بصیرت اخبار

۳۳۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ» ثبت شده است

وَ اُحَذِّرُکُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ، وَ لَیْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ، قَدْ تَزَیَّنَتْ بِغُرُوْرِهَا، وَ غَرَّتْ بِزِیْنَتِهَا، دَارٌ هَانَتْ عَلٰی رَبِّهَا، فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا، وَ خَیْرَهَا بِشَرِّهَا، وَ حَیَاتَهَا بِمَوتِهَا، وَ حُلْوَهَا بِمُرِّهَا. لَمْ یُصْفِهَا اللهُ تَعَالٰی لِاَوْلِیَآئِهٖ، وَ لَمْ یَضِنَّ بِهَا عَلٰۤی اَعْدَآئِهٖ، خَیْرُهَا زَهِیْدٌ، وَ شَرُّهَا عَتِیْدٌ، وَ جَمْعُهَا یَنْفَدُ، وَ مُلْکُهَا یُسْلَبُ، وَ عَامِرُهَا یَخْرَبُ. فَمَا خَیْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَآءِ، وَ عُمُرٍ یَّفْنٰی فَنَآءَ الزَّادِ، وَ مُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّیْرِ!.

میں تمہیں دنیا سے خبردار کئے دیتا ہوں کہ یہ ایسے شخص کی منزل ہے جس کیلئے قرار نہیں اور ایسا گھر ہے جس میں آب و دانہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ یہ اپنے باطل سے آراستہ ہے اور اپنی آرائشوں سے دھوکا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا گھر ہے جو اپنے رب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ چنانچہ اس نے حلال کے ساتھ حرام اور بھلائیوں کے ساتھ برائیاں اور زندگی کے ساتھ موت اور شیرینیوں کے ساتھ تلخیاں خلط ملط کر دی ہیں اور اپنے دوستوں کیلئے اسے بے غل و غش نہیں رکھا اور نہ دشمنوں کو دینے میں بخل کیا ہے۔ اس کی بھلائیاں بہت ہی کم ہیں اور برائیاں (جہاں چاہو) موجود۔ اس کی جمع پونجی ختم ہو جانے والی اور اس کا ملک چھن جانے والا اور اس کی آبادیاں ویران ہو جانے والی ہیں۔ بھلا اس گھر میں خیر و خوبی ہی کیا ہو سکتی ہے جو مسمار عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں جو زادِ راہ کی طرح ختم ہو جائے اور اس مدت میں جو چلنے پھرنے کی طرح تمام ہو جائے۔

اِجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللهُ عَلَیْکُمْ مِنْ طَلَبِکُمْ، وَ اسْئَلُوْهُ مِنْ اَدَآءِ حَقِّهٖ مَا سَئَلَکُمْ، وَ اَسْمِعُوْا دَعْوَةَ الْمَوْتِ اٰذَانَکُمْ قَبْلَ اَنْ یُّدْعٰی بِکُمْ. اِنَّ الزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا تَبْکِیْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِنْ ضَحِکُوْا، وَ یَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وَ اِنْ فَرِحُوْا، وَ یَکْثُرُ مَقْتُهُمْ اَنْفُسَهُمْ وَ اِنِ اغْتُبِطُوْا بِمَا رُزِقُوْا.

جن چیزوں کی تمہیں طلب و تلاش رہتی ہے ان میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بھی داخل کرلو اور جو اللہ نے تم سے چاہا ہے اسے پورا کرنے کی توفیق بھی اس سے مانگو۔ موت کا پیغام آنے سے پہلے موت کی پکار اپنے کانوں کو سنا دو۔ اس دنیا میں زاہدوں کے دل روتے ہیں، اگرچہ وہ ہنس رہے ہوں اور ان کا غم و اندوہ حد سے بڑھا ہوتا ہے، اگرچہ ان (کے چہروں) سے مسرت ٹپک رہی ہو اور انہیں اپنے نفسوں سے انتہائی بیر ہوتا ہے، اگرچہ اس رزق کی وجہ سے جو انہیں میسر ہے ان پر رشک کیا جاتا ہو۔

قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوْبِکُمْ ذِکْرُ الْاٰجَالِ، وَ حَضَرَتْکُمْ کَوَاذِبُ الْاٰمَالِ، فَصَارَتِ الدُّنْیَا اَمْلَکَ بِکُمْ مِنَ الْاٰخِرَةِ، وَ الْعَاجِلَةُ اَذْهَبَ بِکُمْ مِنَ الْاٰجِلَةِ، وَ اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ اِخْوَانٌ عَلٰی دِیْنِ اللهِ، مَا فَرَّقَ بَیْنَکُمْ اِلَّا خُبْثُ السَّرَآئِرِ، وَ سُوْٓءُ الضَّمَآئِرِ، فَلَا تَوَازَرُوْنَ، وَ لَا تَنَاصَحُوْنَ، وَلَا تَبَاذَلُوْنَ، وَ لَا تَوَادُّوْنَ.

تمہارے دلوں سے موت کی یاد جاتی رہی ہے اور جھوٹی امیدیں (تمہارے اندر) موجود ہیں۔ آخرت سے زیادہ دنیا تم پر چھائی ہوئی ہے اور وہ عقبیٰ سے زیادہ تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تم دین خدا کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو، لیکن بد نیتی اور بد باطنی نے تم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ نہ تم ایک دوسرے کا بوجھ بٹاتے ہو، نہ باہم پند و نصیحت کرتے ہو، نہ ایک دوسرے پر کچھ خرچ کرتے ہو، نہ تمہیں ایک دوسرے کی چاہت ہے۔

مَا بَالُکُمْ تَفْرَحُوْنَ بِالْیَسِیْرِ مِنَ الدُّنْیَا تُدْرِکُوْنَهٗ، وَ لَا یَحْزُنُکُمُ الْکَثِیْرُ مِنَ الْاٰخِرَةِ تُحْرَمُوْنَهٗ، وَ یُقْلِقُکُمُ الْیَسِیْرُ مِنَ الدُّنْیَا یَفُوْتُکُمْ، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ ذٰلِکَ فِیْ وُجُوْهِکُمْ، وَ قِلَّةِ صَبْرِکُمْ عَمَّا زُوِیَ مِنْهَا عَنْکُمْ، کَاَنَّهَا دَارُ مُقَامِکُمْ، وَ کَاَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَیْکُمْ.

تھوڑی سی دنیا پا کر خوش ہونے لگتے ہو اور آخرت کے بیشتر حصہ سے بھی محرومی تمہیں غم زدہ نہیں کرتی۔ ذرا سی دنیا کا تمہارے ہاتھوں سے نکلنا تمہیں بے چین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ بے چینی تمہارے چہروں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور کھوئی ہوئی چیز پر تمہاری بے صبریوں سے آشکارا ہو جاتی ہے، گویا یہ دنیا تمہارا (مستقل ) مقام ہے اور دنیا کا ساز و برگ ہمیشہ رہنے والا ہے۔

وَ مَا یَمْنَعُ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ اَخَاهُ بِمَا یَخَافُ مِنْ عَیْبِهٖ، اِلَّا مَخَافَةُ اَنْ یَّسْتَقْبِلَهٗ بِمِثْلِهٖ. قَدْ تَصَافَیْتُمْ عَلٰی رَفْضِ الْاٰجِلِ وَ حُبِّ الْعَاجِلِ، وَ صَارَ دِیْنُ اَحَدِکُمْ لُعْقَةً عَلٰی لِسَانِهٖ، صَنِیْعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهٖ، وَ اَحْرَزَ رِضٰی سَیِّدِهٖ.

