بصیرت اخبار

لَمَّا قَلَّدَ مُحَمَّدَ بْنَ اَبِیْ بَکْرٍ مِّصْرَ فَمُلِکَتْ عَلَیْهِ وَ قُتِلَ:

محمد ابن ابی بکر کو جب حضرتؑ نے مصر کی حکومت سپرد کی اور نتیجہ میں ان کے خلاف غلبہ حاصل کر لیاگیا اور وہ قتل کر دیے گئے تو حضرتؑ نے فرمایا:

وَ قَدْ اَرَدْتُّ تَوْلِیَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ، وَ لَوْ وَلَّیْتُهٗ اِیَّاهَا لَمَا خَلّٰی لَهُمُ الْعَرْصَةَ، وَ لَاۤ اَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ، بِلَا ذَمٍّ لِّمُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ، فَلَقَدْ کَانَ اِلَیَّ حَبِیْبًا، وَ کَانَ لِیْ رَبِیْبًا.

میں نے تو چاہا تھا کہ ہاشم ابن عتبہ کو مصرکا والی بناؤں اور اگر اسے حاکم بنا دیا ہوتا تو وہ کبھی دشمنوں کیلئے میدان خالی نہ کرتا اور نہ انہیں مہلت دیتا۔ اس سے محمد ابن ابی بکر کی مذمت مقصود نہیں، وہ تو مجھے بہت محبوب اور میرا پروردہ تھا۔


’’محمد ابن ابی بکر‘‘ کی والدہ گرامی اسماء بنت عمیس تھیں جن سے امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد عقد کر لیا تھا۔ چنانچہ محمد نے آپؑ ہی کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی اور آپؑ ہی کے طور طریقوں کو اپنایا۔ امیر المومنین علیہ السلام بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور بمنزلہ اپنے فرزند کے سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: «مُحَمَّدٌ ابْنِیْ مِنْ صُلْبِ اَبِیْ بَکْرٍ» : ’’محمد میرا بیٹا ہے اگرچہ ابو بکر کی صلب سے ہے‘‘۔ سفر حجۃ الوداع میں پیدا ہوئے اور ۳۸ ھء میں اٹھائیس برس کی عمر میں شہادت پائی۔
امیر المومنین ﷺنے مسند خلافت پر آنے کے بعد قیس ابن سعد ابن عبادہ کو مصر کا حکمران منتخب کیا تھا مگر کچھ حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ انہیں معزول کر کے محمد ابن ابی بکر کو وہاں کا والی مقرر کرنا پڑا۔ قیس ابن سعد کی روش یہاں پر یہ تھی کہ وہ عثمانی گروہ کے خلاف متشددانہ قدم اٹھانا مصالح کے خلاف سمجھتے تھے، مگر محمد کا رویہ اس سے مختلف تھا۔ انہوں نے ایک مہینہ گزارنے کے بعد انہیں کہلوا بھیجا کہ اگر تم ہماری اطاعت نہ کرو گے تو تمہارا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس پر ان لوگوں نے ان کے خلاف ایک محاذ بنا لیا اور چپکے چپکے ریشہ دوانیاں کرتے رہے، مگر تحکیم کی قرارداد کے بعد پر پر زے نکالے اور انتقام کا نعرہ لگا کر شر و فساد پھیلانے لگے اور مصر کی فضا کو مکدر کر کے رکھ دیا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کو جب ان بگڑے ہوئے حالات کا علم ہوا تو آپؑ نے مالک ابنِ حارث اشتر کو مصر کی امارت دے کر ادھر روانہ کیا تا کہ وہ مخالف عناصر کو دبا کر نظم و نسق کو بگڑنے نہ دیں۔ مگر اموی کارندوں کی دسیسہ کاریوں سے نہ بچ سکے اور راستے ہی میں شہید کر دیئے گئے اور مصر کی حکومت محمد ہی کے ہاتھوں میں رہی۔
ادھر تحکیم کے سلسلہ میں عمرو ابن عاص کی کارکردگی نے معاویہ کو اپنا وعدہ یاد دلایا۔ چنانچہ اس نے چھ ہزار جنگ آزما اس کے سپرد کر کے مصر پر دھاوا بولنے کیلئے اسے روانہ کیا۔ محمد ابن ابی بکر نے جب دشمن کی بڑھتی ہوئی یلغار کو دیکھا تو امیر المومنین علیہ السلام کو کمک کیلئے لکھا۔ حضرتؑ نے جواب دیا کہ تم اپنے آدمیوں کو جمع کرو، میں مزید کمک تمہارے لئے روانہ کیا چاہتا ہوں۔ چنانچہ محمد نے چار ہزار آدمیوں کو اپنے پرچم کے نیچے جمع کیا اور انہیں دو حصوں پر تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ اپنے ساتھ رکھا اور ایک حصہ کا سپہ سالار بشر بن کنانہ کو بنا کر دشمن کی روک تھام کیلئے آگے بھیج دیا۔ جب یہ فوج دشمن کے سامنے پڑاؤ ڈال کر اتر پڑی، تو ان کی مختلف ٹولیوں نے ان پر چھاپے مارنے شروع کر دیئے، جنہیں یہ اپنی جرأت و ہمت سے روکتے رہے۔ آخر معاویہ ابن خدیج کندی نے پوری فوج کے ساتھ حملہ کر دیا، مگر ان سرفروشوں نے تلواروں سے منہ نہ موڑا اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس شکست کا اثر یہ ہوا کہ محمد ابن ابی بکر کے ساتھی ہراساں ہو گئے اور ان کا ساتھ چھوڑ کر چلتے بنے۔ محمد نے جب اپنے کو اکیلا پایا تو بھاگ کر ایک خرابے میں پناہ لی، مگر دشمنوں کو ایک شخص کے ذریعہ ان کا پتہ مل گیا اور انہوں نے اس حالت میں انہیں آ لیا کہ یہ پیاس سے قریب بہ ہلاکت پہنچ چکے تھے۔ محمد نے پانی کی خواہش کی تو ان سنگدلوں نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور اسی تشنگی کے عالم میں انہیں شہید کر دیا اور ان کی لاش کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کر جلا دیا۔
کوفہ سے مالک ابنِ کعب ارجی دو ہزار آدمیوں کو لے کر نکل چکے تھے، مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن مصر پر قبضہ کر چکا تھا۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 18:34
عون نقوی

کَانَ یَقُوْلُهٗ لِاَصْحَابِهٖ فِىْ بِعْضِ اَیَّامِ صِفِّیْنَ

صفین کے دنوں میں اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِیْنَ! اسْتَشْعِرُوا الْخَشْیَةَ، وَ تَجَلْبَبُوا السَّکِیْنَةَ، وَ عَضُّوْا عَلٰی النَّوَاجِذِ، فَاِنَّهٗۤ اَنْۢبٰی لِلْسُّیُوْفِ عَنِ الْهَامِ.

اے گروهِ مسلمین! خوفِ خدا کو اپنا شعار بناؤ، اطمینان و وقار کی چادر اوڑھ لو اور اپنے دانتوں کو بھینچ لو۔ اس سے تلواریں سروں سے اُچٹ جایا کرتی ہیں۔

وَ اَکْمِلُوا اللَّاْمَةَ، وَ قَلْقِلُوْا السُّیُوْفَ فِیْۤ اَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا. وَ الْحَظُوا الْخَزْرَ، وَ اطْعُنُوا الشَّزْرَ، وَ نَافِحُوْا بِالظُّبَا، وَ صِلُوا السُّیُوْفَ بِالْخُطَا، وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّکُمْ بِعَیْنِ اللهِ، وَ مَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.

