بصیرت اخبار

۳۳۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ» ثبت شده است

وَ هِیَ مِنْ خُطَبِ الْمَلَاحِمِ

یہ ان خطبوں میں سے ہے جن میں زمانہ کے حوادث و فتن کا تذکرہ ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمُتَجَلِّیْ لِخَلْقِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ الظَّاهِرِ لِقُلُوْبِهِمْ بِحُجَّتِهٖ، خَلَقَ الْخَلْقَ مِنْ غَیْرِ رَوِیَّةٍ، اِذْ کَانَتِ الرَّوِیَّاتُ لَا تَلِیْقُ اِلَّا بِذَوِی الضَّمَآئِرِ، وَ لَیْسَ بِذِیْ ضَمِیْرٍ فِیْ نَفْسِهٖ. خَرَقَ عِلْمُهٗ بَاطِنَ غَیْبِ السُّتُرَاتِ، وَ اَحَاطَ بِغُمُوْضِ عَقَآئِدِ السَّرِیْرَاتِ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اپنے مخلوقات کی وجہ سے مخلوقات کے سامنے عیاں ہے اور اپنی حجت و برہان کے ذریعہ سے دلوں میں نمایاں ہے۔ اس نے بغیر سوچ بچار میں پڑے مخلوق کو پیدا کیا۔ اس لئے کہ غور و فکر اس کے مناسب ہوا کرتی ہے جو دل و دماغ (جیسے اعضاء) رکھتا ہو اور وہ دل و دماغ کی احتیاج سے بری ہے۔ اس کا علم غیب کے پردوں میں سرایت کئے ہوئے ہے اور عقیدوں کی گہرائیوں کی تہ تک اترا ہوا ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ ﷺ]

[اس خطبہ کا یہ جُز نبی ﷺ کے متعلق ہے]

اِخْتَارَهٗ مِنْ شَجَرَةِ الْاَنْۢبِیَآءِ، وَ مِشْکَاةِ الضِّیَآءِ، وَ ذُؤَابَةِ الْعَلْیَآءِ، وَ سُرَّةِ الْبَطْحَآءِ، وَ مَصَابِیْحِ الظُّلْمَةِ، وَ یَنَابِیْعِ الْحِکْمَةِ.

انہیں انبیاءؑ کے شجرہ، روشنی کے مرکز (آل ابراہیمؑ)، بلندی کی جبیں (قریش)، بطحاء کی ناف (مکہ) اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا۔

[وَ مِنْهَا]

[اس خطبہ کا یہ حصہ بھی رسول ﷺ ہی سے متعلق ہے]

طَبِیْبٌ دَوَّارٌۢ بِطِبِّهٖ، قَدْ اَحْکَمَ مَرَاهِمَهٗ، وَ اَحْمٰی مَوَاسِمَهٗ، یَضَعُ مِنْ ذٰلِکَ حَیْثُ الْحَاجَةُ اِلَیْهِ، مِنْ قُلُوْبٍ عُمْیٍ، وَ اٰذَانٍ صُمٍّ، وَ اَلْسِنَةٍۭ بُکْمٍ، مُتَتَبِّـعٌۢ بِدَوَآئِهٖ مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ، وَ مَوَاطِنَ الْحَیْرَةِ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِاَضْوَآءِ الْحِکْمَةِ، وَ لَمْ یَقْدَحُوْا بِزِنَادِ الْعُلُوْمِ الثَّاقِبَةِ، فَهُمْ فِیْ ذٰلِکَ کَالْاَنْعَامِ السَّآئِمَةِ، وَ الصُّخُوْرِ الْقَاسِیَةِ.

وہ ایک طبیب تھے جو اپنی حکمت و طب کو لئے ہوئے چکر لگا رہا ہو، اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لئے ہوں اور داغنے کے آلات تپا لئے ہوں، وہ اندھے دلوں، بہرے کانوں، گونگی زبانوں ( کے علاج معالجہ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لئے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔ مگر لوگوں نے نہ تو حکمت کی تنویروں سے ضیا و نور کو حاصل کیا اور نہ علومِ درخشاں کے چقماق کو رگڑ کر نورانی شعلے پیدا کئے، وہ اس معاملہ میں چرنے والے حیوانوں اور سخت پتھروں کے مانند ہیں۔

