بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

وَ اَحْمَدُ اللهَ وَ اَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی مَدَاحِرِ الشَّیْطٰنِ وَ مَزَاجِرِهٖ، وَ الْاِعْتِصَامِ مِنْ حَبَآئِلِهٖ وَ مَخَاتِلِهٖ.

میں اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور ان چیزوں کیلئے اس سے مدد مانگتا ہوں کہ جو شیطان کو راندہ اور دور کرنے والی اور اس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے اپنی پناہ میں رکھنے والی ہیں۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ نَجِیْبُهٗ وَ صَفْوَتُهٗ، لَا یُؤَازٰی فَضْلُهٗ، وَ لَا یُجْبَرُ فَقْدُهٗ، اَضَآءَتْ بِهِ الْبِلَادُ بَعْدَ الضَّلَالَةِ الْمُظْلِمَةِ، وَ الْجَهَالَةِ الْغَالِبَةِ، وَ الْجَفْوَةِ الْجَافِیَةِ، وَ النَّاسُ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحَرِیْمَ، وَ یَسْتَذِلُّوْنَ الْحَکِیْمَ، یَحْیَوْنَ عَلٰی فَتْرَةٍ، وَ یَمُوْتُوْنَ عَلٰی کَفْرَةٍ!.

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے عبد و رسول اور منتخب و برگزیدہ ہیں۔نہ ان کے فضل و کمال کی برابری اور نہ ان کے اٹھ جانے کی تلافی ہوسکتی ہے۔ تاریک گمراہیوں اور بھرپور جہالتوں اور سخت و درشت (خصلتوں) کے بعد شہروں (کے شہر) ان کی وجہ سے روشن و منور ہو گئے، جبکہ لوگ حلال کو حرام اور مرد زیرک و دانا کو ذلیل سمجھتے تھے۔ نبیوں سے خالی زمانہ میں جیتے تھے اور گمراہی کی حالت میں مر جاتے تھے۔

ثُمَّ اِنَّکُمْ مَّعْشَرَ الْعَرَبِ! اَغْرَاضُ بَلَایَا قَدِ اقْتَرَبَتْ، فَاتَّقُوْا سَکَرَاتِ النِّعْمَةِ، وَ احْذَرُوْا بَوَآئِقَ النِّقْمَةِ، وَ تَثَبَّتُوْا فِیْ قَتَامِ الْعَشْوَةِ، وَ اعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ عِنْدَ طُلُوْعِ جَنِیْنِهَا، وَ ظُهُوْرِ کَمِیْنِهَا، وَ انْتِصَابِ قُطْبِهَا، وَ مَدَارِ رَحَاهَا. تَبْدَاُ فِیْ مَدَارِجَ خَفِیَّةٍ، وَ تَؤُوْلُ اِلٰی فَظَاعَةٍ جَلِیَّةٍ، شِبَابُهَا کَشِبَابِ الْغُلَامِ، وَ اٰثَارُهَا کَـاٰثَارِ السِّلَامِ، تَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُوْدِ! اَوَّلُهُمْ قَآئِدٌ لِّاٰخِرِهِمْ، وَ اٰخِرُهُمْ مُقْتَدٍۭ بِاَوَّلِهِمْ، یَتَنَافَسُوْنَ فِیْ دُنْیَا دَنِیَّةٍ، وَ یَتَکَالَبُوْنَ عَلٰی جِیْفَةٍ مُّرِیْحَةٍ، وَ عَنْ قَلِیْلٍ یَتَبَرَّاُ التَّابِـعُ مِنَ الْمَتْبُوْعِ، وَ الْقَآئِدُ مِنَ الْمَقُوْدِ، فَیَتَزَایَلُوْنَ بِالْبَغْضَآءِ، وَ یَتَلَاعَنُوْنَ عِنْدَ اللِّقَآءِ.

پھر یہ کہ اے گروہ عرب! تم ایسی ابتلاؤں کا نشانہ بننے والے ہو کہ جو قریب پہنچ چکی ہیں۔ عیش و تنعم کی بدمستیوں سے بچو اور عذاب کی تباہ کاریوں سے ڈرو۔ شبہات کے دھندلکوں اور فتنہ کی کجرویوں میں اپنے قدموں کو روک لو، جبکہ اس کا چھپا ہوا خدشہ سر اٹھائے اور مخفی اندیشہ سامنے آ جائے اور اس کا کھونٹا مضبوط ہو جائے۔ فتنے ہمیشہ چھپے ہوئے راستوں سے ظاہر ہوا کرتے ہیں اور انجام کار ان کی کھلم کھلا برائیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان کی اٹھان ایسی ہوتی ہے جیسے نوخیز بچے کی اور ان کے نشانات ایسے ہوتے ہیں جیسے پتھر (کی چوٹوں) کے۔ ظالم آپس کے عہد و پیمان سے اس کے وارث ہوتے چلے آتے ہیں۔ اگلا پچھلے کا رہنما اور پچھلا اگلے کا پیرو ہوتا ہے۔ وہ اسی رذیل دنیا پر مر مٹتے ہیں اور اس سڑے ہوئے مردار پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ جلد ہی پیروکار اپنے پیشرو رہنماؤں سے اظہار بیزاری کریں گے اور ایک دوسرے کی دشمنی کے ساتھ علیحدگی اختیار کر لیں گے اور سامنے ہونے پر ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔

ثُمَّ یَاْتِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوْفِ، وَ الْقَاصِمَةِ الزَّحُوْفِ، فَتَزِیْغُ قُلُوْبٌۢ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ، وَ تَضِلُّ رِجَالٌۢ بَعْدَ سَلَامَةٍ، وَ تَخْتَلِفُ الْاَهْوَآءُ عِنْدَ هُجُوْمِهَا، وَ تَلْتَبِسُ الْاٰرَآءُ عِنْدَ نُجُوْمِهَا، مَنْ اَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْهُ، وَ مَنْ سَعٰی فِیْهَا حَطَمَتْهُ، یَتَکَادَمُوْنَ فِیْهَا تَکَادُمَ الْحُمُرِ فِی الْعَانَةِ! قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُوْدُ الْحَبْلِ، وَ عَمِیَ وَجْهُ الْاَمْرِ، تَغِیْضُ فِیْهَا الْحِکْمَةُ، وَ تَنْطِقُ فِیْهَا الظَّلَمَةُ، وَ تَدُقُّ اَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا، وَ تَرُضُّهُمْ بِکَلْکَلِهَا! یَضِیْعُ فِیْ غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ، وَ یَهْلِکُ فِیْ طَرِیْقِهَا الرُّکْبَانُ، تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَآءِ، وَ تَحْلُبُ عَبِیْطَ الدِّمَآءِ، وَ تَثْلِمُ مَنَارَ الدِّیْنِ، وَ تَنْقُضُ عَقْدَ الْیَقِیْنِ، تَهْرُبُ مِنْهَا الْاَکْیَاسُ، وَ تُدَبِّرُهَا الْاَرْجَاسُ، مِرْعَادٌ مِّبْرَاقٌ، کَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ! تُقْطَعُ فِیْهَا الْاَرْحَامُ، وَ یُفَارَقُ عَلَیْهَا الْاِسْلَامُ! بَرِیُّهَا سَقِیْمٌ، وَ ظَاعِنُهَا مُقِیْمٌ!.

اس دور کے بعد ایک فتنہ ایسا آئے گا جو امن و سلامتی کو تہ و بالا کرنے والا اور تباہی مچانے والا اور خلق خدا پر سختی کے ساتھ حملہ آور ہو گا تو بہت سے دل ٹھہراؤ کے بعد ڈانواں ڈول اور بہت سے لوگ (ایمان کی) سلامتی کے بعد گمراہ ہو جائیں گے۔ اس کے حملہ آور ہونے کے وقت خواہشیں بٹ جائیں گی اور اس کے اُبھرنے کے وقت رائیں مشتبہ ہو جائیں گی۔ جو اس فتنہ کی طرف جھک کر دیکھے گا وہ اسے تباہ کر دے گا اور جو اس میں سعی و کوشش کرے گا اسے جڑ بنیاد سے اکھیڑ دے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹنے لگیں گے جس طرح وحشی گدھے اپنی بھیڑ میں ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ اسلام کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل جائیں گے، صحیح طریق کار چھپ جائے گا، حکمت کا پانی خشک ہو جائے گا اور ظالموں کی زبان کھل جائے گی۔ وہ فتنہ بادیہ نشینوں کو اپنے ہتھوڑوں سے کچل دے گا اور اپنے سینہ سے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اس کے گرد و غبار میں اکیلے دوکیلے تباہ و برباد ہو جائیں گے اور سوار اس کی راہوں میں ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ حکم الہٰی کی تلخیاں لے کر آئے گا اور (دودھ کے بجائے) خالص خون دوہے گا۔ دین کے میناروں کو ڈھا دے گا اور یقین کے اصولوں کو توڑ دے گا۔ عقلمند اس سے بھاگیں گے اور شر پسند اس کے کرتا دھرتا ہوں گے۔ وہ گرجنے اور چمکنے والا ہو گا اور پورے زوروں کے ساتھ سامنے آئے گا۔ سب رشتے ناطے اس میں توڑ دئیے جائیں گے اور اسلام سے علیحدگی اختیار کر لی جائے گی۔ اس سے الگ تھلگ رہنے والا بھی اس میں مبتلا ہو جائے گا اور اس سے نکل بھاگنے والا بھی اپنے قدم اس سے باہر نہ نکال سکے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے (جس میں ایمان والوں کی حالت کا ذکر ہے)]

