نہج البلاغہ خطبہ ۳۰
فِیْ مَعْنٰى قَتْلِ عُثْمَانَ
قتل عثمان کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا
لَوْ اَمَرْتُ بِهٖ لَکُنْتُ قَاتِلًا، اَوْ نَهَیْتُ عَنْهُ لَکُنْتُ نَاصِرًا، غَیْرَ اَنَّ مَنْ نَّصَرَهٗ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَّقُوْلَ: خَذَلَهٗ مَنْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ، وَ مَنْ خَذَلَهٗ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَّقُوْلَ: نَصَرَهٗ مَنْ هُوَ خَیْرٌ مِّنِّیْ.
اگر مَیں ان کے قتل کا حکم دیتا تو البتہ ان کا قاتل ٹھہرتا اور اگر ان کے قتل سے (دوسروں کو) روکتا تو ان کا معاون و مددگار ہوتا (میں بالکل غیر جانبدار رہا)، لیکن حالات ایسے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی نصرت و امداد کی وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم ان کی نصرت نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں اور جن لوگوں نے ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا وہ نہیں خیال کرتے کہ ان کی مدد کرنے والے ہم سے بہتر و برتر ہیں۔
وَ اَنَا جَامِعٌ لَّکُمْ اَمْرَهٗ، اسْتَاْثَرَ فَاَسَآءَ الْاَثَرَةَ وَ جَزِعْتُمْ فَاَسَئْتُمُ الْجَزَعَ، وَ لِلّٰهِ حُکْمٌ وَّاقِعٌ فِی الْمُسْتَاْثِرِ وَ الْجَازِعِ.
میں حقیقت امر کو تم سے بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے (اپنے عزیزوں کی) طرفداری کی تو طرفداری بُری طرح کی اور تم گھبرا گئے تو بُری طرح گھبرا گئے اور (ان دونوں فریق کی) بے جا طرفداری کرنے والے اور گھبرا اٹھنے والے کے درمیان اصل فیصلہ کرنے والا اللہ ہے۔
https://balagha.org