بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اِنَّ الْوَفَآءَ تَوْاَمُ الصِّدْقِ، وَ لَاۤ اَعْلَمُ جُنَّةً اَوْقٰی مِنْهُ، وَ لَا یَغْدِرُ مَنْ عَلِمَ کَیْفَ الْمَرْجِـعُ، وَ لَقَدْ اَصْبَحْنَا فِیْ زَمَانٍ قَدِ اتَّخَذَ اَکْثَرُ اَهْلِهِ الْغَدْرَ کَیْسًا، وَ نَسَبَهُمْ اَهْلُ الْجَهْلِ فِیْهِ اِلٰی حُسْنِ الْحِیْلَةِ. مَا لَهُمْ! قَاتَلَهُمُ اللهُ! قَدْ یَرَی الْحُوَّلُ الْقُلَّبُ وَجْهَ الْحِیْلَةِ وَ دُوْنَهٗ مَانِعٌ مِّنْ اَمْرِ اللهِ وَ نَهْیِهٖ، فَیَدَعُهَا رَاْیَ عَیْنٍ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ یَنْتَهِزُ فُرْصَتَهَا مَنْ لَّا حَرِیْجَةَ لَهٗ فِی الدِّیْنِ.

وفائے عہد اور سچائی دونوں کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے اور میرے علم میں اس سے بڑھ کر حفاظت کی اور کوئی سپر نہیں۔ جو شخص اپنی باز گشت کی حقیقت جان لیتا ہے وہ کبھی غداری نہیں کرتا۔ مگر ہمارا زمانہ ایسا ہے جس میں اکثر لوگوں نے غدر و فریب کو عقل و فراست سمجھ لیا ہے اور جاہلوں نے ان کی (چالوں) کو حسن تدبیر سے منسوب کر دیا ہے۔ اللہ انہیں غارت کرے! انہیں کیا ہو گیا ہے؟ وہ شخص جو زمانے کی اونچ نیچ دیکھ چکا ہے اور اس کے ہیر پھیر سے آگاہ ہے وہ کبھی کوئی تدبیر اپنے لئے دیکھتا ہے، مگر اللہ کے اوامر و نواہی اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اس حیلہ و تدبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اس پر قابو پانے کے باوجود چھوڑ دیتا ہے اور جسے کوئی دینی احساس سد راہ نہیں ہے وہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھا لے جاتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:10
عون نقوی

فِی الْخَوَارِجِ لَمَّا سَمِعَ قَوْلَهُمْ: «لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰهِ»، قَالَ ؑ:

جب آپؑ نے خوارج کا قول (لا حکم الا لله) (حکم اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے) سنا تو فرمایا

کَلِمَةُ حَقٍّ یُّرَادُ بِهَا بَاطِلٌ! نَعَمْ اِنَّهٗ لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰهِ، وَلٰکِنَّ هٰٓؤُلَآءِ یَقُوْلُوْنَ:لَاۤ اِمْرَةَ اِلَّا لِلّٰهِ، وَ اِنَّهٗ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اَمِیْرٍ بَرٍّ اَوْ فَاجِرٍ، یَعْمَلُ فِیْۤ اِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْتَمْتِعُ فِیْهَا الْکَافِرُ، وَ یُبَلِّغُ اللهُ فِیْهَا الْاَجَلَ، وَ یُجْمَعُ بِهِ الْفَیْءُ، وَ یُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَ تَاْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَ یُؤْخَذُ بِهٖ لِلضَّعِیْفِ مِنَ الْقَوِیِّ، حَتّٰی یَسْتَرِیْحَ بَرٌّ، وَ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.

یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں! بے شک حکم اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے، مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت بھی اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ (اگر اچھا ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا، (اگر برا ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا اور اللہ اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔

وَ فِیْ رِوَایَةٍ اُخْرٰی: اَنَّهٗ ؑ لَمَّا سَمِعَ تَحْکِیْمَهُمْ قَالَ:

ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ: جب آپ علیہ السلام نے تحکیم کے سلسلے میں (ان کا قول) سنا تو فرمایا:

حُکْمَ اللهِ اَنْتَظِرُ فِیْکُمْ.

