ہیں۔

۴۔ معاشرہ اسلامی

وہ معاشرہ تشکیل دینا جس میں افراد اسلام کے خدمتگذار ہیں۔ اسلام کے اہداف کو اپنا ہدف سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں۔ با الفاظ دیگر اس معاشرے کے لوگ نام کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کی زندگی کا ہدف اور مقصد اسلام ہے۔

۵۔ اسلامی تمدن

اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تمدن کی تشکیل۔ ایسی حکومت اسلامی جو پوری دنیا کے لیے نمونہ ہو۔[3] مادی اور معنوی ترقی کی اوج پر  ہو اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مٹی کے گھروں میں رہیں، پکی روڈیں نہ ہوں، ضروریات پوری نہ ہوں۔ بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے ترقی کی اوج پر ہوں۔ لیکن یہ ترقی انسان کو اللہ تعالی سے دور نہ کر دے بلکہ قرب کا باعث بنے۔ مکتب تشیع سے منسلک ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مقدمات کو ایجاد کرنے کی کوشش کرے۔ نہضت شروع کرے۔ ان اقدامات کو اپنا ہدف قرار دینے والے علماء کرام کا ساتھ دے اور ان کو متعارف کرواۓ۔

پاکستان میں نہضت کا آغاز

پاکستان کے جتنے بھی مسائل ہیں۔ امنیت ہو یا رفاہ عامہ ۔ تفرقے کا مسئلہ ہو یا دہشتگردی کا مسئلہ۔ ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ نہضت کا قیام ہے۔ مسائل کا حل سیاسی طور پر کسی پارٹی کا اتحادی بننے میں نہیں ہے۔ مسائل کا حل حکمرانوں کے در پر پہنچنے سے نہیں ملے گا۔ اگر یہ سب کرتے رہیں اور نہضت کا آغاز نہ کریں کبھی بھی یہ ناکامی ختم نہ ہوگی۔ با الفاظ دیگر ابھی پاکستان میں پہلا مرحلہ ہی طے نہیں ہوا الٹا کہا جاتا ہے کہ نہضت راہ حل نہیں ہے،انقلاب راہ حل نہیں ہے بلکہ جیسے نظام چل رہا ہے اسی میں ایڈجسٹمنٹ (Adjustment) کرنی چاہیے۔ یہ بات درست نہیں۔ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ ان سب الجھنوں میں راہ حل موجود نہیں۔ راہ حل نہضت ہے۔ نہضت کا مطلب تشدد اور خشونت نہیں ہے۔ کسی بھی امام نے یہ کام نہیں کیا۔ حتی ایران میں بھی جب نہضت کا آغاز ہوا امام خمینیؒ نے کوئی عسکری ونگ تشکیل نہیں دیا۔ شاہ ایران انقلابیوں پر گولیاں چلاتا آگے سے امام فرماتے کہ آپ لوگوں نے کچھ بھی نہیں کہنا۔ نہضت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی زمین سے غیر الہی قوانین کو ختم کر کے الہی قوانین کا نفاذ کیا جاۓ۔ الہی حکومت کے لیے امید پیدا کی جاۓ، ظالم نظاموں سے نا امید کیا جاۓ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس کے بالکل برعکس کر رہے ہیں، ظالم نظاموں کا حصہ بن رہے ہیں، فاسق حکمرانوں سے امیدیں باندھے ہوۓ ہیں۔

ضعیف رہنے کا مشورہ دینے والے

ایک تفکر جو پاکستان میں مومنین کے ذہنوں میں پیدا کیا گیا ہے یہ ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ضعیف ہی رہنا ہے، ہم قوت میں نہیں ہیں اور نا ہی کبھی قوی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنا دفاع کرنے کے لیے دوسروں کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ہم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ الحاق کر کے، حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بڑھا کر خود کو قوی کر سکتے ہیں۔ یہ تفکر رکھنے والے افراد کہتے ہیں کہ انقلاب کی بات کرنا، یا نہضت کی بات کر کے اسلامی نظام کے لیے کوشش کرنا درست نہیں۔ بلکہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں متشددانہ ہیں۔ ان کے نزدیک حق کے لیے قیام کرنا، نہضت کی بات کرنا تشدد ہے، ظالم کے خلاف قیام تشدد ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نہضت کا کام زحمت کا کام ہے، اس میں قربانی اور مصیبتیں ہیں۔ اس تفکر کے مطابق زحمت بھی نہ اٹھانی پڑے اور کام بھی چل جاۓ۔ اس تفکر کی آئمہ معصومینؑ نے شدید مذمت کی ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام صادقؑ کے پاس ایک شخص آیا اور کوفہ کے زندان میں قید امام کے انقلابی اصحاب کے متعلق پریشانی کا اظہار کیا۔ کہنے لگا کہ وہاں بہت بری جگہ ہے افراد بہت اذیت میں ہیں وغیرہ۔ امامؑ نے فرمایا مومن کے لیے یہ دنیا زندان کی حیثیت رکھتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا زندان ہو یا آزاد فضا۔ اگر ولایت کے ساۓ میں مومن نہیں ہے یہ دنیا اس کے لیے زندان ہے۔[4] یہ شخص پہلے خود بھی جیل میں تھا امام نے اس کو یہ نہیں کہا کہ چلو شکر ہے تمہاری جان چھوٹ گئی اور زندان کی زحمات سے بچ گئے، امام نے اسے سمجھایا کہ یہ آزادی نہیں ہے جسے تم آزادی سمجھ رہے ہو بلکہ تم جیل میں ہو اور جو زندان میں ہیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوۓ ہیں حقیقی آزاد وہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں حق کے قیام اور الہی نظام کی خاطر ہم پر ظلم ہوتا ہے تو یہ درست نہیں، اور ہمیں ظلم سے بچنے کے لیے ظالمانہ نظام کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا چاہیے، امام کے نزدیک سمجھوتہ کے نتیجے میں ملنے والی آزادی زندان کے مترادف ہے اور حق کے قیام میں ملنے والی جیل آزادی کے مترادف۔

سفید انقلاب کا نظریہ

ہمارے آئمہ معصومینؑ نے ہمیشہ نہضت اٹھائی۔ طاغوتوں کے خلاف قیام کیا۔ خود بھی قربانیاں دیں اور شہادتیں پیش کیں اور اپنے شیعوں کو بھی ان مصیبتوں میں پڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ یہ تفکر باطل ہے کہ اگر حق کے قیام کی خاطر اور باطل کی نابودی کی خاطر آپ کو سختی اٹھانا پڑے تو یہ تشدد ہے اور ہمیں تشدد والے کام نہیں کرنے چاہئیں۔ جیسا کہ بعض پاکستانی سنی اور شیعہ علماء کا نظریہ ہے کہ ہم پاکستان میں سفید انقلاب کے حامی ہیں۔ سفید انقلاب کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی نہ کرنا پڑے اور ظلم کا خاتمہ ہو جاۓ۔ یعنی نہ قربانی دینا پڑے، نہ کسی کو جیل ہو اور نا کسی کو کوئی اذیت ہو اور مفت میں انقلاب بھی آ جاۓ۔ اگر یہ بات درست مان لیں تو پھر امام حسینؑ کا قیام آپ کی نظر میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ نعوذباللہ امام حسینؑ نے اتنی قربانیاں دے کر درست کام نہیں کیا۔ انہیں چاہیے تھا کہ سمجھوتے اور مذاکرات سے سفید انقلاب لاتے؟ یہ وہ بیوقوفانہ سوچ ہے جس سے کوئی بھی نتیجہ نہیں ملتا۔ اگر آپ پاکستان کے کسی بھی اجتماعی مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں وہاں نہضت کی ضرورت پڑے گی۔ یہی مسئلہ جو آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے کراچی کی ایک لڑکی بھاگ کر لاہور آتی ہے اور ایک لڑکے سے شادی کر لیتی ہے۔ اگر یہ ہیومن ٹریفکنگ کا مسئلہ ہے تو بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پوری دنیا میں موجود ہے بعض ممالک میں انسانی اعضاء کو خریدا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو ختم کرنا تقریبا نا ممکن ہے کیونکہ حکمران بہت مقتدر افراد اس میں ملوث ہے۔ اگر آپ ان سب کا مقابلہ کریں گے تو مار دیے جائیں گے جب تک اجتماعی طور پر نہضت ایجاد نہیں ہوتی اور ایک منظم آواز نہیں بلند ہوتی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

اقتصادی مسائل کا حل نہضت میں

حتی پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا شدید تر ہوتا جا رہا ہے عوام بھوک اور پیاس سے خودکشی پر مجبور ہو رہی ہے۔  حتی وزیر اعظم صاحب بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ جب حکومت میں نہ تھے تو چیخیں مار رہے تھے کہ ہم مہنگائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جب خود حکومت میں آۓ تو کہتے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف مجبور کرتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا دباؤ ہے تو کوئی اور راہ حل ڈھونڈنا چاہیے۔ عوام کے رفاہ کا مسئلہ ہے بجلی نہیں ہے گیس نہیں ہے گھر کی ضروریات پوری نہیں ہیں۔ ایک صاحب نے ہم سے فقہی سوال پوچھا کہ میرا کام میٹر ریڈنگ کا ہوتا ہے۔ جب ہم ریڈنگ کرنے جاتے ہیں تو اگلا بندہ ہمیں یہ پیشکش کرتا ہے کہ اگر ہم میٹر کے نمبرز میں ہیر پھیر کردیں تو وہ ہمیں ۵۰ ہزار روپے دیں گے؟ ہم یہ پیسے لیتے رہے ہیں لیکن ابھی توبہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا کریں؟ ہم نے جواب دیا کہ کیا وہ سارا مال واپس کر سکتے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ یہ تو ممکن نہیں۔ اگر ایسا کریں تو خود بھوکے مر جائیں گے۔ گویا وہ صاحب توبہ کا کوئی ایسا طریقہ پوچھنا چاہتے تھے جس سے مال واپس نہ کرنا پڑے۔ تو یہ وہ مسائل ہیں جن کو ہم ایک ہی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں جب تک ووٹنگ کے ذریعے ایک کے بعد ایک فاسد شخص کو ہم انتخاب کرتے رہیں گے یہ سب مسائل حل ہونے والے نہیں۔

