بصیرت اخبار

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْاَوَّلِ فَلَا شَیْءَ قَبْلَهٗ، وَالْاٰخِرِ فَلَا شَیْءَ بَعْدَهٗ، وَ الظَّاهِرِ فَلَا شَیْءَ فَوْقَهٗ، وَ الْبَاطِنِ فَلَا شَیْءَ دُوْنَهٗ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اوّل ہے اور کوئی شے اس سے پہلے نہیں اور آخر ہے اور کوئی چیز اس کے بعد نہیں۔ وہ ظاہر ہے اور کوئی شے اس سے بالاتر نہیں اور باطن ہے اور کوئی چیز اس سے قریب تر نہیں۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ الرَّسُوْلِ ﷺ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں رسول ﷺ کا ذکر فرمایا]

مُسْتَقَرُّهٗ خَیْرُ مُسْتَقَرٍّ، وَ مَنْۢبِتُهٗۤ اَشْرَفُ مَنْۢبِتٍ، فِیْ مَعَادِنِ الْکَرَامَةِ، وَ مَمَاهِدِ السَّلَامَةِ، قَدْ صُرِفَتْ نَحْوَهٗۤ اَفْئِدَةُ الْاَبْرَارِ، وَ ثُنِیَتْ اِلَیْهِ اَزِمَّةُ الْاَبْصَارِ، دَفَنَ اللهُ بِهِ الضَّغَآئِنَ، وَ اَطْفَاَ بِهِ الثَّوَآئِرَ، وَ اَلَّفَ بِهٖۤ اِخْوَانًا، وَ فَرَّقَ بِهٖۤ اَقْرَانًا، اَعَزَّ بِهِ الذِّلَّةَ، وَ اَذَلَّ بِهِ الْعِزَّةَ، کَلَامُهٗ بَیَانٌ، وَ صَمْتُهٗ لِسَانٌ.

بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں ان کا مقام بہترین مقام اور مرزبوم بہترین مرزبوم ہے۔ ان کی طرف نیک لوگوں کے دل جھکا دیئے گئے ہیں اور نگاہوں کے رخ موڑ دیئے گئے ہیں۔ خدا نے ان کی وجہ سے فتنے دبا دیئے اور (عداوتوں کے) شعلے بجھا دئیے، بھائیوں میں الفت پیدا کی اور جو (کفر میں) اکٹھے تھے، انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا، (اسلام کی) پستی و ذلت کو عزت بخشی اور (کفر کی) عزت و بلندی کو ذلیل کر دیا۔ ان کا کلام (شریعت کا) بیان اور سکوت (احکام کی) زبان تھی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:08
عون نقوی

پوری دنیا میں صرف ایک ایسا بندہ دکھائیں جو

دنیا کی مقتدر طاقتوں سے انقلابی زبان
سیاستدانوں سے ڈپلومیسی کی زبان
علماء و فقہاء سے درس کی زبان
حکومتی عہدے داروں سے سیاسی زبان
یونیورسٹی کے طلاب سے علمی زبان
اداکاروں اور شعبہ نشرو اشاعت سے ہنری زبان
شہدا کی فیملی سے مہربانی کی زبان
یتیموں سے ایک مہربان باپ کی زبان
اور نوبلوغ بچیوں سے بچوں کی زبان بولتا ہو۔

یہ افتخار صرف امت مسلمہ کو حاصل ہے کہ اس کا اتنا دقیق و فصیح و بلیغ عالم رہبر ہے۔



 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 February 23 ، 12:21
عون نقوی

فَتَبَارَکَ اللهُ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ حَدْسُ الْفِطَنِ، الْاَوَّلُ الَّذِیْ لَا غَایَةَ لَهٗ فَیَنْتَهِیَ، وَ لَاۤ اٰخِرَ لَهٗ فَیَنْقَضِیَ.

با برکت ہے وہ خدا کہ جس کی ذات تک بلند پرواز ہمتوں کی رسائی نہیں اور نہ عقل و فہم کی قوتیں اسے پا سکتی ہیں۔ وہ ایسا اوّل ہے کہ جس کیلئے نہ کوئی نقطۂ ابتدا ہے کہ وہ محدود ہو جائے اور نہ کوئی اس کا آخر ہے کہ (وہاں پہنچ کر) ختم ہو جائے۔

[مِنْهَا: فِیْ وَصْفِ الْاَنْۢبِیَآءِ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں (انبیاءؑ کے بارے میں) فرمایا]

فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِیْۤ اَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ، وَ اَقَرَّهُمْ فِیْ خَیْرِ مُسْتَقَرٍّ، تَنَاسَخَتْهُمْ کَرَآئِمُ الْاَصْلَابِ اِلٰی مُطَهَّرَاتِ الْاَرْحَامِ، کُلَّمَا مَضٰی مِنْهُمْ سَلَفٌ، قَامَ مِنْهُمْ بِدِیْنِ اللهِ خَلَفٌ.

اس نے ان (انبیاءؑ) کو بہترین سونپے جانے کی جگہوں میں رکھا اور بہترین ٹھکانوں میں ٹھہرایا۔ وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی گزر جانے والا گزر گیا، دوسرا دین خدا کو لے کر کھڑا ہو گیا۔

حَتّٰۤی اَفْضَتْ کَرَامَةُ اللهِ سُبْحَانَهٗ اِلٰی مُحَمَّدٍ ﷺ، فَاَخْرَجَهٗ مِنْ اَفْضَلِ الْمَعَادِنِ مَنْۢبِتًا وَّ اَعَزِّ الْاُرُوْمَاتِ مَغْرِسًا، مِنَ الشَّجَرَةِ الَّتِیْ صَدَعَ مِنْهَا اَنْۢبِیَآئَهٗ، وَ انْتَخَبَ مِنْهَاۤ اُمَنَآئَهٗ.

یہاں تک کہ یہ الٰہی شرف محمد ﷺ تک پہنچا جنہیں ایسے معدنوں سے کہ جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین اور ایسی اصلوں سے کہ جو نشو و نما کے لحاظ سے بہت باوقار تھیں، پیدا کیا، اسی شجرہ سے کہ جس سے انبیاءؑ پیدا کئے اور جس میں سے اپنے امین منتخب فرمائے۔

عِتْرَتُهٗ خَیْرُ الْعِتَرِ، وَ اُسْرَتُهٗ خَیْرُ الْاُسَرِ، وَ شَجَرَتُهٗ خَیْرُ الشَّجَرِ، نَبَتَتْ فِیْ حَرَمٍ، وَ بَسَقَتْ فِیْ کَرَمٍ، لَهَا فُرُوْعٌ طِوَالٌ، وَ ثَمَرَۃٌ لَّا تُنَالُ.

ان کی عترت بہترین عترت اور قبیلہ بہترین قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے، جو سر زمین حرم پر اُگا اور بزرگی کے سایہ میں بڑھا، جس کی شاخیں دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں۔

فَهُوَ اِمَامُ مَنِ اتَّقٰی، وَ بَصِیْرَةُ مَنِ اهْتَدٰی، سِرَاجٌ لَّمَعَ ضَوْئُهٗ، وَ شِهَابٌ سَطَعَ نُوْرُهٗ، وَ زَنْدٌۢ بَرَقَ لَمْعُهٗ، سِیْرَتُهُ الْقَصْدُ، وَ سُنَّتُهُ الرُّشْدُ، وَ کَلَامُهُ الْفَصْلُ، وَ حُکْمُهُ الْعَدْلُ، اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ هَفْوَةٍ عَنِ الْعَمَلِ، وَ غَبَاوَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ.

وہ پرہیز گاروں کے امام اور ہدایت حاصل کرنے والوں کیلئے (سر چشمہ) بصیرت ہیں۔ وہ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لو دیتی ہے اور ایسا روشن ستارہ جس کا نور ضیا پاش اور ایسا چقماق جس کی ضو شعلہ فشاں ہے۔ ان کی سیرت (افراط و تفریط سے بچ کر) سیدھی راہ پر چلنا اور سنت ہدایت کرنا ہے۔ ان کا کلام حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا اور حکم عین عدل ہے۔ اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا کہ جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا، بد عملی پھیلی ہوئی اور اُمتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی۔

اِعْمَلُوْا، رَحِمَکُمُ اللهُ! عَلٰۤی اَعْلَامٍۭ بَیِّنَةٍ، فَالطَّرِیْقُ نَهْجٌ یَّدْعُوْ اِلٰی دَارِ السَّلَامِ، وَ اَنْتُمْ فِیْ دَارِ مُسْتَعْتَبٍ عَلٰی مَهَلٍ وَ فَرَاغٍ، وَ الصُّحُفُ مَنْشُوْرَةٌ، وَ الْاَقْلَامُ جَارِیَةٌ، وَ الْاَبْدَانُ صَحِیْحَةٌ، وَ الْاَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ، وَ التَّوْبَةُ مَسْمُوْعَةٌ، وَ الْاَعْمَالُ مَقْبُوْلَةٌ.

