بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «آئمہ معصومینؑ» ثبت شده است

زرارہ بن اوفى کہتا ہے کہ میں امام زین العابدین علیہ السلام کى خدمت میں حاضر ہوا تو امام ع نے فرمایا:

فِی زَمَانِنَا عَلَى سِتِّ طَبَقَاتٍ أَسَدٍ وَ ذِئْبٍ وَ ثَعْلَبٍ وَ کَلْبٍ وَ خِنْزِیرٍ وَ شَاةٍ فَأَمَّا الْأَسَدُ فَمُلُوکُ الدُّنْیَا یُحِبُّ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَنْ یَغْلِبَ وَ لَا یُغْلَبَ وَ أَمَّا الذِّئْبُ فَتُجَّارُکُمْ یَذُمُّونَ إِذَا اشْتَرَوْا وَ یَمْدَحُونَ إِذَا بَاعُوا وَ أَمَّا الثَّعْلَبُ فَهَؤُلَاءِ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ بِأَدْیَانِهِمْ وَ لَا یَکُونُ فِی قُلُوبِهِمْ مَا یَصِفُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ وَ أَمَّا الْکَلْبُ یَهِرُّ عَلَى النَّاسِ بِلِسَانِهِ وَ یُکْرِمُهُ النَّاسُ مِنْ شَرِّ لِسَانِهِ وَ أَمَّا الْخِنْزِیرُ فَهَؤُلَاءِ الْمُخَنَّثُونَ وَ أَشْبَاهُهُمْ لَا یُدْعَوْنَ إِلَى فَاحِشَةٍ إِلَّا أَجَابُوا وَ أَمَّا الشَّاةُ فَالْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ تُجَزُّ شُعُورُهُمْ وَ یُؤْکَلُ لُحُومُهُمْ وَ یُکْسَرُ عَظْمُهُمْ فَکَیْفَ تَصْنَعُ الشَّاةُ بَیْنَ أَسَدٍ وَ ذِئْبٍ وَ ثَعْلَبٍ وَ کَلْبٍ وَ خِنْزِیرٍ.

ترجمہ

ہمارے اس موجودہ دور میں لوگ چھ طبقات پر مشتمل ہیں:

طبقہ ۱: شیر 
طبقہ ۲: بھیڑئیے
طبقہ ۳: لومڑى
طبقہ ۴: کتے
طبقہ ۵ : خنزیر
طبقہ ۶ : گوسفند 

تشریح طبقہ ۱:

شیر وہ طبقہ ہے کہ جو دنیا کے حکمران ہیں کہ ان میں سے ہر ایک حکمران یہ چاہتا ہے کہ دوسرے حکمران پر غالب رہے اور دوسرے ان پر غالب نہ ہو پائیں۔

تشریح طبقہ ۲:

بھیڑئیوں کا طبقہ تم میں سے تاجر حضرات ہیں وہ تاجر کہ جو جنس خریدتے وقت تو جنس کى برائى کرتے ہیں لیکن وہى چیز بیچتے وقت اس کى تعریف کرتے ہیں۔

تشریح طبقہ ۳:

لومڑى صفت افراد وہ ہیں کہ جو اپنے دین کو ذریعہ بنا کر کھاتے ہیں اور ان لوگوں کى جو زبان پر ہوتا ہے وہ ان کے دل میں موجود نہیں ہوتا ہے اور اس پر دل سے ایمان نہیں رکھتے۔

تشریح طبقہ ۴:

کتا صفت طبقہ وہ لوگ ہیں کہ جو لوگوں پر اپنى زبان کى تیزى چلاتے ہیں اور لوگ ان کی زبان کى تیزی کے ڈر سے ان کا احترام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

تشریح طبقہ ۵:

خنزیر نامردوں کا وہ طبقہ ہے کہ جو ہر فحاشى کو لبیک کہتے ہیں کوئى بھى ایسى فحاشى نہیں جسے انہوں نے انجام نہ دیا ہو۔

تشریح طبقہ ۶:

اور گوسفند یہ مومنین کا طبقہ ہے کہ جن کى کھالیں ادھیڑى جا رہى ہیں ، ان کا گوشت کھایا جا رہا ہے ، ان کى ہڈیاں توڑى جارہى ہیں ، پس جو گوسفند بیچارى شیر ، بھیڑئیوں ، لومڑیوں ، کتوں اور خنزیروں کے بیچ پھنس چکى ہو اس کا کیا بنے گا ؟؟