اسلامی نکتہ نظر کا بیان

ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ہم مدینہ فاضلہ بھی چاہتے ہیں اور اس میں پاۓ جانے والے اوصاف بھی اپنی ریاست میں پیدا کرنے چاہتے ہیں اب کیا کریں؟ کیا انتخابی سیاست راہ حل ہے؟ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے اصلاح ممکن ہے؟ آمریت حل ہے یا جمہوریت؟ مکتب امامت یہاں پر جواب دیتا ہے کہ اسلامی نظریے کے لیے اقدام کرو۔ مشکل جڑ سے ہے اور اصلاح صرف اس جڑ کو ختم کرنے سے ممکن ہے۔ یہ فاسد نظام آپ کے گھر میں گھس چکا ہے، فحاشی پھیل چکی ہے، گناہ  کا نظام موبائل کی شکل میں سب کی رسائی میں ہے، سود کا نظام سب کو ہی متاثر کر رہا ہے، اس کو آپ فقط چند تبدیلیوں کے ذریعے ٹھیک نہیں کر سکتے، ایک کامل نہضت چاہیے جو فساد کو جڑ سے کاٹ پھینکے۔ اگر آپ کی سیاست فاسد ہو چکی ہے، اگر آپ کے حکمران اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی بات کر رہے ہیں، اگر آپ کے حکمران عربوں کی غلامی کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں، تو یہاں پر راہ حل یہ نہیں کہ ان کے ساتھ جا کر ٹیبل ٹاک کی جاۓ۔ ایک شیعہ عالم دین یا عام مومن کا وظیفہ کیا ہے؟ آیا وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے نکلے اور حکمرانوں سے قریب ہو کر دین کے ساتھ خیانت کرے یا نہضت چلاۓ۔ ظاہر ہے اس سب کے لیے نہضت کی ضرورت ہے جس شخص کا وجود ہی خود فساد بن چکا ہے آپ اس کی مذاکرات کے ذریعے اصلاح نہیں کر سکتے۔

مصالحت یا ٹکراؤ

اب یہاں پر ایک تفکر موجود ہے جو نہضت کا سخت مخالف ہے اور کہتا ہے کہ ظالمین اور فاسقوں سے مصالحت کر کے ان سے مفادات لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم ان کو کبھی بھی ختم نہیں کرسکتے۔لیکن اس کے برعکس دوسرا تفکر کہتا ہے کہ نہضت کو ابھارو، ظالمین کو رسوا اور ذلیل کرو، انہیں لوگوں کی نظروں میں گرا دو، ظالم کو عزت مند نہ ہونے دو، کیونکہ معلوم ہونا چاہیے جب ایک عالم دین کسی ظالم فاسق حکمران سے جا کر ملتا ہے لوگوں کی نظروں میں اس عالم کی وجہ سے وہ حکمران عزیز ہو جاتا ہے۔ اس ظالم کو عزیز نہیں ہونے دینا۔ ممکن ہے یہاں پر کوئی کہے کہ ہمارے علماء جن سے ملتے ہیں اور ان سے سیاسی مصالحتیں کرتے ہیں وہ کہاں سے ظالم ہیں؟ انہوں نے کس پر ظلم کیا ہے؟ جواب دیا جاۓ گا کہ ظلم سے مراد یہ نہیں کہ شخص نے کسی کو قتل کیا ہو بلکہ ظلم سے مراد وہ معنی ہے جو قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔ قرآن نے عدل کے مقابلے میں ظلم کو لایا ہے۔ سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ سب سے بڑا ظلم دشمن کا آلہ کار بننا ہے، سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ پوری قوم کو فسق و فجور میں لگا دیا جاۓ۔ اور بھی ظلم کے کئی مصادیق ہیں جن پر یہ حکمران مکمل طور پر فٹ نظر آتے ہیں۔

ولایت فقیہ کی مخالفت توحید کی مخالفت

مدینہ فاضلہ کا قیام انبیاء کرامؑ کی تمنا تھی۔ اسلامی نظام کا قیام ہمارے آئمہ معصومینؑ کی آرزو تھی اس لیے ہر نبی و امام نے اس کے لیے نہضت چلائی اور اسی کی اتباع میں نظام ولایت فقیہ ہے۔ اس نظام کا توحید سے بہت گہرا ربط ہے۔ کیونکہ ولایت فقیہ کا ہدف انسان کو بندگی تک پہنچانا ہے۔ اس کی مخالفت کی تو گویا اسلام کی مخالفت کی۔ اس کی مخالفت در اصل تمام انبیاء اور آئمہ کی نہضتوں کی مخالفت ہے۔ اور کچھ نادان افراد اسی کو ہی اختلافی موضوع قرار دے کر اصل موضوع کو ہی اڑا دینا چاہتے ہیں۔ تنگ نظری سے موضوع کا جائزہ لیتے ہیں، چند آراء کو اکٹھا کر کے ان پر نقد کرتے ہیں اور حکم لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس نظام کی مخالفت کر کے دشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں آپ کو اندازہ نہیں کہ کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہی نظام ولایت فقیہ تھا جس نے داعش کو عراق سے فرار کرنے پر مجبور کیا ورنہ جب داعش ان کی گردنوں کو اڑاتی تب پتہ چلتا کہ کس کی مخالفت کرنی چاہیے اور کس کی نہیں۔ 

نہضت اور تنظیم کی سوچ میں فرق

ایک اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ جس نہضت کی بات کر رہے ہو یہ لانگ ٹرم منصوبہ ہے۔ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا کوئی آسان کام نہیں لذا یہ کام تو آہستہ آہستہ ہوتا ہی رہے گا پہلے ہم شیعہ کو امنیت تو دے لیں، پہلے بھوکوں کا پیٹ تو بھر لیں، پہلے شہداء کے خانوادوں تک راشن تو پہنچا دیں، پہلے یہ چھوٹے موٹے کام کر لیں پھر نہضت بھی چلا لیں گے۔ سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی سوچ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول ایک لانگ ٹرم منصوبہ ہے اور ایک شارٹ ٹرم منصوبہ۔ ہمیں شارٹ ٹرم منصوبہ کے تحت پہلے اپنے مفادات پورے کرنے چاہیں، جب رفاہی طور پر مضبوط ہو جائیں گے اور پیٹ بھرا ہوگا تب نہضت بھی شروع کریں گے۔ اس کے برعکس نہضت کا نظریہ ہے۔ رسول اللہﷺ کی تحریک اور نہضت ہے، امام حسینؑ کی نہضت عاشورا ہے، اور آئمہ معصومینؑ کی نہضتیں۔ ان میں سے کسی بھی شخصیت نے اولین فرصت میں یہ والے کام نہیں کیے جن کو ہم شارٹ ٹرم منصوبہ کہہ رہے ہیں، یہاں پر مقصود یہ نہیں کہ عوام کے رفاہ کا انہوں نے کوئی منصوبہ نہیں رکھا ہوا تھا، جی نہیں بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا اولین مقصد نہضت کا قیام اور اس کے نتیجے میں ظالم و ستمگر کی سرنگونی و اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں آتے ساتھ ہی اسلامی حکومت کو تشکیل دیا، وہاں رسول اللہﷺ نے یہ نہیں کہا کہ چلو ان لٹے پٹے مہاجروں کا پہلے پیٹ بھر لیں، ان کی شادیاں کر لیں ان کو مکان مل جائیں پھر ہم لانگ ٹرم منصوبے پر عمل کریں گے۔ امام حسینؑ نے بھی یہی کام کیا، سب سے بڑی مشکل سے جا کر ٹکراۓ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا۔ آئمہ معصومینؑ نے بھی کسی بھی حاکم سے سیاسی تعلقات بنا کر شیعوں کا پیٹ بھرنے کا منصوبہ نہیں بنایا، اولین صورت میں ایک نہضت کو اپنا ہدف قرار دیا۔ ہاں انفرادی طور پر راتوں کو کی تاریکی میں فقراء کے گھروں میں راشن بھی پہنچاتے تھےاور ان کی ضروریات بھی پورا کرتے تھے لیکن یہ سب ان کا اولین مقصد نہیں تھا۔کیونکہ اگر یہی ان کا اولین مقصد ہوتا تو اس کے لیے تو پھر نہضت کی بھی ضرورت نہیں، حکمرانون سے ٹکرانے کی بھی ضرورت نہیں، قربانی دینے کی بھی ضرورت نہیں یہ کام تو بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس آئمہ معصومینؑ نے یہ کام بھی کیے اور اولین فرصت میں نہضت بھی شروع کی۔ ہمیں اس ترتیب سے چلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس ترتیب کو سمجھ نہیں لیتے اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتے لاکھ کوشش کریں شارٹ ٹرم منصوبہ بھی ناکام رہیں گے۔[5]

منابع:

 

