بصیرت اخبار

فِیْ اسْتِنْفَارِ النَّاسِ اِلٰۤی اَهْلِ الشَّامِ

لوگوں کو اہلِ شام سے آمادہ جنگ کرنے کیلئے فرمایا

اُفٍّ لَّکُمْ! لَقَدْ سَئِمْتُ عِتَابَکُمْ! ﴿اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ ﴾ عِوَضًا؟ وَ بِالذُّلِّ مِنَ الْعِزِّ خَلَفًا؟ اِذَا دَعَوْتُکُمْ اِلٰی جِهَادِ عَدُوِّکُمْ دَارَتْ اَعْیُنُکُمْ، کَاَنَّکُمْ مِنَ الْمَوْتِ فِیْ غَمْرَةٍ، وَ مِنَ الذُّهُوْلِ فِیْ سَکْرَةٍ، یُرْتَجُ عَلَیْکُمْ حَوَارِیْ فَتَعْمَهُوْنَ، فَکَاَنَّ قُلُوْبَکُمْ مَاْلُوْسَةٌ، فَاَنْتُمْ لَا تَعْقِلُوْنَ. مَاۤ اَنْتُمْ لِیْ بِثِقَةٍ سَجِیْسَ اللَّیَالِیْ، وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِرُکْنٍ یُّمَالُ بِکُمْ، وَ لَا زَوَافِرِ عِزٍّ یُّفْتَقَرُ اِلَیْکُمْ.

حیف ہے تم پر! میں تو تمہیں ملامت کرتے کرتے بھی اکتا گیا ہوں۔ ’’کیا تمہیں آخرت کے بدلے دنیوی زندگی اور عزت کے بدلے ذلّت ہی گوارا ہے‘‘ ؟ جب تمہیں دشمنوں سے لڑنے کیلئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح گھومنے لگ جاتی ہیں کہ گویا تم موت کے گرداب میں ہو اور جان کنی کی غفلت اور مدہوشی تم پر طاری ہے۔ میری باتیں جیسے تمہاری سمجھ ہی میں نہیں آتیں تو تم ششدر رہ جاتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے جیسے تمہارے دل و دماغ پر دیوانگی کا اثر ہے کہ تم کچھ عقل سے کام نہیں لے سکتے۔ تم ہمیشہ کیلئے مجھ سے اپنا اعتماد کھو چکے ہو۔ نہ تم کوئی قوی سہارا ہو کہ تم پر بھروسا کر کے دشمنوں کی طرف رخ کیا جائے اور نہ تم عزت و کامرانی کے وسیلے ہو کہ تمہاری ضرورت محسوس ہو۔

مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا کَاِبِلٍ ضَلَّ رُعَاتُهَا، فَکُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ انْتَشَرَتْ مِن اٰخَرَ، لَبِئْسَ ـ لَعَمْرُ اللهِ! سَعْرُ نَارِ الْحَرْبِ اَنْتُمْ، تُکَادُوْنَ وَ لَا تَکِیْدُوْنَ، وَ تُنْتَقَصُ اَطْرَافُکُمْ فَلَا تَمْتَعِضُوْنَ، لَا یُنَامُ عَنْکُمْ وَ اَنْتُمْ فِیْ غَفْلَةٍ سَاهُوْنَ، غُلِبَ وَاللهِ الْمُتَخَاذِلُوْنَ، وَایْمُ اللهِ! اِنِّیْ لَاَظُنُّ بِکُمْ اَنْ لَّوْ حَمِسَ الْوَغٰی، وَ اسْتَحَرَّ الْمَوْتُ، قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ انْفِرَاجَ الرَّاْسِ.