زرّہ کی تکمیل کرو (یعنی اس کے ساتھ خود، جوشن بھی پہن لو) اور تلواروں کو کھینچنے سے پہلے نیاموں میں اچھی طرح ہلا جلا لو اور دشمن کو ترچھی نظروں سے دیکھتے رہو اور دائیں بائیں (دونوں طرف) نیزوں کے وار کرو اور دشمن کو تلواروں کی باڑ پر رکھ لو اور تلواروں کے ساتھ ساتھ قدموں کو آگے بڑھاؤ اور یقین رکھو کہ تم اللہ کے رُو بُرو اور رسول ﷺ کے چچا زاد بھائی کے ساتھ ہو۔

فَعَاوِدُوْا الْکَرَّ، وَ اسْتَحْیُوْا مِنَ الْفَرِّ، فَاِنَّهٗ عَارٌ فِی الْاَعْقَابِ، وَ نَارٌ یَّوْمَ الْحِسَابِ، وَ طِیْبُوْا عَنْ اَنْفُسِکُمْ نَفْسًا، وَ امْشُوْا اِلَی الْمَوْتِ مَشْیًا سُجُحًا، وَ عَلَیْکُمْ بِهٰذَا السَّوَادِ الْاَعْظَمِ، وَ الرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ، فَاضْرِبُوْا ثَبَجَهٗ، فَاِنَّ الشَّیْطٰنَ کَامِنٌ فِیْ کِسْرِهٖ، قَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ یَدًا، وَ اَخَّرَ لِلنُّکُوْصِ رِجْلًا فَصَمْدًا صَمْدًا! حَتّٰی یَنْجَلِیَ لَکُمْ عَمُوْدُ الْحَقِّ، ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ۖۗ وَ اللّٰهُ مَعَکُمْ وَ لَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُم.

بار بار حملہ کرو اور بھاگنے سے شرم کرو۔ اس لئے کہ یہ پشتوں تک کیلئے ننگ و عار اور روزِ محشر جہنم کی آگ کا باعث ہے۔ خوشی سے اپنی جانیں اللہ کو دے دو اور پُر اطمینان رفتار سے موت کی جانب پیش قدمی کرو اور (شامیوں کی) اس بڑی جماعت اور طنابوں سے کھنچے ہوئے خیمے کو اپنے پیشِ نظر رکھو اور اس کے وسط پر حملہ کرو۔ اس لئے کہ شیطان اسی کے ایک گوشے میں چھپا بیٹھا ہے، جس نے ایک طرف تو حملے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہوا ہے اور دوسری طرف بھاگنے کیلئے قدم پیچھے ہٹا رکھا ہے۔ تم مضبوطی سے اپنے ارادے پر جمے رہو، یہاں تک کہ حق (صبح کے) اجالے کی طرح ظاہر ہو جائے۔ (نتیجہ میں) تم ہی غالب ہو اور خدا تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہارے اعمال کو ضائع و برباد نہیں ہونے دے گا۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:32
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَسْبِقْ لَهٗ حَالٌ حَالًا، فَیَکُوْنَ اَوَّلًا قَبْلَ اَنْ یَّکُوْنَ اٰخِرًا، وَ یَکُوْنَ ظَاهِرًا قَبْلَ اَنْ یَّکُوْنَ بَاطِنًا.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جس کی ایک صفت سے دوسری صفت کو تقدم نہیں کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اوّل اور ظاہر ہونے سے پہلے باطن رہا ہو۔

کُلُّ مُسَمًّۢی بِالْوَحْدَةِ غَیْرُهٗ قَلِیْلٌ، وَ کُلُّ عَزِیْزٍ غَیْرُهٗ ذَلِیْلٌ، وَ کُلُّ قَوِیٍّ غَیْرُهٗ ضَعِیْفٌ، وَ کُلُّ مَالِکٍ غَیْرُهٗ مَمْلُوْکٌ، وَ کُلُّ عَالِمٍ غَیْرُهٗ مُتَعَلِّمٌ، وَ کُلُّ قَادِرٍ غَیْرُهٗ یَقْدِرُ وَ یَعْجِزُ، وَ کُلُّ سَمِیْعٍ غَیْرُهٗ یَصَمُّ عَنْ لَّطِیْفِ الْاَصْوَاتِ، وَ یُصِمُّهٗ کَبِیْرُهَا، وَ یَذْهَبُ عَنْهُ مَا بَعُدَ مِنْهَا، وَ کُلُّ بَصِیْرٍ غَیْرُهٗ یَعْمٰی عَنْ خَفِیِّ الْاَلْوَانِ وَ لَطِیْفِ الْاَجْسَامِ، وَ کُلُّ ظَاهِرٍغَیْرُهٗ غَیْرُ بَاطِنٍ، وَ کُلُّ بَاطِنٍ غَیْرُهٗ غَیْرُ ظَاهِرٍ.

