بصیرت اخبار

اَلْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ اَوَّلٍ، وَ الْاٰخِرُ بَعْدَ کُلِّ اٰخِرٍ، بِاَوَّلِیَّتِهٖ وَجَبَ اَنْ لَّاۤ اَوَّلَ لَهٗ، وَ بِاٰخِرِیَّتِهٖ وَجَبَ اَنْ لَّاۤ اٰخِرَ لَهٗ.

وہ ہر اوّل سے پہلے اوّل ہے اور ہر آخر کے بعد آخر ہے۔ اس کی اولیت کے سبب سے واجب ہے کہ اس سے پہلے کوئی نہ ہو اور اس کے آخر ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ اس کے بعد کوئی نہ ہو۔

وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ شَهَادَةً یُّوَافِقُ فِیْهَا السِّرُّ الْاِعْلَانَ، وَ الْقَلْبُ اللِّسَانَ.

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ایسی گواہی جس میں ظاہر و باطن یکساں اور دل و زبان ہمنوا ہیں۔

اَیُّهَا النَّاسُ! ﴿لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِیْ﴾، وَ لَا یَسْتَهْوِیَنَّکُمْ عِصْیَانِیْ، وَ لَا تَتَرَامَوْا بِالْاَبْصَارِ عِنْدَ مَا تَسْمَعُوْنَهٗ مِنِّیْ.

اے لوگو! تم میری مخالفت کے جرم میں مبتلا نہ ہو اور میری نافرمانی کر کے حیران و پریشان نہ ہو۔ میری باتیں سنتے وقت ایک دوسرے کی طرف آنکھوں کے اشارے نہ کرو۔

فَوَ الَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! اِنَّ الَّذِیْۤ اُنَبِّئُکُمْ بِهٖ عَنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ﷺ، مَا کَذَبَ الْمُبَلِّغُ، وَ لَا جَهِلَ السَّامِعُ.

اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا ہے! میں جو خبر تمہیں دیتا ہوں وہ نبی ﷺ کی طرف سے پہنچی ہوئی ہے۔ نہ خبر دینے والے (رسولؐ) نے جھوٹ کہا، نہ سننے والا جاہل تھا۔

لَکَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی ضِلِّیْلٍ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ، وَ فَحَصَ بِرَایَاتِهٖ فِیْ ضَوَاحِیْ کُوْفَانَ. فَاِذَا فَغَرَتْ فَاغِرَتُهٗ، وَ اشْتَدَّتْ شَکِیْمَتُهٗ، وَ ثَقُلَتْ فِی الْاَرْضِ وَطْاَتُهٗ، عَضَّتِ الْفِتْنَةُ اَبْنَآئَهَا بِاَنْیَابِهَا، وَ مَاجَتِ الْحَرْبُ بِاَمْوَاجِهَا، وَ بَدَا مِنَ الْاَیَّامِ کُلُوْحُهَا، وَ مِنَ اللَّیَالِیْ کُدُوْحُهَا.

(لو سنو!) میں ایک سخت گمراہیوں میں پڑے ہوئے شخص کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ شام میں کھڑا ہوا للکار رہا ہے اور اس نے اپنے جھنڈے کوفہ کے آس پاس کھلے میدانوں میں گاڑ دیئے ہیں۔ چنانچہ جب اس کا منہ (پھاڑ کھانے کو) کھل گیا اور اس کی لگام کا دہانہ مضبوط ہو گیا اور زمین میں اس کی پامالیاں سخت سے سخت ہو گئیں تو فتنوں نے اپنے دانتوں سے دنیا والوں کو کاٹنا شروع کر دیا اور جنگ کا دریا تھپیڑے مارنے لگا اور دنوں کی سختی سامنے آ گئی اور راتوں کی تکلیف شدت اختیار کر گئی۔

فَاِذَاۤ اَیْنَعَ زَرْعُهٗ، وَ قَامَ عَلٰی یَنْعِهٖ، وَ هَدَرَتْ شَقَاشِقُهٗ، وَ بَرَقَتْ بَوَارِقُهٗ، عُقِدَتْ رَایَاتُ الْفِتَنِ الْمُعْضِلَةِ، وَ اَقْبَلْنَ کَاللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، وَ الْبَحْرِ الْمُلْتَطِمِ.

بس ادھر اس کی کھیتی پختہ ہوئی اور فصل تیار ہوئی اور اس کی سر مستیاں جوش دکھانے لگیں اور تلواریں چمکنے لگیں، اُدھر سخت فتنہ و شر کے جھنڈے گڑ گئے اور اندھیری رات اور متلاطم دریا کی طرح آگے بڑھ آئے۔

هٰذَا، وَ کَمْ یَخْرِقُ الْکُوْفَةَ مِنْ قَاصِفٍ، وَ یَمُرُّ عَلَیْهَا مِنْ عَاصِفٍ! وَ عَنْ قَلِیْلٍ تَلْتَفُّ الْقُرُوْنُ بِالْقُرُوْنِ، وَ یُحْصَدُ الْقَآئِمُ، وَ یُحْطَمُ الْمَحْصُوْدُ!