↑1 نساء: ۵۔
↑2 شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۱، ص۳۸۴۔
↑3 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑4 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۵۰۔
↑5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶تا۱۰۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:46
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ:قسط۴۳ }

مدینہ فاضلہ  کے اندر اقتصادی ترقی

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

دین نے جس آئیڈیل ریاست کا نظریہ پیش کیا ہے اس کی دوسری خصوصیت اقتصادی ترقی ہے۔ عمومی طور پر یہ غلط تصور ذہنوں میں پایا جاتا ہے کہ دین کہتا ہے غریب اور فقیر رہنا چاہیے ۔ اس کے برعکس دین نے باقاعدہ اقتصادی نظام پیش کیا ہے ۔دین نے  مختلف مالی عناوین فئے، خمس، زکات، فطرہ، صدقہ، فدیہ، اور کفارہ وغیرہ اس مقصد کے لیے رکھے کہ مال کی گردش ہوتی رہے۔ کوئی بھی معاشرہ اقتصادی ترقی کے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ فقر کا معنی ہی ریڑھ کی ہڈی میں فاصلہ آ جانا ہے۔ جب ریڑھ کی ہڈی میں فاصلہ (Gap) آجاتا ہے انسان چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا،اس فاصلے اور گیپ کو عربی زبان میں فقر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانی مالی طور پر نادار ہو جاۓ اسے فقیر کہتے ہیں ۔ جس طرح سے معاشرے کے اندر نماز کے قیام کا حکم وارد ہوا ہے اسی طرح سے معاشرے سے فقر کو ختم کرنے کا بھی حکم وارد ہو ا ہے تاکہ معاشرہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔

مال کی اہمیت

روایات میں وارد ہوا ہے کہ مومنین کے لیے اپںا اقتصاد درست کرنا ضروری اور اس کے لیے زحمت اٹھانا قابل قدر ہے۔[1][2] اپنے بیوی بچوں کے لیے کما کر لانے والے انسان کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔[3][4] کیونکہ اگر انسان اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہو عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ مال آئے کیسے؟ مال کو لگائیں کیسے؟ کمائیں کیسے؟ یہ سب بہت اہم ہے جو تفصیل کے ساتھ اسلام نے بتایا ہے۔ اگر ان اسلامی احکام کے مطابق ہم اقتصادی نظام بنانے میں ناکام رہیں تو دشمن غالب آ جاۓ گا۔ اگر اقتصادی نظام درست نہ کر سکیں تو مدینہ فاضلہ کا پہلا وصف یعنی رشد فرہنگی بھی نہیں رہے گا۔ اگر گھر میں ہی مال نہ پہنچا بچے انحرافی ہاتھوں میں جا کر دین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پس مدینہ فاضلہ کے رہبران پر ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر اقتصادی ترقی کے لیے کوشاں ہوں۔

خلیفہ ثانی کا قتل

رسول اللہﷺ کے بعد امت اسلامی کے اندر اقتدار کی بنا پر ایک ٹکراؤ پیدا ہوا۔ اقتدار کی چاہت کس بنا پر ہوتی ہے؟ مال کی خاطر۔ خلیفہ دوم کا فتل کیوں ہوا؟ مال کی خاطر۔ بعض جاہل افراد کہتے ہیں کہ ابو لولو فیروز شیعہ تھا۔ یہ بات درست نہیں، جس دور میں خلیفہ دوم کا قتل ہوا ایران تازہ فتح ہوا، ابو لولو ایرانی غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ نے اس کو خریدا۔ ابو لولو نے خلیفہ دوم کے حضور اپنے مغیرہ کی بہت شکایتیں کیں لیکن ایک بھی نہ سنی گئی۔ اس بنا پر خلیفہ دوم کا قتل ہوا اور بعد میں ابو لولو خودکشی کر لی۔[5][6][7] یہ وہ دور تھا جس میں اسلامی معاشرے کے اندر ایک قسم کا شدید طبقاتی نظام وجود دیا گیا، عرب اور عجم، غلام اور آقا اور اس طرح کی دیگر تقسیمات نے اجتماعی طور پر عجیب سا ماحول بنا ہوا تھا۔ بعد میں عبیداللہ بن عمر اپنے باب کا انتقام لینے کی غرض سے باقی ایرانی غلام اور ابو لولو کی کمسن بیٹی کو بے دردی سے قتل کر دیا۔[8][9][10][11] لیکن خلیفہ سوم نے خلیفہ کے بیٹے کو کچھ بھی نہ کہا اور آزاد کر دیا۔[12][13]

خلیفہ سوم کا قتل اور امیرالمومنینؑ کی حکومت

تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے قتل کی وجہ بھی اقتصادی اور مالی بے ضابطگیاں تھیں۔ اسلامی ریاست کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوۓ اور سب کا ایک ہی مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ خلیفہ کی جانب سے مامور والی حضرات کرپشن میں ملوث ہیں اور آشکار طور پر فسق کرتے ہیں۔[14] امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ جو کھڑا ہوا وہ یہی تھا کہ امام نے مال کھانے والوں کی پکڑ دھکڑ کی اور فرمایا کہ جس نے جو کچھ بھی حرام طریقے سے کمایا ہے وہ واپس لونگا۔ یہ سن کر وہ سب لوگ جو خلفاء کے دور میں مال بنا چکے تھے گھبرا گئے اور مخالفت پر اتر آۓ۔[15][16][17][18][19][20][21][22][23][24][25][26]

اقتصاد کی اہمیت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ اگر خاتون کی گھریلو ضروریات شوہر پورا نہ کرے دین کہتا ہے کہ اس عورت پر واجب نہیں ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے۔ معلوم ہوا اقتصاد کے بغیر گھر بھی نہیں چل سکتا۔ یہ جو ہزاروں دینی ادارے چل رہے ہیں وہ بھی اسی پر کھڑے ہیں، امت کے افراد مالی تعاون کرتے ہیں اور ادارہ چلتا ہے۔ اگر مدیر کرپٹ ہو یہ ادارہ پھی نہیں چل سکتا اس لیے ہم پر ضروری ہے کہ جن اداروں کے بارے میں ہمیں یقین ہو صرف وہاں مال دیں۔ 

رسول اللہﷺ کا معاشرے کی مدیریت کرنا

خود رسول اللہﷺ نے بھی معاشرے کو معجزے سے مدیریت نہیں فرمایا، وہاں پر بھی مال خرچ ہوا۔ مسلمین کا دفاع کیا جنگیں لڑنا پڑیں یہ سب بغیر مال کے تو ممکن نہیں، لشکر کو کھانا کھلانا ہے، ان کے اسلحے کا بندوبست کرنا ہے۔ قتال کا قرآن کریم میں حکم ہوا اور اموال کو خرچ کرنے کا حکم ہوا یعنی ہمیں دین کی مالی مدد کرنی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«وَ آتُوهُمْ مِنْ مالِ اللهِ الَّذی آتاکُمْ».

ترجمہ: اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو۔[27]

ایک اور آیت میں حکم ہوا:

«وَ أَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُسْتَخْلَفینَ فیهِ».

ترجمہ: اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔[28]

ایران پر اقتصادی پابندیاں

ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شرق و غرب نے اسلامی حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ پہلے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کی اور ہزاروں نوجوانوں نے قربانیاں دیں، اس جنگ میں جانی اور مالی نقصان شدید طور پر ہوا۔ اقتصاد بدترین صورت حال کو جا پہنچا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ اشیاء کی قیمتیں دنوں کے حساب سے بھی نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھنے لگیں۔ ایران سے کوئی خریدنا یا بیچنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جو ملک ایران سے کچھ لیتا یا بیچتا اس ملک پر بھی پابندیاں لگا دی جاتیں۔ ایران کی لیڈرشپ نے سخت ترین معاشی پابندیوں کے باوجود ملک کی مدیریت کی لیکن یہ سب آسان نہ تھا۔

مال خرچ کرنے کا اسلامی نظریہ

دین اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ مال کو ضرورت پڑنے پر خرچ کرو، مال کو احمقوں کے حوالے مت کرو جو فضول خرچی کریں اور بنا کسی ضابطے کے مال کو اس نیت سے خرچ کریں کہ یہ ان کا اپنا مال ہے۔ بلکہ اسلامی حاکم ایسے شخص سے مال کو ضبط کر لیتا ہے جو فضول خرچی سے مال ضائع کرتا ہو۔ جب اللہ تعالی نے آپ کو مال دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیسے مرضی کرے آپ خرچ کریں۔ اس مال میں دوسروں کا بھی حق ہے جو اللہ تعالی نے قرار دیا ہے اگر اس کو ضائع کروگے تو اس مال کی مالکیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَ لا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَکُمُ الَّتی جَعَلَ اللهُ‌ لَکُمْ قِیاماً وَ ارْزُقُوهُمْ فیها».