تم میں سے کسی کو بھی اپنے کسی بھائی کا ایسا عیب اچھالنے سے کہ جس کے ظاہر ہونے سے ڈرتا ہے صرف یہ امر مانع ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کا ویسا ہی عیب کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔ تم نے آخرت کو ٹھکرانے اور دنیا کو چاہنے پر سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ تم لوگوں کا دین تو یہ رہ گیا ہے کہ جیسے ایک دفعہ زبان سے چاٹ لیا جائے (یعنی صرف زبانی اقرار) اور تم تو اس شخص کی طرح (مطمئن) ہو چکے ہو کہ جو اپنے کام دھندوں سے فارغ ہو گیا ہو اور اپنے مالک کی رضا مندی حاصل کر لی ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:50
عون نقوی

ذَکَرَ فِیْهَا مَلَکَ الْمَوْتِ وَ تَوْفِیَۃَ النَّفْسِ

اس میں ملک الموت اور اس کے روح قبض کرنے کا ذکر فرمایا ہے

هَلْ تُحِسُّ بِهٖۤ اِذَا دَخَلَ مَنْزِلًا؟ اَمْ هَلْ تَرَاهُ اِذَا تَوَفّٰی اَحَدًا؟ بَلْ کَیْفَ یَتَوَفَّی الْجَنِیْنَ فِیْ بَطْنِ اُمِّهٖ؟ اَ یَلِجُ عَلَیْهِ مِنْ بَعْضِ جَوَارِحِهَا؟ اَمِ الرُّوْحُ اَجَابَتْهُ بِاِذْنِ رَبِّهَا؟ اَمْ هُوَ سَاکِنٌ مَّعَهٗ فِیْۤ َحْشَآئِهَا؟ کَیْفَ یَصِفُ اِلٰهَهٗ مَنْ یَّعْجِزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوْقٍ مِّثْلِهٖ؟!

جب (ملک الموت) کسی گھر میں داخل ہوتا ہے تو کبھی تم اس کی آہٹ محسوس کرتے ہو؟ یا جب کسی کی روح قبض کرتا ہے تو کیا تم اسے دیکھتے ہو؟ (حیرت ہے) کہ وہ کس طرح ماں کے پیٹ میں بچے کی روح کو قبض کر لیتا ہے۔ کیا وہ ماں کے جسم کے کسی حصہ سے وہاں تک پہنچتا ہے؟ یا اللہ کے حکم سے روح اس کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی بڑھتی ہے؟ یا وہ بچہ کے ساتھ شکم مادر میں ٹھہرا ہوا ہے؟ جو اس جیسی مخلوق کے بارے میں بھی کچھ نہ بیان کر سکے، وہ اپنے اللہ کے متعلق کیا بتا سکتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:47
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُحَذِّرُکُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرِةٌ، حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ، وَ تَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ، وَ رَاقَتْ بِالْقَلِیْلِ، وَ تَحَلَّتْ بِالْاٰمَالِ، وَ تَزَیَّنَتْ بِالْغُرُوْرِ، لَا تَدُوْمُ حَبْرَتُهَا، وَ لَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا، غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ، حَآئِلَةٌ زَآئِلَةٌ، نَافِدَةٌ بَآئِدَةٌ، اَکَّالَةٌ غَوَّالَةٌ، لَا تَعْدُوْـ اِذَا تَنَاهَتْ اِلٰۤی اُمْنِیَّةِ اَهْلِ الرَّغْبَةِ فِیْهَا وَ الرِّضَآءِ بِهَا ـ اَنْ تَکُوْنَ کَمَا قَالَ اللهُ تَعَالٰی سُبْحَانَهٗ: ﴿کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا.

میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں، اس لئے کہ یہ (بظاہر) شیریں و خوشگوار، تر و تازہ و شاداب ہے، نفسانی خواہشیں اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، وہ اپنی جلد میسر آ جانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوڑی سی (آرائشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔ وہ (جھوٹی) امیدوں سے سجی ہوئی اور دھوکے اور فریب سے بنی سنوری ہوئی ہے۔ نہ اس کی مسرتیں دیرپا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے مطمئن رہا جا سکتا ہے۔ وہ دھوکے باز، نقصان رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے، ختم ہونے والی اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوؤں تک پہنچ جاتی ہے تو بس وہی ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ نے بیان کیا ہے: ’’ (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے) جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھولا پھلا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہو گیا جسے ہوائیں (اِدھر سے اُدھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

لَمْ یَکُنِ امْرُؤٌ مِّنْهَا فِیْ حَبْرَةٍ اِلَّاۤ اَعْقَبَتْهُ بَعْدَهَا عَبْرَةً، وَ لَمْ یَلْقَ مِنْ سَرَّآئِهَا بَطْنًا اِلَّا مَنَحَتْهُ مِنْ ضَرَّآئِهَا ظَهْرًا، وَ لَمْ تَطُلَّهُ فِیْهَا دِیْمَةُ رَخَآءٍ اِلَّا هَتَنَتْ عَلَیْهِ مُزْنَةُ بَلَآءٍ، وَ حَرِیٌّ اِذَا اَصْبَحَتْ لَهٗ مُنْتَصِرَةً اَنْ تُمْسِیَ لَهٗ مُتَنَکِّرَةً، وَ اِنْ جَانِبٌ مِّنْهَا اعْذَوْذَبَ وَ احْلَوْلٰی، اَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَاَوْبٰی.

جو شخص اس دنیا کا عیش و آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رخ دیکھتا ہے وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رخی بھی دکھاتی ہے اور جس شخص پر راحت و آرام کی بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں اس پر مصیبت و بلا کی دھواں دھار بارشیں بھی ہوتی ہیں یہ دنیا ہی کے مناسب ِ حال ہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہو جائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا ایک جنبہ شیریں و خوشگوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلا انگیز۔

لَا یَنَالُ امْرُؤٌ مِّنْ غَضَارَتِهَا رَغَبًا، اِلَّاۤ اَرْهَقَتْهُ مِنْ نَّوَآئِـبِهَا تَعَبًا، وَ لَا یُمْسِیْ مِنْهَا فِیْ جَنَاحِ اَمْنٍ، اِلَّاۤ اَصْبَحَ عَلٰی قَوَادِمِ خَوْفٍ، غَرَّارَةٌ غُرُوْرٌ مَّا فِیْهَا، فَانِیَةٌ فَانٍ مَّنْ عَلَیْهَا، لَا خَیْرَ فِیْ شَیْءٍ مِّنْ اَزْوَادِهَا اِلَّا التَّقْوٰی، مَنْ اَقَلَّ مِنْهَا اسْتَکْثَرَ مِمَّا یُؤْمِنُهٗ، وَ مَنِ اسْتَکْثَرَ مِنْهَا اسْتَکْثَرَ مِمَّا یُوْبِقُهٗ، وَ زَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ عَنْهُ.