اس کے علاوہ اور کتنے ہی تیز جھکڑ کوفہ کو اُکھیڑ ڈالیں گے اور کتنی ہی سخت آندھیاں اس پر آئیں گی اور عنقریب جماعتیں جماعتوں سے گتھ جائیں گی اور کھڑی کھیتیوں کو کاٹ دیا جائے گا اور کٹے ہوئے حاصلوں کو توڑ پھوڑ دیا جائے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:26
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ النَّاشِرِ فِی الْخَلْقِ فَضْلَهٗ، وَ الْبَاسِطِ فِیْھِمْ بِالْجُوْدِ یَدَهٗ. نَحْمَدُهٗ فِیْ جَمِیْعِ اُمُوْرِهٖ، وَ نَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی رِعَایَةِ حُقُوْقِهٖ،

اس اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے جو مخلوقات میں اپنا (دامن) فضل پھیلائے ہوئے اور اپنا دست کرم بڑھائے ہوئے ہے۔ ہم تمام امور میں اس کی حمد کرتے ہیں اور اس کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھنے میں اس سے مدد مانگتے ہیں۔

وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِاَمْرِهٖ صَادِعًا، وَ بِذِکْرِهٖ نَاطِقًا، فَاَدّٰۤی اَمِیْنًا، وَ مَضٰی رَشِیْدًا، وَ خَلَّفَ فِیْنَا رَایَةَ الْحَقِّ، مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ، وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ، وَ مَنْ لَّزِمَهَا لَحِقَ، دَلِیْلُهَا مَکِیْثُ الْکَلَامِ، بَطِیْٓءُ الْقِیَامِ، سَرِیْعٌ اِذَا قَامَ.

اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں جنہیں اللہ نے اپنا امر واضح کر کے سنانے اور اپنا ذکر زبان پر لانے کیلئے بھیجا۔ آپؐ نے امانتداری کے ساتھ اسے پہنچایا اور راہ راست پر برقرار رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم میں حق کا وہ پرچم چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھے گا وہ (دین سے) نکل جائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا وہ مٹ جائے گا اور جو اس سے چمٹا رہے گا وہ حق کے ساتھ رہے گا۔ اس پرچم کی طرف راہنمائی کرنے والا وہ ہے جو بات کہنے میں جلد بازی نہیں کرتا اور (پوری طرح غور کرنے کیلئے) اپنے اقدام میں تاخیر کرتا ہے اور جب کسی امر کو لے کر کھڑا ہو جائے تو پھر تیز گام ہے۔

فَاِذَاۤ اَنْتُمْ اَلَنْتُمْ لَهٗ رِقَابَکُمْ، وَ اَشَرْتُمْ اِلَیْهِ بِاَصَابِعِکُمْ، جَآئَهُ الْمَوْتُ فَذَهَبَ بِهٖ، فَلَبِثْتُمْ بَعْدَهٗ مَا شَآءَ اللهُ حَتّٰی یُطْلِعَ اللهُ لَکُمْ مَنْ یَّجْمَعُکُمْ وَ یَضُمُّ نَشْرَکُمْ.

جب تم اس کے سامنے گردنیں خم کر دو گے اور (اسکی عظمت و جلال کے پیش نظر) اس کی طرف انگلیوں کے اشارے کرنے لگو گے تو اسے موت آ جائے گی اور اسے لے جائے گی اور پھر جب تک اللہ چاہے تم (انتظار میں) ٹھہرے رہو گے، یہاں تک کہ اللہ اس شخص کو ظاہر کرے جو تمہیں ایک جگہ پر جمع کرے اور تمہاری شیرازہ بندی کرے۔

فَلَا تَطْمَعُوْا فِیْ غَیْرِ مُقْبِلٍ، وَ لَا تَیْاَسُوْا مِنْ مُّدْبِرٍ، فَاِنَّ الْمُدْبِرَ عَسٰی اَنْ تَزِلَّ اِحْدٰی قَآئِمَتَیْهِ، وَ تَثْبُتَ الْاُخْرٰی، وَ تَرْجِعَا حَتّٰی تَثْبُتَا جَمِیْعًا.

جو کچھ ہونے والا نہیں ہے اس کی لالچ نہ کرو اور بہت ممکن کہ برگشتہ صورت حال کا ایک قدم اُکھڑ گیا ہو اور دوسرا قدم جما ہوا ہو اور پھر کوئی ایسی صورت ہو کہ دونوں قدم جم ہی جائیں۔

اَلَا اِنَّ مَثَلَ اٰلِ مُحَمَّدٍ ﷺ، کَمَثَلِ نُجُوْمِ السَّمَآءِ: اِذَا خَوٰی نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ، فَکَاَنَّکُمْ قَدْ تَکَامَلَتْ مِنَ اللهِ فِیْکُمُ الصَّنَآئِعُ، وَ اَرَاکُمْ مَا کُنْتُمْ تَاْمُلُوْنَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آلِ محمد علیہم السلام آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں، جب ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا اُبھر آتا ہے۔ گویا تم پر اللہ کی نعمتیں مکمل ہو گئی ہیں اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے وہ اللہ نے تمہیں دکھا دیا ہے۔


مطلب یہ ہے کہ اگر سر دست تمہارے توقعات پورے نہیں ہو رہے تو مایوس نہ ہو جاؤ، کیونکہ ممکن ہے کہ صورت حال میں تبدیلی ہو اور اصلاح میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہو جائیں اور معاملات تمہارے حسبِ دلخواہ طے پا جائیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:23
عون نقوی

نَحْمَدُهٗ عَلٰی مَا کَانَ، وَ نَسْتَعِیْنُهٗ مِنْ اَمْرِنَا عَلٰی مَا یَکُوْنُ، وَ نَسْئَلُهُ الْمُعَافَاةَ فِی الْاَدْیَانِ، کَمَا نَسَئَلُهُ الْمُعَافَاةَ فِی الْاَبْدَانِ.

