بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

وَ ھِیَ الْمَعْرُوْفَةُ بِالشِّقْشِقِیَّةِ

یہ خطبہ ’’ شقشقیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

اَمَا وَ اللهِ! لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَ، وَ اِنَّهٗ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلِّیْ مِنهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحٰی، یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ، وَ لَا یَرْقٰى اِلَیَّ الطَّیْرُ، فَسَدَلْتُ دُوْنَهَا ثَوْبًا، وَ طَوَیْتُ عَنْهَا کَشْحًا، وَ طَفِقْتُ اَرْتَئِیْ بَیْنَ اَنْ اَصُوْلَ بِیَدٍ جَذَّآءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلٰى طَخْیَةٍ عَمْیَآءَ، یَهْرَمُ فِیْهَا الْکَبِیْرُ، وَ یَشِیْبُ فِیْهَا الصَّغِیْرُ، وَ یَکْدَحُ فِیْهَا مُؤْمِنٌ حَتّٰى یَلْقٰى رَبَّهٗ. فَرَاَیْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلٰى هَاتَاۤ اَحْجٰى، فَصَبَرتُ وَ فِی الْعَیْنِ قَذًى،وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا، اَرٰى تُرَاثِیْ نَهْبًا.

خدا کی قسم! فرزند ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا، حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔ میں وہ (کوہ بلند ہوں) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کر لوں، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہٰذا میں نے صبر کیا، حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔

حَتّٰى مَضَى الْاَوَّلُ لِسَبِیْلِهٖ، فَاَدْلٰى بِهَا اِلَى ابْنِ الْخَطَّابِ بَعْدَهٗ.

یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔

ثُمَّ تَمَثَّلَ بَقَوْلِ الْاَعْشٰى:

پھر حضرتؑ نے بطورِ تمثیل اعشیٰ کا یہ شعر پڑھا:

شَتَّانَ مَا یَوْمِیْ عَلٰى کُوْرِهَا

’’کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادرِ جابر کی صحبت میں گزرتا تھا‘‘۔

وَ یَوْمُ حَیَّانَ اَخِیْ جَابِرِ

فَیَا عَجَبًا! بَیْنَا هُوَ یَسْتَقِیْلُهَا فِیْ حَیَاتِهٖ اِذْ عَقَدَهَا لِاٰخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَیْهَا! فَصَیَّرَهَا فِیْ حَوْزَةٍ خَشْنَآءَ، یَغْلُظُ کَلْمُهَا وَ یَخْشُنُ مَسُّهَا، وَ یَکْثُرُ الْعِثَارُ فِیْهَا وَ الْاِعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا کَرَاکِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ، فَمُنِیَ النَّاسُ ـ لَعَمْرُ اللهِ! ـ بِخَبْطٍ وَّ شِمَاسٍ وَّ تَلَوُّنٍ وَّ اعْتِرَاضٍ. فَصَبَرْتُ عَلٰى طُوْلِ الْمُدَّةِ، وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ.

تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا، لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کیلئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا جس کے چرکے کاری تھے، جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی، جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا، جس کا اس سے سابقہ پڑے وہ ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے (جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔

حَتّٰۤى اِذَا مَضٰى لِسَبِیْلِهٖ جَعَلَهَا فِیْ جَمَاعَةٍ زَعَمَ اَنِّیْۤ اَحَدُهُمْ.

یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔

فَیَا لَـلّٰهِ وَ لِلشُّوْرٰى! مَتَى اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِیَّ مَعَ الْاَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتّٰى صِرْتُ اُقْرَنُ اِلٰى هٰذِهِ النَّظَآئِرِ لٰکِنِّیْۤ اَسْفَفْتُ اِذْ اَسَفُّوْا، وَ طِرْتُّ اِذْ طَارُوْا، فَصَغٰی رَجُلٌ مِّنْهُمْ لِضِغْنِهٖ وَ مَالَ الْاٰخَرُ لِصِهْرِهٖ، مَعَ هَنٍ وَّهَنٍ.