قَدِ انْجَابَتِ السَّرآئِرُ لِاَهْلِ الْبَصَآئِرِ، وَ وَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا، وَ اَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَّجْهِهَا، وَ ظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا. مَا لِیْۤ اَرَاکُمْ اَشْبَاحًۢا بِلَاۤ اَرْوَاحٍ، وَ اَرْوَاحًۢا بِلَاۤ اَشْبَاحٍ، وَ نُسَّاکًۢا بِلَا صَلَاحٍ، وَ تُجَّارًۢا بِلَاۤ اَرْبَاحٍ، وَ اَیْقَاظًا نُّوَّمًا، وَ شُهُوْدًا غُیَّبًا، وَ نَاظِرَةً عَمْیَآءَ، و سَامِعَةً صَمَّآءَ، وَ نَاطِقَةًۢ بَکْمَآءَ.

اہل بصیرت کیلئے چھپی ہوئی چیزیں ظاہر ہو گئی ہیں اور بھٹکنے والوں کیلئے حق کی راہ واضح ہو گئی اور آنے والی ساعت نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی اور غور سے دیکھنے والوں کیلئے علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں، لیکن تمہیں مَیں دیکھتا ہوں کہ پیکر بے روح اور روحِ بے قالب بنے ہوئے ہو، عابد بنے پھرتے ہو بغیر صلاح و تقویٰ کے اور تاجر بنے ہوئے ہو بغیر فائدوں کے، بیدار ہو مگر سو رہے ہو، حاضر ہو مگر ایسے جیسے غائب ہوں، دیکھنے والے ہو مگر اندھے، سننے والے ہو مگر بہرے، بولنے والے ہو مگر گونگے۔

رَایَةُ ضَلَالَۃٍ قَدْ قَامَتْ عَلٰی قُطْبِهَا، وَ تَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا، تَکِیْلُکُمْ بِصَاعِهَا، وَ تَخْبِطُکُمْ بِبَاعِهَا، قَآئِدُهَا خَارِجٌ مِّنَ الْمِلَّةِ، قَآئِمٌ عَلٰی الضَّلَّةِ، فَلَا یَبْقٰی یَوْمَئِذٍ مِّنْکُمْ اِلَّا ثُفَالَةٌ کَثُفَالَةِ الْقِدْرِ، اَوْ نُفَاضَةٌ کَنُفَاضَةِ الْعِکْمِ، تَعْرُکُکُمْ عَرْکَ الْاَدِیْمِ، وَ تَدُوْسُکُمْ دَوْسَ الْحَصَیْدِ، وَ تَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْۢ بَیْنِکُمُ اسْتِخْلَاصَ الطَّیْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِیْنَةَ مِنْۢ بَیْنِ هَزِیْلِ الْحَبِّ.

گمراہی کا جھنڈا تو اپنے مرکز پر جم چکا ہے اور اس کی شاخیں (ہرسو) پھیل گئی ہیں۔ تمہیں (تباہ کرنے کیلئے) اپنے پیمانوں میں تول رہا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمہیں اِدھر ُادھر بھٹکا رہا ہے اس کا پیشرو ملتِ (اسلام) سے خارج ہے اور گمراہی پر ڈٹا کھڑا ہے۔ اس دن تم میں سے کوئی نہیں بچے گا، مگر کچھ گرے پڑے لوگ، جیسے دیگ کی کھرچن یا تھیلے کے جھاڑنے سے گرے ہوئے ریزے۔ وہ گمراہی تمہیں اس طرح مسل ڈالے گی جس طرح چمڑے کو مسلا جاتا ہے اور اس طرح روندے گی جیسے کٹی ہوئی زراعت کو روندا جاتا ہے اور (مصیبت و ابتلا کیلئے) تم میں سے مومن (کامل) کو اس طرح چن لے گی جس طرح پرندہ باریک دانوں میں سے موٹے دانہ کو چن لیتا ہے۔

اَیْنَ تَذْهَبُ بِکُمُ الْمَذَاهِبُ، وَ تَتِیْهُ بِکُمُ الْغَیَاهِبُ، وَ تَخْدَعُکُمُ الْکَوَاذِبُ؟ وَ مِنْ اَیْنَ تُؤْتَوْنَ وَ ﴿اَنّٰی تٌؤْفَکُوْنَ﴾؟ فَلِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ، وَ لِکُلِّ غَیْبَةٍ اِیَابٌ، فَاسْتَمِعُوْا مِنْ رَّبَّانِیِّکُمْ، وَ اَحْضِرُوْا قُلُوْبَکُمْ، وَ اسْتَیْقِظُوْا اِنْ هَتَفَ بِکُمْ، وَ لْیَصْدُقْ رَآئِدٌ اَهْلَهٗ، وَ لْیَجْمَعْ شَمْلَهٗ، وَ لْیُحْضِرْ ذِهْنَهٗ، فَلَقَدْ فَلَقَ لَکُمُ الْاَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ، وَ قَرَفَهٗ قَرْفَ الصَّمْغَةِ.