بَیْنَ قَتِیْلٍ مَّطْلُوْلٍ، وَ خَآئِفٍ مُّسْتَجِیْرٍ، یُخْتَلُوْنَ بِعَقْدِ الْاَیْمَانِ وَ بِغُرُوْرِ الْاِیْمَانِ، فَلَا تَکُوْنُوْۤا اَنْصَابَ الْفِتَنِ، وَ اَعْلَامَ الْبِدَعِ، وَ الْزَمُوْا مَا عُقِدَ عَلَیْهِ حَبْلُ الْجَمَاعَةِ، وَ بُنِیَتْ عَلَیْهِ اَرْکَانُ الطَّاعَةِ، وَ اقْدَمُوْا عَلَی اللهِ مَظْلُوْمِیْنَ، وَ لَا تَقْدَمُوْا عَلَیْهِ ظَالِـمِیْنَ، وَ اتَّقُوْا مَدَارِجَ الشَّیْطٰنِ وَ مَهَابِطَ الْعُدْوَانِ، وَ لَا تُدْخِلُوْا بُطُوْنَکُمْ لُعَقَ الْحَرَامِ، فَاِنَّکُمْ بِعَیْنِ مَنْ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَعْصِیَةَ، وَ سَهَّلَ لَکُمْ سُبُلَ الطَّاعَةِ.

کچھ تو ان میں سے شہید ہوں گے کہ جن کا بدلہ نہ لیا جا سکے گا اور کچھ خوف زدہ ہوں گے جو اپنے لئے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے۔ انہیں قَسموں اور (ظاہری) ایمان کی فریب کاریوں سے دھوکا دیا جائے گا۔ تم فتنوں کی طرف راہ دکھانے والے نشان اور بدعتوں کے سربراہ نہ بنو۔ تم (ایمان والی) جماعت کے اصولوں اور ان کی عبادت و اطاعت کے طور طریقوں پر جمے رہو۔ اللہ کے پاس مظلوم بن کر جاؤ ظالم بن کر نہ جاؤ۔ شیطان کی راہوں اور تمرد و سرکشی کے مقاموں سے بچو۔ اپنے پیٹ میں حرام کے لقمے نہ ڈالو۔ اس لئے کہ تم اس کی نظروں کے سامنے ہو جس نے معصیت و خطا کو تمہارے لئے حرام کیا ہے اور اطاعت کی راہیں آسان کر دی ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:27
عون نقوی

فِی الْمَلَاحِمِ

(حوادث کے بارے میں)

وَ اَخَذُوْا یَمِیْنًا وَّ شِمَالًا ظَعْنًا فِیْ مَسَالِکِ الْغَیِّ، وَ تَرْکًا لِّمَذَاهِبِ الرُّشْدِ. فَلَا تَسْتَعْجِلُوْا مَا هُوَ کَـآئِنٌ مُّرْصَدٌ، وَ لَا تَسْتَبْطِئُوْا مَا یَجِیْٓءُ بِهِ الْغَدُ. فَکَمْ مِّنْ مُّسْتَعْجِلٍۭ بِمَاۤ اِنْ اَدْرَکَهٗ وَدَّ اَنَّهٗ لَمْ یُدْرِکْهُ. وَ مَاۤ اَقْرَبَ الْیَوْمَ مِنْ تَبَاشِیْرِ غَدٍ!.

(وہ لوگ) گمراہی کے راستوں پر لگ کر اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر (افراط و تفریط کے) دائیں بائیں راستوں پر ہو لئے ہیں۔ جو بات کہ ہو کر رہنے والی اور محل انتظار میں ہو اس کیلئے جلدی نہ مچاؤ اور جسے ’’کل‘‘ اپنے ساتھ لئے آ رہا ہے اس کی دوری محسوس کرتے ہوئے ناگواری ظاہر نہ کرو۔ بہتیرے لوگ ایسے ہیں کہ جو کسی چیز کیلئے جلدی مچاتے ہیں اور جب اسے پا لیتے ہیں تو پھر یہ چاہنے لگتے ہیں کہ اسے نہ ہی پاتے تو اچھا تھا۔ ’’آج‘‘ آنے والے ’’کل‘‘ کے اجالوں سے کتنا قریب ہے۔

یَا قَوْمِ! هذَاۤ اِبَّانُ وُرُوْدِ کُلِّ مَوْعُوْدٍ، وَ دُنُوٍّ مِّنْ طَلْعَةِ مَا لَا تَعْرِفُوْنَ.

