بصیرت اخبار

۱۲۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ اردو» ثبت شده است

وَ قَدْ سَمِعَ قَوْمًا مِّنْ اَصْحَابِہٖ یَسُبُّوْنَ اَھْلَ الشَّامِ اَیَّامَ حَرْبِھِمْ بِصِفِّیْنَ:

آپؐ نے جنگ صفین کے موقع پر اپنے ساتھیوں میں سے چند آدمیوں کو سنا کہ وہ شامیوں پر سب و شتم کر رہے ہیں تو آپؑ نے فرمایا:

اِنِّیْۤ اَکْرَهُ لَکُمْ اَنْ تَکُوْنُوْا سَبَّابِیْنَ، وَ لٰکِنَّکُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ اَعْمَالَهُمْ، وَ ذَکَرْتُمْ حَالَهُمْ، کَانَ اَصْوَبَ فِی الْقَوْلِ، وَ اَبْلَغَ فِی الْعُذْرِ، وَ قُلْتُمْ مَکَانَ سَبِّکُمْ اِیَّاهُمْ: اَللّٰهُمَّ احْقِنْ دِمَآءَنَا وَ دِمَآءَهُمْ، وَ اَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَ بَیْنِهِمْ، وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ، حَتّٰی یَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهٗ، وَ یَرْعَوِیَ عَنِ الْغَیِّ وَ الْعُدْوَانِ مَنْ لَّهِجَ بِهٖ.

میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو۔ اگر تم ان کے کرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدایا! ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لا، تاکہ حق سے بے خبر حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 11:40
عون نقوی

(۱۲۸)

تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِیْۤ اَوَّلِهٖ، وَ تَلَقَّوْهُ فِیْۤ اٰخِرِهٖ، فَاِنَّهٗ یَفْعَلُ فِی الْاَبْدَانِ کَفِعْلِهٖ فِی الْاَشْجَارِ، اَوَّلُهٗ یُحْرِقُ وَ اٰخِرُهٗ یُوْرِقُ.

شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کا خیر مقدم کرو، کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے جو وہ درختوں میں کرتی ہے کہ ابتدا میں درختوں کو جھلس دیتی ہے اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے۔


موسم خزاں میں سردی سے بچاؤ اس لئے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہو جاتا ہے اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ بدن گرمی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ ناگاہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑ جاتے ہیں اور مزاج میں برودت و یبوست بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لئے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سرد پانی کے اثرات کو فوراً قبول کر لیتے ہیں اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے۔

البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، کیونکہ بدن پہلے ہی سے سردی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، اس لئے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثر نہیں ڈالتی، بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے، جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے، حرارت غریزی ابھرتی ہے اور جسم میں نمو، طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔

اسی طرح عالم نباتات پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے۔ چنانچہ موسم خزاں میں برودت و یبوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں، روح نباتی افسردہ ہو جاتی ہے، چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور موسم بہار اِن کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے اور بار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہو جاتے ہیں۔

(۱۲۹)

عِظَمُ الْخَالِقِ عِنْدَکَ یُصَغِّرُ الْـمَخْلُوْقَ فِیْ عَیْنِکَ.

اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کر دے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 January 23 ، 18:47
عون نقوی

(۱۲۶)

عَجِبْتُ لِلْبَخِیْلِ یَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِیْ مِنْهُ هَرَبَ، وَ یَفُوْتُهُ الْغِنَى الَّذِىْ اِیَّاهُ طَلَبَ، فَیَعِیْشُ فِی الدُّنْیَا عَیْشَ الْفُقَرَآءِ، وَ یُحَاسَبُ فِی الْاٰخِرَةِ حِسَابَ الْاَغْنِیَآءِ.

مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوشحالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اور آخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہو گا۔

وَ عَجِبْتُ لِلْمُتَکَبِّرِ الَّذِیْ کَانَ بِالْاَمْسِ نُطْفَةً وَّ یَکُوْنُ غَدًا جِیْفَةً.

اور مجھے تعجب ہوتا ہے متکبر و مغرور پر کہ جو کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہو گا۔

وَ عَجِبْتُ لِمَنْ شَکَّ فِی اللهِ، وَ هُوَ یَرٰى خَلْقَ اللهِ.

اور مجھے تعجب ہے اس پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے اور پھر اس کے وجود میں شک کرتا ہے۔

وَ عَجِبْتُ لِمَنْ نَسِیَ الْمَوْتَ، وَ هُوَ یَرَى الْمَوْتٰى.

اور تعجب ہے اس پر کہ جو مرنے والوں کو دیکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے۔

وَ عَجِبْتُ لِمَن اَنْکَرَ النَّشْاَةَ الْاُخْرٰى، وَ هُوَ یَرَى النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى.

اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پیدائش کو دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرتا ہے۔

وَ عَجِبْتُ لِعَامِرِ دَارِ الْفَنَآءِ، وَ تَارِکِ دَارِ الْبَقَآءِ!.

