بصیرت اخبار

عِنْدَ الْمَسِیْرِ اِلَی الشَّامِ

جب شام روانہ ہوئے تو فرمایا

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کُلَّمَا وَقَبَ لَیْلٌ وَ غَسَقَ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ کُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وَّ خَفَقَ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ غَیْرَ مَفْقُوْدِ الْاِنْعَامِ، وَ لَا مُکَافَاِ الْاِفْضَالِ.

اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے جب بھی رات آئے اور اندھیرا پھیلے اور اللہ کیلئے تعریف و توصیف ہے جب بھی ستارہ نکلے اور ڈوبے اور اس اللہ کیلئے مدح و ستائش ہے کہ جس کے انعامات کبھی ختم نہیں ہوتے اور جس کے احسانات کا بدلہ اتارا نہیں جا سکتا۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِیْ، وَ اَمَرْتُهُمْ بِلُزُوْمِ هٰذَا الْمِلْطَاطِ، حَتّٰی یَاْتِیَهُمْ اَمْرِیْ، وَ قَدْ اَرَدْتُّ اَنْ اَقْطَعَ هٰذِهِ الْنُّطْفَةَ اِلٰی شِرْذِمَةٍ مِّنْکُمْ، مُوْطِنِیْنَ اَکْنَافَ دَجْلَةَ، فَاُنْهِضَهُمْ مَّعَکُمْ اِلٰی عَدُوِّکُمْ، وَ اَجْعَلَهُمْ مِنْ اَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَکُمْ.

(آگاہ رہو کہ) میں نے فوج کا ہر اول دستہ آگے بھیج دیا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ میرا فرمان پہنچنے تک اس دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالے رہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پانی کو عبور کر کے اس چھوٹے سے گروہ کے پاس پہنچ جاؤں جو اطراف دجلہ (مدائن) میں آباد ہے اور اسے بھی تمہارے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا کروں اور انہیں تمہاری کمک کیلئے ذخیرہ بناؤں۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:43
عون نقوی

فِیْ ذِکْرِ الْکُوْفَةِ

(کوفہ پر وارد ہونے والے مصائب کے متعلق فرمایا)

کَاَنِّیْ بِکِ یَاکُوْفَةُ! تُمَدِّیْنَ مَدَّ الْاَدِیْمِ الْعُکَاظِیِّ، تُعْرَکِیْنَ بِالنَّوَازِلِ، وَتُرْکَبِیْنَ بِالزَّلَازِلِ، وَ اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَنَّهٗ مَا اَرَادَ بِکِ جَبَّارٌ سُوْٓءًا اِلَّا ابْتَلَاهُ اللهُ بِشَاغِلٍ، وَ رَمَاهُ بِقَاتِلٍ!

اے کوفہ! یہ منظر گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تجھے اس طرح سے کھینچا جا رہا ہے جیسے بازار عکاظ کے دباغت کئے ہوئے چمڑے کو اور مصائب اور آلام کی تاخت و تاراج سے تجھے کچلا جا رہا ہے اور شدائد و حوادث کا تو مرکب بنا ہوا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جو ظالم و سرکش تجھ سے برائی کا ارادہ کرے گا اللہ اُسے کسی مصیبت میں جکڑ دے گا اور کسی قاتل کی زد پر لے آئے گا۔


زمانہ جاہلیت میں ہر سال مکہ کے قریب ایک بازار لگتا تھا جس کا نام ’’عکاظ‘‘ تھا جہاں زیادہ تر کھالوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی جس کی وجہ سے چمڑے کو اس کی طرف نسبت دی جاتی تھی۔ خرید و فروخت کے علاوہ شعر و سخن کی محفلیں بھی جمتی تھیں اور عرب اپنے کارنامے سنا کر دادِ تحسین حاصل کرتے تھے، مگر اسلام کے بعد اس کا نعم البدل حج کے اجتماع کی صورت میں حاصل ہو جانے کے وجہ سے وہ بازار سرد پڑ گیا۔

امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ جن لوگوں نے کوفہ میں اپنی قہرمانی قوتوں کے بل بوتے پر ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا انجام کتنا عبرتناک ہوا اور ان کی ہلاکت آفرینیوں نے ان کیلئے ہلاکت کے کیا کیا سر و سامان کئے۔ چنانچہ زیاد ابن ابیہ کا حشر یہ ہوا کہ جب اس نے امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف ناسزا کلمات کہلوانے کیلئے خطبہ دینا چاہا تو اچانک اس پر فالج گرا اور پھر وہ بستر سے نہ اٹھ سکا۔ عبید اللہ ابن زیاد کی سفاکیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوڑھ میں مبتلا ہو گیا اور آخر خون آشام تلواروں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حجاج بن یوسف کی خونخواریوں نے اسے یہ روزِ بد دکھایا کہ اس کے پیٹ میں سانپ پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر اس نے جان دی۔ عمر ابن ہبیرہ مبروص ہو کر مرا۔ خالد قسری نے قید و بند کی سختیاں جھیلیں اور بری طرح مارا گیا۔ مصعب ابن زبیر اور یزید ابن مہلب بھی تیغوں کی نذر ہوئے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:40
عون نقوی

