بصیرت اخبار

خطبہ (۱)

وَ مِن خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

یَذْکُرُ فِیْهَا ابْتِدَاءَ خَلْقِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ خَلْقِ اٰدَمَ ؑ

اس میں ابتدائے آفرینش زمین و آسمان اور پیدائش آدم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقَآئِلُوْنَ، وَ لَا یُحْصِیْ نَعْمَآئَهُ الْعَادُّوْنَ وَ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّهٗ الْمُجْتَهِدُوْنَ، الَّذِیْ لَا یُدْرِکُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ غَوْصُ الْفِطَنِ، الَّذِیْ لَیْسَ لِصِفَتِهٖ حَدٌّ مَّحْدُوْدٌ، وَ لَا نَعْتٌ مَّوْجُوْدٌ، وَ لَا وَقْتٌ مَّعْدُوْدٌ،وَ لَاۤ اَجَلٌ مَّمْدُوْدٌ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں، نہ اس کیلئے توصیفی الفاظ ہیں، نہ اس (کی ابتدا) کیلئے کوئی وقت ہے جسے شمار میں لایا جا سکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے۔

فَطَرَ الخلائق بِقُدْرَتِهٖ، وَ نَشَرَ الرِّیَاحَ بِرَحْمَتِهٖ، وَ وَتَّدَ بِالصُّخُوْرِ مَیَدَانَ اَرْضِهٖ.

اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا اور تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔

اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُهٗ، وَ کَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیْقُ بِهٖ، وَ کَمَالُ التَّصْدِیْقِ بِهٖ تَوْحِیْدُهٗ، وَ کَمَالُ تَوْحِیْدِهِ الْاِخْلَاصُ لَهٗ، وَ کَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَهٗ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنْهُ، لِشَهَادَةِ کُلِّ صِفَةٍ اَنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوْفِ، وَ شَهَادَةِ کُلِّ مَوْصُوْفٍ اَنَّهٗ غَیْرُ الصِّفَةِ.

دین کی ابتدا اس کی معرفت ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔

فَمَنْ وَّصَفَ اللهَ سُبْحَانَهٗ فَقَدْ قَرَنَهٗ، وَ مَنْ قَرَنَهٗ فَقَدْ ثَنَّاهُ، وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّاَهٗ، وَ مَنْ جَزَّاَهٗ فَقَدْ جَهِلَهٗ، وَ مَنْ جَهِلَهٗ فَقَدْ اَشَارَ اِلَیْهِ، وَ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ قَالَ: «فِیْمَ؟» فَقَدْ ضَمَّنَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: «عَلَامَ؟» فَقَدْ اَخْلٰى مِنْهُ.

لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی اور جس نے دوئی پیدا کی اس نے اس کیلئے جز بنا ڈالا اور جو اس کیلئے اجزا کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جو اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز میں ہے‘‘؟ اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز پر ہے؟‘‘ اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔

کَآئِنٌ لَّا عَنْ حَدَثٍ، مَّوْجُوْدٌ لَّا عَنْ عَدَمٍ، مَعَ کُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ، وَ غَیْرُ کُلِّ شَیْءٍ لَّا بِمُزَایَلَةٍ، فَاعِلٌ لَّا بِمَعْنَى الْحَرَکَاتِ وَ الْاٰلَةِ، بَصِیْرٌ اِذْ لَا مَنْظُوْرَ اِلَیْهِ مِنْ خَلْقِهٖ، مُتَوَحِّدٌ اِذْ لَا سَکَنَ یَسْتَاْنِسُ بِهٖ وَ لَا یَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهٖ.

وہ ہے ہوا نہیں، موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر شے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے نہ جسمانی دوری کے طور پر، وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں، وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی، وہ یگانہ ہے اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہو جائے۔

اَنْشَاَ الْخَلْقَ اِنْشَآءً، وَ ابْتَدَاَهُ ابْتِدَآءً، بِلَا رَوِیَّةٍ اَجَالَهَا، وَ لَا تَجْرِبَةٍ اسْتَفَادَهَا، وَ لَا حَرَکَةٍ اَحْدَثَهَا، وَ لَا هَمَامَةِ نَفْسٍ اضْطَرَبَ فِیْهَا. اَحَالَ الْاَشْیَآءَ لِاَوْقَاتِهَا، وَ لَـئَمَ بَیْنَ مُخْتَلِفَاتِهَا، وَ غَرَّزَ غَرَآئِزَهَا وَ اَلْزَمَهَا اَشْبَاحَهَا، عَالِمًۢا بِهَا قَبْلَ ابْتِدَآئِهَا، مُحِیْطًۢا بِحُدُوْدِهَا وَ انْتِهَآئِهَا، عَارِفًۢا بِقَرَآئِنِهَا وَ اَحْنَآئِهَا.

اس نے پہلے پہل خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہو اور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا ہو۔ ہر چیز کو اس کے وقت کے حوالے کیا، بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی، ہر چیز کو جداگانہ طبیعت اور مزاج کا حامل بنایا اور ان طبیعتوں کیلئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں۔ وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا تھا، ان کی حد و نہایت پر احاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے نفوس و اعضاء کو پہچانتا تھا۔

ثُمَّ اَنْشَاَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ فَتْقَ الْاَجْوَآءِ، وَ شَقَّ الْاَرْجَآءِ، وَ سَکَـآئِکَ الْهَوَآءِ، فَاَجْرٰی فِیْهَا مَآءً مُّتَلَاطِمًا تَیَّارُهٗ، مُتَرَاکِمًا زَخَّارُهٗ، حَمَلَهٗ عَلٰى مَتْنِ الرِّیْحِ الْعَاصِفَةِ، وَ الزَّعْزَعِ الْقَاصِفَةِ، فَاَمَرَهَا بِرَدِّهٖ، وَ سَلَّطَهَا عَلٰى شَدِّهٖ، وَ قَرَنَهَا اِلٰى حَدِّهٖ، الْهَوَآءُ مِنْ تَحْتِهَا فَتِیْقٌ وَّ الْمَآءُ مِنْ فَوْقِهَا دَفِیْقٌ.

پھر یہ کہ اس نے کشادہ فضا، وسیع اطراف و اکناف اور خلا کی وسعتیں خلق کیں اور ان میں ایسا پانی بہایا جس کے دریائے مواج کی لہریں طوفانی اور بحر زخار کی موجیں تہ بہ تہ تھیں، اسے تیز ہوا اور تند آندھی کی پشت پر لادا، پھر اسے پانی کے پلٹانے کا حکم دیا اور اسے اس کے پابند رکھنے پر قابو دیا اور اسے پانی کی سرحد سے ملا دیا۔ اس کے نیچے ہوا دور تک پھیلی ہوئی تھی اور اوپر پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔

ثُمَّ اَنْشَاَ سُبْحَانَهٗ رِیْحَا اِعْتَقَمَ مَهَبَّهَا، وَ اَدَامَ مُرَبَّهَا، وَ اَعْصَفَ مَجْرَاهَا، وَ اَبْعَدَ مَنْشَاهَا، فَاَمَرَهَا بِتَصْفِیْقِ الْمَآءِ الزَّخَّارِ، وَ اِثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ، فَمَخَضَتْهُ مَخْضَ السِّقَآءِ، وَ عَصَفَتْ بِهٖ عَصْفَهَا بِالْفَضَآءِ، تَرُدُّ اَوَّلَهٗ اِلٰۤی اٰخِرِهٖ، وَ سَاجِیَهٗ اِلٰی مَآئِرِهٖ حَتّٰى عَبَّ عُبَابُهٗ، وَ رَمٰى بِالزَّبَدِ رُکَامُهٗ، فَرَفَعَهٗ فِیْ هَوَآءٍ مُّنْفَتِقٍ، وَ جَوٍّ مُّنْفَهِقٍ، فَسَوّٰى مِنْهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ، جَعَلَ سُفْلَاهُنَّ مَوْجًا مَکْفُوْفًا وَ عُلْیَاهُنَّ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا،وَ سَمْکًا مَّرْفُوْعًا بِغَیْرِ عَمَدٍ یَّدْعَمُهَا، وَ لَا دِسَارٍ یَّنْظِمُهَا. ثُمَّ زَیَّنَهَا بِزِیْنَةِ الْکَوَاکِبِ، وَ ضِیَآءِ الثَّوَاقِبِ وَ اَجْرٰى فِیْهَا سِرَاجًا مُّسْتَطِیْرًا، وَ قَمَرًا مُّنِیْرًا فِیْ فَلَکٍ دَآئِرٍ، وَ سَقْفٍ سَآئِرٍ، وَ رَقِیْمٍ مَآئِرٍ.

