بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

سیاسی افکار

ارسطو کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

 

ارسطو ۳۸۴سال قبل از مسیح یونان کے شہر استاگیرا میں پیدا ہوۓ۔ سترہ سال کی عمر میں افلاطون کی اکیڈمی میں داخل ہوۓ۔ ارسطو کے فلسفہ سیاسی میں افلاطون کے نظریات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ارسطو نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں اخلاق نیکوماخوس (Nicomachean Ethics)، سیاست اور کتاب اصول حکومت آتن فلسفہ سیاسی ارسطو سے مربوط ہیں۔

ارسطو کی نظر میں سیاست

ارسطو کی نظر میں سیاست کی غایت خیر اعلی ہے۔ خیر کی دو اقسام ہیں:
۱۔ خیر براے غیر: یہ خیر خود مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اسے کسی اور خیر کے لیے چاہا جاتا ہے۔
۲۔ خیر براۓ خود: یہ خیر کسی اور خیر کے لیے نہیں بلکہ خود مطلوب ہوتا ہے۔ بلکہ اور خیر بھی اس خیر تک پہنچنے کے لیے انجام دیے جاتے ہیں۔ اسے خیر اعلی بھی کہتے ہیں۔ سیاست کی غایت و ہدف یہی خیر اعلی ہے۔ سیاست تعیین کرتی ہے کہ معاشرے میں کونسے علوم اور ہنر ہوں۔ کس طبقے کو کس حد تک علوم و ہنر سیکھنے چاہئیں یہ بھی سیاست تعیین کرتی ہے۔ اسی طرح سے مملکت کا نظام، دفاع، اقتصاد اور فنون دیگر سب سیاست کے تابع ہیں۔ سیاست اہم ترین و بہترین علم ہے جس کا موضوع خیر اعلی بہترین موضوعات میں سے ہے۔

انواع حکومت

ارسطو نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن اسے صرف ذاتی منفعت چاہیے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک قلیل  گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ صرف اپنی ذاتیات کی منفعت کے لیے کوشاں ہیں۔
ان دو قسموں میں اقلیت کی حکومت ہے۔

۵۔ جمہوری یا پولیٹی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ سب عوام کے منافع کے لیے کوشاں ہیں ۔
۶۔ ڈیموکریسی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور صرف اکثریت کے منفعت کے خواہاں ہیں۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔ جمہوری اور ڈیموکریسی کی حکومت میں فرق یہ ہے  کہ جمہوری حکومت میں اگرچہ اکثریت کی حکومت ہے لیکن وہ اکثریت ملک کی تمام اقلیتوں کا بھی خیال رکھتی ہے اور اس طرز حکومت میں تمام افراد برابر ہیں چاہے وہ اکثریت میں شامل ہوتے ہیں یا اقلیت میں۔ اس کے برعکس جمہوری حکومت صرف اکثریت کے منافع کو دیکھتی ہے اوراقلیت کو نظر انداز کرتی ہے۔[1]


منابع:

1 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۶۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 18:58
عون نقوی

سیاسی افکار

انواع حکومت بر اساس تعداد حاکم

تحریر :عون نقوی
02/11/2023

 

حکومت کے لغوی معنی فرمان جاری کرنے یا حکمرانی کرنے کے ہیں۔ اور اصطلاح میں حکومت سے مراد عمومی طور پر ملکی سیاست کا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ مفکرین سیاسی حکومت کو مختلف جہات سے تقسیم کرتے ہیں۔ ایک تقسیم بر اساس تعداد حاکم ہے۔ اس تقسیم کو سمجھنا سیاسی تجزیہ تحلیل کرنے اور ملک کے سیاسی حالات سمجھنے میں بہت مفید ہے۔ بنیادی طور پر اس تقسیم میں تین صورتیں بنتی ہیں جو اختصار کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔

حکومت فردی

اس طرز حکومت میں ایک شخص حاکم ہوتا ہے۔ حکومت فردی کی دو قسمیں ہیں:
۱۔مونارشی:  اس سے مراد ایک ایسے شخص کی حکومت ہے جو صرف اپنی منفعت کا نہیں سوچتا بلکہ بقول افلاطون اس طرز حکومت میں شخصِ حاکم پیرو قانون ہوتا ہے اور اس کے مدنظر منفعت عمومی ہوتی ہے۔[1]
۲۔تیرانی: اس سے مراد ایک ایسے شخص واحد کی حکمرانی ہے جو ذاتی منفعت پر حکمرانی کرتا ہے۔ حکومت کو چلانے کے لیے خود قانون بناتا ہے۔ یہ طرز حکومت عمومی طور پر موروثی ہوتی ہے۔