اے میری قوم! یہی تو وعدہ کی ہوئی چیزوں کے آنے اور ان فتنوں کے نمایاں ہو کر قریب ہونے کا زمانہ ہے کہ جن سے ابھی تم آگاہ نہیں ہو۔

اَلَا وَ اِنَّ مَنْ اَدْرَکَهَا مِنَّا یَسْرِیْ فِیْهَا بِسِرَاجٍ مُّنِیْرٍ، وَ یَحْذُوْ فِیْهَا عَلٰی مِثَالِ الصَّالِحِیْنَ، لِیَحُلَّ فِیْهَا رِبْقًا، وَ یُعْتِقَ رِقًّا، وَ یَصْدَعَ شَعْبًا، وَ یَشْعَبَ صَدْعًا، فِیْ سُتْرَةٍ عَنِ النَّاسِ، لَا یُبْصِرُ الْقَآئِفُ اَثَرَهٗ وَ لَوْ تَابَعَ نَظَرَهٗ. ثُمَّ لَیُشْحَذَنَّ فِیْهَا قَوْمٌ شَحْذَ الْقَیْنِ النَّصْلَ تُجْلٰی بِالتَّنْزِیْلِ اَبْصَارُهُمْ، وَ یُرْمٰی بِالتَّفْسِیْرِ فِیْ مَسَامِعِهِمْ، وَ یُغْبَقُوْنَ کَاْسَ الْحِکْمَةِ بَعْدَ الصَّبُوْحِ!.

دیکھو! ہم (اہلبیتؑ) میں سے جو (ان فتنوں کا دور) پائے گا وہ اس میں (ہدایت کا) چراغ لے کر بڑھے گا اور نیک لوگوں کی راہ و روش پر قدم اٹھائے گا، تاکہ بندھی ہوئی گرہوں کو کھولے اور بندوں کو آزاد کرے اور حسب ضرورت جڑے ہوئے کو توڑے اور ٹوٹے ہوئے کو جوڑے۔ وہ لوگوں کی (نگاہوں سے) پوشیدہ ہو گا۔ کھوج لگانے والے پیہم نظریں جمانے کے باوجود بھی اس کے نقش قدم کو نہ دیکھ سکیں گے- اس وقت ایک قوم کو (حق کی سان پر) اس طرح تیز کیا جائے گا جس طرح لوہار تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے۔ قرآن سے ان کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائے گی اور اس کے مطالب ان کے کانوں میں پڑتے رہیں گے اور حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انہیں صبح و شام پلائے جائیں گے ۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ طَالَ الْاَمَدُ بِهِمْ لِیَسْتَکْمِلُوْا الْخِزْیَ، وَ یَسْتَوْجِبُوا الْغِیَرَ، حَتّٰۤی اِذَا اخْلَوْلَقَ الْاَجَلُ، وَ اسْتَرَاحَ قَوْمٌ اِلَی الْفِتَنِ، وَ اَشَالُوْا عَنْ لَّقَاحِ حَرْبِهِمْ، لَمْ یَمُنُّوْا عَلَی اللهِ بِالصَّبْرِ، وَ لَمْ یَسْتَعْظِمُوْا بَذْلَ اَنْفُسِهِمْ فِی الْحَقِّ، حَتّٰۤی اِذَا وَافَقَ وَارِدُ الْقَضَآءِ انْقِطَاعَ مُدَّةِ الْبَلَآءِ، حَمَلُوْا بَصَآئِرَهُمْ عَلٰۤی اَسْیَافِهِمْ، وَ دَانُوْا لِرَبِّهِمْ بِاَمْرِ وَاعِظِهِمْ، حَتّٰۤی اِذَا قَبَضَ اللهُ رَسُوْلَهٗ ﷺ رَجَعَ قَوْمٌ عَلَی الْاَعْقَابَ، وَ غَالَتْهُمُ السُّبُلُ، وَ اتَّکَلُوْا عَلَی الْوَلَاۗئِجِ، وَ وَصَلُوْا غَیْرَ الرَّحِمِ، وَ هَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِیْ اُمِرُوْا بِمَوَدَّتِهٖ، وَ نَقَلُوا الْبِنَآءَ عَنْ رَّصِّ اَسَاسِهٖ، فَبَنَوْهُ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِهٖ. مَعَادِنُ کُلِّ خَطِیْٓئَةٍ وَّ اَبْوَابُ کُلِّ ضَارِبٍ فِیْ غَمْرَةٍ. قَدْ مَارُوْا فِی الْحَیْرَةِ، وَ ذَهَلُوْا فِی السَّکْرَةِ، عَلٰی سُنَّةٍ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: مِنْ مُّنْقَطِعٍ اِلَی الدُّنْیَا رَاکِنٍ، اَوْ مُفَارِقٍ لِّلدِّیْنِ مُبَایِنٍ.

