بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «فلسطین» ثبت شده است

آزادی کا ڈھونگ رچانے والے

اب تک ہم نے اسلام کے انسان کی اندرونی، بیرونی، انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بارے نظریات کو جانا۔ اب دیکھتے ہیں ان افراد کی تاریخ اور وہ سیاہ کارنامے کہ جو اب دعوے دار ہیں کہ اسلام، آزادی اور حقوقِ بشر کے متضاد نظریات رکھتا ہے، جبکہ ہم آزادی اور حقوق بشر کے علمبردار ہیں۔ عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو آزادی کے متضاد سمجھتے ہیں، انہوں نے ’’ماڈرن غلامی‘‘ کو اجراء کیا ہے۔ ماڈرن غلامی کیسے بھلا؟ یعنی ماضی کی طرح لوگوں کو غلام بنانا لیکن اور طریقے سے، جنگ عظیم دوم میں جب یورپ بھرپور ترقی کر چکا تھا اور غلامی کو لغو کرنے کا دعوے دار تھا، اسی یورپ نے کئی ملین افراد کو آوارہ کیا، لاکھوں لوگوں کو اسیر کیا، غلامی سے بدتر افراد کو برباد اور آوارہ کیا۔ نمونے کے طور پر ’’الجزائر‘‘ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کو فرانس نے بدترین شکل میں تباہ و برباد کیا اور اس ملک کو اپںا مستعمرہ قرار دیتے ہوۓ ظلم ڈھاۓ۔ کیا یہ غلامی نہیں؟ کیا لوگوں کو قتل و غارت کی بھینٹ چڑھانا، اسارت میں لینا، ان کے اموال کو غارت کرنا اور ان کے غنائم کو چرا کر لے جانا آزادی ہے؟ یہ کسی کو غلام بنانا نہیں تو اور کیا ہے؟ جنگ عظیم میں بہت سے ملکوں کو لوٹا اور حقیقت میں ان کو اپںا غلام بنایا گیا۔ ممالک سے ان کا استقلال چھینا ان کی آزادی چھینی اور بری طرح سے استعمار کیا۔

ایران میں استعماریت

خود ایران میں جنگ عظیم ثانی کے بعد شاہِ ایران رضا خان کو انہوں نے ہٹا کر اس کے بیٹے کو بٹھایا، اور اس کے ذریعے بدترین طریقے سے ایرانی قوم کو لوٹا اور ان کے مال و متاع پر شب خون مارا۔ یہ شاہ ایک کٹھ پتلی کی طرح ان کے انگلیوں کے اشاروں پر ناچتا۔ یہ استعماری طاقتیں ایران میں دلسوزی کے عنوان سے آئیں، شمالِ ایران پر سوویت یونین قابض ہو گئی اور مغرب اور جنوب میں امریکی اور برطانوی۔ دوستی اور صلح کے عنوان سے ملک میں داخل ہوۓ اور کہا کہ شاہ کے جانے کے بعد ملک میں امنیت کو بحال کرنے کے لیے ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے آۓ ہیں لیکن بدترین طریقے سے ایران کو غارت کیا۔ ایرانی عوام کے اندر اسلامی فرہنگ، اسلامی آداب و رسوم، کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور معدنیات کو بھی بری طرح سے لوٹا۔ ایران کا شمال کہ جہاں پر سوویت یونین کے کمانڈوز مستقر تھے، کسی تہران کے باشندے کا اس علاقے میں جانا اتنا سخت کر دیا گیا کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی اور ملک میں داخل ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ اس نالائق اور کٹھ پتلی شاہ کو ایک دن انہوں نے کہا کہ ایران کے سترہ شہروں کو ہمارے حوالے کر دیں اور اس نالائق نے یہ سترہ شہر پلیٹ میں ڈال کر ان کے آگے رکھ دیے۔ کیا یہ غلامی نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ آپ لوگ جو آزادی اور حقوق بشر کا شعار دے کر قوموں کو لوٹتے ہو کیا یہ بھی آزادی کا حصہ ہے یا غلامی ہے جس کا اسلام کو طعنہ دیا جاتا ہے؟