میں تمہارے بارے میں حکم خدا ہی کا منتظر ہوں۔

وَ قَالَ:

پھر فرمایا کہ:

 الْاِمْرَةُ الْفَاجِرَةُ فَیَتَمَتَّعُ فِیْهَا الشَّقِیُّ، اِلٰۤی اَنْ تَنْقَطِعَ مُدَّتُهٗ، وَ تُدْرِکَهٗ مَنِیَّتُهٗ.

اگر حکومت نیک ہو تو اس میں متقی و پرہیز گار اچھے عمل کرتا ہے اور بری حکومت ہو تو اس میں بدبخت لوگ جی بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا زمانہ ختم ہو جائے اور موت انہیں پالے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:08
عون نقوی

وَ لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، نَقْتُلُ اٰبَآئَنَا وَ اَبْنَآئَنَا وَ اِخْوَانَنَا وَ اَعْمَامَنَا، مَا یَزِیْدُنَا ذٰلِکَ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًا، وَ مُضِیًّا عَلَی اللَّقَمِ، وَ صَبْرًا عَلٰی مَضَضِ الْاَلَمِ، وَ جِدًّا فِیْ جِهَادِ الْعَدُوِّ، وَ لَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ مِنَّا وَ الْاٰخَرُ مِنْ عَدُوِّنا یَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَیْنِ، یَتَخَالَسَانِ اَنْفُسَهُمَا: اَیُّهُمَا یَسْقِیْ صَاحِبَهٗ کَاْسَ الْمَنُوْنِ، فَمَرَّةً لَّنَا مِنْ عَدُوِّنَا، وَ مَرَّةً لِّعَدُوِّنَا مِنَّا، فَلَمَّا رَاَی اللهُ صِدْقَنَا اَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْکَبْتَ، وَ اَنْزَلَ عَلَیْنَا النَّصْرَ، حَتَّی اسْتَقَرَّ الْاِسْلَامُ مُلْقِیًا جِرَانَهٗ وَ مُتَبَوِّئًا اَوْطَانَهٗ، وَ لَعَمْرِیْ! لَوْ کُنَّا نَاْتِیْ مَاۤ اَتَیْتُمْ، مَا قَامَ لِلدِّیْنِ عَمُوْدٌ، وَ لَا اخْضَرَّ لِلْاِیْمَانِ عُوْدٌ. وَ اَیْمُ اللهِ لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَمًا، وَ لَتُتْبِعُنَّهَا نَدَمًا!

ہم (مسلمان) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر اپنے باپ، بیٹوں، بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے۔ اس سے ہمارا ایمان بڑھتا تھا، اطاعت اور راہ حق کی پیروی میں اضافہ ہوتا تھا اور کرب و الم کی سوزشوں پر صبر میں زیادتی ہوتی تھی اور دشمنوں سے جہاد کرنے کی کوششیں بڑھ جاتی تھیں۔ (جہاد کی صورت یہ تھی کہ) ہم میں کا ایک شخص اور فوجِ دشمن کا کوئی سپاہی، دونوں مَردوں کی طرح آپس میں بھڑتے تھے اور جان لینے کیلئے ایک دوسرے پر جھپٹے پڑتے تھے کہ کون اپنے حریف کو موت کا پیالہ پلاتا ہے، کبھی ہماری جیت ہوتی تھی اور کبھی ہمارے دشمن کی۔ چنانچہ جب خداوند عالم نے ہماری (نیتوں کی) سچائی دیکھ لی تو اس نے ہمارے دشمنوں کو رسوا و ذلیل کیا اور ہماری نصرت و تائید فرمائی، یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ پر جم گیا اور اپنی منزل پر برقرار ہو گیا۔ خدا کی قسم! اگر ہم بھی تمہاری طرح کرتے تو نہ کبھی دین کا ستون گڑتا اور نہ ایمان کا تنا برگ و بار لاتا۔ خدا کی قسم! تم اپنے کئے کے بدلے میں (دودھ کے بجائے) خون دوہو گے اور آخر تمہیں ندامت و شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:37
عون نقوی

وَ قَدِ اسْتَبْطَاَ اَصْحَابُهٗ اِذْنَهٗ لَهُمْ فِی الْقِتَالِ بِصِفِّیْنَ:

صفین میں حضرت علیہ السلام کے اصحاب نے جب اِذنِ جہاد دینے میں تاخیر پر بے چینی کا اظہار کیا، تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:

اَمَّا قَوْلُکُمْ: اَ کُلُّ ذٰلِکَ کَرَاهِیَةَ الْمَوْتِ؟ فَوَاللهِ! مَاۤ اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ.