جو شخص بھی دنیا کی تر و تازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لاد دیتی ہے۔ جسے امن و سلامتی کے پر و بال پر شام ہوتی ہے تو اسے صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا، وہ خود بھی فنا ہو جانے والی ہے اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے۔ اس کے کسی زاد میں سوا زادِ تقویٰ کے بھلائی نہیں ہے۔ جو شخص کم حصہ لیتا ہے وہ اپنے لئے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے اور جو دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے وہ اپنے لئے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے۔ (حالانکہ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے۔

کَمْ مِّنْ وَّاثِقٍۭ بِهَا قَدْ فَجَعَتْهُ، وَ ذِیْ طُمَاْنِیْنَةٍ اِلَیْهَا قَدْ صَرَعَتْهُ، وَ ذِیْۤ اُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْهُ حَقِیْرًا، وَ ذِیْ نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْهُ ذَلِیْلًا، سُلْطَانُهَا دُوَلٌ، وَ عَیْشُهَا رَنِقٌ، وَ عَذْبُهَا اُجَاجٌ، وَ حُلْوُهَا صَبِرٌ، وَ غِذَآؤُهَا سِمَامٌ، وَ اَسْبَابُهَا رِمَامٌ، حَیُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ، وَ صَحِیْحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ، مُلْکُهَا مَسْلُوْبٌ، وَ عَزِیْزُهَا مَغْلُوبٌ، وَ مَوْفُوْرُهَا مَنْکُوْبٌ، وَ جَارُهَا مَحْرُوْبٌ.

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا پر بھروسا کیا اور اس نے انہیں مصیبتوں میں ڈال دیا اور کتنے ہی اس پر اطمینان کئے بیٹھے تھے جنہیں اس نے پچھاڑ دیا اور کتنے ہی رعب و طنطنہ والے تھے جنہیں حقیر و پست بنا دیا اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے جنہیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز، اس کا سر چشمہ گدلا، اس کا خوشگوار پانی کھاری، اس کی حلاوتیں ایلوا (کے مانند تلخ) ہیں، اس کے کھانے زہر ہلاہل اور اس کے اسباب و ذرائع کے سلسلے بودے ہیں، زندہ رہنے والا معرض ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے، اس کی سلطنت چھن جانے والی، اس کا زبردست زیردست بننے والا، مالدار بدبختیوں کا ستایا ہوا اور ہمسایہ لُٹا لُٹایا ہوا ہے۔

اَلَسْتُمْ فِیْ مَسَاکِنِ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَطْوَلَ اَعْمَارًا، وَ اَبْقٰۤی اٰثَارًا، وَ اَبْعَدَ اٰمَالًا، وَ اَعَدَّ عَدِیْدًا، وَ اَکْثَفَ جُنُوْدًا، تَعَبَّدُوْا لِلدُّنْیَا اَیَّ تَعَبُّدٍ، وَاٰثَرُوْهَا اَیَّ اِیْثَارٍ، ثُمَّ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِغَیْرِ زَادٍ مُّبَلِّغٍ وَّ لَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ؟ فَهَلْ بَلَغَکُمْ اَنَّ الدُّنْیَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْسًۢا بِفِدْیَةٍ؟ اَوْ اَعَانَتْهُمْ بِمَعُوْنَةٍ؟ اَوْ اَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً‍‍؟ بَلْ اَرْهَقَتْهُمْ بِالْفَوَادِحِ، وَ اَوْهَنَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ، وَ ضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَآئِبِ، وَ عَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ، وَ وَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ، وَ اَعَانَتْ عَلَیْهِمْ ﴿رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝﴾، فَقَدْ رَاَیْتُمْ تَنَکُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا، وَ اٰثَرَهَا وَ اَخْلَدَ اِلَیْهَا، حَتّٰی ظَعَنُوْا عَنْهَا لِفِرَاقِ الْاَبَدِ. وَ هَلْ زَوَّدَتْهُمْ اِلَّا السَّغَبَ؟ اَوْ اَحَلَّتْهُمْ اِلَّا الضَّنْکَ؟ اَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ اِلَّا الظُّلْمَةَ؟ اَوْ اَعْقَبَتْهُمْ اِلَّا النَّدَامَةَ؟ اَفَهٰذِهٖ تُؤْثِرُوْنَ؟ اَمْ اِلَیْهَا تَطْمَئِنُّوْنَ؟ اَمْ عَلَیْهَا تَحْرِصُوْنَ؟.

کیا تم انہی سابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے، پائیدار نشانیوں والے، بڑی بڑی امیدیں باندھنے والے، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لاؤ لشکر والے تھے؟ وہ دنیا کی کس کس طرح پرستش کرتے رہے اور اسے آخرت پر کیسا کیسا ترجیح دیتے رہے۔ پھر بغیر کسی ایسے زاد و راحلہ کے جو انہیں راستہ طے کر کے منزل تک پہنچاتا، چل دئیے۔ کیا تمہیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے کہ دنیا نے ان کے بدلہ میں کسی فدیہ کی پیشکش کی ہو؟ یا انہیں کوئی مدد پہنچائی ہو؟ یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی سہی ہو؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے، آفتوں سے انہیں عاجز و در ماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انہیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹایا۔ تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیت اختیار کر لی، یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے جدا ہو کر چل دئیے اور اس نے انہیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہرنے کا سامان نہ کیا اور سوا گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا۔ تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو؟ یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو؟ یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟۔

فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَّمْ یَتَّهِمْهَا، وَ لَمْ یَکُنْ فِیْهَا عَلٰی وَجَلٍ مِّنْهَا، فَاعْلَمُوْا ـ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ـ بِاَنَّکُمْ تَارِکُوْهَا وَ ظَاعِنُوْنَ عَنْهَا، وَ اتَّعِظُوْا فِیْهَا بِالَّذِیْنَ ﴿قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ؕ ﴾، حُمِلُوْا اِلٰی قُبُوْرِهِمْ فَلَا یُدْعَوْنَ رُکْبَانًا، وَ اُنْزِلُوْا الْاَجْدَاثَ فَلَا یُدْعَوْنَ ضِیْفَانًا، وَ جُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِیْحِ اَجْنَانٌ، وَ مِنَ التُّرَابِ اَکْفَانٌ، وَ مِنَ الرُّفَاتِ جِیْرَانٌ.

جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کیلئے یہ بہت بُرا گھر ہے۔ جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو کہ (ایک نہ ایک دن) تمہیں دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ: ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے؟ انہیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انہیں سوار سمجھا جائے، انہیں قبروں میں اتار دیا گیا مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے، پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔

فَهُمْ جِیْرَةٌ لَّا یُجِیْبُوْنَ دَاعِیًا، وَ لَا یَمْنَعُوْنَ ضَیْمًا، وَ لَا یُبَالُوْنَ مَنْدَبَةً، اِنْ جِیْدُوْا لَمْ یَفْرَحُوْا، وَ اِنْ قُحِطُوْا لَمْ یَقْنَطُوْا، جَمِیْعٌ وَّ هُمْ اٰحَادٌ، وَ جِیْرَةٌ وَّ هُمْ اَبْعَادٌ، مُتَدَانُوْنَ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، وَ قَرِیْبُوْنَ لَا یَتَقَارَبُوْنَ، حُلَمَآءُ قَدْ ذَهَبَتْ اَضْغَانُهُمْ، وَ جُهَلَآءُ قَدْ مَاتَتْ اَحْقَادُهُمْ، لَا یُخْشٰی فَجْعُهُمْ، وَ لَا یُرْجٰی دَفْعُهُمْ.

وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔ وہ ایک جگہ ہیں مگر الگ الگ، وہ آپس میں ہمسائے ہیں مگر دور دور۔ پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں، قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے۔

اِسْتَبْدَلُوْا بِظَهْرِ الْاَرْضِ بَطْنًا، وَ بِالسَّعَةِ ضِیْقًا، وَ بِالْاَهْلِ غُرْبَةً، وَ بِالنُّوْرِ ظُلْمَةً، فَجَآؤُوْهَا کَمَا فَارَقُوْهَا، حُفَاةً عُرَاةً، قَدْ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِاَعْمَالِهِمْ اِلَی الْحَیَاةِ الدَّآئِمَةِ وَ الدَّارِ الْبَاقِیَةِ، کَمَا قَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿کَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ۝﴾.

انہوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے اور گھر بار پر دیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہو گئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرما یا ہے: ’’جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے، اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے۔‘‘


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:46
عون نقوی

اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِهِ الْمُتَوَسِّلُوْنَ اِلَی اللهِ سُبْحَانَهُ الْاِیْمَانُ بِهٖ وَ بِرَسُوْلِهٖ، وَ الْجِهَادُ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَاِنَّهٗ ذِرْوَةُ الْاِسْلَامِ، وَ کَلِمَةُ الْاِخْلَاصِ فَاِنَّهَا الْفِطْرَةُ،وَ اِقَامُ الصَّلٰوةِ فَاِنَّهَا الْمِلَّةُ، وَ اِیْتَآءُ الزَّکٰوةِ فَاِنَّهَا فَرِیْضَةٌ وَّاجِبَةٌ، وَ صَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَاِنَّهٗ جُنَّةٌ مِّنَ الْعِقَاب، وَ حَجُّ الْبَیْتِ وَاعْتِمَارُهٗ فَاِنَّهُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَ یَرْحَضَانِ الذَّنْۢبَ، وَ صِلَةُ الرَّحِمِ فَاِنَّهَا مَثْرَاَةٌ فِی الْمَالِ وَ مَنْسَاَةٌ فِی الْاَجَلِ، وَ صَدَقَةُ السِّرِّ فَاِنَّهَا تُکَفِّرُ الْخَطِیْٓئَةَ، وَ صَدَقَةُ الْعَلَانِیَةِ فَاِنَّهَا تَدْفَعُ مِیْتَةَ السُّوْٓءِ، وَ صَنَآئِعُ الْمَعْرُوْفِ فَاِنَّهَا تَقِیْ مَصَارِعَ الْهَوَانِ.

اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈنے والوں کیلئے بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا ہے اور اس کی راہ میں جہاد کرنا کہ وہ اسلام کی سر بلند چوٹی ہے اور کلمہ توحید کہ وہ فطرت (کی آواز) ہے اور نماز کی پابندی کہ وہ عین دین ہے اور زکوٰة ادا کرنا کہ وہ فرض و واجب ہے اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا کہ وہ عذاب کی سپر ہیں اور خانہ کعبہ کا حج و عمرہ بجا لانا کہ وہ فقر کو دور کرتے اور گناہوں کو دھو دیتے ہیں اور عزیزوں سے حسن سلوک کرنا کہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ہے اور مخفی طور پر خیرات کرنا کہ وہ گناہوں کا کفارہ ہے اور کھلم کھلا خیرات کرنا کہ وہ بری موت سے بچاتا ہے اور لوگوں پر احسانات کرنا کہ وہ ذلّت و رسوائی کے مواقع سے بچاتا ہے۔

اَفِیْضُوْا فِیْ ذِکْرِ اللهِ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الذِّکْرِ، وَ ارْغَبُوْا فِیْمَا وَعَدَ الْمُتَّقِیْنَ فَاِنَّ وَعْدَهٗ اَصْدَقُ الْوَعْدِ، وَ اقْتَدُوْا بِهَدْیِ نَبِیِّکُمْ فَاِنَّهٗ اَفْضَلُ الْهَدْیِ، وَ اسْتَنُّوْا بِسُنَّتِهٖ فَاِنَّهَا اَهْدَی السُّنَنِ.

اللہ کے ذکر میں بڑھے چلو اس لئے کہ وہ بہترین ذکر ہے اور اس چیز کے خواہشمند بنو کہ جس کا اللہ نے پرہیز گاروں سے وعدہ کیا ہے۔ اس لئے کہ اس کا وعدہ سب وعدوں سے زیادہ سچا ہے۔ نبیؐ کی سیرت کی پیروی کرو کہ وہ بہترین سیرت ہے اور ان کی سنت پر چلو کہ وہ سب طریقوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہے۔

وَ تَعَلَّمُوا الْقُرْاٰنَ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ، وَ تَفَقَّهُوْا فِیْهِ فَاِنَّهٗ رَبِیْعُ الْقُلُوْبِ، وَ اسْتَشْفُوْا بِنُوْرِهٖ فَاِنَّهٗ شِفَآءُ الصُّدُوْرِ، وَ اَحْسِنُوْا تِلَاوَتَهٗ فَاِنَّهٗۤ اَنْفَعُ الْقَصَصِ.

اور قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں (کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کیلئے شفا ہے اور اس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ رساں ہیں۔

فَاِنَّ الْعَالِمَ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمِهٖ کَالْجَاهِلِ الْحَآئِرِ الَّذِیْ لَا یَسْتَفِیْقُ مِنْ جَهْلِهٖ، بَلِ الْحُجَّةُ عَلَیْهِ اَعْظَمُ، وَ الْحَسْرَةُ لَهٗۤ اَلْزَمُ، وَ هُوَ عِنْدَ اللهِ اَلْوَمُ.

وہ عالم جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا اس سرگرداں جاہل کے مانند ہے جو جہالت کی سر مستیوں سے ہوش میں نہیں آتا، بلکہ اس پر (اللہ کی ) حجت زیادہ ہے اور حسرت و افسوس اس کیلئے لازم و ضروری ہے اور اللہ کے نزدیک وہ زیادہ قابل ملامت ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:43
عون نقوی

کُلُّ شَیْءٍ خَاشِعٌ لَّهٗ، وَکُلُّ شَیْءٍ قَآئِمٌۢ بِهٖ: غِنٰی کُلِّ فَقِیْرٍ، وَ عِزُّ کُلِّ ذَلِیْلٍ، وَ قُوَّةُ کُلِّ ضَعِیْفٍ، وَ مَفْزَعُ کُلِّ مَلْهُوْفٍ، مَنْ تَکَلَّمَ سَمِـعَ نُطْقَهٗ، وَ مَنْ سَکَتَ عَلِمَ سِرَّهٗ، وَ مَنْ عَاشَ فَعَلَیْهِ رِزْقُهٗ، وَ مَنْ مَّاتَ فَاِلَیْهِ مُنْقَلَبُهٗ. لَمْ تَرَکَ الْعُیُوْنُ فَتُخْبِرَ عَنْکَ، بَلْ کُنْتَ قَبْلَ الْوَاصِفِیْنَ مِنْ خَلْقِکَ.