اللہ تم پر رحم کرے! روشن نشانوں پر جم کر عمل کرو۔ راستہ بالکل سیدھا ہے۔ وہ تمہیں سلامتیوں کے گھر (جنت) کی طرف بلا رہا ہے اور ابھی تم ایسے گھر میں ہو کہ جہاں تمہیں اتنی مہلت و فراغت ہے کہ اس کی خوشنودیاں حاصل کر سکو۔ (ابھی موقعہ ہے، چونکہ) اعمال نامے کھلے ہوئے ہیں، قلم چل رہے ہیں، بدن تندرست و توانا ہیں، زبان آزاد ہے، توبہ سنی جا سکتی ہے اور اعمال قبول کئے جا سکتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:19
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! اَیُّهَا النَّاسُ! فَاَنَا فَقَاْتُ عَیْنَ الْفِتْنَةِ، وَ لَمْ یَکُنْ لِّیَجْتَرِئَ عَلَیْهَاۤ اَحَدٌ غَیْرِیْ بَعْدَ اَنْ مَّاجَ غَیْهَبُهَا، وَ اشْتَدَّ کَلَبُهَا.

اے لوگو! [۱] میں نے فتنہ و شر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں اور (دیوانے کتوں کی طرح) اس کی دیوانگی زوروں پر تھی تو میرے علاوہ کسی ایک میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھتا۔

فَاسْئَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَا تَسْئَلُوْنِیْ عَنْ شَیْءٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ، وَ لَا عَنْ فِئَةٍ تَهْدِیْ مِائَۃً وَ تُضِلُّ مِائَةً اِلَّاۤ اَنْۢبَاْتُکُمْ بِنَاعِقِهَا وَ قَآئِدِهَا وَ سَآئِقِهَا، وَ مُنَاخِ رِکَابِهَا، وَ مَحَطِّ رِحَالِهَا، وَ مَنْ یُّقْتَلُ مِنْ اَهْلِهَا قَتْلًا وَ مَنْ یَّمُوْتُ مِنْهُمْ مَوْتًا.

اب (موقعہ ہے جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو [۲] ، پیشتر اس کے کہ مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم اس وقت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصے کی جو بات مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کر و گے کہ جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے اور اسے آگے سے کھینچنے والے اور پیچھے سے دھکیلنے والے اور اس کی سواریوں کی منزل اور اس کے (ساز و سامان سے لدے ہوئے ) پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ کہ کون ان میں سے قتل کیا جائے گا اور کون (اپنی موت ) مرے گا۔

وَ لَوْ قَدْ فَقَدْتُّمُوْنِیْ وَ نَزَلَتْ بِکُمُ کَرَآئِهُ الْاُمُوْرِ، وَ حَوَازِبُ الْخُطُوْبِ، لَاَطْرَقَ کَثِیْرٌ مِّنَ السَّآئِلِیْنَ، وَ فَشِلَ کَثِیْرٌ مِّنَ الْمَسْؤُوْلِیْنَ، وَ ذٰلِکَ اِذَا قَلَّصَتْ حَرْبُکُمْ، وَ شَمَّرَتْ عَنْ سَاقٍ، وَ ضَاقَتِ الدُّنْیَا عَلَیْکُمْ ضِیْقًا، تَسْتَطِیْلُوْنَ مَعَہٗ اَیَّامَ الْبَلَآءِ عَلَیْکُمْ، حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ لِبَقِیَّةِ الْاَبْرَارِ مِنْکُمْ.