ترجمہ: اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو۔[29]

مارکسزم کا نظریہ

مارکسزم کا نظریہ اقتصاد کی اساس پر تھا۔ اس نظریے کے مطابق کوئی بھی انسان ملکیت نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام تھا جس کے مطابق اگر مال ہے تو ہر شے خرید سکتے ہو۔ مثلا اگر آپ کے پاس سرمایہ ہے منفعت جمع کر سکتے ہو، اگر آپ کے پاس پیسے ہیں بے شک کئی کلو میٹر مربع پر محیط گندم کی فصل خرید لو اور باہر ملک عمدہ داموں پر بیچ دو آپ کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ حکومت اور قانون کو کوئی حق نہیں آپ کو سرمایہ بنانے سے روکے۔ کارل مارکس اس نظریے کے خلاف تھا اس نے کہا کہ اس نظام کے ذریعے زمینیں بک رہی ہیں لوگوں کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے اس نے مارکسزم کا نظریہ دیا اور کہا کہ کوئی بھی شخص مالک نہیں ہو سکتا، میراث، کمائی، زمین، گھر یہ سب اشیاء حکومت کی ہیں آپ کسی بھی شے کے مالک نہیں ہو آپ کو جس حد تک ضرورت ہوگی بس اتنا ہی آپ کو میسر کر دیا جاۓ گا۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد میں ہیں لیکن ہر دو کی اساس مال پر ہے۔ مالکیت کو لے کر ہر دو نظاموں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔

دولت سالاری کا نظریہ

دولت سالاری یعنی ہر طرح کے اختیارات ریاست کو حاصل ہیں۔ یہاں پر دولت بمعنی حکومت ہے۔ اس نظام میں حکومت کو معصوم فرض کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ بس جو فیصلہ حکومت کر دے وہی درست ہے۔ بعض نادان افراد کے بقول ایران میں دولت سالاری ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ دین اسلام ان تینوں نظریات کو رد کرتا ہے۔ انقلابی علماء، تقی فلسفیؒ، شہید صدرؒ اور شہید مطہریؒ نے ان نظاموں پر باقاعدہ تنقید کی ہے۔ اسلام مالکیت کا قائل ہے لیکن مالکیت مطلق کا قائل نہیں۔ انسان کی مالکیت اعتباری حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام پر بھی اسلام کا نکتہ نظر یہ ہے کہ آپ ایک محدود دائرے میں رہ کر خرچ کر سکتے ہیں اور سرمایہ اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن آپ اس کے حقیقی مالک نہیں ہیں بلکہ حقیقی مالک اللہ تعالی کی ذات ہے اور اس مال میں مخلوق خدا کا بھی حق ہے۔[30]

منابع:

↑1 مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۹۔
↑2 متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال، ج۴، ص۴، ح۹۲۰۰۔
↑3  مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۱۳۔
↑4 ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۴، ص۴۴۵۔
↑5 ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۴۵۔
↑6 ابن شبہ، عمر بن شبہ، تاریخ المدینہ، ج۳، ص۸۹۶۔
↑7 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۱۹۰۔
↑8 ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۵۰۔
↑9 ابن قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، ج۱، ص۱۸۷۔
↑10 یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰۔
↑11 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۴۰۔
↑12 ابوالقاسم کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ، ج۱، ص۶۸۔
↑13 شریف مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، ج۴، ص۳۰۵۔
↑14 شریف رضی، محمد بن حسین، نہج‌ البلاغہ، خطبہ ۳، ص۴۹۔
↑15 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۷۷۔
↑16 محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۰، ص۷۴۵۔
↑17 محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۲، ص۲۰۸۔
↑18 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۵۳،ص۴۴۴۔
↑19 محمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۰۰۔
↑20 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۶۔
↑21 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۵، ص۵۷۔
↑22 محمد ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۱، ص۱۹۲۔
↑23 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ ،مکتوب۴۳، ص۴۱۵۔
↑24 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۶،ص۳۸۳۔
↑25 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۰، ص۳۷۷۔
↑26 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۷۱، ص۴۶۲۔
↑27 نور: ۳۳۔
↑28 حدید: ۷۔
↑29 نساء: ۵۔
↑30 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۷تا۱۱۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:44
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ:قسط۴۲ }

مدینہ فاضلہ  کے اندر ثفافتی ترقی

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

مدینہ فاضلہ کا پہلاوصف رُشد فرہنگی ہے۔ رُشد فرہنگی یعنی ثقافتی ترقی۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ رشد کی اساس معنوی ہو۔ ترقی کی اساس ہدایت ہو جہالت نہ ہو۔

جاہلیتِ قدیم اور جاہلیت جدید

جب ہم کہتے ہیں کہ مدینہ فاضلہ میں علمی و عملی ترقی ہو اور رشد فرہنگی ہو، ہر شرط پر علمی و عملی ترقی مقصود نہیں جیسا کہ آج ہم مغربی ممالک اور بعض عرب ممالک میں دیکھتے ہیں ۔انہوں نے ترقی تو کر لی ہے لیکن یہ ترقی جہالت کی اساس پر ہے۔ ہم جب لفظ جہالت کا استعمال کرتے ہیں تو اسے ہدایت کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ مغربی ممالک میں تو بہت زیادہ علم موجود ہے، ہم کہیں گے کہ علمی پیشرفت ضرور ہے لیکن ہدایت نہیں ہے۔ اور اگر کوئی معاشرہ علمی ترقی کر لے ہدایت یافتہ نہ ہو وہ جاہل معاشرہ کہلاۓ گا۔ رسول اللہﷺ کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرہ صنعت و حرفت میں اتنا گیا گزرا ہوا نہیں تھا، ادیب لوگ تھے، تجارت کرتے تھے، تلواریں اور ہتھیاروں کا استعمال کرتے تھے، لباس بھی اچھا پہنتے تھے لیکن اس سب کے باوجود اسلام نے اسے جاہل معاشرہ قرار دیا اور ہم رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے کے زمانے کو عصر جاہلیت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح آج ۲۱ویں صدی میں بھی یہی جہالت موجود ہے لیکن یہ جاہلیت جدید ہے، ماڈرن ہو گئی ہے بڑے اور لمبے برج بنا لیے، ہسپتالیں، روڈز اور کالج یونیورسٹیاں بنا لیں لیکن ہدایت سے محروم ہیں۔ یہی جاہلیت جدید ہے۔

ثقافتی ترقی کی اساس ہدایت

دین اسلام کی نظر میں آپ پینٹ شرٹ اور ٹائی پہن کر یا فیشن اختیار کر کے با فرہنگ (Civilized)نہیں ہو جاتے۔ رُشد فرہنگی کی اساس یہ ہے کہ معاشرہ زمانہ جہالت میں نہ ہو، زمانہ ہدایت میں ہو، اس لیے اگر کوئی معاشرہ جمہوری اقدار کا دعوے دار ہے، اس میں انسانوں کو مکمل آزادی ہے، زنا، رقص و سرود کی آزادی ہے، پیسہ اور دولت سب کے پاس عام ہے یہ معاشرہ جاہل معاشرہ ہے۔ ممکن ہے اس معاشرے میں بعض مومن موجود ہوں اور وہ انفرادی طور پر اپنی عبادات کر رہے ہوں یہ معاشرہ تب بھی جہالت میں ہے۔ مثلا عرب عمارات ہے، سعودی عرب ہے یہ وہ معاشرے ہیں جن کو کچھ بھی نہیں آتا، ان کو کوئی بھی چیز چلانا یا بنانا نہیں آتی، پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی مزدوروں سے کام کرواتے ہیں، ٹیکنالوجی ان کی مغربیوں کے ہاتھوں میں ہے بس ان کو بیٹھے بٹھاۓ تیل کے پیسے مل جاتے ہیں یہ تیل خود تو نہیں نکال سکتے، آداب، افکار اور تعلیم سے بھی واقف نہیں، تو کیا صرف لمبی اور بڑی عمارتوں کی بنا پر ہم اس معاشرے کو مدینہ فاضلہ کہہ دیں؟ جی نہیں! یہ مدینہ فاضلہ نہیں ہیں بلکہ مدینہ پستی و مدینہ حقارت ہیں۔ اگر مدینہ فاضلہ کسی معاشرے کو بنانا ہے تو اس میں ہدایت کو دیکھیں اونچی بلڈنگز نہ دیکھیں۔ ہاں اگر کسی معاشرے میں ہدایت ہے اور اونچی عمارتیں نہیں ہیں یہ مدینہ فاضلہ ہے، تعلیم اور ہدایت ہے وہ مدینہ فاضلہ ہے۔ حتی ہم معاشرے کی بنیادی ترین اکائی گھرانے کو بھی اسی اصول کے ذیل میں ملاحظہ کریں گے۔ اگر گھر میں تعلیم سے محبت ہے اگر گھر کے افراد ہدایت کے راستوں پر چلتے ہیں یہ گھر مدینہ فاضلہ کا مصداق ہے لیکن اگر گھر میں ہدایت نہیں اور اس کے برعکس، گھر کے سب افراد کے پاس الگ الگ موبائیل، تیز انٹرنیٹ، ہر فرد کے پاس الگ گاڑی، باپ ڈاکٹر اور ماں پروفیسر، بچے بڑی اکیڈمیز میں پڑھتے ہیں یہ گھرانہ جہالت اور گمراہی کی اساس پر کھڑا ہے۔ 