ہر چیز اس کے سامنے عاجز و سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے۔ وہ ہر فقیر کا سرمایہ، ہر ذلیل کی آبرو، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گاہ ہے۔ جو کہے اس کی بات بھی وہ سنتا ہے اور جو چپ رہے اس کے بھید سے بھی وہ آگاہ ہے۔ جو زندہ ہے اس کے رزق کا ذمہ اس پر ہے اور جو مر جائے اس کا پلٹنا اسی کی طرف ہے۔ (اے اللہ!) آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں کہ تیری خبر دے سکیں، بلکہ تو تو اس وصف کرنے والی مخلوق سے پہلے موجود تھا۔

لَمْ تَخْلُقِ الْخَلْقَ لِوَحْشَةٍ، وَ لَا اسْتَعْمَلْتَهُمْ لِمَنْفَعَةٍ، وَ لَا یَسْبِقُکَ مَنْ طَلَبْتَ، وَ لَا یُفْلِتُکَ مَنْ اَخَذْتَ، وَ لَا یَنْقُصُ سُلْطَانَکَ مَنْ عَصَاکَ، وَ لَا یَزِیْدُ فِیْ مُلْکِکَ مَنْ اَطَاعَکَ، وَ لَایَرُدُّ اَمْرَکَ مَنْ سَخِطَ قَضَآءَکَ، وَ لَایَسْتَغْنِیْ عَنْکَ مَنْ تَوَلّٰی عَنْ اَمْرِکَ، کُلُّ سِرٍّ عِنْدَکَ عَلَانِیَةٌ، وَ کُلُّ غَیْبٍ عِنْدَکَ شَهَادَةٌ.

تو نے (تنہائی کی) وحشتوں سے اکتا کر مخلوق کو پیدا نہیں کیا اور نہ اپنے کسی فائدے کے پیش نظر ان سے اعمال کرائے۔ جسے تو گرفت میں لانا چاہے وہ تجھ سے آگے بڑھ کر جا نہیں سکتا اور جسے تو نے گرفت میں لے لیا پھر وہ نکل نہیں سکتا۔ جو تیری مخالفت کرتا ہے ایسا نہیں کہ وہ تیری فرمانروائی کو نقصان پہنچائے اور جو تیری اطاعت کرتا ہے وہ تیرے ملک (کی وسعتوں) کو بڑھا نہیں دیتا اور جو تیری قضا و قدر پر بگڑ اُٹھے وہ تیرے امر کو رد نہیں کر سکتا اور جو تیرے حکم سے منہ موڑ لے وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ہر چھپی ہوئی چیز تیرے لئے ظاہر اور ہر غیب تیرے سامنے بے نقاب ہے۔

اَنْتَ الْاَبَدُ فَلَاۤ اَمَدَ لَکَ، وَ اَنْتَ الْمُنْتَهٰی فَلَا مَحِیْصَ عَنْکَ، وَ اَنْتَ الْمَوْعِدُ فَلَا مَنْجٰی مِنْکَ اِلَّاۤ اِلَیْکَ، بِیَدِکَ نَاصِیَةُ کُلِّ دَآبَّةٍ، وَ اِلَیْکَ مَصِیْرُ کُلِّ نَسَمَةٍ.

تو ابدی ہے جس کی کوئی حد نہیں اور تو ہی (سب کی) منزل منتہا ہے کہ جس سے کوئی گریز کی راہ نہیں اور تو ہی وعدہ گاہ ہے کہ تجھ سے چھٹکارا پانے کی کوئی جگہ نہیں مگر تیری ہی ذات۔ ہر راہ چلنے والا تیرے قبضہ میں ہے اور ہر ذی روح کی بازگشت تیری طرف ہے۔

سُبْحَانَکَ مَاۤ اَعْظَمَ مَا نَرٰی مِنْ خَلْقِکَ! وَ مَاۤ اَصْغَرَ عِظَمَہٗ فِیْ جَنْۢبِ قُدْرَتِکَ! وَ مَاۤ اَهْوَلَ مَا نَرٰی مِنْ مَّلَکُوْْتِکَ! وَ مَاۤ اَحْقَرَ ذٰلِکَ فِیْمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِکَ! وَ مَاۤ اَسْبَغَ نِعَمَکَ فِی الدُّنْیَا، وَ مَاۤ اَصْغَرَهَا فِیْ نِعَمِ الْاٰخِرَةِ!.

سبحان اللہ! یہ تیری کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں، کتنی عظیم الشان ہے اور تیری قدرت کے سامنے ان کی عظمت کتنی کم ہے اور یہ تیری بادشاہت جو ہماری نظروں کے سامنے ہے کتنی پر شکوہ ہے۔ لیکن تیری اس سلطنت کے مقابلہ میں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے کتنی حقیر ہے اور دنیا میں یہ تیری نعمتیں کتنی کامل و ہمہ گیر ہیں مگر آخرت کی نعمتوں کے سامنے وہ کتنی مختصر ہیں۔

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

مِنْ مَّلٰٓئِکَةٍ اَسْکَنْتَهُمْ سَمٰوَاتِکَ، وَ رَفَعْتَهُمْ عَنْ اَرْضِکَ، هُمْ اَعْلَمُ خَلْقِکَ بِکَ، وَ اَخْوَفُهُمْ لَکَ، وَ اَقْرَبُهُمْ مِّنْکَ. لَمْ یَسْکُنُوا الْاَصْلَابَ، وَ لَمْ یُضَمَّنُوا الْاَرْحَامَ، وَ لَمْ یُخْلَقُوْا ﴿مِنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍۚ۝﴾، وَ لَمْ یَتَشَعَّبْهُمْ رَیْبُ الْمَنُوْنِ، وَ اِنَّهُمْ عَلٰی مَکَانِهِمْ مِنْکَ، وَ مَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَکَ، وَ اسْتِجْمَاعِ اَهْوَآئِهِمْ فِیْکَ، وَکَثْرَةِ طَاعَتِهِمْ لَکَ، وَ قِلَّةِ غَفْلَتِهِمْ عَنْ اَمْرِکَ، لَوْ عَایَنُوْا کُنْهَ مَا خَفِیَ عَلَیْهِمْ مِنْکَ لَحَقَّرُوْا اَعْمَالَهُمْ، وَ لَزَرَوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ لَعَرَفُوْۤا اَنَّهُمْ لَمْ یَعْبُدُوْکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ، وَ لَمْ یُطِیْعُوْکَ حَقَّ طَاعَتِکَ.

