بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

عبداللہ بن زمعہ نے آپ سے مال طلب کیا تو فرمایا

إِنَّ هَذَا الْمَالَ لَیْسَ لِی وَ لاَ لَکَ وَ إِنَّمَا هُوَ فَیْءٌ لِلْمُسْلِمِینَ وَ جَلْبُ أَسْیَافِهِمْ فَإِنْ شَرِکْتَهُمْ فِی حَرْبِهِمْ کَانَ لَکَ مِثْلُ حَظِّهِمْ وَ إِلاَّ فَجَنَاهُ أَیْدِیهِمْ لاَ تَکُونُ لِغَیْرِ أَفْوَاهِهِمْ.

یہ مال نہ میرا ہے نہ تمہارا، بلکہ مسلمانوں کا حق مشترک اور ان کی تلواروں کا جمع کیا ہوا سرمایہ ہے، اگر تم ان کے ساتھ جنگ میں شرکی ہوۓ ہوتے تو تمہارا حصہ بھی ان کے برابر ہوتا، ورنہ ان کے ہاتھوں کی کمائی دوسروں کے منہ کا نوالہ بننے کے لیے نہیں ہے۔(۱)

 

 


ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۷۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 21 ، 18:19
عون نقوی

اپنے اصحاب کو جنگ کے لیے آمادہ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لیے فرمایا

وَ اللَّهُ مُسْتَأْدِیکُمْ شُکْرَهُ وَ مُوَرِّثُکُمْ أَمْرَهُ وَ مُمْهِلُکُمْ فِی مِضْمَارٍ مَحْدُودٍ لِتَتَنَازَعُوا سَبَقَهُ فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ وَ اطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ لاَ تَجْتَمِعُ عَزِیمَهٌ وَ وَلِیمَهٌ. مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْیَوْمِ. وَ أَمْحَی الظُّلَمَ لِتَذَاکِیرِ الْهِمَمِ!.

خداوندِ عالم تم سے اداۓ شکر کا طلبگار ہے اور اس نے تمہیں اپنے اقتدار کا مالک بنایا ہے اور تمہیں اس (زندگی کے) محدود میدان میں مہلت دت رکھی ہے تاکہ سبقت کا انعام حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ کمریں مضبوطی سے کس لو اور دامن گردان لو۔ بلند ہمتی اور دعوتوں کی خواہش ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ رات کی گہری نیند دن کی مہموں میں بڑی کمزوری پیدا کرنے والی ہے اور (اس کی ) اندھاریاں ہمت و جرات کی یاد کو بہت مٹا دینے والی ہے۔(۱)

 

 


ترجمہ:

۱۔ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۷۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 21 ، 17:46
عون نقوی

پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا

أَیُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَهُ قِصَرُ الْأَمَلِ وَ الشُّکْرُ عِنْدَ النِّعَمِ وَ التَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِمِ فَإِنْ عَزَبَ ذَلِکَ عَنْکُمْ فَلاَ یَغْلِبِ الْحَرَامُ صَبْرَکُمْ وَ لاَ تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُکْرَکُمْ فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَیْکُمْ بِحُجَجٍ مُسْفِرَهٍ ظَاهِرَهٍ وَ کُتُبٍ بَارِزَهِ الْعُذْرِ وَاضِحَهٍ.

اے لوگو! امیدوں کو کم کرنا، نعمتوں پر شکر ادا کرنا اور حرام چیزوں سے دامن بچانا ہی زہد و ورع ہے۔ اگر(دامن امید سمیٹنا) تمہارے لیے مشکل ہو جاۓ تو اتنا ہو کہ حرام تمہارے صبر و شکیب پر غالب نہ آ جاۓ اور نعمتوں کے وقت شکر کو بھول نہ جاؤ۔ خداوند عالم نے روشن اور کھلی ہوئی دلیلوں سے حجت تمام کرنے والی واضح کتابوں کے ذریعے تمہارے لیے حیل و حجت کا موقع نہیں رہنے دیا۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۷۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 August 21 ، 22:25
عون نقوی

بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور تبلیغ کے سلسلہ میں پیغمبرﷺ کی مساعی کے متعلق فرمایا

بَعَثَهُ وَ النَّاسُ ضُلاَّلٌ فِی حَیْرَهٍ وَ حَاطِبُونَ فِی فِتْنَهٍ قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الْأَهْوَاءُ وَ اسْتَزَلَّتْهُمُ الْکِبْرِیَاءُ وَ اسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِیَّهُ الْجَهْلاَءُ حَیَارَی فِی زَلْزَالٍ مِنَ الْأَمْرِ وَ بَلاَءٍ مِنَ الْجَهْلِ فَبَالَغَ صلی الله علیه وآله فِی النَّصِیحَهِ وَ مَضَی عَلَی الطَّرِیقَهِ وَ دَعَا إِلَی الْحِکْمَهِ وَ الْمَوْعِظَهِ الْحَسَنَهِ.

پیغمبرﷺ کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگ حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردہ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہےتھے۔ نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا اور غرور نے بہکا دیا تھا اور بھرپور جاہلیت نے ان کی عقلیں کھو دی تھیں اور حالات کے ڈانواں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ چنانچہ نبیﷺ نے انہیں سمجھانے بجھانے کا پور حق ادا کیا، خود سیدھے راستے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیجتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۱۰۳۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 August 21 ، 22:16
عون نقوی

جنگ جمل چھڑنے سے پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا تو فرمایا

لاَ تَلْقَیَنَّ طَلْحَهَ فَإِنَّکَ إِنْ تَلْقَهُ تَجِدْهُ کَالثَّوْرِ عَاقِصاً قَرْنَهُ یَرْکَبُ الصَّعْبَ وَ یَقُولُ هُوَ الذَّلُولُ وَ لَکِنِ الْقَ الزُّبَیْرَ فَإِنَّهُ أَلْیَنُ عَرِیکَهً فَقُلْ لَهُ یَقُولُ لَکَ ابْنُ خَالِکَ عَرَفْتَنِی بِالْحِجَازِ وَ أَنْکَرْتَنِی بِالْعِرَاقِ فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا.

قال السید الشریف: و هو - علیه السلام - أول من سمعت منه هذه الکلمه أعنی: فما عدا مما بدا.

طلحہ سے ملاقات نہ کرنا۔ اگر تم اس سے ملے تو تم اس کو ایک ایسا سرکش بیل پاؤگے، جس کے سینگ کانوں کی طرف مڑے ہوۓ ہوں۔ وہ منہ زور سواری پر سوار ہوتا ہے اور پھر کہتا یہ ہے کہ یہ رام کی ہوئی سواری ہے، بلکہ تم زبیر سے ملنا اس لیے کہ وہ نرم طبیعت ہے اور اس سے یہ کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں تو مجھ سے جان پہچان رکھتے تھے اور یہاں عراق میں آ کر بالکل اجنبی بن گئے۔ آخر اس تبدیلی کا کیا سبب ہے؟

علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ اس کلام کا آخری جملہ ’’فما عدا مما ابدا‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تبدیلی کا کیا سبب ہوا سب سے پہلے آپ ہی کی زبان سے سنا گیا ہے۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۴۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 21 ، 21:00
عون نقوی