عِنْدَ عَزْمِهٖ عَلَى الْمَسِیْرِ اِلَى الشَّامِ

جب شام کی طرف روانہ ہونے کا قصد کیا تو یہ کلمات فرمائے

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَّعْثَآءِ السَّفَرِ، وَ کَاٰبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَ سُوْٓءِ الْمَنْظَرِ فِی الْاَهْلِ وَ الْمَالِ. اَللّٰهُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ، وَ اَنْتَ الْخلِیْفَةُ فِی الْاَهْلِ، وَ لَا یَجْمَعُهُمَا غَیْرُکَ، لِاَنَّ الْمُسْتَخْلَفَ لَا یَکُوْنُ مُسْتَصْحَبًا، وَ الْمُسْتَصْحَبُ لَا یَکُوْنُ مُسْتَخْلَفًا.

اے اللہ! مَیں سفر کی مشقت اور واپسی کے اندوہ اور اہل و مال کی بدحالی کے منظر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! تو ہی سفر میں رفیق اور بال بچوں کا محافظ ہے۔ سفر و حضر کو تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا، کیونکہ جسے پیچھے چھوڑا جائے وہ ساتھی نہیں ہو سکتا اور جسے ساتھ لیا جائے اسے پیچھے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

اَقُوْلُ: وَ ابْتِدَاءُ هٰذَا الْکَلَامِ مَرْوِیٌّ عَنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ قَدْ قَفَّاهُ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن ؑ بِاَبْلَغِ کَلَامٍ وَّ تَمَّمَهٗ بِاَحْسَنِ تَمَامٍ مِنْ قَوْلِهٖ: «وَ لَا یَجْمَعُهُمَا غَیْرُکَ» اِلٰی اٰخِرِ الْفَصْلِ.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس کلام کا ابتدائی حصہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے آخر میں بلیغ ترین جملوں کا اضافہ فرما کر اسے نہایت احسن طریق سے مکمل کر دیا ہے اور وہ اضافہ ’’سفر و حضر کو تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا‘‘ سے لے کر آخر کلام تک ہے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:38
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ غَیْرَ مَقْنُوْطٍ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ، وَ لَا مَخْلُوٍّ مِّنْ نِّعْمَتِهٖ، وَ لَا مَاْیُوْسٍ مِّنْ مَّغْفِرَتِهٖ، وَ لَا مُسْتَنْکَفٍ عَنْ عِبَادَتِهٖ، الَّذِیْ لَا تَبْرَحُ مِنْهُ رَحْمَةٌ، وَ لَا تُفْقَدُ لَهُ نِعْمَةٌ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی رحمت سے ناامیدی نہیں اور جس کی نعمتوں سے کسی کا دامن خالی نہیں۔ نہ اس کی مغفرت سے کوئی مایوس ہے، نہ اس کی عبادت سے کسی کو عار ہو سکتا ہے اور نہ اس کی رحمتوں کا سلسلہ ٹوٹتا ہے اور نہ اس کی نعمتوں کا فیضان کبھی رکتا ہے۔

وَ الدُّنْیَا دَارٌ مُّنِیَ لَهَا الْفَنَآءُ، وَ لِاَهْلِهَا مِنْهَا الْجَلَآءُ، وَ هِیَ حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَ قَدْ عَجِلَتْ لِلطَّالِبِ، وَ الْتَبَسَتْ بِقَلْبِ النَّاظِرِ، فَارْتَحِلُوْا مِنْهَا بِاَحْسَنِ مَا بِحَضْرَتِکُمْ مِنَ الزَّادِ، وَ لَا تَسْئَلُوْا فِیْهَا فَوْقَ الْکَفَافِ، وَ لَا تَطْلُبُوْا مِنْهَا اَکْثَرَ مِنَ الْبَلَاغِ.

دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کیلئے فنا طے شدہ امر ہے اور اس میں بسنے والوں کیلئے یہاں سے بہر صورت نکلنا ہے۔ یہ دنیا شیریں و شاداب ہے۔ اپنے چاہنے والے کی طرف تیزی سے بڑھتی ہے اور دیکھنے والے کے دل میں سما جاتی ہے۔ جو تمہارے پاس بہتر سے بہتر توشہ ہو سکے اسے لے کر دنیا سے چل دینے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو اور جس سے زندگی بسر ہو سکے اس سے زیادہ کی خواہش نہ کرو۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:37
عون نقوی

لَمَّا هَرَبَ مَصْقَلَةُ بْنُ هُبَیْرَةَ الشَّیْبَانِیُّ اِلٰى مُعَاوِیَةَ وَ کَانَ قَدِ ابْتَاعَ سَبْیَ بَنِیْ نَاجِیَةَ مِنْ عَامِلِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ وَ اَعْتَقَهُمْ، فَلَمَّا طَالَبَهٗ بِالْمَالِ خَاسَ بِهٖ وَ هَرَبَ اِلَى الشَّامِ:

جب مصقلہ بن ہبیرہ شیبانی معاویہ کے پاس بھاگ گیا۔ چونکہ اس نے حضرتؑ کے ایک عامل سے بنی ناجیہ کے کچھ اسیر خریدے تھے۔ جب امیر المومنین علیہ السلام نے اس سے قیمت کا مطالبہ کیا تو وہ بددیانتی کرتے ہوئے شام چلا گیا، جس پر آپؑ نے فرمایا:

قَبَّحَ اللهُ مَصْقَلَةَ! فَعَلَ فِعْلَ السَّادَةِ، وَ فَرَّ فِرَارَ الْعَبِیْدِ! فَمَاۤ اَنْطَقَ مَادِحَهٗ حَتّٰۤی اَسْکَتَهٗ، وَ لَا صَدَّقَ وَاصِفَهٗ حَتّٰی بَکَّتَهٗ، وَ لَو اَقَامَ لَاَخَذْنَا مَیْسُوْرَهٗ، وَ انْتَظَرْنَا بِمَالِهٖ وُفُوْرَهٗ.

خدا مصقلہ کا بُرا کرے! کام تو اس نے شریفوں کا سا کیا، لیکن غلاموں کی طرح بھاگ نکلا۔ اس نے مدح کرنے والے کا منہ بولنے سے پہلے ہی بند کر دیا اور توصیف کرنے والے کے قول کے مطابق اپنا عمل پیش کرنے سے پہلے ہی اسے خاموش کر دیا۔ اگر وہ ٹھہرا رہتا تو ہم اس سے اتنا لے لیتے جتنا اس کیلئے ممکن ہوتا اور بقیہ کیلئے اس کے مال کے زیادہ ہونے کا انتظار کرتے۔


تحکیم کے بعد جب خوارج نے سر اٹھایا تو ان میں سے بنی ناجیہ کا ایک شخص خریت ابنِ راشد لوگوں کو بھڑکانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا، اور ایک جتھے کے ساتھ مار دھاڑ کرتا ہوا مدائن کے رخ پر چل پڑا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کی روک تھام کیلئے زیاد ابن حفصہ کو ایک سو تین آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ چنانچہ جب مدائن میں دونوں فریق کا آمنا سامنا ہوا تو تلواریں لے کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ ابھی ایک آدھ جھڑپ ہی ہونے پائی تھی کہ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا اور جنگ روک دینا پڑی۔ جب صبح ہوئی تو زیاد کے ساتھیوں نے دیکھا کہ خوارج کے پانچ لاشے پڑے ہیں اور خود میدان چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ دیکھ کر زیاد اپنے آدمیوں کے ساتھ بصرہ کی طرف چل پڑا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ خوارج اہواز کی طرف چلے گئے ہیں۔ زیاد نے سپاہ کی قلت کی وجہ سے قدم روک لئے اور امیر المومنین علیہ السلام کو اس کی اطلاع دی۔ حضرتؑ نے زیاد کو واپس بلوا لیا اور معقل ابن قیس ریاحی کو دو ہزار نبرد آزماؤں کے ہمراہ اہواز کی طرف روانہ کیا اور والی بصرہ عبد اللہ ابنِ عباس کو تحریر فرمایا کہ: بصرہ کے دو ہزار شمشیر زن معقل کی کمک کیلئے بھیج دو۔ چنانچہ بصرہ کا دستہ بھی ان سے اہواز میں جا ملا اور یہ پوری طرح منظم ہو کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہو گئے، لیکن خریت اپنے لاؤ لشکر کو لے کر رامہرمز کی پہاڑیوں کی طرف چل دیا۔