اللہ کے علاوہ جسے بھی ایک کہا جائے گا، وہ قلت و کمی میں ہو گا۔ اس کے سوا ہر با عزت ذلیل اور ہر قوی کمزور و عاجز اور ہر مالک مملوک اور ہر جاننے والا سیکھنے والے کی منزل میں ہے۔ اس کے علاوہ ہر قدرت و تسلط والا کبھی قادر ہوتا ہے اور کبھی عاجز اور اس کے علاوہ ہر سننے والا خفیف آوازوں کے سننے سے قاصر ہوتا ہے اور بڑی آوازیں (اپنی گونج سے) اسے بہرا کر دیتی ہیں اور دور کی آوازیں اس تک پہنچتی نہیں ہیں اور اس کے ماسوا ہر دیکھنے والا مخفی رنگوں اور لطیف جسموں کے دیکھنے سے نابینا ہوتا ہے۔ کوئی ظاہر اس کے علاوہ باطن نہیں ہو سکتا اور کوئی باطن اس کے سوا ظاہر نہیں ہو سکتا۔

لَمْ یَخْلُقْ مَا خَلَقَهٗ لِتَشْدِیْدِ سُلْطَانٍ، وَ لَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ، وَ لَا اسْتِعَانَةٍ عَلٰی نِدٍّ مُّثَاوِرٍ، وَ لَا شَرِیْکٍ مُّکَاثِرٍ، وَ لَا ضِدٍّ مُّنَافِرٍ، وَ لٰکِنْ خَلَآئِقُ مَرْبُوْبُوْنَ، وَ عِبَادٌ دَاخِرُوْنَ، لَمْ یَحْلُلْ فِی الْاَشْیَآءِ فَیُقَالَ: هُوَ فِیْهَا کَآئِنٌ، وَ لَمْ یَنْاَ عَنْهَا فَیُقَالَ: هُوَ مِنْهَا بَآئِنٌ.

اس نے اپنی کسی مخلوق کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنے اقتدار کی بنیادوں کو مستحکم کرے یا زمانے کے عواقب و نتائج سے اسے کوئی خطرہ تھا یا کسی برابر والے کے حملہ آور ہونے یا کثرت پر اترانے والے شریک یا بلندی میں ٹکرانے والے مد مقابل کے خلاف اسے مدد حاصل کرنا تھی، بلکہ یہ ساری مخلوق اسی کے قبضے میں ہے اور سب اس کے عاجز و ناتواں بندے ہیں۔ وہ دوسری چیزوں میں سمایا ہوا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان کے اندر ہے اور نہ ان چیزوں سے دور ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ ان چیزوں سے الگ ہے۔

لَمْ یَؤُدْهُ خَلْقُ مَا ابْتَدَاَ، وَ لَا تَدْبِیْرُ مَا ذَرَاَ، وَ لَا وَقَفَ بِهٖ عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ، وَ لَا وَلَجَتْ عَلَیْهِ شُبْهُةٌ فِیْمَا قَضٰی وَ قَدَّرَ، بَلْ قَضَآءٌ مُّتْقَنٌ، وَ عِلْمٌ مُّحْکَمٌ، وَ اَمْرٌ مُّبْرَمٌ. الْمَاْمُوْلُ مَعَ النِّقَمِ، الْمَرْهُوْبُ مَعَ النِّعَمِ.

ایجادِ خلق اور تدبیر ِعالم نے اسے خستہ و درماندہ نہیں کیا اور نہ (حسب منشا) چیزوں کے پیدا کرنے سے عجز اسے دامن گیر ہوا ہے اور نہ اسے اپنے فیصلوں اور اندازوں میں شبہ لاحق ہوا ہے، بلکہ اس کے فیصلے مضبوط، علم محکم اور احکام قطعی ہیں۔ مصیبت کے وقت بھی اسی کی آس رہتی ہے اور نعمت کے وقت بھی اس کا ڈر لگا رہتا ہے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:26
عون نقوی