یہ (غلط) روشیں تمہیں کہاں لئے جا رہی ہیں اور یہ اندھیاریاں تمہیں کن پریشانیوں میں ڈال رہی ہیں اور یہ جھوٹی امیدیں تمہیں کاہے کا فریب دے رہی ہیں؟ کہاں سے لائے جاتے ہو اور کدھر پلٹائے جاتے ہو؟ ہر میعاد کا ایک نوشتہ ہوتا ہے اور ہر غائب کو پلٹ کر آنا ہے۔ اپنے عالم ربانی سے سنو۔ اپنے دلوں کو حاضر کرو۔ اگر تمہیں پکارے تو جاگ اٹھو۔ قوم کے نمائندہ کو تو اپنی قوم سے سچ ہی بولنا چاہیے اور اپنی پریشاں خاطری میں یکسوئی پیدا کرنا اور اپنے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس نے حقیقت کو اس طرح واشگاف کر دیا ہے جس طرح (دھاگے میں پروئے جانے والے)مہرہ کو چیر دیا جاتا ہے اور اس طرح اسے (تہ سے) چھیل ڈالا ہے جیسے درخت سے گوند۔

فَعِنْدَ ذٰلِکَ اَخَذَ الْبَاطِلُ مَاٰخِذَهٗ، وَ رَکِبَ الْجَهْلُ مَرَاکِبَهٗ، وَ عَظُمَتِ الطَّاغِیَةُ، وَ قَلَّتِ الدَّاعِیَةُ، وَ صَالَ الدَّهْرُ صِیَالَ السَّبُعِ الْعَقُوْرِ، وَ هَدَرَ فَنِیْقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ کُظُوْمٍ، وَ تَوَاخَی النَّاسُ عَلَی الْفُجْوْرِ، وَ تَهَاجَرُوْا عَلَی الدِّیْنِ، وَ تَحَابُّوْا عَلَی الْکَذِبِ، وَ تَبَاغَضُوْا عَلَی الصِّدْقِ.

باوجود اس کے باطل پھر اپنے مرکز پر آ گیا اور جہالت اپنی سواریوں پر چڑھ بیٹھی، اس کی طغیانیاں بڑھ گئی ہیں اور (حق کی) آواز دَب گئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندے کی طرح حملہ کر دیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعد پھر بلبلانے لگا ہے، لوگوں نے فسق و فجور پر آپس میں بھائی چارہ کر لیا ہے اور دین کے سلسلہ میں ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، جھوٹ پر تو ایک دوسرے سے یارانہ گانٹھ رکھا ہے اور سچ کے معاملہ میں باہم کد رکھتے ہیں۔

فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ کَانَ الْوَلَدُ غَیْظًا، وَ الْمَطَرُ قَیْظًا، وَ تَفِیْضُ اللِّئَامُ فَیْضًا، وَ تَغِیْضُ الْکِرَامُ غَیْضًا، وَ کَانَ اَهْلُ ذٰلِکَ الزَّمَانِ ذِئَابًا، وَسَلَاطَیْنُهٗ سِبَاعًا، وَ اَوْسَاطُهٗ اُکَّالًا، وَ فُقَرَاؤُهٗ اَمْوَاتًا، وَ غَارَ الصِّدْقُ، وَ فَاضَ الْکَذِبُ، وَ اسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ، وَ تَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوْبِ، وَ صَارَ الْفُسُوْقُ نَسَبًا، وَ الْعَفَافُ عَجَبًا، وَ لُبِسَ الْاِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوْبًا.