جو ہو چکا اس پر ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اور جو ہو گا اس کے مقابلہ میں اس سے مدد چاہتے ہیں۔ جس طرح اس سے جسموں کی صحت کا سوال کرتے ہیں اسی طرح دین و ایمان کی سلامتی کے طلبگار ہیں۔

عِبادَ اللهِ! اُوْصِیْکُمْ بِالرَّفْضِ لِهٰذِهِ الدُّنْیَا التَّارِکَةِ لَکُمْ وَ اِنْ لَّمْ تُحِبُّوْا تَرْکَهَا، وَ الْمُبْلِیَةِ لِاَجْسَامِکُمْ وَ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ تَجْدِیْدَهَا، فَاِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَ مَثَلُهَا کَسَفْرٍ سَلَکُوْا سَبِیْلًا فَکَاَنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوْهُ، وَ اَمُّوْا عَلَمًا فَکَاَنَّهُمْ قَدْ بَلَغُوْهُ، وَ کَمْ عَسَی الْمُجْرِیْۤ اِلَی الْغَایَةِ اَنْ یَّجْرِیَ اِلَیْهَا حَتّٰی یَبْلُغَهَا! وَ مَا عَسٰۤی اَنْ یَّکُوْنَ بَقَآءُ مَنْ لَّهٗ یَوْمٌ لَّا یَعْدُوْهُ، وَ طَالِبٌ حَثِیْثٌ یَحْدُوْهٗ فِی الدُّنُیَا حَتّٰی یُفَارِقَهَا!.

اے اللہ کے بندو! میں تمہیں اس دنیا کے چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہیں چھوڑ دینے والی ہے، حالانکہ تم اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور وہ تمہارے جسموں کو کہنہ و بوسیدہ بنانے والی ہے حالانکہ تم اسے تر و تازہ رکھنے ہی کی کوشش کرتے ہو۔ تمہاری اور اس دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے چند مسافر کسی راہ پر چلیں اور چلتے ہی منزل طے کر لیں اور کسی بلند نشان کا قصد کریں اور فوراً وہاں تک پہنچ جائیں۔ کتنا ہی تھوڑا وقفہ ہے اس (گھوڑا) دوڑانے والے کا کہ جو اسے دوڑا کر انتہا کی منزل تک پہنچ جائے اور اس شخص کی بقا ہی کیا ہے کہ جس کیلئے ایک ایسا دن ہو کہ جس سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا اور دنیا میں ایک تیز گام طلب کرنیوالا اسے ہنکا رہا ہو یہاں تک کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ جائے۔

فَلَاتَنَافَسُوْا فِیْ عِزِّ الدُّنْیَا وَفَخْرِهَا، وَلَا تَعْجَبُوْا بِزِیْنَتِهَا وَ نَعِیْمِهَا، وَلَا تَجْزَعُوْا مِنْ ضَرَّآئِهَا وَ بُؤْسِهَا، فَاِنَّ عِزَّهَا وَ فَخْرَهَا اِلَی انْقِطَاعٍ، وَ اِنَّ زِیْنَتَهَا وَ نَعِیْمَهَا اِلٰی زَوَالٍ، وَ ضَرَّآئَهَا وَ بُؤْسَهَا اِلٰی نَفَادٍ، وَ کُلُّ مُدَّةٍ فِیْهَاۤ اِلَی انْتِهَآءٍ، وَ کُلُّ حَیٍّ فِیْهَا اِلٰی فَنَآءٍ.

دنیا کی عزت اور اس میں فخرو سر بلندی کی خواہش نہ کرو اور نہ اس کی آرائشوں اور نعمتوں پر خوش ہو اور نہ اس کی سختیوں اور تنگیوں پر بے صبری سے چیخنے چلانے لگو۔ اس لئے کہ اس کی عزت و فخر دونوں مٹ جانیوالے ہیں اور اس کی آرائشیں اور نعمتیں زائل ہو جانے والی ہیں اور اس کی سختیاں اور تنگیاں آخر ختم ہو جائیں گی۔ اس کی ہر مدت کا نتیجہ اختتام اور ہر زندہ کا انجام فنا ہونا ہے۔