پھر اللہ سبحانہ نے اس پانی کے اندر ایک ہوا خلق کی جس کا چلنا بانجھ (بے ثمر) تھا اور اسے اس کے مرکز پر قرار رکھا، اس کے جھونکے تیز کر دیئے اور اس کے چلنے کی جگہ دور و دراز تک پھیلا دی، پھر اس ہوا کو مامور کیا کہ وہ پانی کے ذخیرے کو تھپیٹرے دے اور بحر بے کراں کی موجوں کو اچھالے۔ اس ہوا نے پانی کو یوں متھ دیا جس طرح دہی کے مشکیزے کو متھا جاتا ہے اور اسے دھکیلتی ہوئی تیزی سے چلی جس طرح خالی فضا میں چلتی ہے اور پانی کے ابتدائی حصے کو آخری حصے پر اور ٹھہرے ہوئے کو چلتے ہوئے پانی پر پلٹانے لگی، یہاں تک کہ اس متلاطم پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ تہ بہ تہ پانی جھاگ دینے لگا، اللہ نے وہ جھاگ کھلی ہوا اور کشادہ فضا کی طرف اٹھائی اور اس سے ساتوں آسمان پیدا کئے۔ نیچے والے آسمان کو رکی ہوئی موج کی طرح بنایا اور اوپر والے آسمان کو محفوظ چھت اور بلند عمارت کی صورت میں اس طرح قائم کیا کہ نہ ستونوں کے سہارے کی حاجت تھی، نہ بندھنوں سے جوڑنے کی ضرورت۔ پھر ان کو ستاروں کی سج دھج اور روشن تاروں کی چمک دمک سے آراستہ کیا اور ان میں ضوپاش چراغ اور جگمگاتا چاند رواں کیا جو گھومنے والے فلک، چلتی پھرتی چھت اور جنبش کھانے والی لوح میں ہے۔

ثُمَّ فَتَقَ مَا بَیْنَ السَّمٰوٰتِ الْعُلَا، فَمَلَاَهُنَّ اَطْوَارًا مِّنْ مَلٰٓئِکَتِهٖ: مِنْهُمْ سُجُوْدٌ لَّا یَرْکَعُوْنَ، وَ رُکُوْعٌ لَّا یَنْتَصِبُوْنَ، وَ صَآفُّوْنَ لَا یَتَزَایَلُوْنَ، وَ مُسَبِّحُوْنَ لَا یَسْاَمُوْنَ، لَا یَغْشَاهُمْ نَوْمُ العُیُوْنِ، وَ لَا سَهْوُ الْعُقُوْلِ، وَ لَا فَتْرَةُ الْاَبْدَانِ، وَ لَا غَفْلَةُ النِّسْیَانِ.

پھر خداوند عالم نے بلند آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور ان کی وسعتوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا۔ کچھ ان میں سر بسجود ہیں جو رکوع نہیں کرتے، کچھ رکوع میں ہیں جو سیدھے نہیں ہوتے، کچھ صفیں باندھے ہوئے ہیں جو اپنی جگہ نہیں چھوڑتے اور کچھ پاکیزگی بیان کر رہے ہیں جو اکتاتے نہیں، نہ ان کی آنکھوں میں نیند آتی ہے، نہ ان کی عقلوں میں بھول چوک پیدا ہوتی ہے، نہ ان کے بدنوں میں سستی و کاہلی آتی ہے، نہ ان پر نسیان کی غفلت طاری ہوتی ہے۔

وَ مِنْهُمْ اُمَنَآءُ عَلٰى وَحْیِهٖ، وَ اَلْسِنَةٌ اِلٰى رُسُلِهٖ، وَ مُخْتَلِفُوْنَ بِقَضَآئِهٖ وَ اَمْرِهٖ. وَ مِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِهٖ، وَ السَّدَنَةُ لِاَبْوَابِ جِنَانِهٖ. وَ مِنْهُمُ الثَّابِتَةُ فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلٰى اَقْدَامُهُمْ، وَ الْمَارِقَةُ مِنَ السَّمَآءِ الْعُلْیَا اَعْنَاقُهُمْ، وَ الْخَارِجَةُ مِنَ الْاَقْطَارِ اَرْکَانُهُمْ، وَ الْمُنَاسِبَةُ لِقَوَآئِمِ الْعَرْشِ اَکْتَافُهُمْ، نَاکِسَةٌ دُوْنَهٗ اَبْصَارُهُمْ، مُتَلَفِّعُوْنَ تَحْتَهٗ بِاَجْنِحَتِهِمْ، مَضْرُوْبَةٌۢ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَنْ دُوْنَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ، وَ اسْتَارُ القُدْرَةِ، لَا یَتَوَهَّمُوْنَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْوِیْرِ، وَ لَا یُجْرُوْنَ عَلَیْهِ صِفَاتِ الْمَصْنُوْعِیْنَ، وَ لَا یَحُدُّوْنَهٗ بِالْاَمَاکِنِ، وَ لَا یُشِیْرُوْنَ اِلَیْهِ بِالنَّظَآئِرِ.