اور جب میں نہ رہوں گا اور ناخوشگوار چیزیں اور سخت مشکلیں پیش آئیں گی (تو دیکھ لینا) کہ بہت سے پوچھنے والے (پریشانی سے) سر نیچے ڈال دیں گے اور بتانے والے عاجز و درماندہ ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب تم پر لڑائیاں زور سے ٹوٹ پڑیں گے اور اس کی سختیاں نمایاں ہو جائیں گی اور دنیا اس طرح تم پر تنگ ہو جائے گی کہ مصیبتوں کے دنوں کو تم یہ سمجھنے لگو گے کہ وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خداوند عالم تمہارے باقی ماندہ لوگوں کو فتح و کامرانی دے گا۔

اِنّ الْفِتَنَ اِذَا اَقْبَلَتْ شَبَّهَتْ، وَ اِذَاۤ اَدْبَرَتْ نَبَّهَتْ، یُنْکَرْنَ مُقْبِلَاتٍ، وَ یُعْرَفْنَ مُدْبِرَاتٍ، یَحُمْنَ حَوْمَ الرِّیَاحِ، یُصِبْنَ بَلَدًا وَّ یُخْطِئْنَ بَلَدًا.

فتنوں کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو اس طرح اندھیرے میں ڈال دیتے ہیں کہ (حق و باطل) کا امتیاز نہیں ہوتا اور پلٹتے ہیں تو ہوشیار کر کے جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں تو شناخت نہیں ہوتی، پیچھے ہٹتے ہیں تو پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ہواؤں کی طرح چکر لگاتے ہیں، کسی شہر کو اپنی زد پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی ان سے رہ جاتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ اَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِیْ عَلَیْکُمْ فِتْنَةُ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، فَاِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْیَآءُ مُظْلِمَةٌ: عَمَّتْ خُطَّتُهَا، وَ خَصَّتْ بَلِیَّتُهَا، وَ اَصَابَ الْبَلَآءُ مَنْ اَبْصَرَ فِیْهَا، وَ اَخْطَاَ الْبَلَآءُ مَنْ عَمِیَ عَنْهَا.

میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لئے بنی امیہ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے، اس کے اثرات تو سب کو شامل ہیں لیکن خصوصیت سے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کیلئے ہیں۔ جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا وہ ان سے بچا رہے گا۔

وَ ایْمُ اللهِ لَتَجِدُنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَکُمْ اَرْبَابَ سُوْٓءٍۭ بَعْدِیْ، کَالنَّابِ الضَّرُوْسِ: تَعْذِمُ بِفِیْهَا،وَ تَخْبِطُ بِیَدِهَا،وَ تَزْبِنُ بِرِجْلِهَا، وَ تَمْنَعُ دَرَّهَا، لَا یَزَالُوْنَ بِکُمْ حَتّٰی لَا یَتْرُکُوْا مِنْکُمْ اِلَّا نَافِعًا لَّهُمْ، اَوْ غَیْرَ ضَآئِرٍۭ بِهِمْ، وَ لَا یَزَالُ بَلَآ ؤُهُمْ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ انْتِصَارُ اَحَدِکُمْ مِنْهُمْ اِلَّا کَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ الصَّاحِبِ مِنْ مُّسْتَصْحِبِهٖ، تَرِدُ عَلَیْکُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَآءَ مَخْشِیَّةً، وَ قِطَعًا جَاهِلِیَّةً، لَیْسَ فِیْهَا مَنَارُ هُدًی، وَ لَا عَلَمٌ یُّرٰی.

خدا کی قسم! میرے بعد تم بنی امیہ کو اپنے لئے بدترین حکمران پاؤ گے۔ وہ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں جو منہ سے کاٹتی ہو اور اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتی ہو اور دوہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو۔ وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ صرف اسے چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا(کم از کم) ان کیلئے نقصان رساں نہ ہو۔ اور ان کی مصیبت اسی طرح گھیرے رہے گی کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گی جیسے غلام کیلئے اپنے آقا سے اور مرید کی اپنے پیر سے۔ تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا اور زمانہ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لئے ہو گا۔ نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئے گا۔

نَحْنُ اَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ، وَ لَسْنَا فِیْهَا بِدُعَاةٍ، ثُمَّ یُفَرِّجُهَا اللهُ عَنْکُمْ کَتَفْرِیْجِ الْاَدِیْمِ: بِمَنْ یَّسُوْمُهُمْ خَسْفًا، وَ یَسُوْقُهُمْ عُنْفًا، وَ یَسْقِیْهِمْ بِکَاْسٍ مُّصَبَّرَةٍ، لَا یُعْطِیْهِمْ اِلَّا السَّیْفَ، وَ لَا یُحْلِسُهُمْ اِلَّا الْخَوْفَ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ تَوَدُّ قُرَیْشٌ بِالدُّنْیَا وَ مَا فِیْهَا لَوْ یَرَوْنَنِیْ مَقَامًا وَّاحِدًا، وَ لَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُوْرٍ، لِاَقْبَلَ مِنْهُمْ مَاۤ اَطْلُبُ الْیَوْمَ بَعْضَهٗ فَلَا یُعْطُوْنَنِیْهِ!.