تو نے فرشتوں کو آسمانوں میں بسایا اور انہیں زمین کی سطح سے بلند رکھا۔ وہ سب مخلوق سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتے ہیں اور سب سے زیادہ تیرے مقرب ہیں۔ نہ وہ صلبوں میں ٹھہرے، نہ شکموں میں رکھے گئے، نہ ذلیل پانی (نطفہ) سے ان کی پیدائش ہوئی اور نہ زمانہ کے حوادث نے انہیں منتشر کیا۔ وہ تیرے قرب میں اپنے مقام و منزلت کی بلندی اور تیرے بارے میں خیالات کی یکسوئی اور تیری عبادت کی فراوانی اور تیرے احکام میں عدم غفلت کے باوجود اگر تیرے راز ہائے قدرت کی اس تہ تک پہنچ جائیں کہ جو ان سے پوشیدہ ہے، تو وہ اپنے اعمال کو بہت ہی حقیر سمجھیں گے اور اپنے نفسوں پر حرف گیری کریں گے اور یہ جان لیں گے کہ انہوں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا اور نہ کماحقہ تیری اطاعت کی ہے۔

سُبْحَانَکَ خَالِقًا وَّ مَعْبُوْدًا! بِحُسْنِ بَلَآئِکَ عِنْدَ خَلْقِکَ، خَلَقْتَ دَارًا وَّ جَعَلْتَ فِیْهَا مَاْدُبَةً: مَشْرَبًا وَّ مَطْعَمًا، وَ اَزْوَاجًا وَّ خَدَمًا، وَ قُصُوْرًا وَّ اَنْهَارًا، وَ زُرُوْعًا وَّ ثِمَارًا.

میں خالق و معبود جانتے ہوئے تیری تسبیح کرتا ہوں۔ تیرے اس بہترین سلوک کی بنا پر جو تیرا اپنے مخلوقات کے ساتھ ہے۔ تو نے ایک ایسا گھر (جنت) بنایا ہے کہ جس میں مہمانی کیلئے کھانے پینے کی چیزیں، حوریں، غلمان، محل، نہریں، کھیت اور پھل مہیا کئے ہیں۔

ثُمَّ اَرْسَلْتَ دَاعِیًا یَّدْعُوْۤ اِلَیْهَا، فَلَا الدَّاعِیَ اَجَابُوْا، وَ لَا فِیْمَا رَغَّبْتَ رَغِبُوْا، وَ لَاۤ اِلٰی مَا شَوَّقْتَ اِلَیْهِ اشْتَاقُوْا.

پھر تو نے ان نعمتوں کی طرف دعوت دینے والا بھیجا، مگر نہ انہوں نے بلانے والے کی آواز پر لبیک کہی اور نہ ان چیزوں کی طرف راغب ہوئے جن کی تو نے رغبت دلائی تھی اور نہ ان چیزوں کے مشتاق ہوئے جن کا تو نے اشتیاق دلایا تھا۔

اَقْبَلُوْا عَلٰی جِیْفَةٍ قَدِ افْتَضَحُوْا بِاَکْلِهَا، وَ اصْطَلَحُوْا عَلٰی حُبِّهَا، وَ مَنْ عَشِقَ شَیْئًا اَعْشٰی بَصَرَهٗ، وَ اَمْرَضَ قَلْبَهٗ، فَهُوَ یَنْظُرُ بِعَیْنٍ غَیْرِ صَحِیْحَةٍ، وَ یَسْمَعُ بِاُذُنٍ غَیْرِ سَمِیْعَةٍ، قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَهٗ، وَ اَمَاتَتِ الدُّنْیَا قَلْبَهٗ، وَ وَلِهَتْ عَلَیْهَا نَفْسُهٗ، فَهُوَ عَبْدٌ لَّهَا، وَ لِمَنْ فِیْ یَدَیْهِ شَیْءٌ مِّنْهَا، حَیْثُمَا زَالَتْ زَالَ اِلَیْهَا، وَ حَیْثُمَاۤ اَقْبَلَتْ اَقْبَلَ عَلَیْهَا، لَا یَنْزَجِرُ مِنَ اللهِ بِزَاجِرٍ، وَ لَایَتَّعِظُ مِنْهُ بِوَاعِظٍ، وَ هُوَ یَرَی الْمَاْخُوْذِیْنَ عَلَی الْغِرَّةِ، حَیْثُ لَاۤ اِقَالَةَ لَہُمْ وَ لَا رَجْعَةَ، کَیْفَ نَزَلَ بِهِمْ مَا کَانُوْا یَجْهَلُوْنَ، وَ جَآءَهُمْ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْیَا مَا کَانُوْا یَاْمَنُوْنَ، وَ قَدِمُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ عَلٰی مَا کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ.

وہ تو اسی مردار دنیا پر ٹوٹ پڑے کہ جسے نوچ کھانے میں اپنی عزت آبرو گنوا رہے تھے اور اس کی چاہت پر ایکا کر لیا تھا۔ جو شخص کسی شے سے بے تحاشا محبت کرتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو اندھا، دل کو مریض کر دیتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو بیمار آنکھوں سے، سنتا ہے تو نہ سننے والے کانوں سے۔ شہوتوں نے اس کی عقل کا دامن چاک کر دیا ہے اور دنیا نے اس کے دل کو مردہ بنا دیا ہے اور اس کا نفس اس پر مرمٹا ہے۔ یہ دنیا کا اور ان لوگوں کا جن کے پاس کچھ بھی وہ دنیا ہے بندہ و غلام بن گیا ہے۔ جدھر وہ مڑتی ہے ادھر یہ مڑتا ہے، جدھر اس کا رخ ہوتا ہے ادھر ہی اس کا رخ ہوتا ہے۔ نہ اللہ کی طرف سے کسی روکنے والے کے کہنے سننے سے وہ رکتا ہے اور نہ ہی اس کے کسی وعظ و پند کرنے والے کی نصیحت مانتا ہے۔ حالانکہ وہ ان لوگوں کو دیکھتا ہے کہ جنہیں عین غفلت کی حالت میں وہاں پر جکڑ لیا گیا کہ جہاں نہ تدارک کی گنجائش اور نہ دنیا کی طرف پلٹنے کا موقعہ ہوتا ہے اور کس طرح وہ چیزیں ان پر ٹوٹ پڑیں کہ جن سے وہ بے خبر تھے اور کس طرح اس دنیا سے جدائی (کی گھڑی سامنے) آ گئی کہ جس سے پوری طرح مطمئن تھے اور کیونکر آخرت کی ان چیزوں تک پہنچ گئے کہ جن کی انہیں خبر دی گئی تھی۔