ان میں کچھ تو وحی الٰہی کے امین، اس کے رسولوں کی طرف پیغام رسانی کیلئے زبانِ حق اور اس کے قطعی فیصلوں اور فرمانوں کو لے کر آنے جانے والے ہیں، کچھ اس کے بندوں کے نگہبان اور جنت کے دروازوں کے پاسبان ہیں، کچھ وہ ہیں جن کے قدم زمین کی تہ میں جمے ہوئے ہیں (اور ان کی گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہر نکلی ہوئی ہیں) اور ان کے پہلو اطراف عالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، ان کے شانے عرش کے پایوں سے میل کھاتے ہیں، عرش کے سامنے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کے نیچے اپنے پروں میں لپٹے ہوئے ہیں اور ان میں اور دوسری مخلوق میں عزت کے حجاب اور قدرت کے سرا پردے حائل ہیں۔ وہ شکل و صورت کے ساتھ اپنے رب کا تصور نہیں کرتے، نہ اس پر مخلوق کی صفتیں طاری کرتے ہیں، نہ اسے محل و مکان میں گھرا ہوا سمجھتے ہیں، نہ اشباہ و نظائر سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

[صِفَةُ خَلْقِ اَدَمَ ؑ]

[آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں فرمایا:]

ثُمَّ جَمَعَ سُبْحَانَهٗ مِنْ حَزْنِ الْاَرْضِ وَ سَهْلِهَا، وَعَذْبِهَا وَ سَبَخِهَا، تُرْبَةً سَنَّهَا بِالْمَآءِ حَتّٰى خَلَصَتْ، وَ لَاطَهَا بِالْبَلَّةِ حَتّٰى لَزُبَتْ، فَجَبَلَ مِنْهَا صُوْرَةً ذَاتَ اَحْنَآءٍ وَّ وُصُوْلٍ، وَ اَعْضَآءٍ وَّ فُصُوْلٍ، اَجْمَدَهَا حَتّٰى اسْتَمْسَکَتْ، وَ اَصْلَدَهَا حَتّٰى صَلْصَلَتْ، لِوَقْتٍ مَّعْدُوْدٍ، وَ اَمَدٍ مَّعْلُوْمٍ.

پھر اللہ نے سخت و نرم اور شیریں و شورہ زار زمین سے مٹی جمع کی، اسے پانی سے اتنا بھگویا کہ وہ صاف ہو کر نتھر گئی اور تری سے اتنا گوندھا کہ اس میں لس پیدا ہو گیا، اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ ہیں اور جوڑ، اعضاء ہیں اور مختلف حصے، اسے یہاں تک سکھایا کہ وہ خود تھم سکی اور اتنا سخت کیا کہ وہ کھنکھنانے لگی۔ ایک وقت معین اور مدت معلوم تک اسے یونہی رہنے دیا۔

ثُمَّ نَفَخَ فِیْهَا مِنْ رُّوْحِهٖ فَمَثُلَتْ اِنْسَانًا ذَا اَذْهَانٍ یُّجِیْلُهَا، وَ فِکَرٍ یَّتَصَرَّفُ بِهَا، وَ جَوَارِحَ یَخْتَدِمُهَا، وَ اَدَوَاتٍ یُّقَلِّبُهَا، وَ مَعْرِفَةٍ یَفْرُقُ بِهَا بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ، وَ الْاَذْوَاقِ وَ الْمَشَامِّ، وَ الْاَلْوَانِ وَ الْاَجْنَاسِ، مَعْجُوْنًۢا بِطِیْنَةِ الْاَلْوَانِ الْمُخْتَلِفَةِ، وَ الْاَشْبَاهِ الْمُؤْتَلِفَةِ، وَ الْاَضْدَادِ الْمُتَعَادِیَةِ، و الْاَخْلَاطِ الْمُتَبَایِنَةِ، مِنَ الْحَرِّ و الْبَرْدِ، وَ الْبَلَّةِ وَ الْجُمُوْدِ،