تم لوگوں کا یہ کہنا :یہ پس و پیش کیا اس لئے ہے کہ میں موت کو ناخوش جانتا ہوں اور اس سے بھاگتا ہوں، تو خدا کی قسم! مجھے ذرا پروا نہیں کہ مَیں موت کی طرف بڑھوں یا موت میری طرف بڑھے۔

وَ اَمَّا قَوْلُکُمْ: شَکًّا فِیْ اَهْلِ الشَّامِ! فَوَاللهِ! مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ یَوْمًا اِلَّا وَ اَنَا اَطْمَعُ اَنْ تَلْحَقَ بِیْ طَآئِفَةٌ فَتَهْتَدِیَ بِیْ، وَ تَعْشُوَ اِلٰی ضَوْئِیْ، وَ ذٰلِکَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَقْتُلَهَا عَلٰی ضَلَالِهَا، وَ اِنْ کَانَتْ تَبُوْٓءُ بِاٰثَامِهَا.

اور اس طرح تم لوگوں کا یہ کہنا کہ مجھے اہل شام سے جہاد کرنے کے جواز میں کچھ شبہ ہے تو خدا کی قسم! میں نے جنگ کو ایک دن کیلئے بھی التوا میں نہیں ڈالا، مگر اس خیال سے کہ ان میں سے شاید کوئی گروہ مجھ سے آ کر مل جائے اور میری وجہ سے ہدایت پا جائے اور اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری روشنی کو بھی دیکھ لے اور مجھے یہ چیز گمراہی کی حالت میں انہیں قتل کر دینے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ اپنے گناہوں کے ذمہ دار بہرحال یہ خود ہوں گے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:36
عون نقوی

فَتَدَاکُّوْا عَلَیَّ تَدَاکَّ الْاِبِلِ الْهِیْمِ یَوْمَ وِرْدِهَا، قَدْ اَرْسَلَهَا رَاعِیْهَا، وَ خُلِعَتْ مَثَانِیْهَا، حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّهُمْ قَاتِلِیَّ، اَوْ بَعْضَهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَّدَیَّ، وَ قَدْ قَلَّبْتُ هٰذَا الْاَمْرَ بَطْنَهٗ وَ ظَهْرَهٗ، فَمَا وَجَدْتُّنِیْ یَسَعُنِیْۤ اِلَّا قِتَالُهُمْ اَوِ الْجُحُوْدُ بِمَا جَآءَ بِهٖ مُحَمَّدٌ ﷺ، فَکَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ اَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ مُّعَالَجَةِ الْعِقَابِ، وَ مَوْتَاتُ الدُّنْیَا اَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ مَّوْتَاتِ الْاٰخِرَةِ.

وہ اس طرح بے تحاشا میری طرف لپکے جس طرح پانی پینے کے دن وہ اونٹ ایک دوسرے پر ٹوٹتے ہیں کہ جنہیں ان کے ساربان نے پیروں کے بندھن کھول کر کھلا چھوڑ دیا ہو۔ یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ یا تو مجھے مار ڈالیں گے، یا میرے سامنے ان میں سے کوئی کسی کا خون کر دے گا۔ میں نے اس امر کو اندر باہر سے الٹ پلٹ کر دیکھا تو مجھے جنگ کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی، یا یہ کہ محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکام سے انکار کر دوں، لیکن آخرت کی سختیاں جھیلنے سے مجھے جنگ کی سختیاں جھیلنا سہل نظر آیا اور آخرت کی تباہیوں سے دنیا کی ہلاکتیں میرے لئے آسان نظر آئیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:34
عون نقوی