فَغَیْرُ مَوْصُوْفٍ مَّا نَزَلَ بِهِمْ: اِجْتَمَعَتْ عَلَیْهِمْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ وَ حَسْرَةُ الْفَوْتِ، فَفَتَرَتْ لَهَا اَطْرَافُهُمْ، وَ تَغَیَّرَتْ لَهَا اَلْوَانُهُمْ. ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِیْهِمْ وُلُوْجًا، فَحِیْلَ بَیْنَ اَحَدِهِمْ وَ بَیْنَ مَنْطِقِهٖ، وَ اِنَّهٗ لَبَیْنَ اَهْلِهٖ یَنْظُرُ بِبَصَرِهٖ، وَ یَسْمَعُ بِاُذُنِهٖ، عَلٰی صِحَّةٍ مِّنْ عَقْلِهٖ، وَ بَقَآءٍ مِّنْ لُّبِّهٖ، یُفَکِّرُ فِیْمَ اَفْنٰی عُمْرَهٗ، وَ فِیْمَ اَذْهَبَ دَهْرَهٗ! وَ یَتَذَکَّرُ اَمْوَالًا جَمَعَهَا، اَغْمَضَ فِیْ مَطَالِبِهَا، وَ اَخَذَهَا مِنْ مُّصَرَّحَاتِهَا وَ مُشْتَبِهَاتِهَا، قَدْ لَزِمَتْهُ تَبِعَاتُ جَمْعِهَا، وَ اَشْرَفَ عَلٰی فِرَاقِهَا، تَبْقٰی لِمَنْ وَّرَآءَهٗ یَنْعَمُوْنَ فِیْهَا، وَ یَتَمَتَّعُوْنَ بِهَا، فَیَکُوْنُ الْمَهْنَاُ لِغَیْرِهٖ، وَالْعِبْءُ عَلٰی ظَهْرِهٖ. وَالْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُوْنُهٗ بِهَا، فَهُوَ یَعَضُّ یَدَهٗ نَدَامَةً عَلٰی مَاۤ اَصْحَرَ لَهٗ عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ اَمْرِهٖ، وَ یَزْهَدُ فِیْمَا کَانَ یَرْغَبُ فِیْهِ اَیَّامَ عُمُرِهٖ، وَ یَتَمَنّٰۤی اَنَّ الَّذِیْ کَانَ یَغْبِطُهٗ بِهَا وَ یَحْسُدُهٗ عَلَیْهَا قَدْ حَازَهَا دُوْنَهٗ.

اب جو مصیبتیں ان پر ٹوٹ پڑی ہیں انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، موت کی سختیاں اور دنیا چھوڑنے کی حسرتیں مل کر انہیں گھیر لیتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور رنگتیں بدل جاتی ہیں۔ پھر ان (کے اعضاء) میں موت کی دخل اندازیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کوئی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے ہی اس کی زبان بند ہو جاتی ہے، در صورتیکہ اس کی عقل درست اور ہوش و حواس باقی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے پڑا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنے کانوں سے سنتا ہے اور ان چیزوں کو سوچتا ہے کہ جن میں اس نے اپنی عمر گنوا دی ہے اور اپنا زمانہ گزار دیا ہے اور اپنے جمع کیے ہوئے مال و متاع کو یاد کرتا ہے کہ جس کے طلب کرنے میں (جائز و ناجائز سے) آنکھیں بند کر لی تھیں اور جسے صاف اور مشکوک ہر طرح کی جگہوں سے حاصل کیا تھا۔ اس کا وبال اپنے سر لے کر اسے چھوڑ دینے کی تیاری کرنے لگا۔ وہ مال (اب) اس کے پچھلوں کیلئے رہ جائے گا کہ وہ اس سے عیش و آرام کریں اور گل چھڑے اڑائیں۔ اس طرح وہ دوسروں کو تو بغیر ہاتھ پیر ہلائے یونہی مل گیا، لیکن اس کا بوجھ اس کی پیٹھ پر رہا اور یہ اس مال کی وجہ سے ایسا گروی ہوا ہے کہ بس اپنے کو چھڑا نہیں سکتا۔ مرنے کے وقت یہ حقیقت جو کھل کر اس کے سامنے آ گئی تو ندامت سے وہ اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے اور عمر بھر جن چیزوں کا طلب گار رہا تھا اب ان سے کنارہ ڈھونڈتا ہے اور یہ تمنا کرتا ہے کہ جو اس مال کی وجہ سے اس پر رشک و حسد کیا کرتے تھے (کاش کہ) وہی اس مال کو سمیٹتے نہ وہ۔

فَلَمْ یَزَلِ الْمَوْتُ یُبَالِغُ فِیْ جَسَدِهٖ حَتّٰی خَالَطَ لِسَانُهٗ سَمْعَهٗ، فَصَارَ بَیْنَ اَهْلِهٖ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانِهٖ، وَ لَا یَسْمَعُ بِسَمْعِهٖ: یُرَدِّدُ طَرْفَهٗ بِالنَّظَرِ فِیْ وجُوْهِهِمْ، یَرٰی حَرَکَاتِ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ لَا یَسْمَعُ رَجْعَ کَلَامِهِمْ. ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِیَاطًا بِهٖ، فَقُبِضَ بَصَرُهٗ کَمَا قُبِضَ سَمْعُهٗ، وَ خَرَجَتِ الرُّوْحُ مِنْ جَسَدِهٖ، فَصَارَ جِیْفَةًۢ بَیْنَ اَهْلِهٖ، قَدْ اَوْحَشُوْا مِنْ جَانِبِهٖ، وَ تَبَاعَدُوْا مِنْ قُرْبِهٖ. لَا یُسْعِدُ بَاکِیًا، وَ لَا یُجِیْبُ دَاعِیًا. ثُمَّ حَمَلُوْهُ اِلٰی مَخَطٍّ فِی الْاَرْضِ، فَاَسْلَمُوْهُ فِیْهِ اِلٰی عَمَلِهٖ، وَ انْقَطَعُوْا عَنْ زَوْرَتِهٖ.

اب موت کے تصرفات اس کے جسم میں اور بڑھے، یہاں تک کہ زبان کے ساتھ ساتھ کانوں پر بھی موت چھا گئی۔ گھر والوں کے سامنے اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ زبان سے بول سکتا ہے، نہ کانوں سے سن سکتا ہے، آنکھیں گھما گھما کر ان کے چہروں کو تکتا ہے، ان کی زبانوں کی جنبشوں کو دیکھتا ہے، لیکن بات چیت کی آوازیں نہیں سن پاتا۔ پھر اس سے موت اور لپٹ گئی کہ اس کی آنکھوں کو بھی بند کر دیا جس طرح اس کے کانوں کو بند کیا تھا اور روح اس کے جسم سے مفارقت کر گئی۔ اب وہ گھر والوں کے سامنے ایک مردار کی صورت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی طرف سے انہیں وحشت ہوتی ہے اور اس کے پاس پھٹکنے سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ نہ رونے والے کی کچھ مدد کر سکتا ہے، نہ پکارنے والے کو جواب دے سکتا ہے۔ پھر اسے اٹھا کر زمین میں جہاں اس کی قبر بننا ہے لے جاتے ہیں اور اسے اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ اب وہ جانے اور اس کا کام اور اس کی ملاقات سے ہمیشہ کیلئے منہ موڑ لیتے ہیں۔

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ الْکِتَابُ اَجَلَهٗ، وَ الْاَمْرُ مَقَادِیْرَهٗ، وَ اُلْحِقَ اٰخِرُ الْخَلْقِ بِاَوَّلِهٖ، وَ جَآءَ مِنْ اَمْرِ اللهِ مَا یُرِیْدُهٗ مِنْ تَجْدِیْدِ خَلْقِهٖ، اَمَادَ السَّمَآءَ وَ فَطَرَهَا، وَ اَرَجَّ الْاَرْضَ وَ اَرْجَفَهَا، وَ قَلَعَ جِبَالَهَا وَ نَسَفَهَا، وَ دَکَّ بَعْضُهَا بَعْضًا مِّنْ هَیْبَةِ جَلَالَتِهٖ وَ مَخُوْفِ سَطْوَتِهٖ، وَ اَخْرَجَ مَنْ فِیْهَا، فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ اِخْلَاقِهِمْ، وَ جَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ.