تزکیہ نفس اور تعلیم

مدینہ فاضلہ کے زمامدار پر فرض ہے کہ لوگوں کے اندر تزکیہ نفس اور تعلیم کو عام کرے۔ فقط علم دینا کافی نہیں ہوتا اس کے ہمراہ تزکیہ نفس بھی ضروری ہے۔ اگر فقط تزکیہ نفس ہو اور علم نہ ہو  بصیرت و شعور نہ ہو وہ معاشرہ خوارج کی طرح بن جاۓ گا۔ اور اگر علم ہو لیکن تزکیہ نفس نہ ہو وہ ڈاکٹر انجینئر بن کر بھی کرپشن کرے گا۔ تزکیہ کریں تاکہ اس کے اندر کا حیوان رام ہو، اور تعلیم دیں تاکہ رشد اور ترقی حاصل ہو سکے۔خوارج کرپشن نہیں کرتے تھے۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ ایک خارجی نے زمین پہ پڑے ہوۓ کھجور کے ایک دانے کو کھا لیا تو اس کے ساتھیوں نے اس کی مذمت کی کہ تم نے لوگوں کے مال میں سے کیوں کھا لیا، لیکن  انسانوں کا خون بہانے میں نہیں کتراتے تھے۔[1]خوارج عقلی و علمی جمود رکھتے تھے، تجزیہ تحلیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ آج کے دور میں بھی یہ لوگ موجود ہیں۔ مثلا پاکستان میں ایک عالم دین نے یہ کہہ دیا کہ موجودہ حالات میں ایران پر ہر طرف سے دباؤ بڑھ گیا ہے اندر باہر سے اسرائیل کا نفوذ بڑھ رہا ہے تو بعض نادانوں نے کہا کہ یہ بات کہہ کر آپ نے اسلامی نظام کی تضعیف کر دی۔ حالات حاضرہ کا تجزیہ اور ان کی تحلیل کرنا کب سے نظام اسلامی کی تضعیف ہو گیا؟ خطے کے حالات ایسے بن رہے ہیں کہ عرب عمارات، عربستان نے ایک بھاری رقم خرچ کی ہے مختلف ممالک میں اور چاہتے ہیں کہ وہاں شیعہ مخالف ایک حرکت شروع ہو اور خصوصا نظام ولایت کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا جاۓ۔ اگر دشمن شناسی کے ذیل میں کوئی عالم دین یہ کہتا ہے کہ ہمیں مزید ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اسرائیلی نفوذ بہت زیادہ بڑھ رہا ہے، ابھی حال میں ہی ایران کی ایک اور اہم ترین شخصیت شہید صیاد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ حتی ان کے ہمسائیوں کو بھی علم نہ تھا کہ یہ شخص کون ہے اور کیا کرتے ہیں کیونکہ حساس اداروں کا حصہ تھے۔لیکن اسرائیلیوں نے اسے ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کیا ہے اس کا مطلب بہت زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ مزید چوکنا رہناہوگا۔تو کیا یہ بات کرنا نظام اسلامی کی دشمنی ہے؟ یقینا یہ خوارج والی سوچ ہے۔ امام حسینؑ کی مظلومیت بیان کرنا، یا امیرالمومنینؑ کی حکومت میں شام کے بدمعاشوں کی کاروائیوں کا ذکر کرنا کب سے امیرالمومنینؑ سے بے وفائی ہو گیا؟ اگر تجزیہ تحلیل کی صلاحیت نہیں ہے تو کم از کم ان موضوعات پر مت بولیں۔ اگر زیادہ ہی بولنے کا شوق ہے تو اپنے ملک کے اندر جو ناسور پل رہے ہیں اور جن کے پیچھے ہمارے علماء اور مومنین بھاگ رہے ہیں ان سیاسی پارٹیوں پر تنقید کریں ان کی سازشوں کو بے نقاب کریں۔ عالم کا کام یہ ہے کہ عوام کو بیدار کرے، عوام کو شعور دیں اور فکری جمود سے نکالیں۔ ان کو ناامیدی سے نکال کر نظام اسلامی کے لیے امیدوار کریں۔

مدینہ فاضلہ کے حوالے سے نا امیدی

جب کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستان میں ولایت فقیہ کی حکومت چاہتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان میں ایران کی حکومت چاہتے ہیں۔ بلکہ مراد یہ ہوتا ہے کہ مدینہ فاضلہ چاہتے ہیں،ایک آئیڈیل حق و حقیقت پر قائم ریاست چاہتے ہیں۔ لیکن امامت کے قائل اور مدینہ فاضلہ کو پڑھ کر جانے والے علماء ہی اس سے مایوس نظر آتے ہیں اور اس کے لیے کوششیں نہیں کرتے۔ ان کو ہرکس و ناکس کی حکومت کے آنے کا یقین ہے اور ان کا ساتھ بھی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن مدینہ فاضلہ اور نظام ولایت کو ناممکن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالی کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ حق قائم ہونے والا ہے اور باطل مٹ جانے والا ہے۔[2] اگر لوگ حق کو جانتے ہوۓ بھی اس کی طرف نہ بڑھیں یہی جہالت ہے۔ بے شک پڑھے لکھے عالم نما بنے ہوۓ ہوں یا عمامہ پہنا ہوا ہو، زبان سے کلمات ادا کرنے سے تو جہالت ختم نہیں ہوتی جب تک حجت خدا کے نظام کو ترک کیا ہوا ہے اور اس کی تعلیمات کے مطابق معاشروں میں قدم نہیں رکھتے رشد فرہنگی حاصل نہیں ہوگا۔ اور دوسری طرف سے مومنین حضرات ہیں ان کا یہ کہنا کہ سب علماء اکٹھے ہو جائیں تب ہی نظام امامت کی طرف بڑھیں گے یہ بات بھی غلط ہے۔ سب علماء کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، جن کو علماء کہا جا رہا ہے ان میں سے اکثر علماء نہیں ہیں، ایک بہت بڑی تعداد ہے جس نے عمامہ اوڑھ لیا ہے اور صرف منبر پر آ کر بول لیتے ہیں اور عوام پسند باتیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیسے حقیقی علماء کے ساتھ آ کر بیٹھ سکتے ہیں؟ ان کے قلوب اور ارواح جمود کا شکار ہیں۔ معیار حق کا ساتھ اور ہدایت پر چلنا ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نہ دینے والا ابو جہل کوئی انپڑھ شخص تو نہ تھا۔ اس کا ہدایت پر نہ ہونا سبب بنا کہ ہم اسے ابو جہل کہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جہاں سے ان کو مفاد اور پیسہ ملتا ہے اسی طرف بڑھتے ہیں۔ دینی ٹچ دیتے ہیں۔ یہ دینی ٹچ دینے کا نسخہ کب سے عمل پیرا ہو رہا ہے۔ جب امام آئیں گے دینی ٹچ نہیں دیں گے بلکہ کامل دین نافذ کریں گے اس وقت رشد بھی بڑھ جاۓ گا اور جب عقلی و فکری رشد بڑھ جاۓ گا آج جیسے عوام پیسہ آنے پر فورا عیاشی کی طرف جاتے ہیں، یا ہوٹلوں اور ساحلوں کا رخ کرتے ہیں ظہور کے زمانے میں ہدایت، تزکیہ، کتاب اور حکمت کی طرف بڑھیں گے۔ لہذا اس نا امیدی کو ختم کریں اور اس رشد کو پیدا کرنے والے علماء کا ساتھ دیں ایسے افراد سے دور ہوں جو مایوسی پھیلاتے ہیں۔

معاشرے کی زبوحالی

ایک معاشره دو وجوہات کی بنا پر انحطاط کا شکار ہوتا ہے۔ ۱۔ جہالت ۲۔ گمراہی

جہالت کس سے؟ کتاب ہدایت اور حکمت سے جاہل ہے۔ اور اس کے برخلاف راہوں پر چل کر گمراہ ہو رہا ہے۔ اگر ایک معاشرہ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کے راستے پر چلے، اب چاہے وہ علماء ہوں یا عوام، اگر حق کے پیچھے نہیں چلتے، حق سے عاری شخص کے پیچھے چلتے ہیں اور امید لگاتے ہیں اس سے معاشرہ خوش حال ہو جاۓ گا غلط فہمی ہے۔ وطن عزیز میں علماء کرام کا خود کو اور مومنین کو ایسے اشخاص کے پیچھے چلانا جو حق سے عاری ہیں، اس امر کا باعث بنتا ہے کہ معاشرہ جہالت کی طرف بڑھتا چلا جاۓ۔ ایک عقلی قاعدہ ہے کہ فاقد الشی معطی الشی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جو شخص خود ایک شے نہیں رکھتا وہ آپ کو کیسے عطا کرے گا؟ جو شخص خود حق سے عاری ہے اور اس کا وجود فساد ہے آپ اس کے ذریعے کیسے حق کو قائم کریں گے؟ پہلے خود اس کے اندر تو حق قائم ہو۔ رشد فرہنگی چاہتے ہیں تو ہدایت کی طرف قدم بڑھائیں جب تک ہدایت کی طرف پلٹ کر نہیں آ جاتے نجات ممکن نہیں۔ رشد فرہنگی اور ہدایت پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ ٹیکنالوجی نہ ہو، لوگوں کے اندر رفاہ نہ ہو، تعلیمی ادارے نہ ہوں، یہ سب ہوں لیکن ہدایت کے نظام کے اندر ہونے چاہیں۔ اگر ہدایت کی اساس پر یہ سب نہ ہو تو ڈاکٹر تو بن جاۓ گا لیکن یہی ڈاکٹر پورے معاشرے کو لوٹے گا، آج ہم یہی دیکھتے ہیں کہ کمیشن کی خاطر یہی ڈاکٹر حضرات مریضوں کو غلط دوائیاں دیتے ہیں۔ انہیں ڈاکٹروں نے میڈیکل ریسرچ کے ذریعے وائرس بنائے اور انسانیت کو تباہ و برباد کیا۔ معلوم ہوا سائنسی ادارے بنا دینے سے معاشرہ سعادت مند نہیں ہو جاتا ۔ معاشرہ سعادت مند تب ہو سکتا ہے جب ہدایت کی اساس پر قائم ہو۔