ہم اہل بیت ِ(رسول علیہم السلام) ان فتنہ انگیزیوں (کے گناہ) سے بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اس شخص کے ذریعہ سے جو انہیں ذلت کا مزا چکھائے اور سختی سے ہنکائے اور (موت کے ) تلخ جام پلائے اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف انہیں چمٹا دے، ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے۔ اس وقت قریش دنیا و ما فیہا کے بدلے میں یہ چاہیں گے کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے، کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قبول کر لوں کہ جس کا آج کچھ حصہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔


 
امیر المومنین علیہ السلام نے یہ خطبہ جنگ نہروان کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس میں ’’فتنہ‘‘ سے مراد وہ جنگیں ہیں جو بصرہ، صفین اور نہر وان میں لڑی گئیں۔ چونکہ ان کی نوعیت پیغمبر ﷺ کی جنگوں سے جداگانہ تھی، کیونکہ وہاں مد مقابل کفار ہوتے تھے اور یہاں مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو چہروں پر اسلام کی نقاب ڈالے ہوئے تھے۔ اس لئے لوگ اہل قبلہ سے جنگ کرنے کیلئے متردّد تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو لوگ اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں ان سے قتال کیسا؟ چنانچہ خزیمہ ابن ثابت انصاری جیسے بزرگ اس وقت تک صفین میں شریک جنگ نہیں ہوئے جب تک عمار یاسر کی شہادت نے شامیوں کا گروہ باغی ہونا ثابت نہ کر دیا۔ یونہی بصرہ میں اُمّ المومنین کے ہمراہ عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے طلحہ و زبیر ایسے صحابہ کی موجودگی اور نہروان میں خوارج کی پیشانیوں کے گھٹے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذہنوں میں خلفشار پیدا کئے ہوئے تھیں۔ اندریں حالات ان کے سامنے شمشیر بکف کھڑے ہونے کی جرأت وہی کر سکتا تھا جو ان کے مکنونِ قلب سے واقف اور ان کے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو اور یہ امیر المومنین علیہ السلام ہی کی بصیرتِ خاص و ایمانی جرأت کا کام تھا کہ ان کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق فرما دی:
سَتُقَاتِلُ بَعْدِی النَّاکِثِیْنَ وَ الْقَاسِطِیْنَ وَ الْمَارِقِیْنَ۔
اے علیؑ! تم میرے بعد بیعت توڑنے والوں (اصحابِ جمل) ظلم ڈھانے والوں (اہل شام) اور دین سے بے راہ ہو جانے والوں (خوارج) سے جنگ کرو گے۔(۱)
۲۔پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد کوئی متنفس امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ چنانچہ ابن حجر نے ’’صواعق محرقہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ یَقُوْلُ سَلُوْنِیْ اِلَّا عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.
صحابہ میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو ہم سے پوچھ لو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔(۲)
البتہ صحابہ کے علاوہ تاریخ میں چند نام ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کی: جیسے ابراہیم ابن ہشام، مقاتل ابن سلیمان، قتادہ، سبط ابن جوزی اور محمد ابن ادریس شافعی وغیرہ۔ مگر ان میں سے ہر شخص سوال کے موقع پر رسوا اور اپنے اس دعوے کو واپس لینے پر مجبور ہوا۔ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو حقائق عالم سے واقف اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ ہو۔ چنانچہ امیر المومنین ہی وہ دَر کشائے علوم نبوت تھے جو کسی موقعہ پر کسی سوال کے جواب سے عاجز ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو بھی یہ کہنا پڑتا تھا کہ:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ مُّعْضَلَةٍ لَّیْسَ لَھَا اَبُو الْحَسَنِ ؑ.
میں اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کرنے کیلئے امیرالمومنین علیہ السلام نہ ہوں۔
یونہی مستقبل کے متعلق جو پیشین گوئیاں آپؑ نے کیں، وہ حرف بحرف پوری ہو کر آپؑ کی وسعتِ علمی کی آئینہ دار ہیں۔ وہ بنی اُمیہ کی تباہ کاریوں کے متعلق ہوں یا خوارج کی شورش انگیزیوں کے متعلق، وہ تاتاریوں کی تاخت و تاراج کے بارے میں ہوں یا زنگیوں کی حملہ آوریوں کے متعلق، وہ بصرہ کی غرقابی کے بارے میں ہوں یا کوفہ کی تباہی کے متعلق۔ غرض جب یہ واقعات تاریخی حیثیت سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپؑ کے اس دعوے پر تعجب کیا جائے۔(۳)
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۰۱۔
[۲]۔ الصواعق المحرقہ، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔
[۳]۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۷، ص ۳۶۰، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، بیروت۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:16
عون نقوی