اَوَ لَیْسَ لَکُمْ فِیْۤ اٰثَارِ الْاَوَّلِیْنَ مُزْدَجَرٌ، وَ فِیْۤ اٰبَآئِکُمُ الْمَاضِیْنَ تَبْصِرَةٌ وَّ مُعْتَبَرٌ، اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ! اَوَ لَمْ تَرَوْا اِلَی الْمَاضِیْنَ مِنْکُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ، وَ اِلَی الْخَلَفِ الْبَاقِیْنَ لَا یَبْقَوْنَ! اَوَ لَسْتُمْ تَرَوْنَ اَهْلَ الدُّنْیَا یُصْبِحُوْنَ وَ یُمْسُوْنَ عَلٰۤی اَحْوَالٍ شَتّٰی: فَمَیِّتٌ یُّبْکٰی وَ اٰخَرُ یُعَزّٰی، وَ صَرِیْعٌ مُّبْتَلًی وَّ عَآئِدٌ یَّعُوْدُ، وَ اٰخَرُ بِنَفْسِهٖ یَجُوْدُ، وَ طَالِبٌ لِّلدُّنْیَا وَ الْمَوْتُ یَطْلُبُهٗ، وَ غَافِلٌ وَّ لَیْسَ بِمَغْفُوْلٍ عَنْهُ، وَ عَلٰۤی اَثَرِ الْمَاضِیْ مَا یَمْضِی الْبَاقِیْ!.

کیا پہلے لوگوں کے واقعات میں تمہارے لئے کافی تنبیہ کا سامان نہیں؟ اور تمہارے گزرے ہوئے آباؤ اجداد (کے حالات) میں تمہارے لئے عبرت اور بصیرت نہیں؟ اگر تم سوچو سمجھو۔ کیا تم گزرے ہوئے لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ پلٹ کر نہیں آتے اور ان کے بعد باقی رہنے والے بھی زندہ نہیں رہتے؟ تم دنیا والوں پر نظر نہیں کرتے کہ جو مختلف حالتوں میں صبح و شام کرتے ہیں؟ کہیں کوئی میت ہے جس پر رویا جا رہا ہے اور کہیں کسی کو تعزیت دی جا رہی ہے، کوئی عاجز و زمین گیر مبتلائے مرض ہے اور کوئی عیادت کرنے والا عیادت کر رہا ہے، کہیں کوئی دم توڑ رہا ہے، کوئی دنیا تلاش کرتا پھرتا ہے اور موت اسے تلاش کر رہی ہے اور کوئی غفلت میں پڑا ہے لیکن (موت) اس سے غافل نہیں ہے۔ گزر جانے والوں کے نقشِ قدم پر ہی باقی رہ جانے والے چل رہے ہیں۔

اَلَا فَاذْکُرُوْا هَادِمَ اللَّذَّاتِ، وَ مُنَغِّصَ الشَّهَوَاتِ، وَ قَاطِعَ الْاُمْنِیَّاتِ، عِنْدَ الْمُسَاوَرَةِ لِلْاَعْمَالِ الْقَبِیْحَةِ، وَ اسْتَعِیْنُوْا اللهَ عَلٰۤی اَدَآءِ وَاجِبِ حَقِّهٖ، وَ مَا لَا یُحْصٰی مِنْ اَعْدَادِ نِعَمِهٖ وَ اِحْسَانِهٖ.

میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ بد اعمالیوں کے ارتکاب کے وقت ذرا موت کو بھی یاد کر لیا کرو کہ جو تمام لذتوں کو مٹا دینے والی اور تمام نفسانی مزوں کو کرکرا دینے والی ہے۔ اللہ کے واجب الادا حقوق ادا کرنے اور اس کی اَن گنت نعمتوں اور لاتعداد احسانوں کا شکر بجا لانے کیلئے اس سے مدد مانگتے رہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:20
عون نقوی

وَاللهِ! لَا یَزَالُوْنَ حَتّٰی لَا یَدَعُوْا لِلّٰهِ مُحَرَّمًا اِلَّا اسْتَحَلُّوْهُ، وَ لَا عَقْدًا اِلَّا حَلُّوْهُ، وَ حَتّٰی لَا یَبْقٰی بَیْتُ مَدَرٍ وَّ لَا وَبَرٍ اِلَّا دَخَلَهٗ ظُلْمُهُمْ وَ نَبَا بِهٖ سُوْٓءُ رَعْیِهِمْ، وَ حَتّٰی یَقُوْمَ الْبَاکِیَانِ یَبْکِیَانِ: بَاکٍ یَّبْکِیْ لِدِیْنِهٖ، وَ بَاکٍ یَّبْکِیْ لِدُنْیَاهُ، وَ حَتّٰی تَکُوْنَ نُصْرَةُ اَحَدِکُمْ مِنْ اَحَدِهِمْ کَنُصْرَةِ الْعَبْدِ مِنْ سَیِّدِهٖ، اِذَا شَهِدَ اَطَاعَهٗ، وَ اِذَا غَابَ اغْتَابَهٗ، وَ حَتّٰی یَکُوْنَ اَعْظَمَکُمْ فِیْهَا عَنَآءً اَحْسَنُکُمْ بِاللهِ ظَنًّا، فَاِنْ اَتَاکُمُ اللهُ بِعَافِیَةٍ فَاقْبَلُوْا، وَ اِنِ ابْتُلِیْتُمْ فَاصْبِرُوْا، فَـ ﴿اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠۝﴾.