مقام غور و فکر

امام علیہ السلام کی اس تقسیم کے مطابق ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئیے کہ ہمارا شمار  کس طبقے میں ہوتا ہے۔

  کیا ہم پہلے طبقے میں تو شامل نہیں کہ جو ہمیشہ خود کو بالا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ؟ خود کو غالب اور دوسرے کو مغلوب کرنا چاہتا ہے؟

 کہیں ہم دوسرے طبقے میں تو شامل نہیں کہ جو ہمیشہ اپنے مفاد کا سوچتا ہے ؟

 کہیں ہم تیسرے طبقے میں تو شامل نہیں کہ جو دین کو ، قرآن کریم کو ، اہلبیت علیہم السلام کو ، کربلا کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بناتا ہے ؟؟

 کہیں ہم چوتھے طبقے میں تو شامل نہیں کہ جنکی زبان کی تندی اور طوفان بدتمیزی سے لوگ اس سے ہمکلام ہونے سے بھی ڈرتے ہیں ؟؟

 کہیں خدانخواستہ پانچویں طبقے میں گناہکاروں و فاسق و فاجروں میں تو شامل نہیں ؟؟

 یا چھٹے طبقے میں شامل ہیں، وہ مومنین کہ جو ان پانچوں طبقوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے؟

 

 



حوالہ:
۱۔ کتاب شریف الخصال، شیخ صدوقؒ، ج١، ص۳۳۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 21 ، 20:00
عون نقوی

امام محمد باقر علیہ السلام

متن عربی:

أَنْتُمُ اَلَّذِینَ اِجْتَنَبُوا اَلطّٰاغُوتَ أَنْ یَعْبُدُوهٰا  وَمَنْ أَطَاعَ جَبَّاراً فَقَدْ عَبَدَهُ.

اردو ترجمہ:

تم وہ لوگ ہو جنہوں نے طاغوت کی پرستش و عبادت سے اجتناب کیا۔ جس شخص نے ظالم جابر کی اطاعت و فرمانبرداری کی اس نے اس کی عبادت و بندگی کی۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار علیہم السلام، ج۲۳، ص۳۶۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 10:11
عون نقوی

امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں

متن عربی:

الْوِلَایَاتُ مَضَامِیرُ الرِّجَالِ. 

ترجمہ:

حکومتیں لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے۔

قابل توجہ نکات:

زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی حکومت اور حاکمیت سے غیر مربوط نہیں، بہرصورت حکام اور حکومتیں آپ کی زندگی سے مربوط ہونگیں اور آپ کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو متاثر کریں گی۔ اگر آپ غیر سرکاری ملازمت کرتے ہیں، عام مزدور ہیں یا سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے، آپ کی زندگی کو حکومت اور حکام متاثر کریں گے۔
کرہ ارض پر کوئی بھی انسان یہ بات نہیں کر سکتا کہ اس کا حکومتوں سے کوئی لین دین نہیں اور نا ہی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے، اگر آپ خود کو نابینا کر لیں یہ اور بات ہے لیکن حکومتیں آپکی زندگی کو متاثر کر کے رہیں گی، خود آپ کا یہ کہنا کہ مجھے حکومتی امور یا سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، یہی کہنا حکومت سے مربوط ہو جاتا ہے اور جب کوئی چیز باواسطہ یا بلا واسطہ حکومت سے مربوط ہو جائے آپ سے بھی مربوط ہو جائے گی۔ 
بعض افراد ایسی بات کہہ تو دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ جس سسٹم اور نظام میں آپ رہ رہے ہیں ان کو حکومتیں چلاتی ہیں، مثلا آپ کا جو اقتصاد و گھر کا خرچہ چل رہا ہے اس کا تمام دارومدار حکومتوں پر ہے، اگر حکومتیں کرپٹ ہوئیں تو آپ جتنا بھی کمائیں گے بھوک افلاس سے نہیں بچ سکتے، آپ کا سانس لینا اور صحتمند ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے کیونکہ اگر حکومتوں نے صحت و تندرستی کے ادارے نا بناۓ یا وہاں پر نالایق افراد بھیج دیے آپ زندہ نہیں رہ سکیں گے یا اگر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول نہ کیا تو آپ کا سانس لینا بھی دشوار ہو جاۓ گا۔
آپ کا امن و امان میں رہنا ہر روز باہر جانا، بازار سے روز و مرہ کی اشیاء خریدنا بھی حکومتوں سے مربوط ہے اگر حکومت نااہل و غدار آ گئی تو ملک دشمن عناصر آپ پر مسلط ہو جائیں گے و عین ممکن ہے ملک اور عوام کو چند داموں کے عوض بیچ کر خود فرار ہو جائیں اور آپ کو ابدی غلامی میں دھکیل دیں۔
آپ کی ازدواجی زندگی حتی بچوں کا پیدا ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے یعنی اگر آج ہی حکومت اعلان کر دے کہ کوئی بھی شخص شادی نہیں کر سکے گا یا اسکا نکاح درج نہیں ہوگا جب تک اتنا پیسہ ٹیکس نہ دے دے، یا فقط اتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ حکومت کے پاس آبادی کے لیے وسائل نہیں ہیں تو آپ مجبور ہیں اپنی ازدواجی و انفرادی زندگی کو بھی محدود کریں۔
آپ کس انداز اور کس سوچ سے زندگی کرتے ہیں ہیں یہ بھی حکومتوں سے مربوط ہے، آپ کا رہن سہن، آپ کا دین اور اپکا کلچر حکومتوں کے مزاج پر منحصر ہے اگر آپ زندگی کے ہر شعبے سے منسلک کام کو حکومتوں سے مربوط کرنے لگ جائیں خود آپ اس ربط کو سمجھنے لگیں گے اور اسی وقت یہ بھی ضرور سوچیں کہ اگر اس حکومت کی جگہ پر کوئی اللہ کا نیک نمائندہ حاکمیت پر ہوتا تو اس وقت کیا ہوتا؟ 
امیرالمومنینؑ کے اس قول پر ایمان لانا ضروری ہے چاہے آپ ایمان نہ بھی لائیں عملی طور پر بہرحال حکومتیں آپ کے لیے آزمائش کا میدان ہیں، اگر رفاہ لے آئیں تو تب بھی اپکو رفاہ دے کر آزمائش میں ڈال دیں گی، اگر غربت میں دھکیل دیا تو یہ خود بہت بڑی آزمائش ہوگی حتی اگر الہی و اسلام کی حقیقی حکومت بھی قائم ہو جاۓ تب بھی آپ آزمائش سے نہیں چھٹکار حاصل کر سکتے خود امیرالمومنینؑ کی حکومت کا دورانیہ لے لیں اور اس وقت کے حالات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی لوگ ازماۓ گئے اور بہت سخت طریقے سے آزماۓ گئے لیکن اس میں فرق یہ تھا کہ جو اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے وہ زمانے کے بہترین و سچے شیعہ بنے اور جو ناکام ہوۓ ابدی رسوائی ان کا نصیب بنی۔
امام خمینیؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ لوگ خود سوچ کر بتائیں حکومت کو حسینؑ جیسے اہل ترین، پاک ترین و عادل ترین انسان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے یا یزید جیسے ناہل ترین، نجس ترین و فاسق ترین شخص کے ہاتھ میں؟ اگر آپ اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں تو آپ کو حسینؑ کا ساتھ دینا ہوگا آپ حسینؑ سے غیرجانبدار نہیں ہو سکتے، اگر آپ یزید کے لشکر میں ہیں تو ویسے ہی ابدی ذلت ہے اور اگر دونوں سے خود کو جدا کر لیں تو تب بھی بچ نہیں سکتے کیونکہ یزید صرف دین کا اور امام کا ہی دشمن نہیں بلکہ عام گلی محلوں دفات میں کام کرنے والوں کا بھی دشمن ہے اور ایسا ہی ہوا، کربلا کے بعد ایسے افراد بھی قتل عام ہوۓ جو سمجھتے تھے کہ یزید کو ہم سے کیا کام؟ ہم تو غیر جانبدار ہی۔ اگر آپ نے خود کو اس سب سے جدا کر کیا اور کہا کہ میں غیر جانبدار ہوں مجھے کسی بھی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں تو آۓ گا کوئی یزید جیسا حاکم اور آپ کو اس گروہ میں شامل کردے گا جس پر زیارت عاشورہ میں لعنت کی گئی ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ زیارت عاشورہ میں فقط قاتلین پر لعنت نہیں ہوئی بلکہ اس خاموش امت پر بھی لعنت کی گئی ہے جو یزید کے لشکر میں تو شامل نہ تھی لیکن امام حسینؑ کا بھی ساتھ نہ دیا۔
دین کے اندر غیرجانبداری اس معنی میں ہرگز نہیں پائی جاتی کہ آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ اجتماعی امور میں، میں الگ تھلگ رہ لونگا اور کسی کو کچھ کہنوگا اور نا سنونگا۔ آپ خود آزما لیں، جنگلوں اور بیابانوں میں رہنا شروع کر دیں بالآخر ایک نا ایک دن یہی جنگل حکومتی اہلکاروں کے ہاتھوں کٹ جائیں گے اور جنگل کا ستیاناس کرنے کے بعد وہیں کوئی ٹاؤن یا سوسائٹی بنا دی جاۓ گی۔ بالآخر آپ حکومتوں کے ہاتھوں آزماۓ جائیں گے اس لیے دین نے واجب قرار دیا ہے کہ حکومت صرف الہی نمائندے کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو آپ کو آزماۓ تو کم از کم ابدی سعادت تک پہنچا دے، لیکن اگر اس کے برعکس کسی غیر الہی حکومت کے ہاتھوں آپ آزماۓ گئے تو سعادت کے چانس کم ہیں اور امت ساری اجتماعی ہلاکت میں جا گرے گی۔