لَمَّاۤ اُرِیْدُ عَلَى الْبَیْعَةِ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ:

جب قتلِ عثمان کے بعد آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کا ارادہ کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:

دَعُوْنِیْ وَ الْتَمِسُوْا غَیْرِیْ، فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُوْنَ اَمْرًا لَّهٗ وُجُوْهٌ وَّ اَلْوَانٌ، لَا تَقُوْمُ لَهُ الْقُلُوْبُ، وَ لَا تَثْبُتُ عَلَیْهِ الْعُقُوْلُ، وَ اِنَّ الْاٰفَاقَ قَدْ اَغَامَتْ، وَ الْمَحَجَّةَ قَدْ تَنَکَّرَتْ.

مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کیلئے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو۔ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں۔ جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں۔ (دیکھو!) اُفق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ راستہ پہچاننے میں نہیں آتا۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنِّیْ اِنْ اَجَبْتُکُمْ رَکِبْتُ بِکُمْ مَاۤ اَعْلَمُ، وَ لَمْ اُصْغِ اِلٰی قَوْلِ الْقَآئِلِ وَ عَتْبِ الْعَاتِبِ، وَ اِنْ تَرَکْتُمُوْنِیْ فَاَنَا کَاَحَدِکُمْ، وَ لَعَلِّیْۤ اَسْمَعُکُمْ وَ اَطْوَعُکُمْ لِمنْ وَّلَّیْتُمُوْهُ اَمْرَکُمْ، وَ اَنَا لَکُمْ وَزِیْرًا، خَیْرٌ لَّکُمْ مِنِّیْ اَمِیْرًا!.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسا میں ہوں اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دنیوی مفاد کیلئے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے۔


