فَاعِلُ الْخَیْرِ خَیْرٌ مِنْهُ وَ فَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْهُ.
نیک کام کرنے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کرنے والا خود اس برائی سے بدتر ہے۔
ترجمہ:
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۶۳۔
فَاعِلُ الْخَیْرِ خَیْرٌ مِنْهُ وَ فَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْهُ.
نیک کام کرنے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کرنے والا خود اس برائی سے بدتر ہے۔
ترجمہ:
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۶۳۔
صَدرُ العَاقِلِ صُندُوقُ سِرّهِ وَ البَشَاشَهُ حِبَالَهُ المَوَدّهِ وَ الِاحتِمَالُ قَبرُ العُیُوبِ.
عقل مند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے، اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے، اور تحمل و بردباری عیبوں کا مدفن ہے۔
مَنْ رَضِیَ عَنْ نَفْسِهِ کَثُرَ السَّاخِطُ عَلَیْهِ وَ الصَّدَقَهُ دَوَاءٌ مُنْجِحٌ وَ أَعْمَالُ الْعِبَادِ فِی عَاجِلِهِمْ نُصْبُ أَعْیُنِهِمْ فِی آجَالِهِمْ.
جو شخص اپنے آپ کو بہت پسند کرتا ہے، وہ دوسروں کو ناپسند ہو جاتا ہے، اور صدقہ کامیاب دوا ہے، اور دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔
ترجمہ:
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، نہج البلاغہ اردو، ص۳۵۸۔
وَ قَد أَمّرتُ عَلَیکُمَا وَ عَلَی مَن فِی حَیّزِکُمَا مَالِکَ بنَ الحَارِثِ الأَشتَرَ فَاسمَعَا لَهُ وَ أَطِیعَا وَ اجعَلَاهُ دِرعاً وَ مِجَنّاً فَإِنّهُ مِمَّنْ لاَ یُخَافُ وَهْنُهُ وَ لاَ سَقْطَتُهُ وَ لاَ بُطْؤُهُ عَمَّا الْإِسْرَاعُ إِلَیْهِ أَحْزَمُ وَ لاَ إِسْرَاعُهُ إِلَی مَا الْبُطْءُ عَنْهُ أَمْثَلُ.
میں نے مالک ابن حارث اشتر کو تم پر اور تمہارے ماتحت لشکر پر امیر مقرر کیا ہے۔ لہذا ان کے فرمان کی پیروی کرو اور انہیں اپنے لیے زرہ اور ڈھال سمجھو، کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے کمزوری و لغزش کا اور جہاں جلدی کرنا تقاضاۓ ہوشمندی ہو وہاں سستی کا اور جہاں ڈھیل کرنا مناسب ہو وہاں جلد بازی کا اندیشہ نہیں ہے۔
ترجمہ:
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۲۸۴۔
أَمَّا بَعْدُ فَإِذَا أَتَاکَ کِتَابِی فَاحْمِلْ مُعَاوِیَهَ عَلَی الْفَصْلِ وَ خُذْهُ بِالْأَمْرِ الْجَزْمِ ثُمَّ خَیِّرْهُ بَیْنَ حَرْبٍ مُجْلِیَهٍ أَوْ سِلْمٍ مُخْزِیَهٍ فَإِنِ اخْتَارَ الْحَرْبَ فَانْبِذْ إِلَیْهِ وَ إِنِ اخْتَارَ السِّلْمَ فَخُذْ بَیْعَتَهُ وَ السَّلاَمُ.
میرا خط ملتے ہی معاویہ کو دو ٹوک فیصلے پر آمادہ کرو اور اسے کسی آخری اور قطعی راۓ کا پابند بناؤ اور دو باتوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کر دو، کہ گھر سے بے گھر کر دینے والی جنگ، یا رسوا کرنے والی صلح۔ اگر وہ جنگ کو اختیار کرے تو تمام تعلقات اور گفت و شنید ختم کر دو اور اگر صلح چاہے تو اس سے بیعت لے لو۔ والسلام
ترجمہ:
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۲۸۰۔
تَزُولُ الْجِبَالُ وَ لاَ تَزُلْ عَضَّ عَلَی نَاجِذِکَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَکَ تِدْ فِی الْأَرْضِ قَدَمَکَ ارْمِ بِبَصَرِکَ أَقْصَی الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَکَ وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ.
پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کو عاریت دیے دینا۔ اپنے قدم زمین میں گاڑھ دینا۔ لشکر کی آخری صفوں پر اپنی نظر رکھنا اور (دشمن کی کثرت و طاقت سے) آنکھوں کو بند کر لینا اور یقین رکھنا کہ مدد خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔
ترجمہ:
مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۲۔