وَ اتَّقُوا اللهَ عِبَادَ اللهِ، وَ بَادِرُوْا اٰجَالَکُمْ بِاَعْمَالِکُمْ، وَ ابْتَاعُوْا مَا یَبْقٰی لَکُمْ بِمَا یَزُوْلُ عَنْکُمْ، وَ تَرَحَّلُوْا فَقَدْ جُدَّ بِکُمْ، وَ اسْتَعِدُّوْا لِلْمَوْتِ فَقَدْ اَظَلَّکُمْ، وَ کُوْنُوْا قَوْمًا صِیْحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوْا، وَ عَلِمُوْا اَنَّ الدُّنْیَا لَیْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوْا، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَخْلُقْکُمْ عَبَثًا، وَ لَمْ یَتْرُکْکُّمْ سُدًی، وَ مَا بَیْنَ اَحَدِکُمْ وَ بَیْنَ الْجَنَّةِ اَوِ النَّارِ اِلَّا الْمَوْتُ اَنْ یَّنْزِلَ بِهٖ.

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور موت سے پہلے اپنے اعمال کا ذخیرہ فراہم کر لو، اور دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔ چلنے کا سامان کرو کیونکہ تمہیں تیزی سے لے جایا جا رہا ہے اور موت کیلئے آمادہ ہو جاؤ کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ تمہیں ایسے لوگ ہونا چاہیے جنہیں پکارا گیا تو وہ جاگ اٹھے اور یہ جان لینے پر کہ دنیا ان کا گھر نہیں ہے، اسے (آخرت سے) بدل لیا ہو۔ اس لئے کہ اللہ نے تمہیں بیکار پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمہیں بے قید و بند چھوڑ دیا ہے۔ موت تمہاری راہ میں حائل ہے۔ اس کے آتے ہی تمہارے لئے جنت ہے یا دوزخ ہے۔

وَ اِنَّ غَایَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ، وَ تَهْدِمُهَا السَّاعَةُ، لَجَدِیْرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ، وَ اِنَّ غَآئِبًا یَّحْدُوْهُ الْجَدِیْدَانِ: اللَّیْلُ وَ النَّهَارُ، لَحَرِیٌّۢ بِسُرْعَةِ الْاَوْبَةِ، وَ اِنَّ قَادِمًا یَّقْدَمُ بِالفَوْزِ اَوِ الشِّقْوَةِ لَمُسْتَحِقٌّ لِّاَفْضَلِ الْعُدَّةِ، فَتَزَوَّدُوْا فِی الدُّنْیَا مِنَ الدُّنْیَا، مَا تُحْرِزُوْنَ بِهٖۤ اَنْفُسَکُمْ غَدًا. فَاتَّقٰی عَبْدٌ رَبَّهٗ، وَ نَصَحَ نَفْسَهٗ، وَ قَدَّمَ تَوْبَتَهٗ، وَ غَلَبَ شَهْوَتَهٗ، فَاِنَّ اَجَلَهٗ مَسْتُوْرٌ عَنْهُ، وَ اَمَلَهٗ خَادِعٌ لَّهٗ، وَ الشَّیْطٰنُ مُوَکَّلٌۢ بِهٖ، یُزَیِّنُ لَهُ الْمَعْصِیَةَ لِیَرْکَبَهَا، وَ یُمَنِّیْهِ التَّوْبَةَ لِیُسَوِّفَهَا، حَتّٰی تَهْجُمَ مَنِیَّتُهٗ عَلَیْهِ اَغْفَلَ مَا یَکُوْنُ عَنْهَا.

