حکومت اسلامی کا قیام ضروری ہے
امام خمینى رضوان اللہ تعالى علیہ:
حکومتِ اسلامى کا قیام در اصل اہدافِ عالیہ کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ و وسیلہ ہے بذات خود حکومت کا حصول کوئى قیمت نہیں رکھتا لیکن اگر اس کو ذریعہ بنا کر احکامِ اسلامى کو جارى کیا جاسکے اور عادلانہ نظام کو قائم کیا جاسکے تو پھر اس وسیلہ کو اختیار کرنے میں کوئى حرج نہیں بلکہ ضرورى ہے کہ اس وسیلہ کو اختیار کیا جاۓ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے حکومت کے حصول کا فلسفہ سمجھانے کے لیے ابن عباس سے اپںے پھٹے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا:
’’اے ابن عباس ! میرى اس جوتى کى کیا قیمت ہے؟ ابن عباس نے جواب دیا کہ کچھ بھى نہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’یہ حکومت کرنا میرے لئے اس جوتے سے بھى کم اہمیت رکھتا ہے مگر یہ کہ میں اس حکومت کو وسیلہ بنا کر تم لوگوں پر حق (یعنى قانون و نظامِ اسلام) کو برقرار کر سکوں۔ اور باطل (یعنى ظالمانہ قوانین) کو تم سے دور کردوں‘‘۔
پس معلوم ہوا کہ حکومت کا حصول و حاکم ہونا صرف ایک وسیلہ ہے۔ خود مقصد نہیں ہے بلکہ اس وسیلہ کو اختیار کر کے ایک مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اور اگر یہ وسیلہ حق کو قائم کرنے اور عالى اہداف کو پورا کرنے میں مددگار ثابت نہ ہو تو اس کى کوئى اہمیت نہیں۔ اس طرف نہج البلاغہ میں بھى اشارہ موجود ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اگر مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئى ہوتى اوراس کام (یعنى حکومت) کو مجھ پر لازم قرار نہ دیا گیا ہوتا تو میں اس کو ترک کر دیتا‘‘۔
پس حاکمیت ایک وسیلہ ہے نہ کہ کوئى معنوى مقام کہ جس کو حاصل کرنا بہت بڑا اعزاز ہو کیونکہ اگر معنوى مقام ہو تو وہ تو کوئى چھین نہیں سکتا، اگر یہ معنوى مقام ہوتا تو امام عالى مقام ؑ اس کو ترک کرنے کى بھی بات نہ کرتے۔ جب بھى حکومت کو وسیلہ بنا کر اسلام و احکام الہى کا اجراء کیا جاۓ گا اس کى اہمیت ہوگى اور جب بھى اس کے ذریعے حق کو قائم نہ کیا جاسکے احکام الہیہ کو نافذ نہ کیا جا سکے تو اسکى کوئى وقعت و اہمیت نہیں ہوگی۔
حوالہ:
۱۔ حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى (رح) ، ص ۱۰۸۔