قرآن کریم میں قوم حضرت لوطؑ کا عذاب کا شکار ہونے کا ذکر اور سائنسدانوں کی تصدیق
اردن میں حضرت لوطؑ کی قوم کا عذاب الہی کا شکار ہونا اور اس شہر کے تباہ شدہ کھنڈرات کا دریافت ہونا۔ سدوم میں زندگی یک دم ختم ہو گئی، اس قوم کی تباہی کا سبب شہاب سنگ بنا۔
قوم حضرت لوطؑ کا فحاشی کے جرم میں عذاب کا شکار ہونے کا ماجرہ تقریبا تمام کتب آسمانی میں وارد ہوا ہے لیکن یہ قوم کہاں تھی اور کیسے عذاب کا شکار ہوئی اس کے باے میں سائنسدانوں نے تازہ کشف میں کہا ہے کہ اس قوم پر شہاب سنگ گرا جس کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے۔
سائٹ یورونیوز نے اس تحقیق پر اپنے فارسی مقالے میں بیان کیا ہے کہ مغربی اردن کے شہر تل الحمام میں تقریبا ۳۶۵۰ سال پہلے یہ شہر کاملا ایک لمحے میں نابود ہو گیا۔ زمین شناسی کے محققین نے تخمین لگایا ہے کہ ایک ۵۰ میٹر کا شہاب سنگ سطح زمین سے ۴کلو میٹر کے ارتفاع پر منفجر ہوا جس نے ۲ہزار سینٹی گریڈ کی گرمی ایجاد کی اور کئی سو گنا اس ایٹم بم سے تباہ کن تھا جو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا۔ اس حرارت کے نتیجے میں بغیر کسی فاصلے کے اس شہر کے تمام گھر حتی تلواریں نیزے اور سفالی کے برتن سفوف بن گئے۔
باستان شناسوں کا کہنا ہے کہ شہر تل الحمام شہر یروشلم سے دس گنا بڑا ہرا بھرا شہر تھا لیکن یکبارہ تباہ و برباد ہوا اور اس کے بعد تقریبا ۶۰۰ سال تک انہیں کھںڈرات کی شکل میں باقی رہا۔ محققین کی ۲۱ نفری ٹیم کا یہ بھی دعوی ہے کہ تل الحمام وہی شہر سدوم دراصل قوم لوطؑ کا شہر تھا۔ کتب مقدس کے مطابق یہ قوم غیر اخلاقی اعمال میں ملوث تھی جس کی وجہ سے مشمول غضب خداوندی قرار پائی۔
لیکن آیا محققین کا یہ دعوی درست ہے اور قرآن کریم میں اس جانب کوئی اشارہ موجود ہے یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔
قرآن کریم میں نو سورتوں میں قوم لوط کی بداعمالیوں اور ان کے عذاب کا ذکر ہوا ہے۔ قوم لوطؑ کے مرد اپنی جنسی خواہش پورا کرنے کے لیے عورتوں کے بجاۓ مردوں کی طرف رجوع کرتے اس قبیح عمل سے نبی خداؑ نے ان کو روکا لیکن وہ اس سے باز نہ آۓ تو خداوند متعال نے اس قوم پر پتھروں کی بارش کردی۔
قرآن کریم سورہ عنکبوت آیت ۳۵ میں اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:
ولقد ترکنا منها آیة بیّنة لقوم یعقلون.
اور ہم نے اہل خرد کے لیے کچھ واضح نشانیاں باقی چھوڑ دی ہیں۔
اس سورہ میں قوم لوطؑ پر عذاب کا ذکر ہوا اور فرمان خدا کے مطابق اس عذاب کی نشانیاں باقی ہیں جو سائنسدانوں کے دعوی کے مطابق اب کشف ہوئی ہیں۔ امریکی ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم popular archaeology نے اردن کے شہر تل الحمام میں کئی سال تحقیق کی اور یہ دعوی کیا ہے کہ یہ وہی سدوم نامی شہر ہے جس میں قوم لوط عذاب کا شکار ہوئی۔ اس عذاب کا ذکر تورات میں بھی موجود ہے۔ تورات میں ’’سفر تکوین‘‘ میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے لوطؑ کی قوم کو آگ سے عذاب دیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ سدوم شہر جس میں حضرت لوطؑ کی قوم رہتی تھی کے دو حصے تھے۔ ایک بالائی حصہ تھا اور ایک زیریں۔ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ جب عذاب نازل ہوا یہ لوگ روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھے۔
سورہ شعراء آیت ۱۲۶ میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے کہ حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو فرمایا:
فاتقوا الله وأطیعون.
اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔
قوم نے منع کر دیا اور الٹا کہنے لگے کہ اے لوطؑ یہ باتیں مت کرو ورنہ تمہیں شہر سے نکال دیں گے۔
سورہ شعراء کی آیت ۱۶۷ میں حضرت لوطؑ کے قوم کا جواب اس طرح سے اللہ تعالی نے نقل کیا ہے کہ قوم نے کہا:
قالوا لئن لم تنته یا لوط لتکونن من المخرجین.
انہوں نے کہا کہ اے لوط اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے یہاں سے نکال باہر کریں گے۔
سورہ اعراف کی آیت ۸۰ میں وارد ہوا ہے کہ حضرت لوطؑ اپنی بات پر ڈٹے رہے اور فرمایا:
تأتون الفاحشة ما سبقکم بها من أحد من العالمین.
آپ لوگ ایک ایسی بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہو جو تم سے پہلے پوری دنیا میں کسی نے نہیں کی۔
سورہ عنکبوت آیت ۲۹ کے ذیل میں وارد ہوا ہے کہ آخر میں قوم لوط نے کہا:
إئتنا بعذاب الله إن کنت من الصادقین.
اگر تو سچا پیغمبر ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لا کر دکھا۔
سورہ شعراء میں بھی تفصیلا اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے کہ اس مکالمے کے بعد حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کے شر سے خدا کی پناہ طلب کی تو اللہ تعالی نے فرشتے نازل کیے اور انہیں اطمینان دیا کہ آپ خوفزدہ نہ ہوں۔ سورہ عنکبوت آیت ۳۱ میں آیا ہے کہ فرشتوں نے حضرت لوطؑ کو کہا:
قالوا إنا مهلکو أهل هذه القریة إن أهلها کانوا ظالمین.
ہم اہل بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ ظالم ہیں۔
سورہ عنکبوت کی آیت نمبر ۳۴ میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے کہ فرشتوں نے مزید بتایا:
إنا منزلون على أهل هذه القریة رجزا من السماء بما کانوا یفسقون.
ہم اس بستی پر اس کے مکینون کے فسق و فجور کی وجہ سے آسمان سے مصیبت کرنے والے ہیں۔
اور اب یہ آیت مجیدہ ملاحظہ کریں جس سے ایک حد تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی عذاب ہے جو آج سائنسدانوں نے تحقیق کے ذریعے کشف کیا ہے۔ سورہ ہود آیت ۸۲ میں آیا ہے:
فلما جاء أمرنا جعلنا عالیها سافلها وأمطرنا علیها حجارة من سجیل منضود.
پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے بستی کو تل پٹ کر کے رکھ دیا اور اس پر پکی مٹی کے پتھروں کی بارش کی جو تہہ در تہہ گرتے رہے۔
سورہ حجر آیت ۷۳ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
فأخذتهم الصیحة مشرقین.
پس انہیں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سخت کڑک نے پکڑ لیا۔
اسی طرح سورہ ذاریات آیت ۳۳ اور ۳۴ میں آیا ہے:
لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجارَةً مِنْ طِینٍ.
تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں۔
مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِینَ.
جو حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے آپ کے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں۔
قرآن کریم کی یہ آیات ایک حد تک حالیہ تحقیق کے مطابق ہیں کیونکہ اگر اس قوم پر آگ کا عذاب نازل ہوا ہوتا تو اس شہر پر آج آگ کے آثار ہوتے لیکن آیات میں بتایا گیا ہے کہ ان پر ایک پتھر گرا اور یہ کہ بارش کے قطروں کی طرح ان پر پتھر برساۓ گئے جنہوں نے بستی کے اوپر کو نیچے کر دیا جس سے صدیوں بعد بھی مٹی کی دبیز تہہ بچھ گئی جو اس تحقیق میں سامنے آئی ہے اور اس بات کو ممکنہ طور پر ثابت کرتی ہے۔
اس تحقیق کے مزید علمی و تحقیقی نکات جاننے کے لیے دیئے گئے سائٹ کے لنک پر کلک کریں:
منابع:
۱۔ قرآن کریم۔
۲۔ سائٹ انتخاب۔
۳۔ سائٹ نیچر۔