تمہاری مثال تو ان اونٹوں کی سی ہے جن کے چرواہے گُم ہو گئے ہوں، اگر انہیں ایک طرف سے سمیٹا جائے تو دوسری طرف سے تتر بتر ہو جائیں گے ۔ خدا کی قسم! تم جنگ کے شعلے بھڑکانے کیلئے بہت برے ثابت ہوئے ہو۔ تمہارے خلاف سب تدبیریں ہوا کرتی ہیں اور تم دشمنوں کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کرتے۔ تمہارے (شہروں کے) حدود (دن بہ دن) کم ہوتے جا رہے ہیں مگر تمہیں غصہ نہیں آتا۔ وہ تمہاری طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو۔ خدا کی قسم! ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں تمہارے متعلق یہ گمان رکھتا ہوں کہ اگر جنگ زور پکڑ لے اور موت کی گرم بازاری ہو تو تم ابن ابی طالب سے اس طرح کٹ جاؤ گے جس طرح بدن سے سر (کہ دوبارہ پلٹنا ممکن ہی نہ ہو)۔

وَاللهِ! اِنَّ امْرَاً یُّمَکِّنُ عَدُوَّهٗ مِنْ نَّفْسِهٖ یَعْرُقُ لَحْمَهٗ، وَ یَهْشِمُ عَظْمَهٗ، وَ یَفْرِیْ جِلْدَهٗ، لَعَظِیْمٌ عَجْزُهٗ، ضَعِیْفٌ مَّا ضُمَّتْ عَلَیْهِ جَوَانِحُ صَدْرِهٖ. اَنْتَ فَکُنْ ذَاکَ اِنْ شِئْتَ، فَاَمَّا اَنَا فَوَاللهِ! دُوْنَ اَنْ اُعْطِیَ ذٰلِکَ ضَرْبٌۢ بِالْمَشْرَفِیَّةِ تَطِیْرُ مِنْهُ فَرَاشُ الْهَامِ، وَ تَطِیْحُ السَّوَاعِدُ وَ الْاَقْدَامُ، وَ یَفْعَلُ اللهُ بَعْدَ ذٰلِکَ مَا یَشَآءُ.

(خدا کی قسم!) جو شخص کہ اپنے دشمن کو اس طرح اپنے پر قابو دے دے کہ وہ اس کی ہڈیوں سے گوشت تک اتار ڈالے اور ہڈیوں کو توڑ دے اور کھال کو پارہ پارہ کر دے، تو اس کا عجز انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور سینے کی پسلیوں میں گھرا ہوا (دل) کمزور و ناتواں ہے۔ اگر تم ایسا ہونا چاہتے ہو تو ہوا کرو، لیکن میں تو ایسا اس وقت تک نہ ہونے دوں گا جب تک مقام مشارف کی (تیز دھار) تلواریں چلا نہ لوں کہ جس سے سر کی ہڈیوں کے پرخچے اڑ جائیں اور بازو اور قدم کٹ کٹ کر گرنے لگیں۔ اس کے بعد جو اللہ چاہے وہ کرے۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ لِیْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، وَ لَکُمْ عَلَیَّ حَقٌّ: فَاَمَّا حَقُّکُمْ عَلَیَّ: فَالنَّصِیْحَةُ لَکُمْ، وَ تَوْفِیْرُ فَیْئِکُمْ عَلَیْکُمْ، وَ تَعْلِیْمُکُمْ کَیْلَا تَجْهَلُوْا، وَ تَاْدِیْبُکُمْ کَیْمَا تَعْلَمُوْا. وَ اَمَّا حَقِّیْ عَلَیْکُمْ فَالْوَفَآءُ بِالْبَیْعَةِ، وَ النَّصِیْحَةُ فِی الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِیْبِ، وَ الْاِجَابَةُ حِیْنَ اَدْعُوْکُمْ، وَ الطَّاعَةُ حِیْنَ اٰمُرُکُمْ.

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے۔ (تمہارا مجھ پر حق یہ ہے) کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو، اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:22
عون نقوی

عِنْدَ خُرُوْجِہٖ لِقِتَالِ اَھْلِ الْبَصْرَۃِ

امیر المومنین علیہ السلام جب اہل بصرہ سے جنگ کیلئے نکلے

قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ ابْنُ الْعَبَّاسِ: دَخَلْتُ عَلٰۤى اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ بِذِیْ قَارٍ وَّ هُوَ یَخْصِفُ نَعْلَهٗ، فَقَالَ لِیْ: مَا قِیْمَةُ هٰذِهِ النَّعْلِ؟ فَقُلْتُ: لَا قِیْمَةَ لَهَا! فَقَالَؑ:

تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ: میں مقامِ ذی قار میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؑ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ: اے ابنِ عباس! اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی؟ میں نے کہا کہ: اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہو گی، تو آپؑ نے فرمایا کہ:

وَ اللهِ! لَهِیَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اِمْرَتِکُمْ، اِلَّاۤ اَنْ اُقِیْمَ حَقًّا، اَوْ اَدْفَعَ بَاطِلًا.

اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔

ثُمَّ خَرَجَ ؑ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ ؑ:

پھر آپؑ باہر تشریف لائے اور لوگوں میں یہ خطبہ دیا:

اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ، وَ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ یَقْرَاُ کِتَابًا، وَ لَا یَدَّعِیْ نُبُوَّةً، فَسَاقَ النَّاسَ حَتّٰی بَوَّاَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ، وَ بَلَّغَهُمْ مَنْجَاتَهُمْ، فَاسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ، وَ اطْمَاَنَّتْ صَفَاتُهُمْ.

اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپؐ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے۔

اَمَا وَاللهِ! اِنْ کُنْتُ لَفِیْ سَاقَتِهَا حَتّٰی تَوَلَّتْ بِحَذَافِیْرِهَا، مَا ضَعُفْتُ وَ لَا جَبُنْتُ، وَ اِنَّ مَسِیْرِیْ هٰذَا لِمِثْلِهَا، فَلَاَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ حَتّٰی یَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْۢبِهٖ.

خدا کی قسم! میں بھی ان لوگوں میں تھا جو اس صورتِ حال میں انقلاب پیدا کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ انقلاب مکمل ہو گیا۔ میں نے (اس کام میں) نہ کمزوری دکھائی نہ بزدلی سے کام لیا اور اب بھی میرا اقدام ویسے ہی مقصد کیلئے ہے تو سہی جو میں باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں۔

مَالِیْ وَ لِقُرَیْشٍ! وَاللهِ! لَقَدْ قَاتَلْتُهُمْ کَافِرِیْنَ، وَ لَاُقَاتِلَنَّهُمْ مَفْتُوْنِیْنَ، وَ اِنِّیْ لَصَاحِبُهُمْ بِالْاَمْسِ، کَمَاۤ اَنَا صَاحِبُهُمُ الْیَوْمَ.

مجھے قریش سے وجہ نزاع ہی اور کیا ہے؟ خدا کی قسم! میں نے تو ان سے جنگ کی جبکہ وہ کافر تھے اور اب بھی جنگ کروں گا جبکہ وہ باطل کے ورغلانے میں آ چکے ہیں اور جس شان سے مَیں کل اُن کا مدّ مقابل رہ چکا ہوں ویسا ہی آج ثابت ہوں گا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:19
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّا قَدْ اَصْبَحْنَا فِیْ دَهْرٍ عَنُوْدٍ، وَ زَمَنٍ کَنُوْدٍ، یُعَدُّ فِیْهِ الْمُحْسِنُ مُسِیْٓـئًا، وَ یَزْدَادُ الظَّالِمُ فِیْهِ عُتُوًّا، لَا نَنْتَفِـعُ بِمَا عَلِمْنَا، وَ لَا نَسْئَلُ عَمَّا جَهِلْنَا، وَ لَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتّٰى تَحُلَّ بِنَا. فَالنَّاسُ عَلٰۤى اَرْبَعَةِ اَصْنَافٍ:

اے لوگو! ہم ایک ایسے کج رفتار زمانہ اور ناشکر گزار دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ جس میں نیکو کار کو خطا کار سمجھا جاتا ہے اور ظالم اپنی سرکشی میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انہیں دریافت نہیں کرتے اور جب تک مصیبت آ نہیں جاتی ہم خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ (اس زمانے کے) لوگ چار طرح کے ہیں:

مِنْهُمْ مَنْ لَّا یَمْنَعُهُ الْفَسَادَ اِلَّا مَهَانَةُ نَفْسِهٖ، وَ کَلَالَةُ حَدِّهٖ وَ نَضِیْضُ وَفْرِهٖ،

کچھ وہ ہیں جنہیں مفسدہ انگیزی سے مانع صرف ان کے نفس کا بے وقعت ہونا، ان کی دھار کا کند ہونا اور ان کے پاس مال کا کم ہونا ہے۔