(ایسے موقعہ پر) بیٹا (آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کے بجائے) غیظ و غضب کا سبب ہو گا اور بارشیں گرمی و تپش کا، کمینے پھیل جائیں گے اور شریف گھٹتے جائیں گے۔ اس زمانہ کے لوگ بھیڑیئے ہوں گے اور حکمران درندے، درمیانی طبقہ کے لوگ کھاپی کر مست رہنے والے اور فقیر و نادار بالکل مردہ، سچائی دَب جائے گی اور جھوٹ اُبھر آئے گا، محبت (کی لفظیں) صرف زبانوں پر آئیں گی اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رہیں گے، نسب کا معیار زنا ہو گا، عفت و پاکدامنی نرالی چیز سمجھی جائے گی اور اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:37
عون نقوی

وَ قَدْ سَمِعَ قَوْمًا مِّنْ اَصْحَابِہٖ یَسُبُّوْنَ اَھْلَ الشَّامِ اَیَّامَ حَرْبِھِمْ بِصِفِّیْنَ:

آپؐ نے جنگ صفین کے موقع پر اپنے ساتھیوں میں سے چند آدمیوں کو سنا کہ وہ شامیوں پر سب و شتم کر رہے ہیں تو آپؑ نے فرمایا:

اِنِّیْۤ اَکْرَهُ لَکُمْ اَنْ تَکُوْنُوْا سَبَّابِیْنَ، وَ لٰکِنَّکُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ اَعْمَالَهُمْ، وَ ذَکَرْتُمْ حَالَهُمْ، کَانَ اَصْوَبَ فِی الْقَوْلِ، وَ اَبْلَغَ فِی الْعُذْرِ، وَ قُلْتُمْ مَکَانَ سَبِّکُمْ اِیَّاهُمْ: اَللّٰهُمَّ احْقِنْ دِمَآءَنَا وَ دِمَآءَهُمْ، وَ اَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَ بَیْنِهِمْ، وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ، حَتّٰی یَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهٗ، وَ یَرْعَوِیَ عَنِ الْغَیِّ وَ الْعُدْوَانِ مَنْ لَّهِجَ بِهٖ.

میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو۔ اگر تم ان کے کرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدایا! ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لا، تاکہ حق سے بے خبر حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 11:40
عون نقوی

(۱۲۶)

عَجِبْتُ لِلْبَخِیْلِ یَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِیْ مِنْهُ هَرَبَ، وَ یَفُوْتُهُ الْغِنَى الَّذِىْ اِیَّاهُ طَلَبَ، فَیَعِیْشُ فِی الدُّنْیَا عَیْشَ الْفُقَرَآءِ، وَ یُحَاسَبُ فِی الْاٰخِرَةِ حِسَابَ الْاَغْنِیَآءِ.

مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوشحالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اور آخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہو گا۔

وَ عَجِبْتُ لِلْمُتَکَبِّرِ الَّذِیْ کَانَ بِالْاَمْسِ نُطْفَةً وَّ یَکُوْنُ غَدًا جِیْفَةً.

اور مجھے تعجب ہوتا ہے متکبر و مغرور پر کہ جو کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہو گا۔

وَ عَجِبْتُ لِمَنْ شَکَّ فِی اللهِ، وَ هُوَ یَرٰى خَلْقَ اللهِ.

اور مجھے تعجب ہے اس پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے اور پھر اس کے وجود میں شک کرتا ہے۔

وَ عَجِبْتُ لِمَنْ نَسِیَ الْمَوْتَ، وَ هُوَ یَرَى الْمَوْتٰى.

اور تعجب ہے اس پر کہ جو مرنے والوں کو دیکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے۔

وَ عَجِبْتُ لِمَن اَنْکَرَ النَّشْاَةَ الْاُخْرٰى، وَ هُوَ یَرَى النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى.

اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پیدائش کو دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرتا ہے۔

وَ عَجِبْتُ لِعَامِرِ دَارِ الْفَنَآءِ، وَ تَارِکِ دَارِ الْبَقَآءِ!.

اور تعجب ہے اس پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے اور منزل جاودانی کو چھوڑ دیتا ہے۔

(۱۲۷)

مَنْ قَصَّرَ فِی الْعَمَلِ ابْتُلِیَ بِالْهَمِّ، وَ لَا حَاجَةَ لِلّٰهِ فِیْمَنْ لَیْسَ لِلّٰهِ فِیْ مَالِہٖ وَ نَفْسِہٖ نَصِیْبٌ.

جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے، اور جس کے مال و جان میں اللہ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 January 23 ، 18:44
عون نقوی

(۱۲۴)

غَیْرَةُ الْمَرْاَةِ کُفْرٌ، وَ غَیْرَةُ الرَّجُلِ اِیْمَانٌ.

عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے۔


مطلب یہ ہے کہ جب مرد کو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کرنا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہم پایہ ہے، اور چونکہ عورت کیلئے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے۔

مرد و عورت میں یہ تفریق اس لئے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجۂ اَتم حاصل ہو سکتا ہے جب مرد کیلئے تعدد اَزواج کی اجازت ہو، کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہو سکتی ہیں اور عورت اس سے معذور و قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کر سکے۔ کیونکہ زمانۂ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگر متعدد ازواج ہوں گی تو سلسلۂ تولید جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا، کیونکہ مرد کیلئے ایسے موانع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلۂ تولید میں روک بن سکیں۔

اس لئے خدا وند عالم نے مردوں کیلئے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے اور عورتوں کیلئے یہ صورت جائز نہیں رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں۔ کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہو سکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے۔

چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کر سکتی؟

حضرتؑ نے فرمایا کہ: مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کرے گا تو اولاد بہر صورت اسی کی طرف منسوب ہو گی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ کون کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہو سکے گی اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا۔ کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہو گا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔

(۱۲۵)

لَاَنْسُبَنَّ الْاِسْلَامَ نِسْبَةً لَّمْ یَنْسُبْهَا اَحَدٌ قَبْلِیْ: الْاِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِیْمُ، وَ التَّسْلِیْمُ هُوَ الْیَقِیْنُ، وَ الْیَقِیْنُ هُوَ التَّصْدِیْقُ، وَ التَّصْدِیْقُ هُوَ الْاِقْرَارُ، وَ الْاِقْرَارُ هُوَ الْاَدَآءُ، وَ الْاَدَآءُ هَوَ الْعَمَلُ.

میں ’’اسلام‘‘ کی ایسی صحیح تعریف بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی: ’’اسلام‘‘ سر تسلیم خم کرنا ہے، اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے، اور یقین تصدیق ہے، اور تصدیق اعتراف ہے، اور اعتراف فرض کی بجا آوری ہے اور فرض کی بجا آوری عمل ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:12
عون نقوی

(۱۲۲)

وَ تَبِعَ جَنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا یَّضْحَکُ، فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ ایک جنازہ کے پیچھے جار ہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپؑ نے فرمایا:

کَاَنَّ الْمَوْتَ فِیْهَا عَلٰى غَیْرِنَا کُتِبَ، وَ کَاَنَّ الْحَقَّ فِیْهَا عَلٰى غَیْرِنَا وَجَبَ، وَ کَاَنَّ الَّذِیْ نَرٰى مِنَ الْاَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِیْلٍ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ، نُبَوِّئُهُمْ اَجْدَاثَهُمْ، وَ نَاْکُلُ تُرَاثَهُمْ، کَاَنَّا مُخَلَّدُوْنَ بَعْدَھُمْ، ثُمَّ قَدْ نَسِیْنَا کُلَّ وَاعِظٍ وَ وَاعِظَةٍ، وَ رُمِیْنَا بِکُلِّ جَآئِحَةٍ!.

گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کیلئے لکھی گئی ہے، اور گویا یہ حق (موت) دوسروں ہی پر لازم ہے، اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں۔ گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ پھر یہ کہ ہم نے ہر پند و نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عورت، بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱۲۳)

طُوْبٰى لِمَنْ ذَلَّ فِیْ نَفْسِهٖ، وَ طَابَ کَسْبُهٗ، وَ صَلُحَتْ سَرِیْرَتُهٗ، وَ حَسُنَتْ خَلِیْقَتُهٗ،وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِهٖ، وَ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِهٖ، وَ عَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهٗ، وَ وَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَ لَمْ یُنْسَبْ اِلَى الْبِدْعَةِ.

خوشا نصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی، جس کی کمائی پاک و پاکیزہ، نیت نیک اور خصلت و عادت پسندیدہ رہی، جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں صرف کیا، بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا، مردم آزاری سے کنارہ کش رہا، سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا۔

اَقُوْلُ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّنْسُبُ هٰذَا الْکَلَامِ اِلٰى رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَکَذٰلِکَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: کچھ لوگوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:09
عون نقوی