بصیرت اخبار

بَعَثَهٗ بِالنُّوْرِ الْمُضِیْٓءِ، وَ الْبُرْهَانِ الْجَلِیِّ، وَ الْمِنْهَاجِ الْبَادِیْ، وَ الْکِتَابِ الْهَادِیْ. اُسْرَتُهٗ خَیْرُ اُسْرَةٍ، وَ شَجَرَتُهٗ خَیْرُ شَجَرَةٍ، اَغصَانُهَا مُعْتَدِلَةٌ، وَ ثِمَارُهَا مُتَهَدِّلَةٌ. مَوْلِدُهٗ بِمَکَّةَ، وَ هِجْرَتُهٗ بِطَیْبَةَ، عَلَا بِهَا ذِکْرُهٗ، وَ امْتَدَّ مِنْهَا صَوْتُهٗ.

اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو چمکتے ہوئے نور، روشن دلیل، کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا۔ ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے کہ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہے کہ جہاں سے آپؐ کے نام کا بول بالا ہوا اور آپؐ کا آوازہ (چار سو) پھیلا۔

اَرْسَلَهٗ بِحُجَّةٍ کَافِیَةٍ، وَ مَوْعِظَةٍ شَافِیَةٍ، وَ دَعْوَةٍ مُّتَلَافِیَةٍ. اَظْهَرَ بِهِ الشَّرآئِعَ الْمَجْهُوْلَةَ، وَ قَمَعَ بِهِ الْبِدَعَ الْمَدْخُوْلَةَ، وَ بَیَّنَ بِهِ الْاَحْکَامَ الْمَفْصُوْلَةَ. فَـ ﴿مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا﴾ تَتَحَقَّقْ شِقْوَتُهٗ، وَ تَنْفَصِمْ عُرْوَتُهٗ، وَ تَعْظُمْ کَبْوَتُهٗ، وَ یَکُنْ مَّاٰبُهٗ اِلَی الْحُزْنِ الطَّوِیْلِ وَ الْعَذَابِ الْوَبِیْلِ وَ اَتَوَکَّلُ عَلَی اللهِ تَوَکُّلَ الْاِنَابَةِ اِلَیْهِ، وَ اَسْتَرْشِدُهُ السَّبِیْلَ المُؤَدِّیَةَ اِلٰی جَنَّتِهٖ، الْقَاصِدَةَ اِلٰی مَحَلِّ رَغْبَتِهٖ.

اللہ نے آپؐ کو مکمل دلیل، شفا بخش نصیحت اور (پہلی جہالتوں کی) تلافی کرنے والا پیغام دے کر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے (شریعت کی) نامعلوم راہیں آشکارا کیں اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا اور (قرآن و سنت میں) بیان کئے ہوئے احکام واضح کئے تو اب ’’جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے‘‘ تو اس کی بدبختی مسلّم، اس کا شیرازہ درہم و برہم اور اس کا منہ کے بل گرنا سخت (و ناگزیر) اور انجام طویل حزن اور مہلک عذاب ہے۔ میں اللہ پر بھروسا رکھتا ہوں ایسا بھروسا کہ جس میں ہمہ تن اس کی طرف توجہ ہے اور ایسے راستے کی ہدایت چاہتا ہوں کہ جو اس کی جنت تک پہنچانے والا اور منزل مطلوب کی طرف بڑھنے والا ہے۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ! بِتَقْوَی اللهِ وَ طَاعَتِهٖ، فَاِنَّهَا النَّجَاةُ غَدًا، وَ الْمَنْجَاةُ اَبَدًا. رَهَّبَ فَاَبْلَغَ، وَ رَغَّبَ فَاَسْبَغَ، وَ وَصَفَ لَکُمُ الدُّنْیَا وَ انْقِطَاعَهَا، وَ زَوَالَهَا وَ انْتِقَالَهَا. فَاَعْرِضُوْا عَمَّا یُعْجِبُکُمْ فِیْهَا لِقِلَّةِ مَا یَصْحَبُکُمْ مِنْهَا، اَقْرَبُ دَارٍ مِّنْ سَخَطِ اللهِ، وَ اَبْعَدُهَا مِنْ رِّضْوَانِ اللهِ! فَغُضُّوْا عَنْکُمْ ـ عِبَادَاللهِ ـ غُمُوْمَهَا وَ اَشْغَالَهَا، لِمَا قَدْ اَیْقَنْتُمْ بِهٖ مِنْ فِرَاقِهَا وَ تَصَرُّفِ حَالَاتِهَا.

اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ تقویٰ ہی کل رستگاری (کا وسیلہ) اور نجات کی منزل دائمی ہو گا۔ اس نے اپنے عذاب سے ڈرایا تو سب کو خبردار کر دیا اور جنت کی رغبت دلائی تو اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا اور اس کے فنا و زوال اور اس کے پلٹ جانے کو کھول کر بیان کیا۔ جو چیزیں اس دنیا سے تمہیں اچھی معلوم ہوتی ہیں ان سے پہلو بچائے رکھو، کیونکہ ان میں سے ساتھ جانے والی تو بہت ہی تھوڑی ہیں۔ دنیا کی منزل اللہ کی ناراضگیوں سے قریب اور اس کی رضامندیوں سے دور ہے۔ اللہ کے بندو! اس کی فکروں اور اس کے دھندوں سے آنکھیں بند کر لو۔ اس لئے کہ تمہیں یقین ہے کہ آخر یہ جدا ہو جانے والی ہے اور اس کے حالات پلٹا کھانے والے ہیں۔