خدا کی قسم! وہ ہمیشہ یونہی (ظلم ڈھاتے) رہیں گے اور کوئی اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ایسی نہ ہو گی جسے وہ حلال نہ سمجھ لیں گے اور ایک بھی عہد و پیمان ایسا نہ ہو گا جسے وہ توڑ نہ ڈالیں گے۔ یہاں تک کہ کوئی اینٹ پتھر کا گھر اور اُون کا خیمہ ان کے ظلم کی زد سے محفوظ نہ رہے گا اور ان کی بُری طرز نگہداشت سے لوگوں کا اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور یہاں تک کہ دو قسم کے رونے والے کھڑے ہو جائیں گے: ایک دین کیلئے رونے والا اور ایک دنیا کیلئے اور یہاں تک کہ تم میں سے کسی ایک کا ان میں سے کسی ایک سے داد خواہی کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے غلام کا اپنے آقا سے کہ وہ سامنے اطاعت کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے برائی کرتا (اور دل کی بھڑاس نکالتا) ہے اور یہاں تک نوبت پہنچ جائے گی کہ تم میں سے جو اللہ کا زیادہ اعتقاد رکھے گا اتنا ہی وہ زحمت و مشقت میں بڑھا چڑھا ہو گا۔ اس صورت میں اگر اللہ تمہیں امن و عافیت میں رکھے تو (اس کا شکر کرتے ہوئے) اسے قبول کرو اور اگر ابتلا و آزمائش میں ڈالے جاؤ تو صبر کرو۔ اس لئے کہ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے۔


https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:18
عون نقوی

وَ لَئِنْ اَمْهَلَ اللهُ الظَّالِمَ فَلَنْ یَفُوْتَ اَخْذُهٗ، وَ هُوَ لَهٗ بِالْمِرْصَادِ عَلٰی مَجَازِ طَرِیْقِهٖ، وَ بِمَوْضِعِ الشَّجَا مِنْ مَّسَاغِ رِیْقِهٖ.

اگر اللہ نے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کی گرفت سے تو وہ ہرگز نہیں نکل سکتا اور وہ اس کی گزر گاہ اور گلے میں ہڈی پھنسنے کی جگہ پر موقع کا منتظر ہے۔

اَمَا وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَیَظْهَرَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمُ عَلَیْکُمْ، لَیْسَ لِاَنَّهُمْ اَوْلٰی بِالْحَقِّ مِنْکُمْ، وَ لٰکِنْ لِّاِسْرَاعِهِمْ اِلٰی بَاطِلِ صَاحِبِهِمْ، وَ اِبْطَآئِکُمْ عَنْ حَقِّیْ.

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آ کر رہے گی۔ اس لئے نہیں کہ ان کا حق تم سے فائق ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود تیزی سے لپکتے ہیں اور تم میرے حق پر ہونے کے باوجود سستی کرتے ہو۔

وَ لَقَدْ اَصْبَحَتِ الْاُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا، وَ اَصْبَحْتُ اَخَافُ ظُلْمَ رَعِیَّتِیْ. اَسْتَنْفَرْتُکُمْ لِلْجِهَادِ فَلَمْ تَنْفِرُوْا، وَ اَسْمَعْتُکُمْ فَلَمْ تَسْمَعُوْا، وَ دَعَوْتُکُمْ سِرًّا وَّ جَهْرًا فَلَمْ تَسْتَجِیْبُوْا، وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَلَمْ تَقْبَلُوْا. اَ شُهُوْدٌ کَغُیَّابٍ، وَ عَبِیْدٌ کَاَرْبَابٍ؟!.

رعیتیں [۱] اپنے حکمرانوں کے ظلم و جور سے ڈرا کرتی تھیں اور میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تمہیں جہاد کیلئے ابھارا لیکن تم (اپنے گھروں سے) نہ نکلے۔ میں نے تمہیں (کارآمد باتوں کو) سنانا چاہا مگر تم نے ایک نہ سنی اور میں نے پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی تمہیں جہاد کیلئے پکارا اور للکارا لیکن تم نے ایک نہ مانی اور سمجھایا بجھایا مگر تم نے میری نصیحتیں قبول نہ کیں۔ کیا تم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب رہتے ہو؟ حلقہ بگوش ہوتے ہوئے گویا خود مالک ہو؟۔

اَتْلُوْا عَلَیْکُمُ الْحِکَمَ فَتَنْفِرُوْنَ مِنْهَا، وَ اَعِظُکُمْ بِالْمَوْعِظَةِ الْبَالِغَةِ فَتَتَفَرَّقُوْنَ عَنْهَا، وَ اَحُثُّکُمْ عَلٰی جِهَادِ اَهْلِ الْبَغْیِ فَمَاۤ اٰتِیْ عَلٰۤی اٰخِرِ قَوْلِیْ حَتّٰۤی اَرَاکُمْ مُتَفَرِّقِیْنَ اَیَادِیَ سَبَا، تَرْجِعُوْنَ اِلٰی مَجَالِسِکُمْ، وَ تَتَخَادَعُوْنَ عَنْ مَّوَاعِظِکُمْ، اُقَوِّمُکُمْ غُدْوَةً، وَ تَرْجِعُوْنَ اِلَیَّ عَشِیَّةً، کَظَهْرِ الْحَنِیَّةِ، عَجَزَ الْمُقَوِّمُ، وَ اَعْضَلَ الْمُقَوَّمُ.

