بصیرت اخبار

یکم محرم کو کیا ہوا؟

Wednesday, 18 August 2021، 04:39 PM

 

۲۸ رجب ۶۰ ہجری کو مدینہ سے نکلنے والا یہ حسینی قافلہ اسلامی سال کے پہلے دن یکم محرم کو کوفہ کے قریب ایک کاروانسرا بنام قصر بنی مقاتل استراحت کے لیے رکتا ہے۔ کاروانسرا کے کچھ فاصلے پر اس قافلے کے ایک شخص کو ایک خیمہ لگا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ امام حسینؑ نے پوچھا کہ یہ کس کا خیمہ ہے بتایا گیا کہ یہ عبیداللہ بن حر جعفی کا خیمہ ہے۔ امامؑ نے اپنے ساتھی حجاج بن مسروق کو اس کی طرف بھیجا اور پیغام دیا کہ عبیداللہ کو کہو آپ کو امام بلا رہے ہیں۔ یہ فرستادہ جب عبیداللہ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ میں کوفہ سے بھی اس لیے باہر نکل آیا تھا کہ کہیں مجھے امام کی فوج کے خلاف لڑنا نہ پڑ جاۓ۔ وہاں تھا تو ابن زیاد کے فوجی مجھے اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھےاور یہاں اب امام مجھے بلا رہے ہیں اور میں ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا اور نا ہی ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ اگر ان سے ملتا ہوں تو وہ حتما مجھے اپنی نصرت کےلیے دعوت دیں گے۔امام کا ساتھی یہ سب سن کر واپس آیا۔ عبیداللہ کے مایوس کن ردعمل پر امام خود کھڑے ہوۓ اور اس کے خیمے کی طرف چل دیے۔ امامؑ نے عبیداللہ کو قیام کی دعوت دی جس کے جواب میں اس نےکہا: خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ جو آپ کے فرمان کی اطاعت کرے گا وہ شہادت کی عظمت کو پہنچے گا اور اس کو ابدی سعادت نصیب ہوگی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میرا مدد کرنا آپ کو کوئی فائدہ دے سکے۔  اس کے بعد اس نے کہا میں اپنا گھوڑا آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے آپ دشمن پر غلبہ پا سکیں اس کے ذریعے میں نے ہر دشمن کوتعقیب کیا ہے۔ امام ؑ نے اس کا یہ جواب سن کر فرمایا کہ اب جبکہ تم نصرت کرنے سے منع کر رہے ہو تو ہمیں تمہارے گھوڑے کی بھی ضرورت نہیں۔سوچنے کی بات ہے یہ کیسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے امام کی نصرت کرنے سے روک لیتا ہے یقینا اس کی باتوں سے علم ہوتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ امام برحق ہیں ان کی اطاعت میں ہی نجات ہے اور ابدی سعادت ان کی ہی اطاعت سے حاصل ہوگی لیکن پھر بھی اطاعت کرنے پر تیار نہیں۔ (١)

 امامؑ کی عمرو بن قیس مشرقی سے ملاقات:

یکم محرم ۶۱ہجری قصر بنی مقاتل کے مقام پر امام کی دوسری ملاقات عمرو بن قیس مشرقی اور اس کے چچا زاد بھائی سے ہوئی۔ شیخ صدوقؒ نے نقل کیا ہے کہ عمرو کہتا ہے کہ میں اور میراچچازاد بھائی قصر بنی مقاتل کے مقام پر امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوۓ ان کو سلام کیا۔ عمرو کے چچازاد بھائی نے امامؑ سے پوچھا کہ یا امام آپ نے داڑھی مبارک کو خضاب کیا ہے یا اس کا رنگ یہی ہے؟ امام نے فرمایا کہ خضاب ہے۔ پھر امام نے ہم سے پوچھا کہ کیا تم لوگ میری نصرت کے لیے آۓ ہو؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ قرضدار ہوں لوگوں کی امانتیں میرے پاس ہیں۔ کنبہ بہت بڑا ہے جس کی ذمہ داری میرے اوپر ہے۔ مجھے نہیں علم آپ کے ساتھ جاؤں تو کیا ہونے والا ہے اس لیے ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کی امانتوں کے لوٹانے میں خائن نہ بن جاؤں۔ میرے چچا زاد نے بھی ایک دو اسی طرح کی باتیں کیں ۔ امام نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ  اتنے دور ہو جاؤ کہ میری فریاد تم تک نہ پہنچ سکے۔ (۲) 

 امامؑ کی انس بن حارث کاہلی سے ملاقات:

امامؑ کے جان نثاروں میں سے ایک نام انس بن حارث کاہلی کا ہے۔ روز عاشور امامؑ کی رکاب میں شہید ہوۓ، آپ صحابی رسولؐ ہیں جنگ بدر و جنگ حنین میں شرکت کی۔ (۳)

بلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ آپ یکم محرم کو امام کے قافلے سے ملحق ہو گئے۔ قصر بنی مقاتل کے مقام پر امامؑ کی عبیداللہ بن حر جعفی سے ملاقات کے بعد آپ امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور کہا کہ میں کوفہ سے تو اس مقصد سے نکلا تھا کہ عبیداللہ بن حر کی طرح جنگ سے چھٹکارا پا سکوں۔ لیکن اللہ نے میرے دل میں یہ جرات ڈالی کہ آپ کی نصرت کروں۔ امامؑ نے اس کو اپنے ہمراہ لے لیا اور ابدی سعادت کی نوید دی۔ (۴)

شیخ صدوق ؒ نے نقل کیا ہے کہ روز عاشور انس بہادری سے دشمن کی طرف بڑھے اور ۱۸ یزیدیوں کو واصل جہنم کیا اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کیا۔ (۵)

 امام حسینؑ کا خواب:

شیخ مفیدؒ نے الارشاد میں نقل کیا ہے کہ عقبہ بن سمعان کہتے ہیں یکم محرم قصر بنی مقاتل میں ان ملاقاتوں کے بعد ہم وہاں سے نکلے تقریبا ایک گھنٹہ مسافت طے کی۔ امام حسینؑ زین کی پشت پر ہی سوگئے خواب دیکھا اور پھر بیدار ہو کر فرمایا: انا للہ و انا الیہ راجعون الحمد للہ رب العالمین۔ اور اس جملے کو دو یا تین بار تکرار کیا۔

آپ کے فرزند علی اکبرؑ قریب ہوۓ اور فرمایا کہ آپ نے کلمہ استرجاع زبان پر لایا ہے؟ تو امام نے جواب دیا میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک گھوڑے سوار کہہ رہا تھا یہ قوم موت کی طرف بڑھ رہی ہے اور موت ان کی طرف۔ یہ سن کر علی اکبرؑ نے فرمایا کہ بابا جان کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ پس اگر ہم حق پر ہیں تو موت سے کیا ڈرنا؟ اس پر امام حسینؑ نے فرمایا کہ خدا تمہیں بہترین پاداش دے۔ (٦)

 

جاری ہے................

 

 حوالہ جات:

(۱)شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۸۱۔

(٢)شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ،ج۱ ، ص۲۵۹۔

(٣)مامقانی،عبداللہ، تنقیح المقال، ج۱۱، ص۲۳۰۔

(٤)بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۷۵۔

(٥)شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، الامالی، ص۲۲۵۔

(۶) شیخ مفیدؒ،محمد بن محمد،  الارشاد، ج۲، ص۸۲۔

تحریر:عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی