نہج البلاغہ خطبہ ۸۰
فِی صِفَةِ الدُّنْیَا
(دنیا کی حقیقت)
مَاۤ اَصِفُ مِنْ دَارٍ اَوَّلُهَا عَنَآءٌ! وَ اٰخِرُهَا فَنَآءٌ! فِیْ حَلَالِهَا حِسَابٌ، وَ فِیْ حَرَامِهَا عِقَابٌ. مَنِ اسْتَغْنٰی فِیْهَا فُتِنَ، وَ مَنِ افْتَقَرَ فِیْهَا حَزِنَ، وَ مَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْهُ، وَ مَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْهُ، وَ مَنْ اَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْهُ، وَ مَنْ اَبْصَرَ اِلَیْهَاۤ اَعْمَتْهُ.
میں اس دارِ دنیا کی حالت کیا بیان کروں کہ جس کی ابتدا رنج اور انتہا فنا ہو، جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہو۔ یہاں کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ اور فقیر ہو تو حزن و ملال سے سابقہ رہے۔ جو دنیا کیلئے سعی و کوشش میں لگا رہتا ہے اس کی دُنیوی آرزوئیں بڑھتی ہی جاتی ہیں اور جو کوششوں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے دنیا خود ہی اس سے ساز گار ہو جاتی ہے۔ جو شخص دنیا کو عبرتوں کا آئینہ سمجھ کر دیکھتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا کر دیتی ہے اور جو صرف دنیا ہی پر نظر رکھتا ہے تو وہ اسے کور و نابینا بنا دیتی ہے۔
balagha.org