فَاحْذَرُوْهَا حَذَرَ الشَّفِیْقِ النَّاصِحِ، وَ الْمُجِدِّ الْکَادِحِ، وَ اعْتَبِرُوْا بِمَا قَدْ رَاَیْتُمْ مِّنْ مَّصَارِعِ الْقُرُوْنِ قَبْلَکُمْ: قَدْ تَزَایَلَتْ اَوْصَالُهُمْ، وَ زَالَتْ اَبْصَارُهُمْ وَ اَسْمَاعُهُمْ، وَ ذَهَبَ شَرَفُهُمْ وَ عِزُّهُمْ، وَ انْقَطَعَ سُرُوْرُهُمْ وَ نَعِیْمُهُمْ فَبُدِّلُوْا بِقُرْبِ الْاَوْلَادِ فَقْدَهَا، وَ بِصُحْبَةِ الْاَزْوَاجِ مُفَارَقَتَهَا. لَا یَتَفَاخَرُوْنَ، وَ لَا یَتَنَاسَلُوْنَ، وَ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، وَ لَا یَتَجَاوَرُوْنَ.

اس دنیا سے اس طرح خوف کھاؤ جس طرح کوئی ڈرنے والا اور اپنے نفس کا خیر خواہ اور جانفشانی کے ساتھ کوشش کرنے والا ڈرتا ہے۔ تم نے اپنے سے پہلے لوگوں کے جو گرنے کی جگہیں دیکھی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے جوڑ بند الگ الگ ہو گئے۔ نہ ان کی آنکھیں رہیں اور نہ کان۔ ان کا شرف و وقار مٹ گیا، ان کی مسرتیں اور نعمتیں جاتی رہیں اور بال بچوں کے قرب کے بجائے علیحدگی اور بیویوں سے ہم نشینی کے بجائے ان سے جدائی ہو گئی۔ اب نہ وہ فخر کرتے ہیں اور نہ ان کے اولاد ہوتی ہے، نہ ایک دوسرے سے ملتے ملاتے ہیں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے ہمسایہ بن کر رہتے ہیں۔

فَاحْذَرُوْا عِبَادَ اللهِ! حَذَرَ الْغَالِبِ لِنَفْسِهٖ، الْمَانِعِ لِشَهْوَتِهٖ، النَّاظِرِ بِعَقْلِهٖ فَاِنَّ الْاَمْرَ وَاضِحٌ، وَ الْعَلَمَ قَآئِمٌ، وَ الطَّرِیْقَ جَدَدٌ، وَ السَّبِیْلَ قَصْدٌ.

اے اللہ کے بندو! ڈرو جس طرح اپنے نفس پر قابو پا لینے والا اور اپنی خواہشوں کو دبانے والا اور چشم بصیرت سے دیکھنے والا ڈرتا ہے، کیونکہ (ہر) چیز واضح ہو چکی ہے۔ نشانات قائم ہیں، راستہ ہموار ہے اور راہ سیدھی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:22
عون نقوی

اَمْرُهٗ قَضَآءٌ وَّ حِکْمَةٌ، وَ رِضَاهُ اَمَانٌ وَ رَحْمَةٌ، یَقْضِیْ بِعِلْمٍ، وَ یَعْفُوْ بِحِلْمٍ.

اس کا حکم فیصلہ کن اور حکمت آمیز اور اس کی خوشنودی امان اور رحمت ہے۔ وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم سے عفو کرتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی مَا تَاْخُذُ وَ تُعْطِیْ، وَ عَلٰی مَا تُعَافِیْ وَ تَبْتَلِیْ،حَمْدًا یَّکُوْنُ اَرْضَی الْحَمْدِ لَکَ، وَ اَحَبَّ الْحَمْدِ اِلَیْکَ، وَ اَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَکَ، حَمْدًا یَّمْلَاُ مَا خَلَقْتَ، وَ یَبْلُغُ مَاۤ اَرَدْتَّ، حَمْدًا لَّا یُحْجَبُ عَنْکَ، وَ لَا یُقْصَرُ دُوْنَکَ، حَمْدًا لَّا یَنْقَطِعُ عَدَدُهٗ، وَ لَا یَفْنٰی مَدَدُهٗ.

بارالٰہا! تو جو کچھ (دے کر) لے لیتا ہے اور جو کچھ عطا کرتا ہے اور جن (مرضوں سے) شفا دیتا ہے اور جن آزمائشوں میں ڈالتا ہے (سب پر) تیرے لئے حمد و ثنا ہے، ایسی حمد جو انتہائی درجے تک تجھے پسند آئے اور انتہائی درجے تک تجھے محبوب ہو اور تیرے نزدیک ہر ستائش سے بڑھ چڑھ کر ہو، ایسی حمد جو کائنات کو بھر دے اور جو تو نے چاہا ہے اس کی حد تک پہنچ جائے، ایسی حمد کہ جس کے آگے تیری بارگاہ تک پہنچنے سے کوئی حجاب ہے اور نہ اس کیلئے کوئی بندش، ایسی حمد کہ جس کی گنتی نہ کہیں پر ٹوٹے اور نہ اس کا سلسلہ ختم ہو۔

فَلَسْنَا نَعْلَمُ کُنْهَ عَظَمَتِکَ اِلَّاۤ اَنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ حَیٌّ قَیُّوْمٌ، لَا تَاْخُذُکَ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ، لَمْ یَنْتَهِ اِلَیْکَ نَظَرٌ، وَ لَمْ یُدْرِکْکَ بَصَرٌ، اَدْرَکْتَ الْاَبْصَارَ، وَ اَحْصَیْتَ الْاَعْمَارَ، وَ اَخَذْتَ بِالنَّواصِیْ وَ الْاَقْدَامِ، وَ مَا الَّذِیْ نَرٰی مِنْ خَلْقِکَ، وَ نَعْجَبُ لَهٗ مِنْ قُدْرَتِکَ، وَ نَصِفُهٗ مِنْ عَظِیْمِ سُلْطَانِکَ، وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ، وَ قَصُرَتْ اَبْصَارُنَا عَنْهُ، وَ انْتَهَتْ عُقُوْلُنَا دُوْنَهٗ، وَ حَالَتْ سَوَاتِرُ الْغُیُوْبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗۤ اَعْظَمُ.

ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے، مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں، تو نے نظروں کو پا لیا ہے اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ تیری مخلوق کیا ہے جو ہم دیکھتے ہیں اور اس میں تیری قدرت (کی کارسازیوں) پر تعجب کرتے ہیں اور تیری عظیم فرمانروائی (کی کارفرمائیوں) پر اس کی توصیف کرتے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز اور عقلیں درماندہ ہیں اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے۔

فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَهٗ، وَ اَعْمَلَ فِکْرَهٗ، لِیَعْلَمَ کَیْفَ اَقَمْتَ عَرْشَکَ، وَ کَیْفَ ذَرَاْتَ خَلْقَکَ، وَ کَیْفَ عَلَّقْتَ فِی الْهَوَآءِ سَمٰوٰتِکَ، وَ کَیْفَ مَدَدْتَ عَلٰی مَوْرِ الْمَآءِ اَرْضَکَ، رَجَعَ طَرْفُهٗ حَسِیْرًا، وَ عَقْلُهٗ مَبْهُوْرًا، وَ سَمْعُهٗ وَالِهًا، وَ فِکْرُهٗ حَآئِرًا.

جو شخص (وسوسوں سے) اپنے دل کو خالی کرکے اور غور و فکر (کی قوتوں) سے کام لے کر یہ جاننا چاہے کہ تو نے کیونکر عرش کو قائم کیا ہے اور کس طرح مخلوقات کو پیدا کیا ہے اور کیونکر آسمانوں کو فضا میں لٹکایا ہے اور کس طرح پانی کے تھپیڑوں پر زمین کو بچھایا ہے تو اس کی آنکھیں تھک کر اور عقل مغلوب ہو کر اور کان حیران و سراسیمہ اور فکر گم گشتہ راہ ہو کر پلٹ آئے گی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

یَدَّعِیْ بِزَعْمِهٖۤ اَنَّهٗ یَرْجُو اللهَ، کَذَبَ وَ الْعَظِیْمِ! مَا بَالُهٗ لَا یَتَبَیَّنُ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلَهٖ؟ فَکُلُّ مَنْ رَّجَا عُرِفَ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلِهٖ، وَ کُلُّ رَجَآءٍ ـ اِلَّا رَجَآءَ اللهِ تَعَالٰی ـ فَاِنَّهٗ مَدْخُوْلٌ، وَ کُلُّ خَوْفٍ مُّحَقَّقٌ، اِلَّا خَوْفَ اللهِ فَاِنَّهٗ مَعْلُوْلٌ، یَرْجُو اللهَ فِی الْکَبِیْرِ، وَ یَرْجُو الْعِبَادَ فِی الصَّغِیْرِ، فَیُعْطِی الْعَبْدَ مَا لَا یُعْطِی الرَّبَّ! فَمَا بَالُ اللهِ جَلَّ ثَنَآؤُهٗ یُقَصَّرُ بِهٖ عَمَّا یُصْنَعُ بِهٖ لِعِبَادِهٖ؟

وہ اپنے خیال میں اس کا دعویدار بنتا ہے کہ اس کا دامنِ امید اللہ سے وابستہ ہے۔ خدائے برتر کی قسم! وہ جھوٹا ہے۔ (اگر ایسا ہی ہے) تو پھرکیوں اس کے اعمال میں اس امید کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی، جبکہ ہر امیدوار کے کاموں میں امید کی پہچان ہو جایا کرتی ہے، سوائے اس امید کے کہ جو اللہ سے لگائی جائے کہ اس میں کھوٹ پایا جاتا ہے اور ہر خوف و ہراس جو (دوسروں سے ہو) ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے مگر اللہ کا خوف غیر یقینی سا ہے۔ وہ اللہ سے بڑی چیزوں کا اور بندوں سے چھوٹی چیزوں کا امیدوار ہوتا ہے۔ پھر بھی جو عاجزی کا رویہ بندوں سے رکھتا ہے وہ رویہ اللہ سے نہیں برتتا تو آخر کیا بات ہے کہ اللہ کے حق میں اتنا بھی نہیں کیا جاتا جتنا بندوں کیلئے کیا جاتا ہے۔

اَ تَخَافُ اَنْ تَکُوْنَ فِیْ رَجَآئِکَ لَهٗ کَاذِبًا؟ اَوْ تَکُوْنَ لَا تَرَاهُ لِلرَّجَآءِ مَوْضِعًا؟ وَکَذٰلِکَ اِنْ هُوَ خَافَ عَبْدًا مِّنْ عَبِیْدِهٖ، اَعْطَاهُ مِنْ خَوْفِهٖ مَا لَا یُعْطِیْ رَبَّهٗ، فَجَعَلَ خَوْفَهٗ مِنَ الْعِبَادِ نَقْدًا، وَ خَوْفَهٗ مِنْ خَالِقِهٖ ضِمَارًا وَّ وَعْدًا، وَ کَذٰلِکَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِهٖ، وَ کَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِهٖ، اٰثَرَهَا عَلَی اللهِ تَعَالٰی، فَانْقَطَعَ اِلَیْهَا، وَ صَارَ عَبْدًا لَّهَا.