ان کی (گمراہیوں کا) زمانہ بڑھتا ہی رہا، تاکہ وہ اپنی رسوائیوں کی تکمیل اور سختیوں کا استحقاق پیدا کر لیں۔ یہاں تک کہ جب وہ مدت ختم ہونے کے قریب آ گئی اور ایک (فتنہ انگیز) جماعت فتنوں کا سہارا لے کر بڑھی اور جنگ کی تخم پاشیوں کیلئے کھڑی ہو گئی تو اس وقت (ایمان لانے والے) اپنے صبر و شکیب سے اللہ پر احسان نہیں جتاتے تھے اور نہ حق کی راہ میں جان دینا کوئی بڑا کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حکم قضا نے مصیبت کا زمانہ ختم کر دیا تو انہوں نے بصیرت کے ساتھ تلواریں اٹھا لیں اور اپنے ہادی کے حکم سے اپنے رب کے احکام کی اطاعت کرنے لگے اور جب اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے اٹھا لیا تو ایک گروہ الٹے پیروں پلٹ گیا اور گمراہی کی راہوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا اور وہ اپنے غلط سلط عقیدوں پر بھروسا کر بیٹھا، (قریبیوں کو چھوڑ کر) بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگا اور جن (ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودّت کا حکم دیا گیا تھا انہیں چھوڑ بیٹھا اور (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا جو اس کی جگہ نہ تھی۔ یہی تو گناہوں کے مخزن اور گمراہی میں بھٹکنے والوں کا دروازہ ہیں۔ وہ حیرت و پریشانی میں سرگرداں اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:23
عون نقوی

قَبْلَ مَوْتِهٖ

شہادت سے پہلے فرمایا

اَیُّهَا النَّاسُ! کُلُّ امْرِئٍ لَّاقٍ مَّا یَفِرُّ مِنْهُ فِیْ فِرَارِهٖ، وَ الْاَجَلُ مَسَاقُ النَّفْسِ، وَ الْهَرَبُ مِنْهُ مُوَافَاتُهٗ. کَمْ اَطْرَدْتُّ الْاَیَّامَ اَبْحَثُهَا عَنْ مَّکْنُوْنِ هٰذَا الْاَمْرِ، فَاَبَی اللهُ اِلَّاۤ اِخْفَآءَهٗ، هَیْهَاتَ! عِلْمٌ مَّخْزُوْنٌ!.

اے لوگو! ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے وہی حیات کی منزل منتہا ہے۔ موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ میں نے اس موت کے چھپے ہوئے بھیدوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزارا مگر مشیت ایزدی یہی رہی کہ اس کی (تفصیلات) بے نقاب نہ ہوں۔ اس کی منزل تک رسائی کہاں وہ تو ایک پوشیدہ علم ہے۔

اَمَّا وَصِیَّتِیْ: فَاللهُ لَا تُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ ﷺ فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ، وَ خَلَاکُمْ ذَمٌّ مَّالَمْ تَشْرُدُوْا. حُمِّلَ کُلُّ امْرِئٍ مَّجْهُوْدَهٗ، وَ خُفِّفَ عَنِ الْجَهَلَةِ، رَبٌّ رَّحِیْمٌ، وَ دِیْنٌ قَوِیْمٌ، وَ اِمَامٌ عَلِیْمٌ.

تو ہاں میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ اور محمد ﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرو۔ ان دونوں ستونوں کو قائم و برقرار رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن کئے رہو۔ جب تک منتشر و پراگندہ نہیں ہوتے تم میں کوئی برائی نہیں آئے گی۔ تم میں سے ہر شخص اپنی وسعت بھر بوجھ اٹھائے۔ نہ جاننے والوں کا بوجھ بھی ہلکا رکھا گیا ہے۔ (کیونکہ) اللہ رحم کرنے والا، دین سیدھا (کہ جس میں کوئی الجھاؤ نہیں) اور پیغمبرؐ عالم و دانا ہے۔

اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُکُمْ، وَ اَنَا الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّکُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُکُمْ! غَفَرَ اللهُ لِیْ وَ لَکُمْ! اِنْ تَثْبُتِ الْوَطْاَةُ فِیْ هٰذِهِ الْمَزَلَّةِ فَذَاکَ، وَ اِنْ تَدْحَضِ الْقَدَمُ فَاِنَّا کُنَّا فِیْۤ اَفْیَآءِ اَغْصَانٍ، وَ مَهَابِّ رِیَاحٍ، وَ تَحْتَ ظِلِّ غَمَامٍ، اضْمَحَلَّ فِی الْجَوِّ مُتَلَفِّقُهَا، وَ عَفَا فِی الْاَرْضِ مَخَطُّهَا.

میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بنا ہوا ہوں اور کل تم سے چھوٹ جاؤں گا۔ خدا مجھے اور تمہیں مغفرت عطا کرے۔ اگر اس پھسلنے کی جگہ پر قدم جمے رہے تو خیر اور اگر قدموں کا جماؤ اکھڑ گیا تو ہم بھی انہی (گھنی) شاخوں کی چھاؤں، ہوا کی گزرگاہوں اور چھائے ہوئے ابر کے سایوں میں تھے، (لیکن) اس کے تہ بہ تہ جمے ہوئے لکے چھٹ گئے اور ہوا کے نشانات مٹ مٹا گئے۔

وَ اِنَّمَا کُنْتُ جَارًا جَاوَرَکُمْ بَدَنِیْۤ اَیَّامًا، وَ سَتُعْقَبُوْنَ مِنِّیْ جُثَّةً خَلَآءً: سَاکِنَةًۢ بَعْدَ حَرَاکٍ، وَ صَامِتَةًۢ بَعْدَ نُطْقٍ، لِیَعِظْکُمْ هُدُوِّیْ، وَ خُفُوْتُ اِطْرَاقِیْ، وَ سُکُوْنُ اَطْرَافِیْ، فَاِنَّهٗ اَوْعَظُ لِلْمُعْتَبِرِیْنَ مِنَ الْمَنْطِقِ الْبَلِیْغِ وَ الْقَوْلِ الْمَسْمُوْعِ، وَ دَاعِیْکُمْ وَدَاعُ امْرِئٍ مُّرْصِدٍ لِّلتَّلَاقِیْ! غَدًا تَرَوْنَ اَیَّامِیْ، وَ یُکْشَفُ لَکُمْ عَنْ سَرَآئِرِیْ، وَ تَعْرِفُوْنَنِیْ بَعْدَ خُلُوِّ مَکَانِیْ وَ قِیَامِ غَیْرِیْ مَقَامِیْ.

میں تمہارا ہمسایہ تھا کہ میرا جسم چند دن تمہارے پڑوس میں رہا اور میرے مرنے کے بعد مجھے جسدِ بے روح پاؤ گے کہ جو حرکت کرنے کے بعد تھم گیا اور بولنے کے بعد خاموش ہو گیا، تاکہ میرا یہ سکون اور ٹھہراؤ اور آنکھوں کا مندھ جانا اور ہاتھ پیروں کا بے حس و حرکت ہو جانا تمہیں پند و نصیحت کرے، کیونکہ عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے یہ (منظر) بلیغ کلموں اور کان میں پڑنے والی باتوں سے زیادہ موعظت و عبرت دلانے والا ہوتا ہے- میں تم سے اس طرح رخصت ہو رہا ہوں جیسے کوئی شخص (کسی کی) ملاقات کیلئے چشم براہ ہو۔ کل تم میرے اس دور کو یاد کرو گے اور میری نیتیں کھل کر تمہارے سامنے آ جائیں گی اور میری جگہ کے خالی ہونے اور دوسروں کے اس مقام پر آنے سے تمہیں میری قدر و منزلت کی پہچان ہو گی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:19
عون نقوی

فِیْ ذِکْرِ اَهْلِ الْبَصْرَةِ

(اہل بصرہ کے بارے میں)

کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا یَرْجُو الْاَمْرَ لَهٗ، وَ یَعْطِفُهٗ عَلَیْهِ دُوْنَ صَاحِبِهٖ، لَا یَمُتَّانِ اِلَی اللهِ بِحَبْلٍ، وَ لَا یَمُدَّانِ اِلَیْهِ بِسَبَبٍ. کُلُّ واحِدٍ مِّنْهُمَا حَامِلُ ضَبٍّ لِّصَاحِبِهٖ، وَ عَمَّا قَلِیْلٍ یُّکْشَفُ قِنَاعُهٗ بِهٖ!.

ان دونوں (طلحہ و زبیر) میں سے ہر ایک اپنے لئے خلافت کا امیدوار ہے اور اسے اپنی ہی طرف موڑ کر لانا چاہتا ہے، نہ اپنے ساتھی کی طرف۔ وہ اللہ کی طرف کسی وسیلہ سے توسل نہیں ڈھونڈتے اور نہ کوئی ذریعہ لے کر اس کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف سے (دلوں میں) کینہ لئے ہوئے ہیں اور جلد ہی اس سلسلے میں بے نقاب ہو جائیں گے۔

وَاللهِ! لَئِنْ اَصَابُوا الَّذِیْ یُرِیْدُوْنَ لَیَنْتَزِعَنَّ هٰذَا نَفْسَ هٰذَا، وَ لَیَاْتِیَنَّ هٰذَا عَلٰی هٰذَا، قَدْ قَامَتِ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، فَاَیْنَ الْمُحْتَسِبُوْنَ؟! قَدْ سُنَّتْ لَهُمُ السُّنَنُ، وَ قُدِّمَ لَهُمُ الْخَبَرُ.