جب حضرت عثمان کے قتل ہو جانے سے مسند حکومت خالی ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں امیر المومنین علیہ السلام کی طرف اٹھنے لگیں جن کی سلامت روی، اصول پرستی اور سیاسی بصیرت کا اس طویل مدت میں انہیں بڑی حد تک تجربہ ہو چکا تھا، چنانچہ متفقہ طور پر آپؑ کے دستِ حق پرست پر بیعت کیلئے اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح بھولے بھٹکے مسافر دور سے منزل کی جھلک دیکھ کر اس کی سمت لپک پڑتے ہیں۔ جیسا کہ مورخ طبری نے لکھا ہے:
فَغَشَى النَّاسُ عَلِیًّا ؑ فَقَالُوْا: نُبَایِعُکَ، فَقَدْ تَرٰى مَا نَزَلَ بِالْاِسْلَامِ، وَ مَا ابْتُلِیْنَا بِهٖ مِنْ ذَوِی الْقُرْبٰى.
لوگ امیر المومنین علیہ السلام پر ہجوم کر کے ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم آپؑ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیا کیا مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں اور پیغمبر ﷺ کے قریبیوں کے بارے میں ہماری کیسى آزمائش ہو رہی ہے۔ (طبری، ج۵، ص۱۵۶)
مگر امیر المومنین علیہ السلام نے ان کی خواہش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر ان لوگوں نے شور مچایا اور چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ: اے ابو الحسنؑ! آپؑ اسلام کی تباہی پر نظر نہیں کرتے؟ فتنہ و شر کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہیں دیکھتے؟ کیا آپؑ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے؟ پھر بھی حضرتؑ نے آمادگی کا اظہار نہ فرمایا، کیونکہ آپؑ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد جو ماحول بن گیا تھا اس کے اثرات دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں، طبیعتوں میں خود غرضی و جاہ پسندی جڑ پکڑ چکی ہے، ذہنوں پر مادیت کے غلاف چڑھ چکے ہیں اور حکومت کو مقصد بر آریوں کا ذریعہ قرار دینے کی عادت پڑ چکی ہے، اب خلافت الٰہیہ کو بھی مادیت کا رنگ دے کر اس سے کھیلنا چاہیں گے، ان حالات میں ذہنیتوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے رخ موڑنے میں لوہے لگ جائیں گے۔ ان تاثرات کے علاوہ یہ مصلحت بھی کارفرما تھی کہ ان لوگوں کو سوچ سمجھ لینے کا موقعہ دے دیا جائے تا کہ کل اپنے مادی توقعات کو ناکام ہوتے دیکھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ یہ بیعت وقتی ضرورت اور ہنگامی جذبہ کے زیر اثر ہو گئی تھی، اس میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تھا۔ جیسا کہ خلافتِ اوّل کے متعلق حضرتِ عمر کا یہی نظر یہ تھا جو ان کے اس قول سے ظاہر ہے:
اِنَّ بَیْعَةَ اَبِیْ بَکْرٍ کَانَتْ فَلْتَةً وَّقَى اللهُ شَرَّهَا، فَمَنْ عَادَ اِلٰى مِثْلِهَا فَاقْتُلُوْهُ.ابو بکر کی خلافت بے سوچے سمجھے ہو گئی، مگر اللہ نے اس کے شر سے بچا لیا۔ اب اگر کوئی ایسا کرے تو اسے قتل کر دینا۔ (تاریخ الخلفاء، ص۶۰)
غرض جب اصرار حد سے بڑھا تو اس موقع پر یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس امر کو واضح کیا ہے کہ اگر تم مجھے دنیاوی مقاصد کیلئے چاہتے ہو تو میں تمہارا آلہ کار بننے کیلئے تیار نہیں، مجھے چھوڑ دو اور اس مقصد کیلئے کسی اور کو منتخب کر لو جو تمہارے توقعات پورے کر سکے۔ تم میری سابقہ سیرت کو دیکھ چکے ہو کہ میں قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کیلئے تیار نہیں اور نہ حکومت کیلئے اپنے اصول سے ہاتھ اٹھاؤں گا۔ اگر تم کسی اور کو منتخب کر و گے تو میں ملکی قوانین و آئین حکومت کا اتنا ہی خیال کروں گا جتنا ایک پر امن شہری کو کرنا چاہئے۔ میں نے کسی مرحلہ پر شورش برپا کر کے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کو پراگندہ و منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہو گا، بلکہ جس طرح مصالح عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح مشورے دیتا رہا ہوں، اب بھی دریغ نہ کروں گا اور اگر تم مجھے اسی سطح پر رہنے دو تو یہ چیز تمہارے دنیوی مفاد کیلئے بہتر ہوگی، کیونکہ اس صورت میں میرے ہاتھوں میں اقتدار نہیں ہو گا کہ تمہارے دنیوی مفادات کیلئے سد راہ بن سکوں اور تمہاری من مانی خواہشوں میں روڑے اٹکاؤں اور اگر یہ ٹھان چکے ہو کہ میرے ہاتھوں پر بیعت کئے بغیر نہ رہو گے تو پھر یاد رکھو کہ چاہے تمہاری پیشانیوں پر بل آئے اور چاہے تمہاری زبانیں میرے خلاف کھلیں، میں تمہیں حق کی راہ پر لے چلنے پر مجبور کر دوں گا اور حق کے معاملہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کروں گا۔ اس پر بھی اگر بیعت کرنا چاہتے ہو تو اپنا شوق پورا کر لو۔امیر المومنین علیہ السلام نے ان لوگوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا تھا بعد کے واقعات اس کی پوری پوری تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے پیش نظر بیعت کی تھی، جب انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بیعت توڑ کر الگ ہو گئے اور بے بنیاد الزامات تراش کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

 

 

balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:09
عون نقوی