اے اللہ! مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اَب ان لوگوں میں مَیں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں ان میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔

اِلٰۤى اَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ، نَافِجًا حِضْنَیْهِ بَیْنَ نَثِیْلِهٖ وَ مُعْتَلَفِهٖ وَ قَامَ مَعَهٗ بَنُوْۤ اَبِیْهِ یَخْضِمُوْنَ مَالَ اللهِ خَضْمَۃَ الْاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ، اِلٰۤى اَنِ انْتَکَثَ فَتْلُهٗ، وَ اَجْهَزَ عَلَیْهِ عَمَلُهٗ وَ کَبَتْ بِهٖ بِطْنَتُهٗ.

یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کُھل گئے اور اس کی بداعمالیوں نے اس کا کام تمام کر دیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔

فَمَا رَاعَنِیْۤ اِلَّا وَ النَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ اِلَیَّ، یَنْثَالُوْنَ عَلَیَّ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ، وَ شُقَّ عِطْفَایَ، مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِیْ کَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِ نَکَثَتْ طَآئِفَةٌ وَّ مَرَقَتْ اُخْرٰى وَ قَسَطَ اٰخَرُوْنَ، کَاَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوْا کَلَامَ اللهِ حَیْثُ یَقُوْلُ: ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝﴾، بَلٰى! وَاللهِ لَقَدْ سَمِعُوْهَا وَ وَعَوْهَا، وَ لٰکِنَّهُمْ حَلِیَتِ الدُّنْیَا فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ، وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا.

اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بجُّو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسنؑ اور حسینؑ کچلے جا رہے تھے اور میری رِدا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ: ’’یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کیلئے ہے‘‘۔ ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا، لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کُھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔

اَمَا وَ الَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! لَوْ لَا حُضُوْرُ الْحَاضِرِ وَ قِیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ وَ مَاۤ اَخَذَ اللهُ عَلَى الْعُلَمَآءِ اَنْ لَّا یُقَارُّوْا عَلٰى کِظَّةِ ظَالِمٍ وَّ لَا سَغَبِ مَظْلُوْمٍ، لَاَلْقَیْتُ حَبْلَهَا عَلٰى غَارِبِهَا وَ لَسَقَیْتُ اٰخِرَهَا بِکَاْسِ اَوَّلِهَا، وَ لَاَلْفَیْتُمْ دُنْیَاکُمْ هٰذِهِ اَزْهَدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ.

دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں! اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔

قَالُوْا: وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوْغِهٖ اِلٰى هٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهٖ، فَنَاوَلَهٗ کِتَابًا، فَاَقْبَلَ یَنْظُرُ فِیْهِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَآئَتِهٖ قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! لَوِ اطَّرَدْتَّ خُطْبَتَکَ مِنْ حَیْثُ اَفْضَیْتَ.

لوگوں کا بیان ہے کہ: جب حضرتؑ خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرتؑ کے سامنے پیش کیا۔ آپؑ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا: یا امیر المومنینؑ! آپؑ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔

فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ نے فرمایا کہ:

هَیْهَاتَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! تِلْکَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.

اے ابن عباس! یہ تو ’’شقشقہ‘‘ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے) تھا جو اُبھر کر دب گیا۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللّٰهِ مَاۤاَسِفْتُ عَلٰى کَلَامٍ قَطُّ کَاَسَفِیْ عَلٰى هٰذَا الْکَلَامِ اَنْ لَّا یَکُوْنَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ بَلَغَ مِنْهُ حَیْثُ اَرَادَ.

ابن عباس کہتے تھے کہ: مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے۔

https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:17
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَتَحَهُ اللهُ لِخَاصَّةِ اَوْلِیَآئِهٖ، وَ هُوَ لِبَاسُ التَّقْوٰى، وَ دِرْعُ اللهِ الْحَصِیْنَةُ، وَ جُنَّتُهُ الْوَثِیْقَةُ، فَمَنْ تَرَکَهٗ رَغْبَةً عَنْهُ اَلْبَسَهُ اللهُ ثَوْبَ الذُّلِّ، وَ شَمْلَۃَ الْبَلَآءِ، وَ دُیِّثَ بِالصَّغَارِ وَ الْقَمَآءِ، وَ ضُرِبَ عَلٰى قَلْبِهٖ بِالْاَسْدَادِ، وَ اُدِیْلَ الْحَقُّ مِنْهُ بِتَضْیِیْعِ الْجِهَادِ، وَ سِیْمَ الْخَسْفَ، وَ مُنِعَ الْنِّصْفَ.

جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کیلئے کھولا ہے۔ یہ پرہیز گاری کا لباس، اللہ کی محکم زرہ اور مضبوط سپر ہے۔ جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے، خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی ردا اوڑھا دیتا ہے اور ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے اور مدہوشی و غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور جہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اس کے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے، ذلت اسے سہنا پڑتی ہے اور انصاف اس سے روک لیا جاتا ہے۔

اَلَا وَ اِنِّیْ قَدْ دَعَوْتُکُمْ اِلَى قِتَالِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَیْلًا وََّ نَهَارًا، وَ سِرًّا وَّ اِعْلَانًا، وَ قُلْتُ لَکُمُ: اغْزُوْهُمْ قَبْلَ اَنْ یَّغْزُوْکُمْ، فَوَاللهِ! مَا غُزِیَ قَوْمٌ قَطُّ فِیْ عُقْرِ دَارِهِمْ اِلَّا ذَلُّوْا، فَتَوَاکَلْتُمْ وَ تَخَاذَلْتُمْ حَتّٰى شُنَّتْ عَلَیْکُمُ الْغَارَاتُ، وَ مُلِکَتْ عَلَیْکُمُ الْاَوْطَانُ.

میں نے اس قوم سے لڑنے کیلئے رات بھی اور دن بھی، علانیہ بھی اور پوشیدہ بھی تمہیں پکارا اور للکارا اور تم سے کہا کہ قبل اس کے کہ وہ جنگ کیلئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو۔ خدا کی قسم! جن افرادِ قوم پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں، لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پرٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے۔ یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔

وَ هٰذَاۤ اَخُوْ غَامِدٍ قَدْ وَرَدَتْ خَیْلُهُ الْاَنْۢبَارَ وَ قَدْ قَتَلَ حَسَّانَ بْنَ حَسَّانَ الْبَکْرِیَّ، وَ اَزَالَ خَیْلَکُمْ عَنْ مَّسَالِحِهَا وَ لَقَدْ بَلَغَنِیْۤ اَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ کَانَ یَدْخُلُ عَلَى الْمَرْاَةِ الْمُسْلِمَةِ، وَ الْاُخْرَى الْمُعَاهِدَةِ، فَیَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وَ قُلْبَهَا وَقَلَآئِدَهَا وَ رِعَاثَهَا، ما تَمْتَنِعُ مِنْهُ اِلَّا بِالْاِسْتِرْجَاعِ وَ الْاِسْتِرْحَامِ، ثُمَّ انْصَرَفُوْا وَافِرِیْنَ مَا نَالَ رَجُلًا مِّنْهُمْ کَلْمٌ وَّ لَا اُرِیْقَ لَهُمْ دَمٌ، فَلَوْ اَنَّ امْرَاً مُّسْلِمًا مَّاتَ مِنْۢ بَعْدِ هٰذاۤ اَسَفًا مَّا کَانَ بِهٖ مَلُوْمًا، بَلْ کَانَ بِهٖ عِنْدِیْ جَدِیْرًا. فَیَا عَجَبًا! عَجَبًا وَاللهِ! یُمِیْتُ الْقَلْبَ وَ یَجْلِبُ الْهَمَّ مِنِ اجْتِمَاعِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِکُمْ عَنْ حَقِّکُمْ! فَقُبْحًا لَّکُمْ وَ تَرَحًا حِیْنَ صِرْتُمْ غَرَضًا یُرْمٰى: یُغَارُ عَلَیْکُمْ وَ لَا تُغِیْرُوْنَ، وَ تُغْزَوْنَ وَ لَا تَغْزُوْنَ، وَ یُعْصَى اللهُ وَ تَرْضَوْنَ!