کیا تمہیں کبھی اس کا بھی اندیشہ ہوا ہے کہ کہیں تم ان امیدوں (کے دعووں) میں جھوٹے تو نہیں؟ یا یہ کہ تم اسے محل امید ہی نہیں سمجھتے۔ یوں ہی انسان اگر اس کے بندوں میں سے کسی بندے سے ڈرتا ہے تو جو خوف کی صورت اس کیلئے اختیار کرتا ہے اللہ کیلئے ویسی صورت اختیار نہیں کرتا۔ انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے اور اللہ کا ڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدے۔ یوں ہی جس کی نظروں میں دنیا عظمت پا لیتی ہے اور اس کے دل میں اس کی عظمت و وقعت بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے اللہ پر ترجیح دیتا ہے اور اس کی طرف مڑتا ہے اور اسی کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ کَافٍ لَّکَ فِی الْاُسْوَةِ، وَ دَلِیْلٌ لَّکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا، وَ کَثْرَةِ مَخَازِیْهَا وَ مَسَاوِیْهَا، اِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ اَطْرَافُهَا، وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِهٖ اَکْنَافُهَا، وَ فُطِمَ عَنْ رَّضَاعِهَا، وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل پیروی کیلئے کافی ہے اور ان کی ذات دنیا کے عیب و نقص اور اس کی رسوائیوں اور برائیوں کی کثرت دکھانے کیلئے رہنما ہے۔ اس لئے کہ اس دنیا کے دامنوں کو ان سے سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کیلئے اس کی وسعتیں مہیا کر دی گئیں اور اس (زالِ دنیا کی چھاتیوں سے) آپؐ کا دودھ چھڑا دیا گیا اور اس کی آرائشوں سے آپؐ کا رخ موڑ دیا گیا۔

وَ اِنْ شِئْتَ ثَنَّیْتُ بِمُوْسٰی کَلِیْمِ اللهِ ؑ اِذْ یَقُوْلُ: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۝﴾، وَاللهِ١ مَا سَئَلَهٗۤ اِلَّا خُبْزًا یَّاْکُلُهٗ، لِاَنَّهٗ کَانَ یَاْکُلُ بَقْلَةَ الْاَرْضِ، وَلَقَدْ کَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرٰی مِنْ شَفِیْفِ صِفَاقِ بَطْنِهٖ، لِهُزَالِهٖ وَ تَشَذُّبِ لَحْمِهٖ.

اگر دوسرا نمونہ چاہو تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے اپنے اللہ سے کہا کہ: ’’پروردگار! تو جو کچھ بھی اس وقت تھوڑی بہت نعمت بھیج دے گا میں اسی کا محتاج ہوں‘‘۔ خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کیلئے روٹی کا سوال کیا تھا۔ چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی۔

وَ اِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوٗدَ ؑ صَاحِبِ الْمَزَامِیْرِ، وَ قَارِئِ اَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلَقَدْ کَانَ یَعْمَلُ سَفَآئِفَ الْخُوْصِ بِیَدِهٖ، وَ یَقُوْلُ لِجُلَسَآئِهٖ: اَیُّکُمْ یَکْفِیْنِیْ بَیْعَهَا! وَ یَاْکُلُ قُرْصَ الشَّعِیْرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

اگر چاہو تو تیسری مثال داؤد علیہ السلام کی سامنے رکھ لو جو صاحب زبور اور اہل جنت کے قاری ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کی پتیوں کی ٹوکریاں بُنا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ: تم میں سے کون ہے جو انہیں بیچ کر میری دستگیری کرے۔ (پھر) جو اس کی قیمت ملتی اس سے جو کی روٹی کھا لیتے تھے۔

وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ؑ، فَلَقَدْ کَانَ یَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ، وَ یَلْبَسُ الْخَشِنَ، وَ کَانَ اِدَامُهُ الْجُوْعَ، وَ سِرَاجُهٗ بِاللَّیْلِ الْقَمَرَ، وَ ظِلَالُهٗ فِی الشِّتَآءِ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا، وَ فَاکِهَتُهٗ وَ رَیْحَانُهٗ مَا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ لِلْبَهَآئِمِ، وَ لَمْ تَکُنْ لَّهٗ زَوْجَةٌ تَفْتِنُهٗ، وَ لَا وَلَدٌ یَّحْزُنُهٗ، وَ لَا مَالٌ یَّلْفِتُهٗ، وَ لَا طَمَعٌ یُّذِلُّهٗ، دَآبَّتُهٗ رِجْلَاهُ، وَ خَادِمُهٗ یَدَاهُ!.

اگر چاہو تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا حال کہوں کہ جو (سر کے نیچے) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے سخت اور کھردرا لباس پہنتے تھے اور (کھانے) میں سالن کے بجائے بھوک اور رات کے چراغ کی جگہ چاند اور سردیوں میں سایہ کے بجائے (ان کے سر پر) زمین کے مشرق و مغرب کا سائبان ہوتا تھا اور زمین جو گھاس پھوس چوپاؤں کیلئے اُگاتی تھی، وہ ان کیلئے پھل پھول کی جگہ تھی، نہ ان کی بیوی تھیں جو انہیں دنیا (کے جھنجٹوں) میں مبتلا کرتیں اور نہ بال بچے تھے کہ ان کیلئے فکر و اندوہ کا سبب بنتے اور نہ مال و متاع تھا کہ ان کی توجہ کو موڑتا اور نہ کوئی طمع تھی کہ انہیں رسوا کرتی۔ ان کی سواری ان کے دونوں پاؤں اور خادم ان کے دونوں ہاتھ تھے۔

