بصیرت اخبار

۱۲۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ اردو» ثبت شده است

(۱۳۸)

مَنْ اَیْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِیَّةِ.

جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔

(۱۳۹)

تَنْزِلُ الْمَعُوْنَةُ عَلٰى قَدْرِ الْمَؤٗنَةِ.

جتنا خرچ ہو اتنی ہی امداد ملتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 15:28
عون نقوی

(۱۳۶)

اَلصَّلٰوةُ قُرْبَانُ کُلِّ تَقِیٍّ، وَ الْحَجُّ جِهَادُ کُلِّ ضَعِیْفٍ، وَ لِکُلِّ شَیْءٍ زَکٰوةٌ، و َزَکٰوةُ الْبَدَنِ الصِّیَامُ، وَ جِهَادُ الْمَرْاَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ.

نماز ہر پرہیز گار کیلئے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعیف و ناتواں کا جہاد ہے۔ ہر چیز کی زکوٰة ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے اور عورت کا جہاد شوہر سے حسن معاشرت ہے۔

 

(۱۳۷)

اِسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ.

صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 15:25
عون نقوی

(۱۳۴)

لَا یَکُوْنُ الصَّدِیْقُ صَدِیْقًا حَتّٰى یَحْفَظَ اَخَاهُ فِیْ ثَلَاثٍ: فِیْ نَکْبَتِهٖ، وَ غَیْبَتِهٖ، وَ وَفَاتِهٖ.

دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے: مصیبت کے موقع پر، اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد۔

(۱۳۵)

مَنْ اُعْطِیَ اَرْبَعًا لَّمْ یُحْرَمْ اَرْبَعًا: مَنْ اُعْطِیَ الدُّعَآءَ لَمْ یُحْرَمِ الْاِجَابَةَ، وَ مَنْ اُعْطِیَ التَّوْبَةَ لَمْ یُحْرَمِ الْقَبُوْلَ، وَ مَنْ اُعْطِیَ الْاِسْتِغْفَارَ لَمْ یُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ، وَ مَنْ اُعْطِیَ الشُّکْرَ لَمْ یُحْرَمِ الزِّیَادَةَ.

جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا: جو دُعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا، جسے توبہ کی توفیق ہو وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا، جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا، اور جو شکر کرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا۔

وَ تَصْدِیْقُ ذٰلِکَ فِیْ کتَابِ اللهِ، قَالَ اللهُ فِی الدُّعَآءِ: ﴿ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ ﴾، وَ قَالَ فِی الْاِسْتِغْفَارِ: ﴿وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝﴾، وَ قَالَ فِی الشُّکْرِ: ﴿لَىِٕنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ﴾، وَ قَالَ فِی التَّوْبَةِ: ﴿اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۝﴾.

اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے: چنانچہ دُعا کے متعلق ارشاد الٰہی ہے: ’’تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا‘‘۔ اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: ’’جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دُعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا‘‘۔ اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے: ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں) اضافہ کروں گا‘‘۔ اور توبہ کیلئے فرمایا ہے: ’’اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بنا پر کوئی بری حرکت کر بیٹھیں، پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 15:23
عون نقوی

(۱۳۲)

اِنَّ لِلّٰهِ مَلَکًا یُّنَادِیْ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ: لِدُوْا لِلْمَوْتِ، وَ اجْمَعُوْا لِلْفَنَآءِ، وَ ابْنُوْا لِلْخَرَابِ.

اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ: موت کیلئے اولاد پیدا کرو، برباد ہونے کیلئے جمع کرو اور تباہ ہونے کیلئے عمارتیں کھڑی کرو۔

(۱۳۳)

اَلدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ اِلٰى دَارِ مَقَرٍّ، وَ النَّاسُ فِیْهَا رَجُلَانِ: رَجُلٌۢ بَاعَ فِیْھَا نَفْسَهٗ فَاَوْبَقَهَا، وَ رَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهٗ فَاَعْتَقَهَا.