پھر اس میں روح پھونکی تو وہ ایسے انسان کی صورت میں کھڑی ہو گئی جو قوائے ذہنی کو حرکت دینے والا، فکری حرکات سے تصرف کرنے والا، اعضاء و جوارح سے خدمت لینے والا اور ہاتھ پیروں کو چلانے والا ہے اور ایسی شناخت کا مالک ہے جس سے حق و باطل میں تمیز کرتا ہے اور مختلف مزوں، بوؤں، رنگوں اور جنسوں میں فرق کرتا ہے۔ خود رنگا رنگ کی مٹی اور ملتی جلتی ہوئی موافق چیزوں اور مخالف ضدوں اور متضاد خلطوں سے اس کا خمیر ہوا ہے، یعنی گرمی، سردی، تری، خشکی کا پیکر ہے۔

وَاسْتَاْدَى اللهُ سُبْحَانَهُ الْمَلٰٓئِکَةَ وَدِیْعَتَهٗ لَدَیْهِمْ، وَ عَهْدَ وَصِیَّتِهٖۤ اِلَیْهِمْ، فِی الْاِذْعَانِ بِالسُّجُوْدِ لَهٗ، وَ الْخُشُوْعِ لِتَکْرِمَتِهٖ، فَقَالَ سُبْحَانَهُ: اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ، اعْتَرَتْهُ الْحَمِیَّةُ، وَ غَلَبَتْ عَلَیْهِ الشِّقْوَةُ، وَ تَعَزَّزَ بِخِلْقَۃِ النَّارِ، وَ اسْتَوْهَنَ خَلْقَ الصَّلْصَالِ، فَاَعْطَاهُ اللهُ النَّظِرَةَ اسْتِحْقَاقًا لِّلسُّخْطَةِ، وَاسْتِتْمَامًا لِّلْبَلِیَّةِ، وَ اِنْجَازًا لِّلْعِدَةِ، فَقَالَ: اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.

پھر اللہ نے فرشتوں سے چاہا کہ وہ اس کی سونپی ہوئی ودیعت ادا کریں اور اس کے پیمانِ وصیت کو پورا کریں جو سجدۂ آدمؑ کے حکم کو تسلیم کرنے اور اس کی بزرگی کے سامنے تواضع و فروتنی کیلئے تھا۔ اس لئے اللہ نے کہا کہ: ’’آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا‘‘، اسے عصبیت نے گھیر لیا، بدبختی اس پر چھا گئی، آگ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے کو بزرگ و برتر سمجھا، اور کھنکھناتی ہوئی مٹی کی مخلوق کو ذلیل جانا، اللہ نے اسے مہلت دی تاکہ وہ پورے طور پر غضب کا مستحق بن جائے اور (بنی آدمؑ) کی آزمائش پایۂ تکمیل تک پہنچے اور وعدہ پورا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ نے اس سے کہا کہ: ’’تجھے وقت معین کے دن تک کی مہلت ہے‘‘۔

ثُمَّ اَسْکَنَ سُبْحَانَهٗ اٰدَمَ ؑ دَارًا اَرْغَدَ فِیْهَا عِیْشَتَهٗ، وَ اٰمَنَ فِیْهَا مَحَلَّتَهٗ، وَ حَذَّرَهٗۤ اِبْلِیْسَ وَ عَدَاوَتَهٗ، فَاغْتَرَّهٗ عَدُوُّهٗ نَفَاسَةً عَلَیْهِ بِدَارِ الْمُقَامِ، وَ مُرَافَقَةِ الْاَبْرَارِ، فَبَاعَ الْیَقِیْنَ بِشَکِّهٖ، وَ الْعَزِیْمَةَ بِوَهْنِهٖ، وَاسْتَبْدَلَ بِالْجَذَلِ وَجَلًا، وَ بِالْاِغْتِرَارِ نَدَمًا.

پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کو ایسے گھر میں ٹھہرایا جہاں ان کی زندگی کو خوشگوار رکھا، انہیں شیطان اور اس کی عداوت سے بھی ہوشیار کر دیا، لیکن ان کے دشمن نے ان کے جنت میں ٹھہرنے اور نیکو کاروں میں مل جل کر رہنے پر حسد کیا اور آخر کار انہیں فریب دے دیا۔ آدم علیہ السلام نے یقین کو شک اور ارادے کے استحکام کو کمزوری کے ہاتھوں بیچ ڈالا، مسرت کو خوف سے بدل لیا اور فریب خوردگی کی وجہ سے ندامت اٹھائی۔

ثُمَّ بَسَطَ اللهُ سُبْحَانَهٗ لَهٗ فِیْ تَوْبَتِهٖ، وَ لَقَّاهُ کَلِمَةَ رَحْمَتِهٖ، وَ وَعَدَهُ الْمَرَدَّ اِلٰى جَنَّتِهٖ، فَاَهْبَطَهٗ اِلٰى دَارِ الْبَلِیَّةِ، وَ تَنَاسُلِ الذُّرِّیَّةِ.

پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کیلئے توبہ کی گنجائش رکھی، انہیں رحمت کے کلمے سکھائے، جنت میں دوبارہ پہنچانے کا ان سے وعدہ کیا اور انہیں دارِ ابتلا و محل افزائشِ نسل میں اتار دیا۔

وَ اصْطَفٰى سُبْحَانَهٗ مِنْ وَّلَدِهٖ اَنْۢبِیَآءَ، اَخَذَ عَلَى الْوَحْیِ مِیْثَاقَهُمْ، وَ عَلٰى تَبْلِیْغِ الرِّسَالَةِ اَمَانَتَهُمْ، لَمَّا بَدَّلَ اَکْثَرُ خَلْقِهٖ عَهْدَ اللهِ اِلَیْهِمْ، فَجَهِلُوْا حَقَّهٗ، وَ اتَّخَذُوا الْاَنْدَادَ مَعَهٗ، وَ اجْتَالَتْهُمُ الشَّیٰطِیْنُ عَنْ مَّعْرِفَتِهٖ، وَ اقتَطَعَتْهُمْ عَنْ عِبَادَتِهٖ، فَبَعَثَ فِیْهمْ رُسُلَهٗ، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْۢبِیَآئَهٗ، لِیَسْتَاْدُوْهُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِهٖ، وَ یُذَکِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهٖ، وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیْغِ، وَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَآئِنَ الْعُقُوْلِ، وَ یُرُوْهُمْ الْاٰیَاتِ الْمُقَدَّرَةَ: مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوْعٍ، وَ مِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوْعٍ، وَ مَعَایِشَ تُحْیِیْهِمْ، وَ اٰجَالٍ تُفْنِیْهِمْ، وَ اَوْصَابٍ تُهْرِمُهُمْ، وَ اَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَیْهِمْ.

اللہ سبحانہ نے ان کی اولاد سے انبیاء علیہم السلام چنے، وحی پر ان سے عہد و پیمان لیا، تبلیغ رسالت کا انہیں امین بنایا، جبکہ اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیا تھا، چنانچہ وہ اس کے حق سے بے خبر ہو گئے اوروں کو اس کا شریک بنا ڈالا، شیاطین نے اس کی معرفت سے انہیں روگرداں اور اس کی عبادت سے الگ کر دیا۔ اللہ نے ان میں اپنے رسولؑ مبعوث کئے اور لگاتار انبیاءؑ بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں، اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں، پیغامِ ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں، عقل کے دفینوں کو ابھاریں اور انہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں: یہ سروں پر بلند بام آسمان، ان کے نیچے بچھا ہوا فرشِ زمیں، زندہ رکھنے والا سامانِ معیشت، فنا کرنے والی اجلیں، بوڑھا کر دینے والی بیماریاں اور پے در پے آنے والے حادثات۔

وَ لَمْ یُخْلِ اللهُ سُبْحَانَهٗ خَلْقَهٗ مِنْ نَّبِیٍّ مُّرْسَلٍ، اَوْ کِتَابٍ مُّنْزَلٍ، اَوْ حُجَّةٍ لَّازِمَةٍ، اَوْ مَحَجَّةٍ قَآئِمَةٍ، رُسُلٌ لَّا تُقَصِّرُ بِهِمْ قِلَّةُ عَدَدِهِمْ، وَلَا کَثْرَةُ الْمُکَذِّبِیْنَ لَهُمْ، مِنْ سَابِقٍ سُمِّیَ لَهٗ مَنْۢ بَعْدَهٗ، اَوْ غَابِرٍ عَرَّفَهٗ مَنْ قَبْلَهٗ.

اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبرؑ یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریق روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا۔ ایسے رسولؑ، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی، ان میں کوئی سابق تھا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا، کوئی بعد میں آیا جسے پہلا پہچنوا چکا تھا۔

عَلٰى ذٰلِکَ نَسَلَتِ الْقُرُوْنُ، وَ مَضَتِ الدُّهُوْرُ، وَ سَلَفَتِ الْاٰبَآءُ، وَ خَلَفَتِ الْاَبْنَآءُ.

اسی طرح مدتیں گزر گئیں، زمانے بیت گئے، باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولادیں بس گئیں۔

اِلٰۤى اَنْۢ بَعَثَ اللهُ سُبْحَانَهٗ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لِاِنْجَازِ عِدَتِهٖ وَ تَمَامِ نُبُوَّتِهٖ، مَاْخُوْذًا عَلَى النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقُهٗ، مَشْهُوْرَةً سِمَاتُهٗ، کَرِیْمًا مِیْلَادُهٗ. وَ اَهْلُ الْاَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُّتَفَرِّقَةٌ، وَ اَهْوَآءٌ مُّنْتَشِرَةٌ، وَ طَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَیْنَ مُشَبِّهٍ لِّلّٰهِ بِخَلْقِهٖ، اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِهٖ، اَوْ مُشِیْرٍ اِلٰى غَیْرِهٖ، فَهَدَاهُمْ بِهٖ مِنَ الضَّلَالَةِ، وَ اَنْقَذَهُمْ بِمَکَانِهٖ مِنَ الْجَهَالَةِ.

یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد ﷺ کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور، محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا، خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ خداوند عالم نے آپؐ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا۔

ثُمَّ اخْتَارَ سُبْحَانَهٗ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِہٖ لِقَآئَهٗ،وَ رَضِیَ لَهٗ مَا عِنْدَهٗ، وَ اَکْرَمَهٗ عَنْ دَارِ الدُّنْیَا، وَ رَغِبَ بِهٖ عَنْ مُّقَارَنَةِ الْبَلْوٰى، فَقَبَضَهٗ اِلَیْهِ کَرِیْمًا ﷺ، وَ خَلَّفَ فِیْکُمْ مَا خَلَّفَتِ الْاَنْۢبِیَآءُ فِیْۤ اُمَمِهَا، اِذْ لَمْ یَتْرُکُوْهُمْ هَمَلًا، بِغَیْرِ طَرِیْقٍ وَّاضِحٍ، وَ لَا عَلَمٍ قَآئِمٍ:

پھر اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو اپنے لقاء و قرب کیلئے چنا، اپنے خاص انعامات آپؐ کیلئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بود و باش سے آپؐ کو بلند تر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپؐ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے با عزت آپؐ کو اٹھا لیا۔ حضرتؐ تم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے جو انبیاءؑ اپنی اُمتوں میں چھوڑتے چلے آئے تھے۔ اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔

کِتَابَ رَبِّکُمْ فِیْکُمْ مُبَیِّنًا حَلَالَهٗ وَ حَرَامَهٗ، وَ فَرَآئِضَهٗ وَ فَضَآئِلَهٗ، وَ نَاسِخَهٗ وَ مَنْسُوْخَهٗ، وَ رُخَصَهٗ وَ عَزَآئِمَهٗ، وَ خَاصَّهٗ وَ عَامَّهٗ، وَ عِبَرَهٗ وَ اَمْثَالَهٗ، وَ مُرْسَلَهٗ وَ مَحْدُوْدَهٗ، وَ مُحْکَمَهٗ وَ مُتَشَابِهَهٗ، مُفَسِّرًا مُجْمَلَهٗ، وَ مُبَیِّنًا غَوَامِضَهٗ.