ممالک کی خودمختاری 

ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک کی بازخواست کیوں کی جاتی ہے؟ اگر ایران کے ساتھ کوئی ملک قراداد باندھتا ہے تو اس کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ اس قرارداد کو ختم کیا جاۓ؟ کیا کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے قرار داد باندھنے میں بھی آپ کا پابند ہے؟ اس کو آزادی کیوں نہیں دی جاتی کہ جس سے تعلق رکھے اور جس سے تعلق نہ رکھے اس سب میں وہ آزاد ہو؟ کیا امریکا کے سب غلام ہیں کہ اس کی بات مانیں؟ کیا یہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے کے مترادف نہیں؟ بے شک اس کو آپ کوئی دوسرا نام دے دو اور اپنے کام کی جس طرح سے بھی دلیل لے آؤ بہرحال یہ کسی بھی ملک کی آزادی اور استقلال کے متضاد ہے۔ اسی بیسویں صدی میں جب مغرب حقوقِ بشر کا جھنڈا اٹھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو آزادی اور ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے مسلمانوں کی سرزمین فسلطین پر غاصب اور صیہونی ریاست اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور پوری دنیا اور آزادی کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے رہے۔ نا صرف فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے استحصال پر خاموش اور تماشائی بنے رہے بلکہ خود آزادی کے دعوے دار امریکا نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اب تک کر رہا ہے۔ ایک ملت کو ان کے گھروں سے آوارہ کر کے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ بے گانوں کو مقیم کر دیا گیا۔ کیا یہ بھی آزادی ہے؟(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۷،۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 January 22 ، 16:45
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ہماری نظر میں ہفتہ وحدت کی بہت اہمیت ہے اور مسلمانوں کا آپس میں اتحاد امت اسلامی کے بہت سے دردوں کی دوا ہے۔ یہ جو کجھ یمن میں ہو رہا ہے جو فاجعہ بار جنگ چھیڑی گئی ہے پانچ سال ہو گئے اور یہ مظلوم ملت کوچہ و بازار، گھروں، ہسپتالوں، سکولوں اور عوامی جگہوں پر بموں سے قتل عام ہو رہی ہے کوئی چھوٹا حادثہ نہیں۔ یہ بہت بڑا حادثہ ہے کہ اس معاملے میں ان سعودیوں نے واقعی طور پر بہت سقاوت قلبی سے کام لیا۔ اسی طرح سے مسئلہ فلسطین ہے کہ جس طرح سے چند ضعیف اور ذلیل ممالک نے منہ پھیر لیا، دنیاء اسلام سے رخ پھیر لیا اور امت اسلامی سے خود کو کاٹ کر جدا کر لیا اور فلسطین کے مسئلے سے خود کو جدا کر لیا، حتی غاصب و قاتل صیہونیوں سے روابط قائم کر لیے۔ بے شک یہ سب مسائل امت اسلامی کی وحدت سے حل ہونے والے ہیں۔ اسلامی ممالک اور مسلمان قومیں بہت سی مصیبتوں میں گرفتار ہیں کشمیر سے لے کر لیبیا اسی طرح سے آپ دیکھتے جائیں ہر جگہ پر مسائل ہیں۔ یہ سب مسائل مسلمانوں کے آپسی اتحاد سے حل ہو جائیں گے۔

متن اصلی

به نظر ما هفته‌ی وحدت خیلی مهم است و اتّحاد مسلمانان درمان بسیاری از دردهای امّت اسلامی است. الان این جنگ فاجعه‌بار یمن که پنج سال است این ملّت مظلوم دارند در کوچه و بازار و خانه و بیمارستان و مدرسه و مجامع مردمی‌شان بمباران میشوند، حادثه‌ی کوچکی نیست، حادثه‌ی بسیار بزرگی است که واقعاً سعودی‌ها قساوت عجیبی را در این قضیّه دارند از خودشان نشان میدهند. یا در مسئله‌ی فلسطین؛ این دهن‌کجی چند دولت ضعیف ذلیل که به دنیای اسلام دهن‌کجی کردند، به امّت اسلامی دهن‌کجی کردند و مسئله‌ی فلسطین را به خیال خودشان نادیده گرفتند و با غاصب، با قاتل ارتباط برقرار کردند؛ بدون تردید همه‌ی اینها با وحدت امّت اسلامی علاج پیدا خواهد کرد و مشکلات دولتهای اسلامی و ملّتهای اسلامی -گرفتاری زیاد است دیگر، از کشمیر تا لیبی، همین طور که نگاه کنید، همه جا گرفتاری هست- این گرفتاری‌ها به برکت اتّحاد مسلمانها برطرف خواهد شد.(۱)