اور تعجب ہے اس پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے اور منزل جاودانی کو چھوڑ دیتا ہے۔

(۱۲۷)

مَنْ قَصَّرَ فِی الْعَمَلِ ابْتُلِیَ بِالْهَمِّ، وَ لَا حَاجَةَ لِلّٰهِ فِیْمَنْ لَیْسَ لِلّٰهِ فِیْ مَالِہٖ وَ نَفْسِہٖ نَصِیْبٌ.

جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے، اور جس کے مال و جان میں اللہ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 January 23 ، 18:44
عون نقوی

(۱۲۴)

غَیْرَةُ الْمَرْاَةِ کُفْرٌ، وَ غَیْرَةُ الرَّجُلِ اِیْمَانٌ.

عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے۔


مطلب یہ ہے کہ جب مرد کو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کرنا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہم پایہ ہے، اور چونکہ عورت کیلئے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے۔

مرد و عورت میں یہ تفریق اس لئے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجۂ اَتم حاصل ہو سکتا ہے جب مرد کیلئے تعدد اَزواج کی اجازت ہو، کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہو سکتی ہیں اور عورت اس سے معذور و قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کر سکے۔ کیونکہ زمانۂ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگر متعدد ازواج ہوں گی تو سلسلۂ تولید جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا، کیونکہ مرد کیلئے ایسے موانع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلۂ تولید میں روک بن سکیں۔

اس لئے خدا وند عالم نے مردوں کیلئے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے اور عورتوں کیلئے یہ صورت جائز نہیں رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں۔ کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہو سکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے۔

چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کر سکتی؟

حضرتؑ نے فرمایا کہ: مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کرے گا تو اولاد بہر صورت اسی کی طرف منسوب ہو گی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ کون کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہو سکے گی اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا۔ کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہو گا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔

(۱۲۵)

لَاَنْسُبَنَّ الْاِسْلَامَ نِسْبَةً لَّمْ یَنْسُبْهَا اَحَدٌ قَبْلِیْ: الْاِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِیْمُ، وَ التَّسْلِیْمُ هُوَ الْیَقِیْنُ، وَ الْیَقِیْنُ هُوَ التَّصْدِیْقُ، وَ التَّصْدِیْقُ هُوَ الْاِقْرَارُ، وَ الْاِقْرَارُ هُوَ الْاَدَآءُ، وَ الْاَدَآءُ هَوَ الْعَمَلُ.

میں ’’اسلام‘‘ کی ایسی صحیح تعریف بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی: ’’اسلام‘‘ سر تسلیم خم کرنا ہے، اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے، اور یقین تصدیق ہے، اور تصدیق اعتراف ہے، اور اعتراف فرض کی بجا آوری ہے اور فرض کی بجا آوری عمل ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:12
عون نقوی

(۱۲۲)

وَ تَبِعَ جَنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا یَّضْحَکُ، فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ ایک جنازہ کے پیچھے جار ہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپؑ نے فرمایا:

کَاَنَّ الْمَوْتَ فِیْهَا عَلٰى غَیْرِنَا کُتِبَ، وَ کَاَنَّ الْحَقَّ فِیْهَا عَلٰى غَیْرِنَا وَجَبَ، وَ کَاَنَّ الَّذِیْ نَرٰى مِنَ الْاَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِیْلٍ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ، نُبَوِّئُهُمْ اَجْدَاثَهُمْ، وَ نَاْکُلُ تُرَاثَهُمْ، کَاَنَّا مُخَلَّدُوْنَ بَعْدَھُمْ، ثُمَّ قَدْ نَسِیْنَا کُلَّ وَاعِظٍ وَ وَاعِظَةٍ، وَ رُمِیْنَا بِکُلِّ جَآئِحَةٍ!.

گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کیلئے لکھی گئی ہے، اور گویا یہ حق (موت) دوسروں ہی پر لازم ہے، اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں۔ گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ پھر یہ کہ ہم نے ہر پند و نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عورت، بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱۲۳)

طُوْبٰى لِمَنْ ذَلَّ فِیْ نَفْسِهٖ، وَ طَابَ کَسْبُهٗ، وَ صَلُحَتْ سَرِیْرَتُهٗ، وَ حَسُنَتْ خَلِیْقَتُهٗ،وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِهٖ، وَ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِهٖ، وَ عَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهٗ، وَ وَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَ لَمْ یُنْسَبْ اِلَى الْبِدْعَةِ.

خوشا نصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی، جس کی کمائی پاک و پاکیزہ، نیت نیک اور خصلت و عادت پسندیدہ رہی، جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں صرف کیا، بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا، مردم آزاری سے کنارہ کش رہا، سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا۔

اَقُوْلُ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّنْسُبُ هٰذَا الْکَلَامِ اِلٰى رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَکَذٰلِکَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: کچھ لوگوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:09
عون نقوی