’’دنیا‘‘ اصل منزل قرار کیلئے ایک گزرگاہ ہے۔ اس میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خرید کر آزاد کر دیا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 15:20
عون نقوی

(۱۳۰)

وَ قَدْ رَجَعَ مِنْ صِفِّیْنَ، فَاَشْرَفَ عَلَى الْقُبُوْرِ بِظَاهِرِ الْکُوْفَةِ:

صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:

یَاۤ اَهْلَ الدِّیَارِ الْمُوْحِشَةِ، وَ الْـمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ، وَ الْقُبُوْرِ الْمُظْلِمَةِ. یَاۤ اَهْلَ التُّرْبَةِ، یَاۤ اَهْلَ الْغُرْبَةِ، یَاۤ اَهْلَ الْوَحْدَةِ، یَاۤ اَهْلَ الْوَحْشَةِ، اَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ، وَ نَحْنُ لَکُمْ تَبَعٌ لَّاحِقٌ. اَمَّا الدُّوْرُ فَقَدْ سُکِنَتْ، وَ اَمَّا الْاَزْوَاجُ فَقَدْ نُکِحَتْ، وَ اَمَّا الْاَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ. هٰذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا، فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَکُمْ؟.

اے وحشت افزا گھروں، اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو! اے خاک نشینو! اے عالم غربت کے ساکنو! اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو! تم تیز رَو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں، بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لئے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے۔ یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے، اب تم کہو کہ تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے؟

ثُمَّ الْتَفَتَ اِلٰۤى اَصْحَابِهٖ فَقَالَ:

پھر حضرتؑ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

اَمَا لَوْ اُذِنَ لَهُمْ فِی الْکَلَامِ لَاَخْبَرُوْکُمْ: اَنَّ ﴿خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى﴾.

اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ: ’’بہترین زاد راہ تقویٰ ہے‘‘۔

(۱۳۱)

وَ قَدْ سَمِعَ رَجُلًا یَّذُمُّ الدُّنْیَا:

ایک شخص کو دنیا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمایا:

اَیُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْیَا، الْمُغْتَرُّ بِغُرُرِهَا، الْـمَخْدُوْعُ بِاَبَاطِیْلِهَا! اَتَغْتَرُّ بِالدُّنْیَا ثُمَّ تَذُمُّهَا. اَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَیْهَا، اَمْ هِیَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَیْکَ؟ مَتَى اسْتَهْوَتْکَ؟ اَمْ مَتٰى غَرَّتْکَ؟ اَ بِمَصَارِعِ اٰبَآئِکَ مِنَ الْبِلٰى؟ اَمْ بِمَضَاجِعِ اُمَّهَاتِکَ تَحْتَ الثَّرٰى؟ کَمْ عَلَّلْتَ بِکَفَّیْکَ؟ وَ کَمْ مَرَّضْتَ بِیَدَیْکَ؟ تَبْغِیْ لَهُمُ الشِّفَآءَ، وَ تَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الْاَطِبَّآءَ، غَدَاةَ لَا یُغْنِیْ عَنْهُمْ دَوَآؤُکَ، وَ لَا یُجْدِیْ عَلَیْهِمْ بُکَـآؤُکَ، لَمْ یَنْفَعْ اَحَدَهُمْ اِشْفَاقُکَ، وَ لَمْ تُسْعَفْ بِطِلْبَتِکَ، وَ لَمْ تَدْفَعْ عَنْهُ بِقُوَّتِکَ!، وَ قَدْ مَثَّلَتْ لَکَ بِهِ الدُّنْیَا نَفْسَکَ، وَ بِمَصْرَعِهٖ مَصْرَعَکَ.