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:45
عون نقوی

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کو بلیک میل کرنا اور پاکستانی مقتدر اداروں کا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو بغیر کسی جرم کے زبردستی لاپتہ کرا دینا، کیا ان کاموں سے پاکستان ترقی کرے گا یا دباؤ کم ہوگا، اپنوں پر ظلم و ستم ڈھا کر کس کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے؟

رہبر معظم امام خامنہ ای فرماتے ہیں: 

یہ لوگ مطالبات پہ مطالبات رکھتے جائیں گے اور حریف کو مطالبات پورا کرنے پر مجبور کرتے جائیں گے جیسے ہى آپ ان کا ایک مطالبہ پورا کریں گے ایک اور مطالبہ سامنے آ جاۓ گا۔ مجھے لوگ کہتے ہیں کہ ایک چیز ہم ان کى مانتے ہیں اور ایک چیز ان سے منوائیں گے،ان لوگوں کى یہ بات تو صحیح ہے کہ ان کى ایک بات مان لیتے ہیں لیکن یہ کہ ان سے بھى ایک چیز منوالیتے ہیں یہ خام خیالى ہے ۔یہ آپ کى ایک بات بھى نہیں مانتے۔ فرض کیا کہ اسرائیل کو رسمى طور پر تسلیم کرلیں تو پھر بھى وہى مطالبات اور دھمکیاں سننے کو ملیں گى مثلا کہیں گے کہ آپ اپنے ملک میں فلاں اسلامى قانون کو لغو کردیں۔ اسى طرح سے آپ کو قدم با قدم اپنى سارى باتوں کو منوانے پر مجبور کردیں گے۔  ان کے مطالبات کى حد معین نہیں ہے اور نہ ہى کوئى ضمانت موجود ہے کہ اگر فلاں مطالبہ ان کا مان لیا جاۓ تو یہ مزید مطالبہ نہیں کریں گے۔ میں نے کئى بار اس موضوع کى طرف اشارہ کیا ہے اور بعض مسوؤلین حکومت سے پوچھا بھى ہے کہ آپ میں سے بعض لوگ جن کو لگتا ہے کہ ان کے بعض مطالبات کو مان کر ہم پابندیوں سے باہر نکل سکتے ہیں، ان مغربیوں کے مطالبات کى حد آخر کیا ہے ؟ بعض مطالبات کو مان لیا تو پھر اگلا مطالبہ !! اور پھر اس کے بعد اگلا اور اسى طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اگر آپ ایٹمى انرجى کے حصول میں ان کے مطالبات کو مان لیں اور اپنا ایٹمى انرجى کا پلانٹ بند کردیں پھر یہ کہیں گے کہ آپ کے پاس اتنے جدید میزائل کیوں ہیں؟ ان میزائل سسٹم کو بند کرو۔ جیسے ہى آپ ان کا میزائل سسٹم کے بند کرنے کا مطالبہ قبول کریں گےتو کہیں گے کہ آپ لوگ ہر جگہ مقاومت کیوں کرتے ہیں اور مقاومت کى تحریکوں کا ساتھ کیوں دیتے ہیں ؟ کیوں لبنان میں حزب  اللہ کا ساتھ دیتے ہو؟ کیوں فلسطین میں حماس کا ساتھ دیتے ہو؟ اگر ان کا یہ تقاضا بھى مان لیا جاۓ اور مظلومین جہان کى نصرت و امداد اور مقاومت سے ہاتھ کھڑا کر لیں تو حقوق بشر کا مسئلہ کھڑا  کردیں گے۔وہ حقوق بشر جو ان کے نزدیک حقوق بشر سمجھے جاتے ہیں نہ وہ حقوق کہ جو اسلام نے بتاۓ ہیں۔ کہیں گے کہ آپ کے ہاں عوام کو حقوق حاصل نہیں ان کو حقوق فراہم کرو اب ان کى حقوق بشر سے کیا مراد ہوتا ہے یہ سب آپ جانتے ہیں۔ بالفرض اگر حقوق بشر کا مطالبہ بھى مان لیں تو کہیں گے کہ تم لوگوں کے ملک میں دین کا دخل زیادہ ہے دین کو ہر ایک کى ذاتى زندگى کے لئے چھوڑ دیں وہ اگر عمل کرنا چاہتا ہے تو کرے لیکن اجتماعى طور پر اسلام و دین کا عمل دخل اپنے معاشروں سے ختم کرو۔

( قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے)

وَلَن تَرْضَىٰ عَنکَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ.
اور آپ سے یہود و نصارى اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔

 

حوالہ:
۱۔ سورة البقرہ ، آیت ۱۲۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:29
عون نقوی