میں تمہارے سامنے حکمت اور دانائی کی باتیں بیان کرتا ہوں اور تم ان سے بھڑکتے ہو۔ تمہیں بلند پایہ نصیحتیں کرتا ہوں اور تم پراگندہ خاطر ہو جاتے ہو۔ میں ان باغیوں سے جہاد کرنے کیلئے تمہیں آمادہ کرتا ہوں تو ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوتی کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اولادِ سبا [۲] کی طرح تتر بتر ہو کر اپنی نشست گاہوں کی طرف واپس چلے جاتے ہو اور ان نصیحتوں سے غافل ہو کر ایک دوسرے کے چکمے میں آ جاتے ہو۔ صبح کو میں تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور شام کو جب آتے ہو تو (ویسے کے ویسے) کمان کی پشت کی طرح ٹیڑھے۔ سیدھا کرنے والا عاجز آ گیا اور جسے سیدھا کیا جا رہا ہے وہ لاعلاج ثابت ہوا۔

اَیُّهَا الشَّاهِدَةُ اَبْدَانُهُمْ، الْغَآئِبَةُ عَنْهُمْ عُقُوْلُهُمْ، الْمُخْتَلِفَةُ اَهْوَآئُهُمْ، الْمُبْتَلٰی بِهمْ اُمَرَآئُهُمْ! صَاحِبُکُمْ یُطِیْعُ اللهَ وَ اَنْتُمْ تَعْصُوْنَهٗ، وَ صَاحِبُ اَهْلِ الشَّامِ یَعْصِی اللهَ وَ هُمْ یُطِیْعُوْنَهٗ، لَوَدِدْتُّ وَاللهِ! اَنَّ مُعَاوِیَةَ صَارَفَنِیْ بِکُمْ صَرْفَ الدِّیْنَارِ بِالدِّرْهَمِ، فَاَخَذَ مِنِّیْ عَشَرَةً مِّنْکُمْ وَ اَعْطَانِیْ رَجُلًا مِّنْهُمْ!.

اے وہ لوگو جن کے جسم تو حاضر ہیں اور عقلیں غائب اور خواہشیں جُدا جدا ہیں، ان پر حکومت کرنے والے ان کے ہاتھوں آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں، تمہارا حاکم اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو اور اہل شام کا حاکم اللہ کی نافرمانی کرتا ہے مگر وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ معاویہ تم میں سے دس مجھ سے لے لے اور بدلے میں اپنا ایک آدمی مجھے دے دے، جس طرح دینار کا تبادلہ درہموں سے ہوتا ہے۔

یَاۤ اَهْلَ الْکُوْفَةِ! مُنِیْتُ مِنْکُمْ بِثَلَاثٍ وَّ اثنَتَیْنِ: صُمٌّ ذَوُوْ اَسْمَاعٍ، وَ بُکُمٌ ذَوُوْ کَلَامٍ، وَ عُمْیٌ ذَوُوْۤ اَبْصَارٍ، لَاۤ اَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ اللِّقَآءِ، وَ لَاۤ اِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ الْبَلَآءِ! تَرِبَتْ اَیْدِیْکُمْ! یَاۤ اَشْبَاهَ الْاِبِلِ غَابَ عَنْهَا رُعَاتُهَا! کُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ تَفَرَّقَتْ مِنْ جَانِبٍ اٰخَرَ، وَاللهِ! لَکَاَنِّیْ بِکُمْ فِیْمَاۤ اِخَالُ: اَنْ لَّوْ حَمِسَ الْوَغٰی، وَ حَمِیَ الضِّرَابُ، قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ انْفِرَاجَ الْمَرْاَةِ عَنْ قُبُلِهَا، وَ اِنِّیْ لَعَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ مِنْهَاجٍ مِّنْ نَّبِیِّیْ، وَ اِنِّیْ لَعَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ اَلْقُطُهٗ لَقْطًا.

اے اہل کوفہ! میں تمہاری تین اور ان کے علاوہ دو باتوں میں مبتلا ہوں۔ پہلے تو یہ کہ تم کان رکھتے ہوئے بہرے ہو اور بولنے چالنے کے باوجود گونگے ہو اور آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے ہو، اور پھر یہ کہ نہ تم جنگ کے موقعہ پر سچے جواں مرد ہو اور نہ قابل اعتماد بھائی ہو۔ اے ان اونٹوں کی چال ڈھال والو کہ جن کے چرواہے گم ہو چکے ہوں اور انہیں ایک طرف سے گھیر کر لایا جاتا ہے تو دوسری طرف سے بکھر جاتے ہیں، خدا کی قسم! جیسا کہ میرا تمہارے متعلق خیال ہے، گویا یہ منظر میرے سامنے ہے کہ اگر جنگ شدت اختیار کر لے اور میدان کارزار گرم ہو جائے تو تم ابن ابی طالب علیہ السلام سے ایسے شرمناک طریقے پر علیحدہ ہو جاؤ گے جیسے عورت بالکل برہنہ ہو جائے۔ میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل اور اپنے نبی ﷺ کے طریقے اور شاہراہ حق پر ہوں جسے میں باطل کے راستوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاتا رہتا ہوں۔

اُنْظُرُوْۤا اَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ فَالْزَمُوْا سَمْتَهُمْ، وَ اتَّبِعُوْۤا اَثَرَهُمْ فَلَنْ یُّخْرِجُوْکُمْ مِنْ هُدًی، وَ لَنْ یُّعِیْدُوْکُمْ فِیْ رَدًی، فَاِنْ لَّبَدُوْا فَالْبُدُوْا، وَ اِنْ نَّهَضُوْا فَانْهَضُوْا، وَ لَا تَسْبِقُوْهُمْ فَتَضِلُّوْا، وَ لَا تَتَاَخَّرُوْا عَنْهُمْ فَتَهْلِکُوْا.