وَ مِنْهُمُ الْمُصْلِتُ لِسَیْفِهٖ، وَ الْمُعْلِنُ بِشَرِّهٖ، وَ الْمُجْلِبُ بِخَیْلِهٖ وَ رَجْلِهٖ، قَدْ اَشْرَطَ نَفْسَهٗ وَ اَوْبَقَ دِیْنَهٗ لِحُطَامٍ یَنْتَهِزُهٗ اَوْ مِقْنَبٍ یَّقُوْدُهٗ، اَوْ مِنْۢبَرٍیَفْرَعُهٗ وَ لَبِئْسَ الْمَتْجَرُ اَنْ تَرَى الدُّنْیَا لِنَفْسِکَ ثَمَنًا، وَ مِمَّا لَکَ عِنْدَ اللهِ عِوَضًا!

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو تلواریں سونتے ہوئے علانیہ شر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کر رکھے ہیں۔ صرف کچھ مال بٹورنے، یا کسی دستہ کی قیادت کرنے، یا منبر پر بلند ہونے کیلئے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ کتنا ہی بُرا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو۔

وَ مِنْهُمْ مَنْ یَّطلُبُ الدُّنْیَا بِعَمَلِ الْاٰخِرَةِ، وَ لَا یَطْلُبُ الْاٰخِرَةَ بِعَمَلِ الدُّنْیَا، قَدْ طَامَنَ مِنْ شَخْصِهٖ، وَ قَارَبَ مِنْ خَطْوِهٖ، وَ شَمَّرَ مِنْ ثَوْبِهٖ، وَ زَخْرَفَ مِنْ نَّفْسِهٖ لِلْاَمَانَةِ، وَ اتَّخَذَ سِتْرَ اللهِ ذَرِیْعَةً اِلَى الْمَعْصِیَةِ.

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو آخرت والے کاموں سے دنیا طلبی کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں سے بھی آخرت کا بنانا مقصود رکھیں۔ یہ اپنے اوپر بڑا سکون و وقار طاری رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں اور دامنوں کو اوپر کی طرف سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنے نفسوں کو اس طرح سنوار لیتے ہیں کہ لوگ انہیں امین سمجھ لیں۔ یہ لوگ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر اس کا گناہ کرتے ہیں۔

وَمِنْهُمْ مَنْ اَقْعَدَهٗ عَنْ طَلَبِ الْمُلْکِ ضُؤٗلَةُ نَفْسِهٖ وَ انْقِطَاعُ سَبَبِهٖ، فَقَصَرَتْهُ الْحَالُ عَلٰى حَالِهٖ، فَتَحَلّٰى بِاسْمِ الْقَنَاعَةِ، وَ تَزَیَّنَ بِلِبَاسِ اَهْلِ الزَّهَادَةِ، وَ لَیْسَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ مَرَاحٍ وَّ لَا مَغْدًى.

اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور ساز و سامان کی نافراہمی ملک گیری کیلئے اٹھنے نہیں دیتی۔ ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ و عاجز کر دیا ہے۔ اس لئے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے کو سجا لیا ہے، حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی وقت کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا۔

وَ بَقِیَ رِجَالٌ غَضَّ اَبْصَارَهُمْ ذِکْرُ الْمَرْجِـعِ، وَ اَرَاقَ دُمُوْعَهُمْ خَوْفُ الْـمَحْشَرِ، فَهُمْ بَیْنَ شَرِیْدٍ نَّادٍّ، وَ خَآئِفٍ مَّقْمُوْعٍ، وَ سَاکِتٍ مَّکْعُوْمٍ، وَ دَاعٍ مُّخْلِصٍ، وَ ثَکْلَانَ مُوْجَعٍ، قَدْ اَخْمَلَتْهُمُ التَّقِیَّةُ وَ شَمِلَتْهُمُ الذِّلَّةُ، فَهُمْ فِیْ بَحْرٍ اُجَاجٍ، اَفْوَاهُهُمْ ضَامِزَةٌ، وَ قُلُوْبُهُمْ قَرِحَةٌ، وَ قَدْ وَعَظُوْا حَتّٰى مَلُّوْا وَ قُهِرُوْا حَتّٰى ذَلُّوْا، وَ قُتِلُوْا حَتّٰى قَلُّوْا.

اِسکے بعد تھوڑے سے وہ لوگ رہ گئے جن کی آنکھیں آخرت کی یاد اور حشر کے خوف سے جھکی ہوئی ہیں اور ان سے آنسو رواں رہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو دنیا والوں سے الگ تھلگ تنہائی میں پڑے ہیں اور کچھ خوف و ہراس کے عالم میں ذلتیں سہہ رہے ہیں اور بعض نے اس طرح چپ سادھ لی ہے کہ گویا ان کے منہ باندھ دیئے گئے ہیں، کچھ خلوص سے دُعائیں مانگ رہے ہیں، کچھ غم زدہ و درد رسیدہ ہیں جنہیں خوف نے گمنامی کے گوشہ میں بٹھا دیا ہے اور خستگی و درماندگی ان پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ ایک شور دریا میں ہیں (کہ باوجود پانی کی کثرت کے پھر وہ پیاسے ہیں)۔ ان کے منہ بند اور دل مجروح ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اتنا سمجھایا بجھایا کہ وہ اکتا گئے اور اتنا ان پر جبر کیا گیا کہ وہ بالکل دب گئے اور اتنے قتل کئے گئے کہ ان میں (نمایاں) کمی ہو گئی۔

فَلْتَکُنِ الدُّنْیَاۤ فِیْۤ اَعْیُنِکُمْ اَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ وَ قُرَاضَةِ الْجَلَمِ وَ اتَّعِظُوْا بِمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ قَبْلَ اَنْ یَّتَّعِظَ بِکُمْ مَنْۢ بَعْدَکُمْ، وَ ارْفُضُوْهَا ذَمِیْمَةً، فَاِنَّهَا قَد رَفَضَتْ مَنْ کَانَ اَشْغَفَ بِهَا مِنْکُمْ.

اس دنیا کو تمہاری نظروں میں کیکر کے چھلکوں اور ان کے ریزوں سے بھی زیادہ حقیر و پست ہونا چاہیے اور اپنے قبل کے لوگوں سے تم عبرت حاصل کر لو۔ اس کے قبل کہ تمہارے حالات سے بعد والے عبرت حاصل کریں اور اس دنیا کی بُرائی محسوس کرتے ہوئے اس سے قطع تعلق کرو۔ اس لئے کہ اس نے آخر میں ایسوں سے قطع تعلق کر لیا جو تم سے زیادہ اس کے والہ و شیدا تھے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:16
عون نقوی

حکمت۷۰

لَا تَرَى الْجَاهِلَ اِلَّا مُفْرِطًا اَوْ مُفَرِّطًا.

جاہل کو نہ پاؤ گے، مگر یا حد سے آگے بڑھا ہوا اور یا اس سے بہت پیچھے۔

حکمت۷۱

اِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْکَلاَمُ.

جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں۔


بسیار گوئی، پریشان خیالی کا اور پریشان خیالی عقل کی خامی کا نتیجہ ہوتی ہے اور جب انسان کی عقل کامل اور فہم پختہ ہوتا ہے تو اس کے ذہن اور خیالات میں توازن پیدا ہو جاتا ہے اور عقل دوسرے قوائے بدنیہ کی طرح زبان پر بھی تسلط و اقتدار حاصل کر لیتی ہے، جس کے نتیجہ میں زبان عقل کے تقاضوں سے ہٹ کر اور بے سوچے سمجھے کھلنا گوارا نہیں کرتی اور ظاہر ہے کہ سوچ بچار کے بعد جو کلام ہوگا وہ مختصر اور زوائد سے پاک ہوگا۔

مرد چوں عقلش بیفزاید بکاھد در سخن

تا نیابد فرصتِ گفتار نگشاید دہن

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:32
عون نقوی

حکمت۶۸

اَلْعَفَافُ زِیْنَةُ الْفَقْرِ، وَ الشُّکْرُ زِیْنَةُ الْغِنٰى.

عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے۔

حکمت۶۹

اِذَا لَمْ یَکُنْ مَا تُرِیْدُ فَلاَ تُبَلْ مَا کُنْتَ.

اگر حسب ِمنشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو۔

https://balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:29
عون نقوی