اسی بنی غامد کے آدمی (سفیان ابنِ عوف) ہی کو دیکھ لو کہ اس کی فوج کے سوار (شہر) انبار کے اندر پہنچ گئے اور حسان ابن حسان بکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا اور مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور ان کے (پیروں سے) کڑے، (ہاتھوں سے) کنگن اور گلو بند اور گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔ سوا اس کے کہ ﴿اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ کہتے ہوئے صبر سے کام لیں یا خوشامدیں کر کے اس سے رحم کی التجا کریں، پھر وہ لدے پھندے ہوئے پلٹ گئے۔ نہ کسی کے زخم آیا نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی، بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اَلْعَجَبُ ثُمَّ الْعَجَبُ خدا کی قسم! ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے۔ تمہارا بُرا ہو! تم غم و حزن میں مبتلا رہو! تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔ تمہیں ہلاک و تاراج کیا جا رہا ہے مگر تمہارے قدم حملے کیلئے نہیں اٹھتے۔ وہ تم سے لڑ بھڑ رہے ہیں اور تم جنگ سے جى چراتے ہو۔ اللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں اور تم راضی ہو رہے ہو۔

فَاِذَاۤ اَمَرْتُکُمْ بِالسَّیْرِ اِلَیْهِم فِیْۤ اَیَّامِ الْحَرِّ قُلْتُمْ: هٰذِهَٖ حَمَارَّةُ الْقَیْظِ اَمْهِلْنَا یُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ، وَ اِذَاۤ اَمَرْتُکُمْ بِالسَّیْرِ اِلَیْهِمْ فِی الشِّتَآءِ قُلْتُمْ: هٰذِهِ صَبَارَّةُ الْقُرِّ اَمْهِلْنَا یَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ، کُلُّ هٰذَا فِرَارًا مِّنَ الْحَرِّ وَ القُرِّ، فَاِذَا کُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ وَ الْقُرِّ تَفِرُّوْنَ فَاَنْتُمْ وَاللهِ! مِنَ السَّیْفِ اَفَرُّ!

اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کیلئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے، اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے۔ اور اگر سردیوں میں چلنے کیلئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا ہے، اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے۔ یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کیلئے باتیں ہیں۔ جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو تو پھر خدا کی قسم! تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ بھاگو گے۔

یَاۤ اَشْبَاهَ الرِّجَالِ وَ لَا رِجَالَ! حُلُوْمُ الْاَطْفَالِ، وَ عُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ، لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ لَمْ اَرَکُمْ وَ لَمْ اَعْرِفْکُمْ مَعْرِفَةً ـ وَاللهِ! ـ جَرَّتْ نَدَمًا، وَ اَعقَبَتْ سَدَمًا.

اے مردوں کی شکل و صورت والے نامَردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے۔

قَاتَلَکُمُ اللهُ! لَقَدْ مَلَئْتُمْ قَلْبِیْ قَیْحًا، وَ شَحَنْتُمْ صَدْرِیْ غَیْظًا، وَ جَرَّعْتُمُوْنِیْ نُغَبَ التَّهْمَامِ اَنْفَاسًا، وَ اَفْسَدْتُّمْ عَلَیَّ رَاْیِیْ بِالْعِصْیَانِ وَ الْخِذْلَانِ، حَتّٰى لَقَدْ قَالَتْ قُرَیْشٌ: اِنَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ رَجُلٌ شُجَاعٌ، وَ لٰکِنْ لَّا عِلْمَ لَهٗ بِالْحَرْبِ.

اللہ تمہیں مارے! تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے۔ تم نے مجھے غم و حزن کے جرعے پے در پے پلائے، نافرمانی کر کے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا، یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ: علیؑ ہے تو مرد شجاع، لیکن جنگ کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔

لِلّٰهِ اَبُوْهُمْ! وَ هَلْ اَحَدٌ مِّنْهُمْ اَشَدُّ لَهَا مِرَاسًا، وَ اَقْدَمُ فِیْهَا مَقَامًا مِّنِّیْ؟! لَقَدْ نَهَضْتُ فِیْهَا وَ مَا بَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ، وَ هَا اَنَا ذَا قَدْ ذَرَّفْتُ عَلَى السِّتِّیْنَ! وَ لٰکِنْ لَّا رَاْیَ لَمِنْ لَّا یُطَاعُ!.