حکومت گروہی

بادشاہت کے بعد تاریخ بشریت میں سب سے زیادہ یہ طرز حکومت رائج رہا ہے۔ حتی بادشاہی نظام میں بھی ممکن ہے ظاہر میں ایک شخص حاکم ہو لیکن پیچھے ایک چھوٹا سا طاقتور گروہ ہوتا ہے جو بادشاہت کو چلا رہا ہوتا ہے اور اصل قدرت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس طرز حکومت کو اقلیت کی حکومت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ گروہ اپنی فکری یا طبقاتی برتری کا قائل ہوتا ہے۔ اس حکومت کی تین صورتیں متصور ہیں:
۱۔ارستوکریسی: اس طرز حکومت میں ایک قلیل گروہ ملکی سیاست کی مدیریت کرتا ہے۔ یہ قلیل گروہ اشرافی طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کی انواع حکومت کی طبقہ بندی میں اس طرز حکومت کا ذکر ہے۔ ارسطو اس طرز حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں ایک قلیل گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔[2]
۲۔الیگارشی: یہ طرز حکومت ارستوکریسی کی فاسد شکل ہے۔ حکومت قلیل گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کا مبناء سیاست ثروت ہوتا ہے۔ مغربی ڈیموکریسی پر نقد کرنے والے مفکرین از جملہ جوزف شومپیٹر کا اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈیموکریسی کے نام پر الیگارشک سسٹم ہےجس میں سرمایہ دار گروہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
۳۔حاکمیت نخبگان: علوم سیاسی کے معاصرین گروہی حکومت میں ایک طرز حکومت کا اضافہ کرتے ہیں جس کو حکومت نخبگان کہتے ہیں۔ (Elite Theory) نظریہ نخبگان کے مطابق ہر معاشرے میں فکری، سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر چند شخصیات ابھر آتی ہیں جو سیاسی مقتدرین کے قریب ہوتی ہیں اور ملکی سیاست میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔ 
واضح رہے کہ اکثر ممالک جن میں ڈیموکریسی موجود ہے ان ممالک کے سیاسی مفکرین کے مطابق حقیقت میں پشت پردہ یا الیگارشک سسٹم حاکم ہے یا یہی حاکمیت نخبگان۔ یہ نخبگان الیگارشک طبقات کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں، اپنا قلیل نفع حاصل کر کے عوام کو بیچارہ کرتے ہیں۔ 

حکومت جمہوری

ظاہری طور پر اس نظام میں حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہے۔ حکومت محدود مدت کے لیے انتخاب ہوتی ہے، عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت کی مدت ختم ہوتی ہے تو وہ ذمہ دارہوتی ہے کہ دوبارہ ووٹنگ کرواۓ اور حکومتی مناصب اگلی منتخب عوامی حکومت کے حوالے کرے۔ اس طرز حکومت کی دو شکلیں مشہور ہیں:
۱۔ریاستی جمہوری: اس طرز حکومت میں صدر مملکت مستقیم طور پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ عوامی ووٹ سے منتخب شدہ صدر اپنی کابینہ بناتا ہے اور مختلف وزارتوں پر افراد کو منصوب کرتا ہے۔ ریاستی جمہوری سسٹم میں صدر مملکت کو قوہ مقننہ پر مافوق قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اگر صدر مملکت ملکی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو قوہ قانونگذار اس کو محاکمہ کر سکتی ہے۔
۲۔پارلیمانی جمہوری: اس طرز حکومت میں صدر مملکت عوام کے مستقیم طور پر ووٹ سے منتخب نہیں ہوتااورا س کا عہدہ تشریفاتی ہوتا ہے ۔ عوام پارلیمنٹ کے ارکان کو ووٹ دے کر چنتی ہے۔ جس سیاسی حزب کے نمائندے زیادہ منتخب ہوتے ہیں وہ حزب اپنا نمائندہ پیش کرتی ہے جو حکومت کا سربراہ قرار پاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوری کا ریاستی جمہوری سے بنیادی فرق یہی ہے کہ اس طرز حکومت میں حکومت کا سربراہ مستقیم عوام کے ووٹ سے نہیں بنتا بلکہ عوامی نمائندوں کے انتخاب سے بنتا ہے۔ حکومتی وزراء مجلس مقننہ کے عضو ہوتے ہیں۔[3]
وطن عزیز پاکستان میں ظاہری طور پر پارلیمانی جمہوری نظام حاکم ہے۔

منابع:

 

1 سائٹ البر۔
2 سائٹ البر۔
3 شجاعی، ہادی، مبانی علم سیاست، ص۵۳الی۵۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 18:47
عون نقوی

(۱۶۶)

لَا یُعَابُ الْمَرْءُ بِتَاْخِیْرِ حَقِّهٖ، اِنَّمَا یُعَابُ مَنْ اَخَذَ مَا لَیْسَ لَهٗ.

اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جا سکتا، بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

(۱۶۷)

اَلْاِعْجَابُ یَمْنَعُ مِنَ الْاِزْدِیَادِ.

خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے۔


جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کیلئے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کر چکا ہے اب اسے کوئی منزل نظر ہی نہیں آتی کہ اس کیلئے تگ و دو کرے چنانچہ یہ خود پسند و بر خود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسندی اس کیلئے ترقی کی راہیں مسدود کر دے گی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 14:16
عون نقوی

(۱۶۴)

مَنْ قَضٰى حَقَّ مَنْ لَّا یَقْضِیْ حَقَّهٗ فَقَدْ عَبَدَهٗ.

جو ایسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔

(۱۶۵)

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ.

خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 14:13
عون نقوی

(۱۶۲)

مَنْ کَتَمَ سِرَّهٗ کَانَتِ الْخِیَـرَةُ بِیَدِهٖ.

جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔

(۱۶۳)

اَلْفَقْرُ الْمَوْتُ الْاَکْبَرُ.

فقیری سب سے بڑی موت ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 14:11
عون نقوی