بعض افراد کا اصرار ہے کہ ۹ ربیع الاول روز وفات خلیفہ دوم ہے اور اس کی مناسبت سے بعض نامتعارف مراسم برپا کرتے ہیں جو نا صرف علماء امامیہ کے فتاوی کے برخلاف ہے بلکہ تعلیمات آئمہ معصومینؑ کے بھی برخلاف ہے۔ اگرچہ دشمنان اہلبیت علیہم السلام سے برائت اور ان پر تبرا کرنا عین دین ہے اور قرآن و سنت کے مطابق ہے لیکن لعن کے مراسم برپا کرنا اور کسی بھی اسلامی فرقہ کے مقدسات کی توہین کرنا نا صرف مصلحت عمومی کے برخلاف ہے بلکہ اسلامی معاشروں کے امن و امان کے لیے بھی خطرناک ہے۔
خود اس امر کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ آیا خلیفہ دوم ۹ ربیع الاول کو قتل ہوۓ؟ یا تاریخی منابع اہلسنت اور علماء امامیہ کا نظریہ کچھ اور ہے؟ کیونکہ مشہور قول کی بنا پر حضرت عمر ماہ ذی الحجہ میں قتل ہوۓ۔ اس تحریر میں چند شیعہ علماء کی اس بارے میں نظر اور اہلسنت منابع کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔
تاریخی منابع کے مطابق خلیفہ دوم سال ۲۳ ہجری ۲۳ ذی الحجہ کو مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ کے خنجر سے مجروح ہوۓ۔ اور تین دن بعد یا ۲۹، اور ایک قول دیگر کے مطابق ۳۰ ذی الحجہ کو وفات پا گئے۔
شیخ مفیدؒ کا بیان
شیخ نے کتاب مسار الشیعہ میں نقل کیا ہے:
فی الیوم السادس و العشرین سنة 23 ثلاث و عشرین من الهجرة طعن عمر بن الخطاب.... و فی التاسع و العشرین منه قبض.
عمر بن خطاب 26 ذی الحجہ سال ۲۳ ہجری کو زخمی ہوۓ اور اسی ماہ کے ۲۹ کو فوت ہوگئے۔ (۱)
سید بن طاؤوسؒ کا بیان
سید بن طاؤوس کتاب الاعمال مین ماہ ذی الحجہ کے اعمال کا تذکرہ کرتے ہوۓ بیان فرماتے ہیں کہ شیعہ کے بعض گروہ ۹ ربیع الاول کو خلیفہ دوم کی وفات کا دن سمجھتے ہیں جبکہ اس مطلب پر ان کے نزدیک کوئی تاریخی شواہد اس بات پر موجود نہیں۔(۲)
ابن ادریس حلیؒ کا بیان
ابن ادریس حلیؒ نے کتاب السرائر میں خلیفہ دوم کے ۹ ربیع الاول کو قتل کیے جانے کے قول کو سختی سے رد کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: فی الیوم السادس و العشرین منه سنة ثلاث و عشرین من الهجرة طعن عمربن الخطاب و فی التاسع و العشرین منه قبض عمر بن الخطاب... و قد یلتبس علی بعض اصحابنا یوم قبض عمربن الخطاب فیظن انه یوم التاسع من ربیع الاول و هذا خطأ باجماع اهل التاریخ و السیر.
عمر بن خطاب 26 ذی الحجہ کو سال ۲۳ ہجری میں زخمی ہوۓ اور اسی ماہ کی ۲۹ کو ان کی وفات ہوئی۔ لیکن اس امر کو بعض ہمارے علماء نے مشتبہ کردیا اور انہوں نے سمجھا کہ عمر بن خطاب کی وفات ۹ ربیع الاول کو ہوئی، جبکہ یہ بات اہل تاریخ و سیرت کے اجماع کے مطابق خطا ہے۔(۳)
شیخ ابراہیم کفعمیؒ کا بیان
شیخ نے کتاب مصباح میں لکھا:
جمهور الشیعة یزعمون ان فیه قتل عمربن الخطاب و لیس بصحیح. من زعم ان عمر قتل فیه فقد اخطأ. و انما قتل عمر یوم الاثنین لاربع لیال بفین من ذی الحجة.
شیخ نے اس بات کو خطا قرار دیا ہے کہ عمر بن خطاب کا یوم وفات ۹ ربیع الاول ہے۔ (۴)
علامہ حلیؒ کا بیان
علامہ نے کتاب منتہی المطلب میں اسی مطلب کو درج کیا ہے:
طعن عمر بن الخطاب سنته ثلث و عشرین من الهجرة و فی التاسع و العشرین منه قبض عمر بن الخطاب.
عمر بن الخطاب ۲۳ ہجری ذی الحجہ کے ۲۹ تاریخ کو فوت ہوۓ۔(۵)
اس کے علاوہ علماء اہلسنت کی اکثریت نے بھی اسی قول پر اجماع کیا ہے۔ بعض منابع کا یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے۔
امام بخاری کا بیان
بخاری نے کتاب التاریخ الکبیر میں لکھا ہے:
اصیب عمر رضی اللہ عنه یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة.
حضرت عمر نے 26 ذی الحجہ کو وفات پائی۔(۶)
طبری کا بیان
تاریخ طبری میں واضح طور پر بیان آیا ہے:
ثم توفی لیلة الاربعاء لثلاث لیال بقین من ذی الحجة سنة 23.
حضرت عمر نے بدھ کی رات ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو وفات پائی۔(۷)
یعقوبی کا بیان
تاریخ یعقوبی میں وارد ہوا ہے:
فطعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة سنة23.
حضرت عمر کو 26 ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بروز بدھ ضرب لگائی گئی۔(۸)
عمر بن شبہ النمیری البصری کا بیان
عمر بن شبہ تاریخ مدینہ میں لکھتے ہیں:
و مات یوم الاربعاء لاربع بقین من ذی الحجة.
حضرت عمر 26 ذی الحجہ کو فوت ہوۓ۔(۹)
ابن عساکر کا بیان
ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں حضرت عمر کی وفات ہجرت کے تئیسویں سال ماہ ذی الحجہ میں قرار دی۔(۱۰)
بلاذری کا بیان
بلاذری نے کتاب انساب الاشراف میں واقدی سے نقل کرتے ہوۓ لکھا:
طعن عمر بن الخطاب یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة سنة ثلاث و عشرین.
عمر بن خطاب ۲۶ ذی الحجہ سال ۲۳ ہجری کو فوت ہوۓ۔(۱۱)
اس کے علاوہ اہلسنت کے نامی گرامی بزرگ علماء نے جن میں
حسین مسعودی نے کتاب مروج الذہب ج۲ ص۱۳۵۲،
خلیفہ بن خیاط عصفری نے کتاب تاریخ خلیفہ بن خیاط ص۱۰۹،
ابو حنیفہ دینوری نے کتاب اخبار الطوال ص۱۳۹،
ابن شیبہ کوفی نے کتاب المصنف ج۸، ص۴۱،
ابن قتیبہ دینوری نے کتاب المعارف ص۱۸۳،
ابن اعثم کوفی نے کتاب فتوح ج۲، ص۲۳۲۹،
طبرانی نے کتاب المعجم الکبیر ج۱، ص۷۰،
اور حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک ج۳، ص۹۲ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ خلیفہ دوم کی وفات ۲۳ ہجری ماہ ذی الحجہ کے آخری عشرے میں ہوئی۔
کثیر شیعہ سنی منابع کا اس بات پر جمع ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۹ ربیع الاول کو خلیفہ دوم کی وفات کے دن سے مربوط کرنا کسی بھی طور پر ثابت نہیں۔
۹ ربیع الاول کا دن تشیع کے لیے شروع سے ہی اہمیت کا حامل دن تھا، اس دن کو اہل تشیع کے ہاں عید بیعت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بعض مفکرین کے مطابق یہ دن کسی بھی طور پر عید غدیر سے کم نہیں جس طرح سے ۱۸ ذی الحجہ کو امیرالمومنینؑ کی امامت کا رسمی اعلان ہوا اسی طرح سے ۹ ربیع الاول کو امام زمان عجل اللہ تعالی کی امامت کا رسمی آغاز ہوا۔ پس اس دن کو کسی بھی دوسری مناسبت سے مربوط کر کے بے رنگ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دن امت کے لیے باعث وحدت و قوت ہونا چاہیے۔ بجاۓ یہ کہ اس دن ایسے مراسم کا انعقاد کیا جاۓ جو نا صرف تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ امت اسلامی کے اندر تفرقے کا باعث ہیں۔
ذیل میں عصر حاضر کے چند شیعہ مراجع کے فتاوی کو ذکر کیا جا رہا ہے کہ جس میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ مکتب تشیع میں کسی بھی ایسے مراسم کا انعقاد کرنا جائز نہیں جس میں اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین کی جاتی ہو۔
رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای کا بیان
کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ فرق نہیں پڑتا کوئی عمومی مجلس میں مقدسات کی توہین کرے یا خصوصی محافل میں۔ تمام اسلامی فرقوں کے مقدسات کی توہین و لعن طعن کے مراسم کا انعقاد کرنا درست نہیں۔(۱۲)
آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی کا بیان
آپ نے ایک فقہی مسئلہ پوچھے جانے پر عمر بن خطاب، حضرت عائشہ پر دشنام کرنے کی شدت سے مخالفت کی اور فرمایا کہ یہ امر اخلاق و سیرت اہلبیتؑ کے برخلاف ہے۔(۱۳)
آیت اللہ العظمی آقای بہجت رحمۃ اللہ علیہ کا بیان
آیت اللہ بہجت نے ۹ ربیع الاول کو عیدالزہرا کے نام سے بعض مراسم اور ان کی انجام دہی پر فرمایا کہ اگر کوئی ایسا امر انجام پاۓ جس سے مقدسات اہلسنت کی توہین ہو اور یہ امر باعث بنے دوسرے ممالک میں رہنے والے اقلیتی شیعہ مصیبت میں پڑ جائیں یا ان کا خون بہایا جاۓ تو اس خون میں ہم بھی برابر کے شریک ہونگے۔ سب و شتم اور لعن طعن کے مراسم کی کوئی ضرورت نہیں۔(۱۴)
آیت اللہ العظمی آقای وحید خراسانی کا بیان
دین اسلام، دین رحمت و رسول اسلام، رسول رحمت ہیں۔ اس دین میں اور پیغمبر اکرمﷺ کی رفتار و سیرت میں حتی امیرالمومنینؑ کی زندگانی میں ہمیں ایسا کوئی مورد نہیں ملتا کہ جس طرح سے آج کل کے تکفیری تندرو انجام دیتے ہیں۔ سب شتم و لعن علنی جائز نہیں ہے اور آئمہ معصومینؑ کے دستور کے بھی خلاف ہے۔(۱۵)
در نتیجہ ۹ ربیع الاول کا دن خوشی اور عید کا دن ہے۔ یہ دن امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے عہد باندھنے اور ان سے تجدید بیعت کرنے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی ایسا امر جو امت اسلامی کے اجتماعی مفاد کے برخلاف ہو انجام دینا خود امام زمانؑ کو غم و اندوہ میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ شیخ مفید، محمد بن نعمان، مسارالشیعۃ، ج۱، ص۲۳۔
۲۔ سید بن طاؤوس، علی بن موسی، الاقبال بالاغمال الحسنۃ، ج۲، ص۳۷۹۔
۳۔ ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، کتاب السرائر، ج۱، ص۳۱۹۔
۴۔ الکفعمی، شیخ ابراہیم، المصباح، ج۱، ص۵۱۱۔
۵۔ حلیؒ، ابو منصور جمال الدین حسن بن یوسف، منتہی المطلب، ج۲، ص۶۱۲۔
۶۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، ج۶، ص۱۳۸۔
۷۔ طبری، ابن جریر، تاریخ الطبری، ج۳، ص۲۶۵۔
۸۔ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۵۹۔
۹۔ نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ مدینہ، ج۳، ص۸۹۵۔
۱۰۔ ابن عساکر، ابوالقاسم علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۴، ص۱۴۔
۱۱۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۱۰، ص۴۳۹۔
۱۲۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
۱۳۔ سائٹ ادیان نیٹ۔
۱۴۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ بہجت۔
۱۵۔ سائٹ تسنیم نیوز۔