یہ لوگ بھی اس کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھے اور ان پہاڑیوں کے قریب اس کو آ لیا۔ دونوں نے اپنے اپنے لشکر کی صف بندی کی اور ایک دوسرے پر حملے شروع کر دیئے۔ اس جھڑپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوارج کے تین سو ستر آدمی میدان میں کھیت رہے اور باقی بھاگ کھڑے ہوئے۔ معقل نے اپنی کارگزاری اور دشمن کے فرار کی امیر المومنین علیہ السلام کو اطلاع دی تو حضرتؑ نے تحریر فرمایا کہ ابھی تم ان کا پیچھا کرو اور اس طرح انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دو کہ پھر سر اٹھانے کا ان میں دم نہ رہے۔ چنانچہ اس فرمان کے بعد وہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھے، اور بحرِ فارس کے ساحل پر اسے پا لیا کہ جہاں اس نے لوگوں کو بہلا پھسلا کر اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اور اِدھر اُدھر سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اچھی خاصی جمعیت بہم پہنچا لی تھی۔ جس وقت معقل وہاں پر پہنچے تو آپ نے پہلے امان کا جھنڈا بلند کیا اور اعلان کیا کہ جو لوگ ادھر ادھر سے جمع ہو گئے ہیں، وہ الگ ہو جائیں ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی قوم کے علاوہ دوسرے لوگ چھٹ گئے۔ اس نے انہی کو منظم کیا اور جنگ چھیڑ دی، مگر کوفہ و بصرہ کے سر فروشوں نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے باغیوں کے ایک سو ستر آدمی مارے گئے اور خریت سے نعمان ابن صہبان نے دو دو ہاتھ کئے اور آخر اسے مار گرایا جس کے گرتے ہی دشمن کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

اس کے بعد معقل نے ان کی قیام گاہوں میں جتنے مَرد، عورتیں اور بچے پائے انہیں ایک جگہ جمع کیا۔ ان میں جو مسلمان تھے ان سے بیعت لے کر انہیں رہا کر دیا اور جو مرتد ہو گئے تھے انہیں اسلام قبول کرنے کیلئے کہا۔ چنانچہ ایک بوڑھے نصرانی کے علاوہ سب نے اسلام قبول کر کے رہائی پائی اور بوڑھے کو قتل کر دیا گیا اور جن بنی ناجیہ کے عیسائیوں نے اس شورش انگیزی میں حصہ لیا تھا انہیں ان کے اہل و عیال سمیت کہ جن کی تعداد پانچ سو تھی اپنے ہمراہ لے لیا اور جب معقل ارد شیر خرہ (ایران کا ایک شہر) پہنچے تو یہ قیدی وہاں کے حاکم مصقلہ ابن ہبیرہ کے سامنے چیخے چلائے اور گڑ گڑا کر اس سے التجائیں کیں کہ ان کی رہائی کی کوئی صورت کی جائے۔ مصقلہ نے ذہل ابن حارث کے ذریعے معقل کو کہلوایا کہ ان اسیروں کو میرے ہاتھ بیچ دو۔ معقل نے اسے منظور کیا اور پانچ لاکھ درہم میں وہ اسیر اس کے ہاتھ بیچ ڈالے اور اس سے کہا کہ ان کی قیمت جلد از جلد امیر المومنین علیہ السلام کو بھیج دو۔ اس نے کہا کہ میں پہلی قسط ابھی بھیج رہا ہوں اور بقیہ قسطیں بھی جلد بھیج دی جائیں گی۔ جب معقل امیر المومنین علیہ السلام کے پاس پہنچے تو یہ سارا واقعہ ان سے بیان کیا۔ حضرتؑ نے اس اقدام کو سراہا اور کچھ دنوں تک قیمت کا انتظار کیا، مگر مصقلہ نے ایسی چُپ سادھ لی کہ گویا اس کے ذمہ کوئی مطالبہ ہی نہیں ہے۔ آخر حضرتؑ نے ایک قاصد اس کی طرف روانہ کیا اور اسے کہلوا بھیجا کہ یا تو قیمت بھیجو یا خود آؤ۔ وہ حضرتؑ کے فرمان پر کوفہ آیا اور قیمت طلب کرنے پر دو لاکھ درہم پیش کر دیئے اور بقایا مطالبہ سے بچنے کیلئے معاویہ کے پاس چلا گیا جس نے اسے طبرستان کا حاکم بنا دیا۔ حضرتؑ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؑ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے کہ: اگر وہ ٹھہرا رہتا تو ہم مال کی وصولی میں اس سے رعایت کرتے اور اس کی مالی حالت کے درست ہونے کا انتظار کرتے، لیکن وہ تو ایک نمائشی کارنامہ دکھا کر غلاموں کی طرح بھاگ نکلا۔ ابھی اس کی بلند حوصلگی کے چرچے شروع ہی ہوئے تھے کہ زبانوں پر اس کی دنائت و پستی کے تذکرے آنے لگے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:35
عون نقوی