نظامِ ہدایت کی کوشش

جب تک ہدایت کے لیے اور اس کے نظام کے لیے کوشش نہیں ہوتی حق کے مطابق عمل نہیں ہوتا طاغوت معاشروں پر چھاۓ رہیں گے۔ جب تک ہم سبق امامت کا اور عمل اس کے برعکس انجام دیتے رہیں گے، جب تک سبق ولایت کا اور عمل میں معاویائی سیاست کرتے رہیں گے سعادت کا حصول ممکن نہیں۔ اگر آپ امامت کے ماننے والے ہیں اور آپ کے ہادی بارہ امام ہیں تو ان کی راہ پر چلیں، ہمارے آئمہ معصومینؑ کبھی بھی طاغوتوں کے دربار میں حاضر نہیں ہوۓ، نا ان کے نا جائز حکومتوں کو جواز فراہم کیا ان کے خلاف قیام کی کوششیں کیں۔ ہم خود ایک دروس کا موضوع چلانا چاہتے ہیں کہ وہ افراد جو ان فاسد حکومتوں کا ساتھ دیتے ہیں ان کی معاونت کرتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا؟ روایات میں باقاعدہ طور پر اس موضوع کو بیان کیا گیا ہے اور ہمارے محدثین نے اس موضوع کی احادیث کی الگ ابواب بندی کی ہے۔ اللہ تعالی سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ اس موضوع کو جلد شروع کر سکیں۔

فرعون کے دربار کا حصہ بننے والا ایک شیعہ

روایت میں وارد ہوا ہے کہ حضرت موسیؑ کا ایک شیعہ تھا۔ بہت ہی فقیرانہ زندگی گزار رہا تھا اور جب سے حضرت موسیؑ کے ہمراہ ہوا غریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ جب تک موسیؑ کے ساتھ ہوں مال نہیں بنا سکوں گا، حتی اپنی ضروریات بھی پورا نہیں کر پاؤنگا۔ اس لیے کیوں نا فرعون کے دربار میں چلا جاؤں۔ وہاں مال بھی ہے عزت بھی ہے اور مفادات بھی۔ اس نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ جب فرعون اور موسیؑ کی جنگ ہوگی چھپ چھپا کر موسیؑ کے ساتھ ملحق ہو جاؤنگا کہ کہیں فرعون کے لشکر میں رہ کر جہنمی نہ بن جاؤں۔ یعنی یہ شخص چاہتا تھا دنیا بھی بن جاۓ اور آخرت بھی برباد نہ ہو۔ بالآخر فرعون اور موسیؑ کے لشکر جب دریا کے کنارے ملحق ہوۓ اس نے گھوڑے کو دوڑانا چاہا اور موسیؑ کے لشکر کی طرف آنا چاہا لیکن اس کا گھوڑا بار بار فرعون کے لشکر کی طرف پلٹ جاتا۔ اس نے جتنی کوششیں کیں کہ کسی طرح سے موسیؑ سے ملحق ہو جاۓ ان کے ساتھ نہ مل سکا۔ [3]معلوم ہوا کہ صرف ہدایت کی تعلیمات دل میں ہونا کافی نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہدایت کے راستوں پر چلنا ضروری ہوتا ہے۔ ابھی ہم جتنے امامت ولایت کے عقیدے دل میں رکھ لیں اگر ہمارا راستہ اور طریق طاغوتی راستوں پر ہے طاغوت کے ساتھ ملحق ہو جائیں گے،امامت کے ساتھ ملحق نہ ہونگے۔ آج جو یورپی ممالک میں بیٹھ کر بچوں کو دیندار بنانا چاہتے ہیں وہ بھی جان لیں، ممکن نہیں آپ بچوں کو گمراہ معاشرے میں پلنے بڑھنے کا موقع فراہم کریں اور پھر ان سے توقع رکھیں کہ مومن بن جائیں۔ خود کو مجبوریوں کا پابند بنا لینا راہ حل نہیں کیوں کہ انہیں نظاموں اور گمراہیوں سے نکالنا ہی تو مشکل کام ہے جو کہ کرنا ہے۔ وگرنہ خود آئمہ معصومینؑ بھی یہی کام کرتے، اپنے بندے درباروں میں بھیجتے، بنو عباس اور بنو امیہ کے حکام سے دوستیاں بناتے، ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکتے تھے لیکن یہ کام ان کی سیاست کا حصہ نہیں۔ جس تدبیر کو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے کہ ان نظاموں کا حصہ بن کر شیعہ اور تشیع کا دفاع کریں گے یہ کوئی راہ حال نہیں ہے ہم انہیں نظاموں میں ہی پھنس کر رہ جائیں گے۔

آئمہ معصومینؑ کی سیاسی حکمت عملی

آئمہ معصومینؑ کی سیاسی سیرت کو اگر ملاحظہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی درباروں میں حاضری نہیں دی۔ ان کو درباروں سے منسلک کرنے کی کوششیں بہت کی گئیں حتی حکمرانوں نے خود انہیں پیشکشیں کیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آئمہ کبھی بھی غیر الہی نظاموں میں شامل ہو کر نعوذ باللہ گمراہی کے راستوں پر نہیں چلے۔ ہدایت کا ایک راستہ ہے، صرف اسی پر چلنا ہوگا، آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ پہنچنا تو ہدایت تک چاہتے ہوں لیکن اس کے لیے راستے گمراہی کے اپنا لیں۔ ہدایت کے راستوں پر چلنا ضروری ہے اور اس کے لیے تزکیہ اور تعلیم کی ضرورت ہے اگر امامت ہدف ہے اور امامت پڑھی ہے تو اسی کو نجات کا ذریعہ سمجھو۔ امامت کے نظام کے لیے کوشش کرو اور اس کے لیے دل میں امید پیدا کرو، بہت تعجب کی بات ہے کہ غیر الہی نظاموں کے اندر متحرک افراد اپنے اپنے نظام اور پارٹی کی حکومت کے لیے امیدوار ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ناامید ہے تو وہ صرف امامت کا پیروکار ہے۔ بادشاہت، آمریت، جمہوریت کے پیروکار امیدوار بھی ہیں، اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ ہماری کوشش اور ہماری سیاسی حکمت عملی کیسی ہو؟ امامت کا عقیدہ رکھ کر جمہوری گوسالے کے پیچھے پڑنا کونسی سیاسی حکمت عملی ہے؟ اس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جمہوری حکمرانوں کی حمایت اور اپنوں کی مخالفت

انتہائی افسوس ہوتا ہے جب مومنین اور علماء کرام میں سے بعض افراد جمہوری حکمرانوں کے تمام فساد اور ان کی مجرمانہ شخصیت  کے باوجود ان کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ہاتھوں میں تسبیح ہوتی ہے، عمرہ پر جاتے ہیں، اچھی تقریر کرتے ہیں لیکن ۹۰ فیصد فساد کی زندگی پر پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مثلا خود خان صاحب یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ان کی شخصیت، ان کی زندگی اور مجرمانہ اعمال سب پر واضح ہیں اور سب کو یقین ہے اس بات کا کہ یہ لوگ فاسد ہیں،پھر بھی ان کی بعض قلیل مقدار میں نیکیوں کو اجاگر کر کے ان کی حمایت کی جاتے ہے۔ لیکن جب بات اپنوں کی آتی ہے تو یہی افراد بعض ایسے علماء کے اندر نکتہ چینی کرتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں جن کی ۹۹ فیصد زندگی قرآن، حدیث اور اسلام کے مطابق ہے۔ ان کی شخصی اور انفرادی زندگی کے بعض چھوٹے نکات کو اٹھا کر ان کی شخصیت کشی اور کردار کشی کی جاتی ہے جن کی کوشش ہی اسلام کا قیام، الہی نظام کا قیام اور ان کا نعرہ ہی پاکستانی قوم کے اندر عزت و شرف کا احیاء کرنا ہے۔ کیسے ہم یہ کام کر لیتے ہیں کہ جس کی زندگی ۹۰ فیصد فساد کا شکار ہے اس سے تو ہم ایک فرشتہ بنا لیتے ہیں اور ایک عالم دین جس کی ۹۹ فیصد زندگی حق کے مطابق گزری ہے اس کے خلاف پروپیگنڈہ اور اس کی شخصیت کشی کی جاتی ہے؟ جن کی کوششیں نظام ولایت کے لیے سب پر عیاں ہیں ان کے خلاف ہونا کونسی ایمان داری ہے؟ آپ اپنی اجتماعی اور نجی محافل میں طاغوتوں کی تعریف کرتے ہیں ان کی حکومت کے لیے تعاون کرتے ہیں لیکن امامت کی بات کرنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں، کیا مہدویت کی بات کرنے والے کا تمسخر اڑانا، نظام ولایت اور امامت کی بات کرنے والے کا تمسخر اڑانا بے شعوری نہیں؟ 