یہاں تک کہ نوشتہ (تقدیر) اپنی میعاد کو اور حکمِ الٰہی اپنی مقررہ حد کو پہنچ جائے گا اور پچھلوں کو اَگلوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا اور فرمان قضا پھر سرے سے پیدا کرنے کا ارادہ لیکر آئے گا تو وہ آسمانوں کو جنبش میں لائے گا اور انہیں پھاڑ دے گا اور زمین کو ہلا ڈالے گا اور اس کی بنیادیں کھوکھلی کر دے گا اور پہاڑوں کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ دے گا اور وہ اس کے جلال کی ہیبت اور قہر و غلبہ کی دہشت سے آپس میں ٹکرانے لگیں گے۔ وہ زمین کے اندر سے سب کو نکالے گا اور انہیں سڑ گل جانے کے بعد پھر از سر نو تر و تازہ کرے گا اور متفرق و پراگندہ ہونے کے بعد پھر یکجا کر دے گا۔

ثُمَّ مَیَّزَهُمْ لِمَا یُرِیْدُ مِنْ مَّسْئَلَتِهِمْ عَنْ خَفَایَا الْاَعْمَالِ وَ خَبَایَا الْاَفْعَالِ، وَ جَعَلَهُمْ فَرِیْقَیْنِ: اَنْعَمَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ وَ انْتَقَمَ مِنْ هٰٓؤُلَآءِ. فَاَمَّا اَهْلُ الطَّاعَةِ فَاَثَابَهُمْ بِجِوَارِهٖ، وَ خَلَّدَهُمْ فِیْ دَارِهٖ، حَیْثُ لَا یَظْعَنُ النُّزَّالُ، وَ لَا تَتَغَیَّرُ بِهِمُ الْحَالُ، وَ لَا تَنُوْبُهُمُ الْاَفْزَاعُ، وَ لَا تَنَالُهُمُ الْاَسْقَامُ، وَ لَا تَعْرِضُ لَهُمُ الْاَخْطَارُ، وَ لَا تُشْخِصُهُمُ الْاَسْفَارُ.

پھر ان کے چھپے ہوئے اعمال اور پوشیدہ کار گزاریوں کے متعلق پوچھ گچھ کرنے کیلئے انہیں جدا جدا کرے گا اور انہیں دو حصوں میں بانٹ دے گا۔ ایک کو وہ انعام و اکرام دے گا اور ایک سے انتقام لے گا۔ جو فرمانبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اس کے جوارِ رحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کیلئے ٹھہرا دے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اور نہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اور نہ انہیں سفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لئے پھرتے ہیں۔

وَ اَمَّا اَهْلُ الْمَعْصِیَةِ فَاَنْزَلَهُمْ شَرَّ دَارٍ، وَ غَلَّ الْاَیْدِیَ اِلَی الْاَعْنَاقِ، وَ قَرَنَ النَّوَاصِیَ بِالْاَقْدَامِ، وَ اَلْبَسَهُمْ سَرَابِیْلَ الْقَطِرَانِ، وَ مُقَطَّعَاتِ النِّیْرَانِ، فِیْ عَذَابٍ قَدِ اشْتَدَّ حَرُّهٗ، وَ بَابٍ قَدْ اُطْبِقَ عَلٰۤی اَهْلِهٖ، فِیْ نَارٍ لَّهَا کَلَبٌ وَّ لَجَبٌ، وَ لَهَبٌ سَاطِعٌ، وَ قَصِیْفٌ هَآئِلٌ، لَا یَظْعَنُ مُقِیْمُهَا، وَ لَا یُفَادٰۤی اَسِیْرُهَا، وَ لَا تُفْصَمُ کُبُوْلُهَا. لَا مُدَّةَ لِلدَّارِ فَتَفْنٰی، وَ لَا اَجَلَ لِلْقَوْمِ فَیُقْضٰی.

اور جو نافرمان ہوں گے انہیں ایک برے گھر میں پھینکے گا اور ان کے ہاتھ گردن سے (کس کر) باندھ دے گا اور ان کی پیشانیوں پر لٹکنے والے بالوں کو قدموں سے جکڑ دے گا اور انہیں تارکول کی قمیضیں اور آگ سے قطع کئے ہوئے کپڑے پہنائے گا (یعنی ان پر تیل چھڑک کر آگ میں جھونک دے گا)۔ وہ ایسے عذاب میں ہوں گے کہ جس کی تپش بڑی سخت ہو گی اور (ایسی جگہ میں ہوں گے کہ جہاں) ان پر دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور ایسی آگ میں ہوں گے کہ جس میں تیز شرارے، بھڑکنے کی آوازیں، اٹھتی ہوئی لپٹیں اور ہولناک چیخیں ہوں گی۔ اس میں ٹھہرنے والا نکل نہ سکے گا اور نہ ہی اس کے قیدیوں کو فدیہ دیکر چھڑا یا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی بیڑیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ اس گھر کی کوئی مدّت مقرر نہیں کہ اس کے بعد مٹ مٹاجائے، نہ رہنے والوں کیلئے کوئی مقررہ میعاد ہے کہ وہ پوری ہو جائے (تو پھر چھوڑ دیئے جائیں)۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ ﷺ]

[اسی خطبہ کا یہ جز نبی ﷺ کے متعلق ہے]

قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیَا وَ صَغَّرَهَا، وَ اَهْوَنَ بِهَا وَ هَوَّنَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ زَوَاهَا عَنْهُ اخْتِیَارًا، وَ بَسَطَهَا لِغَیْرِهِ احْتِقَارًا، فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا عَنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِکَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، اَوْ یَرْجُوَ فِیْهَا مُقَامًا. بَلَّغَ عَنْ رَّبِّهٖ مُعْذِرًا، وَ نَصَحَ لِاُمَّتِهٖ مُنْذِرًا، وَ دَعَاۤ اِلَی الْجَنَّةِ مُبَشِّرًا.

انہوں نے (اس) دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور جانتے تھے کہ اللہ نے ان کی شان کو بالاتر سمجھتے ہوئے دنیا کا رخ ان سے موڑا ہے اور اسے گھٹیا سمجھتے ہوئے دوسروں کیلئے اس کا دامن پھیلا دیا ہے، لہٰذا آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا اور اس کی یاد اپنے نفس سے مٹا ڈالی اور یہ چاهتے رہے کہ اس کی سج دھج ان کی نظروں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اس میں قیام کی آس لگائیں۔ انہوں نے عذر تمام کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور ڈراتے ہوئے اُمت کو پند و نصیحت کی اور خوشخبری سناتے ہوئے جنت کی طرف دعوت دی۔

نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ، وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ، وَ مُخْتَلَفُ الْمَلٰٓئِکَةِ، وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، وَ یَنَابِیْعُ الْحِکَمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا یَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ، وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا یَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.

ہم نبوت کا شجرہ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن اور حکمت کا سر چشمہ ہیں۔ ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کیلئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر (الٰہی) کا منتظر رہنا چاہیے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:41
عون نقوی