خدا کی قسم! اگر وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائیں تو ایک ان میں دوسرے کو جان ہی سے مار ڈالے اور ختم کرکے ہی دم لے۔ (دیکھو) باغی گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ (اب) کہاں ہیں اجر و ثواب کے چاہنے والے جب کہ حق کی راہیں مقرر ہو چکی ہیں اور یہ خبر انہیں پہلے سے دی جا چکی ہے۔

وَ لِکُلِّ ضَلَّةٍ عِلَّةٌ، وَ لِکُلِّ نَاکِثٍ شُبْهَةٌ. وَاللهِ! لَاۤ اَکُوْنُ کَمُسْتَمِـعِ اللَّدْمِ، یَسْمَعُ النَّاعِیَ، وَ یَحْضُرُ الْبَاکِیَ، ثُمَّ لَا یَعْتَبِرُ!.

ہر گمراہی کیلئے حیلے بہانے ہوا کرتے ہیں اور ہر پیمان شکن (دوسروں کو) اشتباہ میں ڈالنے کیلئے کوئی نہ کوئی بات بنایا کرتا ہے۔ خدا کی قسم! میں اس شخص کی طرح نہیں ہوں گا جو ماتم کی آواز پر کان دھرے، موت کی سنائی دینے والے کی آواز سنے اور رونے والے کے پاس (پرسے کیلئے) بھی جائے اور پھر عبرت حاصل نہ کرے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:16
عون نقوی

فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهٗ مِنْ عِبَادَةِ الْاَوْثَانِ اِلٰی عِبَادَتِهٖ، وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّیْطٰنِ اِلٰی طَاعَتِهٖ، بِقُرْاٰنٍ قَدْ بَیَّنَهٗ وَ اَحْکَمَهٗ، لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ اِذْ جَهِلُوْهُ، وَ لِیُقِرُّوْا بِهٖ بَعْدَ اِذْ جَحَدُوْهُ، وَ لِیُثْبِتُوْهُ بَعْدَ اِذْ اَنْکَرُوْهُ. فَتَجَلّٰی سُبْحَانَهٗ لَهُمْ فِیْ کِتَابِهٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّکُوْنُوْا رَاَوْهُ، بِمَاۤ اَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِهٖ، وَ خَوَّفَهُمْ مِنْ سَطْوَتِهٖ، وَ کَیْفَ مَحَقَ مَنْ مَّحَقَ بِالْمَثُلَاتِ، وَ احْتَصَدَ مَنِ احْتَصَدَ بِالنَّقِمَاتِ!.

اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں، تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔ اللہ ان کے سامنے بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہو قدرت کی (ان نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں اسے مٹانا تھا انہیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنہیں تہس نہس کرنا تھا انہیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کر دیا۔

وَ اِنَّهٗ سَیَاْتِیْ عَلَیْکُمْ مِنْۢ بَعْدِیْ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْهِ شَیْءٌ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ، وَ لَاۤ اَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ لَاۤ اَکْثَرَ مِنَ الْکَذِبِ عَلَی اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ، وَ لَیْسَ عِنْدَ اَهْلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَةٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ، وَ لَاۤ اَنْفَقَ مِنْهُ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ، وَ لَا فِی الْبِلَادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَ لَاۤ اَعْرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ!.

میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گا اور اللہ و رسولؐ پر افترا پردازی کا زور ہو گا۔ اس زمانہ والوں کے نزیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہو گی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہو گی اس وقت جبکہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اور نہ (ان کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی ہو گی۔

فَقَدْ نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُهٗ، وَ تَنَاسَاهُ حَفَظَتُهٗ، فَالْکِتَابُ یَوْمَئِذٍ وَّ اَهْلُهٗ مَنْفِیَّانِ طَرِیْدَانِ، وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِیْ طَرِیْقٍ وَّاحِدٍ لَّا یُؤْوِیْهِمَا مُؤْوٍ، فَالْکِتَابُ وَ اَهْلُهٗ فِیْ ذٰلِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیْهِمْ، وَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَا مَعَهُمْ! لِاَنَّ الضَّلَالَةَ لَا تُوَافِقُ الْهُدٰی وَ اِنِ اجْتَمَعَا.

چنانچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کریں گے اور حفظ کرنے والے اس کی (تعلیم) بھلا بیٹھیں گے اور قرآن اور قرآن والے (اہلبیتؑ) بے گھر اور بے در ہوں گے اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ انہیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہو گا۔ وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ۔ ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق۔ اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یک جا ہوں۔

فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلَی الْفُرْقَةِ وَ افْتَرَقُوْا عَنِ الْجَمَاعَةِ، کَاَنَّهُمْ اَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ اِمَامَهُمْ، فَلَمْ یَبْقَ عِنْدَهُمْ مِنْهُ اِلَّا اسْمُهٗ، وَ لَا یَعْرِفُوْنَ اِلَّا خَطَّهٗ وَ زَبْرَهٗ، وَ مِنْ قَبْلُ مَا مَثَّلُوْا بِالصَّالِحِیْنَ کُلَّ مُثْلَةٍ، وَ سَمَّوْا صِدْقَهُمْ عَلَی اللهِ فِرْیَةً، وَ جَعَلُوْا فِی الْحَسَنَةِ عُقُوْبَةَ السَّیِّئَةِ. وَ اِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِطُوْلِ اٰمَالِهِمْ وَ تَغَیُّبِ اٰجَالِهِمْ، حَتّٰی نَزَلَ بِهِمُ الْمَوْعُوْدُ الَّذِیْ تُرَدُّ عَنْهُ الْمَعْذِرَةُ، و َتُرْفَعُ عَنْهُ التَّوْبَةُ، وَ تَحُلُّ مَعَهُ الْقَارِعَةُ وَ النِّقْمَةُ.

لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کر لیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں۔ گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب ان کی پیشوا نہیں۔ ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط و نقوش کو پہچان سکتے ہیں۔ اس آنے والے دور سے پہلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بہتان رکھ دیا ہو گا اور نیکیوں کے بدلہ میں انہیں بری سزائیں دی ہوں گی۔ تم سے پہلے لوگوں کی تباہی کا سبب یہ ہے کہ وہ امیدوں کے دامن پھیلاتے رہے اور موت کو نظروں سے اوجھل سمجھا کئے، یہاں تک کہ جب وعدہ کی ہوئی (موت) آ گئی تو ان کی معذرت کو ٹھکرا دیا گیا اور توبہ اٹھا لی گئی اور مصیبت و بلا ان پر ٹوٹ پڑی۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ مَنِ اسْتَنْصَحَ اللهَ وُفِّقَ، وَ مَنِ اتَّخَذَ قَوْلَهٗ دَلِیْلًا هُدِیَ ﴿لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ﴾، فَاِنَّ جَارَ اللهِ اٰمِنٌ وَّ عَدُوَّهٗ خَآئِفٌ، وَ اِنَّهٗ لَا یَنْۢبَغِیْ لِمَنْ عَرَفَ عَظَمَةَ اللهِ اَنْ یَّتَعَظَّمَ، فَاِنَّ رِفْعَةَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا عَظَمَتُهٗۤ اَنْ یَّتَوَاضَعُوْا لَهٗ، وَ سَلَامَةَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا قُدْرَتُهٗۤ اَنْ یَّسْتَسْلِمُوْا لَهٗ، فَلَا تَنْفِرُوْا مِنَ الْحَقِّ نِفَارَ الصَّحِیْحِ مِنَ الْاَجْرَبِ، وَ الْبَارِیْ مِنْ ذِی السَّقَمِ.

اے لوگو! جو اللہ سے نصیحت چاہے اسے ہی توفیق نصیب ہوتی ہے اور جو اس کے ارشادات کو رہنما بنائے وہ سیدھے راستہ پر ہو لیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ کی ہمسائیگی میں رہنے والا امن و سلامتی میں ہے اور اس کا دشمن خوف و ہراس میں۔ جو اللہ کی عظمت و جلالت کو پہچان لے اسے کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی عظمت کی نمائش کرے، چونکہ جو اس کی عظمت کو پہچان چکے ہیں ان کی رفعت و بلندی اسی میں ہے کہ اس کے آگے جھک جائیں اور جو اس کی قدرت کو جان چکے ہیں ان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔ حق سے اس طرح بھڑک نہ اٹھو جس طرح صحیح و سالم خارش زدہ سے یا تندرست بیمار سے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ تَرَکَهٗ، وَ لَنْ تَاْخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَقَضَهٗ، وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِهٖ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَبَذَهٗ.

تم ہدایت کو اس وقت تک نہ پہچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور قرآن کے عہد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکتے جب تک اسے دور پھینکنے والے کی شناخت نہ کرلو۔

فَالْتَمِسُوْا ذٰلِکَ مِنْ عِنْدِ اَهْلِهٖ، فَاِنَّهُمْ عَیْشُ الْعِلْمِ، وَ مَوْتُ الْجَهْلِ، هُمُ الَّذِیْنَ یُخْبِرُکُمْ حُکْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ، وَ صَمْتُهُمْ عَنْ مَّنْطِقِهِمْ، وَ ظَاهِرُهُمْ عَنْۢ بَاطِنِهِمْ، لَا یُخَالِفُوْنَ الدِّیْنَ وَ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ، فَهُوَ بَیْنَهُمْ شَاهِدٌ صَادِقٌ، وَ صَامِتٌ نَّاطِقٌ.

جو ہدایت والے ہیں انہی سے ہدایت طلب کرو۔ وہی علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا (دیا ہوا) ہر حکم ان کے علم کا اور ان کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہے۔ وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں نہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں۔ دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ہے اور ایک ایسا بے زبان ہے جو بول رہا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:13
عون نقوی