پاکستانی شیعہ اور تقیہ

جب اسلامی نظام اور امامت کی بات کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ پاکستانی شیعہ اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ نظام کی بات کرے۔ اور کہتے ہیں کہ ابھی ہمارے لیے تقیہ کی حالت ہے ہمیں امامت اور ولایت کی ابھی بات کرنے کی بجاۓ انہیں موجودہ نظاموں کا حصہ بننا چاہیے۔ جب موقع ہوگا تو تقیہ سے نکل کر امامت کے لیے بھی کوششیں کر لیں گے۔ یہ تجزیہ سراسر غلط تجزیہ ہے۔ آج کا پاکستانی شیعہ کسی بھی صورت میں تقیہ کی حالت میں نہیں ہے۔ شیعہ کی زندگی پاکستان میں اس بات پر منحصر نہیں ہو کر رہ گئی کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف ایک ہی لقمہ ہے اور وہ خنزیر کا ہے۔ اگر خنزیر نہ کھایا تو مر جاۓ گا۔ تقیہ مجبوری کے موارد میں ہوتا ہے اور وہ بھی ایک خاص مقدار تک۔ پاکستان میں کہاں شیعہ اس حالت کو پہنچا ہے کہ وہ اگر ان فاسد نظاموں کا حصہ نہ بنا تو مر جاۓ گا؟[4] شیعہ پاکستان میں پھنسا ہوا نہیں ہے اور اگر پھنس بھی جاۓ تو وہ یہ نہیں کہتا کہ خان صاحب ہمارے ساتھ ہے یا فلاں سیاسی پارٹی ہمارے ساتھ ہے تو ہم بچ جائیں گے۔ ہمارے رہبروں نے ہمیں یہ درس نہیں دیا کہ جب ایک دوراہے میں پھنس جاؤ تو جا کر کسی طاغوت کی پناہ لے لو۔ حضرت موسیؑ کا لشکر جب دریا کنارے پہنچا تو دیکھا کہ پیچھے فرعون کا لشکر ہے اور آگے سمندر۔ اب بعض کمزور ایمان والوں نے کہا کہ اب تو پھنس گئے۔ شاید بعض نے یہ بھی سوچا ہو کہ فرعون کے پاس چلے جاتے ہیں اب تو وہی ہمیں بچا سکتا ہے جیسے آج کا شیعہ سوچتا ہے کہ فلاں خان صاحب اور فلاں پارٹی ہمارے ساتھ ہے ہم بچ جائیں گے۔ حضرت موسیؑ نے یہاں پر کیا کہا؟ فرمایا:

«إِنَّ مَعِیَ رَبِّی».

ترجمہ: میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے۔[5]

حق کے راستوں پر چلیں نظام امامت کے لیے کوشش کریں اور یہ کہیں کہ یقینا ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ قلیل گروہ کو غلبہ عطا کرے گا۔[6] مدینہ فاضلہ میں امید کا محور اللہ تعالی کی ذات ہے۔[7] توکل کریں پھر چاہے قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑے، کوئی بھی مکتب یا تفکر بغیر قربانی کے نہیں پھیلا۔ ظلم سے نبرد، باطل اور طاغوت سے مقابلہ سب انبیاء نے کیاہے۔ جب اپنی ذمہ داری ادا کی تو اللہ تعالی نے بھی نصرت کی۔ جس نے حضرت موسیؑ کے لیے راستہ نکالا وہ آج بھی راستہ نکال سکتا ہے وہ صرف موسیؑ کا خدا نہیں بلکہ اس کا نصرت کا وعدہ سب مومنین کے لیے ہے۔[8]

منابع:

 

↑1 سائٹ استاتید حوزہ۔
↑2 اسراء: ۸۱۔
↑3 شیخ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۱۰۹۔
↑4 سائٹ البر۔
↑5 شعراء: ۶۲۔
↑6 بقرہ: ۲۴۹۔
↑7 احزاب: ۳۔
↑8 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶تا۱۰۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:41
عون نقوی

 

{ دروس ولایت فقیہ:قسط ۴۱ }

مدینہ فاضلہ  کی مختلف تشریحات

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ خاص شرائط کی حامل حکومت کو مدینہ فاضلہ کہتے ہیں۔ وہ خاص شرائط کونسی ہیں جس کی بنا پر ایک حکومت آئیڈیل ریاست بناتی ہے؟ اسلامی مفکرین کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہم نے بیان کیا کہ یہ وہ ریاست ہوتی ہے جس میں لوگ حقیقی سعادت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔[1] 

مغربی معاشرے اور مدینہ فاضلہ

حقیقی سعادت کیا ہے؟ کیونکہ ہر معاشرے میں ہی حکومتیں یہ نعرہ بلند کرتی ہیں کہ ہم لوگوں کو سعادت مند بنائیں گی۔ ان کی خواہشات کی تکمیل کریں گی، امنیت، رفاہ اور تعلیم کا مناسب بندوبست کریں گی۔ کیا انسان کی حقیقی سعادت یہی ہے کہ اس کی خواہشات اور مادی ضروریات پوری کر دی جائیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا مغربی معاشرے مدینہ فاضلہ شمار ہونگے؟ کیونکہ انہوں نے انسان کی مادی ضروریات پوری کر دی ہوئی ہیں، مغربی ممالک میں افراد کو امنیت حاصل ہے، تعلیم کے مواقع موجود ہیں، اچھا روزگار بھی مہیا ہے تو اور کیا چاہیے؟ اگر یہی انسان کی سعادت ہے تو پھر مدینہ فاضلہ کی اعلی مثال یورپی ممالک ہیں۔ ان کا جو دل کہتا ہے کرتے ہیں، ان کے بقول عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزاریں آگے کی زندگی کس نے دیکھی ہے ؟لذات حاصل کرو یہی سعادت ہے۔ مغربی تفکر کے مطابق سعادت کا ایک معنی یہی بنتا ہے۔

سعادت کا غلط معنی

ایک تشریح کے مطابق انسان کی سعادت یہ ہے کہ اس کی شہوات کو پورا کر دیں۔ معاشرے میں کوئی بھی قید و بند نہ ہو سب مطلق آزادی رکھیں، ڈانس کلب بنے ہوں، شراب عام چلے، اقتصادی طور پر سود کی پابندی نہ ہو، مالی طور پر کسی بھی قسم کی مشکل نہ ہو۔ مدینہ فاضلہ کی اس تعریف کی بنا پر مغربی مفکرین نے معاشروں کی بنیاد رکھی ہے اس لیے وہاں جمہوریت کے نام پر ہر قسم کی آزادی ہے۔ مالی آزادی کے طور پر انہوں نے بینک بنایا ہے۔ بینک کی اساس ہی اسلامی تفکر کے برخلاف ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ مال گردش میں رہے اور انفاق کیا جاۓ۔ لیکن بینک کی اساس یہ ہے کہ مال جمع کریں۔ یہ تفکر مفادات پر کھڑا ہے اگر مفاد کے حصول کے لیے کچھ بھی داؤ پر لگتا ہے مشکل نہیں۔ مثلا خود ایران میں حسن روحانی کی حکومت آئی ان کا نظریہ یہ تھا کہ اسلامی اقدار اور انقلاب کے اصولوں پر ہم چلتے ہیں تو ملک پر پابندیاں لگتی ہیں اس لیے ہمیں تسلیم ہو جانا چاہیے اور جو کچھ اسلام دشمن ہم سے چاہتے ہیں ہم وہ سب انجام دیں تاکہ پابندیاں ہٹ جائیں اقتصاد مضبوط ہو چاہے عزت جاتی ہے، قدرت اور اسلام کا اقتدار بے شک چلا جاتا ہے امریکہ کی غلامی میں کم از کم ہمارا اقتصاد تو اچھا ہوگا۔ اس کو وہ سعادت سمجھتے تھے۔ جیسا کہ ہمارے حکمران بھی ایسا ہی کرتے ہیں بے شک ان کو عرب ممالک کے سربراہوں کی گاڑی ڈرائیو کرنی پڑ جاۓ، یا ان کے ہر بدترین عمل کی تاویل کرنا پڑے انجام دیتے ہیں۔ مثلا آل سعود کی یمن میں بمبارمنٹ اور بچوں کے قتل عام کی ہمارے حکمران حمایت کرتے ہیں اور یمن میں اپنے ہی ملک کا دفاع کرنے والوں کو باغی کہتے ہیں۔ یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ تاکہ ہمیں کچھ ڈالر عطا کریں اس کو وہ پاکستانی معاشرے کے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم اور دین اسلام اس کو معاشرے کی سعادت نہیں مانتا۔ اس لیے اسلامی مفکرین نے حقیقی سعادت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حقیقی سعادت سے مراد کیا ہے؟ حقیقی سعادت کا مصنف معنی کرتے ہیں کہ وہ معاشرہ جس میں علمی اور عملی ترقی اوج پر ہے۔ لیکن اس کی اساس مادی اور شہوانی نہیں ہے جس طرح سے ہم مغربی معاشرے دیکھتے ہیں کہ وہاں علمی اور عملی ترقی ہے لیکن اس کی اساس مادی ہے مدینہ فاضلہ میں جس سعادت کے حصول کے لیے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اس کی اساس اللہ تعالی کی ذات ہے۔

نظام کے ذریعے علمی اور عملی رشد

مصنف فرماتے ہیں کہ مدینہ فاضلہ کا جو تصور اسلام نے پیش کیا ہے اس میں علمی اور عملی رشد و ترقی ہمراہ ہیں۔ صرف ایک کا ہونا کافی نہیں۔ بلکہ ہر دو ایک ساتھ ہیں ۔ ان دونوں کا ہمراہ ہونا ایک سسٹم کے تحت ہی ممکن ہے اگر سسٹم اور نظام وجود میں نہ آۓ ہم ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں چلا سکتے۔ حتی کوئی بھی شے ہو وہ نظام کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس نظام پر ہمیں بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نظام نہ بنائیں تو گھر میں آٹا بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے بھی آپ کو نظام کی ضرورت ہے۔ پہلے بیج زمین کے اندر جاتا ہے، اس کو ایک مناسب مقدار کا پانی ملتا ہے، اس کے بعد فصل پکتی ہے، اس میں سے دانہ الگ اور بھوسہ الگ ہوتا ہے، اس کے بعد آٹا بنتا ہے، آٹے کو گوند کر پکا کر اس کی روٹی بناتے ہیں۔ یہ سب نظام ہے۔ اگر نظام نہ ہو تو کوئی بھی شے قابل استفادہ نہیں ۔ اسی طرح سے دین ہے ، دین بھی نظام کے بغیر انسان کی نجات کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ مثلا اگر آپ پاکستان میں مدینہ فاضلہ یا ایک آئیڈیل ریاست بنانا چاہیں اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیسے لوگ حقیقی سعادت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں؟ اس سب کے لیے آپ کو نظام بنانا ہوگا اگر آپ نے نظام نہ دیا سعادت حاصل نہیں ہو سکتی۔