اپنے نبی ﷺ کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔

لَقَدْ رَاَیْتُ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَمَاۤ اَرٰی اَحَدًا مِنْکُمْ یُشْبِهُهُمْ! لَقَدْ کَانُوْا یُصْبِحُوْنَ شُعْثًا غُبْرًا، قَدْ بَاتُوْا سُجَّدًا وَّ قِیَامًا، یُرَاوِحُوْنَ بَیْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُوْدِهِمْ، وَ یَقِفُوْنَ عَلٰی مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِکْرِ مَعَادِهِمْ! کَاَنَّ بَیْنَ اَعْیُنِهِمْ رُکَبَ الْمِعْزٰی مِنْ طُوْلِ سُجُوْدِهِمْ! اِذَا ذُکِرَ اللهُ هَمَلَتْ اَعْیُنُهُمْ حَتّٰی تَبُلَّ جُیُوْبَهُمْ، وَ مَادُوْا کَمَا یَمِیْدُ الشَّجَرُ یَوْمَ الرِّیْحِ الْعَاصِفِ، خَوْفًا مِّنَ الْعِقَابِ، وَ رَجَآءً لِلثَّوَابِ!.

میں نے محمد ﷺ کے خاص خاص اصحاب دیکھے ہیں۔ مجھے تو تم میں سے ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو ان کے مثل ہو۔ وہ اس عالم میں صبح کرتے تھے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے خاک سے اَٹے ہوتے تھے جب کہ رات کو وہ سجود و قیام میں کاٹ چکے ہوتے تھے، اس عالم میں کہ کبھی پیشانیاں سجدے میں رکھتے تھے اور کبھی رخسار، اور حشر کی یاد سے اس طرح (بے چین رہتے تھے کہ) جیسے انگاروں پر ٹھہرے ہوئے ہوں، اور لمبے سجدوں کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانیوں پر) بکری کے گھٹنوں ایسے گٹے پڑے ہوئے تھے۔ جب بھی ان کے سامنے اللہ کا ذکر آ جاتا تھا تو ان کی آنکھیں برس پڑتی تھیں، یہاں تک کہ ان کے گریبانوں کو بھگو دیتی تھیں۔ وہ اس طرح کانپتے رہتے تھے جس طرح تیز جھکڑ والے دن درخت تھرتھراتے ہیں، سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں۔