وہ مدتِ حیات جسے ہر گزرنے والا لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو ڈھا رہی ہو، کم ہی سمجھی جانے کے لائق ہے اور وہ مسافر جسے ہر نیا دن اور ہر نئی رات (لگاتار) کھینچے لئے جا رہے ہوں، اس کا منزل تک پہنچنا جلد ہی سمجھنا چاہیے اور وہ عازمِ سفر جس کے سامنے ہمیشہ کی کامرانی یا ناکامی کا سوال ہے، اس کو اچھے سے اچھا زاد مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا توشۂ آخرت لے لو جس کے ذریعہ کل اپنے نفسوں کو بچا سکو جس کی صورت یہ ہے کہ بندہ اپنے اللہ سے ڈرے۔ اپنے نفس کے ساتھ خیرخواہی کرے، (مرنے سے پہلے) توبہ کرے اپنی خواہشوں پر قابو رکھے، چونکہ موت اس کی نگاہ سے اوجھل ہے اور امیدیں فریب دینے والی ہیں اور شیطان اس پر چھایا ہوا ہے، جو گناہوں کو سجا کر اس کے سامنے لاتا ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہو اور توبہ کی ڈھارس بندھاتا رہتا ہے کہ وہ اسے تعویق میں ڈالتا رہے۔ یہاں تک کہ موت غفلت و بیخبری کی حالت میں اس پر اچانک ٹوٹ پڑتی ہے۔

فَیَا لَهَا حَسْرَةً عَلٰی ذِیْ غَفْلَةٍ اَنْ یَّکُوْنَ عُمُرُهٗ عَلَیْهِ حُجَّةً، وَ اَنْ تُؤَدِّیَهٗ اَیَّامُهٗ اِلَی الشِّقْوَةِ! نَسْئَلُ اللهَ سُبْحَانَهٗ اَنْ یَّجْعَلَنَا وَ اِیَّاکُمْ مِمَّنْ لَّا تُبْطِرُهٗ نِعْمَةٌ، وَ لَا تُقَصِّرُ بِهٖ عَنْ طَاعَةِ رَبِّهٖ غَایَةٌ، وَ لَا تَحُلُّ بِهٖ بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ وَّ لَا کَاٰبَةٌ.

وا حسرتا! کہ اس غافل و بے خبر کی مدت حیات ہی اس کے خلاف ایک حجت بن جائے اور اس کی زندگی کا انجام بد بختی کی صورت میں ہو۔ ہم اللہ سُبحانہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمہیں ایسا کر دے کہ (دنیا کی) نعمتیں سرکش و متمرد نہ بنا سکیں اور کسی منزل پر اطاعت ِپروردگار سے درماندہ و عاجز نہ ہوں اور مرنے کے بعد نہ شرمساری اٹھانا پڑے اور نہ رنج و غم سہنا پڑے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:11
عون نقوی

اَلَا وَ اِنَّ الدُّنْیَا دَارٌ لَّا یُسْلَمُ مِنْهَا اِلَّا فِیْهَا، وَ لَا یُنْجٰى بِشَیْ‏ءٍ کَانَ لَهَا. ابْتُلِیَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً، فَمَاۤ اَخَذُوْهُ مِنْهَا لَهَا اُخْرِجُوْا مِنْهُ وَ حُوسِبُوْا عَلَیْهِ، وَ مَاۤ اَخَذُوْهُ مِنْهَا لِغَیْرِهَا قَدِمُوْا عَلَیْهِ وَ اَقَامُوْا فِیْهِ، فَاِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُوْلِ کَفَیْ‏ءِ الظِّلِّ،بَیْنَا تَرَاهُ سَابِغًا حَتّٰى قَلَصَ، وَ زَآئِدًا حَتّٰى نَقَصَ‏.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا ایسا گھر ہے کہ اس (کے عواقب) سے بچاؤ کا ساز و سامان اسی میں رہ کر کیا جا سکتا ہے اور کسی ایسے کام سے جو صرف اسی دنیا کی خاطر کیا جائے نجات نہیں مل سکتی۔ لوگ اس دنیا میں آزمائش میں ڈالے گئے ہیں۔ لوگوں نے اس دنیا سے جو دنیا کیلئے حاصل کیا ہو گا اس سے الگ کر دئیے جائیں گے اور اس پر ان سے حساب لیا جائے گا اور جو اس دنیا سے آخرت کیلئے کمایا ہو گا اسے آگے پہنچ کر پا لیں گے اور اسی میں رہیں سہیں گے۔ دنیا عقلمندوں کے نزدیک ایک بڑھتا ہوا سایہ ہے، جسے ابھی بڑھا ہوا اور پھیلا ہوا دیکھ رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھٹ کر اور سمٹ کر رہ گیا۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:07
عون نقوی