 

 


حوالہ:

۱۔ نہج البلاغہ، حکمت ۴۴۰۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 October 21 ، 10:40
عون نقوی

 امام جعفر صادق علیہ السلام

متن عربی:

ثَلَاثَةٌ إِنْ یَعْلَمْهُنَّ الْمُؤْمِنُ کَانَتْ زِیَادَةً فِی عُمُرِهِ وَ بَقَاءَ النِّعْمَةِ عَلَیْهِ، تَطْوِیلُهُ فِی رُکُوعِهِ وَ سُجُودِهِ فِی صَلَاتِهِ وَ تَطْوِیلُهُ لِجُلُوسِهِ عَلَى طَعَامِهِ إِذَا أَطْعَمَ عَلَى مَائِدَتِهِ وَ اصْطِنَاعُهُ الْمَعْرُوفَ إِلَى أَهْلِهِ.

ترجمہ:

تین چیزیں ہیں کہ اگر ان کا مومن کو علم ہو جائے تو وہ اس کی طول عمر اور نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کا باعث بنیں گی:

۱۔ رکوع و سجود کو طول دینا
۲۔ دسترخوان پر زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا، ایسے دسترخوان پر کہ جس پر وہ دوسروں کو اطعام کروا رہا ہو۔
۳۔ اور اپنے اہل و عیال سے خوش رفتاری سے پیش آنا۔

 

 


 حوالہ:

کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۴۹۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 October 21 ، 10:31
عون نقوی

ایک گورنر کی کرپشن معلوم ہونے پر فرمایا

متن خطبہ:

وَ إِنِّی أُقْسِمُ بِاللَّهِ قَسَماً صَادِقاً لَئِنْ بَلَغَنِی أَنَّکَ خُنْتَ مِنْ فَیْ‏ءِ الْمُسْلِمِینَ شَیْئاً صَغِیراً أَوْ کَبِیراً لَأَشُدَّنَّ عَلَیْکَ شَدَّةً تَدَعُکَ قَلِیلَ الْوَفْرِ ثَقِیلَ الظَّهْرِ ضَئِیلَ الْأَمْرِ وَ السَّلَامُ.

ترجمہ اردو:

میں اللہ کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ہیر پھیر کی ہے۔ تو یاد رکھو کہ میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمہیں تہی دست، بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کرکے چھوڑے گی۔ والسلام!

English Translation:

I truthfully swear by Allah that if I come to know that you have misappropriated the funds of the Muslims, small or big, I shall inflict upon you such punishment which will leave you empty-handed, heavy-backed and humiliated; and that is an end to the matter.

 

 


حوالہ:

۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۵، ص۲۰، و من کتاب لہ ع الى زیاد ابن ابیہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 September 21 ، 12:45
عون نقوی