پیغمبرﷺ کے بعد جو فضا پیدا کر دی گئی تھی اس میں اہل بیت علیہم السلام کیلئے گوشہ گزینی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جس کی وجہ سے دنیا ان کے اصلی خد و خال سے بیگانہ اور ان کے علوم و کمالات سے نا آشنا ہو کر رہ گئی اور انہیں نظروں سے گرانا اور اقتدار سے الگ رکھنا ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت تصور کر لیا گیا۔ اگر حضرت عثمان کی کھلم کھلا بے عنوانیاں مسلمانوں کو کروٹ لینے اور آنکھ کھولنے کا موقع نہ دیتیں تو ان کے بعد بھی امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، بلکہ اقتدار جس رخ پر بڑھ رہا تھا اسی رخ پر بڑھتا رہتا۔ لیکن جن لوگوں کا اس سلسلہ میں نام لیا جا سکتا تھا وہ اپنے دامن و بند قبا کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرتے تھے اور معاویہ مرکز سے دور اپنی راجدھانی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان حالات میں امیر المومنین علیہ السلام کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جس کی طرف نظریں اٹھتیں۔ چنانچہ نگاہیں آپؑ کے گرد طواف کرنے لگیں اور وہی عوام جو سیلاب کے بہاؤ اور ہوا کا رخ دیکھ کر دوسروں کی بیعت کرتے رہے تھے، آپؑ کے ہاتھوں پر بیعت کیلئے ٹوٹ پڑے۔ لیکن یہ بیعت اس حیثیت سے نہ تھی کہ وہ آپؑ کی خلافت کو منجانب اللہ اور آپؑ کو امام مفترض الطاعۃ سمجھ رہے ہوں، بلکہ انہی کے قرار دادہ اصول کے ماتحت تھی جسے جمہوری و شورائی قسم کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ البتہ ایک گروہ ایسا تھا جو آپؑ کی خلافت کو نصّی سمجھتے ہوئے دینی فریضہ کی حیثیت سے بیعت کر رہا تھا، ورنہ اکثریت تو آپؑ کو دوسرے خلفاء کی طرح ایک فرمانروا اور بلحاظ فضیلت چوتھے درجہ پر یا خلفائے ثلاثہ کے بعد عام صحابہ کی سطح پر سمجھتی تھی اور چونکہ رعیت، فوج اور عہدہ دار سابقہ حکمرانوں کے عقائد و اعمال سے متاثر اور ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لئے جب کوئی بات اپنی منشا کے خلاف پاتے تو بگڑتے، الجھتے، جنگ سے جی چراتے اور سرکشی و نافرمانی پر اتر آتے تھے۔ اور پھر جس طرح پیغمبر ﷺ کے ساتھ شریک جہاد ہونے والے کچھ دنیا کے طلبگار تھے اور کچھ آخرت کے، اسی طرح یہاں بھی دنیا پرستوں کی کمی نہ تھی جو بظاہر امیر المومنین علیہ السلام سے ملے ہوئے تھے اور درپردہ معاویہ سے ساز باز رکھتے تھے جس نے ان میں سے کسی سے منصب کا وعدہ کر رکھا تھا اور کسی کو دولت کا لالچ دے رکھا تھا۔
ان لوگوں کو شیعانِ امیر المومنین علیہ السلام قرار دے کر شیعیت کو مورد الزام ٹھہرانا حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے جب کہ ان لوگوں کا مسلک وہی ہو سکتا ہے جو امیر المومنین علیہ السلام کو چوتھے درجہ پر سمجھنے والوں کا ہونا چاہئے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید ان لوگوں کے مسلک و مذہب پر واشگاف لفظوں میں روشنی ڈالتے ہیں:وَ مَنْ تَاَمَّلَ اَحْوَالَه فِیْ خِلَافَتِه- عَلِمَ اَنَّه کَانَ کَالْمَحْجُوْرِ عَلَیْهِ - لَا یَتَمَکَّنُ مِنْۢ بُلُوْغِ مَا فِیْ نَفْسِه،- وَ ذٰلِکَ لِاَنَّ الْعَارِفِیْنَ بِحَقِیْقَةِ حَالِه کَانُوْا قَلِیْلِیْنَ - وَ کَانَ السَّوَادُ الْاَعْظَمُ - لَا یَعْتَقِدُوْنَ فِیْهِ الْاَمْرَ الَّذِیْ یَجِبُ اعْتِقَادُه فِیْهِ،- وَ یَرَوْنَ تَفْضِیْلَ مَنْ تَقَدَّمَه مِنَ الْخُلَفَآءِ عَلَیْهِ- وَ یَظُنُّوْنَ اَنَّ الْاَفْضَلِیَّةَ اِنَّمَا هِیَ الْخِلَافَةُ- وَ یُقَلِّدُ اَخْلَافُهُمْ اَسْلَافَهُمْ - وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا اَنَّ الْاَوَآئِلَ عَلِمُوْا - فَضْلَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ عَلَیْهِ لَمَا قَدَّمُوْهُمْ - وَ لَا یَرَوْنَه اِلَّا بِعَیْنِ التَبَعِیَّةِ لِمَنْ سَبَقَه - وَ اَنَّه کَانَ رَعِیَّةً لَّهُمْ - وَ اَکْثَرُهُمْ اِنَّمَا یُحَارِبُ مَعَه بِالْحَمِیَّةِ - وَ بِنَخْوَةِ الْعَرَبِیَّةِ، لَا بِالدِّیْنِ وَ الْعَقِیْدَةِ-.
جو شخص امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ خلافت کے واقعات کو گہری نظروں سے دیکھے گا، وہ اس امر کو جان لے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام مجبور و بے بس بنا دیئے گئے تھے۔ کیونکہ آپؑ کی حقیقی منزلت کے پہچاننے والے بہت کم تھے اور سوادِ اعظم آپؑ کے بارے میں وہ اعتقاد نہ رکھتا تھا جو اعتقاد آپؑ کے متعلق رکھنا واجب و ضروری تھا۔ وہ پہلے خلفاء کو آپؑ پر فضیلت دیتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ فضیلت کا معیار خلافت ہے اور اس مسئلہ میں بعد والے اگلوں کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اگر پہلے لوگوں کو یہ علم نہ ہوتا کہ پہلے خلفاء آپؑ پر فضیلت رکھتے تھے تو وہ آپؑ پر انہیں مقدم نہ کرتے اور یہ لوگ تو آپؑ کو ایک تابع اور ان کی رعیت کی حیثیت سے جانتے پہچانتے تھے اور جو لوگ آپؑ کے ساتھ شریک ہو کر جنگ کرتے تھے، ان میں اکثر حمیت اور عربی عصبیت کے پیش نظر شریک جنگ ہوتے تھے، نہ کہ دین اور عقیدہ کی بنا پر۔(۱)’’سبا ابن یشجب ابن یعرب ابن قحطان‘‘ کی اولاد قبیلہ ’’سبا‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ جب ان لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانا شروع کیا تو قدرت نے انہیں جھنجوڑنے کیلئے ان پر پانی کا سیلاب مسلّط کر دیا جس سے ان کے باغات تہہ آب ہو گئے اور وہ خود گھربار چھوڑ کر مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ اس واقعہ سے یہ مثل چل نکلی اور جہاں کہیں لوگ اس طرح جدا ہو جائیں کہ پھر مجتمع ہونے کی توقع نہ رہے تو یہ مثل استعمال کی جاتی ہے۔[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۷۲۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:15
عون نقوی