پیغمبر ﷺ نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے۔ اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام، واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مقید و مطلق، محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا، مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی، اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔

بَیْنَ مَاْخُوْذٍ مِّیْثَاقُ عِلْمِهٖ، وَ مُوَسَّعٍ عَلَى الْعِبَادِ فِیْ جَهْلِهٖ، وَ بَیْنَ مُثْبَتٍ فِی الْکِتَابِ فَرْضُهٗ، وَ مَعْلُوْمٍ فِی السُّنَّۃِ نَسْخُهٗ، وَ وَاجِبٍ فِی السُّنَّةِ اَخْذُهٗ، وَ مُرَخَّصٍ فِی الْکِتَابِ تَرْکُهٗ. وَ بَیْنَ وَاجِبٍۭ بِوَقْتِهٖ، وَ زَآئِلٍ فِیْ مُسْتَقْبَلِهٖ، وَ مُبَایَنٍۭ بَیْنَ مَحَارِمِهٖ، مِنْ کَبِیْرٍ اَوْعَدَ عَلَیْهِ نِیْرَانَهٗ، اَوْ صَغِیْرٍ اَرْصَدَ لَهٗ غُفْرَانَهٗ، وَ بَیْنَ مَقْبُوْلٍ فِیْۤ اَدْنَاهُ، وَ مُوَسَّعٍ فِیْۤ اَقْصَاهُ.

اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رُو سے واجب ہے لیکن کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے۔ اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آئندہ میں ان کا وجوب برطرف ہو جاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے: کچھ کبیرہ ہیں جن کیلئے آتش جہنم کی دھمکیاں ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کیلئے مغفرت کے توقعات پیدا کئے ہیں، کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا تھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ الْحَجِّ]

[اسی خطبہ میں حج کے سلسلہ میں فرمایا:]

وَ فَرَضَ عَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِهِ الْحَرَامِ، الَّذِیْ جَعَلَهٗ قِبْلَةً لِّلْاَنَامِ، یَرِدُوْنَهٗ وُرُوْدَ الْاَنْعَامِ، وَ یَاْلَهُوْنَ اِلَیْهِ وُلُوْهَ الْحَمَامِ.

اللہ نے اپنے گھر کا حج تم پر واجب کیا جسے لوگوں کا قبلہ بنایا ہے، جہاں لوگ اس طرح کھنچ کر آتے ہیں جس طرح پیاسے حیوان پانی کی طرف اور اس طرح وارفتگی سے بڑھتے ہیں جس طرح کبوتر اپنے آشیانوں کی جانب۔

جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ عَلَامَةً لِّتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهٖ، وَ اِذْعَانِهِمْ لِعِزَّتِهٖ، وَ اخْتَارَ مِنْ خَلْقِهٖ سُمَّاعًا اَجَابُوْۤا اِلَیْهِ دَعْوَتَهٗ، وَ صَدَّقُوْا کَلِمَتَهٗ، وَ وَقَفُوْا مَوَاقِفَ اَنْۢبِیَآئِهٖ، وَ تَشَبَّهُوْا بِمَلٰٓئِکَتِهِ الْمُطِیْفِیْنَ بِعَرْشِهٖ، یُحْرِزُوْنَ الْاَرْبَاحَ فِیْ مَتْجَرِ عِبَادَتِهٖ، وَ یَتَبَادَرُوْنَ عِنْدَ مَوْعِدِ مَغْفِرَتِهٖ.

اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے۔ اس نے اپنی مخلوق میں سے سننے والے لوگ چن لئے جنہوں نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے کلام کی تصدیق کی، وہ انبیاء علیہم السلام کی جگہوں پر ٹھہرے، عرش پر طواف کرنے والے فرشتوں سے شباہت اختیار کی، وہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ میں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں اور اس کی وعدہ گاہ ِمغفرت کی طرف بڑھتے ہیں۔

جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی لِلْاِسْلَامِ عَلَمًا، وَ لِلْعَآئِذِیْنَ حَرَمًا، فَرَضَ حَجَّهٗ، وَ اَوْجَبَ حَقَّهٗ، وَ کَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَهٗ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ.

اللہ سبحانہ نے اس گھر کو اسلام کا نشان (اور) پناہ چاہنے والوں کیلئے حرم بنایا ہے، اس کا حج فرض اور ادائیگی حق کو واجب کیا ہے اور اس کی طرف راہ نوردی فرض کر دی ہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:’’اللہ کا واجب الادا حق لوگوں پر یہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا حج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے کفر کیا تو جان لے کہ اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے‘‘۔

 

 


source: balagha.org

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی