بصیرت اخبار

حکمت۶۶

فَوْتُ الْحَاجَةِ اَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا اِلٰى غَیْرِ اَهْلِهَا.

مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا نااہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے۔


نا اہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ اس لئے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جا سکتا ہے، مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر با حمیت انسان نااہل کے ممنونِ احسان ہونے سے اپنی حرمانِ نصیبی کو ترجیح دے گا اور کسی پست و دنی کے آگے دستِ سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا۔

حکمت۶۷

لَا تَسْتَحِ مِنْ اِعْطَاءِ الْقَلِیْلِ، فَاِنَّ الْحِرْمَانَ اَقَلُّ مِنْهُ.

تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں، کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے۔

https://balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:27
عون نقوی

حکمت۶۴

اَهْلُ الدُّنْیَا کَرَکْبٍ یُّسَارُ بِهِمْ وَ هُمْ نِیَامٌ.

دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے۔

حکمت۶۵

فَقْدُ الْاَحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:24
عون نقوی

حکمت ۶۲

اِذَا حُیِّیْتَ بِتَحِیَّةٍ فَحَیِّ بِاَحْسَنَ مِنْهَا، وَ اِذَاۤ اُسْدِیَتْ اِلَیْکَ یَدٌ فَکَافِئْهَا بِمَا یُرْبِیْ عَلَیْهَا، وَ الْفَضْلُ مَعَ ذٰلِکَ لِلْبَادِىْ.

جب تم پر سلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقہ سے جواب دو اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو، اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کیلئے ہو گی۔

حکمت ۶۳

اَلشَّفِیْعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

سفارش کرنے والا امیدوار کیلئے بمنزلہ پر و بال کے ہوتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:20
عون نقوی

حکمت ۶۰

اَللِّسَانُ سَبُعٌ، اِنْ خُلِّیَ عَنْهُ عَقَرَ.

زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔

حکمت ۶۱

اَلْمَرْاَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللِّبْسَةِ.

عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:16
عون نقوی

وَ قَدْ اَشارَ عَلَیهِ اَصْحَابُهٗ بِالِاسْتِعْدَادِ لِلْحَرْبِ بَعْدَ اِرْسَالِهٖ جَرِیْرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِّیْ اِلٰى مُعَاوِیَةَ:

جب امیرالمومنین علیہ السلام نے جریر ابن عبداللہ بجلی کو معاویہ کے پاس(بیعت لینے کے لیے) بھیجا تو آپؑ کے اصحاب نے آپؑ کو جنگ کی تیاری کا مشورہ دیا، جس پر آپؑ نے فرمایا:

اِنَّ اسْتِعْدَادِیْ لِحَرْبِ اَهْلِ الشَّامِ وَ جَرِیْرٌ عِنْدَهُمْ، اِغْلَاقٌ لِّلشَّامِ، وَ صَرْفٌ لِّاَهْلِهٖ عَنْ خَیْرٍ اِنْ اَرَادُوْهُ، وَ لٰکِنْ قَدْ وَقَّتُّ لِجَرِیْرٍ وَّقْتًا لَّا یُقِیْمُ بَعْدَهٗ اِلَّاَ مَخْدُوْعًا اَوْ عَاصِیًا، وَ الرَّاْیُ عِنْدِیْ مَعَ الْاَنَاةِ، فَاَرْوِدُوْا، وَ لَاۤ اَکْرَهُ لَکُمُ الْاِعْدَادَ.

میرا جنگ کیلئے مستعد و آمادہ ہونا جب کہ جریر ابھی وہیں ہے، شام کا دروازہ بند کرنا ہے اور وہاں کے لوگ بیعت کا ارادہ بھی کریں تو انہیں اس ارادہ خیر سے روک دینا ہے۔ بے شک میں نے جریر کیلئے ایک وقت مقرر کر دیا ہے۔ اس کے بعد وہ ٹھہرے گا تو یا ان سے فریب میں مبتلا ہو کر یا (عمداً) سرتابی کرتے ہوئے۔ صحیح رائے کا تقاضا صبر و توقف ہے۔ اس لئے ابھی ٹھہرے رہو۔ البتہ اس چیز کو میں تمہارے لئے بُرا نہیں سمجھتا کہ (در پردہ) جنگ کا ساز و سامان کرتے رہو۔

وَ لَقَدْ ضَرَبْتُ اَنْفَ هٰذَا الْاَمْرِ وَ عَیْنَهٗ، وَ قَلَّبْتُ ظَهْرَهٗ وَ بَطْنَهٗ، فَلَمْ اَرَ لِیْۤ اِلَّا الْقِتَالَ اَوِ الْکُفْرَ بِمَا جَآءَ مُحَمَّدٌ ﷺ. اِنَّهٗ قَدْ کَانَ عَلَی الْاُمَّةِ وَالٍ اَحْدَثَ اَحْدَاثًا، وَ اَوْجَدَ لِلنَّاسَ مَقَالًا، فَقَالُوْا، ثُمَّ نَقَمُوْا فَغَیَّرُوْا.

میں نے اس امر کو اچھی طرح سے پرکھ لیا ہے اور اندر باہر سے دیکھ لیا ہے۔ مجھے تو جنگ کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا، یا یہ کہ رسول ﷺ کی دی ہوئی خبروں سے انکار کر دوں۔ حقیقت یہ ہے (مجھ سے پہلے) اس اُمت پر ایک ایسا حکمران تھا جس نے دین میں بدعتیں پھیلائیں اور لوگوں کو زبانِ طعن کھولنے کا موقعہ دیا۔ (پہلے تو) لوگوں نے اُسے زبانی کہا سنا، پھر اس پر بگڑے اور آخر سارا ڈھانچہ بدل دیا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:14
عون نقوی