اللہ ان کا بھلا کرے! کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزاولت رکھنے والا اور میدانِ وغا میں میرے پہلے سے کارِ نمایاں کئے ہوئے ہو۔ میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھا کہ حرب و ضرب کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور اب تو ساٹھ سے بھی اوپر ہو گیا ہوں، لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:49
عون نقوی

اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ اَمِیْنًا عَلَى التَّنْزِیْلِ، وَ اَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلٰى شَرِّ دِیْنٍ، وَ فِیْ شَرِّ دَارٍ، مُنِیْخُوْنَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَّ حَیَّاتٍ صُمٍّ، تَشْرَبُوْنَ الْکَدِرَ، وَ تَاْکُلُوْنَ الْجَشِبَ، وَ تَسْفِکُوْنَ دِمَآءَکُمْ، وَتَقْطَعُوْنَ اَرْحَامَکُمْ، اَلْاَصْنَامُ فِیْکُمْ مَنْصُوْبَةٌ، وَ الْاٰثَامُ بِکُمْ مَعْصُوْبَةٌ.

اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے) متنبہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب! اس وقت تم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]

فَنَظَرْتُ فَاِذَا لَیْسَ لِیْ مُعِیْنٌ اِلَّاۤ اَهْلُ بَیْتِیْ، فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ، وَ اَغْضَیْتُ عَلَى الْقَذٰى، وَ شَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا، وَ صَبَرْتُ عَلٰۤى اَخْذِ الْکَظَمِ،وَ عَلٰۤى اَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ.

میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو مجھے اپنے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی اپنا معین و مدد گار نظر نہ آیا۔ میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں پھندے تھے مگر میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پی لئے اور گلو گرفتگی کے باوجود حنظل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جُز یہ ہے]

وَلَمْ یُبَایِـعْ حَتّٰى شَرَطَ اَنْ یُّؤْتِیَهٗ عَلَى الْبَیْعَةِ ثَمَنًا، فَلَا ظَفِرَتْ یَدُ الْبَآئِعِ، وَ خَزِیَتْ اَمَانَةُ الْمُبْتَاعِ! فَخُذُوْا لِلْحَرْبِ اُهْبَتَهَا، وَ اَعِدُّوْا لَهَا عُدَّتَهَا، فَقَدْ شَبَّ لَـظَاهَا، وَ عَلَا سَنَاهَا، وَ اسْتَشْعِرُوا الصَّبْرَ، فَاِنَّهٗۤ اَدْعٰۤى اِلَى النَّصْرِ.

اس نے اس وقت تک معاویہ کی بیعت نہیں کی جب تک یہ شرط اس سے منوانہ لی کہ وہ اس بیعت کی قیمت ادا کرے۔ اس بیعت کرنے والے کے ہاتھوں کو فتح و فیروز مندی نصیب نہ ہو اور خریدنے والے کے معاہدے کو ذلت و رسوائی حاصل ہو۔ (لو اب وقت آ گیا کہ) تم جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ اور اس کیلئے ساز و سامان مہیا کرلو۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور لپٹیں بلند ہو رہی ہیں اور جامۂ صبر پہن لو کہ اس سے نصرت و کامرانی حاصل ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:42
عون نقوی

وَ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَلَیْهِ الْاَخْبَارُ بِاِسْتِیْلَآءِ اَصْحَابِ مُعَاوِیَۃَ عَلَی الْبِلَادِ وَ قَدِمَ عَلَیْهِ عَامِلَاهُ عَلَى الْیَمَنِ وَ هُمَا عُبَیْدُ اللّٰهِ بْنُ عَباسٍ وَّ سَعِیْدُ بْنُ نُمْرَانَ لَمَّا غَلَبَ عَلَیْهِمَا بُسْرُ بْنُ اَبِیْۤ اَرْطَاةَ، فَقَامَ ؑ عَلَى الْمِنْۢبَرِ ضَجِرًۢا بِتَثَاقُلِ اَصْحَابِهٖ عَنِ الْجِهَادِ وَ مُخَالَفَتِهِمْ لَهٗ فِی الرَّاْیِ، فَقَالَ:

 

جب امیر المومنین علیہ السلام کو پے درپے یہ اطلاعات ملیں کہ معاویہ کے اصحاب (آپؑ کے مقبوضہ) شہروں پر تسلط جما رہے ہیں اور یمن کے عامل عبید اللہ ابنِ عباس اور سپہ سالارِ لشکر سعید ابن نُمران، بسر ابن ابی ارطات سے مغلوب ہو کر حضرتؑ کے پاس پلٹ آئے تو آپؑ اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی اور رائے کی خلاف ورزی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا: 

مَا هِیَ اِلَّا الْکُوْفَةُ، اَقْبِضُهَا وَ اَبْسُطُهَا اِنْ لَّمْ تَکُوْنِیْۤ اِلَّاۤ اَنْتِ، تَهُبُّ اَعَاصِیْرُکِ، فَقَبَّحَکِ اللهُ!.

یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندوبست میرے ہاتھ میں ہے۔ (اے شہر کوفہ!) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تجھے غارت کرے!۔

[وَ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ]

[پھر آپؑ نے شاعر کا یہ شعر بطورِ تمثیل پڑھا]

لَعَمْرُ اَبِیْکَ الْخَیْرِ یَا عَمْرُو اِنَّنِیْ

’’اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم! مجھے تو اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)‘‘۔

عَلٰى وَضَرٍ مِّنْ ذَا الْاِنَآءِ قَلِیْلِ

[ثُمَّ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ]

[پھر آپؑ نے فرمایا]

اُنْۢبِئْتُ بُسْرًا قَدِ اطَّلَعَ الْیَمَنَ وَ اِنِّیْ وَاللهِ! لَاَظُنُّ اَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمَ سَیُدَالُوْنَ مِنْکُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِکُمْ عَنْ حَقِّکُمْ، وَ بِمَعْصِیَتِکُمْ اِمَامَکُمْ فِی الْحَقِّ، وَ طَاعَتِهِمْ اِمَامَهُمْ فِی الْبَاطِلِ، وَ بِاَدَآئِهِمُ الْاَمَانَةَ اِلٰى صَاحِبِهِمْ وَ خِیَانَتِکُمْ، وَ بِصَلَاحِهِمْ فِیْ بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِکُمْ، فَلَوِ ائْتَمَنْتُ اَحَدَکُمْ عَلٰى قَعْبٍ لَّخَشِیْتُ اَنْ یَّذْهَبَ بِعِلَاقَتِهٖ.

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے۔ بخدا! میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔ میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّوْنِیْ، وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُوْنِیْ، فَاَبْدِلْنِیْ بِهِمْ خَیْرًا مِّنْهُمْ، وَ اَبْدِلْهُمْ بِیْ شَرًّا مِّنِّىْ، اَللّٰهُمَّ مِثْ قُلُوْبَهُمْ کَمَا یُمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَآءِ، اَمَا وَاللهِ! لَوَدِدْتُّ اَنَّ لِیْ بِکُمْ اَلْفَ فَارِسٍ مِّنْۢ بَنِیْ فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ:

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے، وہ مجھ سے اُکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے میں انہیں کوئی اور بُرا حاکم دے۔ خدایا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم! میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس بنی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے یہ بیان کیا ہے کہ:)

هُنَالِکَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاکَ مِنْهُمْ فَوَارِسُ مِثْلُ اَرْمِیَةِ الْحَمِیْمِ

’’اگر تم کسی موقعہ پر انھیں پکارو تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں‘‘۔

ثُمَّ نَزَلَ ؑ مِنَ الْمِنْۢبَرِ۔

اس کے بعد حضرتؑ منبر سے نیچے آتر آئے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:37
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْاَمْرَ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ کَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ اِلٰى کُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ، فَاِذَا رَاٰى اَحَدُکُمْ لِاَخِیْهِ غَفِیْرَةً فِیْۤ اَهْلٍ اَوْ مَالٍ اَوْ نَفْسٍ فَلَا تَکُوْنَنَّ لَهٗ فِتْنَةً، فَاِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ یَغْشَ دَنَآءَةً تَظْهَرُ فَیَخْشَعُ لَهَاۤ اِذَا ذُکِرَتْ، وَ تُغْرٰى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ، کَانَ کَالْفَالِجِ الْیَاسِرِ الَّذِیْ یَنْتَظِرُ اَوَّلَ فَوْزَةٍ مِّنْ قِدَاحِهٖ تُوْجِبُ لَهُ الْمَغْنَمَ، وَ یُرْفَعُ بِهَا عَنْهُ الْمَغْرَمُ.

ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وسعت پائے تو یہ چیز اس کیلئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچی کرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جرأت بڑھے، وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے تو وہ دور ہو جائے۔

وَ کَذٰلِکَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ الْبَرِیْٓءُ مِنَ الْخِیَانَةِ یَنْتَظِرُ مِنَ اللهِ ﴿اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ﴾: اِمَّا دَاعِیَ اللهِ فَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ لَّهٗ، وَ اِمَّا رِزْقَ اللهِ فَاِذَا هُوَ ذُوْ اَهْلٍ وَّ مَالٍ، وَ مَعَهٗ دِیْنُهٗ وَ حَسَبُهٗ.

اسی طرح وہ مسلمان جو بد دیانتی سے پاک دامن ہو، وہ دو اچھائیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے: یا اللہ کی طرف سے بلاوا آئے تو اس شکل میں اللہ کے یہاں کی نعمتیں ہی اس کیلئے بہتر ہیں اور یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے (دنیا کی) نعمتیں حاصل ہوں تو اس صورت میں اس کے مال بھی ہے اور اولاد بھی اور پھر اس کا دین اور عزتِ نفس بھی برقرار رہے۔

اِنَّ الْمَالَ وَ الْبَنِیْنَ حَرْثُ الدُّنْیَا، وَ الْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الْاٰخِرَةِ، وَ قَدْ یَجْمَعُهُمَا اللهُ لِاَقْوَامٍ، فَاحْذَرُوْا مِنَ اللهِ مَا حَذَّرَکُمْ مِّنْ نَّفْسِهٖ، وَ اخْشَوْهُ خَشْیَةً لَّیْسَتْ بِتَعْذِیْرٍ وَ اعْمَلُوْا فِیْ غَیْرِ رِیَآءٍ وَّ لَا سُمْعَةٍ، فَاِنَّهٗ مَنْ یَّعْمَلْ لِغَیْرِ اللهِ یَکِلْهُ اللهُ اِلٰى مَنْ عَمِلَ لَهٗ. نَسْئَلُ اللهَ مَنَازِلَ الشُّهَدَآءِ، وَ مُعَایَشَةَ السُّعَدَآءِ، وَ مُرَافَقَةَ الْاَنْۢبِیَآءِ.

بیشک مال و اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کشتِ زار ہے اور بعض لوگوں کیلئے اللہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتا ہے۔ جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے رہو اور اتنا اس سے خوف کھاؤ کہ تمہیں عذر نہ کرنا پڑے۔ عمل بے ریا کرو اس لئے کہ جو شخص کسی اور کیلئے عمل کرتا ہے، اللہ اس کو اسی کے حوالہ کر دیتا ہے۔ ہم اللہ سے شہیدوں کی منزلت، نیکوں کی ہمدمی اور انبیاءؑ کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ لَا یَسْتَغْنِی الرَّجُلُ وَ اِنْ کَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، وَ دِفَاعِهِمْ عَنْهُ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ هُمْ اَعْظَمُ النَّاسِ حِیْطَةً مِّنْ وَّرَآئِهٖ وَ اَلَمُّهُمْ لِشَعَثِهٖ، وَ اَعْطَفُهُمْ عَلَیْهِ عِنْدَ نَازِلَةٍ اِذَا نَزَلَتْ بِهٖ. وَ لِسَانُ الصِّدْقِ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ خَیْرٌ لَهٗ مِنَ الْمَالِ یُوَرِّثُهٗ غَیْرَهٗ.

اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس کی حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اَلَا لَا یَعْدِلَنَّ اَحَدُکُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ یَرٰى بِهَا الْخَصَاصَةَ اَنْ یَّسُدَّهَا بِالَّذِیْ لَا یَزِیْدُهٗ اِنْ اَمْسَکَهٗ وَ لَا یَنْقُصُهٗ اِنْ اَهْلَکَهٗ، وَ مَنْ یَّقْبِضْ یَدَهٗ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، فَاِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْهُ عَنْهُمْ یَدٌ وَّاحِدَةٌ، وَ تُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْهُ اَیْدٍ کَثِیْرَةٌ، وَ مَنْ تَلِنْ حَاشِیَتُهٗ یَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ.

دیکھو تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو اس امداد سے دور کرنے میں پہلو تہی نہ کرے جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں۔ جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:32
عون نقوی