اے دنیا کی برائی کرنے والے! اس کے فریب میں مبتلا ہونے والے! اور اس کی غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے! تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو۔ کیا تم دنیا کو مجرم ٹھہرانے کا حق رکھتے ہو؟یا وہ تمہیں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے؟دنیا نے کب تمہارے ہوش و حواس سلب کئے اور کس بات سے فریب دیا؟ کیا ہلاکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گرنے سے یا مٹی کے نیچے تمہاری ماؤں کی خوابگاہوں سے؟ کتنی تم نے بیماروں کی دیکھ بھال کی اور کتنی دفعہ خود تیمار داری کی، تم ان کیلئے شفا کے خواہشمند تھے اور طبیبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے۔ اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی اور نہ تمہارا رونا دھونا ان کیلئے کچھ مفید تھا۔ ان میں سے کسی ایک کیلئے بھی تمہارا اندیشہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا مقصد حاصل نہ ہوا اور اپنی چارہ سازی سے تم موت کو اس بیمار سے ہٹا نہ سکے، تو دنیا نے تو اس کے پردہ میں خود تمہارا انجام اور اس کے ہلاک ہونے سے خود تمہاری ہلاکت کا نقشہ تمہیں دکھا دیا۔

اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ صِدْقٍ لِّمَنْ صَدَقَهَا، وَ دَارُ عَافِیَةٍ لِّمَنْ فَهِمَ عَنْهَا، وَ دَارُ غِنًى لِّمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا، وَ دَارُ مَوْعِظَةٍ لِّمَنِ اتَّعَظَ بِهَا، مَسْجِدُ اَحِبَّآءِ اللهِ، وَ مُصَلّٰى مَلٰٓئِکَةِ اللهِ، وَ مَهْبِطُ وَحْیِ اللهِ، وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَآءِ اللهِ، اکْتَسَبُوْا فِیْهَا الرَّحْمَةَ، وَ رَبِحُوْا فِیْهَا الْجَنَّةَ.

بلاشبہ دنیا اس شخص کیلئے جو باور کرے سچائی کا گھر ہے، اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کیلئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور جو اس سے زادِ راہ حاصل کر لے اس کیلئے دولتمندی کی منزل ہے، اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کیلئے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستانِ خدا کیلئے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کیلئے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔ انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا۔

فَمَنْ ذَا یَذُمُّهَا وَ قَدْ اٰذَنَتْ بِبَیْنِهَا، وَ نَادَتْ بِفِراقِهَا، وَ نَعَتْ نَفْسَهَا وَ اَهْلَهَا، فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَآئِهَا الْبَلَآءَ، وَ شَوَّقَتْهُمْ بِسُرُوْرِهَا اِلَى السُّرُوْرِ؟! رَاحَتْ بِعَافِیَةٍ، وَ ابْتَکَرَتْ بِفَجِیْعَةٍ، تَرْغِیْبًا وَّ تَرْهِیْبًا، وَ تَخْوِیْفًا وَّ تَحْذِیْرًا، فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ، وَ حَمِدَهَا اٰخَرُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ، ذَکَّرَتْهُمُ الدُّنْیَا فَتَذَکَّرُوْا، وَ حَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوْا، وَ وَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوْا.

تو اب کون ہے جو دنیا کی برائی کرے، جبکہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطلاع دے دی ہے، اور اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے، اور اپنے بسنے والوں کی موت کی خبر دے دی ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی ابتلا سے ابتلا کا پتہ دیا ہے، اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتوں کا شوق دلایا ہے۔ وہ رغبت دلانے اور ڈرانے، خوفزدہ کرنے اور متنبہ کرنے کیلئے شام کو امن و عافیت کا اور صبح کو درد و اندوہ کا پیغام لے کر آتی ہے۔ تو جن لوگوں نے شرمسار ہو کر صبح کی وہ اس کی برائی کرنے لگے اور دوسرے لوگ قیامت کے دن اس کی تعریف کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کی یاد دلائی تو انہوں نے یاد رکھا اور اس نے انہیں خبر دی تو انہوں نے تصدیق کی اور اس نے انہیں پند و نصیحت کی تو انہوں نے نصیحت حاصل کی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 15:14
عون نقوی