فَتَاَسَّ بِنَبِیِّکَ الْاَطْیَبِ الْاَطْهَرِ- ﷺ، فَاِنَّ فِیْهِ اُسْوَةً لِّمَنْ تَاَسّٰی، وَ عَزَآءً لِّمَنْ تَعَزّٰی ــ وَ اَحَبُّ الْعِبَادِ اِلَی اللهِ الْمُتَاَسِّیْ بِنَبِیِّهٖ، وَ الْمُقْتَصُّ لِاَثَرِهٖ ـ قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْمًا، وَ لَمْ یُعِرْهَا طَرْفًا، اَهْضَمُ اَهْلِ الدُّنْیَا کَشْحًا، وَ اَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْنًا، عُرِضَتْ عَلَیْهِ الدُّنْیَا فَاَبٰی اَنْ یَّقْبَلَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗۤ اَبْغَضَ شَیْئًا فَاَبْغَضَهٗ، وَ حَقَّرَ شَیْئًا فَحَقَّرَهٗ، وَ صَغَّرَ شَیْئًا فَصَغَّرَهٗ. وَلَوْ لَمْ یَکُنْ فِینَاۤ اِلَّا حُبُّنَا مَاۤ اَبْغَضَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ تَعْظِیْمُنَا مَا صَغَّرَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، لَکَفٰی بِهٖ شِقَاقًا لِلّٰهِ، وَ مُحَادَّةً عَنْ اَمْرِ اللهِ.

تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو، چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کیلئے نمونہ اور صبر کرنے والے کیلئے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بسر کرنے والے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپؐ نے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپؐ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپؐ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسولؐ برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ- ﷺ یَاْکُلُ عَلَی الْاَرْضِ، وَ یَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ، وَ یَخْصِفُ بِیَدِهٖ نَعْلَهٗ، وَ یَرْقَعُ بِیَدِهٖ ثَوْبَهٗ، وَ یَرْکَبُ الْحِمَارَ الْعَارِیَ، وَ یُرْدِفُ خَلْفَهٗ، وَ یَکُوْنُ السِّتْرُ عَلٰی بَابِ بَیْتِهٖ فَتَکُوْنُ فِیْهِ التَّصَاوِیْرُ فَیَقُوْلُ: «یَا فُلَانَةُ! ـ لِاِحْدٰۤی اَزْوَاجِهٖ ـ غَیِّبِیْهِ عَنِّیْ، فَاِنِّیْۤ اِذَا نَظَرْتُ اِلَیْهِ ذَکَرْتُ الدُّنْیَا وَ زَخَارِفَهَا».

رسول اللہ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے، اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔ گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپؐ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آ جاتی ہیں۔

فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِکَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، وَ لَا یَعْتَقِدَهَا قَرَارًا، وَ لَا یَرْجُوْ فِیْهَا مُقَامًا، فَاَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ، وَ اَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ، وَ غَیَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ. وَ کَذٰلِکَ مَنْ اَبْغَضَ شَیْئًا اَبْغَضَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَیْهِ، وَ اَنْ یُّذْکَرَ عِنْدَهٗ.

آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا۔ یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مَا یَدُلُّکَ عَلٰی مَسَاوِی الدُّنْیَا وَ عُیُوْبِهَا: اِذْ جَاعَ فِیْهَا مَعَ خَاصَّتِهٖ، وَ زُوِیَتْ عَنْهُ زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِیْمِ زُلْفَتِهٖ.

رسول اللہ ﷺ (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی، جبکہ آپؐ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے اور باوجود انتہائی قربِ منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں۔

فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌۢ بِعَقْلِهٖ: اَکْرَمَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِذٰلِکَ اَمْ اَهَانَهٗ؟! فَاِنْ قَالَ: اَهَانَهٗ، فَقَدْ کَذَبَ وَ اَتٰى بِالْاِفْکِ الْعَظِیْمِ، وَ اِنْ قَالَ: اَکْرَمَهٗ، فَلْیَعْلَمْ اَنَّ اللهَ قَدْ اَهَانَ غَیْرَهٗ حَیْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهٗ، وَ زَوَاهَا عَنْ اَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ.

چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور بہت بڑا بہتان باندھا اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا۔

فَتَاَسّٰی مُتَاَسٍّۭ بِنَبِیِّهٖ، وَ اقْتَصَّ اَثَرَهٗ، وَ وَلَجَ مَوْلِجَهٗ، وَ اِلَّا فَلَا یَاْمَنِ الْهَلَکَةَ، فَاِنَّ اللهَ جَعَلَ مُحَمَّدًا -ﷺ عَلَمًا لِلسَّاعَةِ، وَ مُبَشِّرًۢا بِالْجَنَّةِ، وَ مُنْذِرًۢا بِالْعُقُوْبَةِ. خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیْصًا، وَ وَرَدَ الْاٰخِرَةَ سَلِیْمًا، لَمْ یَضَعْ حَجَرًا عَلٰی حَجَرٍ، حَتّٰی مَضٰی لِسَبِیْلِهٖ، وَ اَجَابَ دَاعِیَ رَبِّهٖ.

پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے اور ان کے نشان قدم پر چلے اور انہی کی منزل میں آئے ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا، کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے۔ دنیا سے آپؐ بھوکے نکل کھڑے ہوئے اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ آپؐ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا، یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی۔

فَمَاۤ اَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا حِیْنَ اَنْعَمَ عَلَیْنَا بِهٖ سَلَفًا نَتَّبِعُهٗ، وَ قَآئِدًا نَّطَاُ عَقِبَهٗ! وَاللهِ! لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِیْ هٰذِهٖ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَّاقِعِهَا، وَ لَقَدْ قَالَ لِیْ قَآئِلٌ: اَلَا تَنْبِذُهَا عَنْکَ؟ فَقُلْتُ: اغْرُبْ عَنِّیْ، فَعِنْدَ الصَّبَاحِ یَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرٰی!.

یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ (انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم! میں نے اپنی اس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپؑ اسے اتاریں گے نہیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ: میری (نظروں سے) دور ہو کہ صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس کی مدح کرتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:20
عون نقوی

وَ لَقَدْ اَحْسَنْتُ جِوَارَکُمْ، وَ اَحَطْتُ بِجُهْدِی مِنْ وَّرَآئِکُمْ، وَ اَعْتَقْتُکُمْ مِنْ رِّبَقِ الذُّلِّ، وَ حَلَقِ الضَّیْمِ، شُکْرًا مِّنِّیْ لِلْبِرِّ الْقَلِیْلِ، وَ اِطْرَاقًا عَمَّاۤ اَدْرَکَهُ الْبَصَرُ، وَ شَهِدَهُ الْبَدَنُ، مِنَ الْمُنْکَرِ الْکَثِیْرِ.

میں تمہارا اچھا ہمسایہ بن کر رہا اور اپنی طاقت بھر تمہاری نگہداشت و حفاظت کرتا رہا اور تمہیں ذلت کے پھندوں اور ظلم کے بندھنوں سے آزاد کیا۔ (یہ صرف) تمہاری تھوڑی سی بھلائی کا شکریہ ادا کرنے اور تمہاری بہت سی ایسی برائیوں سے چشم پوشی برتنے کیلئے کہ جو میری آنکھوں کے سامنے اور میری موجودگی میں ہوتی تھیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:15
عون نقوی

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ طُوْلِ هَجْعَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ، وَ انْتِقَاضٍ مِّنَ الْمُبْرَمِ، فَجَآءَهُمْ بِتَصْدِیْقِ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهٖ، وَ النُّوْرِ الْمُقْتَدٰی بِهٖ. ذٰلِکَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَنْطِقُوْهُ، وَ لَنْ یَّنْطِقَ، وَ لٰکِنْ اُخْبِرُکُمْ عَنْهُ: اَلَا اِنَّ فِیْهِ عِلْمَ مَا یَاْتِیْ، وَ الْحَدِیْثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَآءَ دَآئِکُمْ، وَ نَظْمَ مَا بَیْنَکُمْ.

(اللہ نے) آپؐ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جب کہ رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور اُمتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور (دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپؐ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق (کرنے والی کتاب) اور ایک ایسا نور لے کر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ اس کتاب سے پوچھو لیکن یہ بولے گی نہیں، البتہ میں تمہیں اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات، گزشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَعِنْدَ ذٰلِکَ لَا یَبْقٰی بَیْتُ مَدَرٍ وَّ لَا وَبَرٍ اِلَّا وَ اَدْخَلَهُ الظَّلَمَةُ تَرْحَةً، وَ اَوْلَجُوْا فِیْهِ نِقْمَةً، فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَبْقٰی لَکُمْ فِی السَّمَآءِ عَاذِرٌ، وَ لَا فِی الْاَرْضِ نَاصِرٌ.

اس وقت کوئی پختہ گھر اور کوئی اونی خیمہ ایسا نہ بچے گا کہ جس میں ظالم غم و حزن کو داخل نہ کریں اور سختیوں کو اس کے اندر نہ پہنچائیں۔ وہ دن ایسا ہو گا کہ آسمان میں تمہارا کوئی عذر خواہ اور زمین میں کوئی تمہارا مدد گار نہ رہے گا۔

اَصْفَیْتُمْ بِالْاَمْرِ غَیْرَ اَهْلِهِ، وَ اَوْرَدْتُّمُوْهُ غَیْرَ مَوْرِدِهٖ، وَ سَیَنْتَقِمُ اللهُ مِمَّنْ ظَلَمَ، مَاْکَلًۢا بِمَاْکَلٍ، وَ مَشْرَبًۢا بِمَشْرَبٍ، مِنْ مَّطَاعِمِ الْعَلْقَمِ، وَ مَشَارِبِ الصَّبِرِ وَ الْمَقِرِ، وَ لِبَاسِ شِعَارِ الْخَوْفِ، وَ دِثَارِ السَّیْفِ. وَ اِنَّمَا هُمْ مَطَایَا الْخَطِیْٓئَاتِ وَ زَوَامِلُ الْاٰثَامِ.

تم نے امر (خلافت) کیلئے نااہلوں کو چن لیا اور ایسی جگہ پر سے لا اتارا کہ جو اس کے اترنے کی جگہ نہ تھی۔ عنقریب اللہ ظلم ڈھانے والوں سے بدلہ لے گا۔ کھانے کے بدلے میں کھانے کا اور پینے کے بدلے میں پینے کا۔ یوں کہ انہیں کھانے کیلئے حنظل اور پینے کیلئے ایلوا اور زہر ہلا ہل دیا جائے گا اور ان کا اندرونی لباس خوف اور بیرونی پہناوا تلوار ہو گا۔ وہ گناہوں کی سواریاں اور خطاؤں کے بار بردار اونٹ ہیں۔

فَاُقْسِمُ، ثُمَّ اُقْسِمُ، لَتَنْخَمَنَّهَا اُمَیَّةُ مِنْۢ بَعْدِیْ کَمَا تُلْفَظُ النُّخَامَةُ، ثُمَّ لَا تَذُوْقُهَا وَ لَا تَتَطَعَّمُ بِطَعْمِهَاۤ اَبَدًا مَّا کَرَّ الْجَدِیْدَانِ!.

میں قسم پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے بعد بنی امیہ کو یہ خلافت اس طرح تھوک دینا پڑے گی جس طرح بلغم تھوکا جاتا ہے۔ پھر جب تک دن رات کا چکر چلتا رہے گا وہ اس کا ذائقہ نہ چکھیں گے اور نہ اس کا مزا اٹھا سکیں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:14
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَ الْحَمْدَ مِفْتَاحًا لِّذِکْرِهٖ، وَ سَبَبًا لِّلْمَزِیْدِ مِنْ فَضْلِهٖ، وَ دَلِیْلًا عَلٰۤی اٰلَآئِهٖ وَ عَظَمَتِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس نے حمد کو اپنے ذکر کا افتتاحیہ، اپنے فضل و احسان کے بڑھانے کا ذریعہ اور اپنی نعمتوں اور عظمتوں کا دلیل راہ قرار دیا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ الدَّهْرَ یَجْرِیْ بِالْبَاقِیْنَ کَجَرْیِهٖ بِالْمَاضِیْنَ، لَا یَعُوْدُ مَا قَدْ وَلّٰی مِنْهُ، وَ لَا یَبْقٰی سَرْمَدًا مَّا فِیْهِ. اٰخِرُ فِعَالِهٖ کَاَوَّلِهٖ، مُتَسَابِقَةٌ اُمُوْرُهٗ، مُتَظَاهِرَةٌ اَعْلَامُهٗ. فَکَاَنَّکُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوْکُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِهٖ، فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَهٗ بِغَیْرِ نَفْسِهٖ تَحَیَّرَ فِی الظُّلُمٰتِ، وَ ارْتَبَکَ فِی الْهَلَکَاتِ، وَ مَدَّتْ بِهٖ شَیَاطِیْنُهٗ فِیْ طُغْیَانِهٖ، وَ زَیَّنَتْ لَهٗ سَیِّئَ اَعْمَالِهٖ، فَالْجَنَّةُ غَایَةُ السَّابِقِیْنَ، وَ النَّارُ غَایَةُ الْمُفَرِّطِیْنَ.

اے اللہ کے بندو! باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ بھی زمانہ کی وہی روش رہے گی جو گزر جانے والوں کے ساتھ تھی۔ جتنا زمانہ گزر چکا ہے وہ پلٹ کر نہیں آئے گا اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ آخر میں بھی اس کی کارگزاریاں وہی ہوں گی جو پہلے رہ چکی ہیں۔ اس کی مصیبتیں ایک دوسرے سے بڑھ جانا چاہتی ہیں اور اس کے جھنڈے ایک دوسرے کے عقب میں ہیں۔ گویا تم قیامت کے دامن سے وابستہ ہو کہ وہ تمہیں دھکیل کر اس طرح لئے جا رہی ہے جس طرح للکارنے والا اپنی اونٹنیوں کو۔ جو شخص اپنے نفس کو سنوارنے کے بجائے اور چیزوں میں پڑ جاتا ہے وہ تیرگیوں میں سرگرداں اور ہلاکتوں میں پھنسا رہتا ہے اور شیاطین اسے سرکشیوں میں کھینچ کر لے جاتے ہیں اور اس کی بداعمالیوں کو اس کے سامنے سجا دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے والوں کی آخری منزل جنت ہے اور عمداً کوتاہیاں کرنے والوں کی حد جہنم ہے۔

اِعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ التَّقْوٰی دَارُ حِصْنٍ عَزِیْزٍ، وَ الْفُجُوْرَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِیْلٍ، لَا یَمْنَعُ اَهْلَهٗ، وَ لَا یُحْرِزُ مَنْ لَّجَاَ اِلَیْهِ. اَلَا وَ بِالتَّقْوٰی تُقْطَعُ حُمَةُ الْخَطَایَا، وَ بِالْیَقِیْنِ تُدْرَکُ الْغَایَةُ الْقُصْوٰی.

اللہ کے بندو! یاد رکھو کہ تقویٰ ایک مضبوط قلعہ ہے اور فسق و فجور ایک (کمزور) چار دیواری ہے کہ جو نہ اپنے رہنے والوں سے تباہیوں کو روک سکتی ہے اور نہ ان کی حفاظت کرسکتی ہے۔ دیکھو! تقویٰ ہی وہ چیز ہے کہ جس سے گناہوں کا ڈنک کاٹا جاتا ہے اور یقین ہی سے منتہائے مقصد کی کامرانیاں حاصل ہوتی ہیں۔

عِبَادَ اللهِ! اَللهَ اَللهَ فِیْۤ اَعَزِّ الْاَنْفُسِ عَلَیْکُمْ، وَ اَحَبِّهَاۤ اِلَیْکُمْ، فَاِنَّ اللهَ قَدْ اَوْضَحَ لَکُمْ سَبِیْلَ الْحَقِّ وَ اَنَارَ طُرُقَهٗ، فَشِقْوَةٌ لَازِمَةٌ، اَوْ سَعَادَةٌ دَآئِمَةٌ! فَتَزَوَّدُوْا فِیْۤ اَیَّامِ الْفَنَآءِ لِاَیَّامِ الْبَقَآءِ. قَدْ دُلِلْتُمْ عَلَی الزَّادِ، وَ اُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ، وَ حُثِثْتُمْ عَلَی الْمَسِیْرِ، فَاِنَّمَاۤ اَنْتُمْ کَرَکْبٍ وُّقُوفٍ، لَا تَدْرُوْنَ مَتٰی تُؤْمَرُوْنَ بِالسَّیْرِ، اَلَا فَمَا یَصْنَعُ بِالدُّنْیَا مَنْ خُلِقَ لِلْاٰخِرَةِ! وَ مَا یَصْنَعُ بِالْمَالِ مَنْ عَمَّا قَلِیْلٍ یُّسْلَبُهٗ، وَ تَبْقٰی عَلَیْهِ تَبِعَتُهٗ وَ حِسَابُهٗ!.