نظام کے بغیر مدینہ فاضلہ

رسول اللہﷺ نے جس ریاست کی بنیاد رکھی اور جس دین کی تبلیغ فرمائی اگر اس کے لیے نظام تشکیل نہ دیتے تو اس دین کا کیا نتیجہ نکلتا جو اتنی زحمات سے تبلیغ ہوا؟ اگر امام خمینیؒ ولایت فقیہ کی شکل میں سیاسی نظام نہ دیتے تو شہدی کی عظیم قربانیوں اور انقلاب کا نتیجہ کیا نکلتا؟ معلوم ہے کہ نظام کے بغیر سب زحمات رایگان جاتیں۔ اگر آپ نظام نہ بنائیں ایک چھوٹا سا ادارہ بھی نہیں چلا سکتے۔ دس کمروں پر محیط مدرسے میں چار بندے نہیں رہ سکتے اگر اس مدرسے کے اندر نظام نہ ہو۔ اگر نظام نہ ہو امنیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے افراد کی ضروریات پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سسٹم پر دقت کیے بغیر ہم دین کو بھی نہیں سمجھ سکتے ۔اب تو باقاعدہ ایک علمی شعبہ بن گیا ہے جس میں طالب علم پڑھتا ہے کہ سسٹم کیسے بنتا ہے؟ سسٹم کیسے بنانا ہے؟ تعلیمی سسٹم، اقتصادی سسٹم وغیرہ۔

مدینہ فاضلہ ایک اسلامی نظریہ

مندجہ بالا تذکرات کے بعد معلوم ہوا کہ مدینہ فاضلہ کوئی خطرناک چیز نہیں۔ اس لیے ہمیں اس آئیڈیل ریاست تک رسائی کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ مدینہ فاضلہ کے بارے میں ہم نے بیان کیا کہ قدیم دور سے اس موضوع پر مفکرین نے قلم اٹھایا۔ اسلامی مفکرین نے اس کو مدینہ فاضلہ کی اصطلاح کے ذیل میں بحث کیا۔ عباسیوں کے دور خلافت میں یہ اصطلاح پوری دنیا میں علمی اصطلاح کے طور پر مشہور ہو گئی تھی۔ اس وقت عالمی زبان عربی شمار ہوتی تھی جیسے آج کے دور میں انگریزی عالمی زبان شمار ہوتی ہے اسی طرح عربی زبان تھی کہ اس کی اصطلاح تمام عالم اسلام میں پھیل گئی۔[2]

منابع:

 

↑1 سائٹ البر۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:39
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ:قسط ۴۰ }

مدینہ فاضلہ  

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

مدینہ فاضلہ سے مراد آئیڈیل معاشرہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں چند مخصوص صفات پائی جاتی ہیں۔ وہ خصوصیات کونسی ہیں اور مدینہ فاضلہ کیسا ہوگا؟ اس میں مغربی اور اسلامی مفکرین نے اختلاف کیا ہے۔ سیاست کے موضوع پر لکھی جانے والی قدیم دور کی کتابوں میں یہ لفظ ہمیں نظر آتا ہے۔ حتی یونانی دانشور افلاطون، ارسطو کے آثار میں بھی ہم یہ بحث موجود پاتے ہیں۔ اسلامی مفکرین میں فارابی، ابن سینا، ابن خلدون اور ماوردی نے مدینہ فاضلہ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ 

لفظی معنی

مدینہ فاضلہ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ مدینہ یعنی شہر۔ مدینہ کی جمع مدن ہے اور اسی سے لفظ تمدن بھی ہے۔ تمدن یعنی شہر سازی یا آبادی۔[1][2][3][4] فاضلہ کے معنی خیر کے ہیں۔[5] پس مدینہ فاضلہ یعنی ایسا شہر جس میں رہنے والے افراد خیر و برکت میں ہیں۔ 

اصطلاحی معنی

مدینہ فاضلہ کی اصطلاحی تعریف میں فارابیؒ لکھتے ہیں: 

مدینہ فاضلہ وہ معاشرہ ہے جس میں سعادت کے حاصل کرنے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔[6] خواجہ طوسیؒ فرماتے ہیں: مدینہ فاضلہ ایک ایسا مدینہ ہے جس میں رہنے والے لوگ حقیقی سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس معاشرے پر حکیم و فاضل افراد حاکم ہوتے ہیں۔[7][8] ملا صدرا نے مدینہ فاضلہ کی تعریف اس طرح سے بیان کی ہے:

مدینہ فاضلہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس کے شہر (اہالی شہر) حقیقی خیر کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔[9]

مدینہ یا مدنی زندگی تمدن سے مربوط زندگی ہے جس میں آبادیاں ایک ساتھ رہتی ہیں، پکے مکان، رہائش کے لیے مناسب انتظام، نکاسی کا سسٹم اور گلیاں ہیں۔ قدیم ترین تمدن میں ایک مشہور نام سندھ میں موہنجو داڑو ہے۔ اس کے مقابلے میں غیر متمدن معاشرے ہیں جن میں لوگ کسی خاص جگہ رہائش نہیں بناتے، گھروں کا انداز نہیں ہے، نالیاں اور آب نکاسی کا کوئی انتظام نہیں، لباس اور آداب نہیں رکھتے۔

مدینہ فاضلہ کی اصطلاح

انسان جب سے خلق ہوا ہے ایک آئیڈیل اور نمونہ حکومت کا خواہاں تھا۔ ابتدا میں جب آبادیاں نہیں پھیلی تھیں اور انسانوں کے مفادات اور ان کی ضروریات بہت قلیل تھیں قانون اور شریعت کی خاص ضرورت نہ تھی۔ حضرت نوحؑ کے بعد شریعت کا آغاز ہوا، آبادیاں بڑھ گئیں اور مفادات کے حصول کے لیے انسانوں کے مابین اختلافات پیدا ہونا شروع ہوۓ یہاں پر ضروریات اور انسانی ما یحتاج کی عادلانہ تقسیم کے لیے حکومت اور قانون کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ جب اجتماعی مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو نصیحت اور وعظ سے حل کرنا ممکن نہیں رہتا اس کے لیے حاکمیت کی ضرورت پڑتی ہے اور قانون کے ذریعے معاشرے کی مدیریت ممکن ہوتی ہے۔ یہیں سے ہی ایک آئیڈیل ریاست اور آئیڈیل معاشرے کا تصور ذہنوں میں ابھرا۔ مختلف مفکرین نے آراء پیش کیں اور ذکر کیا کہ معاشرے کو کیسا ہونا چاہیے، اس کا حاکم کیسا ہو؟ عوام کیسے ہوں، قوانین کیسے ہوں؟ جب یہ سب امور ایک احسن طریقے سے چل رہے ہوں اور انسان سعادت حاصل کر رہا ہو یہ معاشرہ مدینہ فاضلہ ہوگا۔ 

آئیڈیل ریاست کونسی ہے؟

ایک پاکستانی شہری کے نزدیک آئیڈیل ریاست کون سی ہے؟ شاید اس کا جواب دیا جاۓ کہ آئیڈیل ریاست یا مدینہ فاضلہ وہ ہے جس میں لوگ امنیت کے ساتھ رہیں، دہشتگردی نہیں، لوٹ مار نہیں، اس ریاست میں عدالت قائم ہے، کسی غریب پر ظلم نہیں ہوتا، اگر کوئی ظلم کرے بھی تو اس کو انصاف ملتا ہے۔ اس ریاست میں سب کو تعلیمی سہولیات میسر ہیں، رفاہی مسائل نہیں ہیں اس معاشرے کا اقتصاد مضبوط ہے غربت بہت قلیل مقدار میں ہے، اگر کوئی حکومت ایک ریاست کو اس سطح پر لے جاۓ شاید ہم اسے آئیڈیل ریاست کہہ دیں۔ جیسا کہ ہمارے سامنے مغربی سوسائٹیز موجود ہیں وہاں یہ سب موجود ہے لیکن کیا قرآن کریم اور اسلام کی نظر میں بھی یہی آئیڈیل ریاست ہے؟ اس کا ایک مختصر بیان مندرجہ بالا سطور میں گزرا ہے آئندہ آنے والی اقساط میں اس پر مزید بیان آۓ گا۔[10]

منابع:

 

↑1 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۷۶۳۔
↑2 ابن فارس، احمد، معجم مقائیس اللغہ، ج۵، ص۳۰۶۔
↑3 ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۱۳، ص۴۰۲۔
↑4 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۱، ص۵۴۔
↑5 ابن فارس، احمد، معجم مقائیس اللغہ، ج۴، ص۵۰۸۔
↑6 فارابی، محمد بن محمد، آراء اہل مدینہ فاضلہ، ص۱۱۸۔
↑7 طوسی، خواجہ نصیرالدین، اخلاق ناصری، ص۲۴۲۔
↑8 طوسی، خواجہ نصیرالدین، اخلاق ناصری، ص۲۵۷۔
↑9  ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، مبدا و معاد، ص۴۹۰۔
↑10 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:36
عون نقوی