اے اللہ کے بندو! اپنے نفس کے بارے میں کہ جو تمہیں تمام نفسوں سے زیادہ عزیز و محبوب ہے اللہ سے ڈرو۔ اس نے تو تمہارے لئے حق کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کی راہیں اجاگر کر دی ہیں۔ اب یا تو انمٹ بدبختی ہو گی یا دائمی خوش بختی و سعادت۔ دار فانی سے عالم باقی کیلئے توشہ مہیا کر لو۔ تمہیں زادِ راہ کا پتہ دیا جا چکا ہے اور کوچ کا حکم مل چکا ہے اور چل چلاؤ کیلئے جلدی مچائی جا رہی ہے۔ تم ٹھہرے ہوئے سواروں کے مانند ہو کہ تمہیں یہ پتہ نہیں کہ کب روانگی کا حکم دیا جائے گا۔ بھلا وہ دنیا کو لے کر کیا کرے گا جو آخرت کیلئے پیدا کیا گیا ہو اور اس مال کا کیا کرے گا جو عنقریب اس سے چھن جانے والا ہے اور اس کا مظلمہ و حساب اس کے ذمہ رہنے والا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّهٗ لَیْسَ لِمَا وَعَدَ اللهُ مِنَ الْخَیْرِ مَتْرَکٌ، وَ لَا فِیْمَا نَهٰی عَنْهُ مِنَ الشَّرِّ مَرْغَبٌ.

اللہ کے بندو! خدا نے جس بھلائی کا وعدہ کیا ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا اور جس برائی سے روکا ہے اس کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔

عِبَادَ اللهِ! احْذَرُوْا یَوْمًا تُفْحَصُ فِیْهِ الْاَعْمَالُ، وَ یَکْثُرُ فِیْهِ الزِّلْزَالُ، وَ تَشِیْبُ فِیْهِ الْاَطْفَالُ.

اللہ کے بندو! اس دن سے ڈرو کہ جس میں عملوں کی جانچ پڑتال اور زلزلوں کی بہتات ہو گی اور بچے تک اس میں بوڑھے ہو جائیں گے۔

اِعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ عَلَیْکُمْ رَصَدًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ، وَ عُیُوْنًا مِّنْ جَوَارِحِکُمْ، وَ حُفَّاظَ صِدْقٍ یَّحْفَظُوْنَ اَعْمَالَکُمْ، وَ عَدَدَ اَنْفَاسِکُمْ، لَا تَسْتُرُکُمْ مِنْهُمْ ظُلْمَةُ لَیْلٍ دَاجٍ، وَ لَا یُکِنُّکُمْ مِنْهُمْ بَابٌ ذُوْ رِتَاجٍ. وَ اِنَّ غَدًا مِّنَ الْیَوْمِ قَرِیْبٌ، یَذْهَبُ الْیَوْمُ بِمَا فِیْهِ، وَ یَجِیْٓءُ الْغَدُ لَاحِقًۢا بِهٖ.

اے اللہ کے بندو! یقین رکھو کہ خود تمہارا ضمیر تمہارا نگہبان اور خود تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے نگران ہیں اور تمہارے عملوں اور سانسوں کی گنتی کو صحیح صحیح یاد رکھنے والے (کراماً کاتبین) ہیں۔ ان سے نہ اندھیری رات کی اندھیاریاں تمہیں چھپا سکتی ہیں اور نہ بند دروازے تمہیں اوجھل رکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ آنے والا ’’کل‘‘ آج کے دن سے قریب ہے۔ ’’آج کا دن‘‘ اپنا سب کچھ لے کر چلا جائے گا اور ’’کل‘‘ اس کے عقب میں آیا ہی چاہتا ہے۔

فَکَاَنَّ کُلَّ امْرِئٍ مِّنْکُمْ قَدْ بَلَغَ مِنَ الْاَرْضِ مَنْزِلَ وَحْدَتِهٖ، وَ مَخَطَّ حُفْرَتِهٖ، فَیَالَهٗ مِنْۢ بَیْتِ وَحْدَةٍ، وَ مَنْزِلِ وَحْشَةٍ، وَ مُفْرَدِ غُرْبَةٍ! وَ کَاَنَّ الصَّیْحَةَ قَدْ اَتَتْکُمْ، وَ السَّاعَةَ قَدْ غَشِیَتْکُمْ، وَ بَرَزْتُمْ لِفَصْلِ الْقَضَآءِ، قَدْ زَاحَتْ عَنْکُمُ الْاَبَاطِیْلُ، وَ اضْمَحَلَّتْ عَنْکُمُ الْعِلَلُ، وَ اسْتَحَقَّتْ بِکُمُ الْحَقَآئِقُ، وَ صَدَرَتْ بِکُمُ الْاُمُوْرُ مَصَادِرَهَا، فَاتَّعِظُوْا بِالْعِبَرِ، وَ اعْتَبِرُوْا بِالْغِیَرِ، وَ انْتَفِعُوْا بِالنُّذُرِ.

گویا تم میں سے ہر شخص زمین کے اس حصہ پر کہ جہاں تنہائی کی منزل اور گڑھے کا نشان (قبر) ہے پہنچ چکا ہے۔ اس تنہائی کے گھر، وحشت کی منزل اور مسافرت کے عالم تنہائی (کی ہولناکیوں) کا کیا حال بیان کیا جائے۔ گویا کہ صُور کی آواز تم تک پہنچ چکی ہے اور قیامت تم پر چھا گئی ہے اور آخری فیصلہ سننے کیلئے تم (قبروں سے) نکل آئے ہو، باطل کے پردے تمہارى آنکھوں سے ہٹا دئیے گئے ہیں اور تمہارے حیلے بہانے دب چکے ہیں اور حقیقتیں تمہارے لئے ثابت ہو گئی ہیں اور تمام چیزیں اپنے اپنے مقام کی طرف پلٹ پڑی ہیں۔ عبرتوں سے پند و نصیحت اور زمانہ کے الٹ پھیر سے عبرت حاصل کرو اور ڈرانے والی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:45
عون نقوی